سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے

(امۃ الباری ناصر)

’’اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں‘‘

تبرکات: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دوات

دنیا کی کسی بھی زندہ زبان کو مثال بنا کر جائزہ لیا جائے تو اس میں ارتقائی عمل جاری و ساری نظر آئے گا۔رواں دواں وقت کے ساتھ قدیم و جدید کی تقسیم جاری رہتی ہے۔ہمیشہ کچھ الفاظ،محاورے اور طرزِ بیان پرانے اور متروک ہوتے رہتے ہیں۔تغیر زمانی کے ساتھ تغیر مکانی سے بھی زبان میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔زبانوں کے نقطہ ٔعروج اور معیار کے بارے میں بھی آراء مختلف ہوتی ہیں کوئی قدیم انداز کو معیاری خیال کرتا ہے کوئی جدت پسند ہوتا ہے۔اسی طرح زبانوں کے مستقبل بھی موضوعِ گفتگو بنتے رہتے ہیں۔دراصل ہر علم تمام و کمال،اللہ تعالیٰ کو ہے وہ مالک جسے چاہے جس قدر عنایت فرما دے ۔اردو زبان کی خوش قسمتی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے الہامی زبان بنایا اور اپنے فضل و احسان سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جناب سے اس درویش زبان پر قدرت عطافرمائی ہے اور اس زبان کا نقطہ ٔعروج اور مستقبل دونوں آپ کی ذات سے وابستہ کردیے۔

اردو کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں صوفیاء عظام اور علمائے کرام نے اسے ذریعہ ٔاظہار بنایا اور قرآن پاک کے تراجم سے لے کر اصلاحی ملفوظات و منظومات کے ضخیم ذخائراردو زبان کے قابلِ فخر سرمایے میں شامل کردیے۔بابائے اردو مولوی عبد الحق صاحب نے اپنی تصنیف ‘‘قاموس الکتب’’ میں اردومیں شائع ہونے والی مذہبی کتب کی ایک طویل فہرست شائع کی ہے۔ یہ ایک طرح سے اردو زبان کی خدمت دین کی اہلیت حاصل کرنے کی تیاریاں تھیں۔سنجیدہ مذہبی موضوعات نے اسے صاحبان علم کی پسندیدہ زبان بنا دیا۔فارسی،عربی اور ہندی کی آمیزش سے کرّہ زمین کے ایک بہت بڑے حصے پر رہنے والوں کے لیے یہ زبان اپنائیت رکھتی ہے۔اپنی اس حیثیت پر نازاں ہو کر اسے بھی زبان مل گئی۔ اس کی ترجمانی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک روح پرور بیان پڑھیے

‘‘…خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیاجس میں قوموں کے باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور برّی اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھ کر سہولت سوار ی کی ممکن نہیں۔اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیاجو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے۔ سو اس وقت حسب منطوق آیت

وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ(الجمعۃ:4)

اورنیز حسب منطوق آیت

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا(الاعراف:159)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کرملک ہند میںاردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تمام خدام حاضر ہیںاور فرض اشاعت پورا کر نے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں۔آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آ پ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوںاور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جوزمین پر رہتی ہیںقرآنی تبلیغ کر سکتے ہیںاور اشاعت کو کما ل تک پہنچا سکتے ہیںاور اتمام حجّت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیںتب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے جواب دیاکہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔مگر میں ملک ہند میں آؤں گا ۔کیونکہ جوشِ مذاہب و اجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ ء جمیع مِلَل و نحل اور امن اور آزادی اسی جگہ ہے نیز آدم علیہ السلام اسی جگہ نازل ہواتھا’’

(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17صفحہ262تا263)

اللہ تعالیٰ نے دَور آخرین میں آنحضرت ﷺ کے بروز کو سلطان القلم قرار دیا اور اردو کو اس بادشاہ کے اسلحہ خانے کا ہتھیار بنا دیا۔آپ کے قلم کو ‘ذوالفقار علی’قرار دیا اور اشاعت و حمایتِ دین کے دلائل و براہین کی آسمانی بارش کے ساتھ زبردست قوتِ بیان عطا فرمائی۔معرفت و عرفانِ الٰہی کے پُر شوکت بیان سے معطّر آپ کی تصانیف،نثر و نظم،نے اردو زبان کو اہمیت،افادیت اور عظمت عطا فرمائی۔اردو زبان کا نصیب جاگا اور یہ قرآنی پیشگوئی وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ (التکویر) کی تکمیل میں کام آئی۔اور لٰہی وعدہ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ کےموافق تمام مذاہب سے دلائل کی جنگ میں نہ صرف پوری اُتری بلکہ فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دیے۔

صفِ دشمن کو کیا ہم نے بحجّت پامال

سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا کہ سیف (تلوار)کا کام قلم سے لیا جاوے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جاوے۔ اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے ۔

گر حفظ مراتب نکنی زندیقی

اسوقت جو ضرورت ہے وہ یقینا ًسمجھ لو۔ سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے ۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے اُس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدانِ کارزار میں اُتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھاؤں…. ۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ50تا51، ایڈیشن2016ء)

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار

اس سلطان القلم نے براہین احمدیہ سے پیغام صلح تک تقریباً90؍کتب جو دس ہزارصفحات پر مشتمل ہیں (ان میں قریباً 22؍عربی زبان میں ہیں)اپنے معجز نما قلم سے تحریر فرمائیں۔20؍ہزار سے زائد اشتہارات مشتہر فرمائے نوے ہزار سے زائد مکتوبات تحریر فرمائے عربی،اردو اور فارسی میں گراں قدرمنظوم کلام کے الٰہی چشمے اچھال دیے اور اس شاہانہ انداز میں گویا کہ مالک الملک آپ کے ہاتھ سے خود لکھوا رہا ہے۔آپ فرماتے ہیں۔

‘‘…میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصہ پر مشتمل ہوتی ہے (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ واﷲ اعلم۔ (۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے زبان پر جاری کرتا ہےاور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔ … مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اﷲ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں’’

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ434تا435)

آپؑ کو اللہ تعالی نے الہاماََ فرمایا:

‘‘در کلامِ تو چیزے است کہ شعراء را درآں دخلے نیست۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ ’’(تذکرہ صفحہ 508)

ترجمہ:‘‘تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔’’

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ106)

جس مقدس وجود نے اللہ تعالیٰ سے تعلیم پائی ہو اُس کی وجاہت و بلاغت کا قلم کی جادوگری اور اسلوب و بیان کی خوبیاں بیان کرنا آسان کام نہیں۔یہ آسمانی سلسلے ہیں۔کلمات قدسیہ ہیں۔جن کی سمجھ بھی خدا کے فضل و احسان سے عطا ہوتی ہے۔

اس انوکھی جادوگری کااقرار اگر اغیار کی طرف سے ہوتوزیادہ جاذبِ توجہ ہوتا ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار وکیل امرتسر میں پیش کیا ہواخراجِ تحسین ملاحظہ ہو۔

‘‘وہ شخص بہت بڑا شخص، جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو، وہ شخص جو دماغی عجائبات کامجسمہ تھا،جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی، جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں، وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدارکرتا رہا… دنیا سے اُٹھ گیا… ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرکے دکھاجاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نےان کے بعض دعاوی اوربعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ وہ ان کا ایک بڑاشخص ان سے جدا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو ان کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا۔ ان کی یہ خصوصیات کہ وہ اسلامک مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے… مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حا صل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدرومنزلت آج جب کہ وہ اپنا فرض پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے’’

(اخبار وکیل امرتسر بحوالہ بدر 18؍جون1908ء)

کرزن گزٹ دہلی میں شائع ہونے والی اس کے ایڈیٹرمرزا حیرت دہلوی کی 1908ء کی درج ذیل تحریر آج بھی زندہ ہے

‘‘مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اورایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا…اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں…اس کا پُرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے’’

(اخبار ‘‘کرزن گزٹ’’ دہلی یکم جون 1908ء)

مستقبل کی زبان

اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو یہ اعزاز بھی عطا فرمایا کہ اسے الہامی زبان بنا دیا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد سب سے زیادہ الہام اردو میں ہوئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘چونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا میں سمجھتا ہوں کہ اس کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہو گی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر ٹھہرنہ سکے گی۔’’

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ444)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بالکل جداگانہ ہے ۔اس کے اندر اتنی روانی ،زوراور سلاست پائی جاتی ہے کہ وہ باوجود سادہ الفاظ کے باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جس سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیا ء کا کلام مبالغہ،جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہےاس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جا رہی ہیں ۔اور جس طرح جب ایک زمیندار گھاس والی زمین پر ہل چلانے کے بعد سہاگہ پھیرتا ہے تو سہاگہ کے ارد گرد گھاس لپٹتا جاتا ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر انسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ لپیٹتی جارہی ہے۔ اور یہ انتہا ءدرجہ کی ناشکری اور بے قدری ہوگی اگر ہم اس عظیم الشان طرزِ تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز کو اس کے مطابق نہ بنائیں۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1931ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد 13صفحہ 217)

جماعت احمدیہ پر یہ خاص فضل خدا وندی ہے کہ آپ کی تحریرات کے خزانہ کی وارث ہے۔ان تحریروں سے وابستگی خدا تعالیٰ سے وابستگی کی ضامن ہے۔اسی مقصد سے ہمارے خلفائے کرام بھی ہمیں اس عظیم الشان لٹریچر سے افادہ کی برکات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور اردو زبان سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘میں آپ کو ایک نصیحت تو یہ کروں گا کہ اردو کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنادو آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اسی زبان میں گفتگو کیا کریں….اور اسے اتنا رائج کر دیا جائے کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے…میرے نزدیک اردو زبان کو ہی ہمیں اپنی زبان بنا لینا چاہیے اور اسے رواج دینا چاہیے۔’’

(الفضل12؍اگست1960ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے درج ذیل ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا انداز تحریر ہی اردو کا نقطہ ٔعروج اور مستقبل ہے۔

‘‘حضرت مسیح موعود ؑنے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردومیں شامل ہو کر رہیں گے کیونکہ اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہوجائیں گے …زمانہ خود اردوزبان کو اس طرف لے جا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو الفاظ استعمال کئے وہ اردو کے سمجھے جائیں گے…ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی۔’’(الفضل 7؍ اگست1933ء)

‘‘پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہوجائے۔پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمے ہے،آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمے ہے،آپ کے دلائل کر قائم رکھنا ہمارے ذمے ہے،آپ کی قوتِ قدسیہ اورقوتِ اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمے ہے،آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمے ہے وہاں آپ کی طرزِ تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمے ہے۔ اور یہ مصنفوں اور مضمون نگاروں کا کام ہے…چاہیےکہ ہماری تحریرات حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے رنگ میں رنگین ہوں’’(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1931ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد 13صفحہ 218)

‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر اپنے اندر ایسا جذب رکھتی ہے کہ اس کی نقل کرنے والے کی تحریر میں بھی بہت زیادہ زور اور کشش پیدا ہوجاتی ہے…اگر ہمارا طرزِتحریر وہی ہو جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاہے تو پھر دیکھو کتنا اثر ہوتا ہے دلائل بھی بیشک اثر کرتے ہیں مگر سوز اور درد اس سے بہت زیادہ اثر کرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں دلائل کے ساتھ ساتھ ساتھ درد اور سوز پایاجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا پانی ہے جس میں ہلکی سی شیرینی ملی ہوئی ہے۔’’(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جولائی1931ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد 13صفحہ 219)

حضرت اقدس ؑکا اسلوبِ بیان حاصل کرنے کا طریق

جماعت کے صاحبانِ قلم کو ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد دینے کے ساتھ آپ نے اس کے حصول کا طریق بھی بتایا کہ زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات کا مطالعہ کیا جائے۔ آپؑ کے طرزتحریر کو اپنانے کی شعوری کوشش کی جائے تاکہ جماعت کے قلمکاروں کا ایک منفرد رنگ ہوجو دبستانِ دہلی اوردبستانِ لکھنو سے ہٹ کر دبستانِ قادیان کا اسلوب رکھتا ہو۔ آپ نے اس کے لیے جدوجہد کی اور اپنی تصنیفات سے پہلے حضرت اقدس ؑکی تحریروں کا بغورمطالعہ کیا حتی کہ یہ ارادی کوشش فطرت ثانیہ بن گئی اور آپ کے معجز رقم قلم نے حضرت اقدس ؑ کی خو بو کو منعکس کیا۔

میں نے یوں ڈوب کے تحریریں پڑھی ہیں اس کی

مجھ میں رچ بس گئی اس ماہ لقا کی خوشبو

صرف و نحو کے مروج اصولوں سے ماورا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘صرف اور نحو ایک ایسا علم ہے جس کو ہمیشہ اہل زبان کے محاورات اور بول چال کے تابع کرنا چاہئے اور اہل زبان کی مخالفانہ شہادت ایک دم میں نحو وصرف کے بناوٹی قاعدہ کو رد کردیتی ہے۔ ہمارے پر اللہ اور رسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف و نحو کو اپنے لئے ایسا رہبر قرار دیدیں کہ باوجودیکہ ہم پر کافی اور کامل طور پر کسی آیت کے معنے کھل جائیں اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت بھی مل جائے تو پھر بھی ہم اس قاعدہ صرف یا نحو کو ترک نہ کریں اس بدعت کے الزام کی ہمیں حاجت کیا ہے۔ کیا ہمارے لئے کافی نہیں کہ اللہ اور رسول اور صحابہ کرام ایک صحیح معنے ہم کو بتلاویں۔ نحو اور صرف کے قواعد اطراد بعد الوقوع ہے ’’

(الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 183)

حضرت اقدس علیہ السلام کی نثر اور نظم پڑھنے کا ذوق رکھنے والے آپ کے منفرد اندازکا اپنے اپنے رنگ میں حسبِ استطاعت اثر لیتے ہیں۔ آپ کے الفاظ،تراکیب،محاوروں،جملوں کا دروبست، چستی،نکھار اور روانی کا حسن بیان کرنے کے لیے اردو ادب کو نئی تراکیب تراشنی ہوں گی حضرت اقدس ؑکی اردو زبان پر ایک فاتح سلطان کی طرح حاکمانہ گرفت مبہوت کردیتی ہے۔ آپ نے اردو زبان کو اسلام کی خاطر جہاد میں ہتھیار کے طور پر استعمال فرمایا بلحاظ زبان و بیان اس کی استعداد میں ہر جہت سے بہتر اضافے فرمائے۔ اس سلطنت کو جس حال میں پایا تھا اس سے بہت بہتراور بلندوبالا شان عطا فرماکے ترقی کرتے رہنے کے اسلوب سکھائے۔

آپؑ نے اردومیں دوسری زبانوں کے الفاظ شامل فرمائے۔جس سےاردوکےذخیرۂ الفاظ میں کثیر اضافہ ہوا۔ ایک ترقی کرنے والی زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ جذب کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔آپ کی تحریروں میں فارسی،عربی،سنسکرت اور انگریزی کے الفاظ جملوں میں اس روانی سے آتے ہیں گویا نگینوں کی طرح جڑے ہوں۔آپ کی تحریر کو سمجھنے کے لیے صرف اردوڈکشنری ہی نہیں عربی اور فارسی کی ڈکشنری بھی کھولنی پڑتی ہے۔

مستجاب الدعوات،مجمع الدیار،اجتباء، اصطفاء، انفکاک، انفاخ،انفاق فی سبیل اللہ،خلیع الرسن وغیرہ کے لیے عربی لغت۔

روبخدا ،منبت، مرایا،تدارس،سائغ،اطراء،فارسی لغت میں ملیں گے۔

اندھکار،مکتی، کڑاڑا، چنگے بھلے،تیاگنا،ہندی کے الفاظ ہیں۔

سیاپا،ھرکا،جندے،کوٹھا،وغیرہ پنجابی سے۔

مورکھ سنسکرت سے۔

اور کانشنس،اپیل،ڈوئل وغیرہ انگریزی سے آئے ہیں۔ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔

واحد کی جمع اور جمع الجمع بنانے میں اردو عربی اور فارسی تینوں زبان کے جمع بنانے کے اصول شامل ہیں۔چند مثالیں دیکھیے۔

دواہیر۔ابیات۔بیتوں۔دخانات۔تدلیات۔افترات۔الاذیب۔تعالیم۔علماآں۔جورواں۔ضرورات۔گواہیئیں۔مقادیر۔نزاعیں۔شرّوں۔بسائط۔

تراکیب و محاورات کا انداز بھی منفرد ہے۔مفہوم سے مطابقت کے لیے انداز بدل کے استعمال فرمانا آپ

اپنا اسلوب ہے۔رائے لگانا،رائے ملنا،رائے حاصل کرنا،دعوت کر نا،رو گردان کیا،تعلیم کیا،فراری کردیا، انتظار لگنا،لرزہ پڑنا،پرتو کیا، ناک دیا، عیب جو، عیب چین،عیب گیر۔تہمت تراشنا، تہمت باندھنا، تہمت لگانا مفہوم کے باریک فرق کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔

اردو میں جب دو لفظ اکٹھے لکھے جائیں تو فعل بعد والے لفظ کے مطابق آتا ہے مثلاً ‘دن رات’ میں رات کے مطابق اور ‘شب و روز’ میں روز کے مطابق ہوتا ہے جبکہ حضرت سلطان القلم کے استعمال میں تنوع ہے مثلاً

‘‘دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہے’’

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ 326)

‘‘دوسرے درجہ کی نسبت اس مرتبہ میں قوتِ ایمانی اور تعلق بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ231)

‘‘اُس وقت آپ کی دن رات خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و بُکا اور طلب استعانت اور دعا میں گزرتی تھی۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ423،ایڈیشن1988ء)

حضرت اقدس ؑکے کلام میں مذکر و مؤنث کے استعمالات بھی آپ کا اپنا انداز لیے ہوئے ہیں۔اس جائزے کی طرف ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی تھی ۔آپ کے ارشاد کی تعمیل میں قدرے تفصیل سے اس پہلو کو مدِّ نظر رکھ کر روحانی خزائن کا جائزہ لیا تو قلم کے فرمانروا کا انداز یہاں بھی منفرد نظر آیا۔

اسماء کے مذکر یا مؤنث استعمال کی سند کے طور پر اساتذہ کے کلام سے مثالیں دی جاتی ہیں۔مگر سلطان القلم کا اپنا انداز ہے۔چند مثالیں پیش ہیں۔

٭…تکرار

لفظ ‘تکرار’ آپ نے مذکر مونث دونوں طرح استعمال فرمایا ہے۔مثلاََ

‘‘ایک اور جگہ بھی قرآن شریف میں یہ آیت آئی ہےاور جس قدر تکرار اس آیت کا قرآن شریف میں بکثرت پایا جاتا ہے او ر کسی آیت میں اس قدر تکرار نہیں پایا جاتا’’

(براہین احمدیہ حصہ جہارم، روحانی خرائن جلد 1صفحہ 414حاشیہ نمبر11)

‘‘ان الہامات کی ترتیب بوجہ باربار کی تکرار کے مختلف ہے کیونکہ یہ فقرے وحیء الہی کے کبھی کسی ترتیب سے کبھی کسی ترتیب سے مجھ پر نازل ہوئے ہیں…’’

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ72حاشیہ)

٭…فکر

لفظ ‘فکر ’دونوں طرح موجود ہے

‘‘سیٹھ صاحب موصوف اول درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اس لئے ان کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تردد ہوا…’’

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 338)

‘‘نا اہل لوگ طرح طرح کے منصوبے اور رنگا رنگ کے بہتان ان کے حق میں باندھتے ہیں اور ان نابود کرنے کی فکر میں گلے رہتے ہیں’’(پرانی تحریریں،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 315)

٭…قلم

لفظ ‘قلم ’آپ نے زیادہ تر مونث استعمال فرمایا ہے

‘‘…ان کے اجرام میں خداکی طاقت ایسے طورپرپیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگرچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے’’ (نسیمِ دعوت،روحانی خزائن جلد 19صفحہ423)

٭…جنگ

لفظ جنگ بھی دونوں طرح آتاہے

‘‘…ہمارے سیدومولیٰ آنحضرت ﷺ نے جبراََ دین کو پھیلانے کے لئے کوئی جنگ نہیں کیا بلکہ کافروں کے بہت سے حملوں پر ایک زمانہ دراز تک صبر کرکے آخر نہایت مجبوری سے محض دفاعی طور پر جنگ شروع کیا گیا تھا…’’(چشمۂ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ396تا397)

جنگِ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا

دل گھٹا جاتا ہے یارب سخت ہے یہ کارزار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ149)

٭…کلام

لفظ کلام آپؑ نے مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال فرمایا ہے

‘‘خدا کی کلام میں کئی جگہ استعارہ ہوتا ہے کئی جگہ مجاز ہوتا ہے’’(سناتن دھرم، روحانی خزائن جلد 19صفحہ473)

‘‘ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض کلمات پیش کرکے یہ کہا جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے’’(اربعین، روحانی خزائن جلد 17صفحہ477)

٭…معراج

‘‘…آنحضرت ﷺ کا معراج تین قسم پر منقسم ہے۔ سیرِمکانی اور سیرِزمانی اور سیرِلامکانی’’

(خطبہ الہامیہ،روحانی خزائن جلد 16صفحہ26)

‘‘آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہو’’

(خطبہ الہامیہ،روحانی خزائن جلد 16صفحہ22)

٭…خواب

خواب بھی مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوا۔

‘‘افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر لوگ امامت حقہ کی ضرورت کونہیں سمجھتے اور ایک سچی خواب آنے سےیا چندالہامی فقروں سے خیال کرلیتے ہیں کہ ہمیں امام الزمان کی حاجت نہیں کیا ہم کچھ کم ہیں؟’’(ضرورۃالامام،روحانی خزائن جلد 13صفحہ474)

‘‘…اُسی رات پیلاطوس کی بیوی نے جو اس ملک کا بادشاہ تھا ایک ہولناک خواب دیکھاتھا…’’

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ348)

شجرِ طیبہ کا شیریں پھل

سلطان القلم کے درختِ وجود کی سرسبز شاخیں اکنافِ عالم میں جہاں جہاں پھیلیں یہ درویش زبان اپنے ساتھ لیتی گئیں۔ اردو کو عالمی زبان بنانے میں ہمارے خلفائے کرام،جامعات احمدیہ، مبلغینِ سلسلہ، جلسہ ہائے سالانہ اور وطن سے ہجرت کرنے والوں نے حصہ لیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی ایم ٹی اے پر اردو کلاسیں پوری دنیا میں ہر عمر کے احباب کے لیے دلچسپی کا سامان تھیں جو غیر محسوس طور پر اردو سے نہ صرف متعارف کراتیں بلکہ کئی اردو بولنے اور سمجھنے والے پیدا کیے۔کلاس میں روسی، چینی، انگریز،افریقی،بنگالی اور دیگر کئی علاقوں سے تعلق رکھنے والے شاگرد ملتِ واحدہ کا تصور پیش کرتے۔

جماعت کے انتظامی امور میں رائج الفاظ و تراکیب نے مبلغین کرام کے ساتھ کل عالم میں سفر کیا اور وہ جہاں جہاں گئے انہیں مقامی زبانوں کا حصہ بنا دیا مثلا ًاجلاس ،جلسہ ، لنگر خانہ، وصیت۔ موصی،حصہ آمد، حصہ جائیداد، صدر صاحب ،قائد صاحب وغیرہ وغیرہ

جامعہ احمدیہ قادیان اور ربوہ میں بیرونی ممالک سے آکر تعلیم پانے والے طلباء کی صورت میں اردو نصاب تعلیم کے کئی شیریں پھل جماعت کو حاصل ہوئے ۔ایک بہت مشہورمثال مکرم ڈاکٹر عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم (امیر و مبلغ انچارج گھانا) تھے۔آپ اردو لکھنے پڑھنے کی اچھی استعداد رکھتے۔ اسی طرح کی کئی اورمثالیںبھی موجود ہیں۔

پاکستان میں احمدیوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا گیا تو ایک در بند ہونے سے کئی در کھلےاوراللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی ممالک میںجامعات قائم ہوئے۔اس وقت برطانیہ،کینیڈا،سیرالیون، گھانا ، انڈونیشیا اور جرمنی کے جامعات کے نصابِ تعلیم میں اردو درس و تدریس شامل ہے۔اس طرح اردو کے بین الاقوامی فروغ کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے۔

انگریزی راج کے ہندوستان میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کو ارود کی خدمت کی توفیق ملی مگر وہ عظیم کالج انجام کار ایک سکڑنے والا ادارہ ثابت ہوا ۔مگر جامعہ احمدیہ(مدرسہ احمدیہ) خدا کے مامور کا لگایا ہوا پودا ہے نہ صرف یہ کہ یہ سرسبز و شاداب رہے گا بلکہ اس کی شاخیں اکنافِ عالم تک محیط ہو جائیںگی اور اس کے شیریں پھل جماعت کے دامن میں گرتے رہیں گے۔ یہ ایک پھیلنے والا دائرہ ہے جس کے اندر سے نئے دائرے نکلتے رہیں گے اورعلم، ثقافت،ادب اور روحانیت کی روشنیاں دنیا میں بکھیرتے رہیں گے (انشاء اللہ)۔

اس مختصر سے جائزے کے بعد حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کے اپنی کتب سے استفادہ کے بارے میں چند تاکیدی ارشادات پیش خدمت ہیں:

‘‘جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا۔اس میں ایک طرح کا کبر پایا جاتا ہے۔’’

(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ365)

‘‘وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غورسے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتااس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہوجاؤاور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاجاؤ’’

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 403)

‘‘سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے۔ کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے’’ (ملفوظات جلد 4صفحہ361)

ہزاروں سال سے مدفون خزانے ہمارے سامنے کھلے ہیں۔ کتب کا حصول کچھ مشکل نہیں رہا ۔یہ کتب جماعت کی مرکزی ویب سائیٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔اسی طرح بہت سی کتب کو با آواز بھی سنا جا سکتا ہے۔ مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ملتے ہیں۔ ضرورت ہمیں صرف پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ برکات کا نزول اس پر مستزاد ہے۔

حضرت مصلحِ موعود ؓ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اورمعار ف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص برکات اور معارف کا نزول ہوتا ہے… تو حضرت صاحب کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور ان کے ذریعے نئے نئے علوم کھلتے ہیں…’’ (ملائکۃ اللہ ،انوارالعلوم جلد 5 صفحہ 560)

آخر پرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے پیغام سے ایک اقتباس درج ہے جو روحانی خزائن کی ہر جلد کے آغاز میں ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں امام مہدی اور مسیحِ محمدی کو ماننے کی توفیق ملی اور ان روحانی خزائن کا ہمیں وارث ٹھہرایا گیا۔ اس لئے ہمیں چاہیےکہ ہم ان بابرکت تحریروں کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارے دل اور ہمارے سینے اور ہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہوجائیں کہ جس کے سامنے دجال کی تمام تاریکیاں کافور ہوجائیں گی۔اللہ کرے کہ ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریروں کے ذریعے سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معاشرہ میں امن و سلامتی کے دئے جلانے والے بن سکیں اور خدا اور اس کے رسول کی محبت اس طرح ہمارے دلوں میں موجزن ہوکہ اس کے طفیل ہم کل عالم میں بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی کی شمعیں فروزاں کرتے چلے جائیں۔اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔’’

(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کے متعلق حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا احباب جماعت کے نام پیغام صفحہ 6)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button