خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت عبداللہ (رضی اللہ عنہ)بن عبداللہ بن ابی بن سلول کا ذکرِ خیر

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 15؍نومبر2019ء بمطابق 15؍نبوّت1398 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد ،ٹلفورڈ (سرے) یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

بدری صحابہؓ کے متعلق مَیں نے خطبات کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اس کے متعلق گذشتہ خطبہ جو مَیں نے دیا وہ جرمنی میں تھا اس میں حضرت عبداللہؓ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کا ذکر چل رہا تھا اور اس ضمن میں حضرت عبداللہؓ کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کا ذکر جہاں مَیں نے ختم کیا تھا وہ جنگِ احد کے حوالے سے ہوا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی بات مان کر مدینے سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو عبداللہ بن ابی پہلے تو اپنے ساتھیوں سمیت ساتھ چل پڑا لیکن احد کے دامن میں پہنچ کر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر غدّاری دکھاتے ہوئے مدینے کی طرف یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اور مدینے میں رہ کر دشمن کا دفاع نہیں کیا جو ہم چاہتے تھے اور یہ بھی کہا کہ یہ بھی کوئی لڑائی ہے۔ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے اور وہ کہنے لگا کہ مَیں اس ہلاکت میں اپنے آپ کو نہیں ڈالتا۔ بہرحال اس کے دل میں شروع سے ہی نفاق تھا، منافقت تھی اور منافق بزدل ہوتا ہے اور یہ بزدلی یہاں آ کے ظاہر بھی ہو گئی۔ بہرحال اس کے اپنے ساتھیوں سمیت جانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی تھی۔

( ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 487)

اس کے باوجود جب جنگ ہوئی ہے تو اس میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا۔ تقریباً فتح ہو گئی تھی لیکن آخر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پوری طرح عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور درّہ چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کا جو رویہ تھا کس طرح کا تھا اور کس کس طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں تکلیف دہ اور استہزا کی باتیں کرنی شروع کر دیں۔ اس کی کچھ تفصیل اب مَیں بیان کروں گا۔ اس میں حضرت عبداللہؓ کی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لیے اپنے باپ کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے میں کوئی امر مانع نہ تھا اگر وہ اسلام کی عزت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملے کرتا۔

اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں شروع کا جو ذکر ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے تمسخر اڑانا شروع کیا ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ غزوۂ احد کے بعد مدینے کے یہود اور منافقین جو جنگِ بدر کے نتیجے میں کچھ مرعوب ہو گئے تھے اب کچھ دلیر ہو گئے بلکہ عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑانا اور طعنے دینا شروع کر دیے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ506)لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے صرفِ نظر ہی فرماتے رہے اور بجائے اس کے کہ اس نرمی کے سلوک سے ان کو کچھ شرمندگی ہوتی یہ لوگ ڈھٹائی میں اور دریدہ دہنی میں بڑھتے چلے گئے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی دریدہ دہنی اور اس کے بیٹے حضرت عبداللہؓ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور فدائیت کا اظہار اس ایک واقعے سے ہو جاتا ہے کہ 5؍ہجری میں غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن مریسیع میں قیام فرمایا ۔ یہ بنو مصطلق کے پانی کے ایک چشمے کا نام ہے۔ مگر اس قیام کے دوران منافقین کی طرف سے ایک ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کم زور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موقع شناسی اور آپؐ کے مقناطیسی اثر نے اس فتنے کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچا لیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمرؓ کا ایک نوکر جَہْجَاہْ نامی تھا وہ مریسیع کے مقامی چشمے پر پانی لینے کے لیے گیا۔ اتفاقاً اس وقت ایک دوسرا شخص سنان نامی بھی پانی لینے کے لیے وہاں پہنچا جو انصار کے حلیفوں میں سے تھا۔ یہ دونوں شخص جاہل تھے اور بالکل عامی لوگوں میں سے تھے۔ چشمے پر یہ دونوں شخص آپس میں جھگڑپڑے اور جَہْجَاہْ نے سنان کو ایک ضرب لگائی، اس کو مارا۔ بس پھر سنان نے زور زور سے شور مچانا شروع کر دیا، چلّانا شروع کردیا کہ اے انصار کے گروہ! میری مدد کوپہنچو کہ مَیں پِٹ گیا اور مجھ پر حملہ ہو گیا۔ جب جَہْجَاہْ نے دیکھا کہ سنان نے اپنی قوم کوبلایا ہے تو وہ بھی جاہل آدمی تھا، اس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو پکارنا شروع کردیا کہ اے مہاجرین! بھاگو دوڑو۔ انصاراور مہاجرین کے کانوں میں یہ آوازیں پہنچیں تو وہ اپنی تلواریں لے کر بے تحاشا اس چشمے کی طرف لپکے اوردیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک اچھا خاصامجمع جمع ہوگیا اور قریب تھا کہ بعض جاہل نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے لیکن اتنے میں بعض سمجھ دار اورمخلص مہاجرین وانصار بھی موقعےپر پہنچ گئے اور انہوں نے فوراً لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے صلح صفائی کروادی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی توآپؐ نے فرمایا کہ یہ ایک جاہلیت کامظاہرہ ہے اور اس پر ناراضگی کااظہار فرمایا اوربہرحال اس طرح معاملہ بہرحال رفع دفع ہوگیا لیکن جب منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبی بن سلول کوجو اس غزوے میں شامل تھا جو بنو مصطلق میں تھا،جس میں آپ گئے تھے اس میں شامل تھا اس واقعے کی اطلاع پہنچی تواس بدبخت نے اس فتنےکوپھر جگانا چاہا اور اپنے ساتھیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ اکسایا اور یہ کہا کہ یہ سب تمہارا قصور ہے کہ تم نے ان بے خانماں، بے سہارا مسلمانوں کوپناہ دے کر ان کو سر پر چڑھا لیا ہے۔ اب بھی تمہیں چاہیے کہ ان کی مدد سے ان کی اعانت سے دست بردار ہو جاؤ۔ پھر یہ خود بخود مدینےکو چھوڑ چھاڑ کر چلے جائیں گے اوربالآخر اس بدبخت نے یہاں تک کہہ دیا کہ

لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (المنافقون: 9)

کہ قرآن شریف میں، سورة المنافقون میں ہے کہ یعنی دیکھو تو اب مدینے میں جاکر عزت والا شخص یا گروہ جو ہے وہ ذلیل شخص یا گروہ کواپنے شہر سے باہرنکال دیتاہے کہ نہیں؟ اس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقم بھی وہاں بیٹھاہوا تھا اس نے عبداللہ کے منہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ الفاظ سنے تو بے تاب ہو گیا اور فوراً اپنے چچا کے ذریعےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعےکی اطلاع دی۔ اب یہ دیکھیں کہ بچے بھی کس حد تک اخلاص اور وفا رکھتے تھے اور بڑے ہوشیار رہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ کیا بات غلط ہے اور کیا صحیح۔ بہرحال اس نے اپنے چچا کو اطلاع دی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمرؓ بھی بیٹھے تھے۔ وہ یہ الفاظ سن کر غصے اورغیرت سے بھرگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ!مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق فتنہ پرداز کی گردن اڑا دوں۔ آپؐ نے فرمایاعمر! جانے دو۔ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہوکہ لوگوں میں یہ چرچا ہو کہ محمداپنے ساتھیوں کوقتل کرواتا پھرتا ہے۔ پھر آپؐ نے عبداللہ بن اُبی اوراس کے ساتھیوں کو بلوایااوران سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ یہ بات مَیں نے سنی ہے۔ وہ سب قسمیں کھاگئے کہ ہم نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی۔ بعض انصار نے بھی بطریق سفارش، سفارش کے طور پر یہ عرض کیا کہ زیدبن ارقم کوغلطی لگی ہوگی یہ اس طرح بات نہیں کر سکتا۔ آپؐ نے اس وقت عبداللہ بن اُبی اوراس کے ساتھیوں کے بیان کو قبول فرمالیا اور زید کی بات ردّ کر دی جس سے زیدؓ کو سخت تکلیف پہنچی اور صدمہ ہوا مگر بعد میں قرآنی وحی نے جو آیت مَیں نے پڑھی ہے زیدؓ کی بات کی تصدیق فرمائی اور منافقین کوجھوٹا قرار دیا۔
اِدھر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی وغیرہ کو بلاکراس بات کی تصدیق شروع فرما دی اور اُدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اسی وقت لوگوں کو کُوچ کاحکم دو۔ یہ وقت دوپہر کا تھاجبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً دوپہر کو کُوچ نہیں فرمایا کرتے تھے ،سفر نہیں شروع کیا کرتے تھے کیونکہ عرب کے موسم کے لحاظ سے یہ وقت سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اوراس میں سفر کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے حالات کے مطابق یہی مناسب خیال فرمایا کہ ابھی یہاں سے روانہ ہو جایا جائے۔ چنانچہ آپؐ کے حکم کے ماتحت فوراً اسلامی لشکر واپسی کے لیے تیار ہو گیا۔ غالباً اسی موقعے پر اُسیدبن حضیر انصاریؓ جوقبیلہ اوس کے نہایت نامور رئیس تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ تو عموماً ایسے وقت میں سفر نہیں فرمایا کرتے آج کیا معاملہ ہے کہ اس وقت دوپہر کو سفر شروع کرنے لگے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُسید! کیا تم نے نہیں سنا کہ عبداللہ بن ابی نے کیا الفاظ کہے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہم مدینہ چل لیں وہاں پہنچ کر عزت والا شخص ذلیل شخص کو باہر نکال دے گا۔ اُسید نے بے ساختہ عرض کیا کہ ہاں یارسولؐ اللہ! ٹھیک ہے۔ یہ بات تو ہے لیکن آپؐ چاہیں توبے شک عبداللہ کو مدینے سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ واللہ ! عزت والے آپؐ ہیں وہ نہیں اور وہی ذلیل ہے۔ پھر اُسید بن حضیر نے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ جانتے ہیں کہ آپؐ کے تشریف لانے سے پہلے عبداللہ بن ابی اپنی قوم میں بہت معزز تھا اوراس کی قوم اس کو اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے اس کی کوششیں جو خاک میں مل گئیں۔ پس اس وجہ سے اس کے دل میں آپ کے متعلق حسد بیٹھ گیا ہے۔ اس لیے آپؐ اس کی اس بکواس کی کچھ پروا نہ کریں اوراس سے درگزر فرمائیں۔ تھوڑی دیر میں عبداللہ بن ابی کالڑکا جس کا نام حباب تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدل کر عبداللہ کردیا تھا یعنی یہی حضرت عبداللہؓ جن کا ذکر ہو رہا ہے۔ وہ ایک نہایت مخلص صحابی تھے، گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہنے لگے۔ یارسولؐ اللہ! مَیں نے سنا ہے کہ آپؐ میرے باپ کی گستاخی اورفتنہ انگیزی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں۔ اگر آپؐ کا یہی فیصلہ ہے توآپؐ مجھے حکم فرمائیں مَیں ابھی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپؐ کے قدموں میں لا ڈالتا ہوںمگر آپؐ کسی اَور کوایسا ارشاد نہ فرمائیں کیونکہ مَیں ڈرتا ہوں کہ جاہلیت کی کوئی رگ کسی وقت میرے بدن میں جوش مارے اورمَیں اپنے باپ کے قاتل کو کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں اور خدا کی رضا چاہتا ہوابھی جہنم میں جا گروں۔ چاہتا تو مَیں یہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کروں لیکن ایک مسلمان کو قتل کر کے مَیں جہنم میں چلا جاؤں۔ آپؐ نے انہیں تسلی دی اورفرمایا کہ ہمارا ہرگز یہ ارادہ نہیں ہے بلکہ ہم بہرحال تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے۔

مگر عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کواپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ جب لشکرِ اسلامی مدینے کی طرف لوٹا توعبداللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم! مَیں تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معزز ہیں اورتم ذلیل ہو اور عبداللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہوکر یہ الفاظ کہہ دیے جس پر عبداللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ557، 559تا561)

ابن سعد نے ان الفاظ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کُوچ کا حکم دیا تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے اپنے والد کا راستہ روک لیا اور اونٹ سے نیچے اتر آئے اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ جب تک تم یہ اقرار نہیں کرتے کہ تُو ذلیل ترین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) عزیز ترین ہیں تب تک مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا۔ فرمایا اسے چھوڑ دو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری عمر کی قسم ! ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے۔(الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 50 غزوۃ رسول اللّٰہ المریسیع، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) یہ طبقات الکبریٰ میں درج ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت عبداللہ کے والد عبداللہ بن ابی نے یہ کہا کہ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ۔ یعنی عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یا گروہ کو اپنے شہر سے باہر نکال دے گا تو حضرت عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہی ذلیل ہے اور آپ ہی عزیز ہیں۔ خود بیٹے نے اپنے باپ کے بارے میں کہا۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ941 "عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری” دار الجیل بیروت)

پھر ایک ناپاک تہمت جو منافقین کی طرف سے لگائی گئی، واقعۂ افک سے اس کا تعلق ہے جس کا بانی مبانی عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا۔ غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر افک کا واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہؓ کی ذات پر گندے الزامات لگائے گئے تھے اور اس تہمت کا بانی عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ واقعہ ٔافک کے متعلق گذشتہ سال کے آخر میں ایک خطبے میں تفصیل بیان کر چکا ہوں (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍دسمبر 2018ء، الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2019)لیکن اس حوالے سے بھی یہاں کچھ بیان کر دیتا ہوں ۔ حضرت عائشہؓ کی روایت بھی یہی ہے۔ وہ پوری روایت تو نہیں اس کا کچھ حصہ بیان کروں گا۔

آپؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر میں نکلنے کا ارادہ فرماتے تو آپؐ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ پھر جس کا قرعہ نکلتا آپؐ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ چنانچہ اس سفر میں ہمارے درمیان قرعہ ڈالا گیا تو میرا قرعہ نکلا۔ مَیں آپؐ کے ساتھ گئی۔ اس وقت حجاب کا حکم اتر چکا تھا۔ پردے کا حکم آ گیا تھا۔ مَیں ہودج میں بٹھائی جاتی اور ہودج سمیت اتاری جاتی رہی۔ ایک بند کرسی تھی، پردے لٹکے ہوتے تھے،اس میں بٹھایا جاتا اور وہ اونٹ پر رکھ دیا جاتا تھا۔ کہتی ہیں ہم اسی طرح سفر میں رہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہم سے فارغ ہوئے اور واپس آئے اور ہم مدینے کے قریب ہی تھے کہ ایک رات آپؐ نے کوچ کا حکم دیا ۔ جب لوگوں نے کُوچ کا اعلان کیا تو مَیں بھی چل پڑی اور فوج سے آگے نکل گئی۔ حاجت کی ضرورت تھی، جب مَیں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور مَیں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ کالے نگینوں کا ایک ہار تھا وہ ٹوٹ کر میرے گلے سےگر گیا ہے۔ مَیں واپس لوٹی۔ اپنا ہار ڈھونڈنے لگی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے اونٹ کو تیار کرتے تھے، آئے اور انہوں نے میرا ہودج اٹھا لیا اور وہ ہودج میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر مَیں سوار ہوا کرتی تھی۔ وہ سمجھے کہ مَیں اسی میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ بہرحال انہوں نے اونٹ کو اٹھا کر چلا دیا اورخود بھی چل پڑے۔ جب سارا لشکر گزر چکا تو اس کے بعد مَیں نے اپناگما ہوا ہار جو تھا اس کو پالیا۔ دیکھ لیا اٹھا لیا۔ مجھے مل گیا۔ پھر مَیں اپنے اس ڈیرے کی طرف گئی، اس جگہ گئی جس میں مَیں تھی اور مَیں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے اور میرے پاس لوٹ آئیں گے۔ کہتی ہیں مَیں ڈیرے پر گئی تووہاں کوئی بھی نہیں تھا تو پھر مَیں نے بہرحال یہی خیال کیا کہ مجھے جب ہودج میں نہیں دیکھیں گے تو واپس میری طرف آئیں گے۔ کہتی ہیں مَیں بیٹھی ہوئی تھی تو اسی اثنا میں آنکھ لگ گئی اور مَیں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ذکوانی فوج کے پیچھے یہ دیکھنے کے لیے رہا کرتے تھے کہ کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی۔ کہتے ہیں وہ صبح ڈیرے پر آئے جہاں ہمارا پڑاؤ تھا اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجود دیکھا اور میرے پاس آئے اور حجاب کے حکم سے پہلے کیونکہ وہ مجھے دیکھا کرتے تھے تو انہوں نے جب دیکھا کہ مَیں ہوں تو انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھا۔ ان کے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھنے پر مَیں جاگ گئی۔ بہرحال اس کے بعد انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی اور مَیں اس پر سوار ہو گئی۔ وہ اونٹنی کی نکیل پکڑ کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم اس وقت فوج میں پہنچے جب لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے ڈیروں میں تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا۔ یعنی الزام لگا کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا اور اس تہمت کا بانی عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ بہرحال کہتی ہیں ہم مدینے پہنچے۔ مَیں وہاں ایک ماہ تک بیمار رہی ۔کسی وجہ سے بیمار ہو گئی تھی۔ میری اس بیماری کے اثنا میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا لوگ چرچا کرتے رہے اور جو بات ان کو نہیں پتا لگا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس اثنا میں کہتی ہیں جو بات مجھے شک میں ڈالتی تھی وہ یہ تھی کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مہربانی نہ دیکھتی تھی جو مَیں آپؐ سے اپنی بیماری میں دیکھا کرتی تھی۔ آپؐ صرف اندر آتے اور السلام علیکم کہتے۔ پھر پوچھتے اب وہ کیسی ہے؟ کہتی ہیں مجھے اس تہمت کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ کہتی ہیں ایک دن ام مسطح کے ساتھ مَیں باہر گئی۔رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے۔ تب اس نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات سنائی۔ جب مَیں اپنے گھر لوٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور آپؐ نے السلام علیکم کہا اور آپؐ نے پوچھا اب تم کیسی ہو؟ مَیں نے اس پر عرض کیا کہ مجھے اپنے والدین کے پاس جانے دیں۔ آپؐ نے مجھے اجازت دے دی۔ مَیں اپنے والدین کے پاس آئی تو مَیں نے اپنی ماں سے پوچھا لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا بیٹی اس بات سے اپنی جان کو جنجال میں نہ ڈالو۔ اطمینان سے رہو۔ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا سبحان اللہ! لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں۔ کہتی تھیں کہ جب مجھے یہ پتا لگا کہ میرے پہ یہ تہمت لگی ہے تو مَیں نے وہ رات اس طرح کاٹی کہ صبح تک نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی۔ بہرحال اس تہمت کی باتیں ہوتی رہیں بعض صحابہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا اور کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو جو ذاتی خدمت کے لیے حضرت عائشہؓ کی خادمہ تھیں ان کو بلایا اور آپؐ نے کہا کہ بریرہ کیا تم نے اس میں یعنی حضرت عائشہ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شبہ میں ڈالے؟ بریرہ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ کوئی ایسی بات میں نے نہیں دیکھی اور کہنے لگی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مَیں نے حضرت عائشہؓ میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو مَیں ان کے لیے معیوب سمجھوں یعنی سب سے بڑی کم زوری جو مَیں نے دیکھی ہے وہ یہی ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں۔ لڑکپن ہے اور نیند زیادہ آتی ہے اور آٹا چھوڑ کر بعض دفعہ سو جاتی ہیں اور گھر میں بکری آتی ہے اور وہ کھا جاتی ہے یعنی کہ بس بے احتیاطی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں یا ان کو نیند زیادہ آتی ہے۔ یہ سن کر اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب فرمایا اور عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے میں مجھے دکھ دیا ہے۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ مَیں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی بیوی میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات مجھے معلوم نہیں اور ان لوگوں نےجس پر الزام لگایا تھا اس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت بھی مجھے بھلائی کے سوا کوئی علم نہیں اور میرے گھر والوں کے پاس جب بھی وہ آیا کرتے ہیں تو میرے ساتھ ہی آتے تھے کبھی اکیلے نہیں آئے۔

بہرحال مختصر یہ کہ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بھی براہِ راست اس بارے میں پوچھا تو مَیں نے کہا کہ بخدا مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے وہ بات سنی ہے جس کا لوگ آپس میں تذکرہ کرتے ہیں۔ باتیں کر رہے ہیں۔ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔ اگر مَیں آپؐ سے یہ کہوں کہ مَیں بَری ہوں مَیں نے کوئی ایسی بات نہیں کی اور اللہ جانتا ہے کہ مَیں فی الواقعہ بَری ہوں۔ آپؐ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر مَیں آپؐ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں بَری ہوں۔ مَیں نے کوئی ایسی بات نہیں کی مگر آپؐ اس اقرارمیں مجھے سچا سمجھ لیں گے کیونکہ لوگوں میں یہ اتنا مشہور ہو چکا ہے۔ ہر ایک قائل ہو چکا ہے۔ بعض صحابہ جو ہیں وہ بھی ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ پھر کہتی ہیں مَیں نے کہا اللہ کی قسم ! مَیں اپنی اور آپ کی کوئی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف کے باپ کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ

فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ

کہ صبر کرنا ہی اچھا ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے اس بات میں جو تم لوگ بیان کر رہے ہو۔ یہ سورۂ یوسف میں ہے۔ اس کے بعد کہتی ہیں مَیں ایک طرف ہٹ کر اپنے بستر پر آ گئی اور مَیں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور بَری کرے گا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے گا کہ مَیں اس الزام سے بری ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد، جب مَیں نے یہ بات کہی اس کے بعد اللہ کی قسم ! آپؐ ابھی بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے جب آپؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی ہے۔ تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ بھی تھے اور عائشہؓ کی والدہ بھی تھیں، دونوں تھے ۔کہتی ہیں کہ آپ، نہ گھر والے بھی کوئی اور نہ اہلِ بیت میں سے کوئی باہر گیا تھا ، سب گھر والے وہیں تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور سخت تکلیف آپؐ کو ہوا کرتی تھی جب وحی ہوتی تھی۔ وہ آپؐ کو ہونے لگی۔ جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا۔ کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حالت جاتی رہی تو آپؐ مسکرا رہے تھے اور پہلی بات جو آپؐ نے فرمائی یہ تھی کہ عائشؓہ! اللہ کا شکر بجا لاؤ کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت کر دی ہے۔ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ مَیں نے کہا اللہ کی قسم !ہرگز نہیں۔ ان کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ مَیں ان کے پاس اٹھ کر نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کی تھی کہ إِنَّ الَّذِيْنَ جَاءُوْا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود بہرحال یہ بریت ہو گئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا ۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما دی بلکہ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا یا کسی اَور رنگ میں بتا دے گا ۔ یہ مجھے امید نہیں تھی کہ قرآن کریم کی آیت اس بارے میں اترآئے گی۔

(صحیح بخاری کتاب الشہادات باب تعدیل النساء بعضہن بعضاحدیث نمبر2661)

تو یہ معاملہ ختم ہوا اور یہ الزامات لگتے رہے اور مختلف حرکتیں ہوتی رہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس رئیس المنافقین کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمةٌ للعالمین کا جو سلوک تھا وہ کیا تھا؟ حضرت عبداللہؓ کے والد کی جو وفات ہوئی یعنی عبداللہ بن ابی کی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کی نمازِ جنازہ کے لیے درخواست کی۔ اسی طرح انہوں نےیہ بھی درخواست کی کہ آپؐ اپنی قمیض عنایت فرمائیں تا کہ وہ بطور کفن اپنے والد کے لیے استعمال کر سکے اور اس طرح شاید میرے والد سے تخفیف ہو سکے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کرتہ عنایت فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں یہ بھی الفاظ ملتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہؓ کا والد یعنی عبداللہ بن اُبی بن سلول فوت ہوا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپؐ اپنی قمیض دیں تا کہ مَیں اپنے والد کو اس کے ذریعےکفن دوں اور اس پر نمازِ جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے استغفار کر دیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیض عطا کی اور فرمایا کہ جب تم لوگ تجہیز و تکفین کے معاملات سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ جنازہ پڑھنے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منافقین کی نمازِ جنازہ سے منع کیا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ مَیں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کی کلیةً ممانعت فرما دی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھانی بند کر دی۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ941 "عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری” دار الجیل بیروت)

یہ بھی روایت ہے کہ جب آپؐ پہنچے تو اس کو قبر میں رکھا جا چکا تھا ۔آپؐ نے باہر نکلوایا۔ اپنی ٹانگوں پر اس کا سر رکھا اور پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور پھر دعا کی اور قمیض کرتہ اتار کے دیا۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبرحدیث نمبر 1350)

ایک روایت یہ بھی ہے حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو کافروں کے قیدی لائے گئے اور عباس بھی لائے گئے ان پر کوئی کپڑا نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کرتہ تلاش کیا لوگوں نے عبداللہ بن اُبی کا کرتہ ان کے لیے ٹھیک پایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ان کو پہنا دیا اور اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے لیے اس کے مرنے کے بعد اپنا کرتہ اتار کر اسے دے دیا کہ اسے پہنایا جائے۔

ابن عیینہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے نیک سلوک کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اس سے نیک سلوک فرمائیں۔

(بخاری کتاب الجہاد باب الکسوۃ للاساری حدیث 3008)

ایسی روایت گو کہ صحیح بخاری کے حوالے سے بھی ہے لیکن یہ اتنی authentic صحیح بھی نہیں لگتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمةٌ للعالمین تھے۔ صرف اسی سلوک کی وجہ سے یہ بات یا صرف یہی بات نہیں ہو سکتی۔ ایک تو یہ ہے کہ بعضوں کے نزدیک اس وقت بدر کی جنگ میں یہ مسلمان بھی نہیں تھا اور اگر بالفرض قمیض اتار کے دی بھی تھی تو اس دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہ بے شمار احسانات کیے تھے۔ بہرحال یہ شفقت کا سلوک تھا جو میرے خیال میں تو حضرت عبداللہؓ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹے نے جو ہر معاملے میں اسلام کی غیرت رکھی ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھی اور اپنے ایمان کو بچایا اور اپنے باپ پر سختی بھی کی تو اس لیے بچے کی دل داری کے لیے، بیٹے کی دل داری کے لیے یا اس کی خواہش کی وجہ سے آپؐ نے یہ قمیض اتار کے دی تھی۔

حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی( یہ روایت حضرت عمر ؓنے براہ راست بھی بیان فرمائی ہے )کہ آپؐ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو مَیں آپؐ کی طرف لپکا اور مَیں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپؐ ابن ابی کا نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور اس نے تو فلاں دن یہ بات کہی تھی اور فلاں دن یہ بات کہی تھی۔ مَیں نے باتیں گنوانی شروع کر دیں۔ مَیں اس کے خلاف اس کی باتیں گننے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا عمر ہٹ جاؤ۔ جب مَیں نے آپؐ سے بہت اصرار کیا تو آپؐ نے فرمایا مجھے تو اختیار دیا گیا ہے سو مَیں نے اختیار کر لیا ہے اور اگر مَیں یہ جانوں اور مجھے یہ پتا ہو کہ مَیں ستّر بار سے زیادہ اس کے لیے دعائے مغفرت کروں اور وہ بخشا جائے گا تو مَیں ضرور اس سے بھی زیادہ کروں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ پھر آپؐ لَوٹ آئے اور تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سورۂ براء یعنی سورہ ٔتوبہ کی یہ دو آیتیں نازل ہوئیں کہ

وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ إِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فَاسِقُوْنَ (التوبۃ:84)

یعنی تُو ان میں سے کسی کی بھی جو مر جائے کبھی نمازِ جنازہ نہ پڑھ اور تو اس کی قبر پہ کھڑا نہ ہو کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور وہ ایسی حالت میں مر گئے کہ وہ بد عہد تھے۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اس کے بعد مَیں نے اپنی جسارت پر تعجب کیا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بولنے کی یہ جرأت کس طرح کر لی جو مَیں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دکھائی تھی اور اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔

(بخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من الصلاۃ علی المنافقین حدیث 1366)

یہ حضرت عبداللہؓ کے ذکر میں یہ واقعہ اب ختم ہوا ۔آئندہ صحابہ کا ذکر ہو گا جو باقی ہیں۔

اس وقت مَیں چند وفات یافتگان کے ذکر کروں گا اور جمعہ کے بعد، نمازوں کے بعد ان کا نماز ِجنازہ بھی پڑھاؤں گا۔

اس میں پہلا جو ذکر ہے وہ مکرمہ امة الحفیظ صاحبہ کا ہے جو مکرم مولانا محمد عمر صاحب کیرالہ انڈیا کی اہلیہ تھیں۔ 20؍اکتوبر کو 72سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1947ء میں آپ کیرالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ مرحومہ کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑنانا کے ذریعےآئی تھی جو کیرالہ کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ آپ کو چنئی میں سیکرٹری مال اور کیرالہ میں لمبا عرصہ بطور صدر لجنہ خدمت کی توفیق ملی۔ قرآن کریم اور تہجد کی ادائیگی میں بڑی باقاعدہ تھیں۔ لجنہ اور ناصرات کو بھی قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں۔ تمام فرضی اور نفلی روزے رکھتی تھیں۔ اپنی زندگی کے آخر تک مولانا محمد عمر صاحب کی بہت خدمت کی۔ بہت مہمان نواز اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار تھیں۔ بڑی نیک خاتون تھیں۔ خلافت کے ساتھ گہرا عقیدت کا تعلق تھا۔ جہاں جہاں بھی آپ رہیں مشن ہاؤسز میں آنے والے احباب کے ساتھ بہت اخلاص کا تعلق تھا ۔بہت اخلاص سے خدمت کیا کرتی تھیں۔ وفات سے پہلے آپ کو تین دفعہ ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور تیسری دفعہ جب ہارٹ اٹیک ہوا تو آپ نے مولوی عمر صاحب کو بتایا کہ میری وفات کا وقت نزدیک آ چکا ہے اور اس کے بعد کہا کہ میرا سلام سب کو پہنچا دیں۔ پھر اونچی آواز میں اللہ اکبر تین دفعہ کہا اور اس طرح پھر آپ اللہ کے حضور حاضر ہو گئیں۔

مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ منور احمد صاحب ناصر کی ساس تھیں جو دفتر پی۔ایس میں ہماری تامل ڈاک کے سلسلے میں والنٹیئر کے طور پر خدمت انجام دے رہے ہیں۔

مکرم مولوی محمد عمر صاحب لکھتے ہیں کہ 1961ء میں جب میں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کر لیا تو میری پہلی تقرری مدرسة الاحمدیہ میں پڑھانے پہ ہوئی۔ پھر حیدرآباد میں ہو گئی اور اس دوران وہاں پر ایک حادثہ بھی پیش آیا۔ 1967ء میں حیدرآباد میں شدید بارش کے بعد جوبلی ہال جس کی پہلی منزل پر prayer hall اور دفتر بنے ہوئے تھے اس کی دوسری منزل لجنہ اماء اللہ کے ساتھ مخصوص تھی اور تیسری منزل میں مشن ہاؤس واقع تھا، کا بیشتر حصہ اس بارش کی وجہ سے یکدم منہدم ہو گیا۔ کہتے ہیں اس وقت خاکسار وہاں موجود نہیں تھا ۔جب دوپہر مشن ہاؤس پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ساری عمارت گر چکی ہے۔ صرف ایک چھوٹا سا کونہ کھڑا تھا اور خاکسار کی اہلیہ تین ماہ کی بچی گود میں لے کر تیسری منزل کے کونے میں بے سہارا کھڑی تھی۔ اس صورت میں میری اہلیہ اور بچی کا بچ جانا بظاہرلامحال تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ جہاں وہ کھڑی تھیں اس کے نیچے بڑی گہرائی میں بلڈنگ کا ملبہ تھا۔ نیچے کود نہیں سکتی تھیں۔

نیچے اترنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ فائر بریگیڈ کی طرف سے ایک سیڑھی لائی گئی لیکن کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ سیڑھی چڑھ کر ماں اور بچی کو بچایا جائے۔ اس وقت ایک فائر مین نے جو ایک بڑی عمر کا شخص تھا اس نے کہا اگر مجھے اپنی جان بھی دینی پڑے تو میں ماں اور بچی کو بچانے کی کوشش کروں گا۔ پھر اس بڑی عمر کے فائر مین نے سیڑھی پر چڑھ کر پہلے بچی کو اور اس کے بعد ماں کو نیچے اتارا۔ بہرحال کہتے ہیں اس طرح معجزانہ طور پر دونوں کی جانیں بچ گئیں۔ کہتے ہیں بڑے صبر سے ہر جگہ انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ کہتے ہیں جب میرا تقرر کیرالہ میں ہوا تو وہاں کیرالہ میں بھی یہ پندرہ سال تک صوبائی صدر لجنہ اماء اللہ کیرالہ رہیں اور بڑے احسن رنگ میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ 2007ء سے لے کر 2014ء تک جب یہ ناظر اصلاح و ارشاد تھے تو قادیان میں رہی ہیں۔ اس دوران ہر روز بیت الدعا میں جا کر لمبی دعائیں کیا کرتی تھیں۔ پھر 2015ء میںان کو عمرے کی سعادت بھی ملی۔ عمر صاحب لکھتے ہیں کہ روزانہ نماز ِفجر ادا کرنے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتی تھیں۔ حدیث کا مطالعہ کرتی تھیں۔ یہ ان کا معمول تھا اور جس دن ان کی وفات ہوئی ہے اس دن بھی اس پر عمل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا بھی شوق رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ معلوماتِ عامہ حاصل کرنے میں بھی خاصی دل چسپی رکھتی تھیں اور یہی ایک مربی کی بیوی کی خصوصیات ہونی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں موجود تھیں۔ مربیان اور عہدیداران کے بڑے مقام و مرتبہ کو سمجھتے ہوئے ان کی عزت و احترام کرنے والی خاتون تھیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔

دوسرا جنازہ مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب کا ہے جو ماہنامہ انصار اللہ پاکستان کے سابق مینیجر اور پبلشر تھے۔ یہ 16اکتوبر کو 83 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1957ء میں ان کی تقرری بطور سیکرٹری انصار اللہ مرکزیہ پاکستان ربوہ ہوئی۔ 1960ء میں جب ماہانہ انصار اللہ کا اجرا ہوا تو آپ کو اس کا مینیجر اور پبلشر مقرر کیا گیا اور 2004ء تک بڑی خوش اسلوبی سے یہ فرائض سرانجام دیے۔ انصار اللہ پاکستان میں ان کو آفس سپرنٹنڈنٹ، نائب قائد عمومی، سیکرٹری برائے صدر ِمجلس خدمات کی توفیق ملی۔ 2003ء میں ان کو ایک مقدمے میں اشتہاری قرار دیا گیا اور پھر یہ میری اجازت سے یہاں لندن آ گئے اور یہیں شفٹ ہو گئے تھے۔ یہاں آ کر بھی آپ کو انصار اللہ میں تقریباً آٹھ نو سال خدمت کی توفیق ملی اور نیشنل مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔ مرحوم موصی تھے۔ وفات سےکچھ دیر پہلے اپنی بیماری کی وجہ سے ربوہ چلے گئے تھے۔ وہیں ان کی وفات ہوئی۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور پانچ بیٹے اور متعدد پوتے پوتیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو اور ان کی نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے اور جماعت اور خلافت سے تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پاکستان میں جب انصار اللہ کے مینیجر تھے تو ہر بات پر ان پر مقدمہ ہو جاتا ہے۔ تقریباً 26مقدمات بنے تھے اور ایک ماہ تک آپ اسیر ِراہ مولیٰ بھی رہے۔

تیسرا جنازہ مکرم راجہ مسعود احمد صاحب کا ہے جو مکرم راجہ محمد نواز صاحب مرحوم پنڈدادن خان کے بیٹے تھے۔ 19؍ اکتوبر کو بڑی طویل علالت کے بعد 69؍سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے خاندان میں احمدیت جو ہے وہ ان کے والد صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی۔ راجہ محمد علی صاحب اس زمانے میں 1944-1943ءمیں ناظر بیت المال ہوتے تھے ان کے ساتھ ان کے والد کا تعلق تھا وہ ان کو قادیان جلسے پر لے کے گئے اور وہاں انہوں نے بیعت کی اور بیعت بھی صرف اس طرح کہ کوئی دلیل وغیرہ نہیں بلکہ ایک واقعہ پیش آیا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلسے پر تقریر فرما رہے تھے تو اس دوران میں کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک خوب صورت، خوبرو نوجوان ایک میلے کچیلے بچے کو گود میں اٹھائے لے کے آ یا ہے اور جب بچے کا ناک بہ رہا تھا تو اس وقت اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس کا ناک صاف کیا اور پیچھے کھڑا رہا ۔ حضرت مصلح موعودؓ تقریر میں مصروف تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب بچہ رویا تو پھر حضرت مصلح موعودؓ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اعلان کیا کہ کسی کا گم شدہ بچہ ہے تو والدین لے جائیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ جب میں نے پتا کیا کہ صاف ستھرے کپڑوں میں یہ نوجوان کون تھا اور بچہ میلا کچیلا تو انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے بڑے بیٹے اور اس وقت خدام الاحمدیہ کے شاید صدر بھی ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ اس سے مجھے اتنا اثر ہوا کہ باقی مسائل تو بعد کی بات ہے۔ جو نمونہ آج میں نے دیکھا ہے صرف اسی بات پر میں بیعت کرتا ہوں ۔ تو جلسوں پر آنے والے بعض لوگ ہمیشہ سے ہی ان نمونوں کو دیکھ کر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں بھی شامل ہوتے ہیں۔

بہرحال راجہ صاحب 1991ء میں یو۔کے آ گئے تھے اور یہاں کیٹ فورڈ جماعت کے پہلے صدر مقرر ہوئے اور اپنا گھر بھی جماعت سینٹر کے طور پر استعمال کیا۔ یہاں آ کے قائد عمومی انصار اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری وصایا اور پھر نیشنل سیکرٹری وصایا کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی اور جب میں نے وصیت کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے کافی محنت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیان کے اس نظام کو منظم کیا۔ خلافت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا۔ جماعتی عہدے داروں کا احترام بھی کرتے تھے۔ نمازی، تہجدگزار تھے۔ چندہ جات بڑے کھلے دل سے دیتے تھے۔ صدقہ و خیرات کرنے والے تھے۔ غریب پرور تھے۔ ملنسار تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی بھی تھے۔ اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ان کے پسماندگان میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ میرے ساتھ کالج میں ایک کلاس میں تو نہیں تھے۔ ان کے مضامین مختلف تھے لیکن بہرحال میرے وقت میں کالج میں تھے اور اس طرح ان سے وہاں سے واقفیت بھی تھی۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم کالج میں ایک ہی کلاس میں اکٹھے پڑھتے رہے۔ ایک اردو کی کلاس تھی۔ وہ مشترکہ ہوا کرتی تھی تو بہرحال ہم اکٹھے ہی بیٹھتے رہے۔ اس وقت بھی ان میں بڑی خوبیاں تھیں جو مَیں نے دیکھیں اور اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔ نہ کوئی شرارت جیسے لڑکوں میں شرارت ہوتی ہے اور نہ کسی کو تنگ کرنا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

اللہ بخش صادق صاحب وکیل التعلیم ربوہ ہیں۔ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بڑے دلیر اور غیرت مند احمدی تھے۔ جہلم شہر کی مسجد بہت پرانی تھی۔ چھتیں بھی نیچی تھیں۔ اس کے کمروں کا فرش کہیں نیچا اور کہیں اونچا تھا۔ چوراسی (84ء)کے بعد نامساعد حالات تھے۔ اس قانون کے بعد جماعت کی مساجد بنائی بھی نہیں جا سکتیں اور مرمت بھی نہیں کی جا سکتیں لیکن راجہ صاحب نے بڑی جرأت سے مسجد کی تعمیر کا کام اپنے ذمہ لیا اور بڑی عقل مندی سے امیر صاحب کے مشورے سے اس کام کو انتہا تک پہنچایا، انجام تک پہنچایا اور سڑک کی طرف دیواروں کو چھیڑے بغیر نقشے کے مطابق ہال کے ستون بنائے اور پھر بڑی حکمت سے اس پہ چھت ڈالی اور اس طرح انہوں نے خود بھی بڑی قربانی کی۔ مالی قربانی بھی کی، وقت کی قربانی بھی کی، لوگوں کو بھی تحریک کی اور اس طرح مسجد کو بالکل نئے رنگ میں تبدیل کر دیا اور لنٹل (lintel) ڈال کے کمروں کی دیواریں بعد میں نکال دی گئیں۔ اب خدا کے فضل سے اوپر نیچے مسجد کے دو ہال تیار ہو گئے۔
چوتھا جنازہ جو ہے وہ مکرمہ صالحہ انور ابڑو صاحبہ کا ہے جو انور علی ابڑو صاحب مرحوم سندھ کی اہلیہ تھیں۔ یہ یکم اکتوبر کو وفات پا گئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

بڑی دلیر اور باہمت، عبادت گزار، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے و الی خاتون تھیں۔ بچپن سے ہی نماز روزہ کی پابند تھیں اور چندہ وغیرہ دینے والی تھیں۔ خلافت سے بڑا سچا تعلق تھا۔ آپ کے والد ایران سے ریٹائرمنٹ لے کر جب نواب شاہ آ کر آباد ہوئے تو اس وقت آپ کو جو معمولی جیب خرچ ملتا تھا اس پر چندہ ادا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ لجنہ کی ایک مرکزی عہدیدار وہاں گئیں اور اجلاس میں کھڑے ہوکر ساری لجنہ کو بتایا کہ پورے نواب شاہ کی لجنہ میں سب سے زیادہ چندہ اس بچی کا آتا ہے اور یہ آپ کی شادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ کی بیٹی طاہرہ مومن کہتی ہیں کہ شادی کے بعد اللہ کے جتنے بے شمار فضل ہوئے اتنا ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑا دل بھی دیا۔ بہت غریب پرور اور عاجزی اور انکساری کی مالک تھیں۔ چندے کی ہر تحریک پر لبیک کہنے والی تھیں۔ سب سے زیادہ وعدہ لکھواتی تھیں۔ لمبا عرصہ لجنہ ضلع لاڑکانہ کی صدر رہیں۔ جب بھی دورے کرتیں چندے کی تحریک کرتیں تو بڑا اچھا ردّ عمل ہوتا کیونکہ ان کا اپنا نمونہ نیک تھا۔ بہت دلیر اور غیرت مند تھیں۔ سندھ کے اس وقت کے غیر تہذیب یافتہ ماحول میں بیاہ کے گئی ہیں تو بالکل سندھی خاندان میں رسموں اور بدعتوں سے بہت دور رہ کر، سوشل لائف گزاری ہے اور ہر ایک سے تعلق بھی رکھا اور دل سے رکھا اور رشتے داریاں بھی بڑے احسن رنگ میں نبھائیں۔ سسرالی رشتے داریاں بھی بڑی احسن رنگ میں نبھائیں۔ ان کی بیٹی لکھتی ہیں کہ اب بھی لجنات کی ممبر جہاں جہاں بھی رہتی ہیں انہیں بہت یاد کرتی ہیں ۔کہتی تھیں کہ جب بھی ہم کو پریشانی ہوتی ان کو کہتے۔ پہلے تو وہ ہمیں کہتیں نماز پڑھو اور دعا کی تاکید کرتیں اور پھر خود بھی ہمارے لیے بہت دعائیں کرتیں۔ بڑا اچھا تعلق رکھا سب کے ساتھ رکھا اور بڑی سوشل تھیں۔ جہاں بھی جاتیں اپنا دل لگا لیتیں۔ اپنا حلقہ احباب وسیع کرتیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں میں بھی اخلاص و وفا پیدا کرے۔ ان کے ساتھ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور بچے بھی خلافت سے اور جماعت سے اسی طرح وابستہ رہیں اور قربانیاں کرنے والے ہوں جس طرح یہ خود کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی ان کے بچوں کے حق میں قبول فرمائے۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

نمازوں کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا ان سب کی نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 06؍دسمبر 2019ء صفحہ 5تا9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button