الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

مُردہ کون ہے؟

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔ 2010ء) میں سورۃالبقرہ آیت 155کی تفسیر بیان فرمودہ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے ایک اقتباس (مرسلہ: مکرمہ ریحانہ بشریٰ صاحبہ) شامل اشاعت ہے۔

حضورؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کام جاری رکھنے والے لوگ پیچھے باقی ہوں اُس کی نسبت بھی کہتے ہیں: مَامَاتَکہ وہ مرا نہیں۔ مُردہ اُسے کہتے ہیں جو مرے اور اس کا کوئی اچھا اور نیک قائم مقام نہ ہو۔چنانچہ عبدالملک بادشاہ نے زہریؔ کے ایک مدرسہ کا معائنہ کرتے ہوئے طالب علم اصمعیؔ (جو مشہور نحوی ہوئے) سے کوئی سوال پوچھا اور جواب سُن کر زہریؔ سے کہا: مَامَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْلَکَ کہ وہ شخص نہیں مرا جس نے ایسے لوگ پیچھے چھوڑے ہوں جیسا کہ تُو نے چھوڑے ہیں۔ یعنی وہ لوگ مُردہ نہیں کہلاسکتے کہ جس کام کے لئے انہوں نے جان دی ہے اُس کو چلانے والے اَور لوگ موجود ہوں اور ایک کے مرنے پر دو اُس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوں۔اور وہ قوم کبھی مرتی نہیں جس کے افراد اپنے شہداء کی جگہ لیتے چلے جائیں۔ جو قوم اپنے قائم مقام پیدا کرتی چلی جاتی ہے وہ خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو اسے کوئی مار نہیں سکتا۔

………٭………٭………٭………

مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن انور صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ امۃالحفیظ شوکت صاحبہ نے اپنے مرحوم شوہر محترم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب شہید کا ذکرخیر کیا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 31؍جنوری 2020ء کے شمارے کے کالم ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں کیا جاچکا ہے۔

مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب 14؍جون 1936ء کو قادیان میں محترم عبدالرحمٰن انور صاحب (سابق پرائیویٹ سیکرٹری و انچارج تحریک جدید) کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت محمد عبداللہ بوطالوی رضی اللہ عنہ تھے جنہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر ربوہ کی بنیاد رکھنے کے وقت ربوہ کے ایک کونے پر بکرا ذبح کرنے کی سعادت بھی ملی تھی۔

مکرم ڈاکٹر صاحب صرف 49 سال کی عمر میں سکھر کے نواحی قصبے میں شہید کردیے گئے۔ آپ اس قصبے میں اکیلے احمدی تھے۔ بہت عرصے سے آپ کو دھمکی آمیز خطوط مل رہے تھے کہ اس جگہ کو چھوڑ دو ورنہ مار ڈالیں گے۔ گھر کی دیوار پر بھی بارہا گالیاں اور دھمکیاں لکھ دی جاتیں۔ شہید مرحوم کی والدہ نے گھبراکر کبھی آپ سے قصبہ چھوڑ دینے کو کہا تو آپ نے کہا کہ اگر سندھ کی زمین میرا خون مانگتی ہے تو مَیں ہنس کر دوں گا اور اگر مَیں یہ علاقہ چھوڑ دوں تو یہاں کوئی احمدی نہیں ہوگا۔

ایک روز آپ کے ملازم نے بتایا کہ مولویوں نے اُن لوگوں کی ایک لسٹ تیار کی ہے جنہیں قتل کرنا ہے، اُس لسٹ میں آپ کا بھی نام ہے۔ آپ نے ہنس کر کہا کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ قبر میں ہی آئے گی۔

ایک روز اسکوٹر پر اپنے بیٹے کے ساتھ جب آپ جمعہ پڑھنے سکھر جارہے تھے تو ایک ویران جگہ پر سڑک بلاک کرکے آپ کو روک لیا گیا۔ درختوں میں سے تین نوجوان لڑکے (جن کی عمریں تقریباً اٹھارہ برس تھیں) کلہاڑیاں اور پستول لیے آپ کی طرف بڑھے تو آپ نے اُن کو للکار کر کہاکہ تم مجھے نہیں جانتے۔ وہ گھبراکر پیچھے ہٹے تو اسی اثناء میں آپ اسکوٹر بھگاکر وہاں سے نکل گئے۔ پولیس میں رپورٹ درج ہوئی۔ وہ لڑکے گرفتار ہوئے اور پھر رہا کردیئے گئے۔ اس پر جماعت کی طرف سے آپ کو حفاظت کے لیے خدام مہیا کرنے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن آپ نے کہا کہ مَیں تو ڈاکٹر ہوں اور مجھے ہر جگہ جانا ہوتا ہے اس لیے یہ مشکل ہوجائے گی۔ پھر آپ نے ایک مقامی زمیندار سے پوچھا کہ کیا مجھے قتل کرنے کی کوئی سازش ہورہی ہے؟ اُس نے کہا کہ میرے قصبے میں یہ کبھی نہیں ہوگا لیکن باہرکا مجھے معلوم نہیں۔

کچھ عرصے بعد جب سکھر میں جمعہ ادا کرکے واپس آتے ہوئے آپ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ دو احمدی احباب ملازمت سے ریٹائر ہوکر ربوہ جارہے ہیں، اُن کی دعوت کرنے کے لئے بازار سے کچھ خرید لیتے ہیں۔ پھر آپ نے بازار پہنچ کر ایک بیکری سے سٹول لے کر اپنی اہلیہ کو کہا کہ تم کھڑی کھڑی تھک جاؤگی اس پر بیٹھ جانا۔ اور خود گوشت خریدنے چلے گئے۔ جب کافی دیر تک واپس نہ آئے تو آپ کی اہلیہ کو گھبراہٹ ہوئی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ اسی اثناء میں وہاں سے دو تین آدمی باتیں کرتے ہوئے گزرے کہ عبدو کے معزز ڈاکٹر کو قتل کردیا گیا ہے۔ میرے منہ سے نکلا کہ وہ میرے شوہر ہیں، مجھے وہاں لے چلو۔ وہ کچھ دُور مجھے لے گئے جہاں میرے شوہر خون میں لت پت گرے ہوئے تھے۔ مَیں نے اُن کو اٹھایا، ہلایا، آوازیں دیں مگر شاید وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ میرے شور مچانے پر صرف ایک سبزی فروش میرے پاس آیا اور میرے شوہر کو پہچان کر کہنے لگا کہ یہ تو بڑے اچھے انسان ہیں۔ اُس کے پوچھنے پر مَیں نے کہا کہ مجھے احمدیہ مسجد پہنچادو۔ مسجد قریب ہی تھی۔ مَیں مربی صاحب کے سامنے اس حالت میں گئی کہ میرے ہاتھ پاؤں اور برقعہ پر جگہ جگہ میرے شوہر کا خون لگا ہوا تھا۔ مربی صاحب نے پریشانی سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ صدمے سے مَیں بول نہیں سکی صرف خون سے بھرے ہوئے ہاتھ اُن کے سامنے کردیئے۔ سبزی والے نے ساری بات اُن کو بتائی تو وہ مجھے اپنی بیوی کے حوالے کرکے بازار کی طرف بھاگے۔ پھر کئی احمدی بھی وہاں اکٹھے ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب کی نعش کو ربوہ لاکر پہلے شہداء کے قبرستان میں اور تین سال بعد بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا۔

شہید مرحوم نے شہادت سے پہلے زخمی ہونے کی حالت میں اپنے خون سے سامنے والی دیوار پر ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ’’ لکھا اور قاتلوں سے کہا کہ اسی کلمے کی وجہ سے تم مجھے مارتے ہو، یہ مجھے اتنا عزیز ہے کہ آج مَیں اسے اپنے خون سے لکھتا ہوں۔ پولیس نے اس واقعہ کی رپورٹ تو درج کرلی لیکن کسی کو نہیں پکڑا گیا۔ اخباروں میں ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبریں شائع ہوئیں تو کئی غیرازجماعت معززین بھی تعزیت کے لئے گھر آئے۔

شہید مرحوم کی اہلیہ مزید بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر کی شہادت سے تین ماہ قبل میری بیٹی کی شادی ہوئی تھی جبکہ بیٹے محمودالرحمٰن انور کی عمر14سال تھی۔ میرے شوہرصوم و صلوٰۃ کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ ہماری ازدواجی زندگی 23سال رہی۔ اس عرصے میں مجھے کبھی انہوں نے نہ ڈانٹا نہ اونچی آواز میں بات کی۔ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کی مثال دے کر وہ کہتے تھے کہ اللہ کرے کہ سب کی ایسی ہی ہو۔ شہادت سے قبل اُن کو کچھ احساس ہوگیا تھا۔ ایک دن سودا خرید کرلائے جو موٹرسائیکل پر رسّی سے بندھا ہوا تھا۔ حسب سابق ملازم اس کو کھولنے لگا تو انہوں نے کہا کہ آج بیگم صاحبہ کھولیں گی۔ مجھ سے رسّی نہ کھلی تو مَیں نے قینچی سے کاٹ دی۔ آپ ہنس کر کہنے لگے ایک رسّی تو تم سے کھلتی نہیں میرے بعد تم کیا کروگی؟ مَیں نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں؟ کہنے لگے: زندگی کا کیا پتہ!۔ پھر شہادت سے کچھ پہلے چاول خرید کر لائے تو کہا کہ پتہ نہیںیہ میرے نصیب میں ہیں کہ نہیں۔ مَیں نے کہا کہ آپ کی ایسی باتوں سے مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے اور خوف آتا ہے۔

شہید مرحوم کی والدہ نے بہت صبر کے ساتھ بیٹے کی شہادت کا صدمہ برداشت کیا۔ وہ رات کو تہجد میں بہت روتی تھیں لیکن کسی کے سامنے نہیں روتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی کہتیں کہ کیوں روتے ہو، میرا بیٹا تو زندہ ہے۔

شہید مرحوم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بہت حسن سلوک کرتے تھے۔ غریب ، بیوائیںا ور یتیم اُن کی مدد سے حصہ پاتے جنہیں وہ اپنی گرہ سے دوائیں بھی خرید کردے دیتے۔ شہادت کے بعد اُن کی ڈائری سے معلوم ہوا کہ انہوں نے چار بے سہارا بوڑھوں کا وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا۔ آپ موصی تھے لیکن ہمیشہ زائد ادائیگی کرتے تھے۔ بچوں کو جیب خرچ دے کر کہتے کہ اپنا چندہ خود ادا کرو۔ آپ سکھر میں قائد ضلع خدام الاحمدیہ بھی رہ چکے تھے۔

………٭………٭………٭………

شب قدر کا خونی ڈرامہ اور قہری تجلّی

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ‘‘خدیجہ’’(شمارہ 2۔ 2010ء) میں مکرم فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے محترم ریاض احمد صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ17؍جولائی1998ءاور10؍اپریل 2020ء کے شماروں کے ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں کیا جاچکا ہے۔ زیرنظر مضمون میں بیان کردہ چند اضافی حقائق درج ذیل ہیںجو دراصل خداتعالیٰ کی طرف سے بعض قہری تجلّیاں ہیں جن کا ظہور محترم ریاض احمد صاحب کی ظالمانہ شہادت کے بعد ہوا۔

قہری تجلّی کا نشانہ پہلا شخص زمان خان بنا جس نے اپنی سنگ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے شہید مرحوم کی ٹانگوں میں رسّی باندھی تھی جس کے بعد شہید مرحوم کی نعش کو سربازار کھینچا جاتا رہا۔ زمان خان ایک ہٹاکٹا مضبوط جسم کا پٹھان تھا۔ واقعہ شہادت سے چند روز بعد جب وہ بازار میں کھڑا کباب کھا رہا تھا تو اُس کی ٹانگیں لرزنے لگیں اور وہ وہیں گر کر تڑپنے لگا اور کچھ ہی دیر میں اُس کی جان نکل گئی۔ چونکہ لوگوں کو معلوم تھا کہ شہید مرحوم کی ٹانگوں میں رسّی باندھنے والا یہی شخص تھا اس لئے لوگ اسے خدائی عذاب سمجھ کر توبہ توبہ کرنے لگے۔

خدا تعالیٰ کے قہری انتقام کا دوسرا نشانہ شہید مرحوم کا بھائی خادم حسین بنا جس نے احمدیت کے خلاف فسادات کو ازسرنَو بھڑکایا تھا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ واقعہ شہادت کے آٹھ دس دن بعد پہلے اُسے لقوہ ہوگیا اور پھر فالج بھی ہوگیا اور چہرہ خوفناک نظر آنے لگا۔ 1995ء کے جلسہ سالانہ لندن کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے عبرتناک واقعات کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکر بھی فرمایا اور ریاض شہید کے سسر مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب کو سٹیج پر بلاکر تصدیق چاہی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خادم حسین کی شکل بگڑ کر اتنی خوفناک ہوچکی ہے کہ وہ اپنا منہ چھپاکر پھرتا ہے۔

حضورؒ نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نظارے انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی طور پر بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ چنانچہ جس طرح حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت کے بعد خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ انفرادی طور پر بھی لوگ بنے تھے لیکن چونکہ اس اجتماعی جرم میں عام شہری بھی شامل ہوئے تھے اس لئے کابل میں ہیضہ کی وبا پھوٹ جانے سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح ریاض شہید کے بعد انفرادی قہری تجلّیات کے علاوہ اجتماعی طور پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ سانحہ شب قدر کے چند روز بعد اس علاقے میں زبردست قبائلی جنگ بھڑک اٹھی جس میں مارٹرگنوں اور میزائلوںکا بکثرت استعمال ہوا اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے جبکہ سینکڑوں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

………٭………٭………٭………

شہدائے مونگ عزیزم یاسر احمد اور مکرم چودھری محمد اسلم کُلّاصاحب

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔ 2010ء) میں مکرمہ مبارکہ ارشد کُلّاصاحبہ نے اپنے چچا اور سسر مکرم چودھری محمد اسلم کُلّاصاحب اور اُن کے نوجوان بیٹے عزیزم یاسر احمد کا ذکرخیر کیا ہے۔ یہ دونوں17؍اکتوبر 2005ء کو نماز فجر کی ادائیگی کے دوران احمدیہ مسجد مونگ میں شہید کردیے گئے تھے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ اس سانحہ سے قبل ہم دونوں میاں بیوی نے بارہا پریشان کُن خواب دیکھے۔ ایک رات مَیں نے ایک ہی خواب دو بارہ دیکھا تو گھبراکر اپنے شوہر کو اٹھاکر بتایا۔ وہ بھی پریشان ہوکر کہنے لگے کہ کچھ دنوں سے مَیں بھی اس جیسے ملتے جُلتےخواب دیکھ رہا ہوں۔ چونکہ میرے سسر ہمارے ملنے کے لیے بہت اداس تھے اس لیے میرے شوہر نے مجھے اور بچوں کو پاکستان بھجوادیا جبکہ خود انہوں نے چند ہفتے بعد آنا تھا۔ مَیں اپنے بچوں کے ہمراہ پاکستان گئی ہوئی تھی۔ رمضان المبارک کا ایک جمعہ تھا کہ سحری کے بعد کچھ دیر کے لئے لیٹی تو غنودگی کی حالت میں دیکھا کہ ہماری ہمسائی مجھے زور زور سے جگاتے ہوئے کہتی ہے کہ آپ کو آپ کے چچا بلارہے ہیں۔ جب میری آنکھ کھلی تو سامنے میری بہن روتے ہوئے مجھے جگارہی تھی۔ اُس نے بتایا کہ کس طرح نماز کے دوران شرپسندوں نے مسجد میں نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کی ہے اور ہمارے کئی پیارے شہید اور بہت سے زخمی کردیے ہیں۔

جب مَیں نے اس سانحہ کے بارے میں بتانے کے لئے اپنے شوہر کو جرمنی میں فون کیا تو وہ اُس وقت یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ ایک کمرے میں دو تابوت رکھے ہیں۔ ایک کو وہ قبرستان چھوڑ کر آتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہاں دوسرا تابوت بھی تھا وہ کدھر ہے؟ اتنے میں رات تین بجے فون کی آواز سُن کر وہ گھبراگئے۔ مَیں نے فون پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور ہمت کرکے حال احوال کے بعد پوچھا کہ روزہ رکھ لیا ہے؟ کہنے لگے ابھی کافی ٹائم باقی ہے۔ پھر مَیں نے مسجد میں ہونے والے واقعہ کا بتایا اور کہا کہ چچاجان، یاسر اور میرے بڑے بھائی مکرم کیپٹن محمد ایوب صاحب شدید زخمی ہوئے ہیں، آپ آج ہی پاکستان آنے کی کوشش کریں۔ وہ پوچھنے لگے کہ پیچھے رونے کی آوازیں کیوں آرہی ہیں۔ میری ہمّت جواب دے گئی اور چچاجان کی شہادت کا بتادیا۔ پھر انہوں نے ایک کزن کو فون کیا تو اُس نے یاسر کی شہادت کا بھی بتادیا۔ وہ اگلے روز ہی غم سے نڈھال پاکستان پہنچے۔ بہت تکلیف دہ منظر تھا۔ ماں اور بیٹا ایک دوسرے کو تسلّیاں دے رہے تھے۔
چچا جان مکرم چودھری محمد اسلم کُلّاصاحب شہید اپنی ایک بہن اور چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وجیہ صورت اور دراز قدو قامت کے مالک تھے۔ اصولوں کے سخت لیکن دل کے نرم وجود تھے۔ 1993ء میں مونگ میں پہلا اسیر راہ مولیٰ بننے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل تھا۔ ہمیشہ مہذّب انداز میں بات کرتے۔ ہر چھوٹے بڑے کو ‘‘آپ ’’کہہ کر مخاطب ہوتے اور پکارتے ہوئے پورا نام لیتے۔علی الصبح اُٹھ کر نہاتے۔ بچوں کو بھی نماز کے لئے جگاتے اور نماز پڑھنے کے بعد کام پر چلے جاتے۔ نماز سنوار کر ادا کرتے۔ آخری سالوں میں باقاعدہ تہجد بھی ادا کرتے تھے۔ درودشریف ورد زبان رہتا۔ کام سے واپس آکر پھر نہاتے۔ بہت صفائی پسند اور نفیس طبیعت تھی۔اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اپنے والد محترم کے کپڑوں کا خاص خیال رکھتے اور اُن کی پگڑی کو مایا خود لگاتے۔ اپنے ایک مرحوم دوست کی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کیا اور شادی کے انتظامات اپنی نگرانی میں کروائے۔ پھر دلہن کو پیاراور دعا دے کر گھر چلے آئے کہ رخصتی کا منظر نہیں دیکھ سکتا بعد میں آؤں گا۔

اپنی بیوی اور سسرالی رشتہ داروں سے ہمیشہ حسن سلوک روا رکھا۔ اپنے بچوں سے حد درجہ محبت تھی۔ مَیں بچوں کو لے کر اپنے والدین کے ہاں جاتی تو تیسرے روز خود لینے آجاتے کہ گھر میں رونق نہیں ہے میرا دل گھبرا رہا تھا۔ میرے پاکستان پہنچنے کے بعد اپنے بیٹے کا انتظار تھا جنہوں نے تین ہفتے بعد آنا تھا۔ روز دن گنتے لیکن خداتعالیٰ کو اس دنیا میں یہ ملاقات منظور نہیں تھی۔

بہت صائب الرائے تھے اور اکثر خداداد فراست کی بِنا پر قبل از وقت واقعات کا صحیح اندازہ لگالیتے۔ بہت قابل قدر نصائح کرتے۔ اپنی بیٹی کو نصیحت کی کہ اگر تمہارے سسرال میں سے کوئی ملنے آئے تو بہت خاطرمدارات کرنا لیکن اگر میکے میں سے کوئی آئے تو جو گھر میں ہو اُس سے ہی تواضع کرنا اور کبھی خاوند سے مطالبہ نہ کرنا۔ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ جب اسیرراہ مولیٰ تھے تو مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں اپنی بیٹی کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ جواب آیا: ‘‘ملیحہ اسلم’’۔ آپ کو بتایا تو بہت خوش ہوئے کہ حضورؒ نے پوتی کے نام کے ساتھ آپ کا نام لگایا ہے۔

آپ کئی سالوں سے بیمار تھے۔ تین بار تو ایسا شدید بیماری کا حملہ تھا کہ ڈاکٹروں نے بھی مایوسی کا اظہار کردیا ۔ لیکن شاید اس عظیم سعادت کے لئے خداتعالیٰ نے آپ کو زندگی دے دی۔

شہید مرحوم کے بیٹے اور اپنے چچازاد بھائی عزیزم یاسر شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتی ہیں کہ عزیزم یاسر کی پیدائش بھی جمعے کے روز 19؍جنوری 1990ء کو ہوئی تھی اور شہادت بھی جمعے کے دن ہی ہوئی۔ اسے واقفینِ نَو میں پہلا شہید بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بوقت شہادت نویں کلاس کا طالبعلم تھا اور عمر 15 سال تھی۔صحت مند اور خوبرو تھا۔ فرمانبردار، نیک فطرت اور مثالی طفل تھا۔ نماز کبھی ضائع نہ کرتا۔ اطفال میں نماز کا مقابلہ ہوا تو اوّل آیا۔ خدام میں اوّل آنے والے عزیزم لہراسپ تھے۔ وہ بھی سانحہ مونگ میں شہید ہوئے۔

محلے والے کہتے تھے کہ یاسر نے کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔سلام میں پہل کرتا۔ خدمت دین اور خدمت خلق کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتا۔ جانے والوں کا دکھ تو رہے گا لیکن یہ عجیب الٰہی جماعت ہے کہ دنیا بھر سے لوگوں نے پیغامات کے ذریعے اور خود آکر بھی تعزیت کی اور شہدائے مونگ کی قبروں پر دعا بھی کی۔ انڈونیشیا سے آنے والی ایک خاتون مونگ آئیں تو روتے ہوئے کہا کہ مجھے سب شہیدوں کا دکھ ہے لیکن مَیں وقف نَو کے پہلے شہید کی ماں سے ملنے کے لئے اتنا تھکا دینے والا سفر کرکے آئی ہوں۔

سانحہ مونگ میں میرے بڑے بھائی محترم کیپٹن محمد ایوب کُلّا صاحب شدید زخمی ہوئے۔ اُن کی ایک ٹانگ مفلوج ہوگئی۔ دہشت گردی کے واقعے کے بعد جب خون میں لت پت تھے تو اُن کو اپنے عزیزوں کی شہادت کی اطلاع بھی ملی۔ اس حالت میں بھی کمال ہمّت اور حوصلے سے باتیں کررہے تھے۔ پریشان دیکھ کر تسلّی دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں بس دعا کی ضرورت ہے۔ خود بہت تکلیف میں ہونے کے باوجود دوسرے زخمیوں کو ہسپتال پہلے لے جانے کے لئے کہتے رہے اور خود سب سے آخر میں گئے۔

………٭………٭………٭………

مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب شہید مکرم شیخ مسعود جاوید صاحب شہید اور مکرم شیخ آصف مسعود صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔ 2010ء) میں مکرمہ عائشہ احمد صاحبہ نے اپنے شہید تایا، شہید والد اور شہید بھائی کا ذکرخیر کیا ہے جن کی کار پر یکم اپریل 2010ء کی رات فیصل آباد میں اُس وقت اندھادھند فائرنگ کی گئی جب وہ اپنی دکان بند کرکے واپس گھر آرہے تھے۔ مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میرے والد مکرم شیخ مسعود جاوید صاحب کو 21، تایا مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب کو 17 اور بھائی مکرم شیخ آصف مسعود صاحب کو 15گولیاں لگیں۔ میرے والد اور بھائی تو موقع پر شہید ہوگئے جبکہ تایا نے قریباً بیس منٹ کے بعد ہسپتال پہنچ کر جامِ شہادت نوش کیا۔ جب یہ اطلاع جرمنی میں ہمارے گھر میں دی گئی تو مجھے یہی بتایا گیا کہ تینوں زخمی ہیں۔ اُن دنوں ایسٹر کی چھٹیاں تھیں اور بچوں کے ویزے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان جانا ناممکن لگ رہا تھالیکن خداتعالیٰ نے ہر کام آسان کرکے ٹکٹوں کا بندوبست بھی کردیا۔ یہ تکلیف دہ سفر کیسے کٹا ……گھر پہنچ کر اپنے چچا کو جس حالت میں دیکھا تووہ خواب یاد آگیا جو مَیں دو ہفتے پہلے دیکھ چکی تھی کہ وہ نڈھال ہیں اور لوگ سہارا دے کر انہیں چلا رہے ہیں۔ پھر حادثے سے چار روز پہلے عجیب واقعہ ہوا کہ تہجد کے وقت ہمارے گھر کے دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ہم بہت پریشان ہوئے لیکن پھر خیال آیا کہ شاید خداتعالیٰ نماز کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔
میرے دادا مکرم شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم بہت پیارے انسان تھے۔ میری سہیلیوں سے بھی اس شفقت سے پیش آتے کہ وہ کہا کرتیں کہ کاش ہمارے دادا بھی ایسے ہوتے۔ وہ غرباء کا بہت خیال رکھتے اور خاموشی سے کئی گھروں کو خرچ دیتے تھے۔ کئی غریب بچیوں کی شادیاں کروائیں۔ نمازیں اوّل وقت میں باجماعت ادا کرتے۔ حضور کے خطبات شوق سے سنتے اور ہمیں بھی توجہ دلاتے۔یہی خوبیاں آگے اُن کی اولاد میں آئیں۔ 1974ء کے فسادات میں اُن کی دکان مراد کلاتھ ہاؤس جلادی گئی تو انہوں نے بچوں کو دعائیں کرنے اور ثابت قدم رہنے کی نصیحت کی۔ پھر خدا کا ایسا فضل ہوا کہ ایک کے بدلے کپڑے کی دو دکانیں بن گئیں اور تیسری دکان مراد جیولرز بھی بن گئی۔

ایک بار میرے دادا کو نماز پڑھنے کے جرم میں پکڑ کر پولیس گرفتار کرکے لے جانے لگی تو تایا جلدی سے جاکر دادا کو اُتار کر خود پولیس کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور اس طرح دس بارہ دن تک اسیر راہ مولیٰ رہنے کی سعادت پائی۔ اس دوران اذیّت ناک سلوک برداشت کیا۔ شدید گرمیاں تھیں اور نہ ملاقات کروائی جاتی اور نہ ہی گھر کا کھانا پہنچانے کی اجازت تھی۔ زمین پر سارا وقت بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا بلکہ سونا بھی اسی حالت میں پڑتا۔

میرے تایا مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب خدمت خلق میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا اور آپ کو پیغام ملتا تو آدھی رات کو بھی فوراً مدد کے لئے چل پڑتے۔ اگر کبھی گھر والے کہتے کہ سارا دن کام کے بعد اب گھر آئے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ لوگ اتنے مان کے ساتھ مجھے بلاتے ہیں مَیں اُن کا مان تو نہیں توڑ سکتا۔ آپ نے بارہا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنا نقصان کروالیا۔ غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے گھر کا ایک کمرہ راشن سے بھرا رہتا تھا۔ دکان پر کام کرنے والے ایک لڑکے کو بیٹا بنالیا۔ اُس کا ہر طرح سے خیال رکھا اور شادی بھی کروائی۔ نماز بہت اہتمام سے ادا کرتے اور باقاعدہ تلاوت قرآن کریم کرتے۔ روزانہ دعاؤں کا ورد بھی کرتے۔

میرے والد مکرم شیخ مسعود جاوید صاحب بھی بہت ہمدرد انسان تھے اور دوسروں کا بہت خیال رکھتے۔ دکان پر قریباً تیس ملازم تھے مگر کبھی کسی کو نہیں ڈانٹا۔ ایک دفعہ کسی لڑکے نے دوسروں کو بہت تنگ کیا تو اُسے نکال دیا۔ پھر خود ہی ادا س ہوگئے اور اُس کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ آخر ایک دن وہ واپس آگیا تو خدا کا شکر ادا کیا اور اُسے فوراً رکھ لیا۔ اسی طرح ایک بار میرے بھائی کی کسی ملازم سے بحث ہوگئی تو والد صاحب نے ملازم کو کچھ نہیں کہا لیکن اپنے بیٹے کو گھر بھجوادیا۔ رات کو جب بیٹے نے اس کا شکوہ کیا تو آپ نے سمجھایا کہ تم پر خدا کا فضل ہے اور گھر بیٹھ کر بھی کھا رہے ہو لیکن اگر اُس غریب کو گھر بھیج دیتا تو وہ اپنا گھر کیسے چلاتا۔ پھر سمجھایا کہ پتہ نہیں ہمیں خداتعالیٰ کس کی قسمت کا رزق دے رہا ہے اس لیے کبھی کبھی دوسروں کی بات برداشت کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ کئی لوگ آپ سے غلط بیانی کرکے بھی فائدہ اٹھالیتے۔ ہم کو غصہ آتا لیکن آپ یہی کہتے کہ سب کچھ خدا کا ہی دیا ہوا ہے اگر اُن کو اس طرح کوئی فائدہ ہوتا ہے تو ہمارا کیا جاتا ہے۔

میرے ابا کا امّی کے ساتھ بہت پیار بھرا سلوک تھا اور خاندان میں مثالی جوڑی تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے اور ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو بھرپور عزت دیتے۔ آپ غیبت اور جھوٹ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔

میرا بھائی آصف بھی ہر وقت اپنے ابّا کے ساتھ رہتا اور اُن کے ساتھ ہی اس دنیا سے بھی رخصت ہوگیا۔ وہ غریبوں کے لئے پریشان رہنے والا بچہ تھا۔ ایک بار اُس نے کسی کو ملازم رکھا اور چار ہزار روپے ایڈوانس دیے۔ لیکن وہ لڑکا پھر کام پر نہیں آیا تو کچھ دن بعد بھائی اُس کے گھر گیا اور وجہ پوچھی۔ اُس نے بتایا کہ اُس کی والدہ بیمار ہے۔ بھائی نے اُس کو اپنی جیب میں موجود رقم ،جو چار ہزار روپے تھی، دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو نہ بتانا اور اگر اور بھی کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ اُس ملازم نے بعد میں یہ بات دوسرے بھائی کو بتائی۔

میرا بھائی اپنے والدین کے ساتھ بھی لاڈپیار کرتا اور بہن بھائیوں کا بھی خیال رکھتا۔ اگر اُسے احساس ہوتا کہ مَیں اداس ہوں تو اُس وقت تک فون بند نہ کرتا جب تک میرا موڈ ٹھیک نہ ہوجاتا۔ رمضان کے پورے روزے رکھتا اور راتیں عبادت میں گزارتا۔ ہر رشتہ بڑی خوبی سے نبھاتا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button