سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

آپؑ کے سونے اور جاگنے کا بیان(حصہ دوم)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :

“مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتا آیا ہوں۔اور سب سے پہلے مَیں نے آپ کو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔جب کہ مَیں بالکل بچہ تھا۔آپ کی عادت تھی۔کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے۔اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔پھر جب صبح کی اذان ہوتی۔تو سُنّتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لئے مسجد میں جاتے اور با جماعت نماز پڑھتے۔نماز کبھی خود کراتے کبھی میاں جان محمد امام مسجد کراتا۔نماز سے آکر تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے۔مَیں نے آپ کو مسجد میں سنت نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔سنت گھر پر پڑھتے تھے…”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر491)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت کی عادت میں دن کے کسی خاص وقت میں قیلولہ کرنا داخل نہ تھا۔آرام صرف کام پر منحصر تھا۔بعض اوقات نصف شب یا اس سے زیادہ یا کبھی کبھی تمام رات ہی تحریر میں گزار دیا کرتے تھے۔صبح کی نماز سے واپس آ کر بھی سو لیا کرتے تھے اور کبھی نہیں بھی سوتے تھے۔سیر کو اکثر سورج نکلے تشریف لے جایا کرتے تھے اور گھر سے نکل کر احمدیہ چوک میں کھڑے ہو جاتے اور جب تک مہمان جمع نہ ہو لیتے کھڑے رہتے اور اس کے بعد روانہ ہوتے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر525)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے کی ممانعت ہے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب عملاً بھی اس حدیث کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔چنانچہ ایک دفعہ غالباً سیالکوٹ میں آپ کی چارپائی ایک بے منڈیر کی چھت پر بچھائی گئی تو آپ نے اصرار کے ساتھ اس کی جگہ کو بدلوا دیا۔اسی طرح کا ایک واقعہ گورداسپور میں بھی ہوا تھا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر820)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اندھیرے میں نہیں سویا کرتے تھے۔بلکہ ہمیشہ رات کو اپنے کمرہ میں لالٹین روشن رکھا کرتے تھے اور تصنیف کے وقت تو دس پندرہ موم بتیاں اکٹھی جلا لیا کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر845)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :

“منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پاؤں دبا رہے تھے۔اور حضرت صاحب کسی قدر سو گئے۔فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے۔میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے تھے۔میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دئیے آپ پھینکیں نہیں ۔میری جیب میں ہی ڈال دیں۔کیونکہ انہوں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے۔وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔پھروہ جیب میں ہی ڈال لئے۔یہ واقعہ میرےسامنے کا ہے۔مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بھی اس کو حضور کی سوانح میں لکھا ہے۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1091)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :

“منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے۔جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئےبیٹھے تھے۔اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے پاس لیٹےتھے۔اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا۔معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا۔میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے۔فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔وہ شرمندہ ہوا۔اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں ۔پھر میں مفتی فضل الرحمٰن صاحب یاکسی اور سے ٹھیک یادنہیں رہا۔لحاف بچھونا مانگ کراوپر گیا۔آپ نے فرمایاکسی اور مہمان کو دے دو۔مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا۔اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو۔پھر میں لے آیا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر1118)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں :

“ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ آپ مولوی کرم دین والے تکلیف دہ فوجداری مقدمہ کے تعلق میں گورداسپور تشریف لے گئے تھے اور وہ سخت گرمی کا موسم تھا اور رات کا وقت تھا آپ کے آرام کیلئے مکان کی کھلی چھت پر چارپائی بچھائی گئی۔جب حضرت مسیح موعودؑ سو نے کی غرض سے چھت پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے۔آپ نے ناراضگی کے لہجہ میں خدّام سے فرمایا:
“کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بے پر دہ اور بے منڈیر کی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔’’

(ابوداؤد کتاب الادب ابواب النوم حدیث نمبر 5041)

(سیرت طیّبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ110،109)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ نے بیان کیا :

“غفار (ملازم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام) کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہوتااور لوٹا اور مصلےٰ اس کے پاس ہوتا۔ان دنوں آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو بہت ہی کم سوتے اور اکثر حصہ جاگتے اور رات بھر نہایت رقت آمیز لہجہ میں گنگناتے رہتے۔”

(بحوالہ شمائل احمد صفحہ44)

آپؑ کے بستر کا بیان

حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں :

“آپؑ کے مزاج میں وہ تواضع اور انکسار اور ہضم نفس ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں زمین پر آپ بیٹھے ہوں اور لوگ فرش پر یا اونچے بیٹھےہوں آپؑ کا قلب مبارک ان باتوں کو محسوس بھی نہیں کرتا۔چار برس کا عرصہ گذرتا ہے کہ آپؑ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے جون کا مہینہ تھا اور اندر مکان نیانیا بنا تھا میں دوپہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا حضرت ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا آپ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے ہیں میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوئے رہوں مسکرا کر فرمایا میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔لڑکے شور کرتے تھے انھیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔”

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓ صفحہ 40)

مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال نے بیان کیا کہ

“جس کمرہ میں آپؑ کی رہائش تھی وہ چھوٹا سا تھا جس میں ایک چار پائی اور ایک تخت پوش تھا۔چار پائی تو آپ ؑ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پو ش پر سوتے تھے…”

(بحوالہ شمائل احمد ؑ از خدام الا حمدیہ صفحہ74)

حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے ؓنے بیان کیا کہ

“گھر کے کام کاج میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت نہایت درجہ سادہ اور تکلفات سے آزاد تھی۔ضرورت کے موقعہ پر نہایت معمولی معمولی کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے اور کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔مثلًا چارپائی یا بکس وغیرہ اٹھا کر اِدھر اُدھر رکھ دینا یا بستر بچھانا یا لپیٹنا …”

(سلسلہ احمدیہ صفحہ204بحوالہ شمائل احمد ؑ از خدام الاحمدیہ صفحہ95)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“…خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے مکان کے چھوٹے صحن میں (یعنی جو والدہ صاحبہ کا موجودہ صحن ہے)ایک لکڑی کے تخت پر تشریف رکھتے تھے غالباً صبح یا شام کا وقت تھا آپ کو کچھ غنودگی ہو ئی تو آپ لیٹ گئے پھر آپ کے ہونٹوں سے کچھ آواز سنی گئی جس کو ہم سمجھ نہیں سکے پھر آپ بیدار ہو ئے تو فرما یا مجھے اس وقت یہ الہام ہوا ہے۔مگر خاکسار کو وہ الہام یاد نہیں رہا …”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر22)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل کو اس کے دیکھنے کے لئے گھر میں بلایااس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا۔مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں ۔مولوی صاحب نے عرض کیا حضورمیں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا۔مگر حضرت صاحب نے دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اُٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر78)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ 1884ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑ ھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تا زہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈاتھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی تھی جالیٹے۔چارپائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کوئی نہ تھا۔حضرت کا سر قبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا۔ایک کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی …”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر100)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب معتدل موسم میں بھی کئی مرتبہ پچھلی رات کو اُٹھ کر اندر کمرہ میں جا کر سو جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی فرماتے تھے کہ ہمیں سردی سے متلی ہونے لگتی ہے۔بعض دفعہ تو اُٹھ کر پہلے کوئی دوا مثلاً مشک وغیرہ کھا لیتےتھے اور پھر لحاف یا رضائی اوڑھ کر اندر جا لیٹتےتھے۔غرض یہ کہ سردی سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور اس کے اثر سے خاص طور پر اپنی حفاظت کرتے تھے۔چنانچہ پچھلی عمرمیں بارہ مہینے گرم کپڑے پہنا کرتے تھے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بالعموم گرمی میں بھی جراب پہنے رکھتے تھے اور سردیوں میں تو دو دو جوڑے اُوپر تلے پہن لیتے تھے مگرگرمیوں میں کرتہ عموماً ململ کا پہنتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر597)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button