سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سیرت المہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک انتخاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ کو سردی بہت لگا کرتی تھی۔ آپؑ اپنی پگڑی کو کمر سے باند ھ لیا کرتے تھے۔ جب آپؑ اندر نہ بیٹھ سکتے تھے تو حضرت اُمّ المومنین کو فرماتے کہ ‘‘ میں اندر نہیں بیٹھ سکتا باہر چلو۔’’ آپؑ اُمّ المومنین سے الگ نہیں بیٹھا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ آپ ؑ کو الہام ہو رہا ہوتا اور حضرت بیوی صاحبہ آپ کے پاس ہوتیں ۔ آپ کو ان سے بہت انس و محبت تھی۔ ایک دن حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا کہ‘‘ دنیا میں رشتے تو بہت ہوتے ہیں مگر میاں بیوی کا رشتہ سب سے بڑا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے ۔ میں آپ کے ساتھ مروں ’’۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1440، صفحہ 251،ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے ۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضورؑ سے عرض کرتی حضور ؑ اس کو مہیا کر دیتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔

میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن مَیں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضور ؑکے پاس جاتے اور کہتے کہ حضور ؑ بھوک لگی ہے ۔ حضور ؑکے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے ۔ حضور ؑ چابی دے دیتے۔ مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتے ، ہم کھانے والی دونوں ہوتی تھیں مگر ہم تین یا چار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضور ؑکو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کروگی۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1446،صفحہ 253،ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے جب پہلا بچہ نصیر احمد پیدا ہونے والا تھا میری طبیعت خراب تھی ۔ مجھے دورہ ہوگیا۔ میں اس وقت بیت الدعا میں تھی۔ خادمہ مجھے دبا رہی تھی۔ حضور علیہ السلام بار بار دریافت فرماتے تھے کہ ‘‘ کیا حال ہے؟’’ حضور ؑ نے مجھے دوا بھی بھیجی تھی۔ حضرت خلیفہ ثانی اس وقت گھر میں نہیں تھے۔ جب آئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ ‘‘ محمود تم کو معلوم نہیں کہ محمودہ بیمار ہے؟ جاؤ دیکھو اور مولوی صاحب (حکیم الامت) کو بلا کر علاج کراؤ ’’ حضرت میاں صاحب پہلے میرے پاس آئے ، حال پوچھا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا کر علاج کرایا۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1452،صفحہ255، ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریربیان کیا کہ بڑے زلزلہ کے بعد جب میں آگرہ سے آئی تھی تو خادمہ اصغری کی والدہ اور دوسری عورتوں نے مجھے بتایا تھا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام میاں محمود یعنی خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعریف فرماتے تھے کہ‘‘ اس نے ایسے گھبراہٹ اور خطرناک وقت پر جو زلزلہ کے خوف سے پیدا ہوگیا تھا اپنی بیوی کو سنبھالے رکھا اور اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔ ایسے نازک وقت پر عورتیں بسا اوقات اپنے بچوں کو بھی بھول جاتی ہیں ۔’’

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1463،صفحہ258، ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے اپنے خاوند رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر حضور ؑ کی خدمت میں ان کی شکایات کیں اور کہا کہ میں اب گھر میں نہیں جاؤں گی۔ وہ ایک دن شاید نہیں گئی تھی۔ حضور ؑنے حافظ صاحب کو جو حضور ؑ کے قدیمی خادم تھے طلب فرما کرسمجھایا تھا کہ‘‘عورتیں کمزور ہوتی ہیں ۔ مردوں کو چاہئے کہ نرمی اختیار کریں ۔ میں ایسی سختی پسند نہیں کرتا’’۔ ان کو سمجھا کر ان کی بیوی کو گھر بھیج دیا تھا۔ حافظ صاحب نے معافی بھی مانگی تھی۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1433،صفحہ 249،ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں آگرہ سے آئی تھی۔ میرے ساتھ ایک ملازمہ تھی۔ میری لڑکی عزیزہ رضیہ بیگم جو کہ ابھی چار سال کی تھی وہ اس کی کھلاوی تھی۔ کچھ باتیں مزاح کی بھی اس کو سکھایا کرتی تھی۔ ایک دن حضور علیہ السلام آنگن میں ٹہل رہے تھے ۔ عزیزہ سلمہا نے چھوٹا سا برقعہ پہنا ہوا تھا۔ وہ حضور کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ۔حضورؑ ٹھہر گئے۔ عزیزہ نے رونی صورت بنا کر کہا۔ اُوں اُوں مجھے جلدی بلا لینا۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ‘‘ تم کہاں چلی ہو؟’’وہ نوکر کی سکھائی ہوئی کہنے لگی کہ میں سُسرال چلی ہوں۔ اس پرحضورؑ خوب ہنسے ۔فرمایا‘‘سُسرال جا کر کیا کروگی؟’’ کہنے لگی ‘‘حلوہ پوری کھاؤں گی۔’’ پھر آنگن میں ایک چکر لگایا پھر آکر حضور ؑ کے قدموں سے چمٹ گئی ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ‘‘سُسرال سے آگئی ہو؟تمہاری ساس کیا کرتی تھیں ؟’’ عزیزہ سلمہا نے کہا کہ روٹی پکاتی تھی۔ تمہارے میاں کیا کرتے تھے؟ کہا کہ روٹی کھاتے تھے ۔ پھر پوچھا ‘‘ تم کیا کھا کر آئی ہو؟’’ کہنے لگی حلو ہ پوری۔ حضور ؑ نے فرمایا‘‘ اس کی ساس اچھی ہے۔ بیٹے کو تو روٹی دیتی ہے مگر بہو کو حلوہ پوری۔’’

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1409،صفحہ 239-238، ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنین اور سب نے مل کر آم کھائے صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاں آگئیں ۔ اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی ۔ کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدس نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1470،صفحہ 261،ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم آگرہ سے تین ماہ کی رخصت لے کر آئے۔ حضور ؑ نے اونچا دالان رہنے کو دیا۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ نماز عصر کے بعد حضو ؑ کی خدمت میں سلام کو جاتی ۔ حضرت اقدس ؑو اُمّ المومنین صاحبہ ام ناصر والے صحن میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔ میں سلام کرکے ایک چھوٹی چارپائی پرجو سامنے پڑی تھی بیٹھ گئی ۔ میں اس وقت زیادہ تر سفید کپڑے ہی پہنتی تھی۔ حضور ؑ نے حضرت امّ المومنین سے دریافت کیاکہ ‘‘کیا یہ ہمیشہ سفید کپڑے ہی پہنتی ہیں؟’’ اماں جان نے مجھ سے پوچھا کہ ‘‘ کیا تم کو رنگین کپڑے پسند نہیں ہیں ؟’’ میں نے عرض کیا کہ ‘‘حضور پسند تو ہیں لیکن کپڑے رنگنے سے ہاتھ خراب ہو جاتے ہیں ۔’’ حضور ؑنے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ‘‘مراد خاتون کیا تم مہندی نہیں لگایا کرتیں ؟’’میں نے عرض کی کہ نہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا ‘‘ کیوں ؟’’ میں نے پھر کہا کہ حضور ؑ ! ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں ۔ فرمایا کہ ‘‘ مہندی لگانا سنت ہے ۔ عورتوں کو ہاتھ سفید نہیں رکھنے چاہئیں ۔’’ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب مرحوم جو لاہور کچھ سامان لینے گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ اس سامان میں کچھ کپڑا اور بڑا پُڑا مہندی کا بھی تھا۔ آپ ؑ نے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ ‘‘ گھر میں مہندی ہے؟’’ انہوں نے بتایا کہ ‘‘ مہندی گھر میں ہے’’ آپؑ نے فرمایا کہ ‘‘یہ مہندی اور ایک قمیض کا کپڑا مرادخاتون کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ مہندی لگایا کرے۔’’ وہ کپڑا ریشمی موتیا رنگ کا تھا۔ اس دن سے میں عموماً مہندی لگاتی ہوں اور رنگین کپڑا بھی پہنتی ہوں۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1402،صفحہ 236-235،ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت (قوم خانہ بدوش ) آلے بھولے یعنی مٹی کے کھلونے بیچنے والی آئی اس نے آواز دی۔‘‘لَونی آلے بھولے’’۔ گرمی کا موسم تھا۔ حضور علیہ السلام اور اما ں جان ان دنوں دن کو مکان کے نیچے کے حصہ میں رہتے تھے۔ حضور ؑ کھانا کھا کر ٹہل رہے تھے کہ اس عورت نے آواز دی۔ ‘‘ لَو نی آلے بھولے’’ ابھی میںنے جواب نہیں دیا تھا کہ وہ پھر بولی کہ میں سخت بھوکی ہوں مجھے روٹی دو۔ صفیہ کی اماں جو حضور کی خادمہ تھی اس وقت کھانا کھلایا کرتی تھی۔ انہوں نے دو روٹیاں سلطانو کو دیں کہ ان پر دال ڈال کر اس کو دے دو۔ سلطانی مغلانی بھی حضور علیہ السلام کے گھر میں آنکھوں سے معذور اور غریب ہونے کی وجہ سے رہتی تھی۔ اس نے جب دال ڈال کر اس سائلہ کو دی تو اس عورت نے جلدی سے ٹوکرا زمین پر رکھ کر روٹی ہاتھ میں لی اور جلدی سے ہی ایک بڑا لقمہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالنے کے لیے منہ اوپر کیا اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اونچا کیا۔ مکان کی پکی عمارت اس کو نظر آئی تو لقمہ اس کے ہاتھ میں تھا اور سخت بھوکی منہ اوپر کو کیے ہوئے اس نے پوچھاکہ ‘‘ یہ کس کا گھر ہے کہیں عیسائیوں کا تو نہیں ’’۔ سلطانو نے کہا کہ ‘‘تو کون ہے؟ ’’ اس نے کہا کہ ‘‘ میں مسلمان امت رسول دی۔’’ حضورؑ ٹہلتے ہوئے یہ بات سُن کر کھڑے ہو گئے فرمایا ‘‘ اس کو کہہ دو۔ یہی مسلمانوں کا گھر ہے۔ ’’ پھر تین بار فرمایا کہ‘‘ اس کو کہہ دو کہ یہ خاص مسلمانوں کا گھر ہے۔’’ پھر ایک روپیہ اپنی جیب سے نکال کر اس کو دیا اور اس کے اس فعل سے کہ باوجود سخت بھوک ہونے کے اس نے جب تک تحقیق نہیں کر لی کہ یہ خیرات مسلمانوں کی ہے اس کو نہیں کھایا۔آپ بہت خوش ہوئے۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1476،صفحہ 263،ایڈیشن 2008ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ علیہ السلام کی طبیعت میں کسی قدر مذاق بھی تھا ۔ ایک دفعہ آپ ؑ نے ایک لڑکی کو اخروٹ توڑنے کے لیے دیے اور فرمایا کہ جتنے اخروٹ ہیں اتنی ہی گریاں لیں گے ۔ ایک عورت نے کہا کہ حضور ؑ اخروٹوں میں سے گریاں بہت نکلتی ہیں تو حضورؑ مسکرائے۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1421،صفحہ 244،ایڈیشن 2008ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button