سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کے خوشبو لگانے کا بیان

“حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے کپڑوں اور بدن میں سے ہمیشہ مشک کی سی بھینی بھینی خوشبو آتی تھی کبھی پسینہ اور میل وغیرہ کی خراب بو نہ محسوس ہوتی تھی۔”

(ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ نمبر 25)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ

“حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگا تے اور کپڑے بدلتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 84)

حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ

“میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن نماز میں سجدہ کیا کرتے تھے وہاں سے کئی کئی دن تک بعد میں خوشبو آتی رہتی تھی۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 327)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں

“آپ اپنے مطاع نبی کریم ﷺ کی طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے۔غسل جمعہ ،حجامت ،حنا ، مسواک، روغن اور خوشبو۔کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دُور تھا۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447)

مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی بواسطہ مولوی عبد الرحمٰن صاحب مبشر بیان کرتے ہیں کہ“میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا۔جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا۔جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے۔نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی۔”

(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1189)

جُوہی کے پھول

“مکرم میاں محمد عبدالرحمٰن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ خالہ جان (حضرت نواب صاحبؓ کی اہلیہ ثانی محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ جن کا اصل نام حمید النساء بیگم تھا۔ناقل)کی … بیماری میں حضرت اقدسؑ نے حضرت مولوی نور الدینؓ کے ذریعہ نواب صاحب سے کہا کہ بڑے باغ میں کھلی ہوا میں جاکر رہنا مفید ہوگا۔باغ والے مکان میں چلے جائیں ۔چنانچہ نواب صاحب خالہ جان کو وہاں لے گئے۔ان دنوں باغ کا انتظام میر ناصر نواب صاحبؓ کے سپرد تھا۔انہوں نے باغ کی حالت بہت عمدہ بنا رکھی تھی۔

حضورؑ نے ان کو کہہ دیا کہ نواب صاحبؓ یہاں آئے ہیں ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں ۔اگر کسی قسم کا نقصان کریں تو اغماض فرمائیں ، وہاں جُوہی کے پھول بھی تھے جو ہر روز حضورؑ کے لیے لے جائے جاتے تھے۔مگر ہم صبح سویرے اُٹھتے ہی توڑ لیا کرتے تھے۔” (اصحابِ احمد جلد دوم صفحہ 197)

آپؑ کے مسواک کرنے کا بیان

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ خلیفۃ المسیح الثانی اپنی ایک ڈائری میں بیان فرماتے ہیں :

“حضرت صاحب مسواک کو بہت پسند فرماتے ہیں اور علاوہ مسواک کے اور مختلف چیزوں سے دن میں کئی دفعہ دانتوں کو صاف کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی۔پس سب کو چاہیئے کہ اس طرف بھی توجہ رکھا کریں ۔”

(ملفوظات جلد نہم صفحہ 201)

مسواک کے فوائد کے بارے میں آپؑ نے فرمایا:

“مسواک کرنے سے منہ کی بد بو دور ہوتی ہے۔دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے۔”

(ملفوظات جلد دوم صفحہ153)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ

“حضرت صاحب مسواک بہت پسند فرماتے تھے۔تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے۔گو التزاماً نہیں ۔وضو کے وقت صرف انگلی سے ہی مسواک کر لیا کرتے تھے۔مسواک کئی دفعہ کہہ کر مجھ سے بھی منگائی ہے۔اور دیگر خادموں سے بھی منگوا لیا کرتے تھے۔اور بعض اوقات نماز اور وضو کے وقت کے علاوہ بھی استعمال کرتے تھے۔”(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 639)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“دندان مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہو گئے تھے یعنی کیڑا بعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی۔چنانچہ ایک دفعہ ایک ڈاڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑ گیا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا۔مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں ۔مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447)

“شریعت اسلام نے جو نہایت درجے پر ان صفائیوں کا تقیّد کیا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدثر:6)یعنی‘‘ہر ایک پلیدی سے جُدا رہ”یہ احکام اِسی لیے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلائوں سے بچاوے۔ عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھواور مسواک کرو۔ خلال کرو۔ اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچائو۔ اور بد بُوؤں سے دور رہو۔ اور مُردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ۔ اِس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اس زمانہ میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا اور وہ لوگ نہ صرف روحانی پہلوکے رو سے خطرناک حالت میں تھےبلکہ جسمانی پہلو کے رو سے بھی ان کی صحت نہایت خطرہ میں تھی۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا ان پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ

کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا(الاعراف : 32)

یعنی بے شک کھاؤپیئومگر کھانے پینے میںبے جا طورپر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو۔ افسوس پادری اس بات کو نہیں جانتے کہ جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گِر کر رُوحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے ۔ مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جوایک ادنیٰ صفائی کے درجہ پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گےاُن میں سے مُردار کی بُو آئے گی۔ آخر دانت خراب ہو جائیں گے اور ان کا زہریلا اثرمعدہ پر گِر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا۔ خود غور کر کے دیکھوکہ جب دانتوں کے اندرکسی بوٹی کا رگ و ریشہ یا کوئی جز پھنسا رہ جاتا ہے اور اسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بدبُو اُس میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی بدبُو آتی ہے جیسا کہ چُوہامرا ہواہوتا ہے۔ پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیا جائے۔ اور یہ تعلیم دی جائےکہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھو نہ خلال کرو اور نہ مسواک کرو اور نہ کبھی غسل کر کے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لیے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے۔ ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لیے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیں ؔجسمانی صحت کے لیے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اُس کے بد نتائج یعنی خطرناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تو اُس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے نکمے ہو جاتے ہیں کہ کوئی خدمت دینی بجا نہیں لا سکتے۔ اور یاچند روز دکھ اٹھا کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کر سکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترکِ قواعدِ حفظان صحت سے اوروں کے لیے وبالِ جان ہو جاتے ہیں اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتے ہیں وبا کی صورت میں مشتعل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے۔ اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری پاکی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے پس دیکھو کہ قرآنی اصولوں کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کر کے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں اور ایسے بے احتیاط لوگ جو نجاستوں سے پرہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور منہ سے دور نہیں کرتے اُن کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوعِ انسان کے لیے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور کیسی یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتیں ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام اس جائیداد سے جو جان کا ہی سے اکٹھی کی تھی دست بردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے مائوں سے جدا کیے جاتے ہیں ۔ کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے؟ ڈاکٹروں سے پوچھواور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لا پروائی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لیے عین موزوں اور مؤید ہے یا نہیں ؟ پس قرآن نے کیا بُرا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا……”

(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد 14 صفحہ333-332)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button