خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ جون 2020ء

صحابہ کرام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ محبت تھی ،یہ عشق تھا جس کی وجہ سے ان کو اپنی جانوں کی پروا نہیں تھی

عشرہ مبشرہ میں شامل آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت سعید بن زید اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ جون 2020ء بمطابق 12؍احسان1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج جن صحابہ ؓ کا مَیں ذکر کروں گا ان میں سے ایک حضرت سعید بن زیدؓ ہیں۔ حضرت سعیدؓ کے والد کا نام زَید بن عَمْرو اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بَعْجَة تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ عدی بن کعب بن لُؤَیّ سے تھا۔ حضرت سعید بن زیدؓ کی کنیت اَبُوالْاَعْوَر تھی جبکہ بعض نے ابو ثَور بھی بیان کی ہے۔ ان کا قد لمبا، رنگ گندمی اور بال گھنے تھے۔ یہ حضرت عمر بن خطابؓ کے چچازاد بھائی تھے۔ ان کا شجرۂ نسب چوتھی پشت پر نُفَیل پر جا کر حضرت عمرؓ سے ملتا ہے جبکہ آٹھویں پشت پر کَعْب بن لُؤَیّ پر جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔

(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 476سعید بن زیددارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 ، 294سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ ۔دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(ماخوذ از روشن ستارےاز غلام باری سیف جلد 2 صفحہ 155)

حضرت سعید ؓکی بہن عاتکہ کی شادی حضرت عمر ؓسے اور حضرت عمر ؓکی بہن فاطمہ کی شادی حضرت سعیدؓ سے ہوئی تھی اور یہ وہی بہن ہیں جو حضرت عمر ؓکے قبولِ اسلام کا باعث بھی بنیں۔ حضرت سعیدؓ کے والد زَید بن عمروؓ زمانۂ جاہلیت میں ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیمؑ کے دین کی تلاش کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جو حضرت ابراہیمؑ کا معبود ہے وہی میرا معبود ہے اور جو ابراہیم کا دین ہے وہی میرا دین ہے۔

(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 476سعید بن زیددارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 368زید بن عَمْرو بن نُفَیل دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)

اس زمانے میں بھی موحد موجود تھے۔ بعض بچے بھی سوال کر دیتے ہیں کہ اسلام سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا دین تھا؟ کس کی عبادت کرتے تھے ؟تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑھ کر موحد تھے اور وہ بھی ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔

زید بن عَمْرو ہر قسم کے فسق و فجور غرضیکہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی اجتناب کرتے تھے۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زَید بن عَمْرو بن نُفَیل سے بَلْدَحْ مقام کے نیچے ملے پیشتر اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تھی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٔ نبوت سے پہلے کی بات ہے۔ بَلْدَحْ یہ مکّے سے مغرب کی طرف ایک وادی کا نام ہے، مکّے کی طرف جاتے ہوئے تَنْعِیْم کے راستے میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دستر خوان رکھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کر دیا۔ زَید نے کہا کہ مَیں بھی اس سے نہیں کھایا کرتا جو تم اپنے تھانوں میں ذبح کرتے ہو اور مَیں صرف وہی کھاتا ہوں جس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس احتیاط کے تقاضے کے تحت نہیں کھایا کہ غیر اللہ کے نام پریہ چیزیں ذبح کی گئی ہیں۔ اس پر زَید نے بھی کہا کہ مَیں بھی غیر اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی چیزیں نہیں کھاتا۔ اور پھر روایت آگے چلتی ہے کہ زَید بن عَمْرو قریش کی قربانیوں کو معیوب سمجھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور آسمان سے اس کے لیے پانی برسایا اور زمین سے اس کے لیے چارہ اگایا۔ پھر تم اس کو اللہ کے سوا اَوروں کے نام پر ذبح کرتے ہو۔ یعنی اس غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کو بُرا منایا کرتے تھے اور اس کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل مناقب الانصار باب حدیث زَید بن عمر و بن نُفَیل حدیث 3626)
(فرہنگ سیرت صفحہ61 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

زید بن عَمْرو کفرو شرک سے متنفر ہوئے تو انہوں نے حق کی تلاش میں دور دراز ممالک کا سفر کیا۔ اُن کے اس سفر کے متعلق صحیح بخاری کی ایک اَور روایت میں یوں بیان ہوا ہے۔

حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ زَید بن عَمْرو بن نُفَیل شام کے ملک کی طرف دین کے متعلق دریافت کرنے کے لیے گئے تا کہ اس کی پیروی کریں۔ چنانچہ وہ ایک یہودی عالم سے ملے جس سے اِنہوں نے اُن کے دین کے متعلق پوچھا۔ اِنہوں نے کہا ، یہودی عالم سے پوچھا کہ مجھے بتائیں شاید میں تمہارا دین اختیار کر لوں۔ تو اس نے کہا کہ ہمارے مذہب پر نہ ہونا یہ تو بگڑ چکا ہے ورنہ تم بھی غضبِ الٰہی سے اپنا حصہ لو گے۔ زَید نے کہا مَیں تو اللہ کے غضب سے بھاگ رہا ہوں اور مَیں تو اللہ کی ناراضگی کو کبھی برداشت نہیں کروں گا اور مَیں اس کی طاقت کہاں رکھتا ہوں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا تم مجھے اس کے علاوہ کسی دین کا پتا دیتے ہو؟ اس یہودی عالم نے کہا کہ مَیں تو یہی جانتا ہوں کہ انسان حنیف ہو۔ زَید نے کہا حنیف کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا کہ ابراہیم کا دین۔ نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی اور وہ صرف اللہ ہی کی پرستش کرتے تھے۔ پھر زَید وہاں سے نکلے اور نصاریٰ کے ایک عالم سے ملے اس سے بھی یہی ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ تم ہمارے مذہب پر کبھی نہ ہونا ورنہ تم اللہ کی لعنت سے اپنا حصہ لو گے۔ زَید نے کہا کہ مَیں اللہ کی لعنت سے بھاگ رہا ہوں اور مَیں اللہ کی لعنت اور نہ اس کا غضب برداشت کر سکتا ہوں اور مجھے یہ طاقت ہی کہاں ہے۔ کیا تم مجھے کسی اَور دین کا پتا دیتے ہو؟ اس نے کہا کہ مَیں یہی جانتا ہوں کہ انسان حنیف ہو۔ زَید نے پوچھا یہ حنیف کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا ابراہیم کا دین۔ نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی اور صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ جب زَید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق ان کی رائے دیکھی تو وہ وہاں سے نکلے۔ جب باہر میدان میں آئے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ! مَیں یہ اقرار کرتا ہوں کہ مَیں حضرت ابراہیمؑ کے دین پر ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل مناقب الانصار باب حدیث زَید بن عمر و بن نُفَیل حدیث 3627)

زید بن عَمْرو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا مگر آپ کی بعثت سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ حضرت عَامِر بن رَبِیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ زَید بن عَمْرو دین کی تلاش میں رہے اور انہوں نے نصرانیت اور یہودیت اور بتوں اور پتھروں کی پرستش سے کراہت کا اظہار کیا اور انہوں نے اپنی قوم سے اختلاف کیا اور ان کے بتوں اور جن کی ان کے آباؤ اجداد عبادت کیا کرتے تھے ان کو چھوڑ دینے کا اظہار کیا۔ اور نہ ہی وہ ان کا ذبیحہ کھاتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھے کہا کہ اے عامر! دیکھو مجھے اپنی قوم سے اختلاف ہے۔ میں ابراہیمی ملّت کی پیروی کرنے والا ہوں اور جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے یعنی ابراہیم علیہ السلام اور اس کے بعد اسماعیلؑ کی اتباع کرتا ہوں جو اسی قبلے کی طرف نماز پڑھتے تھے اور میں اسماعیلؑ کی نسل سے ایک نبی کا منتظر ہوں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس کا زمانہ نصیب نہیں ہو گا کہ اس کی تصدیق کروں اور اس پر ایمان لاؤں اور گواہی دوں کہ وہ سچا نبی ہے۔ اے عامر! اگر تم اس نبی کا زمانہ پاؤ تو اسے میرا سلام کہنا۔ عامر کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو مَیں مسلمان ہو گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زَید بن عَمْرو کا پیغام دیا اور سلام عرض کیا۔ حضوؐر نے سلام کا جواب دیا اور ان کے لیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا مَیں نے اس کو جنت میں اس طرح دیکھا کہ وہ اپنے دامن کو سمیٹ رہا تھا۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف جلد2صفحہ156)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 290سعید بن زیددارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

زید بن عَمْرو کو اپنے مُوَحِّدْ ہونے پر نہایت فخر تھا۔ حضرت اَسْماء بنتِ ابوبکر زمانہ جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے زَید بن عَمْرو بن نُفَیل کو دیکھا کہ کعبے سے اپنی پیٹھ لگائے کھڑے یہ کہہ رہے تھے کہ اے قریش کے لوگو ! اللہ کی قسم!! تم میں سے کوئی بھی میرے سِوا ابراہیم کے دین پر نہیں ہے۔ اور زَید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے جو عربوں کے بعض قبیلوں کی رسم تھی کہ بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ وہ نہیں گاڑتے تھے بلکہ جو شخص اپنی بیٹی مارنا چاہتا تھا ، ان کو پتا لگ جاتا تو وہ اسے کہتے کہ اسے نہ مارو۔ اسے نہ مارو۔ مَیں اس کا خرچ اور خوراک تمہاری جگہ مہیا کروں گا۔ چنانچہ وہ اس کو لے لیتے۔ جب وہ جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے کہ اگر تم چاہو تو مَیں اسے تمہارے سپرد کیے دیتا ہوں اور اگر چاہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا۔(صحیح بخاری کتاب فضائل مناقب الانصار باب حدیث زَید بن عمر و بن نُفَیل حدیث 3828) یعنی شادی وغیرہ کے خرچے بھی پورے کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ بیان کرتی ہیں، پہلی روایت بخاری کی تھی اور دوسری اسماءالرجال کی کتاب ‘‘اسد الغابہ’’ کی ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ بیان کرتی ہیں میں نے زَید بن عَمْرو بن نُفَیل کو کعبہ سے پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اے قریش کے لوگو! اس ذات کی قسم! ! جس کے ہاتھ میں زَید کی جان ہے کہ میرے سِوا تم میں سے کسی نے بھی ابراہیمؑ کے دین پر صبح نہیں کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اے اللہ ! کاش کہ مَیں تیری عبادت کا پسندیدہ طریق جانتا تو مَیں اسی طرح تیری عبادت کرتا لیکن میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ پھر وہ اپنی ہتھیلی پر سجدہ کرتے ۔

(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 369 370-زید بن عَمْرو بن نُفَیل دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)

سعید بن مُسَیِب سے مروی ہے کہ زَید بن عَمْرو کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی۔ اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو یہ کہہ رہے تھے کہ مَیں دینِ ابراہیمؑ پر ہوں۔

یہ ذکر تو حضرت سعید بن زیدؓ کا ہو رہا تھا ۔ ان کے والد کا ذکر ضمناً آ گیا اور بیٹے کو بھی اسلام میں جو مقام ملا اور پھر باپ کی جو نیکیاں تھیں اس کی وجہ سے یہ بھی تاریخ میں محفوظ ہو گیا اور اس لیے مَیں نے یہاں بیان بھی کر دیا کیونکہ یہ روایتیں بخاری میں بھی ملتی ہیں۔ بہرحال اب حضرت سعید بن زیدؓ کا بقایا ذکر کرتا ہوں۔

ایک مرتبہ حضرت سعید بن زیدؓ اور حضرت عمر بن خطابؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے زَید بن عَمْرو کے متعلق دریافت کیا۔ یعنی حضرت سعیدؓ کے والد کے بارے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ زَید بن عَمْرو کی مغفرت کرے اور ان پر رحم کرے۔ ان کی موت دینِ ابراہیم پر ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی مسلمان زَید بن عَمْرو کا ذکر کرتے تو ان کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف جلد2صفحہ156-157)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 291سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ ۔دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زَید بن عَمْرو کے متعلق پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا وہ قیامت کے دن اکیلے ایک امّت کے برابر اٹھائے جائیں گے۔

(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 368زید بن عَمْرو بن نُفَیل دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت سعید بن زَید حضرت عمر کے بہنوئی تھے اور حضرت سعید بن زَید کی ہمشیرہ عاتکہ بنت زَید حضرت عمرؓ کے عقد میں آئی تھیں۔ حضرت سعید بن زیدؓ اور ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت خطابؓ اوائل اسلام میں مسلمان ہو گئے تھے، شروع میں ہی مسلمان ہو گئے تھے ۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لے آئے تھے اور حضرت سعیدؓ کی اہلیہ جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا سبب بنی تھیں۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 476سعید بن زیددارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ ۔دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)

اس کی تفصیل تو پچھلی دفعہ حضرت خَبَاب بن اَرَتؓ کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے لیکن بہرحال یہاں کیونکہ حضرت سعیدؓ کا حوالہ بھی ہے اس لیے مختصراً کچھ بیان کر دیتا ہوں ۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ

حضرت حمزہ ؓ کو اسلام لائے ابھی صرف چند دن گذرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اور خوشی کا موقع دکھایا اور حضرت عمر ؓبھی جو اسلام کے اشد مخالف تھے وہ مسلمان ہوگئے۔ حضرت عمرؓ میں سختی کا مادہ تو پہلے ہی تھا۔ ان کی فطرت میں ہی تھا لیکن اسلام کی عداوت نے، دشمنی نے اسے اَور بھی زیادہ کر دیا تھا۔ چنانچہ اسلام سے قبل غریب اور کمزور مسلمانوں کو ان کے اسلام لانے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف دیا کرتے تھے۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ ان کو تو میں تکلیفیں دیتا رہتا ہوں لیکن یہ لوگ تو (پھر بھی) باز نہیں آتےاور اپنے ایمان پر پکے ہیں تو کیوں نہ اس فتنہ کے بانی کو ختم کر دیا جائے۔ اس نیت سے گھر سے نکلے۔ ہاتھ میں ننگی تلوار تھی۔ راستہ میں ایک شخص ملا انہوں نے کہا عمر! بڑے غصہ میں ننگی تلوارلے کر کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا آج میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کا کام تمام کرنے جا رہا ہوں۔ تو اس نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فوراً اپنا رخ پلٹا اور اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے گئے۔ جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔ خَباب بن اَرَتؓ بڑی خوش الحانی سے وہ پڑھ رہے تھے۔ یہ آواز سن کر حضرت عمرؓ کا غصہ اَور بڑھ گیا۔ جلدی سے ایک دم دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوئے۔ بہرحال اس آہٹ سے خبابؓ تو فوراً کہیں چھپ گئے۔ پردہ یا کسی جگہ کوئی چھپنے کی جگہ تھی اور فاطمہ نے جو اُن کی بہن تھیں انہوں نے فوری طور پر قرآن شریف کے اوراق بھی اِدھر اُدھر چھپا دیے۔ اس پر حضرت عمر ؓنے حضرت فاطمہؓ اور حضرت سعید ؓسے کہا کہ سنا ہے تم لوگ اپنے دین سے پِھر گئے ہو؟ اور یہ کہہ کے مارنے کے لیے اپنے بہنوئی سعید بن زیدؓ سے لپٹ گئے۔ فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے بیچ میں آ گئیں لیکن اس وقت حضرت عمرؓ کا حملہ ایسا تھا کہ حضرت فاطمہ ؓبھی اس کی زد میں آ گئیں اور زخمی بھی ہو گئیں۔ بہرحال زخمی ہونے کے بعد فاطمہ کی جرأت بڑھی۔ انہوں نے بڑے جوش سے کہا کہ ہاں عمر ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔ جو تمہارے سے ہو سکتا ہے کر لو لیکن ہم اسلام کو نہیں چھوڑیں گے۔ بہرحال بہن کا یہ جرأت مندانہ اور دلیرانہ کلام سنا، یہ بات سنی تو آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا۔ اور جب حضرت عمر ؓنے دیکھا کہ بہن بھی خون و خون ہوئی ہوئی ہے۔ اُس کو بھی ایسی چوٹ لگی تھی کہ چہرے سے خون بہ رہا تھا۔ اس نظارے کا حضرت عمرؓ کی طبیعت پر بڑا اثر ہوا اور فوراً انہوں نے کہا اچھا مجھے اپنا وہ کلام تو دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ فاطمہؓ نے کہا اس طرح نہیں۔ کیونکہ تم ان اوراق کو ضائع کر دو گے۔ عمرؓ نے جواب دیا کہ نہیں ۔ نہیں کرتا۔ واپس کر دوں گا۔ تو اس پر حضرت فاطمہؓ نے کہا پھر بھی اس طرح نہیں دکھایا جا سکتا۔ پہلے تم جا کے غسل کر لو، پھر دیکھنا۔ چنانچہ جب غسل کر کے فارغ ہوئے تو حضرت فاطمہؓ نے قرآن کریم کے اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔ انہوں نے اٹھا کر دیکھا تو سورۃ طٰہٰ کی یہ ابتدائی آیات تھیں اور حضرت عمرؓ بڑے مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنے لگے۔ فطرت سعید تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی تھی۔ جب پڑھنا شروع کیا تو ہر ہر لفظ ان کے دل میں اترتا گیا اور پڑھتے پڑھتے جب اس آیت پر پہنچے، یہ دو آیات ہیں کہ

إِنَّنِيْٓ أَنَا اللّٰهُ لَآ إِلٰهَ إِلَّآ أَنَا فَاعْبُدْنِيْ وَأَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ۔ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا لِتُجْزٰی كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰى (طٰهٰ:15-16)

یعنی مَیں ہی اس دنیا کا واحد خالق و مالک ہوں۔ میرے سوا اَور کوئی قابل پرستش نہیں۔ پس تمہیں چاہیے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کے لیے اپنی دعاؤں کو وقف کر دو۔ دیکھو موعود گھڑی جلد آنے والی ہے مگر ہم اس کے وقت کو مخفی رکھے ہوئے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے کیے کا سچا بدلہ پاسکے۔

جب حضرت عمر ؓنے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور بے اختیار ہو کے بولے۔ کیسا عجیب کلام ہے ؟ کیسا پاک کلام ہے؟ خَبَابؓ نے جب یہ الفاظ سنے، وہ چھپے ہوئے تھے تو فوراً باہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ رسول اللہ ؐکی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی قسم ! ابھی کل ہی مَیں نے آپ ؐکو یہ دعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ !تُو عمر ابن الخطاب یا عَمْرو بن ہشام یعنی ابوجَہل میں سے کوئی ایک ضرور اسلام کو عطا کر دے۔ بہرحال حضرت عمر ؓنے اس بات پر حضرت خَبَابؓ سے کہاکہ مجھے ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتاؤ۔ کہاں ہیں وہ؟ اور تلوار بھی انہوں نے نیام میں نہیں ڈالی ہوئی تھی۔ اسی طرح کھینچی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں دارِ ارقم میں ہوتے تھے۔ چنانچہ خَبَابؓ نے انہیں وہاں کا پتہ بتا دیا۔ حضرت عمر وہاں گئے۔ دروازے پر پہنچ کے زور سے دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازے کی دراڑ سے دیکھا تو دیکھا کہ حضرت عمرؓ ننگی تلوار لیے کھڑے ہیں اور یہ دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تأمل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو۔ حضرت حمزہؓ نے بھی کہا (حضرت حمزہؓ بھی وہاں موجود تھے )کہ دروازہ کھول دو۔ اگر تو نیک ارادےسے آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اگر بد ارادہ ہوا تو اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا۔ حضرت عمرؓ ننگی تلوار لیے اندر داخل ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کا پلو پکڑ کے کھینچا اور فرمایا عمر کس ارادے سے آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سنے تو خوشی سے اللہ اکبر! کہا اور یہ لکھا ہے کہ ساتھ ہی صحابہؓ نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ کی پہاڑیاں بھی گونج اٹھیں۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ157تا159)

تو یہ حضرت سعیدؓ تھے جو حضرت عمر ؓکے بھی اسلام لانے کا ذریعہ بنے۔ حضرت سعید بن زیدؓ اولین مہاجرین میں سے تھے۔ مدینہ پہنچ کر حضرت رِفَاعَہ بن عَبدُالمُنْذِر کے ہاں ٹھہرے جو حضرت اَبُولُبَابَہکے بھائی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مؤاخات حضرت رَافِع بن مالکؓ سے جبکہ ایک روایت کے مطابق حضرت اُبَی بن کَعبؓ سے کروائی۔ حضرت سعید بن زیدؓ غزوۂ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا تھا۔(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 476سعید بن زیددارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ ۔دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)۔ اور اسی وجہ سے ان سب صحابہ ؓکو جن کو کسی نہ کسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شامل فرمایا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کو کسی رنگ میں بھی حصہ دے کر شامل فرمایا گیا ان کو بدری صحابہؓ میں شمار کیا جا رہا ہے۔

ان کی جنگ بدر میں نہ شامل ہونے کی وجہ حضرت طلحہ بن عُبَیْدُاللّٰہؓ کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے تاہم یہاں بھی بیان کرنا ضروری ہے اس لیے بیان کر دیتا ہوں۔ ویسے بھی اس کو دو تین مہینے گزر گئے ہیں اور یہاں بیان کرنا ضروری بھی ہے۔

بہرحال حضرت سعید بن زیدؓ کی جنگِ بدر میں شریک نہ ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ایک قافلےکی شام سے روانگی کا اندازہ فرمایا تو آپؐ نے مدینے سے اپنی روانگی سے دس روز پہلے حضرت طلحہ بن عُبَیْدُاللّٰہؓ اور حضرت سعید بن زَید ؓکو قافلے کی خبر رسانی کے لیے بھیجا۔ یہ دونوں حَوراء پہنچے۔ یہ وہاں ایک جگہ ہے۔ وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ قافلہ ان کے پاس سے گزرا۔ حَوْرَاء بحیرۂ احمر پر واقع ایک پڑاؤ ہے جہاں سے حجاز اور شام کے درمیان چلنے والے قافلے گذرتے تھے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت طلحہؓ اور حضرت سعیدؓ کے واپس آنے سے پہلے ہی یہ خبر معلوم ہو گئی کہ وہ قافلہ تو وہاں سے گذر کے چلا گیا ہے۔ اب اس طرف آنے کا ارادہ نہیں ہے۔ اس وقت وہ قافلہ ادھر آنے کی بجائے جب گذر گیا تو ابھی صحیح حالات کی خبر تو نہیں تھی لیکن یہ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچ گئی کہ قافلہ وہاں سے گذر گیا ہے۔ اس پر آپؐ نے صحابہ کو بلایا اور قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوئے مگر قافلہ ساحل کے ساتھ راستے سے تیزی سے نکل گیا اور تلاش کرنے والوںسے بچنے کے لیے دن رات چلتا رہا۔ قافلے والوں نے بھی اپنا راستہ بدل لیا تو ادھر ٹکراؤ نہیں ہوا۔ جس راستے سے ان کے آنے کی توقع تھی وہاں سے نہیں گزرا بلکہ ایک چکر کا ٹ کے ساحل کی طرف چلا گیا۔ اس کے بعد حضرت طلحہ بن عُبَیداللہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے کی خبر دیں۔ ان دونوں کو آپؐ کی غزوۂ بدر کے لیے روانگی کا علم نہیں تھا۔ یہ مدینہ اس دن پہنچے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں قریش کے لشکر سے مقابلہ کیا تھا۔ یہ دونوں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے اور آپؐ کی بدر سے واپسی پر تُرْبَان میں ملے۔ تُرْبَان مدینہ سے انیس میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس میں کثرت سے میٹھے پانی کے کنویں ہیں۔ غزوۂ بدر کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام فرمایا تھا۔ یہ تجارتی قافلہ دوسرا تھا جو ادھر سے نکل گیا لیکن مکّے سے حملہ کرنے کے لیےجو ایک فوج آئی تھی وہ دوسری تھی جن کی بدر کے مقام پر مڈھ بھیڑ ہوئی لیکن بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے نکلے تھے کہ اس قافلے کو دیکھیں کہ ان کی نیت کیا ہے۔ یہ نہیں پتا تھا کہ ایک فوج بھی آ رہی ہے۔ بہرحال آگے ذکر یہ ہے کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت سعیدؓ جنگ میں شامل نہ ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو حصہ عطا فرمایا اور یہ دونوں بدر میں شاملین ہی قرار دیے گئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292-293 سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ ۔دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(السیرة النبویة علیٰ ضوء القرآن والسنة جلد 2 صفحہ 123)
(فرہنگ سیرت صفحہ75 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)

حضرت سعید بن زَیدؓ عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب صحابہؓ میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی دنیا میں جنت کی خوشخبری ملی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر ؓ،عمر ؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیر ؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ ، سعد بن ابی وقاصؓ، سعید بن زیدؓاور ابو عُبَیدہ بن الْجَرَّاحؓ میں سے ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ یہ جنتی ہیں۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف جلد 2 صفحہ155)

حضرت سعید بن زیدؓبیان کرتے ہیں کہ میں نو لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں، گواہی دوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا۔ کہا گیا وہ کیسے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہرا رہ اے حِرَاء! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہے۔ کسی نے پوچھا وہ دس جنتی لوگ کون ہیں؟ حضرت سعید بن زیدؓنے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں۔ اور کہاگیا کہ دسواں کون ہے تو حضرت سعید بن زیدؓنے کہا وہ میں۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی الاعور وا سمہ سعید بن زَید حدیث 3757)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 478 سعید بن زَید دار الکتب العلمیة بیروت 2016)

سعید بن جُبَیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد ؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت سعیدبن زیدؓ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوتے یعنی آپؐ کا دفاع کرتے اور نماز میں آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوتے۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 478سعید بن زیددارالکتب العلمیۃ)

حکیم بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سعید بن زیدؓ کی انگوٹھی میں قرآن کریم کی آیت لکھی ہوئی دیکھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 294 سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ۔ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)

حضرت عمر ؓکے دورِ خلافت میں شام کے معرکے میں جب باقاعدہ فوج کشی ہوئی تو حضرت سعید بن زیدؓ حضرت ابوعبیدہؓ کے ماتحت پیدل فوج کی افسری پر متعین ہوئے۔ دمشق کے محاصرے اور یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں شجاعت اور جانبازی کے ساتھ شریک رہے۔ جنگ کے دوران حضرت سعید بن زَید ؓکو دمشق کی گورنری پر مامور کیا گیا لیکن انہوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں اور مَیں اس سے محروم رہوں۔ اس لیے خط پہنچتے ہی میری جگہ پر کسی اَور کو بھیج دیں اور مَیں جلد سے جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ نے مجبوراً یزید بن ابوسفیان کو بھجوا دیا اور حضرت سعید بن زیدؓدوبارہ جنگ میں شامل ہو گئے۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف جلد 2 صفحہ164)( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2ص 138 حضرت سعید بن زیدؓ مطبوعہ داراشاعت)

حضرت سعید بن زیدؓکے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے، بیسیوں خانہ جنگیاں پیش آئیں اور گو وہ اپنے زہد و اتقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے تاہم جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں تأمل بھی نہیں کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تو وہ عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگوں نے عثمانؓ کے ساتھ جو سلوک کیااس سے اگر احد پہاڑ متزلزل ہو جائے تو کچھ عجب نہیں۔

(ماخوذ از سیرالصحابہ جلد دوم صفحہ 139)

اسی طرح ایک روز کوفہ کی جامع مسجد میں مُغِیرہ بن شُعْبَہ نے حضرت علی ؓکی شان میں برا بھلا کہا تو حضرت سعید بن زیدؓنے فرمایا اے مغیرہ بن شعب! اے مغیرہ بن شعب! اے مغیرہ بن شعب! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دس جنت میں ہوں گے اور ان میں سے ایک حضرت علیؓ بھی تھے۔

(ماخوذاز روشن ستارے از غلام باری سیف جلد 2 صفحہ165)

حضرت سعید بن زَید ؓمستجاب الدعوات تھے۔ ایک مرتبہ ان پر زمین پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا گیا جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت سعید بن زیدؓ کی زمین کے ساتھ ملحقہ زمین ایک خاتون اَرْوٰی بنت اُوَیْس کی تھی۔ اس نے حضرت معاویہؓ کی طرف سے مقرر کردہ مدینہ پر گورنر مَرْوَان بن حکَم کے پاس شکایت کی کہ سعید نے ظلم سے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ مَرْوَان نے تحقیق کے لیے آدمی مقرر کیے تو حضرت سعید نے انہیں جواب دیا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سننے کے بعد ظلم کر سکتا ہوں کہ جو ظلم کی راہ سے ایک بالشت زمین بھی غصب کرے گا قیامت کے دن ساتوں زمینیں اس کے گلے کا طوق ہوں گی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا اے خدا! اگر اَرْوٰی جھوٹ بولتی ہے تو اس کو اس وقت تک موت نہ دے جب تک اس کی نظر نہ جاتی رہے اور اس کی قبر اس کے گھر کا کنواں نہ بنے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اَرْوٰی پہلے بصارت کی نعمت سے محروم ہوئی۔ پھر ایک روز چلتے ہوئے اپنے ہی گھر کے کنویں میں گر کر مر گئی۔ اس کے بعد یہ محاورہ بن گیا اور اہل مدینہ یہ کہنے لگے کہ أَعْمَاکَ اللّٰہُ کَمَا أَعْمٰی اَرْوٰیکہ اللہ تجھے اسی طرح اندھا کرے جس طرح اس نے اَرْوٰی کو اندھا کیا تھا۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 477سعید بن زَید دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف جلد 2 صفحہ164-165)

حضرت سعید بن زیدؓنے پچاس یا اکاون ہجری میں تقریباً ستّر برس کی عمر میں جمعے کے دن وفات پائی۔ بعض روایات کے مطابق وفات کے وقت ان کی عمر ستّر سال سے متجاوز تھی، زیادہ تھی۔ نواح مدینہ میں بمقام عَقِیْق ان کا مستقل مسکن تھا اور عقیق!! جزیرۂ عرب میں اس نام کی کئی وادیاں ہیں۔ ان میں سب سے اہم مدینہ کی وادی عقیق ہے جو مدینے کے جنوب مغرب سے شمال مشرق تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں مدینہ منورہ کی ساری وادیاں آ کر شامل ہو جاتی ہیں۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن عمرؓجمعہ کی تیاری کر رہے تھے۔ جب انہوں نے حضرت سعید کی وفات کی خبر سنی تو وہ جمعہ پر نہیں گئے بلکہ اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہو گئے۔ حضرت سعد بن ابی وَقاصؓ نے غسل دیا اور ان کی نعش مبارک لوگ کندھوں پر رکھ کر مدینہ لائے۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓنے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ میں ان کی تدفین ہوئی۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 478سعید بن زَید دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 138 حضرت سعید بن زیدؓ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)
(فرہنگ سیرت ، صفحہ204 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرؓنے حضرت سعید بن زیدؓ کی وفات کی خبر سنی تو وہ جمعہ پر جانے کی تیاری کر رہے تھے لیکن وہ جمعہ پر نہ گئے اور ان کی طرف گئے اور انہیں غسل دیا، خوشبو لگائی اور ان کی نماز جنازہ پڑھائی جبکہ عائشہ بنت سعد بیان کرتی ہیں کہ حضرت سعید بن زَید ؓکو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے غسل دیا اور خوشبو لگائی پھر گھر آئے اور خود بھی غسل کیا۔ پھر جب گھر سے باہر نکلے تو کہا کہ حضرت سعید بن زَید ؓکو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا بلکہ گرمی کی وجہ سے میں نے غسل کیا ہے۔ حضرت سعید بن زیدؓ کی نماز جنازہ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے پڑھائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبداللہ بن عمرؓ دونوں قبر میں اترے یعنی نعش کو لحد کے اندر رکھنے کے لیے لحد میں آئے۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 478سعید بن زیددارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 138حضرت سعید بن زیدؓ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)

حضرت سعید بن زیدؓ نے مختلف اوقات میں دس شادیاں کیں اور ان بیویوں سے تیرہ لڑکے اور انّیس لڑکیاں ان کی پیدا ہوئیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 سعید بن زیدومن بنی عدی بن کعب بن لُؤَيٍّ ۔ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 140 حضرت سعید بن زیدؓ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)

اگلا ذکرحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ہے۔ اس کا کچھ مختصر ذکر کر دیتا ہوں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام زمانہ جاہلیت میں عَبدِ عَمْرو تھا اور دوسری روایت کے مطابق عَبْدُالْکَعْبَہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ دیا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو زُہرہ بن کِلَاب سے تھا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 92 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

سَہْلَہ بنت عاصِم بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ سفید، خوبصورت آنکھوں والے، لمبی پلکوں، لمبے ناک والے تھے۔ سامنے کے اوپر والے دانت میں سے کچلی والے دانت لمبے تھے۔ کانوں کے نیچے تک بال تھے۔ گردن لمبی، ہتھیلیاں مضبوط اور انگلیاں موٹی تھیں۔

(الاستیعاب جلد 2 صفحہ 847 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الجیل بیروت)

اِبراہیم بن سَعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ دراز قد، سفید رنگ جس میں سرخی کی آمیزش تھی، خوبرو، نرم جلد والے تھے۔ خضاب نہیں لگاتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاؤں سے لنگڑے تھے ۔ آپؓ کی یہ لنگڑاہٹ اُحُد کے بعد ہوئی کیونکہ اُحُد کے میدان میں راہ حق میں زخمی ہوئے تھے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 292 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ان دس اصحاب میں شامل تھے جن کو ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی۔ آپؓ ان اصحابِ شوریٰ کے چھ افراد میں سے ایک ہیں جن کوحضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لیے مقرر فرمایااور ان افراد کے بارے میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت ان سب سے راضی تھے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 290 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ عَامُ الفِیل کے دس سال بعد پیدا ہوئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ان قلیل افراد میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ابتدائی آٹھ اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دارِ ارقم کو تبلیغی مرکز بنایا تو آپؓ اس سے بھی پہلے حضرت ابوبکر ؓ کی تبلیغ سے اسلام قبول کر چکے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ حبشہ کی طرف جانے والی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے۔

(ماخوذ از روشن ستارے صفحہ 103-104)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 92 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت )

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ بیان کرتے ہیں جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سَعْد بِن رَبیعؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ تو سَعْد بِن رَبیعؓ نے کہا کہ مَیں انصار میں سے زیادہ مالدار ہوں۔ (یہ روایت سَعْد بِن رَبیعؓ کے ذکر میں بھی آ چکی ہے لیکن بہرحال یہاں بھی ذکر کرتا ہوں۔) سو میں تقسیم کر کے نصف مال آپ کو دے دیتا ہوں اور میری دو بیویوں میں سے جو آپ پسند کریں میں آپ کے لیے اس سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے آپ نکاح کر لیں۔ یہ سن کر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت سعد ؓسے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کے اہل اور مال میں آپؓ کے لیے برکت رکھ دے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو۔ حضرت سعدؓ نے بتایا کہ قَیْنُقَاعکا بازار ہے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ یہ معلوم کر کے صبح سویرے وہاں گئے۔ وہاں کاروبار کیا اور انہوں نے وہاں پنیر اور گھی منافع کے طور پر بچایا اور اسے لے کر حضرت سعدؓ کے گھر والوں کے پاس واپس پہنچے۔ پھر اسی طرح ہر صبح آپؓ وہاں بازار میںجاتے اور کاروبار کرتے رہے اور منافع کماتے رہے۔ ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ آئے اور ان پر زعفران کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کس سے؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی ایک عورت سے ۔ فرمایا کتنا مہر دیا ہے؟ عرض کیا ایک گٹھلی کے برابر سونا یاکہا سونے کی گٹھلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولیمہ بھی کرو خواہ ایک بکری کا ہی سہی۔

(صحیح البخاری کتاب البیوع باب وقول اللّٰہ تعالیٰ واحل اللّٰہ البیع الخ حدیث 2048-2049)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے آپ کو اس حالت میں بھی دیکھا کہ اگر میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو امید کرتاکہ نیچے سونا یا چاندی ملے گی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت میں اتنی برکت رکھ دی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 93 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ غزوۂ بدر، اُحد سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 95 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

جنگِ بدر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ مَیں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں چھوٹی ہیں۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہوتا جو ان سے زیادہ جوان اور تنو مند ہوتے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا ہاں بھتیجے !تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ سے اس کی آنکھ جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدّر ہے۔ مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا۔ حضرت عبدالرحمٰن کہتے ہیں پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا۔ ابھی تھوڑا عرصہ گذرا ہو گا کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا۔ میں نے کہا دیکھو یہ ہے تمہارا وہ ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اسے اتنا مارا کہ اس کو جان سے مار ڈالا اور پھر لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے۔ دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیاتم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے تلواروں کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے۔ اس کا سامانِ غنیمت مُعَاذ بن عَمْرو بن جَمُوْح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام مُعَاذ تھا۔ مُعَاذ بن عَفْراء اور مُعَاذ بن عَمْرِو بن جَمُوْح۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

ابوجہل کے قتل کے سلسلہ میں یہ وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے۔ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ بعض روایات میں ہے کہ عَفراء کے دو بیٹوں مُعَوِّذؓ اور مُعَاذؓ نے ابو جہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا اور بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ امام ابنِ حَجَر نے اس احتمال کا اظہارکیا ہے کہ مُعَاذ بن عَمْرو اور مُعَاذ بن عَفْراء کے بعد مُعَوِّذ بِن عَفْراء نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔ یہ بھی شرحِ بخاری فتح الباری میں لکھا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب حدیث 3141، کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3961-3962) (فتح الباری شرح صحیح بخاری جزء 7 صفحہ 295-296المکتبة السلفیة)

اس واقعے کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ابوجہل جو مکہ کے تمام گھرانوں کا سردار اور کفار کی فوج کا کمانڈر تھا جب بدر کی جنگ کے موقعے پر وہ فوج کی ترتیب کر رہا تھا حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ جیسا تجربہ کار جرنیل کہتا ہے کہ میں نے اپنے دائیں بائیں دو انصاری لڑکوں کو دیکھا جو پندرہ پندرہ سال کی عمر کے تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر کہا آج دل کی حسرتیں نکالنے کا موقع نہیں۔ بدقسمتی سے میرے ارد گرد ناتجربہ کار بچے اور وہ بھی انصاری بچے کھڑے ہیں جن کو جنگ سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ مَیں اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ دائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی۔ مَیں نے سمجھا کہ دائیں طرف کا بچہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور میں نے اس کی طرف اپنا منہ موڑا۔ اس نے کہا چچا ذرا جھک کر بات سنو۔ میں آپ کے کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں تا کہ میرا ساتھی اس بات کو سن نہ لے۔ وہ کہتے ہیں جب مَیں نے اپنا کان اس کی طرف جھکایا تو اس نے کہا چچا وہ ابوجہل کون سا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر دکھ دیا کرتا تھا۔ چچا میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں اس کو ماروں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس کی یہ بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ میرے بائیں پہلو میں کہنی لگی اور مَیں اپنے بائیں طرف کے بچہ کی طرف جھک گیااور اس بائیں طرف والے بچہ نے بھی یہی کہا کہ چچا وہ ابوجہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا دکھ دیا کرتا تھا؟ میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اس کو ماروں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ ابوجہل جو فوج کا کمانڈر تھا، جو تجربہ کار سپاہیوں کے حلقہ میں کھڑا تھا اس کو میں مار سکتا ہوں۔ میں نے انگلی اٹھائی اور ایک ہی وقت میں ان دونوں لڑکوں کو بتایا کہ وہ سامنے جو شخص خود پہنے زرہ میں چھپا ہوا کھڑا ہے جس کے سامنے مضبوط اور بہادر جرنیل ننگی تلواریں اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں وہ ابوجہل ہے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ میں ان کو بتاؤں کہ تمہارے جیسے ناتجربہ کاربچوں کے اختیارسے یہ بات باہر ہے مگر وہ، (عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ) میری وہ انگلی جو اشارہ کر رہی تھی ابھی نیچے نہیں جھکی تھی کہ جیسے باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے اسی طرح وہ دونوں انصاری بچے کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے ابوجہل کی طرف دوڑنا شروع ہوئے۔ ابوجہل کے آگے عکرمہ اس کا بیٹا کھڑا تھا جو بڑا بہادر اور تجربہ کار جرنیل تھا مگر یہ انصاری بچے اس تیزی سے گئے کہ کسی کووہم و گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ کس مقصد کے لیے یہ آگے بڑھے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ابوجہل پر حملہ کرنے کے لیے کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے عین پہرہ داروں تک جا پہنچے۔ ننگی تلواریں اپنے ہاتھ میں لیے جو پہرے دار کھڑے تھے وہ وقت پر اپنی تلواریں بھی نیچے نہ لا سکے۔ صرف ایک پہرے دار کی تلوار نیچے جھک سکی اور ایک انصاری لڑکے کا بازو کٹ گیا مگر جن کو جان دینا آسان معلوم ہوتا تھا ان کے لیے بازو کا کٹنا کیا روک بن سکتا تھا۔ جس طرح پہاڑ پر سے پتھر گرتا ہے اسی طرح وہ دونوں لڑکے پہرہ داروں پر دباؤ ڈالتے ہوئے ابوجہل پر جا گرے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کفار کے کمانڈر کو جا گرایا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں جنگ کے آخری وقت میں وہاں پہنچا جہاں ابوجہل جان کندنی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا سناؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا مر رہا ہوں۔ پر حسرت سے مر رہا ہوں کیونکہ مرنا تو کوئی بڑی بات نہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ دل کی حسرت نکالنے سے پہلے انصار کے دو چھوکروں نے مجھے مار گرایا۔ مکہ کے لوگ انصار کو بہت حقیر سمجھا کرتے تھے۔ اس لیے اس نے افسوس کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور کہا یہی حسرت ہے جو اپنے دل میں لیے مر رہا ہوں کہ انصار کے دو چھوکروں نے مجھے مار ڈالا۔ پھر وہ ان سے کہنے لگا میں اس قدر شدید تکلیف میں ہوں۔ عبداللہ بن مسعود کو ابوجہل نے کہا کہ میں بڑی شدید تکلیف میں ہوں۔ کیا تم مجھ پر، میرے پر ایک احسان کروگے۔ اگر تلوار کے ایک وار سے میرا خاتمہ کر دو مگر دیکھنامیری گردن ذرا لمبی کاٹنا کہ جرنیل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی گردن لمبی کاٹی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کی یہ بات تو مان لی کہ مجھے قتل کر دو اور اس دکھ سے بچا لو مگر انہوں نے ٹھوڑی کے پاس سے اس کی گردن کوکاٹا۔ گویا مرتے وقت اس کی یہ حسرت بھی پوری نہ ہوئی کہ اس کی گردن لمبی کاٹی جائے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 100-101)

حضرت مصلح موعودؓنے قربانیوں کے ضمن میں یہ ذکر، یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح بچوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت تھی اور کس طرح آپؐ کے دشمن سے وہ بدلہ لینا چاہتے تھے۔

یہ واقعہ پہلے بھی ایک دو دفعہ بیان ہو چکا ہے لیکن بہرحال یہ قربانیاں تھیں، یہ محبت تھی اور ان سب کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عشق تھا جس کی وجہ سے ان کو اپنی جانوں کی پروا نہیں تھی۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا باقی ذکر جو ہے ان شاء اللہ آئندہ کروں گا۔

(الفضل انٹر نیشنل 03؍جولائی 2020ء صفحہ 5تا9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button