کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ماننا ضروری ہے؟

حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں آج پھر سوال پیش ہوا کہ جب ہم لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور شریعت کے دیگر امور کی پیروی کرتے ہیں تو صرف آپ کو نہ ماننے کے سبب کیا حرج ہو سکتا ہے؟ حضرت اقدس ؑنے فرمایا:

میں نے اس بات کا جواب کئی دفعہ دیا ہے۔ ہم قال اللہ اور قال الرسول کو مانتے ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ کی وحی کو مانتے ہیں۔ میرا آنا اللہ اور رسولؐ کے وعدے کے مطابق ہے۔ جو شخص خدا اور رسول کی ایک بات مانتا ہے اور دوسری نہیں مانتا وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں ۔ یہ تو وہ بات ہے جو قرآن شریف میں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ در اصل ایمان نہیں۔ ایک خدا اور اس کے رسول کا موعود اپنے وقت پر آیا۔ صدی کے سر پر آیا۔ نشانات لایا۔ عین ضرورت کے وقت آیا۔ اپنے دعویٰ کے دلائل صحیح اور قوی رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا انکار کیا ایک مومن کا کام ہے؟ یہودی موحد کہلاتے تھے۔ اب تک ان کا دعویٰ ہے کہ ہم توحید پر قائم ہیں۔ نماز پڑھتے، روزہ رکھتے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ مانتے۔ اسی سبب کافر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ایک حکم فرمودہ رسول کی ایک بات کا بھی جو شخص انکار کرتا ہے اور اس کے مخالف ضد کرتا ہے وہ کافر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ان لوگوں کی غلطی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور تمام اعمالِ حسنہ بجا لاتے ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے؟ یہ نہیں جانتے کہ اعمالِ حسنہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ ہر قسم کے شرک انفسی آفاقی کا نکالنا، خلوص لذّت اور احسان کے ساتھ عبادت بجا لانا یہ کوئی اختیاری بات نہیں ہے۔ اس کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی نہایت ہی ضروری ہے۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ نیک اعمال کی توفیق فضلِ الٰہی پر موقوف ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اندر کی آلودگیاں دور نہیں ہو سکتیں۔ جب کوئی شخص نہایت درجہ کے صدق اور اخلاص کو اختیار کرتا ہے تو ایک طاقت آسمانی اس کے واسطے نازل ہوتی ہے۔ اگر انسان سب کچھ خود کر سکتا تو دعاؤں کی ضرورت نہ ہوتی۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس شخص کو راہ دکھاؤں گا جو میری راہ میں مجاہدہ کرے۔ یہ ایک باریک رمز ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو خدا آنکھیں دے۔ اور تم سب مردے ہو مگر وہ جس کو خدا تعالیٰ زندگی دے۔ دیکھو یہودیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مثل گدھوں کے ہیں جن پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ایسا علم انسان کو کیا فائدہ دے سکتا ہے جب تک دل آراستہ نہ ہو ہدایت اور سکینت نازل نہیں ہوتی۔ شیطان سے مناسبت آسان ہے مگر ملائک سے مناسبت مشکل ہے کیونکہ اس میں اوپر کو چڑھنا ہے اور اس میں نیچے گرنا ہے نیچے گرنا آسان ہے مگر اوپر چڑھنا بہت مشکل ہے۔ یہ مقام تب حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان در حقیقت پاک ہو کر محبت الٰہی کو اپنے اندر داخل کر لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ امر آسان ہوتا تو اولیاء ابدال، غوث اور اقطاب ایسے کمیاب کیوں ہوتے؟بظاہر تو وہ سب عام لوگوں کی مانند نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں مگر فرق صرف توفیق کا ہے۔ ان لوگوں نے کسی قسم کی شوخی اور کجروی نہ کی بلکہ خاکساری کا راہ اختیار کیا اور مجاہدات میں لگ گئے جو شخص دنیوی حکام کے بالمقابل شوخی کرتا ہے وہ بھی ذلیل کیا جاتا ہے۔ پھر اس کا کیا حال ہو گا جو خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے حکم کے ساتھ شوخی اور گستاخی سے پیش آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طُرْفَۃَ عَیْنٍ۔ یا اللہ مجھے ایک آنکھ جھپکنے تک بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر۔

اب ان لوگوں کے تقویٰ کے حال کو دیکھنا چاہیے۔ میں ان کے سامنے آیا۔ میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے۔ کیا انہوں نے میرے معاملہ میں تدبر کیا؟ کیا انہوں نے میری کتب کا مطالعہ کیا؟ کیا یہ میرے پاس آئے؟کہ مجھ سے سمجھ لیں۔ صرف لوگوں کے کہنے کہلانے سے بے ایمان، دجّال اور کافر مجھے کہنا شروع کیا اور کہا کہ یہ واجب القتل ہے۔ بغیر تحقیقات کے انہوں نے یہ سب کارروائی کی اور دلیری کے ساتھ اپنا منہ کھولا۔ مناسب تھا کہ میرے مقابلہ میں یہ لوگ کوئی حدیث پیش کرتے۔ میرا مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذرا ادھر ادھر جانا بے ایمانی میں پڑنا ہے لیکن کیا اس کی پہلے کوئی نظیر دنیا میں موجود ہے کہ ایک شخص25سال سے خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر روزاس کی تائید اور نصرت کرتا ہے۔ وہ اکیلا تھا اور خدا تعالیٰ نے تین لاکھ آدمی اس کے ساتھ شامل کر دیا۔ کیا تقویٰ کا حق ہے کہ اس کے مخالف بے ہودہ شور مچایا جاوے اور اس کے معاملہ میں کوئی تحقیقات نہ کی جاوے۔ وفات مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے۔ معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے۔ صحابہؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰؑ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لیے نہیں۔ مجھے ایک بزرگ کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے اس نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا میں قائل ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا قائل ہوتا۔ دوسرے کی زندگی سے ہم کو کیا فائدہ؟تقویٰ سے کام لو۔ ضد اچھی نہیں۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 201تا203۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button