پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

{جنوری2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}

پی ٹی آئی اسپیشل کمیٹی کاالفضل پر پابندی لگانے کا فیصلہ

لاہور 10؍ جنوری 2020ء: روزنامہ ڈان نے اپنی 10؍جنوری 2020ء کی اشاعت میں خبر دی کہ وزیر قانون راجہ محمد بشارت کےزیر صدرات اسپیشل کمیٹی 6نے Lesley Hazletonکی دو کتابوں First Muslim اور After the Prophet نیز مظہر الحق کی کتاب A Short history of Islam کی اشاعت اور تقسیم پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔اسی طرح اس کمیٹی نے روزنامہ الفضل کی اشاعت پر بھی پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ روزنامہ الفضل کی اشاعت ربوہ سے ہوتی تھی جس پر پنجاب حکومت کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی۔ اب اس کی آن لائن اشاعت لندن سے ہو رہی ہے۔پنجاب اسمبلی کی مذکورہ کمیٹی نےاس پر بھی پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مذکورہ کمیٹی روزنامہ الفضل کے توہین رسالت پر مشتمل مواد کا بھی ذکر کر دیتی تا کہ ہر ایک کو پتا چل جاتا کہ یہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا ہے نیز یہ کہ کمیٹی کے زیر نظر توہین رسالت کے مواد کی کیا تعریف ہے۔یقینا ًایسا کرنے سے یہ بات واضح بھی ہو جانی تھی کہ کمیٹی اپنے فیصلہ میں خود مختار ہے یا کسی علماء بورڈ وغیرہ کی مرہونِ منت۔

اسلام آباد اور ملتان بار ایسوسی ایشنز کا مذہبی تعصب

اسلام آباد اور ملتان جنوری 2020ء:ان دونوں شہروں کی بار ایسوسی ایشنز نے ختم نبوت کے مسئلہ پر ایسی قراردادیں پیش کیں کہ جن کی وجہ سے ان کے اپنے ممبران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔

ANIنے 11؍جنوری 2020ء کو درج ذیل رپورٹ شائع کی۔

ملتان بار ایسوسی ایشن نے غیر مسلم وکلاء پر الیکشن میں شمولیت پر پابندی عائد کر دی

پنجاب پاکستان 11؍جنوری ANI:پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ایک تازہ مثال ملتان بار ایسوسی ایشن کی حالیہ قرارداد ہے جس کے تحت غیر مسلم اور احمدی وکلاء کےبار کونسل کے انتخابات میں شمولیت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

“نیادور” نے بھی اس قرارداد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ مذکورہ قرارداد ملتان کی ضلعی بار کونسل کے وکلاء کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں ذکر تھا کہ بار الیکشن میں حصہ لینے والے وکلاء کو اپنا اسلام ثابت کرنے کے لیے حلف نامہ جمع کروانا ہو گا۔

ANIکی رپورٹ میں مزید یہ بھی ذکر تھا کہ پاکستان کو عالمی طور پراقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر اعتراض کا سامنا کرناپڑتا ہے،یہاں اقلیتوں کو تشدد،ماورائے عدالت قتل،اغوا،ریپ،اور زبردستی تبدیلئ مذہب جیسے جرائم کا سامنا رہتا ہے ان واقعات کی وجہ سے یہاں ہندو،عیسائی،سکھ،احمدی اور شیعہ خطہ کی مظلوم ترین اقلیتیں ہیں۔پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حا ل کافی مخدوش ہے یہاں شہریوں اور انتظامیہ کی جانب سے اقلیتوں کے ساتھ مستقل طور پر بدسلوکی اور ناانصافی روا رکھی جاتی ہے۔پاکستانی حکام نے اپنے اقتدار کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ مذہبی،اخلاقی،معاشرتی اور نسلی اقدار کی خلاف ورزیوں کی حمایت کی ہے …حال ہی میں ملتان بار ایسوسی ایشن نے ‘‘تحفظ ناموس رسالت’’ کے نام سے متفقہ طور پر ایک قرارداد پاس کی ہے۔اس کے مطابق غیر مسلم اور احمدی وکلاء بار کے انتخابات میں شامل نہ ہو سکیں گے۔(ANI)

یہ قرارداد ضلعی ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقد کی جانےوالی ختم نبوت کانفرنس میں پیش کی گئی تھی۔اس میں یہ بھی ذکر تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے وکلاء کو اپنا اسلام ثابت کرنے کے لیے حلف نامہ جمع کروانا ہوگا۔اس کانفرنس میں حاضر وکلاء نے ختم نبوت پر ایمان کا حلف بھی دیا۔

اسلام آباد: ضلعی بار ایسوسی ایشن اسلام آباد نے ایک پریس ریلیز شائع کی جس میں اپنے ممبران کے لیے درج ذیل اعلان شائع کیا :

‘‘تمام معزز ممبران اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آج مورخہ 15.01.2020کو اسلام آباد ایسوسی ایشن کی کابینہ کا اجلاس ملک محمد ظفر کھوکھر صدر اسلام آباد ایسوسی ایشن کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ختم نبوت کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ 16.12.19کی جنرل باڈی اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے فیصلے کے مطابق اسلام آباد بار ایسوسی ایشن ترمیمی رولز 2019ءپر عمل درآمد کے لیے تمام معزز ممبران اسلام آباد ایسوسی ایشن سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ مذہب کا اعلامیہ جبکہ مسلمان ممبر ہونے کی صورت میں ختم نبوت پر ایمان کا حلف نامہ 31.01.2020 سے قبل جمع کروائیں۔بصورت دیگر ڈیفالٹر کی ممبر شپ معطل کر کے لسٹ نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دی جائے گی۔’’

اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے اس اقدام پر کچھ معزز ممبران نے احتجاج کیا اسی طرح محترم وکیل مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اس فیصلہ پر عمل کرنے سے واضح طور پر انکار کر دیا چنانچہ چند ہی دنوں بعد ایسوسی ایشن کی انتظامیہ نے مندرجہ بالا نوٹس کالعدم قرار دے دیا۔

ہائی کورٹ آزاد کشمیر بھی جماعت مخالف کیمپ میں

کوٹلی 29؍جنوری 2020ء:اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تحریک ختم نبوت کے مولوی اللہ وسایا کی درخواست پر کچھ عرصہ پہلے احمدیوں کے حوالہ سے170صفحات پر مشتمل ایک نامعقول فیصلہ جاری کیا تھا اسی طرح گذشتہ سال مارچ کے مہینہ میں جسٹس شجاعت علی خان نے بھی قرآن ایکٹ 2011ءپر جو کہ بنیادی طور پر احمدیوں کے متعلق تھا 40صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔یہ فیصلہ جماعت مخالف کٹر مولوی حسن معاویہ کی دائر کردہ رٹ پٹیشن پر جاری کیا تھا۔

اسی کے تسلسل میں تحریک ختم نبوت کی دائر کردہ درخواست پر آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے بھی ایک فیصلہ جاری کیا اس کے متعلق 29؍جنوری 2020ءکو کوٹلی،راوالپنڈی اور لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ “صدائے چنار” میں درج ذیل خبر شائع ہوئی:

“عدالت نے تحریک ختم نبوت کی اپیل پر فیصلہ سنا دیا،آزاد حکومت کو اسمبلی سے قانون سازی کی ہدایت قادیانیوں سمیت غیر مسلموں کا الگ ریکارڈ بنایا جائے: آزاد کشمیر ہائی کورٹ کا حکم۔

ووٹر فہرستیں بھی علیحدہ ، حق نمائندگی بھی الگ تسلیم کیا جائے۔فیصلہ چیف جسٹس اظہر سلیم بابر اور جسٹس شیراز کیانی نے سنایا

2018ء میں مرزائیوں کوغیرمسلم قرار دیا تھا مگر غیر مسلموں کے علیحدہ سیاسی حقوق تسلیم شدہ نہیں تھے،اب عدالتی فیصلہ کے بعد مرزائی مشترکہ سیاسی حقوق سے مستفیذ نہیں ہو سکیں گے۔”

آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاسی جماعتیں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے والے فیصلہ کا کریڈٹ لے رہی ہیں جبکہ مذہبی جماعتیں ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر شادیانے بجا رہی ہیں۔یہ فیصلہ احمدیوں کے انتخابات پر شمولیت کے حوالے سے ایک قد غن ثابت ہو گا۔

یقیناً اس فیصلہ سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ آزاد کشمیر شہریوں کو مذہبی آزادی، آزادی رائے اور سیاسی حقوق کی فراہمی میں مقبوضہ کشمیر سے کس طرح بہتر حالت میں ہے ؟

آزاد کشمیر کامیڈیا،سیاست دان اور مولوی حضرات کشمیر کے مسئلہ پر عالمی برادری کی کنارہ کشی پر تو واویلاکرتے ہیں لیکن سرحد کی اِس پار اپنے شہریوں کے ساتھ جو ہوا ہے اسے دیکھنے سے قاصر ہیں۔

کراچی میں ایک احمدی مخالفت کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور

ماڈل کالونی،کراچی 16؍جنوری 2020ء:9-C بیکری سٹاپ کراچی میں ایک احمدی ملک مبشر احمد کئی سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔مالک مکان بذات خود ایک نیک اور شریف انسان تھے اور اپنے کرایہ دار سے خوش تھے۔ چند دن پہلے جب وہ فوت ہوئے تو مالک مکان کےبیٹے نے جو احمدیوں کے سخت خلاف ہیں ملک مبشر احمد کو مکان چھوڑنے کا نوٹس دے دیا۔مکرم ملک مبشر احمد نے ملحقہ مکان کرایہ پر لے لیا لیکن دیگر اہالیان محلہ کے دباؤ کی وجہ سے یہاں سے بھی مالک مکان نے ان کے ساتھ کرائے کا معاہدہ ختم کر کے پیشگی ادا کی گئی رقم واپس کر دی اور اب ان حالات میں موصوف کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اسی طرح ماڈل کالونی اور گلشن جامی میں جماعت کی مخالفت کی وجہ سے احمدیوں کو کرایہ پر مکان کے حصول میں اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

احمدی کی تدفین روک دی گئی

چک40-RBسانگلہ ہل ضلع ننکانہ4؍جنوری 2020ء:

محمد انور ابن محمد اسماعیل 4؍جنوری 2020ء کو وفات پاگئے۔ان کی تدفین گاؤں کے مشترکہ قبرستان میں ہونا تھی جس کے لیے ایک قبر بھی تیار کی جا چکی تھی۔اس قبرستان میں ان کے والدین بھی مدفون ہیں۔ان کی تدفین کے موقع پر گاؤں کے چند شر پسندوں نے پولیس کو بلا کر احتجاج شروع کر دیا۔پولیس جب موقعہ پر پہنچی تو لوگوں کاایک مجمع موجودتھا۔ چنانچہ پولیس نے یہ معاملہ گاؤں کے نمبر دار کے سپرد کر دیا جس نے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ احمدی کسی اَور جگہ تدفین کر لیں نیز احمدیوں کو قبرستان کی الگ جگہ دینے کا بھی وعدہ کیا۔احمدیوں کو مجبوراً یہ فیصلہ ماننا پڑا۔

عقل اور اخلاقی قدروں سے عاری ہو کر احمدیوں کی مخالفت

پاکستان کے ایک مشہور پروڈیوسرسرمد سلطان کی فلم “زندگی تماشہ ہے” 24؍جنوری 2020ء کو ریلیز ہونی تھی مگر کچھ مذہبی گروہوں کے اس فلم پر اعتراضات کی وجہ سے حکام نے اس کی ریلیز پر پابندی عائد کر کے اس کا معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کر دیا۔

اس دوران اس فلم کے خلاف مخالفین نے من گھڑت اور بے سرو پا الزامات کا پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا۔اسی طرح سوشل میڈیا پر اس فلم کے حوالہ سے جھوٹےالزمات لگائے گئے کہ یہ فلم ‘‘قادیانی ملحد’’ نے بنائی ہے۔اسی طرح اس فلم کو لے کر درج ذیل الزامات بھی لگائے گئے :

٭…قادیانی ملحد اس فلم کو پروموٹ کر رہے ہیں۔

٭…اس فلم میں اسلام،مساجد اور مدرسوں کو شدت پسند ی کی طرف منصوب کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس میں ایک محفل نعت کی تضحیک کی گئی ہے ۔

٭…اس فلم کے ہر سین میں قادیانی ملحدین کے عقائد کا پرچار کیا گیا ہے۔

٭…ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور پیمرا اس فلم پر پابندی عائد کرے۔

٭…امت مسلمہ سے غیرت کا تقاضا ہے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیا جائے۔

مذکورہ بالا بیانات کا حقیقت سے کس حد تک تعلق ہے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ “قادیانیوں ’’ کی طرف منسوب الزامات من گھڑت اور حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔

احمدیہ مسجد کو درپیش خطرات

چندر کے منگولے ضلع نارووال جنوری 2020ء:اس جماعت میں موجود مخالفین احمدیت نے احمدیہ مسجد کے خلاف درخواست دائر کی جس میں ذکر کیا کہ احمدیہ مسجد پر کلمہ لکھا ہوا ہے اسی طرح اس کے مینار بھی ہیں جو کہ غیر قانونی ہیں۔مخالفین کی اس درخواست سے احمدیوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑگئی۔ احمدیوں نے پولیس اور اسپیشل برانچ کے حکام کو بتا یا کہ یہ مسجد 55؍سال پرانی ہے اور مینار وغیر ہ اُس وقت سے ہی موجود ہیں۔ضلعی انتظامیہ نے اس موقع پر مسئلہ کا عقلمندی اور شفافیت سے حل کیا جس سے معاملہ کی سنگینی میں کمی واقع ہو گئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button