حضرت مصلح موعود ؓ

عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے (قسط نمبر3)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

اب مَیں بعض موٹے موٹے مسائل بیان کرتا ہوں جن کا یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔

خدا کو ایک سمجھنا

اسلام کا سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اس عقیدہ کو پھیلانے کے لیے آنحضرتﷺ کو بڑی بڑی تکالیف اٹھانی پڑیں۔ مکہ والوں کا ذریعہ معاش چونکہ بت ہی تھے اور انہیں پران کی گزران تھی اس لیے بتوں کو چھوڑنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ جب آنحضرتﷺ نے بتوں کے خلاف سمجھانا چاہا تو انہوں نے ایک مجلس کی اور ایک آدمی مقرر کیا جو آنحضرتﷺ کو جا کر کہے کہ آپ اس بات سے باز آجائیں۔ چنانچہ وہ شخص آپ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو ہم بہت سا مال لا کر آپ کے سامنے ڈھیر کردیتے ہیں۔ اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو حاکم ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اگر آپؐ یہ چاہتے ہیں کہ میری بات مانی جائے تو آئندہ ہم آپ کے مشورہ کے بغیر کوئی بات نہیں کریں گے اور اگر آپ کو کوئی بیماری ہوگئی ہے تو ہم اس کا علاج کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن آپ بتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دیں۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں لا کر رکھ دو تو بھی میں یہ کہنا نہیں چھوڑوں گا کہ خدا ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں(سیرت ابن ہشام عربی جلد 1صفحہ 284، 285 مطبوعہ مصر 1936ء)تو یہ ایک ایسا اہم عقیدہ ہے کہ جس کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور گناہ تو معاف کر دوں گا مگر شرک نہیں معاف کروں گا۔(النساء:49)آج کل یہ بہت پھیلا ہوا ہے اور مسلمانوں میں گو بتوں کی پرستش نہیں پائی جاتی مگر ان کی بجائے قبروں کو پوجا جاتا ہے۔ پھر عورتوں کا اپنے خاوند ، عزیز، رشتہ داروں کے متعلق یہ کہنا کہ جو ان کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے شرک ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہ اگر یہ بات پوری ہوگئی تو فلاں پیر کی نیاز دی جائے گی شرک ہے۔ اور بھی کئی قسم کے شرک ہیں جن میں آج کل عورتیں خاص طور پر مبتلا ءہیں۔ حالانکہ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ پس عورتوں کے لیے ایک سب سے ضروری عقیدہ یہ ہے کہ وہ خدا کو ایک سمجھیں اور نہ کسی کو اس کی صفات میں نہ افعال میں نہ اسماء میں شریک قرار دیں۔

فرشتوں پر ایمان لانا

دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ فرشتوں پر یقین رکھیں کہ وہ خدا کی ایک مخلوق ہے جو انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکیں کرتی ہے اور ان پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی دل میں نیک تحریک ہو تو فوراً اس پر عمل کیا جائے تاکہ اور تحریک کے لیے جگہ خالی ہو۔

قرآن کو خدا کی کتاب سمجھنا اور سب رسولوں پر ایمان لانا

تیسرا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے سوا اور بھی کتابیں نازل ہوتی تھیں۔ چوتھے یہ کہ سارے رسولوں پر ایمان ہو کہ وہ سچے ہیں۔

بعث بعد الموت

پانچویں یہ کہ مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا اور حساب و کتاب ہوگا۔ ان عقائد کو نہ ماننے سے کوئی مرد و عورت مسلمان نہیں کہلا سکتا اس لیے ان پر ایمان رکھنا بہت ضروری ہے یہ تو ہوئے عقائد اب میں اعمال کا ذکر کرتا ہوں جو اسلام نے ضروری قرار دیئے ہیں۔

نماز پڑھنا

اول نماز ہے۔ جس کا ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ مگر اس میں نہایت سستی کی جاتی ہے اور خاص کر عورتیں بہت سست نظر آتی ہیں جو کئی قسم کے عذر پیش کیا کرتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں بچہ والی جو ہوئی کپڑے کس طرح پاک رکھوں کہ نماز پڑھوں۔ لیکن کیا کپڑے پاک رکھنا کوئی ایسی مشکل بات ہے جو ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسی تو نہیں ہے۔ اگر احتیاط کی جائے تو کپڑے پاک رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر احتیاط نہیں کی جاسکتی تو کیا یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک جوڑا ایسا بنا لیا جائے جو صرف نماز پڑھنے کے وقت پہن لیا جائے اور اگر کوئی عورت ایسی ہی غریب ہے کہ دوسرا جوڑا نہیں بنا سکتی تو اسے بھی نماز معاف نہیں وہ پلید کپڑوں میں ہی پڑھ لے۔ اول تو انسانیت چاہتی ہے کہ انسان پاک و صاف رہے اس لیے اگر کپڑا ناپاک ہوجائے تو اسے صاف کرلینا چاہیے لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ کوئی ایسی صورت ہے جس میں صاف نہیں کیا جاسکتاتو بھی نماز نہیں چھوٹ سکتی۔ مگر بہت کم عورتیں ہیں جو پڑھتی ہیں، اور جو پڑھتی ہیں وہ بھی عجیب طرح پڑھتی ہیں۔ کھڑے ہوتے ہی رکوع میں چلی جاتی ہیں اور کھڑے ہوئے بغیر ہی بیٹھ جاتی ہیں۔ ابھی بیٹھنے بھی نہیں پاتیں کہ سجدہ میں چلی جاتی ہیں اور اس جلدی سے ایسا کرتی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا پڑھتی ہوں گی۔ ایسی عورتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہنسی کے طور پر کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوتی ہیں اور نماز یہ ہے کہ اللہ کے حضور عاجزی اور فروتنی دکھائی جائے اور خدا سےاپنی حاجتوں کے پورا ہونے کی درخواست کی جائے۔ کیا جس سے کچھ مانگنا ہو اس کے سامنے اسی طرح کیا جاتا ہے نہیں بلکہ اس کا تو بڑا ادب اور لحاظ کیا جاتا ہے۔ اس کی منت ، خوشامد کی جاتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خدا کے حضور کھڑی تو کچھ مانگنے کے لیے ہوتی ہیں لیکن ان کی حرکات میں ادب نہیں ہوتا۔ ان کے دل میں خوف نہیں پیدا ہوتا وہ عاجزی اور فروتنی نہیں دکھاتیں بلکہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ ان کا محتاج ہے۔ حالانکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ ہم سب اس کے محتاج ہیں۔ اس لیے ہمیں خاص طور پر ادب کرنا چاہیے اس کے خوف کو دل میں جگہ دینی چاہیے اور نہایت عاجزی اور خاکساری سے اس کے آگے عرض کرنی چاہیے۔ کئی ایک مرد ایسے ہیں جو ایسا نہیں کرتے لیکن عورتیں تو کثرت سے ایسی ہیں جو نماز کو ایک مصیبت سمجھتی اور جتنی جلدی ہوسکے گلے سے اتارنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ نماز انہیں کے فائدے کے لیے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کو کوئی فائدہ ہے۔ پس نماز نہایت عمدگی کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔

زکوٰۃ دینا

اس کے علاوہ دوسرا حکم زکوٰۃ کا ہے کہ اگر کسی کے پاس 52تولے چاندی یا 40 روپے سال بھر تک جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوٰۃ دے جو مسکینوں ، یتیموں اور غریبوں کے لیے دینا ضروری ہے اور جہاں نماز کے ذریعہ خدا کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہاں زکوٰۃ کے حکم سے بندوں کا حق ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ خدا تعالیٰ خود بھی براہ راست اپنے بندوں کو سب کچھ دے سکتا تھا۔ لیکن اس نے آپ دینے کی بجائے بندوں کے ذریعہ دینا چاہا ہے تاکہ دینے والے بھی ثواب اور اجر کے مستحق ہوں۔

روزہ رکھنا

تیسرا حکم روزہ کا ہے۔ ہمارے ملک میں بعض مرد اور عورتیں نماز نہیں پڑھتے۔ مگر روزے رکھتے ہیں۔ یہ بھی ضروری حکم ہے اور اس میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔

حج کرنا

چوتھا حکم حج کا ہے اگر سفر کرنے کے لیے مال ہو، راستہ میں کوئی خطرہ نہ ہو بال بچوں کی نگرانی اور حفاظت کا سامان ہوسکتا ہو تو زندگی میں ایک دفعہ حج کرنے کا حکم ہے۔

خدمات دین

یہ بڑے بڑے حکم ہیں جو ہر مومن مرد اور عورت کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سی دینی خدمتیں ہیں جو کی جاسکتی ہیں اور میں نے بتایا ہے کہ آنحضرتﷺ کے وقت اور آپؐ کے بعد مسلمان عورتوں نے بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں۔ حتیٰ کہ اسلام کے لیے جانیں دے دی ہیں اور جس طرح اس وقت اسلام پر مشکلات اور مصائب کے دن تھے اسی طرح اب بھی ہیں۔ اس لیے اس وقت بھی اسی قسم کی خدمتیں کرنے والی عورتوں کی ضرورت ہے۔

یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جس طرح رسول کریمﷺ کے وقت دنیا کی اصلاح کے لیے آپ کو کھڑا کیا گیا تھا۔ اسی طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو کھڑا کیا گیا ہے۔ اس وقت اسلام کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ خود مسلمان کہلانے والے اس پر حملے کرانے کے موجب ہورہے تھے۔

حضرت عیسیٰؑ وفات پاچکے ہیں

چنانچہ وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر بیٹھے ہیں اور کسی وقت زمین پر آئیں گے۔ اس عقیدہ سے اسلام پر کئی ایک اعتراض پڑتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن کریم جھوٹا ہوتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ وفات پاچکے ہیں۔ دوسرے اس وجہ سے بہت سے مسلمان عیسائی ہوگئے ہیں۔ کیونکہ جب پادریوں نے ان کے سامنے یہ بات پیش کی کہ دیکھو حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر ہیں اور تم بھی اس کو مانتے ہو لیکن تمہارا رسول وفات پاچکا ہے اور زمین میں دفن ہے۔ اب تم خود ہی بتاؤ کہ کس کا درجہ اعلیٰ ہوا اور یہ تو تم مانتے ہی ہو کہ تمہارے رسول کا درجہ سب رسولوں سے بڑا ہے اور جب اس سے بھی حضرت عیسیٰ ؑ کا درجہ اعلیٰ ہوا تو معلوم ہوا وہ خدا ہے۔ اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکتے اور اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہوجاتے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ وہ تو کبھی کے وفات پاچکے ہیں۔

حضرت عیسیٰ ؑ کے آنے سے مراد

مسلمانوں کو اس سے غلطی لگی ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی تھی۔ عیسیٰ آئیں گے۔ اس سے انہوں نے ان ہی پہلے عیسیٰ کا آنا سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اس عیسیٰ سے آنحضرتﷺ کی مراد انہیں کی صفات رکھنے والے انسان کے آنے کی تھی۔ چونکہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں مسلمان یہود ہوجائیں گے۔(بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبیﷺ لتتبعن سنن من قبلکم) اس لیے جس طرح پہلے یہودیوں کی اصلاح کے لیے حضرت عیسیٰؑ آئے تھے اسی طرح ان کی اصلاح کے لیے جس انسان نے آنا تھا اس کو بھی عیسیٰ کہا گیا۔ ورنہ پہلے عیسیٰ کہاں آسکتے تھے وہ تو وفات پاچکے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے۔

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران:145)

کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے جتنے رسول تھے وہ وفات پاچکے ہیں۔ اب یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ رسول نہ تھے بلکہ خدا تھے اس لیے انہوں نے وفات نہیں پائی لیکن یہ کفر ہے کہ ان کو خدا قرار دیا جائے اور اگر رسول تھے اور واقع میں رسول تھے تو وفات بھی پاچکے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ آنحضرتﷺ سے پہلے سارے رسول فوت ہوچکے ہیں تو قرآن کریم حضرت عیسیٰ کو فوت شدہ قرار دے رہا ہے اور جو فوت ہوجائے وہ دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آسکتا کیونکہ یہ خداتعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ ایک مرے ہوئے انسان کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں لائے۔ خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔ اس کو یہ ضرورت نہیں ہے کہ دنیا کی اصلاح کے لیے کسی نئے انسان کو پیدا کرنے کی بجائے ایک مدتوں کے مردہ انسان کو بھیج دے۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی مالدار اور دولت مند انسان اس طرح نہیں کرتا کہ ایک وقت جو کھانا بچ جائے اسے دوسرے وقت کھانے کے لیے رکھ چھوڑے۔ ہاں غریب لوگ ایسا کیا کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کہنا کہ اس نے ضرورت کے لیے وہی حضرت عیسیٰ رکھے ہوئے ہیں جو کئی سو سال ہوئے پیدا کیے گئے تھے۔ اسے کنگال اور مفلس خدا بنانا ہے اور اس کے قادر مطلق ہونے سے انکار کرنا ہے۔ حالانکہ خدا ایک نہیں کئی عیسیٰ پیدا کر سکتا ہے اور جب ضرورت ہو بھیج سکتا ہے۔ پہلے نبی جب فوت ہوتے رہے تو ان کے بعد اور نبی بھیجتا رہا یہ نہیں ہوا کہ انہیں کو دوبارہ زندہ کر کے بھیجتا رہا ہے۔ پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو دوبارہ بھیجے۔ مسلمانوں میں یہ ایک بہت بےہودہ عقیدہ پھیلا ہوا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ کے آنے سے مراد یہ تھی کہ ان کی صفات کا ایک انسان آئے گا اور وہ حضرت مرزا صاحب آئے ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ کی طرح یہودیوں کی اصلاح پر مامور کیے گئے ہیں کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرما دیا ہوا ہے کہ مسلمان یہودی ہوجائیں گے۔

…………باقی آئندہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button