سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: آپؑ کی دعاؤں کا بیان(حصّہ چہارم آخر)

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا بیان(حصّہ چہارم آخر)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“دعاؤں کے کرنے اورکرانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر توجہ رہتی تھی کہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ مُجَسّم دعا تھے۔”

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ510)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“25فروری 1901ء کا واقعہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ میں اس بات کے پیچھے لگا ہوا ہوں کہ اپنی جماعت کے واسطے ایک خاص دعا تو ہمیشہ کی جاتی ہے۔ مگر ایک نہایت جوش کی دعا کرنا چاہتا ہوں۔ جب اس کا موقع مل جائے”۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ511)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“اس سے ظاہر ہے کہ خاص دعاؤں کا وقت اور موقعہ اور ہوتا ہے اوروہ ہمیشہ میسر نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں دیکھا جاتا تھا کہ جب کوئی دوست رخصت ہونے کی اجازت چاہتا تھا ۔تو فرمایا کرتے تھے کیا آپ دو چار روز اورنہیں ٹھہر سکتے اور اکثر خدام کو زیادہ سے زیادہ وقت قادیان میں رہنے کی ترغیب دیتے حالانکہ بظاہر کوئی کام ان کے ذمہ نہ ہوتا۔ اس کی اصل غرض یہی تھی کہ سامنے رہنے سے دعا کے خاص موقعہ میں شامل ہو جانا ممکن ہوتا”۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ511)

حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں:

“جب حضرت مفتی محمد صادق صاحب لاہور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازم تھے۔ ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملتان کے سفر پر تشریف لے گئے لاہور میں حضور کو دوسری گاڑی کے انتظار میں ٹھہرنا پڑا۔ ان دنوں حضرت مفتی صاحب بہت بیمار تھے۔ جب حضور لاہور اترے تو اسٹیشن سے ان کی عیادت کے لئے ان کے مکان پر تشریف لے گئے جو محلہ ستھان میں تھا۔ اور انہوں نے کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ ایک گھنٹہ کے قریب ان کے پاس بیٹھے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی ہمراہ تھے ۔ جب آپ تشریف لے جانے لگے تو انہیں فرمایا کہ مفتی صاحب آپ بیمار ہیں۔ بیمار کی بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ آپ ہمارے کام میں کامیابی کے لئے دعا کریں۔ بندہ بھی اس وقت حضرت مفتی صاحب کے پاس موجودتھا۔ یہ آخر اکتوبر 1897ء کاواقعہ ہے اسی طرح سے گاہے گاہے آپ دوسروں سے بھی اپنے مقاصد کے واسطے دعا کرایا کرتے تھے۔”

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 526)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے یہ حکم دیا تھاکہ ہمارے پاس مختلف مضمون کے خط آتے ہیں۔ بعض دعا کے لئے آتے ہیں۔ سو اس میں ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کسی کا خط دعا کے لئے آتا ہے تو ہم اسی وقت دعا کردیتے ہیں۔ اور جب وہ یاد آتا ہے تب بھی دعا کیا کرتے ہیں۔ سو ایسے خطوط کا جواب یہ لکھ دیا کرو کہ ہم نے دعا کی ہے اور کرتے رہیں گے اور چاہیے کہ دعا کے لئے یاد دلاتے رہو”۔

(تذکرۃ المہدی صفحہ 8)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“آپ اکثر سوتے کم تھے اور بہت کم لیٹتے تھے اور رات اور دن کا زیادہ حصہ مخالفوں کے رد اور اسلام کی خوبیاں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبوت رسالت و نبوت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل اور توحید باری تعالیٰ اورہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں لکھنے میں گزرتا تھا اور اس سے جو وقت بچتا تو دعاؤں میں خرچ ہوتا۔ دعاؤں کی حالت میں نے آپ کی دیکھی ہے کہ ایسے اضطراب اور ایسی بیقراری سے دعا کرتے تھے کہ آپ کی حالت متغیر ہوجاتی۔ اور بعض وقت اسہال ہوجاتے اور دورانِ سر ہوجاتا”۔

(تذکرۃ المہدی صفحہ 11)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“ایک دفعہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ کا صاحبزادہ فوت ہوگیا اور اس کے جنازہ میں بہت احباب شریک تھے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور بڑی دیر لگی۔بعد سلام کے آپ نے تمام مقتدیوں کی طرف منہ کرکے فرمایا کہ اس وقت ہم نے اس لڑکے کی ہی نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ تم سب کی جو حاضر ہو اور ان کی جوہمیں یاد آیانماز جنازہ پڑھ دی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ اب ہمارے جنازہ پڑھنے کی تو ضرورت نہیں رہی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسا موقع نہ ملے تو یہی نماز کافی ہوگئی ہے۔ اس پر تمام حاضرین احباب کو بڑی خوشی ہوئی اور حضرت علیہ السلام نے جو سب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایاکہ ہم نے تم سب کی نماز جنازہ پڑھ دی ایسے پرشوکت اوریقین سے بھرے ہوئے الفاظ میں فرمایا کہ جس سے آپ کے الفاظ اور چہرہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہم سب آپ کے سامنے جنازہ ہیں اوریقینا ًہماری مغفرت ہوگئی اور ہم جنت میں داخل ہوگئے اور آپ کی دعا ہمارے حق میں مغفرت کی قبول ہوگئی ہے اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہا۔

اللہ اکبر !آپ کی ہم گنہگاروں پر کیسی شفقت تھی کہ ہر وقت ہمارے لئے بخشش اور مغفرت کے لئے بہانہ ڈھونڈھتے تھے اور ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے کسی قسم کا بہانہ ہاتھ لگے اور مغفرت کی دعامانگی جائے”۔

(تذکرۃ المہدی صفحہ 79)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“ایک اور شخص کاجنازہ حضرت اقدس علیہ السلام نے پڑھایا لیکن میں اس وقت نہیں تھا۔ اس متوفّٰی مرحوم کے رشتہ داروں نے اس واقعہ کا بیان کیا تھا کہ اٹھارہ بیس برس کا ایک شخص نوجوان تھا وہ بیمار ہوا اور اس کو آپؑ کے حضور کسی گاؤں سے لے آئے اور وہ قادیان میں آپ کی خدمت میں آیا۔ چند روز بیمار رہ کر وفات پاگیا۔ صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب عادت شریفہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی۔ بعض کو بباعث لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آگیااور بعض گھبرا اٹھے …… بعد سلام کے فرمایا کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی، اس کے لئے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤںمیں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کر چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔ یہ شخص بخشا گیا۔ اس کو دفن کردیا۔ رات کو اس کی والدہ ضعیفہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میرا ٹھکانہ کیا۔”

(تذکرۃ المہدی صفحہ 80-79)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ اَلدُّعَاءُ سَیْفُ الْمُؤمِنِ مومن کا ہتھیار دعا ہے۔”

(تذکرۃ المہدی صفحہ 95)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓصاحب بیان کرتے ہیں:

“فرمایا کرتے تھے۔ دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے۔ کہ جو کچھ ہو گا۔ دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے۔ اور اس کے سوائے کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں۔ خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے… دعا سے بڑھ کر اور کوئی ہتھیار نہیں”۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓصاحب صفحہ 518-519)

شکر و امتنان کے جذبات کیلئے دعا، راز حیات و موت کی معرفت کیلئے دعا، عذاب الٰہی سے بچنے کیلئے دعا، حق کی تائید اور فتح اور باطل کے کچل دیے جانے کیلئےدعا، اُمّت محمدیہ کی اصلاح کیلئے دعا ،زندگی کے حقیقی مقصد کے حصول کیلئے دعا، طہارت باطنی و ظاہری کیلئے دعا، اہل کیلئے دعا، سلسلہ کی ترقی کیلئے دعا ،سفر میں دعا، حضر میں دعا،نور محمدی کے ظہو رکیلئے دعائیں ، غم و فکر کی کیفیات کے دور کرنے کیلئے دعائیں اور ان کے علاوہ ایسے مزید لا تعداد پہلو ہیں جن کا احاطہ کرنا ایک انتہائی محنت طلب کام ہے۔

16مئی 1902ء کو بمقام گورداسپور مولوی نظیر حسین صاحب سخاؔ دہلوی نے بذریعہ عریضہ حضرت اقدس سے نماز میں حصولِ حضور کا طریق دریافت کیا اس پر حضور نے مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا:
“السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ’ طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز سے خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں۔ توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہر ایک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں:

“ اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضورِ نماز حاصل نہیں تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضورِ نماز میسر آوے۔”(فتاویٰ مسیح موعودؑ صفحہ 36)

حضرت ام المومنین ؓنے حضور ؑکی وفات کے وقت یا اس کے تھوڑی دیربعد اپنے بچوں کو جمع کیااورصبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں نصیحت بھی فرمائی کہ

“بچو گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔”(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 548)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گریہ و بکا کا بیان

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ73-74میں ایک فارسی نظم میں فرماتے ہیں :

بدل دردے کہ دارم از برائے طالبانِ حق

نمے گردد بیاں آں درد از تقریر کوتاہم

دل و جانم چناں مستغرق اندر فکر اوشان ست

کہ نے از دل خبر دارم نہ از جانِ خود آگاہم

بدیں شادم کہ غم از بہر مخلوقِ خدا دارم

ازیں در لذتم کز درد مے خیزد ز دل آہم

غمِ خلق خدا صرف اززباں خوردن چہ کارست ایں

گرش صد جاں بہ پاریزم ہنوزش عذر میخواہم

ترجمہ: “میں اس بات پر خوش ہوں کہ میرے اندر مخلوق خدا کا غم ہے اور جب میرے دلِ زار میں ان کیلئے درد اٹھتا ہے تو میں اس میں لذّت پاتا ہوں … صرف زبان سے مخلوق خدا کی ہمدردی کا اظہارکرنا کوئی کام نہیں ۔میری تو یہ حالت ہے کہ اگر اس راہ میں سو جان بھی قربان کردوں تب بھی معذرت ہی کروں گا کہ ابھی میں کچھ نہ کرسکا۔”

آپؑ کی زندگی کا ہر لمحہ مخلوقِ خدا کی ہمدردی میں گزرتا تھا اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ خدا کا یہ بندہ کیسے ارفع اخلاق کا مالک ہے کہ اپنے دشمنوں تک کے لئے حقیقی ماؤں کی سی تڑپ رکھتا ہے۔چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ جو آپؑ کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں طاعون کا دور دورہ تھا اور بے شمار آدمی ایک ایک دن میں اِس موذی مرض کا شکار ہو رہے تھے۔ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سُنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محوِ حیرت ہوگئے۔حضرت مولوی صاحبؓ کے الفاظ یہ ہیں کہ

“اس دعا میں آپؑ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتّہ پانی ہو تا تھا اور آپؑ اس طرح آستانۂ الٰہی پر گریہ و زاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرار ہو۔میں نے غور سے سنا تو آپؑ مخلوقِ خدا کے واسطے طاعون کے عذاب سے نجات کیلئے دعا فرما رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ‘‘الٰہی ! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا؟”

(سیرت طیّبہ از مرزابشیر احمد صاحبؓ صفحہ51)

مورخہ 4؍اپریل 1905ء کا ذکر ہے کہ

“صبح سوا چھ بجے یک دفعہ نہایت زور آور حملہ زلزلہ کا ہوا۔تمام مکانات اور اشیاء ہلنے اور ڈولنے لگ پڑیں ۔لوگ حیران اور سراسیمہ ہو کرگھبرانے لگے۔ایسے وقت میں خد اکے مسیح کا حال دیکھنے کے لائق تھا، کیونکہ احادیث میں تو ہم پڑھاہی کرتے تھے کہ حضرت نبی کریم ﷺ ایسے آسمانی اور زمینی واقعات پر خشیت اﷲ کا بڑا اثر اپنے چہرے پر ظاہر فرماتے تھے۔ذرا سے بادل کے نمودار ہونے پر آپ بے آرام سے ہو جاتے۔کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر جاتے۔غرض اس وقت بھی نبی اﷲ نے ہر کہ عارف تراست ترساں تر والے مقولہ کو عملی رنگ میں بالکل سچا کر کے دکھایا۔زلزلہ کے شروع ہوتے ہی آپ بمعہ اہل بیت اور بال بچہ کے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرنے میں شروع ہو گئے اور اپنے رب کے آگے سر بسجود ہوئے۔بہت دیر تک قیام، رکوع اور سجدہ میں سارا کنبہ کا کنبہ بمعہ خدام کے گرا رہا اور اﷲ تعالیٰ کی بے نیازی سے لرزاں و ترساں رہا۔”

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ331-332)

آپؑ کے سیالکوٹ میں قیام کے دوران آپ کے معمولات کی بابت بیان ہوا۔

“آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں ۔اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے…”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 625)

حضرت منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلویؓ نے بیان کیا:

“ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کو خارش ہو گئی۔اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں ۔دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی۔میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پُر نم ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کاہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلادیا۔اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا۔خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے۔اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں ۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1117)

سید میر حسن صاحب بیان کرتے ہیں :

“حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے۔عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے۔کچہری سے جب تشریف لاتے تھے۔تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔بیٹھ کر ،کھڑے ہو کر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے۔اور زار زار رویا کرتے تھے۔ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 280)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا:

“ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کیلئے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمٰن صاحب حاجی پورہ والوں کے دامادقادیان آئے ہو ئے تھے۔کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں ۔حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنا یا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا۔حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا اور جب کبھی آپ روتے بھی تھے تو صرف اس حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈباآتی تھیں ۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 436)

حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ

“شیخ غلام حسین صاحب لدھیانوی ہیڈ ڈرافٹسمین سنٹرل آفس نئی دہلی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ فرمان علی صاحب بی۔اے۔ اسسٹنٹ انجنیئر ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداس پور نے جو کہ 1915ء میں لیڈی ہارڈنگ کالج نئی دہلی کی عمارت تعمیر کرا رہے تھے۔ مجھ سے ذکر کیا تھا۔ کہ ایک دفعہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹی نے جو کہ عالم جوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے ہیں ۔ ان سے بیان کیا۔ کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اکثر ہوا کرتا تھااور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ایک مرتبہ مَیں نے دیکھا۔ کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بیقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں ۔ جیسے کہ ماہی ٔبے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ مَیں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت مَیں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح مَیں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے۔ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی۔ یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔‘‘میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے۔ اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں ۔ ان کا خیال آتا ہے۔ تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے۔ اور یہ اسلام ہی کا درد ہے۔ جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔”

خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹ متصل بٹالہ کے رہنے والے تھے اور قدیم مخلص صحابہ میں سے تھے۔ نیز خاکسار خیال کرتا ہے۔ کہ یہ واقعہ ابتدائی زمانہ کا ہے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 561)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button