خطبہ جمعہ فرمودہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ 20؍مارچ 2020ء
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ ‘‘
’’وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے … کہ تو ہندوؤں کے لیے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعود ہے‘‘
’’اگر میرے ساتھ خصومت ہے تو اس میں حد سے نہ بڑھو اور وہ کام نہ کرو جو دینِ اسلام کو نقصان پہنچائے‘‘
’’وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔
اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں ۔
اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں ۔‘‘
’’میں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہو رہا ہے۔‘‘
’’جب لوگ خدا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لیے بھیجتا ہے‘‘
اس وائرس نے دنیا کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خدا کی طرف رجوع کریں لیکن حقیقی خدا اور زندہ خدا تو صرف اسلام کا خدا ہے جس نے اپنی طرف آنے والوں کو راستہ دکھانے کا اعلان فرمایا ہے
ایم ٹی اے پر یومِ مسیح موعودؑ کی مناسبت سے نشر ہونے والے پروگرامز سے استفادہ کرنے کی تلقین
کورونا وائرس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے، اس مشکل وقت میں دنیا کو اسلام سے متعارف کروانے کے لیے موثر تبلیغی سرگرمیاں کرنے اور بیماری میں مبتلا ہو جانے والے افراد کے لیے دعائیں کرنے کی نصیحت
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍مارچ2020ء بمطابق 20؍امان 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
تین دن کے بعد 23؍مارچ ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت کا آغاز فرمایا تھا اور یوں باقاعدہ جماعت احمدیہ کی بھی بنیاد پڑی۔ جماعت میں یہ دن ‘یوم ِمسیح موعود’ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے جلسے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ اور آپؑ کے آنے کے مقصد کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔ اس لیے اس حوالے سے گو ابھی تین دن باقی ہیں لیکن اگلا جمعہ پھر آگے چلا جائے گا۔ اس لیے میں آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں آپؑ کےکچھ اقتباسات پیش کروں گا۔
اس سال شاید اکثر ملکوں اور مقامات میں جو آج کل وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے جلسے نہ ہو سکیں اس لیے میرے خطبے کے علاوہ ایم۔ٹی۔اے پر بھی اس حوالے سے پروگرام پیش ہوں گے۔ انہیں ہر احمدی کو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں سننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپؐ ہی کے کام کو اور آپؐ کے دین کو دنیا میں پھیلانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے چنانچہ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :
‘‘میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں کہ آپ ہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور آپ ہی کے فیضان اور برکات کا نتیجہ ہے جو یہ نصرتیں ہو رہی ہیں۔’’آپؑ فرماتے ہیں ‘‘مَیں کھول کر کہتا ہوں اور یہی میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور نقش قدم پر چلنے کے بغیر کوئی انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کر سکتا۔’’
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 267)
آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روحانی فیض پایا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا۔ اسلام کی شان و شوکت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘وَاَرْسَلَنِیْ رَبِّیْ لِاِصْلَاحِ خَلْقِہٖ’’ کہ ‘‘اور خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا مَیں مخلوق کی اصلاح کروں۔’’
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 178)
پھر اپنی بعثت کے بارے میں مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘میں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اس کے اظہار سے میں رک نہیں سکتا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔ میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مردِ خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔’’
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 7-8)
پھر اس بات کا اعلان فرماتے ہوئے کہ جس مسیح موعود کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی وہ اپنے وقت پہ ظاہر ہوا آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘سو اب اے بھائیو! برائے خدا دھکہ اورزبردستی مت کرو۔ ضرور تھا کہ میں ایسی باتیں پیش کرتا جن کے سمجھنے میں تمہیں غلطی لگی ہوئی تھی۔ اگر تم پہلے ہی راہ ثواب پرہوتے تو میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ میں کہہ چکا ہوں کہ میں اس امت کی اصلاح کے لیے ابن مریم ہو کر آیا ہوں اور ایسا ہی آیاہوں کہ جیسے حضرت مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لیے آئے تھے۔ میں اسی وجہ سے تو ان کا مثیل ہوں کہ مجھے وہی اور اسی طرز کا کام سپردہوا ہے جیسا کہ انہیں سپرد ہوا تھا۔ مسیح نے ظہور فرما کر یہودیوں کو بہت سی غلطیوں اوربے بنیاد خیالات سے رہائی دی تھی۔ منجملہ اس کے ایک یہ بھی تھا کہ یہودی ایلیا نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کی ایسی ہی امید باندھے بیٹھے تھے جیسے آج کل مسلمان مسیح ابن مریم رسول اللہ کے دوبارہ آنے کی امید باندھے بیٹھے ہیں۔ سو مسیح نے یہ کہہ کر کہ ایلیا نبی اب آسمان سے اتر نہیں سکتا زکریا کابیٹا یحیٰ ایلیا ہے جس نے قبول کرنا ہے کرے اس پرانی غلطی کو دور کیا اور یہودیوں کی زبان سے اپنے تئیں ملحد اور کتابوں سے پھرا ہوا کہلایا مگر جو سچ تھا وہ ظاہر کر دیا۔ یہی حال اس کے مثیل کا بھی ہوا اور حضرت مسیح کی طرح اس کو بھی ملحد کا خطاب دیا گیا۔ کیا یہ اعلیٰ درجہ کی مماثلت نہیں۔’’
(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 394)
اور صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر قوم اور مذہب کو اپنی بعثت کی اہمیت بتائی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ بھی واضح ہو کہ میرا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے۔ اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لیے بطور اَوتار کے ہوں اور میں عرصہ بیس برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اِس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لیے جن سے زمین پُر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا ۔یا یوں کہنا چاہیے کہ روحانی حقیقت کی رُو سے میں وہی ہوں۔ یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے ۔اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لیے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعود ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جاہل مسلمان اِس کو سن کر فی الفور یہ کہیں گے کہ ایک کافر کا نام اپنے پر لے کر کفر کو صریح طور پر قبول کیا ہے۔ لیکن یہ خدا کی وحی ہے جس کے اظہار کے بغیر میں رہ نہیں سکتا اور آج یہ پہلا دن ہے کہ ایسے بڑے مجمع میں اس بات کو مَیں پیش کرتا ہوں کیونکہ جو لوگ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔’’
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 228)
یہ آپؑ نے لیکچر سیالکوٹ میں فرمایا جہاں آپؑ نے یہ خطاب ،یہ لیکچرمسلمانوں اور ہندوؤں کے ایک بہت بڑے مجمع میں دیا تھا ۔
پھر اپنی بعثت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں:
‘‘انسان جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتاہے وہ سب موجبِ معصیت ہو جاتا ہے۔ ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروانہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ مجازی حکام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنیوالے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ خدا تعالیٰ غیّور ہے۔اس نے مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے۔ اس کے تمام مصالح کو پاؤں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گناہ ہے۔’’
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘…… انسان کی عقل خد اتعالیٰ کی مصلحت سے نہیں مل سکتی۔ آدمی کیا چیز ہے جو مصلحتِ الٰہی سے بڑھ کر سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرے۔ خدا تعالیٰ کی مصلحت اس وقت بدیہی اور اجلیٰ ہے۔’’ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اسلام میں سے پہلے ایک شخص بھی مرتد ہو جاتا تھا’’ اپنے زمانے کی بات فرما رہے ہیں ‘‘تو ایک شور بپا ہو جاتا تھا۔ اب اسلام کو ایسا پاؤں کے نیچے کچلا گیا ہے کہ ایک لاکھ مرتد موجود ہے۔’’ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اسلام جیسے مقدس مطہر مذہب پر اس قدر حملے کئے گئے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں کتابیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیوں سے بھری ہوئی شائع کی جاتی ہیں۔ بعض رسالے کئی کروڑ تک چھپتے ہیں۔ اسلام کے برخلاف جو کچھ شائع ہوتا ہے اگر سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک بڑا پہاڑ بنتاہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ گویا ان میں جان ہی نہیں اور سب کے سب مر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اگر خدا تعالیٰ بھی خاموش رہے تو پھر کیا حال ہوگا۔ خدا کا ایک حملہ انسان کے ہزار حملہ سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسا ہے کہ اس سے دین کا بول بالا ہو جائے گا۔عیسائیوں نے انیس سو سال سے شور مچا رکھا ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور ان کا دین اب تک بڑھتا چلا گیا اور مسلمان ان کو اور بھی مدد دے رہے ہیں۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہو گئے۔’’ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بھاری مجمع میں یہی بات پیش کی۔ کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا مگر ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب جو یہ موجود ہیں، اٹھے اور انہوں نے قرآن شریف، حدیث، تاریخ، انجیل وغیرہ سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپ سے فیض حاصل کر کے کرامت اور خوارق دکھانے والے ہمیشہ موجود رہے۔ تب اس کا جواب وہ کچھ نہ دے سکا۔’’ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘…… میں نے ایک دفعہ لدھیانہ میں عیسائیوں کو اشتہار دیا تھا کہ تمہار ا ہمارا بہت اختلاف نہیں۔ تھوڑی سی بات ہے یہ کہ تم مان لوکہ عیسیٰ فوت ہو گئے اور آسمان پر نہیں گئے۔ تمہارا اس میں کیا حرج ہے؟ اس پر وہ بہت جھنجھلائے اور کہنے لگے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ عیسیٰ مر گیا اور آسمان پر نہیں گیا توآج دنیا میں ایک بھی عیسائی نہیں رہتا۔’’
فرمایا کہ ‘‘دیکھو خدا تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اس نے ایسا پہلو اختیار کیا ہے جس سے دشمن تباہ ہو جائے۔ مسلمان اس معاملہ میں کیوں اَڑ تے ہیں۔ کیا عیسیٰؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھا؟ اگر میرے ساتھ خصومت ہے تو اس میں حد سے نہ بڑھو اور وہ کام نہ کرو جو دینِ اسلام کو نقصان پہنچائے۔ خد اتعالیٰ ناقص پہلو اختیار نہیں کرتا اور بجز اس پہلو کے تم کسرِصلیب نہیں کر سکتے۔’’
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 174-175)
پھر ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں ۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں ۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو خدا نے اپنے ہاتھ سے میری تربیت فرما کر اور مجھے اپنی وحی سے شرف بخش کر میرے دل کو یہ جوش بخشا ہے کہ میں اس قسم کی اصلاحوں کے لیے کھڑا ہو جاؤں۔ اور دوسری طرف اس نے دل بھی تیار کر دیئے ہیں جو میری باتوں کے ماننے کے لیے مستعد ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہو رہا ہے۔’’
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180-181)
یہ آپؑ کا لاہور کالیکچر تھا۔ پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے اظہار اور بندوں کو بچانے کے لیے اپنے فرستادے اور مصلح اور خاص بندے کو بھیجتا ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘قانون قدیم حضرت رب العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو رحمتِ الٰہی اس کے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ جیسے جب اِمساکِ باران سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام تمام ہونے لگتا ہے تو آخر خداوند کریم بارش کر دیتا ہے ۔ اور جب وبا سے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہواؔ کی نکل آتی ہے یا کوئی دوؔا ہی پیدا ہو جاتی ہے اور جب کسی ظالم کے پنجہ میں کوئی قوم گرفتار ہوتی ہے تو آخر کوئی عادل اور فریاد رَس پیدا ہو جاتا ہے۔ پس ایسا ہی جب لوگ خدا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لیے بھیجتا ہے کہ تا جس قدر بگاڑ ہو گیا ہے اس کی اصلاح کرے۔ اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ پروردگار جو قیوم عالم کا ہے’’ دنیا کو قائم کرنیو الا ہے۔ ‘‘اور بقا اور وجود عالم کا اسی کے سہارے اور آسرے سے ہے کسی اپنی فیضان رسانی کی صفت کو خلقت سے دریغ نہیں کرتا اور نہ بیکار اور معطّل چھوڑتا ہے بلکہ ہر یک صفت اس کی اپنے موقعہ پر فی الفورظہور پذیر ہو جاتی ہے۔’’
(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 113-114 بقیہ حاشیہ نمبر 10)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘وہ شخص بڑا ہی مبارک اور خوش قسمت ہے جس کا دل پاک ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے اظہار کا خواہاں ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے دوسروں پر مقدم کر لیتا ہے۔ جو لوگ میری مخالفت کرتے ہیں ان کا اور ہمارا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے ہے۔ وہ ہمارے اور ان کے دلوں کو خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس کا دل دنیا کے نمود اور نمائش کے لیے ہے اور کون ہے جو خدا تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دل میں سوزو گداز رکھتا ہے۔’’ فرمایا کہ ‘‘یہ خوب یاد رکھو کہ کبھی روحانیت صعود نہیں کرتی جب تک پاک دل نہ ہو۔ جب دل میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے تو اس میں ترقی کے لیے ایک خاص طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے ہر قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بیکسی کی حالت میں دعویٰ کرتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا(الاعراف:159)
کون اس وقت خیال کر سکتا تھا کہ یہ دعویٰ ایسے بے یارو مددگار شخص کا بار آور ہو گا۔ پھر ساتھ ہی اس قدر مشکلات آپ کو پیش آئیں کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آئیں۔’’
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 157-158)
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام دنیا کو عموماً دنیا کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘ہماری آخری نصیحت یہی ہے کہ تم اپنی ایمان کی خبرداری کرو۔ نہ ہو کہ تم تکبر اور لا پروائی دکھلا کر خدائے ذو الجلال کی نظر میں سرکش ٹھہرو۔ دیکھو خدا نے تم پر ایسے وقت میں نظر کی جو نظر کرنے کا وقت تھا۔ سو کوشش کرو کہ تاتمام سعادتوں کے وارث ہو جاؤ۔ خدا نے آسمان پر سے دیکھا کہ جس کو عزت دی گئی اس کو پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے اور وہ رسول جو سب سے بہتر تھا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس کو بدکاروں اور جھوٹوں اور افترا کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی کلام کو جوقرآن کریم ہے بُرے کلموں کے ساتھ یاد کر کے انسان کا کلام سمجھا جاتا ہے۔ سو اس نے اپنے عہد کو یاد کیا۔ وہی عہد جو اس آیت میں ہے
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهٗ لَحَافِظُوْنَ۔(الحجر:10)
سو آج اسی عہد کے پورے ہونے کا دن ہے۔ اس نے بڑے زور آور حملوں اور طرح طرح کے نشانوں سے تم پر ثابت کر دیا کہ یہ سلسلہ جو قائم کیا گیا اس کا سلسلہ ہے ۔ کیا کبھی تمہاری آنکھوں نے ایسے قطعی اور یقینی طور پر وہ خدا تعالیٰ کے نشان دیکھے تھے جو اب تم نے دیکھے۔ خدا تمہارے لیے کُشتی کرنے والوں کی طرح غیر قوموں سے لڑا اور ان پر فتح پائی۔ دیکھو آتھم کے معاملہ میں بھی ایک کُشتی تھی۔ تلاش کرو آج آتھم کہاں ہے؟ سنو ! آج وہ خاک میں ہے۔ وہ اسی شرط کے موافق جو الہام میں تھی چند روز چھوڑا گیا اور پھر اسی شرط کے موافق جو الہام میں تھی پکڑا گیا۔ دوسری کُشتی لیکھرام کا معاملہ تھا۔ پس سوچ کر دیکھو کہ اس کُشتی میں بھی خدا تعالیٰ کیسے غالب آیا؟ اور تم نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جس طرح اس کی موت کی الہامی پیشگوئیوں میں پہلے سے علامتیں مقرر کی گئی تھیں اسی طرح وہ سب علامتیں ظہور میں آئیں۔ خد اکے قہری نشان نے ایک قوم پر سخت سوگ وارد کیا۔ کیا کبھی تم نے پہلے اس سے دیکھا کہ تم میں اور تمہارے رو برو اس جلال سے خدا کا نشان ظاہر ہوا ہو؟ سو اے مسلمانوں کی ذریت! خدا تعالیٰ کے کاموں کی بے حرمتی مت کرو۔ تیسری کُشتی مہوتسو کے جلسہ کا معاملہ تھا۔ دیکھو اس کُشتی میں بھی خدا تعالیٰ نے اسلام کا بول بالا کیا اور تمہیں اپنا نشان دکھلایا ۔ اور قبل از وقت اپنے بندے پر ظاہر کیا کہ اسی کا مضمون بالا رہے گا اور پھر ایسا ہی کر کے دکھلا بھی دیا۔ اور مضمون کے بابرکت اثر سے تمام حاضرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ کیا یہ خدا کا کام تھا یا کسی اور کا؟’’ یہ آپؑ اس جلسے کا ذکر فرما رہے ہیں جہاں آپؑ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی گئی تھی اور اس کی کامیابی کے بارے میں پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتا دیا تھا اور آپؑ نے اس کا اعلان بھی کر دیا تھا اور پھر غیروں نے برملا اس کا اظہار بھی کر دیا کہ یقینا ًیہ کامیاب ترین مضمون تھا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘پھر چوتھی کشتی ڈاکٹر کلارک کا مقدمہ تھا جس میں تینوں قومیں آریہ اور عیسائی اور مخالف مسلمان متفق ہو گئے تھے تا میرے پر اقدامِ قتل کا مقدمہ ثابت کریں۔ اس میں خدا تعالیٰ نے پہلے سے ظاہر کر دیا کہ وہ لوگ اپنے ارادہ میں ناکام رہیں گے۔ اور دو سو کے قریب آدمیوں کو قبل از وقت یہ الہام سنایا گیا اور آخر ہماری فتح ہوئی۔ پانچویں کُشتی مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کا مقدمہ تھا جس کے عزیز اور لواحق اسلام سے ٹھٹھا کرتے تھے اور بعض سخت مرتد ان میں سے قرآن شریف کی سخت تکذیب کر کے اور اسلام پر زبانِ بد کھول کر مجھ سے تصدیق اسلام کا نشان مانگتے تھے اور اشتہار چھپواتے تھے۔ سو خدا نے انہیں یہ نشان دیا کہ احمد بیگ عزیز اُن کا چند موتوں اور مصیبتوں کے دیکھنے کے بعد تین برس کے اندر فوت ہو جائے گا ۔ سو ایسا ہی ہوا ۔ اور وہ میعاد کے اندر فوت ہو گیا تا معلوم کریں کہ ہر ایک شوخی کی سزا ہے۔’’
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 325 تا 327)
پس آپؑ نے دنیا کو تنبیہ کی کہ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سے لڑائی مت کرو۔ جب اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے تو وہ مدد اور نصرت بھی فرماتا ہے نشانات بھی دکھاتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پرشوکت الفاظ میں فرمایا ہے کہ
‘‘ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ ’’
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 665 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 4)
پس آج دو سو سے اوپر ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؑ کی سچائی دنیا پر ظاہر فرماتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کے مشن کو پھیلانے والوں میں حصہ دار بنائے اور ہمارے ایمان و ایقان کو مضبوط کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب میں آج کل جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے بارے میں دنیا داروں کے جو تبصرے ہیں اور تجزیے ہیں وہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
فلپ جونسٹن (Philip Johnston)ڈیلی ٹیلیگراف 18مارچ 2020ء میں یہ لکھتے ہیں کہ نیٹ فلکس(Netflix)اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمز کی رپورٹ ہے کہ آج کل دکھائی جانے والی 2011ء کی ایک فلم بہت مقبول ہو رہی ہے جس کا نام کونٹیجین Contagionہے۔ اس کی کہانی میں ایک وائرس (virus) کے پھیلاؤ، طبی محققین اور صحت کے اداروں کی طرف سے اس بیماری کی شناخت اور اس پر قابو پانے کی شدید کوششوں، معاشرتی نظم و ضبط ختم ہونے اور آخر میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین (vaccine)متعارف کروانے کا ذکر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ شاید ہمارا اس طرح دنیا کی تباہی کے موضوع پر بنی فلموں میں دلچسپی لینا ہمارے لمبا عرصہ رہنے والے استحکام اور ترقی کا نتیجہ ہے۔ دنیا دار جو ترقی کر رہے ہیں شاید اس کا نتیجہ ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ترقی ہمیشہ رہے گی۔ کہتا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ صرف دو ہفتوں کے دوران ہماری دنیا بالکل الٹ چکی ہے۔ لکھتا ہے آگے کہ ہمارے سارے منصوبے رک گئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں ہماری امیدیں غیر یقینی ہیں۔ پھر آگے کہتا ہے کہ نہ تو سرد جنگ کے دوران ایٹمی جنگ کا خطرہ اور نہ ہی حالیہ پیش آنے والے مختلف معاشی بحرانوں کا ایسا اثر تھا جس طرح آج اس وبا سے ہو رہا ہے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ یہاں تک کہ گذشتہ عالمی جنگ کے دوران بھی لوگ تھیئٹر اور سینما اور ریسٹورنٹ اور کیفے، کلبوں اور پبز (pubs)میں جاتے تھے۔ کم از کم یہ چیز تھی جو لوگوں کو میسر تھی لیکن ہم آج کل یہ بھی نہیں کر سکتے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم میں سے بیشر جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں پلے بڑھے ہیں ہم لوگوں نے ہمیشہ خوشحالی ، استحکام اور اطمینان کی توقع کی ہے جس کا پہلی نسلوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اورنہ ہی وہ لوگ ایسے حالات میں تھے کہ اس بارے میں سوچتے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ امید ہے کہ سائنس اس بیماری کی ویکسین یا علاج لے کر ہمارے بچاؤ کے لیے آ جائے اور شاید ایسا ہو بھی جائے۔ اور پھر کہتا ہے کہ سیئٹل (Seattle)میں، امریکہ میں آج انسانی رضاکاروں پر تجربہ کا یہ آغاز ہوا ہے لیکن کہتا ہے کہ بُری خبر یہ ہے کہ یہ جاننے میں بھی مہینوں لگیں گے کہ اس ویکسین کا کوئی فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ پوری تاریخ میں لوگوں نے اس طرح کے حالات میں اپنے عقیدے کا سہارا لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے گزارا ہے۔ پرانی تاریخ جو ہے اس میں اگر ایسے خطرناک حالات پیدا ہوئے تو انہوں نے اپنے عقیدے کا سہارا لیا ہے اور اپنے حالات کو گزارا۔ اللہ کی طرف رجوع کیا تا کہ ان لوگوں اور ان کے پیاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کو کوئی معنیٰ اور مطلب دیں۔ پھر آگے یہ لکھتا ہے کہ لامذہب ایسے موقعوں پر ہمیشہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے ایک سیکولر انسانیت پسندانہ نظریہ اپناتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک روشن خیالی کا تصور ہے جو لامذہب اپناتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ ہے کہ انسانی کوششوں سے قدرتی عمل کو ہمیشہ بہتر کیا جا سکتا ہے اور اسے تقدیر یا خدا کے قہر سے جوڑنا ضروری نہیں ہے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم نے کتنی بار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ سائنسدان کچھ حل نکال لیں گے چاہے وہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری۔ ہمیں عنقریب یہ پتا چلنے والا ہے کہ آیا اس طرح کی امید رکھنا صحیح ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہتا ہے (دنیا دار ہے ناں خود) کہ پھر میں شاید چرچ کی طرف واپس چلا جاؤں۔ ابھی تو میں مذہب سے دور ہوں، خدا سے دور ہوں اور جو بظاہر شواہد نظر آ رہے ہیں یہ ظاہر اس طرح کر رہے ہیں اور اگر یہ نہیں ہوتا جس طرح یہ سائنسدان کہہ رہے ہیں تو پھر ہمیں بھی سوچنا پڑے گا کہ چرچ کی طرف واپس جائیں، مذہب کی طرف واپس جائیں۔
پس اس وائرس نے دنیا کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خدا کی طرف رجوع کریں لیکن حقیقی خدا اور زندہ خدا تو صرف اسلام کا خدا ہے جس نے اپنی طرف آنے والوں کو راستہ دکھانے کا اعلان فرمایا ہے۔ ایک قدم بڑھنے والوں کو کئی قدم بڑھ کر ہاتھ پکڑنے کا اعلان فرمایا ہے۔ اپنی پناہ میں لینے کا اعلان فرمایا ہے۔ پس ان حالات میں ہمیں جہاں اپنے آپ کو سنوارنے کی ضرورت ہےوہاں اپنی تبلیغ کو بھی مؤثر رنگ میں کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو اسلام کے بارے میں پہلے سے بڑھ کر متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور پھر ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کو بتائے کہ اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو۔ اگر اپنے بہتر انجام چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو کہ آخری زندگی کا انجام جو ہے وہی اصل انجام ہے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرو۔
پس ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بھی ہر ایک کو عطا فرمائے۔ یہ آفات تو اب دنیادار بھی کہتے ہیں کہ اب بڑھتی چلی جانی ہیں۔ اس لیے اپنے بہتر انجام کے لیے جیسا کہ میں نے کہا بہت ضرورت ہے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دنیا کو بھی بتائیں کہ اصل انجام آخری زندگی کا انجام ہے جس کے لیے تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بہرحال آنا ہو گا۔ اس کے بارے میں ایک ماہر کی تنبیہ یہ ہے۔ The Times میں یہ مضمون چھ مارچ میں شائع ہوا تھا۔ ایک ماہر نے متنبہ کیا ہے کہ خطرناک وائرس کی جینیاتی تبدیلیوں کے عام ہونے کا بہت امکان ہے اور اس کے ساتھ چند برسوں میں ایک نئے کورونا وائرس کے دنیامیں پھیل جانے کا بھی امکان ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ شاید اگلے ہر تین سال کے بعد کوئی اور نئی بیماری آ جائے۔
پھر بلومبرگ (Bloomberg)نے بھی ایک مضمون لکھا۔ وہ کہتا ہے کہ سائنسدان کورونا وائرس پر قابو پا سکتے ہیں لیکن وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی جنگ نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ انسانیت اور جرثوموں کے مابین ارتقا کی دوڑ میں کیڑے دوبارہ آگے آ رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کے مطابق 1970ء کے بعد سے اب تک پندرہ سو سے زیادہ نئے وائرس دریافت ہوئے ہیں اور اکیسویں صدی میں وبائی بیماریاں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے اور دور تک پھیل رہی ہیں۔ پھر کہتا ہے کہ اس سے پہلے جو محدود علاقوں میں رہنے والی وبائیں تھیں اب وہ بہت تیزی سے عالمی سطح پر بھی پھیل سکتی ہیں۔ بہرحال اس کی لمبی تفصیلات ہیں یہ تو ساری بیان نہیں ہو سکتیں لیکن اپنے انجام بخیر کے لیے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں خدا تعالیٰ سے پہلے سے بڑھ کر تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
کورونا کی وبا کے بارے میں پہلے ہی میں ہدایت دے چکا ہوں۔ یاددہانی بھی کروا دوں کیونکہ اب یہ تمام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہاں بھی اس کا اثر بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اب حکومت بھی اس بات پہ مجبور ہو گئی ہے کہ اقدامات اٹھائے اور زیادہ سخت اقدامات اٹھائے ۔ بڑے اقدامات اٹھائے۔ جب بیماریاں آتی ہیں، وبائیں آتی ہیں تو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں اس لیے ہر ایک کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ بڑی عمر کے لوگ، بیمار لوگ یا ایسی بیماری میں مبتلا لوگ جن کے جسم کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے ان کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی عمر کے لوگ گھروں سے کم نکلیں اور یہی حکومت کا اعلان بھی ہے سوائے اس کے کہ بہت اچھی صحت ہو عموماً گھر میں رہنا چاہیے۔ یہاں مسجد میں آنے میں بھی احتیاط کریں۔ جمعہ بھی اپنے علاقے کی مسجد میں پڑھیں اور یہاں آج کی حاضری سے بھی لگ رہا ہے کہ اکثر لوگ جمعہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی پڑھ رہے ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس بات پر بھی حکومت کی طرف سے پابندی لگ جائے کہ جمعہ کے لیے بھی gatheringنہ ہو۔ عورتیں عموماً مسجد میں آنے سے پرہیز کریں۔ بچوں کے ساتھ آتی ہیں ان کو پرہیز کرنا چاہیے۔ پھر عموماً ڈاکٹر بھی آج کل یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے اپنے آرام کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے اپنی نیند کو پورا کرنا چاہیے۔ اپنی نیند پوری کریں۔ خود بھی اور بچے بھی۔ ایک بڑے آدمی کے لیے چھ سات گھنٹے کی نیند ہے۔ بچے کے لیے آٹھ، نو گھنٹے یا دس گھنٹے کی نیند ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ نہیں کہ بارہ بجے تک ساری رات بیٹھ کے ٹی وی دیکھتے رہے اور اس کے بعد ایک تو نماز پہ نہ اٹھ سکے پھر صبح جلدی جلدی اٹھے، چند گھنٹوں کے بعد کام پے جانا ہے اس کی مشکلات پھر سارا دن سستی، پھر کمزوری، پھر کام کی تھکاوٹ اور اسی وجہ سے پھر یہ بیماریاں جو ہیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح بچوں کو بھی عادت ڈالیں کہ جلدی سوئیں اور آٹھ نو گھنٹے کی نیند پوری کر کے جلدی اٹھیں۔ پھر بازاری چیزیں کھانے سے بھی پرہیز کریں۔ ان سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں خاص طور پر یہ جو کرسپ(crisp)وغیرہ کے پیکٹ ہیں یہ بچوں کو کھانے کے لیے لوگ دے دیتے ہیں یا ایسی چیزیں جس میں بعض پریزرو یٹوز(preservatives)بھی ڈالے ہوتے ہیں یہ صحت کے لیے خطرناک ہیں ۔ان سے پرہیز کرنا چاہیے یہ بھی آہستہ آہستہ انسانی جسم کو کمزور کرتے جاتے ہیں۔
پھر یہ بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آج کل پانی بار بار پینا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ایک گھنٹے بعد، آدھے پونے گھنٹے بعد گھنٹے بعد ایک دو گھونٹ پی لیں۔ یہ بھی بیماری سے بچنے کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ ہاتھوں کو صاف رکھنا چاہیے۔ اگر سینیٹائزر نہیں بھی ملتے تو ہاتھ دھوتے رہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کم از کم پانچ دفعہ وضو کرنے والے جو ہیں ان کو صفائی کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ اس طرف توجہ کریں۔ چھینک کے بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں۔ مسجدوں میں بھی اور عام طور پر بھی اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی رومال آگے رکھ کے، ناک پر رکھ کے یا اب بعض ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اپنا بازو سامنے رکھ کے اس پہ چھینکیں تاکہ اِدھر اُدھر چھینٹے نہ اڑیں۔ بہرحال صفائی بہت ضروری ہے اور اس کا خیال رکھنا چاہیے لیکن آخری حربہ دعا ہے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے شر سے بچائے۔ ان تمام احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کریں جو کسی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں یا ڈاکٹروں کو شک ہے کہ ان کو بھی یہ وائرس ہے یا کسی بھی اور بیماری میں مبتلا ہیں سب کے لیے دعا کریں۔
پھر اسی طرح کسی بھی بیماری کی کمزوری کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا وائرس حملہ آور ہو جاتا ہے تو ان کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی بچا کے رکھے۔ عمومی طور پر ہر ایک کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اس وبا کے اثرات سے بچا کے رکھے۔ جو بیمار ہیں انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ہر احمدی کو شفا عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ایمان اور ایقان میں بھی مضبوطی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 10؍اپریل 2020ء صفحہ 5تا8)