سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا بیان(حصہ دوم)آخری سیر

(گذشتہ سے پیوستہ) خدانے جو کام اپنے اس رسول کے سپرد کیا تھاوہ اب مکمل ہو چکا تھا۔ اس کے اشارے اور اس کا اظہار تو ان دنوں میں مسلسل ہورہاتھا۔ اوراس آخری دن میں توگویاایک اعلان و اظہار عام تھا۔ ایک اَور راوی کی روایت ہم دیکھتے ہیں۔ اس میں آخری روزکی سیرکے روٹ کابھی علم ہوگا۔ حضرت قاضی محبوب عالم صاحبؒ جو کہ لاہورکے اس قیام میں روزانہ بائیسکل پرسیرکے اس قافلہ کے ساتھ ساتھ ہوتے وہ بیان فرماتے ہیں :

’’عصرکاوقت تھا۔ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ چلوسیرکوچلیں۔ میں باہربرآمدے میں کھڑاسن رہاتھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا چند سطریں رہ گئی ہیں پھرہماراکام ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ حضورکوئی آدھ گھنٹے کے بعد فارغ ہوگئے۔ اورجب باہرتشریف لائے تو ایک صاحب کومخاطب کرکے فرمایا آج ہم نے اپناکام ختم کردیا ہے۔ پھرفٹن پرسوارہوکرسیرکوتشریف لے گئے۔ ٹھنڈی سڑک سے ہوکرانارکلی میں تشریف لائے۔ مجھے حکم دیا کہ کیسری کی دوکان پرفٹن کھڑی کرنا۔ چنانچہ کیسری کی دوکان پرجب ہم پہنچے… فٹن کھڑی کرکے حضورنے فرمایا کہ لیمن کی دوبوتلیں تھوڑی سی برف ڈال کر لائیں۔ چنانچہ میں نے دوبوتلیں مع برف حضرت کی خدمت میں پیش کیں۔ ایک حضرت نے اور دوسری ام المومنین نے نوش فرمائی۔ ‘‘

(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ244)

گھرکے ایک فردمطہرکی روایت ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں :

’’آپ (سیدنا حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام) وسط صحن میں بستر پربیٹھ کرآخری شام دیرتک (پیغام صلح کا) مضمون لکھتے رہےتھے۔ آپ کے چہرہ مبارک پرایک خاص جوش اور ایک خاص سرخی تھی اورقلم معمول سے زیادہ ترتیزتھا۔ مجھے اس وقت آپ کے بیٹھ کراس انہماک اور تیزی سے لکھنے پراپنا خواب یادآیاتھا۔ جومیں آپؑ کوسناچکی تھی۔ اوروہم آیا جس کوبارباردل سے دورکرنے کی کوشش کی تھی۔ یہی خیال آتاتھا کہ اس خواب میں آپ اسی طرح بسترپربیٹھے اس رنگ میں لکھ رہے تھے۔ میں نے لاہورآنے سے کچھ عرصہ ہی پہلے خواب دیکھاتھاکہ

’’میں نیچےاپنے صحن میں ہوں اورگول کمرہ کی طرف جاتی ہوں تووہاں بہت سے لوگ ہیں جیسےکوئی خاص مجلس ہو۔ مولوی عبدالکریم صاحب ؓدروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہوکہ رسول کریم (ﷺ) اورصحابہؓ تشریف لائے ہیں آپؑ کوبلاتے ہیں۔ میں اوپرگئی اور دیکھاکہ پلنگ پربیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے تھے اورایک خاص کیفیت آپؑ کے چہرہ پرہے پُرنوراورپُرجوش۔ میں نے کہا ابامولوی عبدالکریمؓ کہتے ہیں رسول کریمﷺ صحابہؓ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اورآپؑ کوبلارہے ہیں۔ آپ نے لکھتے لکھتے نظراٹھائی اورمجھے کہا کہ ’’جاؤکہو یہ مضمون ختم ہوا اورمیں آیا۔ ‘‘ ٹھیک یہی الفاظ تھے اوروہی نظارہ میری آنکھوں میں اس آخری شام کوپھرگیا۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلددوم ص 543-544)

مرض الموت کا آغاز

حضرت اقدس علیہ السلا م سیر سے واپس تشریف لائے۔ حضورنے مغرب اورعشاء کی نمازیں ادا فرمائیں پھر تھوڑا سا کھانا تناول فرمایا اورآرام کے لئے لیٹ گئے۔

حضور علیہ السلام کو اسہال کی بیماری بہت دیر سے تھی اورجب آپ کوئی دماغی کام زور سے کرتے تھے تو یہ عارضہ ہوجاتا تھا جس سے نبض ساقط ہوجاتی تھی اور عموماً مشک کے استعمال سے واپس آجاتی تھی۔ محترم ڈاکٹربشارت احمدصاحب جنہیں حضورؑ کے معالج رہنے کی بھی سعادت میسرہوئی۔ وہ تحریرکرتے ہیں:

’’حضرت اقدسؑ کوچونکہ شب وروز دماغی محنت سے کام تھااس لئے سالہاسال سے آپ اعصابی کمزوری کانشانہ بن گئے تھے۔ جسے ڈاکٹری کی اصطلاح میں Neurastheniaکہتے ہیں۔ اس مرض کادورہ اس وقت نمودارہوتاتھاجب آپ کوئی دماغی محنت کرتے تھے۔ چنانچہ جب کوئی معرکۃ الآراء تصنیف یالیکچرتیارکرتے تب ہی یہ دورہ پڑجاتاتھا…حضرت اقدس کویہ دورہ یہ دوطریق پرہوتاتھا۔ (1) یاتواوپرکے دھڑ پر اثر پڑتا تھا۔ اس صورت میں دوران سرہونے لگتاتھایعنی چکرآتے تھےاوردل گھٹنے لگتاتھااورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے اورنبض بہت کمزورپڑجاتی تھی اس کے لئے آپ کومشک بہت مفید رہتا تھا۔ ایسے موقعہ کے لئے ہی آپ اکثراپنے پاس مشک رکھاکرتے تھے۔ (2)اور یا نیچے کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور وہ اس طرح کہ دورہ کے وقت کبھی پیشاب کثرت سے آنے لگتا تھا اورکبھی ایسا ہوتا کہ اسہال شروع ہوجاتے تھے۔ پیشاب کی کثرت شروع ہوتی تھی تو اس قدرکہ دس دس منٹ کے بعد پیشاب بڑی مقدار میں آنے لگتا تھا اور اسہال شروع ہو جاتا تھا تو ایسا کہ بغیرکسی ثقیل غذا کھانے کے دست پر دست آتے جن سے ضعف از حد ہو جاتا تھا۔ یاد رہے کہ آپ کی غذا بہت کم تھی اوراخیرمیں توبہت ہی ہلکی غذاکھانے لگے تھے۔ اورثقیل اورمرغن غذاسے بالکل پرہیزفرماتےتھے۔ میں یعنی بشارت احمد چونکہ خود ڈاکٹرہوں اورحضرت اقدس کوان کی علالت کےدوران میں دیکھتارہاہوں اس لئے سنی سنائی بات نہیں عرض کررہا۔ بلکہ دیکھی بھالی پختہ بات عرض کررہاہوں۔ ‘‘

(مجدداعظم جلد2ص 1207-1208)

بہرکیف لاہور آکر بھی دوتین دفعہ اس بیماری کا حملہ ہوا مگر پھر طبیعت بحال ہوگئی لیکن اس روزیعنی 25مئی کی شا م کوحضورعلیہ السلام کھاناکھانے کے بعد لیٹ گئے توکچھ دیربعد آپ کو حاجت محسوس ہوئی جس کے بعد تھوڑی دیر تک حضور کو دبایا جاتا رہا اورآپ آرام سے لیٹ کر سوگئے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اورکوئی گیارہ بجے کے قریب طبیعت بے حد کمزورہوگئی حضورعلیہ السلام نے حضرت ام المومنین کو جگایا ۔آپ اٹھیں اور حضورعلیہ السلام کے پاؤں مبارک کو دبانا شروع کیا۔ ضعف زیادہ ہونے پر حضرت ام المومنین علیہا السلام نے پوچھا کیا مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب) کو بلالیں ؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا بلالو۔ نیز فرمایا۔ محمود کو جگالو۔ چنانچہ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب حاضر ہوگئے۔ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اورڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوالیا گیا۔ انہوں نے پہنچ کرسلام عرض کیاتو حضورعلیہ السلام نے مرزا یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ڈاکٹرصاحب علاج تواب خداہی کے ہاتھ میں ہے مگر چونکہ رعایت اسباب ضروری ہے وہ بھی کریں۔ مگرساتھ ہی دعائیں بھی کریں۔ ‘‘ ڈاکٹروں کے مشورہ سے ادویات دی گئیں۔ اور بعض انگریزماہرین اورسول سرجن کے مشورہ سے انجیکشن کرنے کا فیصلہ بھی کیاگیا۔ جوحضورکے بائیں پہلو کی پسلیوں میں دل کے اوپر کیاگیا۔ رات تین بجے کے قریب ایک آخری اسہال حضورکوہواجس سے کمزوری زیادہ ہوگئی۔ اورتب دوبارہ انجکشن اسی جگہ یعنی دل کے قریب کیاگیا۔

خاندان کے افراد آپ کی چارپائی کے گرد جمع تھے۔ اور دعاؤں میں مصروف، حضرت اماںجانؓ جو خدا کے حضور مسلسل دعاؤں میں مصروف تھیں اور وقفہ وقفہ سے حضورپرنور کے دہن مبارک میں گلاب کیوڑہ یا شہد وغیرہ ڈالتیں اور خدا کے حضورعرض کناں ہوتیں:

’’اے خدامیری عمربھی ان کے دے دے، ان کومدتوں تک زندہ سلامت رکھ تا تیرے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکیں۔ ‘‘

انہیں دعاؤں اورفریادوں میں دورکہیں سے آوازسنائی دی

…اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَشْہَدُ اَن لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہ…

اللہ سب سے بڑاہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے علاوہ جوبھی ہے وہ ادنیٰ اور اس اعلیٰ ہستی پرقربان ہوجانے والی ہے۔ باقی سب فانی اور اس کوفنانہیں ہے۔ عبادت کے لائق وہی ہے۔ اس کے رسول اس کے سب سے پیارے ہیں۔ جن کی خاطراس نے یہ ساری کائنات بنائی ہے۔ لیکن ان کوبھی بقانہیں وہ بھی ایک وقت آتاہے کہ اس دنیاسے چلے جاتے ہیں۔ باقی… رہے نام اللہ کا!!

یہ فجرکی اذان کی آوازتھی۔ باوجود اس کے حضورپرکمزوری اورضعف کاغلبہ تھا لیکن ہونٹوں میں جنبش ہوئی اور فرمایا’’کیاصبح ہوگئی یااذان ہوگئی؟ ‘‘حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب نے عرض کیاحضوراذان ہوگئی۔ اس پرحضورنے تیمم کرکے نمازشروع کی لیکن غشی سی طاری ہوگئی اور نماز مکمل نہ ہوسکی اور کچھ دیر بعد پھر پوچھا کہ صبح کی نماز کا وقت ہوگیا؟ عرض کیا گیا حضور ہوگیا ہے۔ توآپ نے پھرنمازشروع کی اورلیٹے لیٹے نمازاداکی۔

رعایت اسباب کے تابع علاج بھی جاری تھا۔ اور ہرموجود فرد مجسم دعاوالتجا بھی بنا ہوا تھا۔ لیکن

’’اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِہَامُہَا‘‘

خدائی تقدیر غالب آتی جارہی دکھائی دے رہی تھی۔ زبان اور گلے میں قدرے خشکی بھی پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ لیکن حضرت اقدسؑ کے وردزبان یہی الفاظ تھے جوہرسننے والاسن سکتاتھا۔ اوروہ یہ تھے:

’’اللہ میرے پیارے اللہ‘‘

روشنی ہونے پرحضرت اقدس کی چارپائی صحن سے اٹھاکرکمرے میں کردی گئی تھی۔ غالباً آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے، ایک روایت کے مطابق ساڑھے سات بجے اورایک روایت کے مطابق قریباً 9بجے کے قریب حضرت کی بڑھتی ہوئی کمزوری کے مدنظر پوچھاگیا۔ حضورؑ نے کاغذ قلم منگوایا اور بائیں ہاتھ پر سہارالے کر بستر سے کچھ اٹھے۔ حنائی رنگ کے کاغذ پرحضورنے حسب عادت اسے تہ کرکے دوچھوٹی چھوٹی سطریں تحریرفرمائیں۔ لیکن کمزوری کی بنا پرقلم پھسل گیااور مکمل طورپرلکھ نہ سکے۔میرمہدی حسین صاحب جووہاں موجودتھے اورحضورؑ کی تحریرکوپڑھنے کی مشق بھی تھی انہوں نے یہ تحریرجوپڑھی اس کے مطابق حضرت اقدسؑ نے لکھا:

’’تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی۔ دوائی پلائی جائے۔ ‘‘

(یہ کاغذ کم وبیش پانچ ماہ تک حضرت پیرمنظورمحمدصاحبؓ کے پاس رہااورپھرحضرت اماں جان ؓنے منگوالیا) نوبجے کے بعد حضورعلیہ السلام کی حالت زیادہ تشویشناک ہوگئی اور تھوڑی دیر کے بعد نزع کی حالت طاری ہوگئی۔ غرغرہ میں کوئی آواز وغیرہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور کھچ کھچ کر آتاتھا۔

حضرت ام المومنینؓ اس وقت دعا میں مصروف تھیں۔ اب جبکہ نزع کا آخری وقت بالکل قریب تھا۔ مجسم صبروتحمل اور خدائے واحد ویگانہ کے حضوریوں عرض کرنے لگیں کہ :

’’اے میرے خدا! اے ہمارے پیارے اللہ ! یہ تو ہمیں چھوڑے جاتے ہیں تُو ہمیں نہ چھوڑیو۔ ‘‘

چارپائی کے سرہانے ایک اوروجودبھی کھڑاتھا۔ مجسم دعا، یاحی یاقیوم، کاوردکرتے ہوئے۔ باقی وہی ہمیشہ غیراس کے سب ہیں فانی! کی ابدی حقیقت کودعاؤں اورتاریخی عہدکے ساتھ عزم واستقلال اور صدق ووفاکی چٹان بنے ہوئے …یہ حضرت محمود تھے۔ رضی اللہ عنہ

محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حافظ فضل احمد صاحب چارپائی کے قریب ہی سورۃ یٰسین پڑھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہرآن سانس کے درمیان کا وقفہ لمبا ہوتا گیا۔تنفس میں سرعت اور بے قاعدگی ہونے لگی۔اورچاشت کے وقت قریباً ساڑھے دس بجے حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی نے حضورؑ کے آخری سانس کی حرکت کو بند ہوتے ہوئے محسوس کرلیااور بے اختیاراونچی آواز میں مونہہ سے نکلا

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

خدا کا یہ منتخب رسول ، قرآن کا فدائی ، اسلام کا شیدائی ، محمد مصطفیﷺ کا عاشق جانثار او ر دین محمدی کا فتح نصیب جرنیل اپنے اہل بیت اور اپنے عشاق کو سوگوار اورافسردہ چھوڑ کر اپنے آسمانی آقا کے دربار میں حاضر ہوگیا۔

دے چکے دل اب تن خاکی رہا

ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا

مؤرخہ 26مئی 1908ء منگل کادن،

24ربیع الثانی 1326ھ بمقام احمدیہ بلڈنگس لاہور

(ماخوذازسیرت المہدی جلددوم ص413-418وتاریخ احمدیت جلددوم)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button