حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط نمبر 17)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

تقدير نہ ہونے کا ايک اَور نقصان

پھر يہ کہ اگر تقدير نہ ہوتي تو ساري دنيا شرک ميں مبتلا ہوجاتي۔ وجہ يہ ہے کہ ايسے نبي جو شريعت لاتے ہيں اور اپني جماعتيں قائم کرتے ہيں وہ سارے ايسي حالت ميں آتے کہ ان کے پاس سامان کچھ نہ ہوتے۔ نبي کريم ﷺ نے جب مکہ ميں بتوں کو باطل قرار ديا تو اس وقت آپؐ کے ساتھ کوئي سامان نہ تھے۔ اور مکہ والے جن کا گزارہ ہي بتوں پر تھا چاہتے تھے کہ آپؐ کو مار ديں۔ ان کے مقابلہ کے ليے آپؐ کے پاس نہ فوج تھي نہ طاقت۔ اب اگر سامانوں پر ہي کاميابي منحصر ہوتي تو کفار کو ہوتي اور وہ رسول کريم ﷺ پر غلبہ پا کر آپؐ کو ہلاک کر ديتے اور آپؐ کے ہلاک ہو جانے کا يہ نتيجہ ہوتا کہ دنيا ظلمت اور گمراہي ميں ہي پڑي رہتي۔ اسي طرح حضرت عيسيٰؑ اور حضرت موسيٰؑ کے پاس کوئي سامان نہ تھے۔ اگر صرف تدبير يا تقدير عام ہي ہوتي تو جو نبي آتا وہ مارا جاتا اور انبياؑء کاسلسلہ ہي دنيا ميں  نہ چلتا۔ کيونکہ انبياء کے دشمن طاقت ور ہوتے ہيں۔ ان کے پاس سامان ہوتے ہيں۔ مگر خدا تعاليٰ تقدير خاص کو نازل کر کے ان کي مدد کرتا ہے اور انہيں کاميابي حاصل ہوتي ہے ورنہ وہ زندہ نہ رہ سکتے اور دنيا سے شرک کو نہ مٹاسکتے۔ کوئي کہہ سکتا ہے کہ نبي خدا بناتا ہے يا انسان؟ اگر خدا بناتا ہے تو وہ محمد (ﷺ) جيسے بے سرو سامان انسان کو نہ بناتا۔ قيصر جيسے زبردست بادشاہ کو بنا ديتا؟ پس خدا بجائے کمزوروں کو نبي بنانے کے بڑے بڑے بادشاہوں کو بنا ديتا اور تقدير جاري نہ کرتا۔ ليکن اگر ايسا ہوتا تو خدا تعاليٰ بندوں کا محتاج ہوتا۔ بندے خدا کے محتاج نہ ہوتے کيونکہ وہ کہتے کہ خدا کو ہم نے ہي اپني طاقت سے منوايا ہے ورنہ کون اسے مان سکتا تھا۔ گويا خدا پر ان کا احسان ہوتا۔ پس خداتعاليٰ ايسے ہي لوگوں کو نبوت کے ليے چنتا ہے جو ہر وقت اپنے اوپر خدا تعاليٰ کا احسان اور فضل ہوتا ديکھتے اور اس کے شکر گزار بنتے ہيں۔

کوئي يہ مت خيال کرے کہ حضرت داؤدؑ اور حضرت سليمانؑ جو نبي تھے وہ بادشاہ تھے۔ کيونکہ يہ دونوں نبي نئي جماعتيں تيار کرنے والے نہ تھے۔ ايسے نبي امراء اور بادشاہوں ميں سے ہوسکتے ہيں۔ مگر وہ نبي جو نئے سرے سے دنيا کو قائم کرنے کے ليے آتے ہيں اور جن کے ذريعہ مردہ قوم زندہ کي جاتي ہے وہ صرف غرباء ميں سے ہي ہوتے ہيں۔

تقدير پر ايمان لانے سے روحانيت کے سات درجے طے ہوتے ہيں

اب ميں يہ بتاتا ہوں کہ تقدير پر ايمان لانے کے کيا فائدے ہيں۔

درجہ اول

پہلا فائدہ تو عام تقدير کے ماتحت يہ ہے کہ دنياوي ترقيات حاصل ہوتي ہيں۔ اگر تقدير پر ايمان نہ لايا جاوے تو کوئي کام چل ہي نہيں سکتا۔ کيونکہ تمام کارخانہ عالم اسي بنا پر چل رہا ہے کہ انسان قدرت کے بعض قواعد پر ايمان لے آتا ہے۔ مثلاً يہ کہ آگ جلاتي ہے، پاني بجھاتا ہے، اگر خواص الاشياء پر يقين نہ ہو تو انسان سب کوششيں چھوڑ دے اور سب کارخانہ باطل ہو جائے۔ اور روحانيت ميں يہ فائدہ ہے کہ حق اس سے قائم رہتا اور ايمان حاصل ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح ايک زميندار يہ ديکھ کر کہ گيہوں بونے سے گيہوں ہي پيدا ہوتا ہے بيج ڈالتا ہے۔ اسي طرح جب لو گ شريعت کے احکام پر چلنے کے نيک نتائج ديکھتے ہيں تو ان کو بھي ان پر عمل کرنے کي جرأت اور جوش پيدا ہوتا ہے اور انہيں ايمان حاصل کرنے کي تحريک ہوتي ہے۔ ورنہ جب نبي آتے تو لوگ انہيں دھکے دے کر باہر نکال ديتے اورکہتے کہ جب ان کے ماننے کا کوئي فائدہ نہيں تو انہيں کيوں مانيں؟ محمد رسول اللہ ﷺ کو لوگوں نے کيوں مانا؟ اسي لے کہ انہوں نے ديکھا کہ آپؐ کي تعليم پر عمل کر کے انسان کي روحاني اور اخلاقي حالت کچھ کي کچھ ہو جاتي ہے اور خدا تعاليٰ کي تائيد اور نصرت آپؐ کے ماننے والوں کے شامل حال ہوتي ہے۔ پس ان کے دل ميں بھي تحريک ہوئي کہ ہم بھي اس تقدير سے فائدہ اٹھائيں اور خدا تعاليٰ کے فضل کو اپنے ليے اور اپنے اہل و عيال کے ليے جذب کريں۔

درجہ دوم

پس تقدير عام شرعي کے ماتحت دوسروں کے ليے ايک مثال قائم ہوتي ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کي طرف توجہ کرتے ہيں۔ تب ان کے ليے تقدير خاص جاري ہوتي ہے۔ اور اس کے ماتحت وہ اور بھي زيادہ ترقي کرتے ہيں اور درجہ دوم ميں داخل ہو جاتے ہيں يعني تقدير پر ايمان ان کو مقام صبر اور رضا تک پہنچا ديتا ہے۔ اصل بات يہ ہے کہ اللہ تعاليٰ نے اپنے بندوں کو ابتلاؤں ميں ڈالنے کي سنت رکھي ہوئي ہے۔ جب وہ ايمان لاتے ہيں تو انہيں ابتلاؤں ميں ڈالا جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا يُفۡتَنُوۡنَ ۔ وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَيَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَيَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِيۡنَ۔ (العنکبوت:3۔4)

کيا لوگ خيال کرتےہيں کہ وہ ايمان لائيں اور فتنہ ميں نہ ڈالے جائيں صادق اور کاذب ميں فرق کرنے کے ليے ضروري ہے کہ وہ فتنہ ميں ڈالے جائيں۔ تو جب کوئي ايمان لاتا ہے تو اس کے ليے خدا تعاليٰ کي طرف سے ابتلا مقدر کيے جاتے ہيں جن ميں سے بعض تو اپني کمزوريوں کي وجہ سے ہوتے ہيں اور بعض خدا تعاليٰ کي طرف سے آتے ہيں۔ مثلاً کسي کے ہاں بيٹا پيدا کيا جاتا ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ يہ بيٹا اسي ليے پيدا کيا گيا تھا کہ اس کے ذريعہ ابتلا ميں ڈالا جائے يا اسي طرح کسي کا مکان گر جائے يا دشمن کوئي ضرر پہنچائے۔ اب اگر تدبير ہي تدبير ہے تو پھر کوئي وجہ نہيں کہ انسان مقام صبر پر قائم رہے اور اپنے دشمن کے مقابلہ پر تدبير سے کام نہ لے۔ مقام صبر پر وہ تبھي قائم رہ سکتا ہے جب کہ اسے معلوم ہو کہ ميرا امتحان ليا جا رہا ہے۔ ورنہ اگر تدبير ہي ہوتي تو ايسے موقع پر وہ اَور زيادہ جوش دکھلاتا۔ بہت دفعہ جماعت کے لوگ پوچھتے تھے کہ ہميں اجازت ہو تو مخالفين پر ان کي شرارتوں کي وجہ سے مقدمہ دائر کريں۔ مگر حضرت صاحبؑ يہي کہتے کہ ہميں صبر کرنا چاہيے حالانکہ دشمنوں کي شرارتوں کو روکنے کے ليے مقدمہ کرنا ناجائز نہيں ہے۔ اس کي وجہ يہي ہے کہ بعض دفعہ مومنوں پر ابتلا خدا تعاليٰ کي طرف سے آتے ہيں جن ميں صبر دکھلانے کي ضرورت ہوتي ہے۔ تو مقام رضا اور صبر جو روحانيت کا ايک درجہ ہے وہ ايمان بالتقدير سے ہي پيدا ہوتا ہے کيونکہ اس کے ماتحت انسان سمجھتا ہے کہ مجھ پر يہ ابتلا خدا تعاليٰ کي طرف سے ہے اور اس پر صبر کرتا ہے اور اس کي يہ حالت ہوجاتي ہے کہ جو بات آتي ہے اس کے متعلق کہتا ہے خدا تعاليٰ کي طرف سے ہے اور اچھي ہے اور گو ابتلاؤں کے ايک حصہ ميں اللہ تعاليٰ کے حکم کے ماتحت تدبير سے بھي کام ليتا ہے مگر ايک دوسرے حصہ کے متعلق خالي صبر اور رضا سے کام ليتا ہے اور يہي وہ مقام ہے جس پر پہنچے ہوئے لوگ مصيبت اور تکليف کے وقت حقيقي طور پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرة:157) کہتے ہيں۔

غرض تقدير ہي کي وجہ سے انسان ان مقامات کو حاصل کرتا ہے۔ اگر تقدير نہ ہوتي اور انسان صبر کرتا تو وہ بے ہمتي ہوتي اور اگر رضا ہوتي تو وہ بےغيرتي ہوتي۔ ليکن تقدير پر ايمان لاتے ہوئے جب وہ بعض ابتلاؤں پر جن کو وہ خالص آزمائش کہتا ہے اور صبر کرتا ہے تب اس کا صبر قابل تعريف ہوتا ہے۔ اور بعض ابتلاؤں کو جن کو وہ خالص ايمان خيال کرتا ہے خدا تعاليٰ کے فعل پر رضا کا اظہار کرتا ہے۔ تب اس کي رضا قابل تعريف ٹھہرتي ہے۔ اور بہترين صبر يہي ہے کہ انسان ميں طاقت ہو اور پھر برداشت کرے۔ اگر طاقت ہي نہ ہو تو پھر برداشت کرنا ايسا اعليٰ درجہ صبر کا نہيں ہے اور اسي طرح رضا يہي ہے کہ انسان اس بات کا يقين رکھتے ہوئے کہ يہ خدا تعاليٰ کي طرف سے امتحان ہے اپنے دل ميں بعض ابتلاؤں پر شرح صدر پاوے اور اگر يہ ايمان نہ ہو تو اس کو بے غيرتي کہيں گے۔ اور دونوں ميں امتياز اس طرح ہوتا ہے کہ مقام رضا پر پہنچا ہوا انسان اپنے دوسرے اعمال ميں نہايت چست اور باہمت اور محنتي ہوتا ہے اور اس کا حوصلہ دوسرے لوگوں کي نسبت غيرمعمولي طور پر بڑھا ہوا ہوتا ہے۔

رضا کے لفظ پر مجھے ايک بات ياد آگئي۔ حضرت صاحبؑ کي وفات سے پہلے ايام کا ذکر ہے کہ ملک مبارک علي صاحب تاجر لاہور ہر روز شام کو اس مقام پر آجاتے جہاں حضرت صاحبؑ ٹھہرے ہوئے تھے اور جب حضرت صاحبؑ باہر سير کو جاتے تو وہ اپني بگھي ميں بيٹھ کر ساتھ ہو جاتے تھے۔ مجھے سير کے ليے حضرت صاحبؑ نے ايک گھوڑي منگوا دي ہوئي تھي ميں بھي اس پر سوار ہو کر جايا کرتا تھا اور سواري کي سڑک پر گاڑي کے ساتھ ساتھ گھوڑي دوڑاتا چلا جاتا تھا اور باتيں بھي کرتا جاتا تھا۔ ليکن جس رات حضرت صاحبؑ کي بيماري ميں ترقي ہو کر دوسرے دن آپؑ نے فوت ہونا تھا ميري طبيعت پر کچھ بوجھ سا محسوس ہوتا تھا۔ اس ليے ميں گھوڑي پر سوار نہ ہوا۔ ملک صاحب نے کہا ميري گاڑي ميں ہي آجائيں۔ چنانچہ ميں ان کے ساتھ بيٹھ گيا ليکن بيٹھتے ہي ميرا دل افسردگي کے ايک گہرے گڑھے ميں گر گيا۔ اور يہ مصرع ميري زبان پر جاري ہوگيا کہ  ع

راضي ہيں ہم اسي ميں جس ميں تري رضا ہو

ملک صاحب نے مجھے اپني باتيں سنائيں۔ ميں کسي ايک آدھ بات کا جواب دے ديتا تو پھر اسي خيال ميں مشغول ہو جاتا۔ رات کو ہي حضرت صاحبؑ کي بيماري يک دم ترقي کر گئي اور صبح آپؑ فوت ہوگئے۔ يہ بھي ايک تقدير خاص تھي جس نے مجھے وقت سے پہلے اس ناقابل برداشت صدمہ کے برداشت کرنے کے ليے تيار کر ديا۔

اسي طرح صوفياء کے متعلق لکھا ہے کہ جب ان کو بعض ابتلا آئے اور انہيں پتہ لگ گيا کہ يہ ابتلا خالص آزمائش کے ليے ہيں تو گو لوگوں نے ازالہ کے ليے کوشش کرني چاہي انہوں نے انکار کر ديا اور اسي تکليف کي حالت ميں ہي لطف محسوس کيا۔

اب ميں يہ بتاتا ہوں کہ ابتلا آتے کيوں ہيں؟ اس کے متعلق ياد رکھنا چاہيے کہ اول تو عموماً اس ليے آتے ہيں کہ انسان کا ايمان مضبوط ہو۔ ليکن اس ليے نہيں کہ خدا تعاليٰ کو اس کا علم نہيں ہوتا بلکہ اس ليے کہ خود انسان کو معلوم نہيں ہوتا کہ ميرے ايمان کي کيا حالت ہے۔ چنانچہ ايک حکايت بيان کي جاتي ہے کہ ايک عورت کي لڑکي سخت بيمار تھي۔ وہ روز دعا کرتي تھي کہ اس کي بيماري مجھے لگ جائے اور ميں مر جاؤں۔ ايک رات کو گائے کا منہ ايک تنگ برتن ميں پھنس گيا اور وہ اسے برتن سے نکال نہ سکي۔ اورگھبرا کر اس نے ادھر ادھر دوڑنا شروع کيا۔ اس عورت کي آنکھ کھل گئي اور ايک عجيب قسم کي شکل اپنے سامنے ديکھ کر اس نے سمجھا کہ ملک الموت جان نکالنے کے ليے آيا ہے۔ اس عورت کا نام مہتي تھا بے اختيار ہو کر پکارنے لگي کہ اے ملک الموت ميں مہتي نہيں ہوں۔ ميں تو ايک غريب محنت کش بڑھيا ہوں اور اپني لڑکي کي طرف اشارہ کر کے کہا۔ يہ مہتي ليٹي ہوئي ہے اس کي جان نکال لے۔ يہ عورت خيال کرتي تھي کہ اسے اپني لڑکي سے محبت ہے۔ ليکن جب اس نے سمجھا کہ جان نکالنے والا آيا تو کھل گيا کہ اسے محبت نہ تھي کہ وہ اس کے بدلے جان دے دے۔ يہ تو ايک حکايت ہے ليکن يہ بات کثرت سے پائي جاتي ہے کہ انسان بسا اوقات اپنے خيالات کا بھي اچھي طرح اندازہ نہيں کرسکتا اور جب اس پر ابتلا آتے ہيں تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کسي چيز سے محبت يا نفرت کا دعويٰ کہاں تک صادق تھا۔

اسي طرح ابتلا ميں اس ليے ڈالا جاتا ہے کہ تا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں کا ايمان کيسا ہے ورنہ يوں دوسروں کو کيا معلوم ہوسکتا ہے کہ فلاں کا ايمان پختہ ہے يا نہيں۔ اسي ليے رسول کريم ﷺ نے فرمايا ہے کہ کوئي انسان جتنا بڑا ہو اس پر اتنے ہي بڑے ابتلا آتے ہيں اور سب سے زيادہ ابتلا نبيوں کو آتے ہيں (ترمذي۔ ابواب الزھد باب في الصبر علي البلاء) جيسا کہ حضرت صاحبؑ نے اپنے متعلق فرمايا ہے۔ ؎

کربلائيست سير ہر آنم

صد حسين است درگريبانم

لوگ اعتراض کرتےہيں کہ آپؑ نے حضرت امام حسينؓ کي ہتک کي ہے ليکن نادان نہيں جانتے کہ حضرت صاحبؑ نے اپنے ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا ہے کہ امام حسينؓ تو ايک بار مارے گئے ليکن مجھے دشمن ہر وقت مارنے کے درپے رہتے اور ايذائيں ديتے ہيں اور ميں ہر وقت کربلا کا نظارہ ديکھتا رہتا ہوں۔ سولي پر ايک دفعہ چڑھ کر مرنا اتني بڑي بات نہيں جتني کہ ہر وقت ابتلاؤں ميں پڑے رہنا۔ عيسائي کہتے ہيں کہ يسوع مسيح عليہ السلام چونکہ سولي پر چڑھ کر مرگئے اس ليے ان کو خدا کا بيٹا مان لو۔ ہم کہتے ہيں پھر جو ہر وقت سولي چڑھائے جاتے ہيں ان کو کيا ماننا چاہيے؟ سب انبياء کي يہي حالت ہوتي ہے اور جب ايسا ہوتا ہے تو لوگ ديکھ ليتے ہيں اور ان پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کا بہت ہي پختہ ايمان ہے۔ کہتے ہيں اَلْاِ سْتِقَامَةُ فَوْقَ الْکَرَامَة۔ اور سب سے بڑي کرامت يہ ہے کہ دشمن بھي خوبي کو مان لے اور اس کا انکار نہ کرسکے۔ اب ديکھو دشمنوں نے رسول کريم ﷺ پر بڑ ےبڑے اعتراض کيے ہيں ليکن وہ يہ لکھنے پر بھي مجبور ہوگئے ہيں کہ اور تو جو کچھ تھا مگر محمد(ﷺ)نے اپنے کام کو ايسے طرز اور استقلال سے چلايا کہ جب تک پورا پورا يقين نہ ہوکوئي اس طرح چلا نہيں سکتا اور وہ قطعاً جھوٹا نہ تھا۔ تو جن يورپين مصنفوں نے عقل سے کام ليا اور رسول کريم ﷺ کے واقعات کو ديکھا مان ليا کہ آپؐ نے ايسے استقلال سے کام کيا کہ کوئي جھوٹا انسان اس طرح نہيں کرسکتا۔ تو اس ليے بھي ابتلا آتے ہيں کہ خوبي کا دشمنوں تک کو بھي اعتراف کرنا پڑے۔

پس ايمان کي ترقي اور مضبوطي کے ليے ابتلا آتے ہيں اور بار بار آتے ہيں تا خوب مشق ہو جائے۔ ديکھو ايک لوہار جب لوہے پر ہتھوڑا مارتا ہے تو جو چيز وہ بنانا چاہتا ہے وہ بنتي جاتي ہے۔ ليکن کوئي اَور شخص جسے ہتھوڑا چلانا نہيں آتا وہ ہتھوڑا مارے گا کہيں اور پڑے گا کہيں اور۔ ايک دفعہ جب کہ ميں ابھي بچہ ہي تھا اور مکان بن رہا تھا۔ ميں نے سمجھا تيشہ سے لکڑي گھڑنا آسان بات ہے اور يہ سمجھ کر لکڑي پر تيشہ مارا ليکن اپنا ہاتھ کاٹ ليا۔ تو جس کام کي انسان کو مشق نہ ہو اسے نہيں کرسکتا۔ فوجي سپاہيوں کو کئي کئي ميل دوڑايا جاتا ہے۔ ليکن اس ليے نہيں کہ انہيں دکھ ديا جائے بلکہ اس ليے کہ انہيں دوڑنے کي مشق ہو اور وہ مضبوط ہوں تاکہ اگر کبھي دوڑنے کا موقع پڑے تو وہ دوڑ سکيں۔ تو خدا تعاليٰ انسان کے اخلاق کو اعليٰ اور پختہ بنانے کے ليے مشق کرانے کي غرض سے ابتلاؤں ميں ڈالتا ہے۔ مثلاً جب کوئي گالياں دے تو اس پر صبر کرنا اور آگے سے گالياں نہ دينا ايک صفت ہے۔ ليکن يہ صفت کس طرح پيدا ہوسکتي ہے؟ اس طرح کہ کوئي کسي کو گالي دے اور وہ اس پر صبر کرنا سيکھے ورنہ اگر ايسا نہ ہو تو اس صفت کے اظہار کا موقع ہي نہ آئے۔ اور اگر کبھي موقع آئے تو اس پر پوري طرح انسان کاربند نہ ہوسکے۔ پس اخلاق کي پختگي کے ليے ابتلاؤں کا آنا اور ان کے آنے کے وقت صبر و رضا کي عادت ڈالنا ايمان کي تکميل کے ليے ضروري ہے۔

کوئي کہہ سکتا ہے کہ جس سے گالياں دلائي جائيں گي اس پر جبر ہوگا اور وہ جبر کے ماتحت گالياں دے گا۔ مگر يہ ٹھيک نہيں ہے کيونکہ گالياں کسي نيک اور بزرگ انسان سے نہيں دلائي جاتيں نہ کسي بدآدمي کو گالياں دينے پر مجبور کيا جاتا ہے۔ صرف يہ کيا جاتا ہے کہ نيک آدمي کے متعلق ايسے حالات پيدا کر ديے جاتے ہيں کہ اس کا اور ايک درشت آدمي کا اجتماع ہو جاتا ہے۔ آگے وہ شخص جس طرح اَوروں سے خود معاملہ کرتا ہے اس سے بھي کرتا ہے اس ميں کسي قسم کا جبر نہيں ہوتا۔

(باقي آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button