ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

انجیل کی ناقابلِ عمل تعلیم

‘‘مَیں ابھی بتاچکا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس کے بالمقابل انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دے وغیرہ وغیرہ۔کیسی قابلِ اعتراض ہے کہ اس کی پردہ پوشی نہیں ہوسکتی ۔اور اس کی تمدنی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بڑے سے بڑا نرم خُو اور تقدس مآب پادری بھی اس تعلیم پر عمل نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی انجیل کی اس تعلیم کا عملی ثبوت لینے کے لیے کسی پادری صاحب کے مُنہ پر طمانچہ مارے ۔تو وہ بجائے اس کے کہ دوسری گال پھیرے۔ پولیس کے پاس دوڑا جاوے گا۔ اور اس کو حکام کے سپرد کرادے گا۔

اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ انجیل معطل پڑی ہے اورقرآن شریف پر عمل ہورہا ہے ۔ ایک مفلس اور نادار بڑھیا بھی جس کے پاس ایک جَو کی روٹی کا ٹکڑا ہے۔ اس ٹکڑے میں سے ایک حصہ دے کر مِمَّارَزَقْنَا ھُمْ میں داخل ہوسکتی ہے۔ لیکن انجیل کی طمانچہ کھاکر گال پھیرنے کی تعلیم میں مقدس سے مقدس پادری بھی شامل نہیں ہوسکتا۔ ع

بہ بیں تفاوتِ راہ از کُجاست تابکجا

انجیل تو اس پہلو میں یہاں تک گری ہوئی ثابت ہوتی ہے کہ اور تو اور خود حضرت مسیح ؑبھی اس پر پورا عمل نہ دکھا سکے۔ اور وہ تعلیم جو خود پیش کی تھی، عملی پہلو میں اُنہوں نے ثابت کردیا کہ وُہ کہنے ہی کے لیے ہے۔ورنہ چاہیے تھا کہ اس سے پیشتر کہ وُہ گرفتار ہوتےخود اپنے آپ کو دشمنوں کے حوالے کردیتے او

دُعائیں مانگنے اور اضطراب ظاہر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی…’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ 438)

٭…اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ شیرازی کے ایک فارسی شعر کا دوسرا مصرع ‘‘بِہْ بِیْن تَفَاوُتِ رَاہ اَزْکُجَاسْت تَابِکُجَا‘‘استعمال کیا ہے یعنی‘‘دیکھ راستہ کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے’’۔پورا شعر درج ذیل ہے۔

صَلَاحِ کَارْکُجَا وَمَنِ خَرَابْ کُجَا

بِبِیْن تَفَاوُتِ رَہْ اَزْکُجَاسْت تَابِہْ کُجَا

کام کی نیکی کہاں ؟اور میں رِندکہاں؟دیکھ !راستہ کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button