سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ ششم)

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا و اجداد

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ ششم)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ

[پیدائش: اندازاً 1791ء وفات: جون 1876ء]

جرمانہ بلا طلب مسل معاف ہوگیا

آپ کے رعب اور عزت وتکریم کا ایک اورنظارہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ایک موقعہ پر ڈیوس صاحب اس ضلع گورداسپور میں مہتمم بندوبست تھے۔ بٹالہ میں جہاں انار کلی واقع ہےان کا عملہ کام کرتا تھا۔ قادیان کا ایک برہمن جو محکمہ بندوبست میں معمولی ملازم تھامرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ جو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے بڑے بیٹے تھے۔ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا۔مرزا غلام قادر صاحب جو بڑے قوی ہیکل اور سپاہیانہ رنگ کے نوجوان تھے…گستاخانہ لہجہ کو برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے وہیں اس گستاخ زبان دراز کو سیدھا کر دیا۔معاملہ بڑھ گیا۔اور ڈیوس صاحب نے ان پر ایک سو روپیہ جرمانہ کردیا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب امرتسر میں تھے۔وہ فوراً ڈیوس صاحب کے پاس گئے۔اور ان کو اس واقعہ سے اطلاع دی۔انہوں نے جناب مرزا صاحب کی دلجوئی اور اس خاندان کے اعزاز کو قائم رکھنے کے لئے بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا‘‘

(حیات احمد، جلد اول صفحہ60)

یہ واقعہ اس امر کی غمازی بھی کرتاہے کہ آپ کو اپنی اولاد کی عزت نفس اور خاندانی وجاہت کا خیال بھی تھااسی لئے آپ فوری طورپر انگریز افسر کے پاس گئے۔اس کے ساتھ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنی اولاد سے محبت تو کرتے تھے لیکن آنکھیں بند کرکے ایسی محبت کرنا کہ اولاد بگڑجائے جیساکہ نوابوں اورریاستوں کے شہزادے بگڑجایاکرتے تھے ایسا بھی نہ تھا۔

اولاد سے محبت اور تربیت

اولاد سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے ہم مندرجہ بالا مضمون کے تسلسل کو بحال رکھتے ہوئے پہلے ایک ایسے ہی واقعہ کا ذکر کریں گے کہ جس سے یہ عیاں ہوتاہے کہ آپ اپنی اولادسے ایسی محبت رکھتے تھے جو انہیں ایک فرض شناس،مؤدب اور خوددار انسان بنائے۔اس ضمن میں ایک واقعہ ہم پڑھتے ہیں جسے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ نے اس طرح بیان کیا ہے:

’’مرزا غلام قادر صاحب محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور ضلع گورداسپور میں نسبٹ (NISBAT) صاحب ڈپٹی کمشنر تھے۔ ایک مرتبہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں معطل کر دیا۔اور پھرجب وہ قادیان آیا اور حضرت مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ تو خود نسبٹ صاحب نے کہا۔کہ میں نے غلام قادر کو معطل کر دیا ہے۔اس پر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے جو جواب دیا۔وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اور نسبٹ صاحب نے جو اس کی قدر کی۔وہ دنیا میں ہمیشہ واجب العزت رہے گی۔ مرزا صاحب نے فرمایا۔اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہیے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں۔ ڈپٹی کمشنر نے یہ سن کر مسل میں لکھ دیا کہ ’’جس کا باپ ایسا ادب دینے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں‘‘

(حیات احمد۔ جلداول ص 61)

حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب خود ایک عالم اور علم سے محبت رکھنے والے انسان تھے اور اپنی اولادکو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کرنے کا ازحدخیال تھا۔اسی لیے آپ نے مختلف علاقوں کے بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا اور بھاری معاوضہ دے کر قادیان بلایا کہ وہ یہاں رہ کر ان کو تعلیم دے سکیں۔مختلف مضامین پڑھانے کے لئے وقتاً فوقتاً تین اساتذہ [محترم فضل الٰہی صاحب،محترم فضل احمد صاحب اور محترم گل علی شاہ صاحب] قادیان میں رہ کر آپ کے صاحبزادگان کو پڑھاتے رہے۔

اولاد سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بڑے بیٹے صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب تو حسب منشائے والد بزرگوار خوب دنیاداری کے کاموں میں مصروف ہوگئے اوردنیاوی عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن آپ کے چھوٹے صاحبزادے یعنی حضرت اقدس علیہ السلام چونکہ اس دنیاداری کے لئے پیداہی نہیں ہوئے تھے،آپؑ کامربی ورہنما تو خود خدا تھا اوراسی کی رہنمائی کے تابع آپؑ کا رجحان شروع سے ہی قرآن کریم اورمذہبی کتب کے مطالعہ اور عبادت کرنے کے سوااورکوئی تھا ہی نہیں اس لئے آپ کے والد ماجد اپنے اس بیٹے کے لئے زیادہ فکرمند رہتے تھے۔ کبھی یہ فکر اور غم کہ یہ بیٹا پڑھتا بہت ہے نصیحت کرتے کہ تھوڑا پڑھاکریں کہیں صحت پر برااثر نہ پڑے اور کبھی یہ فکر کہ کمائے گا کہاں سے اورکھائے گاکہاں سے۔اس لئے ملازمت کی ترغیب وتحریض دلانے میں بھی کوشاں رہتے۔ چونکہ حضرت اقدسؑ ایک عبادت گزار فرزند تھے اس لئے آپ کے والد بزرگوار کو آپ سے محبت بھی ایک عجیب طرز کی تھی۔ایک طرف نوکری پہ زبردستی لگواتے اور پھر اپنے اس صاحبزادے کی دوری اورفراق بھی قابل برداشت نہ تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام والد ماجد کے پرزوراصرار پر اطاعت وفرمانبرداری کے جذبہ کے تحت 1860ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں ملازم ہوئے تو تھوڑے ہی عرصہ،یعنی چند سال کے بعد والد صاحب نے انہیں واپس بلالیا۔

اپنے والد محترم کی اسی محبت اورمہربانی کا ذکر کرتے ہوئے خودحضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی … وہ چاہتے تھے کہ…میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے برّابالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ان کے زیرسایہ ہونے کے ایّام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی۔ آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے موافق تھا میں نے استعفا دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 182-185 حاشیہ)

اپنی اولاد سے محبت کا ایک یہ پہلو بھی اس شفیق باپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بچہ بیمار ہوتاہے تو خود اس کے علاج کے لئے مستعدہوجاتے اور بڑی محبت اور محنت سے علاج فرماتےہیں۔ سیرت المہدی کی یہ روایت اس کے متعلق ہماری رہنمائی کرتی ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک طبیعت ہوگئی۔ حتی کہ زندگی سے ناامیدی ہوگئی چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے چچا آپ کے پاس آکر بیٹھے اور کہنے لگے کہ دنیا میں یہی حال ہے سبھی نے مرنا ہے کوئی آگے گذر جاتا ہے کوئی پیچھے جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہونا چاہیئے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کاشوربا کھلایاتھا۔خاکسار عرض کرتاہے کہ اس جگہ چچا سے مراد مرزا غلام محی الدین صاحب ہیں۔‘‘

(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر66)

ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے بچوں کی تعلیم اورحصول علم کا بہت اشتیاق تھا۔اوراسکے لئے مختلف اساتذہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ البتہ تعلیم اورعلم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کا یہ پہلو بھی غالب تھا کہ مطالعہ میں اتنا زیادہ شغف نہ ہوکہ خرابیٔ صحت کا اندیشہ ہو۔آپ اس کا بھی خیال رکھتے۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی سوانح میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کو مطالعہ میں ازحدشغف تھا اوراسی قدر آپ کے والد ماجد آپ کے متعلق فکرمند رہاکرتے تھے۔باپ کی اس محبت اور بیٹے کے شوق مطالعہ کا منظر دیکھیئے…ایک چشمدید راوی کا بیان ہے کہ مرزاصاحب [حضرت اقدس علیہ السلام ] کے اردگرد کتابوں کاڈھیر لگا رہتا تھا۔اور ایک اَورچشمدید راوی نے بیان کیا کہ آپؑ کے والدماجد جب آپ کے کثرت مطالعہ کو دیکھتے تو اس راوی کو یہ کہتے ہوئے فرماتے کہ ’’سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے؟…اور…کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔‘‘

(حیات احمد جلداوّل ص436)

ایک پنڈت صاحب نے بتایا کہ مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ ’’غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔ اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی : حصہ سوم روایت نمبر759)

حضرت اقدس علیہ السلام ایک جگہ خود بیان فرماتے ہیں: ’’اوران دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے…‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ181حاشیہ)

اوردوسری طرف آپ کے والدمحترم اپنے بیٹے کی اس زندگی پرمطمئن اورخوش بھی تھے بلکہ رشک بھی کرتے تھے۔چنانچہ حضور علیہ السلام بیان فرماتے ہیں :

’’اُن دنوں میں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والدصاحب اوربھائی صاحب طرح طرح کے ہموم وغموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کررشک کھاتے اورفرمایاکرتے تھے کہ یہ بڑاہی خوش نصیب آدمی ہے۔اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا۔‘‘

(ملفوظات جلداول ص 326)

آپؒ کو قتل کرنے کا منصوبہ اور الٰہی حفاظت

آپؒ ایک ریاست کے سربراہ تو تھے ہی۔مخالفین آپ کی جان کے دشمن تھے۔آپ کے والد بزرگوارکو بھی زہر دے کرمارا گیا تھااوراب ان کی جان کے درپے تھے۔ اور ایک وسیع جائدادکے مالک ہونے کی وجہ سے اپنوں کی آنکھوں میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔وہ بھی تاک میں رہتے کہ آپ کوختم کرکے جائیدادپر اکیلے قابض ہوجائیں۔لیکن ’’جیکو رکھے سائیاں مارسکے نہ کوئے‘‘۔ بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتا رہا اور ہربار وہ قادرخدا اپنے اس بندے کو بچاتا رہا۔ سکھوں نے تو ایک دفعہ آپ کو پکڑکر قیدکرلیا اور قتل کرنے کی تیاری تھی کہ الٰہی نصرت نے معجزانہ طورپر بچالیا۔

چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت المہدی کی ایک روایت میں یہ تفصیل کچھ اس طرح سے بیان فرمائی ہے:’’بیان کیا مجھ سے ہماری پھوپھی صاحبہ یعنی مرزا امام الدین کی ہمشیرہ نے جو ہماری تائی کی چھوٹی بہن ہیں اور مرزا احمدبیگ ہوشیار پوری کی بیوہ ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے والد اور تایا کو سکھوں نے بسرا واں کے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً سکھوں کے آخری عہد کی بات ہے جبکہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد ملک میں پھر بدامنی پھیل گئی تھی۔ اس وقت سنا ہے کہ ہمارے دادا اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کو سکھوں نے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور سننے میں آیا ہے کہ جب مرزا غلام حیدر ان کے چھوٹے بھائی کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لاہور سے کمک لا کر ان کو چھڑایا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ بسراواں قادیان سے قریباً اڑھائی میل مشرق کی طرف ایک گاؤں ہے اس زمانہ میں وہاں ایک خام قلعہ ہوتا تھا جو اب مسمار ہو چکا ہے مگر اس کے آثار باقی ہیں۔‘‘

( سیرت المہدی روایت نمبر67)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button