خلاصہ خطبہ جمعہ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظیم الشان پیشگوئی ’مصلح موعود‘ سے متعلق چند پہلوؤں کا بیان

محترمہ مریم الیزبتھ صاحبہ اہلیہ مکرم ملک عمر علی کھوکھر صاحب رئیس ملتان اور عزیز جاہد فارس احمد (واقفِ نَو) کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 21؍فروری 2020ء کو مسجد بیت الفتوح ، لندن،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ

جماعتِ احمدیہ میں20؍فروری کا دن پیش گوئی مصلح موعودکے حوالے سے خاص طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ یومِ مصلح موعود حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی پیدائش کی یاد میں نہیں منایا جاتابلکہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے والی ایک پیش گوئی کے پورا ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کل 20؍فروری تھی اور اس پیش گوئی کو 134سال ہوگئے اور سَو سال سے زائد عرصے سے یہ چمکتا ہوا نشان ہے۔ اس حوالے سے جماعتوں میں جلسے بھی ہوتے ہیں جن میں اس پیش گوئی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے ایک جلسے یا ایک خطبے میں اس کا پورا احاطہ نہیں ہوسکتا۔اس لیے مَیں نے سوچا کہ وہ نِکات جن کی تفصیلات حضرت مصلح موعودؓ نے خود بیان کی ہیں، اورجن کے پڑھنے اور سننے کا اپنا ہی لطف اور احساس ہوتا ہے؛ان میں سے بعض حوالے بیان کردوں۔

اس کے بعد حضورِ انور نےحضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں پیش گوئی مصلح موعودؓ اور اُس کی کچھ تفاصیل بیان فرمائیں۔حضرت مصلح موعودؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی چلّہ کشی اور نشان کے ظہور کا ذکر کرتے ہوئے ہوشیار پور میں خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ آج سے اٹھاون برس پہلے 20؍فروری کے دن 1886ء میں اس شہر ہوشیاپور کے اس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ، یہ مکان اس وقت طویلہ کہلاتا تھا۔ قادیان کا ایک گُم نام شخص ،اسلام اور بانئ اسلام کی مخالفت کو دیکھ کر اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اس کی نصرت اور تائید کا نشان طلب کرنے کے لیے چلا آیا۔ چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اسے خاص صفات سے متصف ایک بیٹے کی بشارت دی۔ جس کے ذریعے وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ جب یہ اشتہار شائع ہوا تو مخالفین نے اعتراض کردیا کہ یہ کیا نشان ہوا، کوئی بھی اعلان کرسکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا۔اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے آپؑ نے 22؍ مارچ 1886ءکو ایک اشتہار شائع فرمایا کہ یہ صرف پیش گوئی نہیں، بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہےجس کو خدائے کریم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت کے اظہارکے لیے ظاہر فرمایا۔ اگر آپؑ محض ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دیتے تو یہ خبر اپنی ذات میں پیش گوئی ہوتی کیونکہ دنیا میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ پھر آپؑ نے پچاس سال کی عمر میں یہ اعلان فرمایا۔ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جن کے ہاں پچاس سال کےبعد اولاد نہیں ہوتی۔ پھر ہزاروں لوگ ہیں جن کے ہاں صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں، اسی طرح کئی لوگوں کے ہاں اولاد پیدا ہوکر مر جاتی ہے۔ یہ سارے شبہات اس جگہ موجود تھے۔ آپؑ نے صرف ایک بیٹے کی پیدائش کی پیش گوئی نہیں فرمائی بلکہ ایک عظیم الشان بیٹے کی خبر دی ۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آج دنیا گواہ ہے کہ اس موعود بیٹے نے دنیا کے کناروں تک شہرت پائی، بیرونِ قادیان دنیا کاہر مشن آپ کی سچائی کا ثبوت ہے۔

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعودؑ کی آئندہ نسل سے تین چار سو سال بعد آئے گا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پیش گوئی کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے اُس زمانے میں لیکھرام اور اندرمَن مراد آبادی وغیرہ معاندین نشان نمائی کا تقاضا کر رہے تھے۔ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ آپؑ کو یہ خبر دے کہ ہم آج سے تین سو سال بعد تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گےتو کیادنیا میں ایک بھی شخص ہے جو اس بات کو معقول قرار دے سکے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کسی آدمی کو سخت پیاس لگی ہو اور وہ کسی سے پانی مانگے تو وہ جواب دے کہ ہم نے امریکہ سے اعلیٰ درجے کا شربت منگوایا ہے جو اس سال کے آخر تک آجائے گا۔ پس یہ نشان تو ایسے وقت میں ظاہر ہونا چاہیے تھا کہ جب وہ لوگ زندہ ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور 1889ء میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش ہوئی۔

اس پیش گوئی کی اغراض اور اس کا آپؑ کے فرزند کے حق میں پورا ہونا کیوں ضروری تھا ، اس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

اوّل یہ پیش گوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں۔
دوسرے یہ پیش گوئی اسلام کے شرف اور کلام اللہ کے مرتبے کو ظاہر کرنے کے لیے کی گئی تھی ۔
تیسرے نمبر پر یہ پیش گوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔

چوتھی غرض اس پیش گوئی کی یہ تھی تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔
پانچویں غرض یہ تھی تا لوگ یقین لائیں کہ مَیں تمہارے ساتھ ہوں یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہے۔ چھٹی غرض یہ تھی کہ وہ جو خدا کے وجود ،اس کے دین، اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول ﷺ پر ایمان نہیں لاتے اور انہیں انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہیں ایک کھلی نشانی ملے۔

ساتویں نمبر پر یہ پیش گوئی اس لیے کی گئی تاکہ مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔

پس یہ تمام اغراض ظاہر کرتی ہیں کہ یہ پیش گوئی آپؑ کی اپنی اولاد میں سے تھی جیسا کہ تیرے ہی تخم اور تیری ہی ذریت و نسل کے الفاظ سے علم ہوتا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے 1944ء میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کرمصلح موعود ہونے کا اعلان کیا اور فرمایا کہ جو شخص سمجھتا ہے کہ مَیں نے افترا سے کام لیا ہے وہ مجھ سے مباہلہ کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پیش گوئی کو جس کا ایک لمبے عرصے سے انتظار کیا جارہا تھا میرے ذریعے پورا کردیا ہے۔ بھلا کس میں طاقت تھی کہ وہ 1886ء میں آج سے اٹھاون برس قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا۔ کہ ا س کےہاں نو سال کے عرصے میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ یہ خبر دنیا کا کوئی نسان اپنے پا س سے نہیں دے سکتا۔ خدا تعالیٰ نے اس خبر کو اُس انسان کے ذریعے پورا کیا جس کے بارے میں ڈاکٹر امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ بھی رہے گا۔ دراصل شروع میں حضرت مصلح موعودؓ کی صحت کی جو حالت تھی اس کے مطابق ڈاکٹرز آپؓ کی زندگی اور لمبی عمر کے لیے فکرمندی کا اظہار کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان عظیم پیش گوئیوں کے مطابق آپؓ کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اپنے خاص فضل سے اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت بنا دیا۔ رسمی علوم حاصل نہ کرنے کے باوجود آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر ا س دنیا کے پردے پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن سکھایا گیا ہے تو مَیں ہر وقت اس سے مقابلے کے لیے تیار ہوں۔ اس زمانے میں خدا نے دنیا کو قرآن سکھانے کے لیے مجھے استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نےمجھے اس غرض کے لیے کھڑا کیا ہے کہ مَیں محمدﷺ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ کوئی معمولی اعلان نہیں تھا ،پھر آپؓ کےباون سالہ دورِ خلافت کا ہر دن اسی شان کوظاہر کر رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کام کرنے والے ہوں صرف جلسہ مصلح موعود منانے والے ہی نہ ہوں۔

اس کے بعد حضورِانور نے عُلومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے کی ایک جھلک کے طور پر حضرت مصلح موعودؓ کے علمی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اردو خوان طبقے کو ‘انوار العلوم’ کے مطالعے کی طرف متوجہ فرمایا۔ اس وقت تک انوار العلوم کی چھبیس جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں چھ سو ستر کتب،لیکچرز اور تقاریر آچکی ہیں۔ خطباتِ محمود کی اس وقت تک انتالیس جلدیں چھپ چکی ہیں۔ ان جلدوں میں 2367خطبات شامل ہیں۔ تفسیرِ صغیر کے دس سواکہتر صفحات ہیں جبکہ تفسیرِ کبیر کی دس جلدوں کے صفحات پانچ ہزار نو سوسات ہیں۔ غیر مطبوعہ دروس القرآن اس کے علاوہ ہیں ۔ حضورِ انور نے حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ کا ایک اقتباس پیش کرکے تفسیرِ کبیر کی تاثیر اور اعجاز پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح حضورِانور نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے علمی کارناموں کا ایک اچٹتا ہوا جائزہ بھی پیش فرمایا۔

خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
پہلا جنازہ محترمہ مریم الیزبتھ صاحبہ زوجہ مکرم ملک عمر علی کھوکھر صاحب رئیس و سابق امیر ملتان کا تھا۔ مرحومہ لفٹ کے ایک حادثے میں چھیاسی برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے 1952ء میں بیعت کی تھی۔ مرحومہ کے ایک بیٹے طارق علی اور ایک بیٹی طاہرہ صاحبہ ہیں۔

دوسرا جنازہ عزیزم جاہد فارس احمد کا تھا جو بارہ برس کی عمر میں جنریٹر میں آگ لگنے سے زخمی ہوگئے تھے اور بعد میں انفیکشن بڑھ جانے سے وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ طارق نوری اور عطیة العزیز خدیجہ کے بیٹے تھے۔ ان کے نانا فاروق احمد خان ہیں جو حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ کے سب سے بڑے پوتے ہیں۔عزیزم وقفِ نو کی تحریک میں شامل اورخلافت سے گہری محبت رکھنے والے تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطافرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button