کچھ جامعات سے

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصنیفِ لطیف آسمانی فیصلہ کے تعارف پر جامعہ احمدیہ گھانا میں علمی نشست

اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

مورخہ 13؍اکتوبر 2019ء کوجامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے سیمینار ہال میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان کتاب ‘‘آسمانی فیصلہ’’ کے تعارف پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم عبد الباسط نے کی۔بعد ازاں مکرم شہود احمد آصف صاحب،استاد جامعہ احمدیہ نے کتاب کا تفصیلی تعارف بزبان انگریزی پیش کیا اور کتاب سے متعلق طلباء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس کتاب کا تعارف اور خلاصہ مضامین ذیل میں درج ہے۔

تعارف کتاب

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تصنیف لطیف دسمبر 1891ء کی ہےاورروحانی خزائن جلد نمبر4کے صفحہ نمبر309تا353 پر مشتمل ہے۔حضورعلیہ السلام حیات و وفات مسیح ناصری کے مسئلہ پر میاں نذیر حسین دہلوی سےمباحثہ کرنے کے لیے ستمبر و اکتو بر1891ء میں دہلی گئے۔میاں نذیر حسین دہلوی اور ان کے شاگرد مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر علمائے دہلی نے حیات و وفات مسیح مسئلہ پر بحث کرنے سے انکار کیا۔ اور بحث ٹالنے کے لیے یہ عذر پیش کیا کہ آپؑ کافر ہیں اور کافر سے کیا بحث کریں ۔‘‘اور یہی ایک بہانہ ان کے ہاتھ میں تھا جس کی وجہ سے مسیح کی وفات حیات کے بارے میں انہوں نے مجھ سے بحث نہ کی کہ یہ تو کافر ہے کافروں سے کیا بحث کریں ۔’’

(صفحہ314)

آپؑ نے دسمبر1891ء میں رسالہ ‘‘آسمانی فیصلہ’’ لکھا۔ جس میں خاص طور پر میاں نذیر حسین دہلوی کو پھر مباحثے کی دعوت دی۔اور فرمایا کہ اگر وہ لاہور آسکیں توان کے آنے جانے کا کرایہ بھی میں اداکردونگا۔ورنہ دہلی میں بیٹھے بیٹھے اظہار حق کے لیے تحریری بحث کرلیں ۔چونکہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ان کے ساتھی علماء آپؑ کو کافر سمجھتے تھے اس لیے آپؑ نے اس رسالہ میں ان سب علماء کو مقابلہ کی دعوت دی کہ قرآن کریم میں کامل مومن اور متقی کی بیان کردہ علامات کے اظہار میں مجھ سے مقابلہ کرلیں ۔اس مقابلہ سے عوام الناس کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالی کی نگاہ میں کون صحیح مسلمان ہے۔لیکن کسی عالم دین کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ ہوسکی۔

اہم مضامین کا خلاصہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو وفاتِ مسیح پر اس قدر پختہ یقین کامل تھا کہ آپؑ نے مولوی نذیر حسین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ‘‘آیئے اس امر میں مجھ سے بحث کیجئے پھر اگر آپ نے قرآن اور حدیث سے حیات جسمانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ثابت کر کے دکھلادی تو میں اس قول سے رجوع کروں گا بلکہ وہ اپنی کتابیں جن میں یہ مضمون ہے جلادوں گا۔ اگر بحث نہیں کرسکتے تو آؤ اس بارہ میں اس مضمون کی قسم ہی کھاؤ کہ قرآن کریم میں مسیح کی وفات کا کچھ ذکر نہیں بلکہ حیات کا ذکر ہے یا کوئی اور حدیث صحیح مرفوع متصل موجود ہے جس نے توفّی کے لفظ کی کوئی مخالفانہ تفسیر کر کے مسیح کی حیات جسمانی پر گواہی دی ہے۔ پھر اگر ایک سال تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا کوئی کھلا نشان ظاہر نہ ہوا کہ آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے یعنے کسی وبال عظیم میں آپ مبتلا نہ ہوئے تب بلاتوقف میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا مگر افسوس کہ ہر چند بار بار میاں صاحب سے یہ درخواست کی گئی لیکن نہ انہوں نے بحث کی اور نہ قسم کھائی اور نہ کافر کافر کہنے سے باز آئے۔’’

(صفحہ315)

میاں نذیر حسین علمائے ہند میں بیخ کی طرح ہیں

‘‘میں زیادہ تر گرم جوشی سے میاں صاحب کی طرف اس لیے مستعد ہوں کہ لوگوں کے خیال میں ان کی علمی حالت سب سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ علمائے ہند میں بیخ کی طرح ہیں اور کچھ شک نہیں کہ بیخ کے کاٹنے سے تمام شاخیں خود بخود گریں گی ……مگر یہ پیشگوئی بھی یاد رکھو کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو ایسے رسوا ہوں گے کہ منہ دکھانے کی جگہ نہیں رہے گی۔’’

(صفحہ316)

قرآن کریم میں کامل مومن کے شناخت کی علامات

‘‘اب جاننا چاہیے کہ خدا ئے تعالیٰ نے قرآن کریم میں چارعظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل متقیوں اور کامل مومنوں کے لیے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کی شناخت کے لیے کامل علامتیں ہیں اور وہ یہ ہیں اول یہ کہ مومن کامل کو خدائے تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنی پیش از وقوع خوشخبریاں جو اس کی مرادات یا اس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں اس کو بتلائی جاتی ہیں۔ دوئم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطے داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیر ّات آنے والے ہیں ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے سوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر ان دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے۔ چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ و لطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں۔ ان چاروں علامتوں میں مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے۔’’

(صفحہ323)

مدعی مسیحیت یک طرفہ نشان کیوں نہیں دکھلاتا

‘‘ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ جو شخص مسیح موعود ہونے کا مدعی ہو وہ کیوں خود یک طرفہ طور پر ایسے نشان نہیں دکھلاتا جن سے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام لوگ علماء کے تابع ہیں اور علماء نے اپنے اشتہارات کے ذریعہ سے عوام میں یہ بات پھیلا دی ہے کہ یہ شخص کافر اور دجّال ہے اگر کتنے ہی نشان دکھاوے تو بھی قبول کے لائق نہیں۔’’

(صفحہ331)

نیز آپؑ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس مقابلہ سے عاجز ہوں تو پھر ایک اشتہار شائع کردیں کہ یک طرفہ نشانوں کو دیکھ کر آپؑ پر ایمان لے آئیں گے اور عوام کو قبول کرنے کے لیے فہمائش بھی کردیں گے تو اس صورت میں آپؑ یک طرفہ نشان دکھلانے کا وعدہ کرتےہیں۔

نشانوں کے ظہور کے بارے میں آپؑ نے مزید فرمایا کہ: ‘‘نشانوں کا سلسلہ تو ابتداء سے جاری ہے اور ہر یک صحبت میں رہنے والا بشرطیکہ صدق اور استقامت سے رہے کچھ نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور آئندہ بھی خدائے تعالیٰ اس سلسلہ کو بے نشان نہیں چھوڑے گا’’

(صفحہ332-333)

جلسہ سالانہ کی ابتداء

جماعت احمدیہ عالمگیر میں جلسہ ہائے سالانہ کی اہمیت اور برکات ہم سب پر واضح اور روشن ہیں۔پہلا جلسہ سالانہ 27؍دسمبر1891ء کو منعقد ہوا تھا۔آج جلسہ سالانہ کو شروع ہوئے 128سال ہوچکے ہیں اور پوری دنیا میں ان جلسہ ہائے سالانہ کی برکات کا ہر احمدی چشم دید گواہ ہے۔اس اہم اور عظیم الشان نتائج کے حامل جلسہ سالانہ کے انعقاد کی بنیادی وجہ کا تعلق بھی اسی رسالہ کی تالیف کے ساتھ ہے۔ ۔چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے :

‘‘مندرجہ بالا رسالہ 27دسمبر1891ء کو بعد نماز ظہر مسجد کلاں واقعہ قادیان میں ایک جمِ غفیر کے روبرو مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا اور بعد اختتام یہ تجویز حاضرین کے روبرو پیش کی گئی کہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان قرار دیئے جائیں اور کس طرح اس کی کارروائی شروع ہو۔ حاضرین نے جن کے نام نامی ذیل میں درج کیے جاتے ہیں( 76افراد کے اسماء درج ہیں ۔ناقل)جو محض تجویز مذکورہ بالا پرغور کرنے اور مشورہ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے بالاتفاق یہ قرار دیاکہ سردست رسالہ مذکور شائع کردیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کرکے بعد ازاں بتراضیٔ فریقین انجمن کے ممبر مقرر کیے جائیں اور کارروائی شروع کی جائے۔’’

(صفحہ336)

اسی کتاب کے آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت کو جلسہ سالانہ کے اجراء اور مستقل انعقاد کے حوالہ سے ‘‘اطلاع’’ کے زیر عنوان تحریر فرمایا ہے کہ:‘‘تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو ۔۔۔قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لیے مقرر کیے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہّ تاریخ مقرر پر حاضر ہوسکیں سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ 27 دسمبرسے 29 دسمبر تک قرار پائے۔۔۔ اور اِس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہیں ۔۔۔ اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے’’

(صفحہ351-353)

آسمانی نشان کے آزمانے کا مناسب طریق

‘‘ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت’’ کے عنوان کے تحت آسمانی نشان کے ظہور کے حوالے سے بنیادی امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : ‘‘ ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر ان کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے خدائے تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوتو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے۔ کسی نشان کے آزمانے کے لیے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیدا نہ کرسکیں۔۔۔اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرماکر اپنی اس پہلی قید کو اٹھالیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہولہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی 11جنوری 1891ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں تو اخبارات مندرجہ حاشیہ میں حلفاًیہ اقرار اپنی طرف سے شائع کردیں کہ ۔۔ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آجاؤں اور انسانی طاقتوں میں اس کا کوئی نمونہ انہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہوجاؤں گا اس اشاعت اور اس اقرار کی اس لیے ضرورت ہے کہ خدائے قیّوم وقدّوس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پوری انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کے لیے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کے لیے قائم رہے گی طالب حق کے لیے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں۔ اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میرے مقدرت کے موافق میرے لیے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں۔’’

(صفحہ338-340)

میر عباس علی صاحب لدھیانوی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے والوں میں سے ایک دوست میر عباس علی صاحب لدھیانوی تھے۔بعض مخالفین کی وسوسہ اندازی سے یہ سخت لغزش میں آگئے اور جماعتِ اعداء میں داخل ہوگئے۔ان کے حوالے سے حضور فرماتے ہیں :‘‘ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ ان کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ أَصْلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ اس کا یہ جواب ہے۔ کہ الہام کے صرف اس قدر معنے ہیں کہ اصل اس کا ثابت ہے اور آسمان میں اس کی شاخ ہے۔۔۔پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے بلاشبہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں۔۔۔علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کا ہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی۔ ۔۔سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی۔۔۔اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے ۔۔۔ میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیّت اور اجنبیّت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق و توہین پیدا ہوگیا۔ عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے۔ کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا۔’’

(صفحہ343-345)

رؤیا میں زیارت رسولؐ کی حقیقت کے متعلق اصولی رہنمائی

میر عباس علی صاحب نے اپنے ایک اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر کرکے تحریر کیا کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے۔اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: ‘‘رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے۔ حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی مبرا ہوسکتی ہے جس میں آنحضرت صلعم کو ان کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے… فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلعم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلعم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے پس اس زمانہ کے لوگوں کے لیے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلعم نے بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلادیں یا بعض قضا وقدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کردیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلادیں جو پہلے قلم بند اور شائع نہیں ہوچکے تو بلاشبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی’’

(صفحہ348-349)

سیرت احمد ؑبزبان احمدؑ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں حضور کی سیرت کے مختلف حسین پہلو جگہ جگہ موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس بابرکت کتاب میں تحریر شدہ بعض ایمان افروز اور روح پرور پہلو درج ذیل ہیں :

عشق الہی

‘‘اے میرے پیارے ہادی!! اگر میں نے ہلاکت کی راہ اختیار کی ہے تو مجھے اس سے بچا اور وہ کام کرا کہ جس میں تیری رضا مندی ہو۔ میری روح بول رہی ہے کہ تو میرے لیے ہے اور ہوگا جب سے کہ تو نے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں ……تیری دل آرام باتیں میرے زخموں کی مرہم ہیں۔ تیرے محبت آمیز کلمات میرے غم رسیدہ دل کے مُفرّح ہیں۔ میں غموںمیں ڈوبا ہوا تھا تو نے مجھے بشارتیں دیں۔ میں مصیبت زدہ تھا تو نے مجھے پوچھا ۔پیارے میرے لیے یہ خوشی کافی ہے کہ تومیرے لیے اور میں تیرے لیے ہوں ۔ ’’

(صفحہ319)

میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں

‘‘میں نادم ہوں کہ نااہل حریف کے مقابلہ نے کسی قدر مجھے درشت الفاظ پر مجبور کیا ورنہ میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔ میں کچھ بھی بولنا نہیں چاہتا تھا مگر بٹالوی اور اس کے استاد نے مجھے بلایا۔ ’’

(صفحہ320)

غیر معمولی شجاعت اور استقامت

‘‘پیارو! یقیناً سمجھو کہ جب تک آسمان کا خدا کسی کے ساتھ نہ ہو ایسی شجاعت کبھی نہیں دکھاتا کہ ایک دنیا کے مقابل پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور ان باتوں کا دعویٰ کرے جو اس کے اختیار سے باہر ہیں جو شخص قوت اور استقامت کے ساتھ ایک دنیا کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے کیا وہ آپ سے کھڑا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ اس ذات قدیر کی پناہ سے اور ایک غیبی ہاتھ کے سہارے سے کھڑا ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام زمین وآسمان اور ہر ایک روح اور جسم ہے سو آنکھیں کھولو اور سمجھ لو کہ اس خدا نے مجھ عاجز کو یہ قوت اور استقامت دی ہے جس کے مکالمہ سے مجھے عزت حاصل ہے۔’’

(صفحہ333)

کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے

‘‘اب بھی یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا۔ کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا۔ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا وے۔ اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رک نہیں سکتیں۔’’

(صفحہ342)

(رپورٹ: ساجد محمود بُٹر۔استاد جامعہ احمدیہ گھانا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button