سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

’’اعجاز المسیح‘‘ افحامِ اعداء کا ایک زبردست نشان

(خواجہ عبد العظیم احمد۔پرنسپل جامعۃ المبشرین نائجیریا)

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا مقابلہ تفسیر نویسی سے فرار ۔اعجاز المسیح میں فصاحت و بلاغت کےبے مثل نمونوں میں سے چند مثالیں

ابتدائیہ

جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی برگزیدہ کو اس جہان میں سلسلہ رشد و ہدایت کے لیے مبعوث کرتا ہے تو اس کواپنے مخالفین پر اپنے تائیدی نشانوں کے ساتھ منصور و غالب کرتا ہے۔یہ تائید و نصرت کبھی حضرت نوحؑ کے لیے سیلاب سے امان کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کبھی آگ کو حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈی کر دیتی ہے، کبھی حضرت اسماعیلؑ کی پیاس بجھانے کےلیے زمین سے پانی کے سوتے پھوڑ دیتی ہے۔کبھی یہ حضرت موسیٰ ؑ کو سمندر کے بیچوں بیچ خیریت سے گزار کر ، اسی سمندر میں فرعون کو غرقاب کر دیتی ہے۔کبھی یہ بیماروں کو حضرت عیسٰیؑ کے ہاتھ سے شفا بخشتے ہوئے تندرست کر کے معجز نمائی کرتی ہے اور کبھی ان لوگوں کو جو غیر عرب کو عجمی (یعنی گونگا) کہتے تھے ، ایک ایسی کامل اور آفاقی کتاب کی تعلیم دیتی ہے جو ان فصحاء کی زبانوں کو گنگ کر دے۔ اکثرمسلمان تاریخ دانوں اور ارباب سِیَر نے لکھا ہے کہ ایمان لانے کے بعد حضرت لبیدبن ربیعہ العامری نے شاعری ترک کردی ۔کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے عہدِ خلافت میں ایک مرتبہ حضرت لبید سے پوچھ بھیجا کہ آپ نے زمانۂ اسلام میں کون سے اشعار کہے۔ اس پر انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ شعر کے عوض مجھے اللہ نے سورۃ البقرۃ اور آلِ عمران دی ہیں۔

قرآن کریم آنحضرت ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ یہ معجزہ جہاں ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ ہے ۔ وہاں کتاب یَنْطِقُ بِالْحَقِّ بھی ہے۔ جس کی شروعات مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی سے ہوئی اور مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا پر انجام ہوا۔جو ایک طرف لَا رَیْبَ فِیْہِکی سند رکھتی ہے اور دوسری طرف شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِہے۔ یہ ایک جانب کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ سے لبریز ہے اور دوسری جانب احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے ایک مہمیز کا کام دیتی ہے۔ ایک زندہ و جاوید، قائم اور قیام بخشنے والی، دائم اور دوام بخشنے والی کتاب جس کے تقدس ، آفاقیت، عالمگیریت، جامعیت، کاملیت اور افضلیت کے سامنے دنیا کی کوئی کتاب دم نہیں مار سکتی۔ ایسی عظیم الشان کتاب کہ جس کے روحانی مائدہ کو مُطَہَّرْکے سوا کوئی چھو نہ سکے۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘قرآن شریف اگرچہ عظیم الشان معجزہ ہے مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو اور وہ اس تلوار کی طرح ہے جو درحقیقت بے نظیر ہے لیکن اپنا جوہر دکھلانے میں ایک خاص دست و بازو کی محتاج ہے۔ اس پردلیل شاہد یہ آیت ہے کہ لَا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَپس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہو اور وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہو گا۔ ’’

(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 486)

پیر سید مہر علی شاہ

پیر مہر علی شاہ (1859ءتا1937ء) سلسلہ چشتیہ کے بریلوی مکتبہ فکر کے عالم تھے۔ سید مہر علی شاہ کے و ا لد کا نا م سید نذر دین شا ہ تھا۔ آپ کا حلقہ معتقدین کافی وسیع تھا۔ آپ راولپنڈی سے چند میل دور گولڑہ کی بستی میں سجادہ نشین تھے۔ مروجہ علوم کی تحصیل کی۔ آپ سرگودھا کے مشہور صوفی شخصیت خو اجہ شمس الدین سیا لو ی چشتی سے متاثر تھے۔اور بعد میں انہی کے ہاتھ پر بیعت کی، اور خلافت پائی۔ آپ کی مشہور کتب میں تحقيق الحق فی كلمۃ الحق، اعلا كلمۃ اللہ وما اهل بہ لغير اللہ، الفتوحات الصمديہ، تصفية ما بين سنی والشيعہ اور فتاویٰ مہریہ وغیرہ ہیں۔ مشہور متنازعہ کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’ بھی آپ سے منسوب ہے مگر در حقیقت یہ آپ کا ایک علمی سرقہ ہے۔ جس کی کچھ تفصیل مضمون میں دی جائے گی۔ آپ کی وفات 11؍مئی1937ءکو ہوئی ۔

سن1893ءمیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کتاب انجام آتھم کے نام سے تحریر فرمائی جس میں آپؑ نے علماء و مشائخ اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کا ایک چیلنج دیا۔ اس چیلنج کے آخر میں آپ نے مشہور علماء کے اسماء لکھے اور ان مولویوں اور علماء کے اسماء کے بعد سجادہ نشینوں اور پیروں فقیروں کے اسماء تحریر فرمائے ۔ سجادہ نشینوں کے اسماء میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا نام تیرھویں نمبر پر ہے۔ آپؑ اس بارے میں فرماتے ہیں:

‘‘میں پھر ان سب کو اللہ جل شانہٗ کی قسم دیتا ہوں کہ مباہلہ کیلئے تاریخ اور مقام مقرر کرکے جلد میدان مباہلہ میں آویں اور اگر نہ آئے اور نہ تکفیر اور تکذیب سے باز آئے تو خدا کی لعنت کے نیچے مریں گے۔

اب ہم ان مولوی صاحبوں کے نام ذیل میں لکھتے ہیں جن میں سے بعض تو اس عاجز کو کافر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی۔ اور بعض کافر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں۔ مگر مفتری اور کذّاب اور دجّال نام رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ تمام مکفّرین اور مکذّبین مباہلہ کیلئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفّر یا مکذّب ہیں اور درحقیقت ہریک شخص جو باخدا اور صوفی کہلاتا ہے اور اس عاجز کی طرف رجوع کرنے سے کراہت رکھتا ہے وہ مکذّبین میں داخل ہے۔ کیونکہ اگر مکذّب نہ ہوتا تو ایسے شخص کے ظہور کے وقت جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی تھی کہ اس کی مدد کرو اور اس کو میرا سلام پہنچاؤ اور اس کے مخلصین میں داخل ہوجاؤ تو ضرور اس کی جماعت میں داخل ہوجاتا۔ اور صاف باطن فقراء کیلئے یہ موقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اور ہریک کدورت سے الگ ہوکر اور کمال تضرع اور ابتہال سے اس پاک جناب میں توجہ کرکے اس راز سربستہ کا اسی کے کشف اور الہام سے انکشاف چاہیں۔ اور جب خدا کے فضل سے انہیں معلوم کرایا جائے تو پھر جیسا کہ ان کی اتّقاء کی شان کے لائق ہے محبت اور اخلاص اور کامل رجوع سے ثواب آخرت حاصل کریں اور سچائی کی گواہی کیلئے کھڑے ہوجائیں۔ مولویان خشک بہت سے حجابوں میں ہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی سماوی روشنی نہیں۔ لیکن جو لوگ حضرت احدیت سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اور تزکیہ نفس سے انانیّت کی تاریکیوں سے الگ ہوگئے ہیں۔ وہ خدا کے فضل سے قریب ہیں۔ اگرچہ بہت تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں مگر یہ امت مرحومہ ان سے خالی نہیں۔’’

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 69)

پھر ایک اور جگہ حضور ؑاس بات کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان علماء و مشائخ اور پیروں اور صوفیوں نے لوگوں کو سچائی کو ماننے اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو قبول کرنے سے روکا ہوا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

‘‘میں بھی خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت آسمان پر خسوف کسوف ہو گا اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی اور میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں۔ اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی اور یہ امر کچھ مولوی احمدحسن صاحب تک محدود نہیں بلکہ اب تو آسمان سے عام مقابلہ کا وقت آگیا اور جس قدر لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں جیسے شیخ محمدحسین بٹالوی جو مولوی کر کے مشہور ہیں اور پیر مہر علی شاہ گولڑی جس نے بہتوں کو خدا کی راہ سے روکا ہوا ہے اور عبدالجبار اور عبدالحق اور عبدالواحد غزنوی جو مولوی عبداللہ صاحب کی جماعت میں سے ملہم کہلاتے ہیں اور منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ جنہوں نے میرے مخالف الہام کا دعویٰ کر کے مولوی عبداللہ صاحب کو سیّد بنا دیا ہے اور اس قدر صریح جھوٹ سے نفرت نہیں کی اور ایسا ہی نذیر حسین دہلوی جو ظالم طبع اور تکفیر کا بانی ہے۔ان سب کو چاہئے کہ ایسے موقع پر اپنے الہاموں اور اپنے ایمان کی عزت رکھ لیں اور اپنے اپنے مقام کی نسبت اشتہار دے دیں کہ وہ طاعون سے بچایا جائے گا اس میں مخلوق کی سراسر بھلائی اور گورنمنٹ کی خیرخواہی ہے اور ان لوگوں کی عظمت ثابت ہو گی اور ولی سمجھے جائیں گے ورنہ وہ اپنے کاذب اور مفتری ہونے پر مہر لگا دیں گے۔ اور ہم عنقریب انشاء اللہ اس بارے میں ایک مفصل اشتہار شائع کریں گے۔ والسّلام علٰی من اتّبع الھدیٰ۔’’

( دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 238)

سن 1900ء میں پیر صاحب نے حیات مسیح کے حق میں اور وفات مسیح کے خلاف ایک کتاب ‘‘شمس الہدایہ’’ لکھی۔اس میں حیات مسیح کے حق میں کوئی بھی نئی دلیل نہ تھی بلکہ وہی دلائل تھے جن کا ردّ حضور ؑ بارہا کر چکے تھے۔ اس لیے حضور علیہ السلام نے پیر صاحب کو مخاطب کر کے 20؍ جولائی 1900ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا، جس میں پیر صاحب کو احقاق حق اور ابطال باطل کا ایک آسان طریق بتایا اور اس طریق سے فیصلہ کرنے کی پیشکش کی۔ آپ فرماتے ہیں:

‘‘قرآن شریف سے یہ ثابت ہےکہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں۔ ان کے ساتھ تین طور سےخدا کی تائید ہوتی ہے۔ 1۔ ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق ما بہ الامتیاز رکھا جاتا ہے۔ اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں۔ جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے۔جیسا کہ آیت وَیَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًااس کی شاہد ہے۔

2۔ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے۔اور غیر کو نہیں دیا جاتا۔ جیسا کہ آیت لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَاس کی شاہد ہے۔

3۔ ان کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیرکی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیتادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ اس کی گواہ ہے۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ327،اشتہار 20؍جولائی 1900ء)

اس اشتہار میں حضور علیہ السلام نے پیر صاحب کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیاکہ لاہور میں جو پنجاب کا صدر مقام ہے ایک جلسہ مقرر کریں، قرعہ اندازی کر کے فریقین قرآن شریف کی کوئی سورۃلے کر اس کی تفسیر فصیح عربی زبان میں لکھیں۔ اس تفسیر سے قبل دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حق والے فریق کو قرآنی علم و معارف سے بہرہ مند فرمائے، روحانی قوت اور شوکت عطا فرمائے اور روح القدس سے تائید و نصرت فرمائے۔ اور اس کی تفسیر کا جادو سر چڑھ کر بولے۔ اس مقابلے کے اصول و ضوابط میں یہ طے کر لیا جائے کہ تفسیر لکھنے والے کے پاس کوئی کتاب نہ ہو۔ روبرو بیٹھ کر تفسیر لکھی جائے۔ اور سات گھنٹے مسلسل یہ کام لوگوں کے سامنے کیا جائے۔اور جو منصف ان تفاسیر کو پڑھیں وہ حلفاً بتائیں کہ دونوں میں سے کون سی تفسیر روح القدس سے تائید یافتہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ اگر اس مقابلہ میں پیر صاحب جیت گئے تو میں اپنے تمام متبعین و پیروکاروں کے ساتھ پیر صاحب کی بیعت کر لوں گا، دس ہزار روپیہ انعام دوں گا۔ اور اپنی تمام کتب جلا دوں گا۔

اس اشتہار کے جواب میں پریشان حال پیر صاحب نے کہا کہ پہلے قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ کے عقائد پر بحث ہو جائے پھر تفسیر کا مقابلہ بھی کر لینا۔

(اشتہار 25؍ اگست 1900ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد دوم)

اس کے بعد پیر صاحب بغیر اطلاع کےاز خود (عقائد پر) مباحثہ کرنے لاہور آ گئے اور بنیادی وجہ یعنی تفسیر نویسی سے مکمل گریز کیا۔

اس کے بعد کئی اور طریق پر پیر صاحب کو دعوت دی گئی مگر مقررہ وقت سے قبل ہی لاہور چھوڑ کر گولڑہ چلے گئے۔ اس مسلسل گریز پر حضور علیہ السلام کے بعض مریدوں جن میں حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت مولانا محمد احسن امروہی، حضرت حکیم فضل الٰہی صاحب اور میاں معراج دین صاحب عمر نے با ر بار پیر صاحب کو خطوط لکھے اور دعوت مقابلہ دی، مگر پیر صاحب نے مکمل خاموشی اختیار کی اور مقابلہ سے بکلّی گریز کیا۔

اس کے بعدحضور علیہ السلام نے دسمبر 1900ء میں پیر صاحب کو ایک آخری اتمام حجت کی ۔ جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایاکہ ہم دونوں ستر دن میں اپنی اپنی جگہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھیں عرب و عجم سے مددگار ادباء کی مدد حاصل کر لیں۔اور تفسیرشائع کریں۔اس پیشکش کے ستر دن کے اندر اندر حضور علیہ السلام نے ‘‘اعجاز المسیح’’ نام سے ایک بےنظیر، معارف سے بھرپور تفسیر سپرد قرطاس فرمائی۔ پیر صاحب سن 1900ء سے لے کر 1937ء تک زندہ رہے مگر تفسیر لکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ حالانکہ ان کا زعم تھا کہ ہم تو قلم کو حکم دیں گے یہ خود بخود لکھنا شروع کر دے گی۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہوتا کہ خدائے بزرگ و برتر کا ایک عظیم فتح نصیب جرنیل اذن خداوندی سے یہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ

‘‘من قام للجواب و تنمّر۔ فسوف یری انہ تندّم وتدمّر’’

یعنی جو شخص اس کتاب کے جواب پر آمادہ ہو گا اور پلنگی دکھلائے گا وہ عنقریب دیکھے گا کہ اس کام سے نامراد رہا اور اپنے نفس کا ملامت گر ہوا۔

اس کتاب کو بلاد عرب و عجم میں پذیرائی ملی۔ حضور علیہ السلام کو اس کی تصنیف سے پہلے الہام ‘‘ایک عزت کا خطاب’’ ہوا تھا۔ اور واقعی یہ بین الاقوامی عزت کا باعث بنا۔ مثلاً اخبار‘‘المناظر’’نے اس پر ریویو لکھتے ہوئے کہا:

‘‘انہ تقلید للقرآن فی نسقہ و عبارتہ’’

یعنی یہ کتاب اپنے اسلوب میں قرآن کریم کی پیرو ہے اور اس کی عبارت اور اس کا نسق بھی قرآن سے مماثلت رکھتا ہے۔

اس کتاب یعنی اعجاز المسیح کی اشاعت پر اڑھائی سال گزر گئے تو تب پیر مہر علی شاہ صاحب نے ایک کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’ کے نام سے شائع کی۔ مگر اس میں تفسیر سورۃالفاتحہ نہیں تھی بلکہ وہی حیات مسیح کے راگ ایک بار پھر الاپے گئے۔ اس بارے میں حضور علیہ السلام ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘یہ کتاب مجھ کو یکم جولائی ۱۹۰۲ء کو بذریعہ ڈاک ملی ہے جس کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے شاید اس غرض سے بھیجا ہے کہ تا وہ اِس بات سے اطلاع دیں کہ انہوں نے میری کتاب اعجاز المسیح اور نیز شمس بازغہ کا جواب لکھؔ دیا ہے اور اس کتاب کے پہنچنے سے پہلے ہی مجھ کو یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ اعجاز المسیح کے مقابل پر وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں مگر مجھ کو یہ امید نہ تھی کہ وہ میری عربی کتاب کا جواب اُردو میں لکھیں گے بلکہ مجھے یہ خیال تھا کہ چونکہ اکثر باسمجھ لوگوں نے پیر صاحب کی اس مکارانہ کارروائی کو پسند نہیں کیا جو اؔ نہوں نے لاہور میں کی تھی۔ اس لئے ندامت مذکورہ بالا کا داغ دھونے کے لئے ضرور انہوں نے یہ ارادہ کیا ہو گا کہ میرے مقابل تفسیر نویسی کے لئے کچھ طبع آزمائی کریں اور میری کتاب اعجاز المسیح کی مانند سورۃ فاتحہ کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں شائع کر دیں تا لوگ یقین کر لیں کہ پیر جی عربی بھی جانتے ہیں اور تفسیر بھی لکھ سکتے ہیں لیکن افسوس کہ میرا یہ خیال صحیح نہ نکلا جب ان کی کتاب سیف چشتیائی مجھے ملی تو پہلے تو اُس کتاب کو ہاتھ میں لے کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اب ہم ان کی عربی تفسیر دیکھیں گے اور بمقابل اُس کے ہماری تفسیر کی قدرو منزلت لوگوں پر اَور بھی کُھل جائے گی۔ مگر جب کتاب کو دیکھا گیا اور اُس کو اُردو زبان میں لکھا ہوا پایا اور تفسیر کا نام و نشان نہ تھا تب تو بے اختیار اُن کی حالت پر رونا آیا۔ یہ کتاب اگرچہ اس لائق نہ تھی کہ ایک نظر بھی اس کو دیکھ سکیں کیونکہ مؤلف کتاب نے جیسا کہ اُس کو چاہئے تھا بالمقابل عربی تفسیر لکھ کر اپنی معجزانہ طاقت کا کچھ ثبوت نہیں دیا اور جس فرض کو ادا کرنا تھا اور اس قدر لمبی مُدّت میں بھی اس کو ادا نہیں کر سکا بلکہ مقابلہ سے مُنہ پھیر کر اپنی درماندگی کی نسبت اپنے ہاتھ سے مہر لگادی اور آپ گواہی دے دی کہ درحقیقت اعجاز المسیح خدا کی طرف سے ایک نشان ہے جس کی نظیر پر وہ قادر نہ ہو سکا۔ تاہم مَیں نے اس اُردو کتاب کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بجز بیہودہ نکتہ چینیوں کے کوئی امر بھی اس میں قابل التفات نہیں اور نکتہ چینی بھی ایسی کمینہ پن اور جہالت کی کہ اگر اس کو ایک جائز اعتراض سمجھا جائے تو نہ اس سے قرآن شریف باہر رہ سکتا ہے اور نہ احادیث نبویہ اور نہ اہل ادب کی کتابوں میں سے کوئی کتاب۔’’

( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 429تا432)

اعجاز المسیح میں عبارات عربیہ مسروقہ ہیں!

اس کتاب میں پیر صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘اعجاز المسیح’’ میں عربی عبارات مقامات حریری اور عربی نثر کی دوسری کتب سے سرقہ کر کے لکھی۔ نعوذ باللہ۔

چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘پیر صاحب فرماتے ہیں کہ اس کتاب اعجاز المسیح میں جو دو سو صفحہ کی کتاب ہے چند فقرے جو اکٹھا کرنے کی حالت میں چار۴ سطر سے زیادہ نہیں ہیں ان میں سے بعض مقامات حریری اور بعض قرآن شریف سے اور بعض کسی اور کتاب سے مسروقہ ہیں اور بعض کسی قدر تغییر تبدیل کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور بعض عرب کی مشہور مثالوں میں سے ہیں یہ ہماری چوری ہوئی جو پیر صاحب نے پکڑی کہ بیس ہزار فقرہ میں سے دس باراں فقرے جن میں سے کوئی آیت قرآن شریف کی اور کوئی عرب کی مثال اور کوئی بقول اُن کے حریرؔ ی یا ہمدانی کے کسی فقرہ سے توارد تھا۔ افسوس کہ اُن کو اس اعتراض کے کرتے ہوئے ذرہ شرم نہیں آئی اور ذرہ خیال نہیں کیا کہ اگر ان قلیل اور دو چار فقروں کو توارد نہ سمجھا جائے جیسا کہ ادیبوں کے کلام میں ہوا کرتا ہے اور یہ خیال کیا جائے کہ یہ چند فقرے بطور اقتباس کے لکھے گئے تو اس میں کون سا اعتراض پیدا ہو سکتا ہے خود حریری کی کتاب میں بعض آیات قرآنی بطور اقتباس موجود ہیں ایسا ہی چند عبارات اور اشعار دوسروں کے بغیر تغییر تبدیل کے اس میں پائے جاتے ہیں اور بعض عبارتیں ابوالفضل بدیع الزمان کی اس میں بعینہٖ ملتی ہیں تو کیا اب یہ رائے ظاہر کی جائے کہ مقامات حریری سب کی سب مسروقہ ہے بلکہ بعض نے تو ابو القاسم حریری پر یہاں تک بدظنی کی ہے کہ اس کی ساری کتاب ہی کسی غیر کی تالیف ٹھہرائی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ فن انشاء میں کامل سمجھ کر ایک امیر کے پاس پیش کیا گیا اور امتحاناً حکم ہوا کہ ایک اظہار کو عربی فصیح بلیغ میں لکھے مگر وہ لِکھ نہ سکا اور یہ امر اُس کے لئے بڑی شرمندگی کا موجب ہوا مگر تاہم وہ اُدباء میں بڑی عظمت کے ساتھ شمار کیا گیا اور اُس کی مقامات حریری بڑی عزّت کے ساتھ دیکھی جاتی ہے حالانکہ وہ کسی دینی یا علمی خدمت کے لئے کام نہیں آ سکتی کیونکہ حریری اِس بات پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی سچے اور واقعی قصہ یا معارف اور حقائق کے اسرار کو بلیغ فصیح عبارت میں قلمبند کرکے یہ ثابت کرتا کہ وہ الفاظ کو معانی کا تابع کر سکتا ہے۔ بلکہ اُس نے اوّل سے آخر تک معانی کو الفاظ کا تابع کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ ہرگز اس بات پر قادر نہ تھا کہ واقعہ صحیحہ کا نقشہ عربی فصیح بلیغ میں لکھ سکے لہٰذا ایسا شخص جس کو معانی سے غرض ہے اور معارف حقائق کا بیان کرنا اُس کا مقصد ہے وہ حریری کی جمع کردہ ہڈیوں سے کوئی مغز حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کے کلام کا اتفاقاً خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض فقرات میں کسی سے توارد ہو جائے کیونکہ بعض محاورات ادبیّہ کا کوچہ ایسا تنگ ہے کہ یا تو اُس میں بعض اُدباء کو بعض سے توارد ہو گا اور یا ایک شخص ایک ایسے محاورہ کو ترک کرے گا جو واجب الاستعمال ہے ظاہر ہے کہ جس مقام پر خصوصیات بلاغت کے لحاظ سے ایک جگہ پر مثلاً اقتحمکا لفظ اختیار کرنا ہے نہ اور کوئی لفظ تو اس لفظ پر تمام اُدباء کا بالضرور توارد ہو جائے گا اور ہر ایک کے مُنہ سے یہی لفظ نکلے گا۔ ہاں ایک جاہل غبی جو اسالیب بلاغت سے بے خبر اور فروق مفردات سے ناواقف ہے وہ اس کی جگہ پر کوئی اور لفظ بول جائے گا اور اُدباء کے نزدیک قابلؔ اعتراض ٹھہرے گا۔ ایسا ہی اُدباء کو یہ اتفاق بھی پیش آجاتا ہے کہ گو بیس شخص ایک مضمون کے ہی لکھنے والے ہوں جو بیس ہی ادیب اور بلیغ ہوں مگر بعض صورتوں کے ادائے بیان میں ایک ہی الفاظ اور ترکیب کے فقرہ پر اُن کا توارد ہوجائے گا اور یہ باتیں ادباء کے نزدیک مسلّمات میں سے ہیں جن میں کسی کو کلام نہیں ا ور اگر غور کرکے دیکھو تو ہر ایک زبان کا یہی حال ہے اگر اُردو میں بھی مثلاً ایک فصیح شخص تقریر کرتا ہے اور اُس میں کہیں مثالیں لاتا ہے کہیں دلچسپ فقرے بیان کرتا ہے تو دُوسرا فصیح بھی اُسی رنگ میں کہہ دیتا ہے اور بجز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے۔ اگر بعض پُر فصاحت فقرے اور مثالیں جو قرآن شریف میں موجود ہیں شعرائے جاہلیت کے قصائد میں دیکھی جائیں تو ایک لمبی فہرست طیّار ہو گی اور ان امور کو محققین نے جائے اعتراض نہیں سمجھا بلکہ اسی غرض سے ائمہ راشدین نے جاہلیت کے ہزارہا اشعار کو حفظ کر رکھا تھا اور قرآن شریف کی بلاغت فصاحت کے لئے ان کوبطور سند لاتے تھے۔’’

( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 432تا 434)

پھر فرمایا:

‘‘نادان انسان کو اگر یہ بھی اجازت دی جاوے کہ وہ چُر ا کر ہی کچھ لکھے تب بھی وہ لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی طاقت اُس کے اندر نہیں مگر وہ شخص جو مسلسل اور بے روک آمد پر قادر ہے اس کا تو بہرحال یہ معجزہ ہے کہ اُمور علمیہ اور حکمیّہ اور معارف حقائق کو بلاتوقف رنگین اور بلیغ فصیح عبارتوں میں بیان کر دے گو محل پرچسپاں ہو کر دس ہزار فقرات بھی کسی غیر کی عبارتوں کا اُس کی تحریر میں آ جائے کیا ہر یک نادان غبی بلید ایسا کر سکتا ہے اور اگر کر سکتا ہے تو کیا وجہ کہ باوجود اتنی مدّت مدید گزرنے کے پیر مہر علی شاہ صاحب کتاب اعجاز المسیح کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے اور نہایت کار کام یہ کیا کہ دو سو صفحہ کی کتاب میں سے کہ جو چار ہزار سطر اور ساڑھے باراں جُز ہے ایسے دو چار فقرے پیش کر دئے کہ وہ بعض امثلہ مشہورہ سے یا مقامات وغیرہ کے بعض فقرات سے توارد رکھتے ہیں یا مشابہ ہیں بھلا بتلاؤ کہ اِس میں اُنہوں نے اپنا کمال کیا دِکھلا یا۔ ایک منصف انسان سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص نے اِتنی مدت تک موقعہ پا کر اپنے گوشۂخلوت میں دوچار ورق تک بھی اعجاز المسیح کا نمونہ پیش نہیں کیا تو وہ لاہور کے مقابلہ پر اگر اتفاق ہوتا کیا لِکھ سکتا تھا۔’’

( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 443)

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی تین بہتان تراشیاں اور خود دو کا مرتکب ہونا

دنیا میں مکافات عمل کا ایک نظام چل رہا ہے۔ انبیاء و مرسلین، اقطاب و ابدال، اولیاء و مقربان الٰہی پر آوازے کسنا شیوہ اخیار و اتقیاء ہر گز نہیں۔یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی چاند پر تھوکے اور بھول جائے کہ وہی تھوک واپس اسی کے منہ پر پڑنے والی ہے۔ کچھ ایسا ہی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے ساتھ ہوا۔ پیر صاحب نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگایا کہ

٭…‘‘مرزا صاحب مقابلہ کے لئے لاہور نہ آئے۔ گویا مقابلہ سے بھاگ گئے۔’’ در حقیقت جب پیر صاحب لاہور تشریف لائے (اس بات کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ آپ نے بغیر اطلاع دیے لاہور کا سفر کیا۔ دوسرا یہ کہ آپ کے ساتھ جو معاملات اصولی طور پر طے ہوئے تھے وہ تفسیر نویسی سے متعلق تھے نہ کہ عقائد کی بحث سے متعلق) پیر صاحب کا لاہو ر قیام یکم ستمبر 1900ء بروز جمعہ تک تھا اور لاہور کے ایک معزز اور تعلیم یافتہ طبقہ نے آپ سے گزارش بھی کی کہ آپ جمعہ کی نماز شاہی مسجد میں پڑھائیں مگر آپ نے اپنا پروگرام تبدیل کر کے مقررہ تاریخ سے پہلے ہی لاہور کو خیرباد کہہ دیا۔ اور اپنے مریدوں کو کہہ کر گئے کہ مرزا صاحب کی کتب یا اشتہارات ہر گز نہ پڑھو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔

٭…پیر صاحب نے حضرت صاحب علیہ السلام پر الزام لگایا کہ اعجاز المسیح میں معروف عربی کتب کے مسروقہ جملے ہیں۔ اس کا جواب پہلے دے دیا گیا ہے۔ مگر پیر صاحب کی تو ساری کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’ ہی مسروقہ نکلی۔ پیر صاحب نے اس کے مصنف کے مرنے کے بعد(اس کا مرنا بھی دراصل اس کتاب کے جواب لکھنے کے نتیجے میں اللہ کی پکڑ میں آنے کی وجہ سے ہوا) اس کو اپنے نام سے شائع کیا ور ایک جگہ تسلیم کیا کہ میں نے مولوی محمد حسن فیضی کے حاشیوں سے اس کی ‘رونق’ بڑھائی۔ شروع سے لے کر آخر تک کتاب کا حاشیہ و مندرجات سرقہ کرنے کو ‘رونق بڑھانا’ نہیں کہتے بلکہ چوری اور اوپر سے سینہ زوری کہتے ہیں۔ پیر صاحب نے بعد میں ایک خط کے ذریعے مولوی محمد حسن کے والد کو منع کیا کہ جن کتب (اعجاز المسیح اور شمس بازغہ) پر محمد حسن کے حاشیے ہیں وہ کسی کو نہ دکھائیں۔ کیونکہ ان میں پیر صاحب کی چوری کے ثبوت تھے!

٭…پیر صاحب بڑی تعلّی کے ساتھ یہ کہا کرتے تھے کہ ‘‘ہم تو قلم کو حکم دیں گے اور وہ لکھنا شروع کر دے گی’’ آپ شاید بھول گئے کہ دوسری جانب مقتدروقدیر خدا نے یہ اعلان کیا ہوا تھا کہ جو قلم اس کا جواب لکھنے پر آمادہ ہو گی وہ توڑ دی جائے گی۔ آپ کے اپنے ایک مرید خاص مولوی فیض احمد صاحب نے بعد میں یہ لکھا کہ

‘‘حضرت قبلہ عالم نے تفسیر لکھنے کا قصد تو کیا تھا مگر پھر دستکش ہو گئے۔کیونکہ پیر صاحب نے فرمایا کہ میرے قلب پر معانی و مضامین کی اس قدر بارش شروع ہو گئی کہ جسے ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک عمر درکار ہو گی اور کوئی اور کام نہ ہو سکے گا۔’’(مہر منیر صفحہ 245مطبوعہ گولڑہ 1973ء)

پیر صاحب حضرت اقدس ؑ کے تفسیر نویسی کے چیلنج کے قریباً 37سال بعد تک زندہ رہے۔ اگر آپ اپنی اسی خودکار قلم کو حکم دیتے وہ معارف سورہ فاتحہ 37سال تک مسلسل لکھتی رہتی اور اس طرح اسلام کی کچھ خدمت ہو جاتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عربی اشعار میں فرماتے ہیں:

وَ اِنِّیْ اَرٰی فِیْ رَأْسِھِمْ دُوْدَ نَخْوَۃٍ

فَاِنْ شَاءَ رَبِّیْ یُخْرِجَنَّ وَ یَجْذُرُ

وَ اِنْ کَانَ شَأْنُ الْاَمْرِاَرْفَعَ عِنْدَکُمْ

فَاَیْنَ بِہٰذَا الْوَقْتِ مَنْ شَانَ جَوْلَرُ

اَمَیْتٌ بِقَبْرِ الْغَیِّ لَایَنْبَرِیْ لَنَا

وَ مَنْ کَانَ لَیْثًا لَا مَحَالَۃَ یَزْءَرُ

وَ اِنْ کَانَ لَایَسْطِیْعُ اِبْطَالَ اٰیَتِیْ

فَقُلْ خُذْ مَزَامِیْرَ الضَّلَالَۃِ وَازْمُرُ

اَغَلَّطَ اِعْجَازِیْ حُسَیْنٌ بِعِلْمِہِ

وَھَیْءَاتَ مَاحَوْلُ الْجَھُوْلِ أَتَسْخَرُ

وَ اِنْ کَانَ فِیْ شَیْءٍ بِعِلْمٍ حُسَیْنُکُمْ

فَمَالَکَ لَا تَدْعُوْہُ وَالْخَصْمُ یَحْصُرُ

وَ نَحْسَبُہ‘ کَالْحُوْتِ فَأْتِ بِنَظْمِہٖ

مَتٰی حَلَّ بَحْرًا نَقْتَنِصْہُ وَ نَأْسِرُ

وَاِنْ یَّاْتِنِيْ اَصْبَحْہُ کَأْسًا مِنَ الْھُدٰی

فَاَحْضِرْہُ لِلْاِمْلَاءِ اِنْ کَانَ یَقْدِرُ

( اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 160)

اور میں ان کے سر میں تکبّر کے کیڑے دیکھتا ہوں۔اور اگر خدا چاہے تو وہ کیڑے نکال دے گا اور جڑ سے اکھاڑ دے گا۔

پس اگر یہ کام ان لوگوں کے ہاتھ سے تیرے نزدیک بڑھ کر ہے۔پس اس وقت مہر علی شاہ کہاں ہے جس نے گولڑہ کو بدنام کیا۔

کیا وہ مُردہ ہے جو اب باہر نہیں نکلے گا۔ اور شیر تو ضرور نعرہ مارتا ہے

اور اگر وہ میرے اس نشان کو باطل نہیں کر سکتا۔پس کہہ کہ طنبور وغیرہ بجایا کر تجھے علم سے کیا کام

کیا میری کتاب اعجاز المسیح کی محمد حسین نے غلطیاں نکالیں۔ اور یہ کہاں ہو سکتا ہے اور محمد حسین کی کیا طاقت ہے؟ کیا ہنسی کر رہا ہے؟

اوراگر تمہارا محمد حسین کچھ چیز ہے۔ پس تو اُس کو کیوں نہیں بلاتا اور دشمن سخت گرفت کر رہا ہے

اور ہم تو اس کو ایک مچھلی کی طرح سمجھتے ہیں۔ پس اس کی نظم پیش کر۔ جب وہ شعر کے بحروں میں سے کسی بحر میں داخل ہو گا تو ہم اس کو شکار کر لیں گے اور پکڑ لیں گے۔

اگر وہ میرے پاس آئے گا تو اُسی صبح ہدایت کا پیالہ پلاؤں گا۔ پس اُس کو لکھنے کیلئے حاضر کر اگر وہ لکھنے کیلئے طاقت رکھتا ہے۔

‘‘اعجاز المسیح’’ کیا ہے؟

اعجاز المسیح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے۔ جس کا ایک ایک حرف اپنی ذات میں معجز نما ہے۔یہ قرآنی چیلنج فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِثْلَہٖکے بابرکت سائے میں پلنے والا وہ شجرہ طیبہ ہے جس کو خالص لدنّی علم کے پانی سے سیراب کیا گیا۔ اس پر لگنے والے پھل کا ذائقہ دائمی اور نہایت شیریں ہے۔ اس کتاب پر صرف ایک، مگر انصاف پسند نظر ہی اس کتاب کے لاجواب ہونے پر گواہ ٹھہرے گی۔

اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر ہی حضور علیہ السلام نے فرمایا:

‘‘فانّہ کتاب لیس لہ جواب، و من قام للجواب و تنمّر۔ فسوف یری انہ تندم و تذمّر’’

یعنی یہ کتاب ایسی ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ اور جو کوئی بھی اس کے جواب (لکھنے )کے لیے کھڑا ہو گا اور سرکشی دکھائے گا تو جلد ہی ندامت و ملامت کا شکار ہو گا۔

حضور علیہ السلام نے یہ کتاب ستّر دن کے اندر باوجود سخت بیماری کے فروری 1901ء کو مکمل کی۔اس کتاب کے مقدمہ میں حضور علیہ السلام نے اللہ کی حمد و توصیف کے بعد فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری اس دنیا میں ایک آفتاب کی سی صورت رکھتی تھی جس سے ساری تاریکی چھٹ گئی۔ پھر اپنے آنے کی اغراض بیان فرمائیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

‘‘وإنی بُعثت علی رأس ہذہ المئۃ المبارکۃ الربّانیۃ۔ لأجمع شمل المِلّۃ الإسلامیۃ۔ وأدفع ما صیل علی کتاب اللّٰہ وخیر البریۃ۔ وأکسر عصا من عصٰی وأقیم جدران الشریعۃ۔ وقد بیّنتُ مرارًا وأظہرتُ للناس إظہارًا۔ انی أنا المسیح الموعود۔ والمہدی المعہود۔ وکذالک أُمرتُ وما کان لی أن أعصی أمر ربّی وألحَقَ بالمجرمین۔ فلا تعجلوا علیّ وتدبّروا أمری حق التدبّر إن کنتم متّقین۔ وعسیٰ أن تُکذّبوا امرءًا وھومن عنداللّٰہ۔ وعسٰی ان تُفسّقوا رجلاً وہو من الصالحین۔’’

( اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ8تا9)

اور میں یقیناً اس مبارک اور ربانی صدی کے سر پر مبعوث کیا گیا ہوں۔تا کہ میں ملت اسلامیہ کے تفرقہ کو ختم کروں۔اور جو کچھ بھی کتاب اللہ اور حضرت رسول کریم ﷺ پر حملے کیے گئے کا دفاع کروں۔اور ہر اس کا عصا توڑ دوں جو کہ نافرمانی کرتا ہےاور شریعت کی دیواروں کو دوبارہ کھڑا کروں۔میں یقیناً کئی بار کھول کر بیان کر چکا ہوں اور لوگوں کے لیے اس بات کا کھلے عام اظہار کر چکا ہوں کہ میں ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں۔اور ایسا ہی مجھے میرے رب کی طرف سے حکم دیا گیا۔اور میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے مجرموں میں جا ملوں۔سو میرے بارہ میں جلدبازی سے کام نہ لو۔اور اگر تم واقعی متقی ہو تو میرے معاملہ پر ایسا غور کرو کہ جیسا غور کرنے کا حق ہے۔اور عین ممکن ہے کہ جس امر کی تم تکذیب کر رہے ہو وہ من جانب اللہ ہو اور جس شخص کو تم فاسق قرار دے رہے ہو وہ صالحین میں سے ہو۔

اس کے بعد آپؑ نے اسلام کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا ذکر فرمایا اور بیان کیا کہ کیسے عیسائی پادری اسلام کو گزند پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے اور مسلمان علماء (اپنے عقیدوں سے) ان کی مدد کر رہے ہیں۔

اس کے بعد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اصل مضمون یعنی تفسیر نویسی کی طرف آتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو لا تعداد معجزات سے نوازا جن میں تفسیر نویسی بھی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

‘‘ومن نوادر ما أُعْطی لی من الکرامات۔ أن کلامی ہذا قد جُعل من المعجزات۔ فلو جَہّزسلطانٌ عسکرًا من العلماء ۔ لیبارزونی فی تفسیر القرآن ومُلح الإنشاء ۔ فواللّٰہ إنی أرجو من حضرۃ الکبریاء۔ ان یکون لی غلبۃ وفتحٌ مبینٌ علی الأعداء ۔’’

( اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ30تا31)

جو نادر کرامات مجھے عطا ہوئیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ میرا کلام معجزات میں سے ہے۔اگر کوئی علماء کا طاقت و سلطنت سے بھرپور لشکر بھی آ جائے کہ مجھ سے تفسیر قرآن اور انشاء نویسی میں میرا مقابلہ کرےتو خدا کی قسم ، مجھے اسی خدائے کبریا کے در سے امید ہے کہ غلبہ اور دشمنوں پر فتح مبین میرے حصہ میں آئے گی۔

اس کے بعد مولوی مہر علی شاہ گولڑوی صاحب کے ساتھ تفسیر نویسی کے چیلنج اور پیر صاحب کا راہ فرار اختیار کرنے کی تفصیل بتائی، جس کو اجمالاً ہم اس مضمون کے پہلے حصہ میں بیان کر چکے ہیں۔اتمام حجت کرتے ہوئے اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں:

‘‘اعلمواأن رسالتی ہذہ آیۃ من آیات اللّٰہ رب العالمین۔ وتبصرۃ لقوم طالبین۔ وإنّہا من ربّی حجۃ قاطعۃ وبرہان مبین۔’’

( اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ55تا56)

جان لو کہ میری یہ کتاب رب العالمین کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور (حق کے ) طالبوں کے لیےجائے غور ہے۔ اور یقیناً یہ میرے رب کی طرف سے ایک حجت قاطعہ اور کھلی برہان ہے۔

اس کتاب کے آٹھ ابواب ہیں۔ پہلے باب میں سورہ فاتحہ کے اسماء اور اس کے متعلقات پر بحث ہے۔ اس سورت کا ہر نام اس کی زندگی بخش تاثیر سے مکمل موافقت و مطابقت رکھتا ہے۔ اس باب کے آخر پر سورت فاتحہ کی وہ تعریف بیان کرتے ہیں جو کم از کم اس عاجز نے کسی تفسیر میں نہیں پڑھی۔ فرماتے ہیں:

‘‘حاصل الکلام أن الفاتحۃ حصن حصین۔ ونور مبین۔ ومُعلّم ومُعین۔ وإنہا یحصن أحکام القرآن من الزیادۃ والنقصان۔ کتحصین الثغور بامرار الأمور۔ ومثلہا کمثل ناقۃ تحمل کل ما تحتاج إلیہ۔ وتوصل إلی دیار الحِبّ من رکب علیہ۔ وقد حُمل علیہا من کل نوع الأزواد والنفقات۔ والثیاب والکسوات۔ أو مثلہا کمثل برکۃ صغیر۔ فیہا ماء غزیر۔ کأنہا مجمع بحار۔ أو مجری قلہذم زخار۔ وإنی أری أن فوائد ہذہ السورۃ الکریمۃ ونفائسہ ا لا تُعدّولا تُحصٰی۔ ولیس فی وُسع الإنسان أن یحصیہا وإن أنفد عمرًا فی ہذا الہوی۔’’

( اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ79تا80)

ہمارے کلام کا حاصل یہ ہے کہ سورت فاتحہ ایک مضبوط قلعہ ہے اورایک استاد ہے اور مددگار ہے۔اور یہ احکام قرآنی کو ہر کمی و زیادتی سے مکمل طور پر ایسے محفوظ رکھتی ہے جیسے سرحدوں کو خاص امور کے تحت محفوظ رکھا جاتا ہے۔اور اس کی مثال ایک ایسی اونٹنی کی سی ہے جو ہر وہ چیز اٹھاتی ہے جس کی تجھے ضرورت ہواورسوار کومحبوب کے آستانہ تک پہنچاتی ہے۔اور اس پر ہر قسم کے زاد راہ اور سامان، کپڑے لتّے لادے گئے ہیں۔ یا اس کی مثال ایک چھوٹے سے تالاب کی مانند ہے جس میں وافر پانی ہو۔گویا کہ یہ مجمع البحار ہویا ایک وسیع و عریض سمندر کے گزرنے کی جگہ۔میں دیکھتا ہوں کہ اس سورت کریمہ کے نفیس فوائد گنے نہیں جا سکتےاورنہ ہی یہ انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس کو گن سکے خواہ اس خواہش میں اپنی عمر ہی کیوں نہ لگا دے۔

دوسرے باب میں تعوّذ سے متعلق تفسیر ہے جس میں لفظ ‘‘رجیم’’سے مراد حضور نے دجالِ لئیم کو لیا۔ اور رجم کا معنیٰ قتل کا لیا ہے، یعنی دجال کا ظلم و استبداد ایسا ہو گا کہ گویا ہر طرف مارا ماری ہو گی۔ اس لفظ سے حضور علیہ السلام نے آنے والے موعود زمانہ کی طرف اشارہ کرنے والی بلیغ پیش گوئی لی ہے۔

باب ثالث میں حضور علیہ السلام نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ۔ مفسرین نے اسم کے لفظ پر کافی بحث و تمحیص کی ہے کہ کیا یہ لفظ سمو کے مادہ سے ہے یا وسم سے۔ تو حضور علیہ السلام نے اس کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘أن الاسم مشتق من الوسم ’’

( اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ89)

یعنی اسم ‘‘ وسم ’’ سے مشتق ہے۔

اس کے بعد معارف کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہو ا سمندر شروع ہوتا ہے جس کو پڑھ کر انسان ‘‘اعجاز المسیح’’کو معجزہ مانے بغیر رہ نہیں سکتا۔آپ نے لفظ رحمٰن اور رحیم کی وہ تفسیر بیان فرمائی کہ جس کی نظیر متقدمین یا متاخرین مفسرین کی تفاسیر میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔

حقیقت محمدیہ قرون وسطیٰ کے مسلمان علماء و صوفیاء کا بالخصوص اور موجودہ زمانہ کے علماء کا بالعموم ایک دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس حقیقت کو آپؑ نے گو بعض اور کتب مثلاً براہین احمدیہ اور نجم الہدیٰ وغیرہ میں بیان فرمایا ہے مگر اعجاز المسیح میں اس بیان کی شان و شوکت ہی نرالی ہے۔ فرماتے ہیں:

‘‘فحاصل الكلام، أن كمال الرحمانية يجعل اللّٰه محمَّدًا ومحبوبًا، ويجعل العبدَ أحمدَ ومُحِبًّا يستقري مطلوبًا، وكمال الرحيمية يجعل اللّٰهَ أحمدَ ومُحِبًّا، ويجعل العبدَ محمَّدًا وحِبًّا. وستعرف من هذا المقام شأنَ نبيِّنا الإمام الهُمام، فإن اللّٰه سمّاه محمَّدًا وأحمدَ، وما سمّى بهما عيسى ولا كليمًا، وأشركَه في صفتيه الرحمن والرحيم بما كان فضله عليه عظيمًا. وما ذكر هاتين الصفتين في البسملة إلا ليعرف الناس أنهما للّٰه كالاسم الأعظم وللنبي من حضرته كالخِلْعة’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 107تا108)

حاصل کلام یہ ہے کہ (صفت) رحمانیت کا کمال یہ ہے کہ یہ اللہ کو محمد(تعریف کیا گیا) و محبوب بناتی ہے۔اور عبد کو احمد(تعریف کرنے والا) اورایسا محبت کرنے والا بناتی ہے جو اپنے مطلوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔اور (صفت) رحیمیت کا کمال اللہ کو احمد (تعریف کرنے والا) اور محبت کرنے والا بنا دیتی ہے۔اور عبد کو محمد اور محبوب بنا دیتی ہے۔ اور اس سے تُو ہمارے نبی اور عالی المرتبت امام ﷺ کی شان جان سکتا ہے۔اللہ نے آپﷺ کو محمد اور احمد دونوں نام دیے۔اور ان ناموں سے نہ ہی عیسیٰ کو نوازا نہ ہی موسیٰ کلیم اللہ کو۔اور آپﷺ کواپنے بے پایاں فضل و احسان کے سبب اپنی ان دو صفات رحمن اور رحیم میں شریک کیا۔ ان دونوں صفات کو بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اس لیے بیان فرمایا کہ تا لوگ جان لیں کہ یہ اللہ کے لئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں اور آنحضرت ﷺ کے لیے خاص جناب الٰہی سے بطور خلعت کے ہیں۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، ایک جامع دعا کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

‘‘الفاتحۃ تبشّر بکون المسیح من ہذہ الأمّۃ فضلا من رب الأرباب۔ فقد بُشِّرْنا مِن الفاتحۃ بأئمّۃٍ منّا ہم کأنبیاء بنی إسرائیل۔ وما بُشِّرْنا بنزول نبیّ من السماء فتَدبَّرْ ہذا الدلیل۔’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 188)

یعنی سورت فاتحہ مسیح کے اس امت میں سے آنے کی بشارت دیتی ہے، اور یہ رب الارباب کے فضل کے طور پر ہے۔ہم سورت فاتحہ ہی سے بشارت دیے گئے ہیں کہ ہمارے ائمہ بنی اسرائیلیوں کی طرح ہم میں سے ہوں گے اور ہمیں کسی نبی کی آسمان سے آمد کی بشارت نہیں دی گئی۔ سو اس دلیل پر غور کر۔

اس بے نظیر تفسیر کا اختتام حضور علیہ السلام ایک عارفانہ دعا پر کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

‘‘ربّ انزل علی قلبی۔ واظہر من جیبی بعد سلبی۔ واملأ بنور العرفان فؤادی۔ رب أنت مُرادی فاتنی مرادی۔ ولا تُمتنی موت الکلاب۔ بوجہک یا ربّ الأرباب۔ رب إنی اخترتک فاخترنی۔ وانظر إلی قلبی واحضرنی۔ فإنک علیم الأسرار۔ وخبیر بما یُکتَم من الأغیار۔ ربّ إن کنتَ تعلمُ أن أعدائی ہم الصادقون المخلصون۔ فأہلکنی کما تُہْلَکُ الکذّابون۔ وإن کنتَ تعلم أنی منک ومن حضرتک۔ فقم لنُصرتی فإنی أحتاج إلی نصرتک۔ ولا تُفوّض أمری إلی أعداء یمرّون علیّ مستہزئین۔ واحفظنی من المعادین والماکرین۔إنک أنت راحی وراحتی۔ وجَنّتی وجُنّتی۔ فانصرنی فی أمری واسمع بکائی ورُنّتی۔ وصلّ علی محمدٍ خیر المرسلین۔ و إمام المتَقین۔ وہب لہ مراتب ما وہبتَ لغیرہ من النبیین۔ ربّ اعطہ ما أردتَّ أن تُعطینی من النعماء۔ ثم اغفر لی بوجہک وأنت أرحم الرحماء۔ ’’

(اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 203تا204)

اے میرے رب میرے دل پر اتر۔میرے ختم ہونے کے بعد میرے باطن سے ظہور کر۔اور میرے دل کو عرفانی نور سے بھر دے۔اے میرے رب تو میری مراد ہے پس میری مراد مجھے عطا کر۔اے رب الارباب مجھے کتوں کی موت نہ مارنا۔اے میرے رب میں نےتجھے چن لیا اب تو بھی مجھے چن لے۔میرے دل پر نگاہ کر اور میرے پاس آ جا۔تو ہی تو بھیدوں کو جاننے والا ہے۔اور ہر اس بات سے خبر رکھتا ہے جو اغیار سے چھپائی جائے۔میرے رب اگر تو جانتا ہے کہ میرے مخالف سچے اور مخلص ہیں تو مجھے ویسے ہلاک کر جیسے تو جھوٹوں کو ہلاک کیا کرتا ہے۔اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے ہوں اور تیری جناب سے ہوں تو میری نصرت کے لیے کھڑا ہو کیونکہ میں تیری نصرت کا محتاج ہوں۔میرے معاملہ کو دشمنوں کے سپرد مت کر کہ وہ مجھ پر ہنستے ہوئے گزر جائیں اور عداوت کرنے والوں اور مکر کرنے والوں سے میری حفاظت فرما۔تُو ہی تو میری راحت و فرحت ہے، میری جنت اور میری پناہ ہے۔سو میرے معاملہ میں میری مدد کو آ۔میری آہ و بکاء کو سن۔اور برکتیں بھیج محمد خیر المرسلین پر جو متقیوں کے امام ہیں۔اور آپﷺ کو وہ مراتب بخش جو تو نے کسی اور مرسل کو نہ بخشے ہوں۔اور وہ سب نعمتیں جو تو نے مجھے عطا فرمانی ہیں وہ اُن کو عطا فرما۔پھر مجھے اپنے پاک چہرے کے طفیل بخش دے اور تو سب رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

اعجاز المسیح کے پُر لطف محاسن پر ایک نظر

عربی زبان کی شاخ علم بلاغت کا نظریہ عبدالقاہر جرجانی نے پیش کیا۔ جس میں علم بلاغت کو مزید آگے تین شاخوں میں تقسیم کیا گیا۔ علم البیان، علم المعانی اور علم البدیع۔ پھر آگے چل کر ان تینوں شاخوں کی مزید فروعات ہیں۔ اگر کسی ادبی شہ پارہ کو دیکھنا ہو تو علم بلاغت کی بنیادی شاخوں کے ساتھ ساتھ اس کی فروعات کو بھی بدقت نظر دیکھا جاتا ہے۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا سار اکلام ہی ان تمام معیاروں سے بھرا ہو ا ہے کیونکہ آپ کے دعویٰ کے مطابق یہ علم ، علم لدنی تھا۔ اگر حضور علیہ السلام کے عربی کلام کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو یہ کلام الہام الٰہی سے فیضیاب اور قرآن کریم کی برکت سےمعجزےکے طور پر نظر آتا ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اعجاز المسیح تصنیف کرنے پر الہام فرمایا تھا ۔ ‘‘منع مانع من السماء’’ کہ ایک مانع نے آسمان سے(ہر اس شخص کو جو اس کتاب کی نظیر لائے گا ) روک دیا ہے۔

علم البیان: علمِ بیان میں لفظ بیان کے معنی واضح کرنا اور روشن کرنا کے ہیں۔اس علم کے ذریعے کلام میں سے نقص ،ابہام یا کسی بھی قسم کی کمی کو دور کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک اور معنی تحریر کو خوبصورت بنانے کے بھی ہیں۔علم بیان اصل میں بات کو خوبصورت بنانے کا فن ہے۔علم بیان کے بنیادی طور پر پانچ ارکان ہیں۔ جن میں التشبیہ، الحقیقۃ والمجاز، الاستعارۃ اور الکنایۃ وغیرہ ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں یہ خصوصیات جا بجا پائی جاتی ہیں۔ ان خصوصیات کے تعلق میں کتاب اعجاز المسیح میں سے چند مقامات پیش کیے جاتے ہیں تا کہ قاری ان سے ادبی حظ اٹھا سکے۔

اعجاز المسیح میں تشبیہ کی نظائر

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘والسلام والصلاة على رسولٍ جاء في زمن كان كدَسْتٍ غاب صدره، أو كلَيْلٍ أفَل بدره’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 4)

اور درود و سلام ہو اس رسول پر جو ایسے وقت میں آیا کہ جو ایسے تخت کی مانند تھا جس کا شہ نشین موجود نہ ہو، یا ایسی رات کی مانند جس کا ماہتاب ڈوب چکا ہو۔

اگر اس جملے کو دیکھا جائے تو حضور علیہ السلام نے تشبیہ کا نہایت خوبصورت استعمال فرمایا ہے۔یعنی تخت تو ہے مگر شہ نشین نہیں ، رات ہے مگر اس کو روشن کرنے والا چاند نہیں۔ اس (عربی جملے) میں بلاغت خود بول رہی ہے۔ زمانہ جاہلیت کی طرف نہایت بلیغ اشارہ فرمایا ہے۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

‘‘ومن الفتن العظمى والآفات الكبرى صولُ القسوس بقِسِيِّ الهَمْزِ واللَمْزِ كالعَسوس. وكلّ ما صنعوا لجرحِ ديننا من النِّبال والقِياس، بنَوه على المكائد كالصائد لا على العقل والقياس.’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 17)

اور من جملہ بڑے فتنوں میں سے اور بڑی آفات میں سے ایک عیسائی پادریوں کی وہ یلغار ہے جو انہوں نے شکاریوں کی طرح اپنی عیب جوئی اور چغل خوری کی کمانوں سے مدد لیتے ہوئے کی ہے۔اور جو کچھ بھی انہوں نے ہمارے دین کو نقصان پہنچانے کے لیے تیر وں اور کمانوں میں سے تیار کیا ہے اس کی بنیاد انہوں نے شکاریوں کے سے مکر و فریب پر رکھی نہ کہ عقل و قیاس پر۔

اس مقام پر بھی حضورؑ نے مضمون کو تشبیہاً بیان فرمایا اور عیسائی پادریوں کی دھوکا دہی کو شکاریوں کے داؤ پیچ سے مشابہت دی۔اس تشبیہ کے ساتھ ساتھ کلام میں روانی اور کلام مسجع بھی ایک عجیب ادبی سرور دے رہا ہے۔

استعارہ اور تشبیہ میں فرق

استعارہ میں تشبیہ کی نسبت زیادہ بلاغت پائی جاتی ہے۔اصطلاح میں جب کوئی لفظ حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق موجود ہو تواسے استعارہ کہتے ہیں۔ اس میں تشبیہ کی ادوات، مشبہ یا مشبہ بہ کا ہونا ضروری نہیں۔

چنانچہ الادب والنصوص و البلاغۃ ، للمرحلۃ الثالثۃ ، الجزء الاول، تالیف سعد حسین عمر مقبول و عبدالمجید محمد ذکری میں لکھا ہے:

‘‘الاستعارۃ تشبیہ حذف احد طرفیہ المشبہ او المشبہ بہ۔’’

(الادب والنصوص و البلاغۃ ، للمرحلۃ الثالثۃ ، الجزء الاول، صفحہ 495)

یعنی استعارہ تشبیہ ہی کی ایک قسم ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اس میں مشبہ یا مشبہ بہ محذوف ہوتا ہے۔

٭…تشبیہ حقیقی ہوتی ہے اور استعارہ مجازی ہوتا ہے۔

٭…تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے اور استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔

٭…تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے، جبکہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔

٭…تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں اور استعارہ کے ارکان تین ہیں۔

٭…تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے اور استعارہ اس علم کی ایک بلیغ صورت ہے۔

٭…تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے اور استعارے کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔

اعجاز المسیح میں استعارہ کی نظائر

حضور علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

‘‘ فإن اللّٰہ تجلّی علی العالم تارۃ بالمحبوبیۃ ومرۃ بالمحبیّۃ۔ وجعل ہاتین الصفتین ضیاءً ینزل من شمس الربوبیّۃ علی أرض العبودیّۃ۔ فقد یکون الرب محبوبًا والعبد مُحِبًّا لذالک المحبوب۔’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 98)

اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایک بار محبوبیت کے ساتھ تجلی دکھائی اور ایک بار محبیّت کے ساتھ۔اور اب دو صفات کوربوبیت کے سورج سے نکلنے والی ایسی روشنی بنایا جس نے ارض عبودیت کو روشن کر دیا۔ سو ربّ محبوب بن جاتا ہے اور بندہ اس محبوب کا محِبّ ۔

اس مقام پر حضور علیہ السلام نے محبوبیت اور محبیتِ خداوندی کا ایک عجیب مضمون بیان فرمایا ہے۔ جہاں صفت رحمانیت اور رحیمیت کا استعارہ روشنی سے بیان کیا جو کہ دو طرفہ محبت کی عکاس ہے۔ ایک تو انسان کا محب بننے کے بعد محبوب بننا اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے بعد محب بننا۔

ایک اور جگہ فرمایا:

‘‘أين الخفاء. فافتحوا العين أيها العقلاء، شهدتْ لي الأرض والسماء، وأتاني العلماء الأمناء، وعرَفني قلوب العارفين، وجرى اليقين في عروق قلوبهم كأقْرِيةٍ تجري في البساتين. بيد أن بعض علماء هذه الديار ما قبلوني من البخل والاستكبار، فما ظلمونا ولكن ظلموا أنفسهم حسدًا واستعلاءً، ورضُوا بظلمات الجهل وتركوا علمًا وضياءً. فتراكمَ الظلام في قولهم وفعلهم وأعيانهم، حتى اتخذ الخفافيش وَكْرًا لجنانهم، وما قعد قارِيةٌ على أغصانهم’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 10تا11)

اب اخفاء کہاں رہا۔ اے عقلمندو اپنی آنکھیں کھولو۔ زمین و آسمان نے میرے حق میں گواہی دے دی۔امین علماء میرے پاس آئے اور عارفوں کے دلوں نے مجھے پہچان لیا۔ معرفت و یقین ان کے دلوں کی رگوں میں اس طرح بہہ رہا ہے جیسے باغیچوں کے بیچوں بیچ پانی کی نالیاں بہتی ہیں۔ مگر اس ملک کے بعض علماء نے مجھے غرور و بخل کے سبب قبول نہیں کیا۔ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود حسد و کبر کے سبب اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اور جہالت کے اندھیروں پر راضی ہو گئے علم اور روشنی کو چھوڑ دیا۔ سو ان کے قول و فعل اِنہی (جہالت کے) تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر گھر کر گئے چمگادڑوں نے ان پر ڈیرے ڈال دیے اور کوئی بھی بلبل ان کی ٹہنیوں پر نہیں بیٹھا۔

اس اقتباس میں حضور علیہ السلام نے نہایت اعلیٰ استعارات کا استعمال فرمایا ہے۔معرفت و یقین کو باغوں

میں بہنے والی صاف پانی کی نالیوں سے تعبیر فرمایا اور علماء کے نہ ماننے کو جہالت پر مصر ہونا قرار

دیا اور علم کو روشنی سے اور جہالت کو اندھیروں سے تعبیر فرمایا۔پھر ایک اور استعارہ استعمال کرتے ہوئے اس سب مضمون کو چار چاند لگا دیے اور فرمایا، کہ ان کے دلوں پر اس قدر اندھیرا جم چکا ہے کہ ان میں چمگادڑوں نے بسیرا کیا ہوا ہے۔اور ان کی ٹہنیاں سرسبز نہیں کہ ان پر کوئی مرغان خوش لحن بیٹھ کرگیت گائے۔

اعجاز المسیح میں کنایہ کی نظائر

کنایہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے لغوی معنی اشارہ کے ہیں۔اگر کوئی لفظ مجازی معنوں میں اس طرح استعمال ہو کہ اس کے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہوں تو اسے کنایہ کہتے ہیں۔

کتاب اعجاز المسیح میں باقی کتب کی طرح حضور علیہ السلام نے علم بلاغت کی تمام اصناف کو استعمال فرمایا ہے۔ ان اصناف میں کنایہ بھی ہے۔ حضور ؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:

‘‘وقد تبيّن أنه ما قبِل الشروط، وأرى الضمورَ والمُقُوطَ، وتَشَحَّطَ بدمه وما رأى سبيل الخلاص إلا الشُّحوطَ، وهَمَطَ وغَمَطَ، وما ذبح كَبْشَ نفسه وما سَمَطَ وما قَمَطَ’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 26تا27)

اور یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ گئی کہ اس (مولوی گولڑوی)نے شرائط نہیں مانی۔اور اس نے کمزوری اور بے بسی دکھائی۔ اور وہ اپنے ہی خون میں لت پت ہو گیا۔اور اس نے بھاگنے میں ہی اپنی جائے نجات دیکھی۔ اس نے ظلم کیا اور ناشکری کی اور اس نے اپنے نفس کے دنبے کو ذبح نہیں کیا۔نہ اس کو لٹکایا نہ اس کی کھال اتاری۔

اس حوالے میں حضور علیہ السلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا مقابلہ تفسیر نویسی سے فرار کو بڑے احسن پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ پیر مہر علی شاہ نے جو الزامات حضور علیہ السلام پر لگائے انہی الزامات کی زد میں خود آ گیا ۔گویا اپنے ہی خون میں رنگاگیا۔ اس ساری سرگزشت کو حضور علیہ السلام صرف دو الفاظ میں( تَشَحَّطَ بِدَمِهِ) کنایۃً بیان فرمایا۔

علم المعانی

علم بلاغت کی دوسری شاخ علم المعانی کہلاتی ہے۔ اس شاخ کو عبدالقاہر جرجانی ‘‘نظریۃ النظم’’سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔علم المعانی میں کلمہ اور اس کے معانی و مدلولات پر بحث ہوتی ہے۔ علم المعانی کے ذریعہ لفظ اور اس کے مرادی معنی کی ادائیگی میں غلطی سے بچا جاسکتا ہے۔ اس میں دوسرا اساسی نوعیت کا مبحث تنافرحروف اور تنافرکلمات پر بھی بحث ہوتی ہے۔علم دلالت الفاظ اس علم (علم المعانی) کی ایک مرکزی شاخ ہے۔علم الدلالة ایک نئی اصطلاح ہے۔ جس کو فرانسیسی زبان میں Semantique یا انگریزی زبان میں Semantics کہتے ہیں۔

یہ اصطلاح ایک فرانسیسی ماہر لسانیات Bréal (بريال) نے 1897ء میں استعمال کی۔ آجکل دنیا میں اس علم سے مراد ایک ایسا علم ہےجس میں معین طور پر الفاظ اور اس کے مدلولات کی ہیئت اور ان کی تمام تر جزئیات کا مطالعہ ہو۔

لغوی دلالت کی اقسام

علماء نے دلالت لغوی کی مختلف اقسام بیان کی ہیں جن میں اساسی اہمیت کی حامل یہ ہیں۔ دلالت صوتی، دلالت صرفی، دلالت أساسی اور دلالت إضافی۔

٭…دلالت صوتی

دلالت صوتی سےمراد وہ دلالت ہے جو بعض حروف کی قدرتی صوت سے تعلق رکھتی ہے۔ مثلاً ﺧﻀﻢ اورﻗﻀﻢ

خضمکا مطلب ہے کوئی ترچیز کھانا جیسا کہ تربوز یا ککڑی یا اسی جیسی اور اشیاء، اور قضمکا فعل کسی سخت اور خشک چیز کے کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ﻗﻀﻤﺖاﻟﺪاﺑﺔشعیرھا کہ جانور نے خشک چارہ کھایا۔ ان دو الفاظ (ﺧﻀﻢ اورﻗﻀﻢ) میں صرف ایک حرف (خ/ق)کا اختلاف ہے جس سے معنیٰ میں نہ صرف فرق آ گیا بلکہ معنیٰ ایک لحاظ سے الٹ ہو گیا۔ اس طرح کی دلالت جو کہ صوت کے بدلنے سے ہو، کو دلالت صوتی کہتے ہیں۔

٭…دلالت صرفی

دلالت صرفی وہ دلالت ہے جو کہ لفظ کے اندر ہونے والی صرفی تبدیلیوں (صیغوں اور اوزان) کی وجہ سے ظہور میں آئے۔ مثلاً فعّال اور استفعلکے صیغےکلمہ کے بنیادی جذر سے زیادہ وسیع معانی رکھتے ہیں۔ اول الذکر مبالغہ کا صیغہ ہے۔اور اس میں پیدا ہونے والا معنیٰ جذر الکلمہ سے زائد فائدہ دے رہا ہے۔ اور ثانی الذکر باب استفعال سے ہے جو کہ طلب پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے استغفر اس نے بخشش طلب کی مگر یہ معنیٰ بنیادی جذر غفرمیں نہیں۔

٭…دلالت معجمی

اس سے مراد وہ دلالت ہے جو کہ معجم یا لغت میں مستعمل ہو جس کا استعمال کثرت سے عرب محاورہ میں موجود ہو۔ اس دلالت کو الدلالةالاجتماعیة یا دلالت اساسی بھی کہتے ہیں۔

٭…دلالت اضافی

اس طرز کی دلالت کو دلالت عرضی یا دلالت تضمینی بھی کہتے ہیں۔اور اس سے مراد وہ معنیٰ یا دلالت ہے جو کہ کسی لفظ کے اساسی معنوں کے علاوہ کسی اور اضافی معنیٰ پر بھی اطلاع دے۔ مثلاً اگر کسی شخص کو عربی زبان میں ‘‘اسد’’کہا جائے تو اس کا معنیٰ یہ ہو گا کہ وہ شخص شیر کی مانند بہادر یا شجاع ہے۔ اس کلمہ کی اساسی دلالت تو ایک معروف جانور کی ہے مگر اس کی اضافی دلالت شجاعت و بہادری کی ہے۔

اعجاز المسیح میں دلالت صوتی کی نظائر

حضور علیہ السلام اپنی تصنیف منیف اعجاز المسیح میں فرماتے ہیں:

‘‘و نشرِ الصلاح والخیر و اجاحۃ الطلاح والضیر’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 135)

یعنی (انبیاء باقی سب لوگوں سے )خیر و صلاح اور نیکیوں کی تلقین میں اور ظلم و فساد کو جڑھ سے ختم کرنے (میں تفوق حاصل کرتے ہیں)

یہاں اس جملہ میں چارالفاظ قابل غور ہیں۔ الصلاح، الخیر، الطلاحاور الضیر۔اس ایک چھوٹے سے جملہ میں دلالت صوتی اپنی کمال خوبصورتی سے نظر آ رہی ہے۔ الفاظ الصلاح اور الطلاح میں فاء الفعل کا اختلاف ہے باقی حروف مشترک ہیں مگر یہ دونوں الفاظ معنی میں قریباً متضاد ہیں۔ اسی طرح الخیر اور الضیر میں بھی فاء الفعل کا اختلاف ہے باقی حروف مشترک ہیں اور یہ دونوں الفاظ بھی معنی میں متضاد ہیں۔یعنی ایک ہی جملہ میں ایک جیسے صوتی اشتراک رکھنے والے الفاظ کو استعمال فرمایا مگر دونوں کے معنیٰ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اسی طرح ایک اور مثال دیکھیے:

‘‘وأُعطوا جَناحًا يطير إلى السماء بعد قصّ هذا الجَناح’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 5)

اور ان کو(مومنین کو)گناہ سے الگ ہونے کے بعد ایسے پَر دیے گئے کہ جن سے وہ آسمانِ روحانیت پر پرواز کرنے لگے۔

اس جملہ میں حضور علیہ السلام نے ایک ہی لفظ (جَناح)کودہرایا مگر مرادی معنیٰ ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں۔اس میں دلالت صوتی کے اعتبار سے کوئی بھی فرق نہیں ہے مگر معنیٰ اور اس کی ذاتی دلالت میں دونوں الفاظ ایک دوسرے سے بالکل الگ معنیٰ دے رہے ہیں۔

اعجاز المسیح میں دلالت صرفی کی نظائر

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘إنها نار أذابت قلوبنا، وجنّبتْ جنوبَنا، وثقّلتْ علينا خطوبنا۔’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 14)

یعنی یہ (اسلام پر مصائب) ایک ایسی آگ ہے جس نے ہمارے دلوں کو پگھلا دیا۔ اور اس نے ہمارے پہلوؤں کو ٹیڑھا کر دیا ہے اور ہمارے کاموں کو ہمارے لیے ثقیل کر دیا ہے۔

اس مثال میں حضور علیہ السلام نے عربی زبان کے عام قاعدہ یعنی فعل، فاعل اور مفعول بہ کی ترتیب سے ہٹ کر فاعل (نار) کو مقدم رکھا اور فعل (اذابت) کو مؤخر کر دیا جس سے جملہ میں ایک غیر معمولی شوکت اور زور پیدا ہو گیا۔ اسی طرح اگلے حصہ میں ایک ہی مادہ (جنب) سے فعل و فاعل کو استعمال فرمایا جس سے جملہ میں معنوی حسن کے ساتھ ساتھ لفظی حسن بھی پیدا ہو گیا۔

‘‘صُبّتْ على المسلمين مصائبُ وخُرّبتْ تلك الربوع’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 18)

یعنی مسلمانوں پر کثرت سے مصائب و آلام ٹوٹ پڑے اور آبادیاں سخت تباہ حال ہو گئیں۔

اس جملہ میں حضور علیہ السلام نےایک لفظ (خُرّبتْ) باب تفعیل سے استعمال فرمایا جو کہ ثلاثی مزید کا ایک باب ہے۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ زیادۃ اللفظ لزیادۃ المعنیٰ یعنی اگر کسی لفظ میں حروف بڑھتے جائیں گے تو اس لفظ میں موجود معنیٰ میں وسعت ، زیادتی اور گہرائی بھی آتی چلی جائے گی۔ اب اس لفظ کو اگر ثلاثی مجرّد میں ہی استعمال کیا جاتا تو معنیٰ کی ادائیگی تو ہو جاتی مگر اس کو ثلاثی مزید میں استعمال کر کے اس لفظ کو مسلمانوں کی اصل حالت کو بیان کرنے کے لیے وسیع، گہرے اور پُر زور انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔

اعجاز المسیح میں دلالت معجمی کی نظائر

‘‘ما بارزَ بل خدع وخَبَّ، وإلى جُحْرهِ أَبَّ. وتراءى نحيفًا ضعيفا وكان يُرِي نفسَه رجلاً بَبّا. وأخلدَ إلى الأرض وشابهَ الضبَّ. وما صعِد وما ثَبَّ، وجمَع الأوباش وما دعا الربَّ. وحقّرني وشتم وسبَّ، وتبِع الحيلَ وما صافى اللهَ وما أحبَّ، وما قطَع له العُلَقَ وما جَبَّ. وقال إني عالم والآن نجمُ علمِه أَزَبَّ، وكلُّ ما دبّر تَبَّ.’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 49تا50)

وہ میرے مقابل پر نہ نکلا اور اس نےداؤ لگایا اور دھوکہ دہی سے کام لیا اور اپنے بل میں گھس گیا۔ اور نہایت کمزور اور نحیف طور پر نظر آیا حالانکہ وہ اپنے آپ کو بڑا بھاری بھرکم ، تندرست و توانا ظاہر کرتا تھا۔وہ زمین کی طرف جھک گیا اور گوہ سے مشابہت اختیار کر لی۔ وہ نہ ہی (آسمان روحانیت کی طرف) بلند ہوا اور نہ ہی تمکنت سے قرار پکڑا۔اس نے اوباش جمع کیے اوررب کو نہ پکارا۔اس نے میری تحقیر کی اور برا بھلا کہا اور گالی گلوچ کیا۔حیل و حجت کی پیروی کرتے ہوئے اللہ سے اپنے معاملے صاف نہیں کئے اور نہ ہی اس (اللہ) سے محبت کر سکا۔اور اپنے رب کے لیے غیر سے تعلق نہیں توڑا ۔ اور اس نے کہا کہ میں عالم ہوں ، جبکہ اس کے علم کا ستارہ ڈوب گیا۔

اس حوالہ میں بعض کلمات کو استعمال فرمایا گیا ہے۔ان کے معانی مختلف لغات سے دیے گئے ہیں۔ ان کلمات ، ان کے معانی اور حضور علیہ السلام کے تخیل (بیان فرمودہ مضمون )میں کوئی بھی تناقض نہیں۔ اسی کا نام دلالت معجمیہے۔

خَبَّ: وقد خَبَّبَ غلامي فلانٌ، أي خدعه

(الصحاح زیر کلمہ خبب)

أَبَّ: أَبَّ يَؤُبُّ أَبّاً وأَباباً وأَبابَةً: تَهَيَّأ للذَهاب وتَجَهَّزَ ابن الأَعرابي: أَبَّ إِذا حَرَّك، وأَبَّ إِذا هَزَم بِحَمْلةٍ لا مَكْذُوبةَ فيها. والأَبُّ: النِّزاعُ إِلى الوَطَنِ. وأَبَّ إِلى وطَنِه يَؤُبُّ أَبَّاً وأَبابةً وإِبابةً: نَزَعَ ۔(لسان زیر کلمہ ابب)

بَبّا:يوصف به الأَحْمَقُ الثَّقِيلُ. والبَبَّةُ: السَّمِينُ، وقيل: الشابُّ الـمُمْتَلئُ البَدنِ نَعْمةً۔(لسان زیر کلمہ ببب)

الضبَّ: : الضَّبُّ: دُوَيْبَّة من الحشرات معروف، وهو يشبه الوَرَلَ۔(لسان زیر کلمہ ضبب)

جَبَّ: جَبَّه يَجُبُّه جَبّاً وجِباباً واجْتَبَّه وجَبَّ خُصاه جَبّاً: اسْتَأْصَلَه۔ (الصحاح زیر کلمہ جبب)

تَبَّ: التَّبُّ: الخَسارُ. والتَّبابُ: الخُسْرانُ والهَلاكُ.

(لسان زیر کلمہ تبب)

اعجاز المسیح میں دلالت اضافی کی نظائر

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘وإنّا اخترنا الفاتحة لهذا الامتحان، فإنها أُمُّ الكتاب ومفتاح الفرقان، ومنبعُ اللؤلؤ والمرجان’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 41)

اور ہم نے سورہ فاتحہ کو اس مقابلہ کے لیے چنا ہے۔یہ ام الکتاب ہے اور مفتاح الفرقان ہے۔اورموتیوں اور گوہروں کا سرچشمہ ہے۔

اس جملہ میں حضور علیہ السلام نے سورۃ فاتحہ کو موتیوں اور گوہروں کا منبع قرار دیا۔ اب عربی لفظ اللؤلؤ اور المرجانکے معروف معنی تو موتی یا مرجان کے ہیں مگر یہاں حضور علیہ السلام کی مراد معارف کے موتی ہے۔گویا حضور ان الفاظ سے اضافی معنیٰ مراد لے رہے ہیں۔

ایک اور مقام پر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘وما ذبح كَبْشَ نفسه وما سَمَطَ وما قَمَط’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 27)

اور اس نے اپنے نفس کے مینڈھے کو ذبح نہیں کیا۔نہ اس کو لٹکایا نہ اس کی کھال اتاری۔

یہاں حضور علیہ السلام لفظ كَبْشسے مراد معروف جانور (مینڈھا) مراد نہیں لے رہے بلکہ اس سے مراد انسانی نفس لے رہے ہیں۔ جو کہ دلالت اضافی ہے۔

علم البدیع

عربی لفظ بدیع کا معنیٰ ہے بنانے والا، موجد، نیا، نادر، انوکھا، علم بلاغت میں اس سے مراد وہ علم ہے جس کی بدولت یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام، گفتگو یا تحریر میں خوبصورتی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ کلام کی آرائش و زیبائش کن طریقوں سے ہوتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو کلام کے حسن و جمال، زیب و زینت اور اس کی خوبیوں کی بحث کرتا ہے۔ اس کی دو بنیادی اقسام ہیں

٭…محسنات لفظیہ

٭…محسنات معنویہ

محسنات لفظیہمیں جناس، اقتباس اور سجع وغیرہ ہوتے ہیں۔ جبکہ محسنات معنویہ میں طباق، حسن التعلیل اور مقابلہ وغیرہ ہوتے ہیں۔

اب اس کتاب میں سے ایسے مقامات پیش کیے جائیں گے جن میں محسنات لفظیہ اور محسنات معنویہبڑی آب و تاب سے نظر آتے ہیں۔

‘‘وترون أنه كيف خلق أسبابًا جديدة، ووسائل مفيدة، وصنائع لم يُرَ مِثلها فيما مضى، وعجائبَ لم يوجد مِثلها في القرون الأولى، وترون تجدُّدًا في كل ما يتعلق بالمسافر والنزيل والمقيم وابن السبيل، والصحيح والعليل، والمحارب والمُصالح المُقيل، والإقامة والرحيل، وجميعِ أنواع النعماء والعراقيل، كأن الدنيا بُدّلتْ كل التبديل’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 159تا160)

اور تم دیکھتے ہو کہ (اللہ نے) کیسے نئے اسباب ، سود مند وسائل اور ایسی صنعتیں جو پچھلے زمانوں میں دیکھی تک نہ گئیں۔اور ایسے عجائب جن کی نظیر پچھلی صدیوں میں نہیں ملتی۔اور تم دیکھتے ہو کہ مسافر اور مقیم، ٹھہرنے والے اور کوچ کرنے والے ، تندرست و بیمار ، جنگ کرنے والے یا صلح پسند یا اقامت اختیار کرنے والے یا رخت سفر باندھنے والے (اسباب) کےتعلق میں حتیٰ کہ ہر ایک آسائشوں اور مشکلات میں ایک تنوّع نظر آئے گا۔جیسا کہ دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔

‘‘فحاصل الكلام، أن كمال الرحمانية يجعل الله محمَّدًا ومحبوبًا، ويجعل العبدَ أحمدَ ومُحِبًّا يستقري مطلوبًا، وكمال الرحيمية يجعل اللهَ أحمدَ ومُحِبًّا، ويجعل العبدَ محمَّدًا وحِبًّا. وستعرف من هذا المقام شأنَ نبيِّنا الإمام الهُمام، فإن الله سمّاه محمَّدًا وأحمدَ، وما سمّى بهما عيسى ولا كليمًا، وأشركَه في صفتيه الرحمن والرحيم بما كان فضله عليه عظيمًا. وما ذكر هاتين الصفتين في البسملة إلا ليعرف الناس أنهما لله كالاسم الأعظم وللنبي من حضرته كالخِلْعة’’

( اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 107تا108)

حاصل کلام یہ ہے کہ (صفت) رحمانیت کا کمال یہ ہے کہ یہ اللہ کو محمد(تعریف کیا گیا) و محبوب بناتی ہے۔اور عبد کو احمد(تعریف کرنے والا) اورایسا محبت کرنے والا بناتی ہے جو اپنے مطلوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔اور (صفت) رحیمیت کا کمال اللہ کو احمد (تعریف کرنے والا) اور محبت کرنے والا بنا دیتی ہے۔اور عبد کو محمد اور محبوب بنا دیتی ہے۔ اور اس سے تُو ہمارے نبی اور عالی المرتبت امام ﷺ کی شان جان سکتا ہے۔اللہ نے آپﷺ کو محمد اور احمد دونوں نام دیے۔اور ان ناموں سے نہ ہی عیسیٰ کو نوازا نہ ہی موسیٰ کلیم اللہ کو۔اور آپﷺ کواپنے بے پایاں فضل و احسان کے سبب اپنی ان دو صفات رحمٰن اور رحیم میں شریک کیا۔ ان دونوں صفات کو بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اس لیے بیان فرمایا کہ تا لوگ جان لیں کہ کہ یہ اللہ کے لیے اسم اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں اور آنحضرت ﷺ کے لیے خاص جناب الٰہی سے بطور خلعت کے ہیں۔

خاتمہ

علم بلاغت ، اس کی ذیلی اصناف ، ان کی تعریفوں اور ان کی مثالوں سے تعارف کے بعد جب حضرت مسیح موعود ؑکے بے نظیر کلام کو دیکھا تو روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ حضور علیہ السلام کا کلام ایک چمکتے ہوئے آفتاب جیسا ہے جس کو لدنّی ہونے کی وجہ سے جہاں آفاقیت حاصل ہے وہاں ایک عدیم المثال فصاحت و بلاغت بھی۔ پیر مہر علی شاہ گولڑوی اس فصاحت و بلاغت سے بھری عربی تحریر کا کیا مقابلہ کرتے ۔ عافیت اسی میں جانی کہ راہ فرار اختیار کریں ۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘میرے پر ایسی رات کوئی کم گذرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں اگر چہ جو لوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اُسی کے مُنہ کی قسم ہے کہ میں اب بھی اُس کو دیکھ رہا ہوں۔ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے۔ اورسراؔ سربد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کانتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔ میں ہر روز اِس بات کے لئے چشم پُرآب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے۔ پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے۔ مگر میدان میں نکلنا کسی مخنّث کا کام نہیں۔ ہاں غلام دستگیر ہمارے ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا۔ اب اِن لوگوں میں سے اس کے مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے۔ اے لوگو! تم یقیناًسمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔ میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے۔ وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں سُستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں۔ انسان کیا ہے محض ایک کیڑا۔ اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ۔ پس کیونکر میں حیّ و قیّوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لئے ٹال دوں۔ جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اِسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم۔ پس یقیناًسمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔’’

(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ49تا50)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button