حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

گناہ سے نجات کا ذریعہ ۔ یقین

آٹھویں شرط بیعت(حصہ دوم)

اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا ۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دو سرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جوہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا۔‘‘

(فتح اسلام۔ روحانی خزائن۔جلد3۔صفحہ10تا 12)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’جب تک انسان صدق و صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہوگا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے۔ جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی

وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی(النجم:38)

کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا۔ تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الٰہی سے بھرنا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں۔ نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے لیکن جو شخص سویا ہو ا نماز ادا کرتا ہے کہ اسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں۔ … پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سست نہ ہو اور نہ غافل ہو۔ ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے‘‘۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ457۔458)

گناہ سے نجات کا ذریعہ ۔ یقین

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں ۔ یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے۔ یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے۔ یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے۔ کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو۔ کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تجلی کے رک سکتے ہو۔کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلّی پا سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو۔ کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفّارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے۔ … پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آسکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے۔ مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پاگئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے۔ مبارک تم جبکہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہو گا۔ گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو۔ کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہِ آتش فشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسانی کو معدوم کر رہی ہے۔ پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اس سے تعلق توڑ سکو‘‘۔

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ66۔67)

آپؑ نے فرمایا :

’’خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفتِ کاملہ ہے۔ پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی، اُس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی، اُس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے، نجات دی گئی۔ پس ہم اِس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی رُوح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام تمام شریعت کی رُوح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اَور چیز کی ضرورت۔‘‘

(لیکچر لاہور۔ صفحہ5-6۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر20۔صفحہ 151-152)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔

(از خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 29؍اگست2003ء

بمقام شیورٹ ہالے، فرینکفورٹ،جرمنی)

اسلام کی تعلیم ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس نے انسانی زندگی کا کوئی پہلوبھی ایسانہیں چھوڑا جس سے یہ احساس ہوکہ اس تعلیم میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔پس اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا تقاضا ہے کہ اس کے پیارے رسو لﷺ پر اتری ہوئی اس تعلیم کو اپنا کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ، اپنے اوپر لاگو کریں ۔ اور ہم پر تو اَور بھی زیادہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام اور اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور شامل ہونے کا دعویٰ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جہاںاپنی عبادت کرنے اور حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے ہمیں مختلف رشتوں اور تعلقوں کے حقوق کی ا دائیگی کا بھی حکم فرمایاہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اوران کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر فرمایاہے ۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button