سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا

جناب مرزا عطا محمد صاحبؒ

(وفات 1815ء اندازاً)

حضرت مرزا گل محمدصاحبؒ کے تین صاحبزادے تھے:مرزاغلام محی الدین صاحب ،مرزا عطا محمدصاحب اور مرزا قاسم بیگ صاحب۔حضرت مرزا عطا محمد صاحبؒ حضرت مسیح موعودؑ کے دادا تھے۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام ان کی بابت فرماتے ہیں :

’’جب میرے پردادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے داداصاحب یعنی مرزا عطا محمد فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے۔ان کے وقت میں خداتعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے۔ دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جب کہ قضا و قدران کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے یہاں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس صرف ایک قادیاں رہ گئی اور قادیاں اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا اور اس کے چار بُرج تھے اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے اور چند توپیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جا سکتے تھے۔ اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا اول فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیاں میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کرلیا۔ اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی۔ کئی مسجدیں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا۔ اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں سے پانسو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام مرد و زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے۔‘‘

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ172-175 حاشیہ)

آپؑ ایک اورکتاب میں فرماتے ہیں:’’مرزاگل محمد صاحب مرحوم کے عہد ریاست کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کے عہد ریاست میں جو اس عاجز کے دادا صاحب تھے یکدفعہ ایک سخت انقلاب آگیااور ان سکھوں کی … عہد شکنی کی وجہ سے جنہوں نے مخالفت کے بعد محض نفاق کے طور پر مصالحہ اختیار کر لیا تھا انواعِ اقسام کی مصیبتیں اُن پر نازل ہوئیں اور بجُز قادیان اور چند دیہات کے تمام دیہات اُن کے قبضہ سے نکل گئے۔ بالآخر سکھوں نے قادیان پر بھی قبضہ کر لیا اوردادا صاحب مرحوم معہ اپنے تمام لواحقین کے جلا وطن کئے گئے۔‘‘

(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد3صفحہ165حاشیہ)

قیاس کیاجاسکتاہے کہ یہ جلاوطنی 1802ء یا 1803ء کےقریب ہوئی ہوگی۔ریاست کپورتھلہ کے فرمانروا نے اس معززخاندان کواپنامہمان بنایااور بیگووال اوراس کے اردگردبعض دیہات پرمشتمل ایک علاقہ رہنے کے لئے دیا۔ حضرت مرزا عطامحمدصاحب وہاں قیام پذیرہوئے۔اور تقریباً بارہ 12 سال یہاں قیام رہا ہوگا کہ دشمنوں نے آپؑ کو ایک سازش کے تحت زہر دے دیا۔جس سے آپ کا انتقال ہوگیا۔یہ سانحہ 1814ء یا 1815ء میں ہوا۔

آپ کے انتقال کے بعد آپ کے ہونہار ذی وقار اور بہادرصاحبزادے جناب حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ جانشین قرارپائے۔ جن کی عمر اس وقت تقریباًبائیس تئیس سال ہوگی۔ جانشینی کے بعد آپ کی شجاعت اوربہادری کا سب سے پہلا کارنامہ یہ تھا کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود وہ اپنے بزرگ والدکی نعش مبارک کواپنے آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے لئے قادیان کی بستی میں لائے۔جو کہ اس وقت جانی دشمنوں کے قبضہ میں تھی۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’چنانچہ مرزا عطا محمد صاحب بیگو وال ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے جہاں کے سکھ رئیس(نوٹ: تفصیل کے لئے دیکھیں ،احمدعلیہ السلام سیرت وسوانح ، جلد اوّل)نے ان کو بڑی عزت سے جگہ دی اور مہمان رکھا۔چند سال کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کو دشمنوں نے زہر دلوا دیا اور وہ فوت ہوگئے اس وقت ہمارے دادا صاحب کی عمر چھوٹی تھی مگر والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ باوجود اس کے وہ اپنے والد صاحب کا جنازہ قادیان لائے تاخاندانی مقبرہ میں دفن کریں۔یہاں کے سکھوں نے مزاحمت کی لیکن قادیان کی عام پبلک خصوصاً کمیں لوگوں نے دادا صاحب کا ساتھ دیا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ سکھوں کو خوف پیدا ہوا کہ بغاوت نہ ہو جاوے اس لئے انہوں نے اجازت دے دی۔ اس کے بعد دادا صاحب واپس چلے گئے۔‘‘

( سیرت المہدی جلداول روایت 48)

آپ کی شاعری

حضرت مرزا عطامحمدصاحب شاعرانہ مزاج بھی رکھتے تھے۔لیکن آپ کا کوئی شعری کلام یا اشعار محفوظ نہیں رہے۔سوائے اس ایک اقتباس اورایک مصرع کے جس میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے والد ماجد حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’…اورفرمایا کرتے تھےکہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اورحزن میں ہی گزرا۔اورجہاں ہاتھ ڈالا۔آخر ناکامی تھی۔اوراپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے۔جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے۔ اور دوسرا یہ ہے۔کہ ’’جب تدبیر کرتاہوں توپھر تقدیر ہنستی ہے… ‘‘

( کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ 190حاشیہ)

قادیان کے آبائی قبرستان میں ان کی قبرکانشان سیرت المہدی کے نقشہ کے مطابق موجودہے ۔

حضرت اقدس علیہ السلام کی دادی

محترمہ لاڈلی بیگم صاحبہ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی دادی کا نام مائی لاڈلی بیگم صاحبہ تھا جو لاڈو بیگم کے نام سے معروف تھیں یہ بہت عرصہ تک زندہ رہیں۔سیرت المہدی کی روایت نمبر 212 کے مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان کو دیکھا تھا مگر بوجہ درازیٴ عمر ان کے ہوش و حواس میں کچھ فرق سا آگیا تھا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ…حضرت مسیح موعودؑ کی دادی یعنی تمہارے دادا صاحب کی والدہ بہت عرصہ تک زندہ رہیں۔حضرت مسیح موعودؑنے ان کو دیکھا تھا مگر بوجہ درازیٴ عمر ان کے ہوش و حواس میں کچھ فرق آگیا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 212)

قادیان کے آبائی قبرستان میں ان کی قبرکانشان سیرت المہدی کے نقشہ کے مطابق موجودہے ۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ

[پیدائش:اندازاً1791ءوفات :جون 1876ء]

حضرت مرزا عطامحمدصاحب ؒ کے پانچ بیٹے تھے:

مرزاغلام مصطفیٰ صاحب، حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ، مرزا غلام محمدصاحب ،مرزا غلام محی الدین صاحب اور مرزاغلام حیدرصاحب

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒ اندازاً1791ء میں پیداہوئے۔( ان کی تاریخ وفات جون 1872ء بھی ہوسکتی ہے اسکے لئے ملاحظہ فرمائیں اس باب کے آخرپرایک نوٹ :بوقت وفات آپؒ کی عمر 80/85برس بیان کی جاتی ہے۔جبکہ آپؒ کی وفات 1876ء میں ہوئی۔اس وقت اگر آپ کی عمر 85 برس شمارکی جائے تو سن پیدائش 1791ء ہوناچاہیے۔اور اگر 80برس ہوتو 1796ء)

ریاست کپورتھلہ بیگووال میں آپ اپنی جانشینی کے عرصہ میں تقریباًسولہ سترہ برس رہے۔ قادیان سے جلاوطنی 1802ء /1803ءمیں ہوئی جس کے بارہ سال بعد 1814ء /1815ء میں حضرت مرزا عطا محمدصاحب کی وفات ہوئی۔ قادیان واپسی کی جو تواریخ ملتی ہیں وہ زیادہ تر 1832ء کے قریب قریب زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہیں۔تو یوں تقریباً سترہ برس حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب اپنے والدماجدکی وفات کے بعدوہاں یعنی بیگووال میں رہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مردِ جری کو عجیب حوصلہ اور طاقت دی ہوئی تھی۔اور ایسا خاندانی وقار اور غیرت کا پاس تھا کہ انہیں اپنی چھینی ہوئی جائداد واپس لینے کا شدت سے احساس تھا۔اور اگر یہ کہا جائے کہ آپؒ نے اپنی آخری سانسوں تک یہ جدوجہد جاری رکھی تو مبالغہ نہ ہوگا۔جلاوطنی کے اس دور میں قادیان کی ریاست کو واپس پانے کے لئے آپؒ نے اس جدوجہد میں جن مصائب کا سامنا کیا ان میں ایک بہت ہی عجیب اور تکلیف دہ بات کا پتہ چلتاہے جو ہمارے پاس صرف ایک فقرے کی شکل میں محفوظ رہ سکا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ ایک جگہ اپنے والد ماجد کے مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے۔ ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پا سیر بھی کیا۔‘‘

( کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ177 حاشیہ)

سارے ہندوستان کا پیادہ پا یعنی پیدل سفر کرنا جہاں آپ کے شدت غم اورپریشانی کو ظاہر کرتاہے وہاں آپ کے عزم وہمت کی بھی نشاندہی کرتاہے۔اور کہنے کو تویہ ایک فقرہ ہے لیکن اس کے اندر ان ہموم وغموم اور تفکرات ومصائب کا ایک جہان ہے جواس خاندان پر طاری تھا اور بحیثیت ایک سربراہ خاندان کے ان کی خلاصی کے لیے آپ سرتوڑکوششوں میں مصروف رہے۔اور دوسری طرف یہ فقرہ آپ کی علوہمتی اور عزم وحوصلہ کی ایک ایسی داستان کا عنوان ہے کہ جس کی بہت کم تفاصیل ہمارے پاس محفوظ ہیں۔نہ جانے کس کس طرح اپنی کھوئی ہوئی اور غصب شدہ ریاست اور وطن عزیز کو واپس لینے کی جدوجہد میں آپؒ مصروف رہے کہ پورے ہندوستان کا پاپیادہ سفر کیا،راجوں مہاراجوں کے پاس گئے اور اپنا موقف پیش کیا،اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی بھی عطا فرمائی کہ بالآخر قادیان آپ کوواپس ملا،اس کی ریاست وسیادت آپ کو واپس ہوئی۔ گوکہ قادیان کے ساتھ وہ سارے دیہات واپس نہیں ملے صرف پانچ دیہات واپس ہوئے۔لیکن اس وقت کے اعتبار سے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔رنجیت سنگھ جیسے انسان سے کھوئی ہوئی بلکہ چھینی ہوئی جائداد اورمال ومتاع واپس پانا گویا شیر کے منہ سے نوالہ واپس پانے کے موافق تھا۔ بہرحال اب ہم قدرے تفصیل کے ساتھ اس بزرگ صاحب عزم وہمت انسان کے کچھ سوانح اور بیان کرتے ہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button