خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ ہالینڈ کے موقع پر 28؍ستمبر 2019ء بروز ہفتہ سیّدنا امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

’’اگر میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو پھر میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

احمدی مومن اور مومنہ میں دین میں بڑھنے کے لیے مسابقت کی روح ہونی چاہیے نہ کہ دنیاوی چیزوں کے لیے

دیکھنے میں آیا ہے کہ براہ راست عورتوں کو جو خطاب کیا جائے تو ان میں نہ صرف اثر ہوتا ہے بلکہ غیر معمولی مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے

عورتوں کی گودوں میں نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور ان کی بہتر تربیت کے لیے ماؤں کا بہت بڑا کردار ہے اور جب براہ راست عورتوں سے مخاطب ہوا جائے تو

انہیں اپنی ذمہ داری کا پہلے سے بڑھ کر احساس ہوتا ہے

میں عموماً جتنا مردوں کو مخاطب کر کے باتیں کہتا ہوں اگر ہمارے مردوں کی اکثریت ان کو سن کر ان پر عمل کرنے لگ جائے تو عورتیں تو ان کے نمونے دیکھ کر ہی خود بخود اپنی اصلاح کر لیں گی،ان میں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی

مقابلے کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ فلاں نے دین کی خاطر اتنی قربانی دی ہے ۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے تو میں بھی اس سے بڑھ کر قربانی کروں گا۔

فلاں شخص کی اولاد بڑی نیک ہے جن کی نمازوں پر بھی توجہ ہے اور دینی کاموں کی طرف بھی توجہ ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی نمازوں کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور اس کے لیے کوشش کی جائے۔خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی دین کی خدمت میں پیش پیش رکھے اور عبادت کرنے والا بنائے

نمازوں کو سنوار کر پڑھنا عورتوں کے لیے بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح مردوں کے لیے۔ عبادت اور ذکر الٰہی کا حکم ہے جس طرح مردوں کو اسی طرح عورتوں کو بھی ہے

اگر ہماری اگلی نسل کی تربیت اس طرح پر ہو جائے کہ اس میں عبادت کرنے والے بچے اور عبادت کرنے والی بچیاں پیدا ہونی شروع ہو جائیں تو یقیناً ہم جہاں اپنی اولاد کو

دنیا کی برائیوں سے بچانے والے ہوں گے وہاں آپ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی دنیا کی برائیوں سے بچانے والی اور خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی بن جائیں گی

ہر احمدی مرد اور عورت کا کام ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے تا کہ نیکیوں میں توفیق ملے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو دنیاوی برائیوں سے ہم بچ سکیں

اور اپنی نسلوں کو ان سے بچا سکیں اور اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے بن سکیں

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جو نئی ایجادات انسان کو کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے ان میں یہ ایجاد بھی ایک بڑی اچھی ایجاد ہے کہ بڑی سکرین اور ٹی وی پر عورتوں میں بھی حسبِ ضرورت مردوں کی طرف سے مختلف تقریروں اور پروگراموں کی آواز اور تصویر پہنچ جاتی ہے اور جب بھی مردوں میں خلیفۂ وقت کا خطاب ہوتا ہے تو عورتوں میں بھی ٹی وی اور سکرین کے ذریعہ سے یہ سنا اور دیکھا جا سکتا ہے اور یہ چیز جو ہے یہ کافی ہونی چاہیے عورتوں کے لیے بھی لیکن پھر بھی پروگرام رکھنے والے جلسوں کے جو پروگرام رکھتے ہیں وہ خلیفۂ وقت کا خطاب عورتوں میں بھی رکھتے ہیں کیونکہ عورتوں کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت ان کے جلسہ میں آ کر براہ راست ان سے مخاطب ہو۔ لجنہ کے اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے میں بھی عموماً چھوٹی جماعتوں کے جلسوں پر بھی لجنہ سے براہ راست خطاب کرتا ہوں اور آج اس وقت اس لیے یہاں آیا ہوں کہ آپ سے براہ راست مخاطب ہوں۔

ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ عموماً جن باتوں کے کرنے کا مردوں کو حکم دیا گیا ہے، ان کو تلقین کی گئی ہے ان میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس لیے بنیادی باتوں کے بارے میں مردوں کا خطاب ہی عورتوں کے لیے بھی کافی ہونا چاہیے۔ اگر حقیقت میں ان نصیحتوں کی طرف، ان باتوں کی طرف، عمل کرنے کی طرف توجہ ہو اور یہاں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو جہاں اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب بھی کیا لیکن بات ایک ہی تھی۔ قرآن کریم میں بعض ہدایات ایسی ہیں جن میں صرف عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ بہرحال اگر بنیادی باتوں پر توجہ ہو جائے اور ان پر عمل ہو جائے تو مردوں اور عورتوں کے متعلق جو بعض احکامات ہیں، ان کی جزئیات ہیں، ان کی تفصیل ہے یا بعض حکم مردوں اور عورتوں کے لیے ان کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کر کے دیے گئے ہیں۔ عمومی مضبوط بنیاد کی وجہ سے اگر عمل کرنے کی نیت ہو تو بنیاد بن جاتی ہے اور اس بنیاد کی وجہ سے جو باتیں مردوں کو مخاطب کر کے کی جاتی ہیں عورتیں بھی خود بخود ان پر عمل کرنے لگ جائیں گی۔ اگر بنیادی باتوں پر عمل نہیں جو خطبات میں بیان کی جاتی ہیں، مردوں کی تقریروں میں بیان کی جاتی ہیں، عمومی خطابات میں بیان کی جاتی ہیں تو یہ علیحدہ تقریریں بھی جو لجنہ میں کی جاتی ہیں اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن بہرحال یہ بھی صحیح ہے کہ کسی کو براہ راست مخاطب کر کے بات کی جائے تو اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے اور اسی لیے خلفائے وقت کا یہ طریق رہا ہے، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے زمانے سے بلکہ اس سے پہلے اجتماعات تو نہیں ہوتے تھے لیکن درس ہوتے تھے، حضرت خلیفة المسیح الاولؓ درس دیا کرتے تھے کہ براہ راست کم از کم ایک خطاب عورتوں میں کیا جائے۔

بعض دفعہ بلکہ اکثر مرتبہ یہی ہوتا ہے کہ عورتوں میں بھی بعض ایسی باتیں خطابات میں بیان کی جاتی ہیں جو مردوں کے لیے بھی یکساں ضروری ہوتی ہیں جیسا کہ عورتوں کے لیے لیکن عورتوں سے جیسا کہ میں نے کہا براہِ راست خطابات کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور اکثر اوقات یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اگر مردوں کو ان باتوں کا اثر نہیں ہو رہا تو کم از کم عورتوں پر اثر ہو جائے ۔ کوئی نہ کوئی تو ایک گھر میں ایسا ہو جو ان باتوں کو سن کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہو اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عورتوں پر اکثر جگہ اثر ہوتا بھی ہے۔ اس لیے ہم کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورتوں کے خطابات کرنا وقت کا ضیاع ہے اور بے فائدہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ براہ راست عورتوں کو جو خطاب کیا جائے تو ان میں نہ صرف اثر ہوتا ہے بلکہ غیر معمولی مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر براہ راست خطاب کا ایک یہ بھی فائدہ ہے اور اس لیے بھی ضروری ہے کہ عورتوں کی گودوں میں نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور ان کی بہتر تربیت کے لیے ماؤں کا بہت بڑا کردار ہے اور جب براہ راست عورتوں سے مخاطب ہوا جائے تو انہیں اپنی ذمہ داری کا پہلے سے بڑھ کر احساس ہوتا ہے۔ ہاں بعض ایسی ڈھیٹ مائیں بھی ہوتی ہیں اور عورتیں ہوتی ہیں جن کو اس بات سے کچھ پروا نہیں ہوتی اور وہ یہی کہتی ہیں کیا وہی پرانی باتیں دہرانے لگ جاتے ہیں۔ یہ تمہید میں اس لیے باندھ رہا ہوں اور یہ ساری باتیں اس لیے بیان کیں کہ جو چند مختصر باتیں میں اس وقت کروں گا آپ لوگ اس کو غور سے سنیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ صرف یہ نہیں کہ میں یہاں آیا آپ سے خطاب کیا آپ نے سنا اور گھر چلی گئیں اور پھر وہی صبح ہوئی اور شام ہوئی نہ دین رہا نہ اس کی پروا رہی۔ بہرحال جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہی پرانی باتیں دہرائی جاتی ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم اور حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احکامات اور ارشادات اور اسوۂ رسول اور نصائح کبھی بھی پرانی باتیں نہیں بنتی بلکہ ہر لمحہ وہ ایک نئے زاویے کے ساتھ دین کا ادراک پیدا کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوتی ہیں۔

یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ برائی صرف یا کمزوری صرف عورتوں میں ہے اس لیے میں عورتوں سے مخاطب ہوں۔ مردوں میں یہ کمزوری شاید عورتوں سے بڑھ کر ہو اور اکثر جگہ یہ کمزوری اور برائی ان میں دیکھنے میں آتی بھی ہے۔ پس مردوں کو بھی یہ باتیں سن کر اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے تا کہ گھر جا کر عورتوں کو یہ نہ کہیں کہ صرف تمہارے میں یہ برائیاں تھیں، تمہیں مخاطب کیا گیا ہے بلکہ ایک موقع مجھے ملا جہاں سے دونوں کو مخاطب کروں تو اس لیے میں یہ بیان کر رہا ہوں۔

پس مردوں کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے۔ میں عموماً جتنا مردوں کو مخاطب کر کے باتیں کہتا ہوں اگر ہمارے مردوں کی اکثریت ان کو سن کر ان پر عمل کرنے لگ جائے تو عورتیں تو ان کے نمونے دیکھ کر ہی خود بخود اپنی اصلاح کر لیں گی، ان میں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی۔

بہرحال اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کو جو آپؑ نے نصائح فرمائی ہیں اور جو آپؑ کو اپنی جماعت کے افراد سے توقعات ہیں چاہے وہ مرد ہیں یا عورتیں ہیں جو بھی ہے ہر فرد جماعت سے آپؑ کو توقعات ہیں ان کے حوالے سے کچھ باتیں کہوں گا ۔لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت یہاں رہنے والے احمدیوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو حالات کی وجہ سے اور خاص طور پر مذہبی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اگر معاشی حالات کی وجہ سے بھی ہجرت کی ہے تو چند ایک جو اچھے پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کے علاوہ اکثریت نے یہاں کی حکومت کو اپنی ہجرت کا مقصد پاکستان میں احمدیوں کے لیے مذہبی آزادی نہ ہونا بتایا ہے اور یہاں کی حکومت نے باوجود جہاں بعض اسلام مخالف لوگوں کے شور مچانے کے آپ لوگوں کو اسائلم دیا ہے اور آزادی سے اپنے مذہب کے اظہار کا موقع دیا ہے۔ پس اس حوالے سے ہمیں دو باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ ان ملکوں کی حکومتوں کا شکر گزار بنیں جنہوں نے آپ کے مذہبی حقوق قائم کر کے مذہبی آزادی دی جہاں ہم آزادی سے نمازیں بھی پڑھ سکتے ہیں ا ور تبلیغ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس ملک کی بہتری کے لیے شکر گزاری کے طور پر ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ کس طرح ہم ان ملکوں کو فائدہ پہنچا سکیں اور سب سے بڑا فائدہ جو ہم ان کو پہنچا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کریں، تبلیغ کریں۔ یہ غلط تاثر ہے کہ عورتوں کو تبلیغ کے موقع نہیں ملتے۔ ملتے ہیں اور بہت ملتے ہیں اور اس کے لیے پروگرام بنانے چاہئیں۔ پس شکر گزاری کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچایا جائے تا کہ جو بلا وجہ کی مخالفت مسلمانوں کے غلط رویے کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اس وجہ سے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بھی استہزا ءکا شکار بنایا جاتا ہے اس کو ہم نے دور کرنا ہے۔

دوسری بات یہ کہ کیونکہ مذہبی وجوہات کی بنا پر ہمیں یہاں رہنے کی اجازت ملی ہے اس لیے اپنی دینی اخلاقی اور روحانی حالت کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہمیں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے جو توقعات وابستہ کی ہیں ان پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ آپ علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں ہر عورت اور مرد کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ بعض باتیں اور بعض نصائح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے اس وقت میں پیش کروں گا۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح و مہدی مانا ہے تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں ہمیں حکم دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشگوئی فرما کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں جب مسیح و مہدی دعویٰ کرے گا تو اسے مان لینا، اسے قبول کر لینا، اس کی جماعت میں شامل ہو جانا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اسے میرا سلام پہنچانا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث 4082)(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 182 مسند ابی ھریرہ حدیث 7957 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) اس لیے کہ آنے والا مسیح اور مہدی اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی تجدید کے لیے آئے گا، اس کو نئے سرے سے دنیا کو دکھانے کے لیے آئے گا، اسلام کی خوبصورتی جس کو بعض مفاد پرست علماء نے داغ دار کر دیا ہے اس خوبصورتی کو نکھار کر پیش کرنے کے لیے آئے گا، اس لیے اس کو ماننا تا کہ تمہیں اسلام کی صحیح تعلیم کا پتا لگے۔ مسیح موعود کی آمد سے اسلام کی نشأة ثانیہ ہو گی، ایک نئے دور کا آغاز ہو گا، اسلام کی خوبصورت اور پاک تعلیم جس کو پیروں فقیروں اور نام نہاد علماء نے توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے اس کی حقیقی تصویر اللہ تعالیٰ کی خاص رہنمائی سے دنیا کے سامنے ہے جو مسیح موعود رکھے گا۔ پس مسیح موعود کو قبول کرنا۔

اور آپؑ کی نصائح اور ارشادات پر عمل کرنا کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ یہی حقیقی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو ان باتوں کو غور سے سننا چاہیے اور ان پر عمل کرنا چاہیے ورنہ آپؑ کی بیعت میں آنے کا دعویٰ ایک خالی اور کھوکھلا دعویٰ ہے۔ آپؑ نے بڑے واضح طور پر فرمایا ہے کہ میں حَکم اور عدل ہوں اور اگر تم میرے ہاتھ پر بیعت کر کے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا سمجھ کر پھر میری باتوں پر عمل نہیں کرتے، میں جو فیصلے کرتا ہوں جو نصائح کرتا ہوں ان پر عمل نہیں کرتے، جو میں نے کہا ہے اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر اپنے ایمان کی فکر کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 73ایڈیشن1984ء)

پس ہمیں بہت فکر کرنی چاہیے کہ ایک طرف تو ہم اپنے ملک سے اس ملک میں اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں اپنے ایمان کے مطابق عمل سے روکا جا رہا ہے دوسری طرف ہم یہاں آ کر اس بات کو بھول جائیں کہ جس پر ایمان لانے کی وجہ سے ہم نے ہجرت کی اس کی باتوں پر توجہ نہ دیں، دنیا کی رنگینیاں دیکھ کر بھول جائیں کہ ہمارا ایمان ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عاشق صادق کو مانا ہے اور جس کے ہاتھ پر بیعت کر کے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم آنے والے مسیح و مہدی کے ہاتھ پر بیعت کر کے احیائے دین کریں گے، دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے، خدا تعالیٰ کے قریب ہوں گے لیکن یہاں آ کر، دنیا دیکھ کر ہم صرف اس بات کو دیکھنے والے بن جائیں کہ زیادہ سے زیادہ روپیہ پیسہ کس طرح کمایا جا سکتا ہے، دولت کس طرح کمائی جا سکتی ہے۔ بار بار جس بات کی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تلقین فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ہم آپ کی بیعت میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں۔ صرف دکھاوے کی توجہ نہیں بلکہ حقیقی توجہ ہو۔ کل خطبہ میں بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ کس طرح توجہ ہو، کس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت قائم کی جائے۔ اپنی نمازوں کو سنوارو۔ علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے آپ کے حکموں پر عمل کرنے سے، آپ کی پیروی سے، آپ نے جو سنت قائم کی ہے ان پر عمل کرو اور پیروی کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ کی باتوں اور سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور قرآن کریم نے بھی یہی فرمایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات پر زور دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی اسی بات پر زور دیا کہ اپنی نمازوں کو سنوارو۔ استغفار کی طرف توجہ کرو ۔ استغفار کرنے سے آدمی بہت سی غلط قسم کی خواہشات سے بچتا ہے، غلط کاموں سے بچتا ہے۔ استغفار کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ

’’استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 247ایڈیشن 1984ء)

ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو اور یاد رکھو کہ موت یقینی ہے ایک روز آنی ہے جب انسان موت کو یاد رکھتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ دنیا جو صرف چند روزہ دنیا ہے یہی میری زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور جب اس کی حقیقت پتا چل جائے گی، اس کا احساس ہمارے دل میں پیدا ہو گا تو پھر جو دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے ہر وقت ہماری کوششیں رہتی ہیں وہ نہیں ہوں گی۔ اس بات پر ہی توجہ نہیں ہو گی کہ فلاں عورت کا زیور بڑا اچھا ہے میں نے بھی ویسا ہی بنانا ہے، فلاں عورت کا گھر بہت بڑا ہے ہمیں بھی ویسا ہی لینا چاہیے اور اس کے لیے پھر خاوندوں کو ہر وقت دباؤ میں رکھا جائے یا مرد بھی اسی لالچ کے پیچھے پڑے رہیں یا عورتوں میں خاص طور پر فیشن کی باتیں ہوتی ہیں کہ فلاں نے بڑے اچھے فیشن کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں میں نے بھی ویسے لینے ہیں۔ یہاں آ کے جو پیسہ آتا ہے تو پھر پاکستان کے ڈیزائنرز کے کپڑے بنانے کا بڑا شوق پیدا ہو جاتا ہے حالانکہ وہی کپڑے سستے بھی مل جاتے ہیں چاہے توفیق ہو نہ ہو اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہم نے نئے فیشن کے کپڑے پہننے ہیں۔ ضرور پہنیں لیکن اپنی پہنچ کے اندر رہتے ہوئے۔یہ ایک مومن کا کام نہیں ہے کہ دنیاوی چیزوں پر نظر رکھے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جن سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے لیکن یہ نہیں کہ ان چیزوں کے حصول کے لیے گھروں میں فساد برپا ہو جائیں۔ ہاں اگر مقابلے کرنے ہیں، مقابلہ بڑی اچھی چیز ہے، مقابلہ کریں لیکن مقابلے کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ فلاں نے دین کی خاطر اتنی قربانی دی ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے تو میں بھی اس سے بڑھ کر قربانی کروں گا۔ فلاں شخص کی اولاد بڑی نیک ہے جن کی نمازوں پر بھی توجہ ہے اور دینی کاموں کی طرف بھی توجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی نمازوں کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور اس کے لیے کوشش کی جائے۔ خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی دین کی خدمت میں پیش پیش رکھے اور عبادت کرنے والا بنائے۔

پس ایک احمدی مومن اور مومنہ میں دین میں بڑھنے کے لیے مسابقت کی روح ہونی چاہیے نہ کہ دنیاوی چیزوں کے لیے۔ اور جب اس سوچ کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو بڑی وسیع رحمت اور مغفرت والا ہے جو اپنی طرف آنے والے بندے سے بے انتہا پیار کا سلوک کرتا ہے وہ بندوں کی نیک خواہشات اور دعاؤں کو سنتا ہے، ان کے نیک عمل کو قبول کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ

’’یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’……نماز سنوار کر پڑھو …… خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہیے۔ ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضی ہو گا یا ناراض۔‘‘ فرمایا ’’نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے …… نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے۔‘‘ ایک جامع صورت ہے۔ بہت ساری جو حرکات ہیں وہ سب نماز میں اکٹھی کر دی گئی ہیں اور اسی میں ہی دعائیں بھی سکھا دی گئی ہیں اور سجدوں میں اور رکوع میں اپنی زبان میں بھی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔

پس فرمایا نمازوں کو پڑھو اور ان میں دعائیں کرو، ان میں دعائیں مانگو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری نیک خواہشات کو پورا کرے۔ فرمایا کہ ’’اس کی نماز ہرگز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔‘‘ پس مقصد یہی ہونا چاہیے کہ اللہ کو پانا ہے، اپنے گناہوں سے معافی حاصل کرنی ہے۔ ’’پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔‘‘ فرمایا نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو ’’کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت بتاوے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو۔‘‘ ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو ’’اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 247-248ایڈیشن 1984ء)

نماز میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو۔ پس نمازوں کو سنوار کر پڑھنا عورتوں کے لیے بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح مردوں کے لیے۔ عبادت اور ذکر الٰہی کا حکم جس طرح مردوں کوہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے۔ عابدات بننے کی بھی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے۔

اور عورت جب حقیقی عابدہ بنتی ہے تو اس کا اثر صرف اسی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی اولاد پر بھی اس کا نیک اثر پڑتا ہے اور نیک چھاپ پڑتی ہے بلکہ مردوں پر بھی نیک اثر ہو جاتا ہے۔ بہت ساری عورتیں ہیں، گھر ہیں جہاں عورتیں نیک ہیں انہوں نے مردوں کو بھی نیکی کی طرف مائل کر لیا اور اسی لیے حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماء اللہ تنظیم بھی بنائی تھی کہ عورتیں خود نیکیوں میں بھی بڑھیں اور جماعتی کاموں میں بھی آگے آئیں تا کہ جماعت کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا رہے۔ خاص طور پر لڑکیاں تو بڑی عمر تک ماؤں کے عملوں کو دیکھتی ہیں۔ وہ دیکھتی ہیں کہ ہماری مائیں کیا کر رہی ہیں۔ جب ایک لڑکی اپنی عبادت کرنے والی اور ذکر الٰہی کرنے والی ماں کو دیکھتی ہے تو ایک نیک اثر اس پر قائم ہوتا ہے اور اگر ہماری اگلی نسل کی تربیت اس طرح پر ہو جائے کہ اس میں عبادت کرنے والے بچے اور عبادت کرنے والی بچیاں پیدا ہونی شروع ہو جائیں تو یقیناً ہم جہاں اپنی اولاد کو دنیا کی برائیوں سے بچانے والے ہوں گے وہاں آپ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی دنیا کی برائیوں سے بچانے والی اور خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی بن جائیں گی۔ پس عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس بات کی طرف ہر احمدی مرد اور عورت کو توجہ دلائی ہے وہ قرآن کریم کو بکثرت پڑھنے کی طرف توجہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اسے صرف قصہ سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کی تعلیم پر غور کرو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 155ایڈیشن 1984ء) قرآن کریم کیا تعلیم دیتا ہے۔ اس کے احکامات کی گہرائی کو سمجھو اور پھر اس پر عمل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرو۔ قرآن کریم کے احکامات ہی ہیں جو ہماری صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اگر ہماری وہ عورتیں جو یہاں کے ماحول کی وجہ سے پردے میں ڈھیلی ہو گئی ہیں، پردے کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں قرآن کریم کو غور سے پڑھیں، پردے کے حکم کی روح کو سمجھیں جو قرآن کریم میں لکھا گیا ہے تو کبھی پردے میں کمی نہ آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب امور الایمان حدیث 9)

اگر حیا کی حقیقت کو ہر عورت سمجھے تو یقیناً پردہ اور باحیا لباس پہننے کی طرف ہر ایک کی توجہ پیدا ہو جائے اور آج کل برقعوں کا فیشن جو شروع ہوا ہوا ہے کہ کوٹوں کو بھی فیشن کا حصہ بنا لیا ہے، ان کو بھی قمیصوں کی طرح اس طرح جسموں کے ساتھ چپکا لیا ہے کہ لگتا ہی نہیں برقع پہنا ہوا ہے یہ رجحان ختم ہو جائے، یہ کبھی رجحان پیدا ہی نہ ہو۔ پاکستان سے آئی ہوئی عورتوں کو تو اپنے پردے کے معیار کو یہاں کم از کم اس معیار تک تو رکھنا چاہیے اس پر تو قائم رہنا چاہیے جو پاکستان میں تھا کجا یہ کہ یہاں آ کر کوٹ چھوٹے ہو جائیں اور لباس ایسا ہو جو پردے کا حق ادا نہ کر رہا ہو۔ ہمیشہ یاد رکھیں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اس میں یہ عہد کیا ہے، اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے پس یہ عہد تبھی پورا ہو گا جب ہم قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کریں گے۔ اس کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ پس ہر عورت اور مرد کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جو عہد کیے ہیں وہ نبھائیں ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہاں میں تمہیں نہیں پوچھتا لیکن وہاں اگلے جہان میں جا کےتمہیں اپنے عہدوں کا جواب دینا پڑے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں داخل ہو کر تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ بیعت کی ہے، جماعت میں شامل ہوئے ہو تو نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ فرمایا خدا تعالیٰ کو دوست بنا لو۔ خدا تعالیٰ کو دوست بنا لو اور جب خدا تعالیٰ دوست بن جاتا ہے تو دنیا اس کی دشمن بھی ہو جائے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کو دوست بنا لو گے تو پھر دنیا تمہارا کچھ نہیں کر سکتی۔ حقیقی دوست جو اللہ تعالیٰ ہے پھر وہ تمہاری ہر معاملے میں پرواہ کرے گا، ہر معاملے میں تمہاری حفاظت کرے گا اور اس کے فرشتے ماں کی طرح تمہیں اپنی گود میں لے لیں گے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 263ایڈیشن 1984ء)

پس یہ بہت ہی اہم بات ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے۔ کتنے خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کو دوست بنانا چاہتے ہیںا ور بناتے ہیں اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ کو دوست بنانے کے لیے اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی بلند کرنا پڑے گا اور اپنی ظاہری حالت لباس وغیرہ کو بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اختیار کرنا ہوگا۔ اپنی عملی حالتوں کو بھی نمونہ بنانا ہو گا اور اپنے اخلاقی معیاروں کو بھی بلند کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے حکم ہے۔ پھر ضروری ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو دوست بنانا ہے تو اس کی باتوں پر بھی عمل کیا جائے۔

پس ہر ایک اپنا خود جائزہ لے اور دیکھے کیا اس کی عبادت معیار ی ہے ؟کیا اسے ذکر الٰہی کی طرف توجہ ہے ؟کیا اس کی عملی حالت اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ہے ؟کیا ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا اور اعلیٰ اخلاق دکھانے والا ہے؟ اگر ہے تو پھر آپ سب بیعت سے فائدہ حاصل کرنے والے ہیں ورنہ ہم صرف نام کے احمدی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں :

یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دینا ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی۔ میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ یہ نکمی حالت ہے خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار کو بھی کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے یعنی اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ مسیح موعود کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آپؑ نے فرمایا کہ پھر اگر تم اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے بے فائدہ ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنی ہیں ۔ یہ تو پھر صاف جھوٹ ہے، پھر تو ہماری یہ صرف منہ کی اور زبانی جمع خرچ ہے۔ ہمارے منہ کی باتیں ہیں جو ہم کہتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تو ایسے لوگوں کو اپنے میں شمار نہیں کرتے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے، بڑا سوچنے کا مقام ہے، غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو احمدی کہہ کر دوسرے مسلمانوں کی مخالفت مول لیں، وہ ہمارے خلاف بولیں، ہمیں تکلیفیں پہنچائیں اور اپنے آپ کو مشکل میں ہم ڈالیں دوسری طرف اپنے عملوں میں کمزوری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی نظر میں، خدا تعالیٰ کی نظرمیں احمدی بھی نہ ٹھہریں ۔ آپؑ نے فرمایا اگر میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو پھر میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور اغراض و مقاصد کیا ہیں اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے اخلاص اور وفا داری دکھلاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اس طرح عمل کرو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا۔ قرآن کریم کے صحیح منشاء کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ آپ نے بڑا واضح فرمایا کہ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے وہ بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ پس آپ نے تو جو سامنے لجنہ بیٹھی ہیں اور اسی طرح مرد ہیں دونوں نے اپنے عہدوں میں اپنی اولادوں کو بھی دین سے جوڑنے کا عہد کیا ہوا ہے انصار کے عہد میں بھی خدام کے عہد میں بھی لجنہ کے عہد میں بھی۔ اگر اپنے عمل نہیں ہیں، اپنی حالت ایسی نہیں کہ جماعت کے زندہ ہونے کی حالت کو ظاہر کریں تو پھر اپنی اولادوں اور اپنی نسلوں کی کس طرح ہم ضمانت دے سکتی ہیں؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو جس جماعت کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 370-371ایڈیشن 1984ء)

ہم نے تو یہ عہد کیے ہوئے ہیں لیکن اس عہد کے بعد بھی اگر ہم خود زندہ نہیں رہ سکتے تو اگلی نسلوں کو کیا زندہ رکھیں گے۔ کس طرح ہم ضمانت دے سکتے ہیں اگلی نسلوں کی کہ یہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی ہو گی۔ کس طرح کہہ سکتی ہیں ہماری عورتیں بھی اور ہمارے مرد بھی کہ ہماری اولاد دین پر قربان ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔

پس قرآن کریم کو سمجھ کر پہلے خود دین پر عمل کرنے والا بننا ہو گا اور پھر اپنی اولاد کو اس پاک حالت پر قائم رہتے ہوئے دین پر قائم رہنے والا اور اس کی خاطر قربانی کرنے والا بنانا ہو گا تبھی ہم وہ جماعت بن سکیں گی جو زندوں کی جماعت ہے ۔ نہیں تو ہماری جماعت بھی روحانی لحاظ سے مُردوں کی جماعت بن جائے گی۔ دنیا کی تربیت کا کام ہم نے اپنے ذمہ لیا ہے تو اس کے لیے اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے تو پورے ہوں گے لیکن ہم میں سے جو لوگ آپ علیہ السلام کی بات کو سن کر اس پر توجہ نہیں دیتے ان کی حالت سوکھی اور مردہ شاخ کی طرح ہو جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ سوکھی اور مردہ شاخ جس درخت کی ہو اس کو باغبان کاٹ دیا کرتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ 49ایڈیشن 1984ء)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے ایک مجاہدے کی ضرورت ہے۔ آپؑ کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے تقویٰ کی ضرورت ہے اور یہ تقویٰ ہی ہے جو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں :

’’دینی امور میں جب تک تقویٰ نہ ہو روح القدس سے تائید نہیں ملے گی وہ شخص ضرور ٹھوکر کھا کر گرے گا۔‘‘ جس میں تقویٰ نہیں ہے۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 429ایڈیشن 1984ء)

پس تقویٰ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر اچھے خلق پر انسان عمل کرے بعض پر عمل کرنا اور بعض پر نہ کرنا تقویٰ نہیں کہلاتا۔

پس جب تمام قسم کی نیکیوں اور اخلاق کو انسان اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو پھر ہی اللہ تعالیٰ دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور بندے کو اپنے قریب بھی کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’قرآن کریم تقویٰ کی ہی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے۔‘‘ یہی اس کا اصل مقصد ہے، یہی قرآن کریم کی تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ ’’اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بے فائدہ۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 48ایڈیشن1984ء)

آپؑ نے فرمایا:۔ ’’ساری جڑ تقویٰ اور طہارت ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے۔‘‘ ایمان تقویٰ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ ہے جو ایمان کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے اور فرماتے ہیں ’’اور نفسانی جذبات دبتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 243ایڈیشن 1984ء)

پس ان ملکوں میں جہاں آزادی اور روشن خیالی کے نام پر ایسی باتوں کے اظہار کیے جاتے ہیں جس سے ہر قسم کے جذبات انگیخت ہوتے ہیں ان ملکوں میں تقویٰ پیدا کرنے کے لیے خاص جدوجہد کی ضرورت ہے پس ہر احمدی مرد اور عورت کا کام ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے تا کہ نیکیوں میں توفیق ملے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو، دنیاوی برائیوں سے ہم بچ سکیں اور اپنی نسلوں کو ان سے بچا سکیں اور اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ ہم حقیقی تقویٰ اپنے اندر پیدا کرنے والے بن سکیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں۔ اب دعا کر لیں (دعا)

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button