سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مطالعہ کرنے کا بیان(حصہ دوم۔آخر)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

‘‘آپؑ کے مطالعہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا کلام رہتا۔اس کے بعد بخاری پر آپ بہت فکر کرتے۔اور اسے مطالعہ میں رکھتے۔اس کے بعد دلائل الخیرات ۱ اور مثنوی مولانا روم۲ آپ کی پسندیدہ کتابیں مطالعہ کے لیے تھیں۔ان کے علاوہ تذکرۃ الاولیاء۳ اور فتوح الغیب۴ اور سفر السعادت۵ بھی پڑھتے۔کتابوں کے اس انتخاب سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؑ کی طبیعت کی افتاد کیسی واقع ہوئی تھی۔’’

(حیاتِ احمد جلد اول از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 174-175)

پنڈت دیوی رام بیان کرتے ہیں :

“میں 21؍جنوری 1875ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیا تھا مَیں وہاں چار سال رہا۔مَیں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس اکثر جایا کرتا تھا اور میزان طب آپ سے پڑھا کرتا تھا۔آپ کے والد مرزا غلام مرتضےٰ صاحب زندہ تھے۔مرزا غلام احمد صاحب ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔آپ پانچ وقت نماز پڑھنے کے لیے مسجد خاص (مسجد اقصےٰ مراد ہے۔ خاکسار موٴلف) میں جایا کرتے تھے۔

… مرزا صاحب کا ہندوؤں کے ساتھ مشفقانہ تعلق تھا۔مرزا صاحب ہر وقت مذہبی کتب و اخبارات کا مطالعہ کرتے اور انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی۔مرزا صاحب کی خدمت میں ایک لڑکا عنایت بیگ تھا۔اس کو میرے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اس کو دوسرے لڑکوں سے علیحدہ رکھنا تاکہ اس کے کان میں دوسرے لڑکوں کی بُری باتیں نہ پڑیں ۔اور یہ عادات قبیحہ کو اختیار نہ کر لے۔مرزا صاحب بازار میں کبھی نہ آتے تھے صرف مسجد تک آتے تھے اور نہ کسی دکان پر بیٹھتے تھے۔مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے۔مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ”غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں ۔جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 759)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“آپؑ کے مشاغل بجز عبادت و ذکرِالٰہی اور تلاوت قرآن مجید اور کچھ نہ تھے۔آپؑ کو یہ عادت تھی۔کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے۔دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے۔وہ اکثر آپؑ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔قرآن مجید کی تلاوت اس پر تدبر اور تفکر کی بہت عادت تھی۔خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں ۔کہ آپؑ کے پاس ایک قرآن مجید تھا۔اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔وہ کہتے ہیں ۔کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپؑ کو خدا تعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا۔اور آپؑ کو کلام الٰہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی۔اسی تلاوت اور پُر غور مطالعہ نے آپؑ کے اندر قرآن مجید کی صداقت اور عظمت کے اظہار کے لیے ایک جوش پیدا کر دیاتھا۔اور خدا تعالیٰ نے علوم قرآنی کا ایک بحر ناپیدا کنار آپؑ کو بنا دیا تھا۔”

(حیاتِ احمد جلد اول از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 172-173)

اخبار‘‘وکیل امرتسر” میں جو اُس دور کا ایک مشہور غیر احمدی اخبار تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ایڈیٹر کی طرف سے جو مضمون شائع ہوا تھا۔اس کا ایک اقتباس ناظرین کے لیے موجب دلچسپی ہو گا۔اخبار‘‘وکیل’’نے لکھا کہ

“ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔اس کی نظیر غالباً دنیا میں کسی او ر جگہ نہیں مل سکتی۔مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کیلیے حکم وعدل ہوں ۔لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی۔اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا۔آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں اس طرح مذہب کے مطالعہ میں صرف کر دے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 296)

(آپؑ نے) حضرت بدھ ؑکی کتاب کا بھی مطالعہ کیا۔

(ماخوذ از براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 423)

“اس وقت گرنتھ ہمارے پاس موجود ہے اور نہ آج سے بلکہ تیس برس سے ہم باوا صاحب کے اصل عقائد کا پتہ لگانے کیلئےجہاں تک انسانی طاقت ہے خوض کر رہے ہیں اور ہماری کامل تحقیقات نے یہی فیصلہ دیا کہ باوا صاحب رحمۃ اللہ سچے مسلمان اور ایسے صادق تھے کہ اسلام کے انوار حاصل کرنے کے لیے ساری زندگی بسر کر دی”

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ141 حاشیہ)

آپؑ کے اخبارات و رسائل پڑھنے کا بیان

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

“آپ کو اخبار پڑھنے کی بھی عادت تھی۔اپنی بعثت سے پہلے اخبار وکیل ہندوستان، سفیر ہند امرتسر، نور افشاں لودہانہ، برادر ہند لاہور، وزیر ہند سیالکوٹ، منشور محمدی بنگلور، ودیا پرکاش امرتسر، آفتاب پنجاب لاہور، ریاض ہند امرتسر اور اشاعۃ السنہ بٹالہ خرید کر پڑھا کرتے تھے۔ان میں سے بعض اخبارات میں خود بھی مضامین لکھتے تھے۔اخبار بینی کا مذاق آپ کو دائمی تھا۔بعثت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے لگے۔جو براہ راست غیر زبانوں کے اخبارات آپ کے پاس آتے تھے آپ ان کا ترجمہ کرا کر سنتے اور اگر ان میں کوئی مضمون اسلام کے خلاف ہوتا تو اس کا جواب لکھوا کر شائع کرتے تھے اور جو خود پڑھ سکتے تھے وہ ضرور پڑھتے۔اور اخبار کے پڑھنے کے متعلق آپ کا معمول یہ تھا کہ تمام اخبار پڑھتے اور معمولی سے معمولی خبر بھی زیر نظر رہتی۔آخری زمانہ میں اخبار عام کو یہ عزت حاصل تھی کہ آپ روزانہ اخبار عام کو خریدتے تھے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے رومال میں باندھ رکھتے تھے۔اور بعض اوقات اخبار عام میں اپنا کوئی مضمون بھی بھیج دیتے تھے اخبار عام کی بے تعصبی اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے۔”

(سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 71)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓبیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ والد صاحب رجب علی کا اخبار‘‘سفیر امرتسر”اور اگنی ہوتری کا رسالہ‘‘ہندو بندو” اور اخبار‘‘منشور محمدی” منگایا اور پڑھا کرتے تھے اور مُؤَخَّرُ الذِّکْر میں کبھی کبھی کو ئی مضمون بھی بھیجا کر تے تھے۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ آخری عمر میں حضرت صاحب‘‘اخبار عام’’لاہور منگایا کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 210)

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

“ایک دن میں قرآن شریف لے کر حضرت مولوی نور الدین صاحب کا درس سننے کے واسطے اپنے کمرے کے دروازے سے نکل رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے بلایا اور فرمایا میری آنکھوں کو تکلیف ہے، آپ مجھے آج اخبار سنا دیں ۔حضورؑ اخبار عام روزانہ، باقاعدہ روزانہ منگوایا کرتے تھے اور پڑھتے تھے۔اوپر کے صحن میں عاجز راقم حضرت کے حضور میں بیٹھ گیا اور میرا لڑکا عبد السلام سلمہ اللہ تعالیٰ اس وقت قریباً دو سال کا تھا، یہ بھی میرے پاس بیٹھا تھا اور جیسا کہ بچوں کی عادت ہے بیٹھا ہوا ہلنے لگا اور ہوں ہوں کرنے لگا جیسا کچھ پڑھتا ہے۔میں نے اسے روکا کہ چپ بیٹھو۔حضور نے فرمایا اسے مت روکو جو کرتا ہے کرنے دیں ۔”

(ذکرِ حبیب صفحہ 68 مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب)

“آپ علیہ السلام اخبارات کا مطالعہ کرتے اور ان میں مضامین بھی بھجواتے۔”اخبارِ عام، وہ اخبار تھا جسے آپ علیہ السلام پڑھنا پسند فرماتے۔آپ علیہ السلام کا طریق یہ تھا کہ شروع سے آخر تک پورا اخبار پڑھتے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی بات ہوتی تو اس کا جواب لکھتے۔اس طرح کثرتِ مطالعہ اور تحریر کا کام ساتھ ساتھ جاری تھا۔”

(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از امتہ الحئی احمد صاحبہ صفحہ 15)

“آخری زمانہ میں اخبار عام کو یہ عزت حاصل تھی کہ آپ روزانہ اخبار عام خریدتے تھے اور جب تک اسے مکمل پڑھ نہ لیتے رومال میں باندھ رکھتے تھے ۔اور بعض اوقات اخبار عام میں اپنا کوئی مضمون بھی بھیج دیتے تھے اخبار عام کی بے تعصبی اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے ۔”

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از یعقوب علی عرفانی صاحب ص 71)

آپؑ کے لکھنے اور قلم کا بیان

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

“اس زمانہ کا ہتھیار قلم ہے۔یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں۔اس لیے ہم کو چاہیے کہ ہر گز بے کار نہ بیٹھیں ۔مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہمرنگ ہو۔جس قسم کے ہتھیار لے کر مید ان میں وہ آئے ہیں ،اسی طرز کے ہتھیار لے کر ہم کو نکلنا چاہیے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔اس میں یہی سر ہے کہ یہ زمانہ جنگ وجدل کا نہیں ہے، بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔”

(ملفوظات جلد اول صفحہ232)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام آخری زمانہ میں ٹیڑھے نب سے کیا کرتے تھے اور بغیر خطوط کا سفید کاغذ استعمال فرماتے تھے۔آپ کی عادت تھی کہ کاغذ لیکر اسکی دو جانب شکن ڈال لیتے تھے تا کہ دونوں طرف سفید حاشیہ رہے اور آپ کالی روشنائی سے بھی لکھ لیتے تھے اور بلیو ،بلیک سے بھی اور مٹی کا اُپلہ سا بنوا کر اپنی دوات اس میں نصب کروا لیتے تھے تا کہ گرنے کا خطرہ نہ رہے۔آپ بالعموم لکھتے ہوئے ٹہلتے بھی جاتے تھے یعنی ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی اور دوات ایک جگہ رکھ دیتے تھے جب اسکے پاس سے گزرتے نب کو تر کر لیتے۔اور لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے طور پر پڑھتے تھے تو آپ کے ہونٹوں سے گنگنانے کی آواز آتی تھی اور سننے والا الفاظ صاف نہیں سمجھ سکتا تھا۔خاکسار نے مرزا سلطان احمد صاحب کو پڑھتے سنا ہے ان کا طریق حضرت صاحب کے طریق سے بہت ملتا ہے۔آپ کی تحریر پختہ مگر شکستہ ہو تی تھی۔جس کو عادت نہ ہو وہ صاف نہیں پڑھ سکتا تھا۔لکھے ہوئے کو کاٹ کر بدل بھی دیتے تھے۔چنانچہ آ پ کی تحریر میں کئی جگہ کٹے ہوئے حصّے نظر آتے تھے اور آپکا خط بہت باریک ہوتا تھا۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر23)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ

“اوائل میں حضرت مسیح موعود ؑ کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے۔اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے۔تا کہ جب ایک قلم گھس جاوے تو دوسری کے لیے انتظار نہ کرنا پڑے کیو نکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے۔لیکن ایک دن جب کہ عید کا موقعہ تھامیں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نبیں پیش کیں ۔اس وقت تو حضرت صاحب نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت کا خط آیا کہ آپ کی وہ نبیں بہت اچھی ثابت ہوئی ہیں ۔اور اب میں انہیں سے لکھا کروں گا۔آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوں کی بھیج دیں ۔چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد میں اسی قسم کی نبیں حضور کی خدمت میں پیش کر تا رہا۔لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہو تا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مال میں کچھ نقص پید ا ہو گیا اور حضر ت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایاکہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا جس پر مجھے آئندہ کے لیے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر د امنگیر ہوا۔او ر میں نے کارخانہ کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضر ت مسیح موعودؑ کی خدمت میں تمہارے کارخانہ کی نبیں پیش کیا کرتا تھا لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا۔”

(سیرت المہد ی جلد اول روایت نمبر434)

(…………باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button