شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عیادت کرنے کا بیان(حصہ سوم)
علاج معالجہ
(گذشتہ سے پیوستہ) شاید یہ باب نامکمل رہ جائے اگر میں یہ ذکر نہ کروں کہ بیماروں کے ساتھ ہمدردی لفظاً ہی نہ تھی اور نہ دوسروں کو تاکید کی صورت میں ہی تھی بلکہ آپ خود علاج بھی فرمایا کرتے تھے۔اور یہ بطور پیشہ کے نہیں بلکہ محض خدا کی مخلوق کی ہمدر دی اور خیر خواہی کے لیے۔آپ نے طب اپنے والد صاحب سے سبقاً پڑھی تھی۔مگر بطور پیشہ کے اس کو کبھی اختیار نہ کیا۔البتہ کسی کو جب ضرور ت ہوتی تو آپ اس کا علاج بغیر کسی اجورہ کی ادنیٰ سے تحریک اور خواہش کے بھی کرتے اور قیمتی ادویات اپنے پاس سے دے دیتے۔اوائل میں آپ کے گھر میں اچھا خاصہ ہسپتال تھا۔اور صبح کے وقت کا بہت سا حصہ غرباء اور مرضیٰ کو ادویات دینے میں بھی صرف ہوتا تھا۔اور آپ اس خدمت کو اسی طرح کرتے جس طرح دینی خدمات کو پوری مسرت اور انشراح کے ساتھ۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اس کا نقشہ چشم دید واقعہ کی بناء پر کھینچا ہے۔فرماتے ہیں :۔
“بعض اوقات دوا درمل پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں’’میرجا جی جرا بوا کھولو تاں’’ (یعنی مرزا صاحب ذرا دروازہ توکھولو۔ناقل) حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہیں ۔ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا ہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے آپ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں ۔زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ دوا پوچھ لی۔اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آ نکلیں اور آپ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا۔اور جلد لکھنا تھا۔میں بھی اتفاقاً جا نکلا۔کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا۔اور ہسپتال جاری رہا۔فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت ساقیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ
“یہ بھی تو ویسا ہی دینی کا م ہے۔یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کو ئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروانہ ہوناچاہیے۔”
(سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ؓ سیالکوٹی صفحہ 34، 35)
ادویات خواہ کتنی ہی قیمتی ہوں آپ بے دریغ دے دیتے تھے۔اور فوراً دے دیتے تھے تریاق الٰہی جب آپ نے تیار کیا اور وہ بہت قیمتی تھا۔ہزاروں روپیہ اس پر خرچ آئے جب کسی نے مانگا تو آپ کافی مقدار میں جھٹ لا کر دے دیتے تھے۔اور کسی مریض کے لیے جب کسی دوا کی ضرورت ہوئی اورمعلوم ہوا کہ آپ کے سوا اَور کسی جگہ نہیں ملتی تو فوراً آپ ساری کی ساری اٹھا کر دے دیتے تھے کہ کسی طرح مریض کو فائدہ پہنچے۔مریضوں کو جب آپ ادویات دیا کرتے تھے تو خود اپنے ہاتھ سے تیار کر کے دیتے تھے۔اس کام میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کوئی کمپونڈر یا خادم نہ ہوتا بلکہ آپ ادویات کے معاملہ میں خاص طور پر احتیاط سے کام لیا کرتے تھے۔
ایک یتیم کے معالجہ میں سرگرمی
اس خصوصیت میں آپ کی سیرت کا یہ پہلو نا تمام رہ جائے گا اگر میں ایک یتیم کے واقعہ کا ذکر نہ کروں ۔ایک یتیم لڑکا جس کا نام فجا ہے وہ آج کل یہاں قادیان ہی میں ایک مخلص احمدی کی حیثیت سے رہتا اور صاحب اولاد ہے اور معماری کا کام کرتا ہے۔ابتدا میں مرزا نظام الدین صاحب کے گھر میں رہتا تھا۔بعض سختیوں کو ناقابل برداشت پاکر وہ حضرت اقدس کے گھر میں آگیا۔کسی سرپرستی اور تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت بہت خراب تھی اطوار وحشیانہ اور غیر مہذبانہ تھے۔طبیعت میں تیزی تھی۔ایک مرتبہ و ہ اپنی شوخی کی وجہ سے جل گیا۔کھولتا ہوا پانی اس کے سارے بدن پر گر گیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے لیے اس سے کم صدمہ نہیں ہوا جس قدر اپنے لخت جگر کے لیے ہوا تھا۔ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی چشم زخم پہنچاتھا۔
آپ ہمہ تن اس کے علاج میں مصروف ہو گئے۔بدن پر تازہ دھنی ہوئی روئی رکھی جاتی تھی اور بڑی احتیاط کی جاتی تھی۔اس کے علاج میں آپ نے نہ تو روپیہ کی پروا کی اورنہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی مضائقہ کیا۔اور نہ ہی غور و پرداخت اور غذا و دوا میں کوئی کمی جائز رکھی گئی۔خو داپنے سامنے ہر چیز کا انتظام کراتے تھے۔اور اس کو ہمیشہ تسلی دیتے تھے یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس صدمہ سے یہ بچ گیا تو نیک ہو گا۔چنانچہ آپ کا یہ ارشاد بالکل صحیح ثابت ہوا۔اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بلا سے نجات دی اور اب وہ ایک مخلص احمدی ہے۔اس جلنے کا نشان اس کے بدن پراب تک باقی ہے۔سب جانتے ہیں کہ اس وقت وہ ایک میلی کچیلی شکل کا بچہ تھا اور کَس مَپرسی کی حالت میں اس نے زندگی کے ابتدائی دن کاٹے تھے۔عرف عام کے لحاظ سے کسی بڑی قوم اور خاندان سے تعلق نہ رکھتا تھا۔ایسی مصیبت کے وقت میں جبکہ انسان اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی علالت سے بھی اکتا جاتا ہے آپ ایک لمبے عرصہ تک اس کی تیمار داری میں مصروف رہے اور نہ صرف خود بلکہ سب گھر والوں کو اس کے متعلق خاص طورپر ہدایات تھیں ۔اس کے آرام اور علاج میں کوئی کمی نہ کی جاوے۔یتیم پروری اور تیمارداری کی یہ بہترین مثال ہے۔
آپ کے صاحبزادے اکثر بیمار ہوجاتے ان کے علاج معالجہ اور دوا درمن میں راتوں کو دن کر دینا معمولی بات ہوتی تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب) کی آنکھیں بیمار تھیں آپ اس کے علاج کے لیے بٹالہ تشریف لے گئے۔اور ساری ساری رات خود لے کر ٹہلتے رہتے اور ان کو بہلاتے۔مگرکبھی شکایت نہ کی۔
ہم نے اپنے گھروں میں دیکھا ہے کہ بیماری ذرا لمبی ہوئی یا کسی کو زیادہ وقت تک کسی بیمار کے پاس رہنا پڑا تو گھبرا کر ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتے ہیں جو قابل افسوس ہوتے ہیں مگر حضرت کو دیکھا گیا کہ بعض اوقات مہینوں تیمارداری کرنی پڑی ہے اور ساری ساری رات اور دن بھر اس کوفت میں رہے ہیں مگر زبان سے کوئی لفظ شکوہ کا نہیں نکلا۔پوری مستعدی کے ساتھ اس میں لگے رہے۔تیمارداری میں گھبراہٹ اور بیمار کی حالت اور چڑچڑاہٹ سے آپ کو رنج نہ پیدا ہوتا تھا۔اور نہ اس کی حالت کے کسی مرحلہ پر نازک ہوجانے سے کوئی مایوسی ظاہر ہوتی تھی۔مایوسی تو کبھی اور کسی حال میں آپ کے نزدیک آ ہی نہیں سکتی بلکہ خطرناک حالتوں میں بھی آپ کے چہرہ کو دیکھ کر حد درجہ کا ناامید اور کمزور طبیعت کا انسان ایک قوت اور امید کی شعاع اپنے اندر پیدا کر لیتا تھا۔
غرض نہ تو اپنی بیماری میں گھبراہٹ اور چڑچڑاپن آپ میں ہوتا تھا۔ایک سکون اور اطمینان سے بیٹھے رہتے تھے او رادویات کے استعمال سے جی نہ چراتے۔کیسی ہی تلخ اور بدمزہ دوائی ہو بغیر منہ بنانے اور ذرا بھی تامل کرنے کے پی لیتے تھے۔اور اوپر والوں کو اپنی تیمار داری کے لیے کوئی تکلیف نہ دیتے۔طبیعت میں استقامت اور عزم اور قوت اس حالت میں بھی پاتے تھے۔جبکہ اسہال کی کثرت یا دوران سر اور برداطراف کے دورے نے نقاہت او ر ضعف پیدا کر دیا ہو۔بعض اوقات بیماریوں کے لمبے دورے میں عام طور پر خود مریض بھی جان سے بیزار ہو جاتااور گھبرا جاتا ہے آپ بیماری میں بھی اس شوق و ذوق سے پڑے رہتے کہ دیکھنے والا آپ کو ایسی حالت میں بیمار نہ سمجھتا۔آپ کے کام آپ کے کلام اور آپ کے عزم سے اس بات کا سمجھنا محال ہوگیا تھا۔آخری حصہ تو عموماً بیماری میں ہی گذرا ہے اور جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں تمام بڑی بڑی تصانیف بیماری ہی میں لکھی گئی ہیں ۔بلکہ ایام بیماری میں آپ کا قلم تیز ہو جاتا تھا۔آپ سمجھتے تھے کہ شاید وقت قریب آ گیا ہے اس لیے جس قدر کام ہو سکے وہ کم ہے۔
جس طرح اپنی بیماری میں آپ کی یہ حالت تھی۔متعلقین اور دوسروں کی تیمارداری میں بھی آپ کا استقلال اور اطمینان ایک اعجازی حیثیت رکھتا تھا۔ایک طرف بیمار کا چڑچڑا پن اس کی تکلیف اور دواؤں سے بدمزگی سے نفرت ہے دوسری طرف اپنی بے آرامی اس کے علاج میں مصروفیت اس کی نگہداشت اور سلسلہ کے کاموں میں مصروفیت مزید برآں ہے۔مگریہ تمام بے آرامیاں تمام کوفتیں اس طرح سے گزار لیتے کہ گویا کوئی واقعہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب کچھ انسانی ہمدردی اور تعظیم لامر اللہ کی بناء پر تھا۔بیماری اور تیمارداری دونوں حالتوں میں یہ شیر خدا ایک جنت کی حالت میں تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔اگر موت فوت کا کوئی واقعہ ہو جاتا تو وہ حالت بھی آپ کی حالت میں تغیر پیدا نہ کرتی۔بیماری کی حالت میں وہ شکور تھا اور موت فوت کی حالت میں راضی بالقضا تھا۔اس کی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہ آتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ سے اپنے قرب اور صدق اور وفا کے مقام کو آگے نہ پاتا ہو۔میں آگے چل کر آپ کا نمونہ رضا بالقضا کا انشاء اللہ دکھاؤں گا۔شاید اس جگہ بعض بیماریوں کے نسخے آپ کے بیان کردہ لکھ لینے مناسب سمجھے جاتے۔مگر سیرت کے مضمون سے ان کا کچھ تعلق نہیں اس لیے اگر توفیق ملی تو آپ کی طب کا بیان کرتے ہوئے انشاء اللہ درج کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو اخلاق بیماری اور تیمارداری میں ظاہر ہوئے ہیں واقعات کے لحاظ سے وہ کثیر التعداد ہیں ۔اور یہ بھی آسان نہیں کہ اخلاقی اعجاز اور اعجاز مسیحائی میں فرق کیا جاسکے۔یعنی جو نشانات آپ کی دعاؤں سے بیماروں کی صحت و شفا کی صورت میں ظاہر ہو ئے ہیں وہ بھی کثیر التعداد ہیں ۔مگر میں ان کو عام طور پر آپ کے اعجازات کی تفصیل میں کہوں گا۔یہاں میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو اگرچہ بجائے خود ایک زبردست نشان ہے۔مگر اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اخلاق فاضلہ کا بھی ثبوت ملتا ہے جو مسافروں اور غریب الوطن لوگوں کی تیمار داری میں آپ سے ظاہر ہوتا تھا۔اوپر میں نے ایک واقعہ ایک یتیم بچہ کے علاج کابتایا ہے۔یہ ایک غریب الوطن کا واقعہ ہے۔
لالہ ملاوامل کی عیادت
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘لالہ ملاوامل صاحب… جب ان کی عمر بائیس سال کی تھی وہ بعارضہ عرق النساء (رینگن کا درد) بیمار ہو گئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ صبح و شام ان کی خبر ایک خادم جمال کے ذریعہ منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جا کر عیادت کرتے۔صاف ظاہر ہے کہ لالہ ملاوامل صاحب ایک غیر قوم اور غیر مذہب کے آدمی تھے لیکن چونکہ وہ حضرت اقدس کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کو ایک تعلق مصاحبت کا تھا۔آپ کو انسانی ہمدردی اور رفاقت کا اتنا خیال تھا کہ ان کی بیماری میں خود ان کے مکان پر جا کر عیادت کرتے اور خود علاج بھی کرتے تھے۔ایک دن لالہ ملاوامل صاحب بیان کرتے ہیں کہ چار ماشہ صبر ان کو کھانے کے لیے دے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات بھر میں انیس مرتبہ لالہ صاحب کو اجابت ہوئی اور آخر میں خون آنے لگ گیا اور ضعف بہت ہو گیا۔علی الصباح معمول کے موافق حضرت کا خادم دریافت حال کے لیے آیا تو انہوں نے اپنی رات کی حقیقت کہی اور کہا کہ وہ خود تشریف لاویں ۔حضرت اقدس فوراً ان کے مکان پر چلے گئے۔اور لالہ ملاوامل صاحب کی حالت کو دیکھ کر تکلیف ہوئی فرمایا کچھ مقدار زیادہ ہی تھی مگر فوراً آپ نے اسبغول کا لعاب نکلوا کر لالہ ملاوامل صاحب کو دیا جس سے وہ سوزش اور خون کا آنا بھی بند ہو گیا اور ان کے درد کو بھی آرام آگیا۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 170، 171)
(باقی آئندہ)