متفرق مضامینیادِ رفتگاں

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ؓ

(مسعود احمد ناصر۔ لاہور)

آپ ؓ قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی بیعت کے لیے تیار ہو گئے

چند دن آپؑ کی صحبت میں گزارے اور بیعت کرنے کے بعد اجازت لے کر واپس آ گئے

بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی دوسری صدی میں قدم رکھنے کےموقع پر پہلی صدی کے آخری خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ مارچ1989ء میں افراد جماعت کو اپنے خاندان کے بزرگوں کے حالات اور ان کے احسانات کو جمع کرنے کی تحریک ان الفاظ میں فرمائی:

‘‘پس اپنے ان بزرگوں کے احسانات کو نہ بھولیں خواہ وہ آج سے سو سال پہلے گزر گئے یا چند دن پہلے گزرے یا چند لمحے پہلے گزرے،خواہ اس صدی میں گزرے یا چودہ سو سال پہلے گزرے۔ وہ سارے قربانی کےگھونگھے جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں بچھاتے رہے جن پر اسلام کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوئیں اوریہ عظیم الشان جزیرے ابھرے وہ لوگ ہماری خاص دعاؤں کے حقدار ہیں۔ ہم محتاج ہیں کہ اُن کے لیے دعائیں کریں اور وہ حقدار ہیںکہ ہم ان کے لیے دعائیں کریں اور اُن کےتصور سے ہم وہ عرفان حاصل کریں جو انکساری کے لیے ضروری ہوا کرتا ہے۔…منکسر بننے کےلیے بھی عرفان کی ضرورت ہے اور اگر آپ اپنے پرانے بزرگوں کو اُن عظمتوںکے وقت یاد رکھیں گے جو آپ کو خدا کے فضل عطا کرتے ہیںتو آپ کوحقیقی انکساری کا ایک عرفان نصیب ہوگا…وہ لوگ جو سب سے پہلے آئےجنہوںنے نیکی کے اطوار سکھائے،جنہوںنےتمہیںقربانیوںکےاسلوب بتائے،جنہوں نے وہ ادائیں سکھائیں جو خدا کی نظر کو محبوب ہوا کرتی ہیں وہ لوگ ہیںجو اس صدی میں داخل ہوتے وقت سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ان کے ذکر کو بھی بلند کریں…

میں اُمید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہوگئے اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یاد رکھیں گے کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیار اور محبت سے اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍مارچ 1989ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 8صفحہ175تا178)

حضر ت مولوی محمد اسماعیلؓ (1835ء تا 1915ء)

خاندانی حالات و پس منظر

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے آباء و اجداد 1750ءغالباً مغلیہ عہدکے خاتمہ کےزمانہ شورش کے دوران بعض نا معلوم وجوہات کی بنا پر موضع طالب پورسےجو ضلع گورداسپور (ہندوستان )اور پٹھان کوٹ کے درمیان واقع ہے نقل مکانی کر کے آئے۔ایک روایت ہے کہ چیچک کی وباکی وجہ سے ہجرت کی ۔اور ایک سینہ بہ سینہ روایت کے مطابق شورش کےزمانہ اور خانہ جنگی کے حالات کے پیش نظر پہلے موجود رشتہ داروں کے بلاوے پر ہجرت کی۔ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب کے پڑدادا جان کی ایک خواب کے مطابق جب پانچوں بیٹوں کو رخصت کرنے لگے تو آبدیدہ ہو کر کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ تم لوگوں میں سے صرف مبارک بادشاہ بن کر واپس آئے گا۔ شروع میں پانچوں بھائی موضع نیواں وینس آف کشمیر جا کر آباد ہو گئے۔بعد ازاں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب کے والد محترم برخوردار وینس صاحب نے اپنے سسرال موضع شیخوپورہ بیداد (موجودہ پاکستان)میں سکونت اختیار کی ۔ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے پڑدادا جان محترم‘‘احمدوینس”صاحب کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں سے نوازا تھا ۔ حضرت مولوی محمد اسماعیلؓ کے دادا جان محترم مبارک وینس صاحب کے دو بھائیوں میں سے ایک جھنگ اور دوسرے بھائی حافظ آبادکے گردو نواح میں جاکر آباد ہو گئے ۔

حضرت مولوی محمد اسماعیلؓ کے والد محترم‘‘برخوردار وینس” اپنے والد‘‘مبارک وینس”صاحب کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کے والد محترم کے ہاں بھی لمبے عرصہ تک اولاد نہ ہوئی تو سخت فکر دامن گیر ہوئی جس وجہ سے بہت دعاؤں اور صدقات سے کام لیا گیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کی پیدائش ہوئی۔بڑھاپے کی اولاد ہونے کی وجہ سے آپ کا نام محمد اسماعیل رکھا گیا ۔ آپ کی تربیت نہایت معزز مذہبی گھرانے میں ہوئی۔اکلوتا ہونے کے باوجود آپ کی شخصیت میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو ا۔آپ بچپن سے ہی نیک اور پاک فطرت کے حامل انسان تھے اور چھوٹی عمر میں ہی اپنے والدین سے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھا اور بعد ازاں حدیث کا دور بھی مکمل کیا۔آپ قرآن کریم اور مسجد سے خاص لگاؤ رکھتے تھے ۔قرآن کریم خوش الحانی اور بلند آواز سے پڑھتے اور کثرت تلاوت کی وجہ سے اکثر حصہ حفظ تھا۔ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے تو سننے والے ہر شخص پر رقت طاری ہو جاتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زیارت اور شرفِ بیعت

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے صاحبزادے حضرت محمدحیات(پٹواری محکمہ انہار)صحابی حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور چودھری بشیر احمد اظہر مرحوم اور دیگر بزرگان جماعت سے سینہ بہ سینہ روایت ہے کہ 1894ء میں سورج اور چاند گرہن کی پیشگوئی رونما ہوئی تو حضرت امام مہدی ؑکی آمد کا تہلکہ مچ گیاجس پر دور دراز سے لوگ استفسار کے لیے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے پاس تشریف لانے لگے۔آپ نے توقف فرمایا اور صبر اور دعا کی تلقین فرمائی۔ازاں بعدگاؤں میں سیدنا امام مہدی ؑکے متعلق خبر پہنچی کہ قادیان میں مرزا غلام احمد نامی شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے۔ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ نے چند دوستوں سے مشورہ کیا اورتصدیق کے لیے بیدادپور سے قادیان کا پیدل سفرطے کیا۔راستہ میں خبر اَور بھی پکی ہوتی گئی۔قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی بیعت کے لیے تیار ہو گئے۔چند دن آپؑ کی صحبت میں گزارے اور بیعت کرنے کے بعد اجازت لے کر واپس آ گئے۔اس دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے امام مہدی کے حق میں فضا ء قائم کر رکھی تھی ممبروں پر، نماز جمعہ کے خطبات میں،ہر چوپال اور ہر دائرہ میں موضوع گفتگو امام مہدی کی آمد ہوتا تھاکہ پیدا ہو چکے ہیں بس دعویٰ فرمانا باقی ہے۔گاؤں میں ایک ہی کمرہ نما مسجد ہوا کرتی تھی اور ایک طرف کنوا ں تھا۔ قادیان سے واپسی کی خبر سن کرلوگ مسجد کے ساتھ ملحق دائرہ میں جمع ہو گئے جہاں پرحضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ نے اعلان قبول احمدیت بڑے واضح اور واشگاف الفاظ میں فرمایاجسے سن کر سب مبہوت ہو گئے اور تقریباًسارا گاؤں زیارتِ مسیح موعود کی برکت اور آپ کے ذاتی کردار اورمضبوط شخصیت کی وجہ سے احمدیت کے سائے تلے آگیا۔فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

(روایت بر زبان حضرت محمد حیات صاحبؓ پٹواری (محکمہ نہر)صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام و دیگر بزرگان جماعت احمدیہ بیداد پورضلع شیخوپورہ)

مبارک بادشاہ

حضرت مولوی محمد اسماعیلؓ کے پڑدادا جان محترم احمد وینس(1725ء تا 1800ء)نے اپنے خاندان سے بچھڑتے وقت ایک خواب دیکھا تھا کہ مبارک بادشاہ بن کر لوٹے گا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے محترم مباک احمد وینس کے پوتے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ آف بیداد پورکے مسیح آخر الزماں کی بیعت سے مشرف ہونے کی صورت میں اسےحرف بحرف پورا فرما دیا ۔اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کے عوض آج ان کی نسلیں احمدیت کے سرسبز باغوں کے روحانی پھلوں سے مستفید ہو رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ جاری رہے۔آمین۔

ایک امتیازی سعادت

حضرت مولوی محمد اسماعیلؓ اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتے تھے۔

حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے اعلان بابت رجسٹر بیعت شائع ہواکہ ہر ایک مقام اور گاؤں کاسربرآوردہ احمدی ممبر اپنے اپنے مقام کے احمدی احباب کی فہرست بنا کر رجسٹربیعت میں درج کرنے کے واسطے بہت جلد قادیان بھیجے۔ لہذا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے فہرست بنا کرقادیان بھیجی جو کہ الحکم نمبر15جلد 6صفحہ 22مورخہ24؍اپریل 1902ءکو شائع ہوئی۔حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے یہ اعلان بذریعہ اخبارات بار بار کروایا گیا ۔ایک اعلان کے الفاظ درج ذیل ہیں:
“ضروری اطلاع”

حضرت اقدس ؑنے تجویز فرمایا ہے کہ بیعت کنندگان کی پوری تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک نیا رجسٹر کھولا جائے ہر ایک احمدی شخص کو تاکید ہے کہ اپنے گردونواح میں ہر جگہ اطلاع کر دے کہ ہر ایک مقام اور گاؤں کا سر برآوردہ احمدی ممبراپنے اپنے مقام کے احمدی ممبروںکی ایک مکمل فہرست بقید نام و ولدیت وذات وتاریخ بیعت و پیشہ و مفصل پتہ سکونت عارضی و اصلی کے بنا کر بہت جلد قادیان ارسال فرماویں اور جہاں جہانتک ہو سکے اس خبر کوشائع کرے۔

(البدر نمبر7،جلد 2،صفحہ56۔6؍مارچ1903ء)

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ نے اس اعلان کے بعد اپنے گاؤں کے احمدی ممبروں کی فہرست بنا کر قادیان ارسال کر دی جو کہ البدر نمبر19 جلد2 صفحہ152 مورخہ29؍مئی1903ء اور البدر نمبر20 جلد2مورخہ5 جون1903ء اور البدرنمبر23جلد2صفحہ184مورخہ26؍جون 1903ء میںبھی شائع شدہ ہے۔

معرکہ آراء تصنیف حقیقۃ الوحی میں ذکرِ خیر

سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے7؍مارچ 1907ء کو روشن نشان کے نام سے اپنی تائید میں قبل از وقت پیشگوئی فرمائی اور وقت کا تعین بھی فرمایا کہ یہ پیشگوئی 31؍مارچ یایکم اپریل 1907ءکومیرے حق میں ظاہر ہو گی اور اس پیشگوئی کو اپنی کتاب حقیقتہ الوحی میں شائع فرمایا ۔چنانچہ پیشگوئی کے مطابق روشن نشان ظاہر ہوااور پوری دنیا میں مختلف جگہوں پر دیکھا گیا اور لوگوں نے اس نشان کی بابت شہادت کے طور پر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں خطوط ارسال فرمائے اور ان خطوط کو حضرت اقدس علیہ السلام نے ازراہ شفقت روشن نشان کے ضمن میں بطور شہادت درج فرمایا ۔نشان نمبر197کے ضمن میں 44 واں نام حضرت محمد اسماعیلؓ صحابی حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ہے ۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ531)

پابندصوم وصلوٰۃ

آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پرفرمایا ہے کہ نماز دین کا ستون ہے ۔حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے ۔پنجوقتہ نماز بلا ناغہ باجماعت ادا کرتے۔اسی طرح نماز تہجداور بعض اوقات اشراق کی نماز پڑھ کر مسجدسے گھرجایا کرتے تھے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جسے تم با جماعت نماز ادا کرنے کا عادی دیکھو اس کے ایمان کی گواہی دے سکتے ہو۔حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے مسجد میں پہلی صف میں بیٹھنے والوں کے لیے خاص دعا کرتے ہیں ۔ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ ہمیشہ احمدیہ مسجد میں تا دم حیات پہلی صف میں تشریف فرما ہوتے۔ہمیشہ احمدیہ مسجدمیں اولین داخلہ والوں میں شمار ہوتے تھے۔80؍سال کی عمر کے باوجود کوئی بیماری قریب نہ آئی اور آخر وقت تک مسجدکی رونق بڑھاتے رہے۔وباللّٰہ التوفیق

سادہ مگر بارعب شخصیت

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ بالکل سادہ غریب پرور طبیعت کے مالک تھے۔نمودونمائش کے لفظ سے گویا بالکل عاری تھے،کبھی بھی فضول مجالس میں تشریف نہ لے جایا کرتے۔ لباس انتہائی صاف ستھرا ، سادہ مگر پر وقار زیب تن فرماتے۔انتہائی سادہ زندگی کے باوجود شخصیت ایسی رعب دار تھی کہ سب بڑے چھوٹے احتراماً جھک جایا کرتے تھے۔حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ گو نا گوں شخصیت کے مالک تھے۔آپ انتہائی مہمان نواز ، صاف گو،با رعب شخصیت کے حامل تھے۔عالم با عمل ہونے کے ناطے ہر کس و ناکس نے آپ کی تربیت سے فیض پایا۔سارا گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض و برکت سے احمدیت کی آغوش میں آگیا۔

نیک اولاد

حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگلے جہان میں فوت شدہ والدین کے ان کے پیچھے چھوڑی ہوئی اولادکی وجہ سے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہاری درجات کی بلندی تمہاری نیک اولاد کی وجہ سے ہو رہی ہے۔

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ نے اپنی اولاد کی نہایت اعلیٰ تربیت کی۔ایک بیٹا اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت محمد حیات (پٹواری محکمہ نہر)کو بھی زیارت حضرت اقدس علیہ السلام سے شرف بار یابی کی سعادت دلوائی۔اس طرح دونوں باپ بیٹا کو صحابی حضرت مسیح موعودؑہونےکاشرف حاصل ہوا۔

محترم چودھری ظہور احمد صاحب سابق صدر جماعت احمدیہ بیداد پور بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے صاحبزادے حضرت محمد حیات صاحبؓ کوخاکسار نے بنفس نفیس دیکھا ہوا ہے ۔ان کے اعلیٰ اخلاق اور سچائی کا پورےگاؤں میں شہرہ ہے۔میرے والد صاحب محترم چودھری بشیر احمد اظہر صاحب مرحوم کی شادی خانہ آبادی اپنی ہی وینس برادری کے ایک گھرانےمیں کروائی ۔میرے ماموںجان چودھری مبارک علی وینس صاحب کاشمار درویشان قادیان میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بقید حیات ہیں۔(اب وفات پاگئے ہیں)۔

ہمدردی خلق

وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ(سورۃالمنافقون:11)

اور خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تمہیں دیا ہے پیشتر اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو وہ کہے اے میرے ربّ!کاش تو نے مجھے تھوڑی سی مدّت تک مہلت دی ہوتی تو میں ضرور صدقات دیتا اور نیکوکاروں میں سے ہو جاتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نویںشرط بیعت میں تحریر فرمایا کہ

عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہےگا اور جہاں تک بس چلتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔

حضرت محمد اسماعیل صاحبؓ چونکہ علاقہ میں واحد پڑھے لکھے انسان تھے۔ اس لیے دور دراز علاقوں سے لوگ اپنے دینی و دنیاوی مسائل کے حل کے لیے تشریف لاتے۔سارا وقت لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ،مختلف معاشی اور معاشرتی مسائل حضرت محمد اسماعیل صاحبؓ بڑی بشاشت قلبی سے حل فرماتے۔اور کوئی سائل خالی نہ لوٹاتے ۔اسی دوران حتی المقدور مہمان نوازی کا شرف بھی کماحقہ پاتے ۔

خاکسار نے متعدد مرتبہ محترم چودھری ظہور احمدصاحب اور محترم بشیر احمد نمبردار و محترم چودھری مبارک احمد نمبردار معززین جماعت احمدیہ بیداد پو ر کو اکثر حضرت مولوی محمداسماعیل صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے سناکہ حضرت محمداسماعیل صاحبؓ کی شخصیت کے متعلق سخت حیران ہیں کہ اُس دَور میں حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریکات کے متعلق آگاہ رہتے تھے جبکہ رابطہ میں رہنا کوئی آسان کام نہ تھااور نہ ہی پیغام رسانی کا کوئی خاص ذریعہ تھامگر اس کے باوجود آپؑ کے ساتھ رابطہ قائم رکھا ۔اس پر جتنا شکرکیا جائے کم ہے ۔آپ کے اسی تعلق اور رابطہ کی وجہ سے ہم آج خدا کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ میں شامل ہیں۔

کتاب ‘‘حاجی محمد ابراہیم”میں ذکرِخیر

محترم پروفیسر محمد خالد گورایہ صاحب (پرنسپل نصرت جہاں اکیڈمی )حضرت محمداسماعیل صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے اپنی کتاب حاجی محمد ابراہیم صاحب (والد محترم پروفیسر صاحب )کے حالات زندگی صفحہ5پر یوں درج فرماتے ہیں کہ “ننھیال کے گاؤں بیداد پور ورکاں میں احمدیت کا پودا حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ہی لگ چکا تھا جب کہ ایک ہی وقت میں سارا گاؤں احمدی ہو گیا تھا ۔ اس گاؤں میں احمدیت کا بیج مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ نے بویا جو کہ پرانے بزرگ صحابہ میں سے ایک تھے ۔ان کے بیٹے چوہدری محمد حیات صاحب (پٹواری محکمہ نہر)بھی صحابی تھے۔اور ان کے پوتے چوہدری احمد حیات صاحب ابّا جان کے دوستوں میں سے تھے۔ ’’

خلافت سے وابستگی اور ثابت قدمی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مومن ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے ہوتے ہیں۔صحابہؓ کی موعودہ صفات کے بارے میں حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ تیرے بعد ایک ایسی امت پیدا کروں گا کہ اگر انہیں پسندیدہ چیز پہنچے گی تو وہ حمد وشکر کریں گے اور اگر کوئی ناپسندیدہ امر پہنچے گا تو وہ احتساب اور صبر سے کام لیں گے اور اس وقت کوئی حلم اور علم نہیں ہو گا ۔انہوں نے کہا تو پھر ان میں یہ دونوں صفات کیسے آجائیں گی فرمایا میں انہیں اپنے حلم اور علم سے عطا کروں گا۔(مسند احمد ۔26265)

اس حدیث کے مصداق حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے پاس جب بھی کوئی پیغامیوں کی طرف سے ٹریکٹ یا کوئی اشتہار یا زبانی لوگوں کی باتیں پہنچتیں تو حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ بڑی نفرت اور حقارت سے اس کا ردّ فرماتے اور ایسے لوگوں کو حقیقت حال سے با خبر رکھنے کی کوشش کرتے۔اس وقت دور دراز علاقوں تک جماعت کا پیغام پہنچنے کا کوئی تیز ترین بندوبست نہ ہوا کرتا تھا اور مولوی محمد علی صاحب کا بدوملہی،نارووال ،سیالکوٹ اور شیخوپورہ،لاہور کے اضلاع میں خاصا اثر و رسوخ ہوا کرتا تھا ۔اور یہ لوگ سادہ لوح افراد جماعت کو گمراہ کرنے کی سر توڑ کوششیں جاری کیے ہوئے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی بیماری میں پیغامیوں نے حضور کی وفات سے پہلے ہی پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ مختلف جماعتوں میں ان پیغامیوں کے نمائندگان نے دورے کرنا شروع کر دیے،ایک نمائندہ بدوملہی اور نارنگ سے ہوتا ہوا حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے ایک قریبی عزیز کو ساتھ لے کر آپ کے پاس بھی آیا۔ان ہر دو افراد کو دیکھ کر اور بھی لوگ اکٹھے ہو گئے نمائندہ صاحب نے ایک لمبی تقریر فرمانے کے بعد لوگوں سے ان کی رائے جاننا چاہی تو سب کی نظریں آپ کی طرف اٹھ گئیں۔حضرت محمد اسماعیل صاحبؓ نے بڑے جوش مگر فراست سے کام لیتے ہوئے کہا کے یہ باتیں قبل از وقت ہیں جب وقت آئے گا تو میں انشاء اللہ اس کا ساتھ دوں گا جس کے ساتھ اللہ جل شانہ ہو گا ۔اس پر نمائندہ صاحب نے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کے رشتہ دار کی طرف دیکھا تو ان کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ میں نے تو آپ کو سارا راستہ یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ مولوی صاحب کے ہوتے ہوئے گاؤں نہ جایا جائے ۔تا ہم وصال کی خبر جب آپ تک پہنچی تو آپ نے اس دن عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں کو ایک لمبا درس دیااور صبرکی تلقین کی اور عوام کو چہ میگوئیاں کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔غالباًخلافت کے قیام کے اگلے روز یہ خبر پہنچی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓخلیفۃ المسیح مقرر ہوگئے ہیں تو اس پرحضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ نے واشگاف الفاظ میں خلافت کی تائید اور حق میں بیان دیا۔اسی طرح ان پر آشوب حالات میں بھی آپ نے ثابت قدمی اور کمال صدق ووفا کا نمونہ دکھاتے ہوئے خلافتِ حقہ اسلامیہ کا ساتھ نبھایا اور اپنے فرزند ارجمند کو بھی اسی وفاداری کا پیکر بنا دیا۔ فالحمد للہ رب العالمین

سانحہ ارتحال

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ کی وفات بروز جمعۃالمبارک دسمبر1915ء میں ہوئی اور آپ کی تدفین مقامی طور پر بیداد پور ضلع لاہور(شیخوپورہ کو1923ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا)میں ہوئی اور جنازہ میں علاوہ احمدیوں کے قریبی دیہات سے بھی لوگ جوق در جوق شامل ہوئے۔آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بیداد پور ضلع لاہور (حال شیخوپورہ)میں ا حمدیت کابیج بویا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو وفا داری کے ساتھ اس کی حفاظت کرنےاور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطافرماتا چلا جائےاور خلافت احمدیہ کے زیرِسایہ ہماری آئندہ نسلیں خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو سمیٹنے والی ہوں۔آمین ثم آمین۔

اے خدا بر تربت او ابرِ رحمت ہا ببار

داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button