سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ چہارم)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ

[پیدائش:اندازاً1791ءوفات :جون 1876ء]

ایک کامیاب اور خوددار طبیب حاذق

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒ ایک قابل اور حاذق طبیب بھی تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خود بیان فرمایا کہ

’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اوروہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے…‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ181حاشیہ)

آپ کا طبابت میں وسیع تجربہ اورشہرہ تھا۔حضرت مسیح موعودؑ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ہمارے گھر میں مرزا صاحب (مراد اپنے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے۔‘‘

( ملفوظات جلد اول صفحہ459)

آپ نے طب کی تعلیم ایک معروف طبیب باغبانپورہ ضلع لاہور(پاکستان)کے حافظ روح اللہ صاحب سے حاصل کی تھی۔اور پھر دہلی میں شریف خان فیملی سے استفادہ کیا تھا۔

“Mirza Ghulam Murtaza was a great physician. He had studied medicine at Baghbanpura under Roohulla and at Delhi under the Sharif Khan family.”

( Life of Ahmad by A.R.Dard page : 16)

علم طبابت کے حصول کے لئے جب آپ دہلی تشریف لے گئے تووہاں کچھ کٹھن اور تنگدستی کے مراحل بھی آئے لیکن آپ نے ان مشکل اورتنگدستی کے مراحل کوانتہائی خوش اسلوبی سے طے کیا۔ حصول تعلیم کے ان مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’جب انکے والد [یعنی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے والدصاحبؒ۔ناقل] کپورتھلہ میں انتقال فرما گئے تو…اس وقت بے سروسامانی کی یہ حالت تھی کہ کسی سے پانچ سیر دانے قرض لے کرگھرمیں دئے اور گھر سے پیدل ہی طبابت سیکھنے کے لئے دلی روانہ ہوگئے کہ عزت پاکر وطن واپس آؤں گا۔وہاں قیام وطعام کی بے حد مشکلات کا سامنا کرناپڑا اورفاقوں تک نوبت پہنچی۔مگروہ پوری جوانمردی،استقلال اور دل جمعی سے تحصیل علم طب میں مشغول رہے اوردلی کے مشہور حکیم محمدشریف صاحب سے طبابت میں یہاں تک دستگاہ حاصل کرلی کہ ان کا شمار چوٹی کے حکماء میں ہونے لگا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول،باب والد ماجدکا وصال،ص 140)

ایک اہم اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ اپنے علاقہ کے مشہورومعروف طبیب حاذق تھے لیکن آپ کی سوانح سے ہمیں یہ پتہ چلتاہے کہ آپ نے طب کو کبھی بھی ذریعہ معاش نہیں بنایا۔کبھی کسی سے علاج کا کوئی معاوضہ نہیں وصول کیا۔بلکہ انہوں نے اس شغل کو محض نفع رسانی مخلوق کے لئے جاری رکھا۔ان کے علاج میں قابلِ قدر بات یہ ہوتی تھی کہ علاج ہمیشہ سہل الحصول تجویز کیا کرتے۔لیکن امراء اور غریب اورنادارلوگوں کے مزاج اور طبیعت کے موافق نسخہ جات تجویز فرماتے جس سے امراء کی اصلاح بھی مدنظر ہوتی۔

’’سیرت المہدی‘‘ میں پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھراداس کی ایک تفصیلی روایت درج ہے۔یہ صاحب 1875ء میں قادیان کے سکول میں نائب مدرس تھے۔وہ اپنی روایت میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی طبابت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’مرزا صاحب قابل حکیم تھے اور پنجاب میں گیارھویں درجہ پر کرسی ملتی تھی اور ان کی جاگیر آٹھ میل چوڑی تھی۔… حکمت دھرم ارتھ کرتے تھے اور کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے۔‘‘( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر759)

طبابت وحذاقت کاایک عجیب واقعہ

انہیں پنڈت صاحب نے آپ کی طبابت کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے جو آپ کی حذاقت وفراست اور علم طب میں رسائی کی زبردست مثال ہے۔یہ واقعہ انہوں نے خود حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے ہی سنا تھا۔چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں :

’’مرزا غلام مرتضےٰ صاحب والد مرزا غلام احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب مَیں کشمیر سے واپس آیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد نواب یارقند نے اپنے علاج کے واسطے مراسلہ بھیجا تھا اور مَیں چند آدمی ہمراہ لے کر وہاں پہنچا۔ اور میرے استقبال کے لئے شاہی حکیم اور چند معزز عُہدیدار آئے اور مَیں نے اسلامی طریق کے مطابق نواب صاحب کو السَّلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا۔ اور اپنی رہائش کا بندوبست ایک باغ میں کرایا۔ شاہی حکماء نے میرا امتحان کرنے کے لئے ایک سوال مجھ سے کیا کہ ایک بچہ ماں کے شکم میں کس طرح چھانگا ہو جاتا ہے۔ مَیں نے اسی وقت جملہ حکماء کو کہا کہ ایک سوال مجھ سے بھی حل نہیں ہو سکا۔ شاید آپ میں سے کوئی حل کر سکے۔ کہ کیا پہلے مرغی پیدا ہوئی یا پہلے انڈا پیدا ہوا۔ اس پر جملہ حکماء خاموش ہو گئے۔ اگلے دن صبح کو مَیں نے مریض کو دیکھا اور بیماری کی تشخیص کی۔ اور علاج شروع کرنے سے پہلے چند شرائط نواب صاحب سے منظور کروائیں۔ کہ اگر کوئی غلیظ چیز یا پاک چیز جس طریق پر استعمال کراؤں۔ نواب صاحب کو کرنا ہو گا اور کسی حکیم یا متعلقین میں سے کسی کو ناراض ہونے اور اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہو گا۔ نسخہ علاج ذیل میں درج ہے۔

ستر من بھینس کا گوبر اور کچھ لکڑی حرم سرائے کے صحن میں جمع کرائی جائے۔ اور مستورات کو پردہ کا حکم دیا جائے۔ چنانچہ نواب صاحب کو برہنہ کھڑا کیا گیا اور گوبر کا چبوترہ ان کے گردا گرد کیا گیا۔ سر کے اُوپر ایک ڈھکنا رکھا گیا۔ آنکھیں نتھنے اور منہ کھلا رہا۔ گوبر کے ارد گرد باہر کی طرف لکڑی چنائی گئی اور ان کو آگ لگا دی گئی۔ نواب صاحب روتے اور چلاتے رہے۔ جب لکڑیاں جل گئیں مزدوروں نے ان کو دُور پھینکا۔ اور گوبر بھی ہٹا دیا گیا۔ جب چھ چھ انچ تک گوبر ان کے گرد رہا۔ تو مَیں نے حکماء کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا۔ وزراء اور اس کے متعلقین کی موجودگی میں مَیں نے وہ گوبر انکے جسم سے خود اتارا۔ اور ان دوستوں کو دکھلایا مری ہوئی جوئیں اس گوبر کے ساتھ تھیں۔ اور واپسی پر نواب صاحب نے ایک حقہ چاندی کا۔ اور ایک تھال سونے کا اور ایک لوٹا سونے کا اور ایک دُھسہ۔ ایک لنگی۔ ایک یار قندی ٹٹو اور چار بدرے نقد روپیہ بطور تحفہ کے نذر کے دئیے۔ مَیں نے اس وقت نواب سے سوال کیا کہ کیا یہ اشیاء میری حکمت کے عوض ہیں یا کہ بطور تحفہ۔ نواب صاحب نے وزیروں کی طرف اشارہ کیا کہ معقول جواب دیں۔ کچھ مدّت خاموش رہنے کے بعد بطورتحفہ بتلایا۔ مَیں نے روپے کے بدرے واپس کر دئیے۔ اور باقی اشیاء جو تحفہ کے طور پر تھیں لے لیں۔ اور واپس چلا آیا۔ مرزا صاحب نے سوال حکماء کا یہ جواب دیا کہ جس وقت نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے۔ کل اجزائے بدن اس میں گر جاتے ہیں۔ اور اپنی اپنی مدتوں پر جیسے کہ قدرت ہے بڑھتے رہتے ہیں۔ اور وہ مادہ جو کہ بازوؤں کی طرف آتا ہے چلتے چلتے کسی خاص وجہ سے رک جائے اور وہ منتشر ہو کر دو جگہ پر تقسیم ہو کر پڑ جاتا ہے جیسا کہ پانی آتے آتے کسی تھوڑی سی رکاوٹ یا اونچائی کے سبب دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ویسے ہی اس مادہ کی خاصیّت ہے۔ کبھی نرانگشت کی طرف رکاوٹ ہو گئی۔ تو دو حصے ہو گئے اور کبھی چھنگلی کی طرف رکاوٹ ہوئی تو وہ دو ہو گئیں۔ مگر مرزا صاحب کے سوال کا جواب حکماء نے نہ دیا۔ نواب صاحب کی بیماری جسم میں جوؤں کی تھی اور مرزا صاحب کی شہرت حکمت یار قند سے سُن کر حکماء نے بلوایا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر759)

خدمت خلق

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب قبلہ باوجود اپنی طبی حذاقت کے بلا تفریق ہندو مسلمان۔چوہڑہ۔چمار۔امیر۔غریب سب کو فیض پہنچاتے تھےاور دور دور سے لوگ ان کے معالجہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے آتے تھے۔اور یہ مسلم بات ہےکہ ان کا ہاتھ دستِ شفا مشہور تھا۔اورآپ کی طبابت کا ایک غالب عنصر مخلوق خداوندی سے ہمدردی بھی تھی۔چنانچہ ایک مرتبہ قادیان میں ہیضہ کی سخت وارداتیں شروع ہوئیں۔مرزا صاحب ان دنوں بٹالہ میں تھےجہاں آپ کی جائیداد غیر منقولہ از قِسم مکانات و دوکانات تھی۔ہیضہ کی وارداتیں ابھی چوہڑوں میں ہو رہی تھیں۔وہاں جب آپ کو اطلاع ملی تو آپ فوراً قادیان آئے اور چوہڑوں کے گھروں کے پاس آ کر ٹھہر گئے۔اورنہایت ہمدردی ظاہر کی اور ان کو تسلّی دی۔وہاں ہی کھڑے کھڑے حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ کشٹے،گڑ اور نمک لیتے آویں اور مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا۔اور حکم دیا۔کہ جو چاہے گڑ ڈال کر پیئے۔اورجو چاہے۔نمکین پیئے۔دوسرے دن ہیضہ سے قادیان پاک ہو گیا۔

(ماخوذ از حیات احمد،جلد اول صفحہ51،50)

خوددارصاحب وقار طبیب

جیساکہ ذکر کیاگیاہے کہ آپ نے طبابت کو ذریعہ معاش کبھی نہیں بنایا بلکہ وقار اور خودداری اور عزت نفس کا ہمیشہ خیال رکھا۔اور یہی عالی ہمتی اور وقار اپنے خاندان اوراولاد کے لئے پسندکیا۔

’’ایک……موقع پر بٹالہ کا راجہ تیجا سنگھ بیمار ہوا۔اس کو کاربنکل کی قِسم کا ایک پھوڑا تھابہت معالجات کئے گئے۔کوئی صورت فائدہ کی نہ ہوئی۔آخر حضرت مرزا صاحب قبلہ کی طرف رجوع کیا گیا اور اپنے عمائد کو بھیج کر مرزا صاحب کو بلایا۔مرزا صاحب کی توجہ اور تشخیص بے خطا ثابت ہوئی اور الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں شفا دی۔راجہ صاحب نے مرزا صاحب قبلہ کو ایک کثیر رقم اور خلعتِ شتاب کوٹ کے علاوہ بعض دیہات ان دیہات میں سے جو آپ کی ریاست کا ایک جزو تھے، دینے کے لئے پیش کیا۔مگر آپ نے نہایت حقارت کے ساتھ اسے واپس کر دیا اور باوجود اصرار کے انکار کیا اور فرمایا:

’’میں ان دیہات کو علاج میں لینا اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے ہتک سمجھتا ہوں۔‘‘( حیات احمد،جلداول صفحہ50)

یہاں ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ فن طبابت سے شغف اس خاندان کا یک حصہ بن چکا ہے۔ آپؒ کے بعد حضرت بانی سلسلہ احمدؐیہ نے تو خود اپنے والد ماجد سے طبابت پڑھی اور مخلوق خداکو اس سے فیض یاب بھی فرماتے رہے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں :

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ طبابت کا علم ہمارا خاندانی علم ہے اور ہمیشہ سے ہمارا خاندان اس علم میں ماہر رہا ہے۔ دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے۔ تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی۔حضرت مسیح موعودؑ بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے اور گھر میں ادویہ کا ایک ذخیرہ رکھا کرتے تھے جس سے بیماروں کو دوا دیتے تھے۔ مرزا سلطان احمدصاحب نے بھی طب پڑھی تھی۔ اور خاکسار سے حضرت خلیفہ ثانی نے ایک دفعہ بیان کیاتھا کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعودؑ نے علم طب کے پڑھنے کے متعلق تاکید فرمائی تھی۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ باوجود اس بات کے کہ علم طب ہمارے خاندان کی خصوصیت رہا ہے۔ہمارے خاندان میں سے کبھی کسی نے اس علم کو اپنے روزگار کا ذریعہ نہیں بنایااور نہ ہی علاج کے بدلے میں کسی سے کبھی کچھ معاوضہ لیا۔‘‘

( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر50)

ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓجو کہ ایک روحانی طبیب تو تھے ہی آپؓ نے طبابت کے علم سے بھی مخلوق خداکو فیضیاب فرمایا۔ گوکہ اب اس طبابت میں یونانی طب کے ساتھ ساتھ ایک حیرت انگیز علم طب ہومیوپیتھی [علاج بالمثل]کا اضافہ بھی ہوچکاتھا۔اسی طرح آپؓ نے اپنے ایک بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزاوسیم احمدصاحب ؒکو طبابت کا علم سکھایا۔آپ کے ایک دوسرے بیٹے صاحبزادہ حضرت مرزاطاہر احمدصاحبؒ جو کہ عالمگیرجماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ تھے وہ ایک ماہر اورمشہور ہومیوپیتھ بھی تھے۔ایم ٹی اے پر آپ کے لیکچرز بھی نشر ہوتے رہے جو کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔اور دورِ حاضر میں عالمگیر جماعت احمدیہ کے پانچویں امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے پڑپوتے ہیںروحانی طبیب توہیں ہی،حضور ہومیوپیتھی ادویہ بھی تجویز فرماتے ہیں۔

عبیداللہ علیم نے کیا خوب کہا؂

وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button