کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کامل طبیب بننے کے گُر

چند مولوی اور مدرسہ طبیہ کے چند طالب علم اور طبیب آئے۔ طب کا ذکر درمیان میں آیا۔ حضرت نے فرمایا کہ

مسلمانوں کو انگریزی طب سے نفرت نہیں چاہیے۔ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ۔ حکمت کی بات تو مومن کی اپنی ہے۔ گم ہوکر کسی اور کے پاس چلی گئی تھی۔ پھر جہاں سے ملے جھٹ قبضہ کر لے۔ اس میں ہمارا یہ منشا نہیں کہ ہم ڈاکٹری کی تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ بموجب حدیث کے انسان کو چاہیے کہ مفید بات جہاں سے ملے وہیں سے لے لے۔ ہندی، جاپانی، یُونانی، انگریزی ہر طب سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے اور اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو بنانا چاہیے؎

تمتع زہر گوشۂ یا فتم

زہر خرمنے خوشۂ یافتم

تب ہی انسان کامل طبیب بنتا ہے۔ طبیبوں نے تو عورتوں سے بھی نسخے حاصل کیے ہیں۔

لَیْسَ الْحَکِیْمُ اِلَّا ذُوْ تَجْرِبَۃ لَیْسَ الْحَلِیْمُ اِلَّا ذُوْ عُسْرَۃ۔

حکیم تجربہ سے بنتا ہے اور حلیم تکالیف اٹھا کر حلم دکھانے سے بنتا ہے اور یوں تو تجربوں کے بعد انسان رہ جاتا ہے کیونکہ قضا و قدر سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔

جامع کمالات

اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا ہے کہ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہ۔ ان کی ہدایت کی پیروی کر یعنی تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات متفرقہ کو اپنے اندر جمع کرلے۔ یہ آیت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بڑی فضیلت کا اظہار کرتی ہے۔ تمام گذشتہ نبیوں اور ولیوں میں جس قدر خوبیاں اور صفات اور کمال تھے وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیئے گئے تھے۔ سب کی ہدایتوں کا اقتداء کر کے آپؐ جامع تمام کمالات کے ہو گئے۔ مگر جامع بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان متکبر نہ ہو۔ جو سمجھتا ہے کہ میں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے وہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ خاکساری سے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ جہاں انسان کوئی فائدہ کی بات دیکھے، چاہیے کہ اسی جگہ سے فائدہ حاصل کر لے۔ ڈاکٹروں کو بھی مناسب نہیں کہ پُرانی طب کو حقارت سے دیکھیں۔ بعض باتیں ان میں بہت مفید ہیں۔ میں نے بعض متن کتب طب کے بیس بیس جزو کے حفظ کیے تھے۔ ہزار سے زیادہ کتاب طب کی ہمارے کتب خانے میں موجود تھی ۔جن میں سے بعض کتابیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر خرید کی گئی تھیں۔ مگر یہ علم ظنّی ہوتا ہے۔ لاف مارنے اور دعوے کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔

تقویٰ

فرمایا:افسوس ہے کہ لوگ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف ہیں کہ دوسرے پہلو کی طرف اُن کو بالکل کوئی توجہ نہیں۔ ہر ایک شخص ایک پہلو پر حد سے زیادہ جُھک جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جس قدر بار بار تقویٰ کا ذکر کیا ہے اتنا ذکر اور کسی امر کا نہیں کیا۔ تقویٰ کے ذریعہ سے انسان تمام مہلکات سے بچتا ہے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں تقویٰ سے کام نہ لیا اور کہا کہ جب تک الیاس آسمان سے نہ آئے ہم تم کو نہیں مان سکتے۔ انہیں چاہیے تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور خوارق کا مطالعہ کرتے اور بہت سی باتوں کے مقابلہ میں صرف ایک بات پر نہ اَڑتے۔ ایسا ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں یہودیوں نے کہا کہ آخری زمانہ کا نبی تو اسرائیلیوں میں سے آنا چاہیے تھا، ہم تم کو نہیں مان سکتے۔ تائیداتِ الٰہی، نصرتِ حق اور معجزات کی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک نبی کے وقت ابتلاؤں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو توریت میں ایسے لفظ صاف لکھ دیتا کہ آخری زمانہ کے نبی کے باپ کا نام عبداللہ اور ماں کا نام آمنہ اور مسکن مکّہ ہو گا۔ مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ ایسا ہی اس وقت کے مسیح کے زمانہ میں بھی ہوا۔ اگر لوگ نبی کریم کے ساتھ فرشتوں کو نازل ہوتے دیکھ لیتے تو کوئی بھی انکار نہ کرتا۔ مگر خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ ابتلا آئیں اور متقی لوگ اس ابتلا کے وقت بچ رہتے ہیں۔

(ملفوظات جلد 8صفحہ 189تا191۔ایڈیشن1984ء)

استقامت

ایک شخص نے بیعت کی۔ فرمایا:

خدا تعالیٰ ثابت قدم رکھے۔ ثابت قدمی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک استقامت نہ ہو، بیعت بھی ناتمام ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤ ںاور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اُن میں سے انسان گذر نہ لے منزل مقصود کو پہنچ نہیں سکتا۔ امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو تیار ہے۔ مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے۔

(ملفوظات جلد 8صفحہ 197تا198۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button