ادبیاتمتفرق مضامین

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 39)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

مجاہدہ سے خدا کی راہیں کھلتی ہیں

میں نے جس شخص کا ذکر کیا ہے کہ اس نے مجھ سے کہاکہ پہلے بزرگ پھونک مار کر غوث قطب بنا دیتے تھے۔ میں نے اس کو یہی کہا کہ یہ درست نہیں ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا قانون نہیں ہے۔ تم مجاہدہ کرو۔ تب خدا تعالیٰ اپنی راہیں تم پر کھولے گا۔ اس نے کچھ توجہ نہ کی اور چلاگیا۔ ایک مدت کے بعد وہ پھر میرے پاس آیاتو اس کو اس پہلی حالت سے بھی ابتر پایا۔ غرض انسان کی بدقسمی یہی ہے کہ وُہ جلدی کا قانون تجویز کرلیتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ جلدی کچھ نہیں ہوتاکیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں تو تدریج اور ترتیب ہے، تو گھبرااُٹھتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہریہ ہوجاتا ہے۔ دہریّت کا پہلا زینہ یہی ہے۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ یا تو بڑے بڑے دعوے اور خواہشیں پیش کرتے ہیں کہ یہ ہوجائیں اور وہ بن جائیں اور یا پھر آخر ارذل زندگی کو قبول کرلیتے ہیں۔ ایک شخص میرے پاس کچھ مانگنے آیا۔ جوگی تھا۔ اس نے کہا کہ مَیں فلاں جگہ گیا، فلاں مرد کے پاس گیا۔ آخر اس کی حالت اور اندازِ گفتگو سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مانگ کر گذارہ کرلینا چاہیے۔ اصل اور سچی بات یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہے:

گرنباشد بہ دوست راہ بُردن

شرطِ عشق است درطلب مُردن

اللہ تعالیٰ تو اخیر حدتک دیکھتاہے۔ جس کو کچا اورغدار دیکھتا ہے۔ وہ اس کی جناب میں راہ نہیں پاسکتا۔

طلب گار بایدصُبور و حُمول

کہ نشنیدہ ام کیمیاگر ملُول

کیمیا گرباوجودیکہ جانتا ہے کہ اب تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی صبر کے ساتھ اس پھونکا پھانکی میں لگا ہی رہتا ہے۔ میرامطلب اس سے یہی ہے کہ اول صبر کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اگر رُشد کا مادہ ہے تو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ اصل غرض تو یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے محبت پیدا ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 230-231)

*۔ اس حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کے دو اشعار استعمال کیے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ پہلاشعر شیخ سعدی کا ہے جو کہ شیخ سعدی کی کتاب گلستان سعدی کے پانچویں باب بعنوان ’’عشق وجوانی ‘‘میں اس طرح موجود ہے۔

گَرْنَشَایَدْ بِہْ دُوْست رَہْ بُرْدَنْ

شَرْطِ یَارِیْ اَسْت دَرْطَلَبْ مُرْدَنْ

ترجمہ: اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی عشق کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شعر استعمال کیا ہے اس میں اور شیخ سعدی کے شعر میں صر ف چند الفاظ کا فرق ہے۔ جن کے معنی میں کوئی خاص فرق نہیں اس لیے دونوں اشعار کا ایک ہی ترجمہ ہو گا۔

طلب گار باید صبُور و حمُول

کہ نشنیدہ ام کیمیاگر ملُول

*۔ بوستان سعدی میں ’’سالکوں کے صبر وثبات کا قصہ‘‘ کے عنوان پر مشتمل ایک حکایت ہے جس کا یہ ایک شعر ہے۔ شعر مع حکایت ذیل میں درج ہے۔

حکایت

مجھے یہ بات سالکوں سے پہنچی ہے مالدار فقیر شاہ گدا ہیں۔ (یعنی دنیا داروں سے استغناء کی وجہ سے مالدار معلوم ہوتے ہیں لیکن اللہ کی طرف ہر وقت محتاج ہیں مال ودولت نہ ہونے کی وجہ سے گدا ہیں لیکن دل کے استغناء کی وجہ سے شاہ ہیں )۔

ایک بوڑھا صبح کو مانگنے نکلا۔ اس نے ایک مسجد کا دروازہ دیکھا اور صدا دی۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ مخلوق کا گھر نہیں ہے۔ کہ تجھے وہ کوئی چیز دیں۔ (یعنی بھیک انسانوں کے گھر سے مانگی جاتی ہے یہ خدا کا گھرہے)اس نے پوچھا آخر یہ کس کا گھر ہے کہ اس کی کسی کے حال پر عنایت نہیں ہے۔ اسے کہا گیا چپ رہ یہ کیا غلط بات ہے؟گھر کا مالک ہمارا خداہے۔ اس نے قندیل اور محراب کو دیکھا اور جگر سوزی سے ایک نعرہ ماراکہ اس جگہ سے آگے بڑھنا ظلم ہے(یعنی خدا کے دربار سے محروم رہنا کسی بھی طرح مناسب نہیں لہٰذا یہیں پڑاؤ ڈالوں گا)اس در سے محروم ہونا افسوس ناک ہے۔ میں کسی کوچہ سے ناامید ہوکر واپس نہیں ہوا اللہ کے دروازہ سے شرمندہ ہوکر کیسے جاؤں (جب دنیا کا طالب کبھی مایوس نہیں ہوتا تو خدا کے طالب کے لیے مایوسی حرام ہے۔) وہاں بھی بھیک کا ہاتھ پھیلاؤں گا اس لیے کہ میں جانتاہوں ہاتھ خالی واپس نہ ہو گا۔ میں (سعدی )نے سنا ہے کہ ایک سال مجاور بنا بیٹھا رہافریادیوں کی طرح ہاتھ اٹھائے رہا۔ ایک رات اس کی عمر کا پیر مٹی میں دھنس گیا کمزوری کی وجہ سے اس کے دل نے تڑپنا شروع کردیا۔ صبح کو ایک شخص ا س کے سر کے پاس چراغ لے گیا اس میں اس قدر رمق دیکھی جیسے صبح کا چراغ۔ خوشی میں گنگناتے ہوئے یہ کہہ رہاتھا۔ جس نے بھی سخی کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ کھلاہے۔

طَلَبْ گَارْ بَایَد ْصَبُوْر و حَمُوْل

کِہْ نَشَنِیْدِہْ اَمْ کِیْمِیَاگَر ْمَلُوْل

ترجمہ:۔ طلب گار کو صابر اور بُرد بار ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ میں نے کبھی کسی کیمیا گر کو ملول ہوتے نہیں سنا۔

کس قدر روپیہ سیاہ خاک میں ملاتاہے کہ ہوسکتاہے کسی دن تانبے کو سونا کردے۔ سونا کوئی چیز خریدنے کے لیے بہترہے۔ دوست کے ناز سے زیادہ بہتر تو کوئی چیز نہ خرید سکے گا۔ اگر کسی معشو ق سے تیرا دل تنگ ہوجائے۔ تو کوئی دوسرا غمگسار تیرے ہاتھ آجائے گا۔ بدمزاج کی وجہ سے کڑوی زندگی نہ گذار۔ اس کی آگ کو دوسر ے پانی سے بجھا دے۔ لیکن اگر وہ حسن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہےتو تھوڑی سی دل آزاری کی وجہ سے اس کو نہ چھوڑ۔ اس شخص سےدل ہٹایا جاسکتا ہے جس کے بارہ میں تجھے معلوم ہوکہ اس کے بدوں گزارا ہوسکتاہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button