از افاضاتِ خلفائے احمدیت

ہجرت کرنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک حکم کے بعد دوسرا حکم جس طرف ہمیں لے کر جاتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ بھولو۔ تمہاری دنیاوی کوششیں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں اور نہ کبھی صرف دنیا حاصل کرنے کی غرض سے دنیاوی خواہشات کی تکمیل تمہارا مطمح نظر ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ‘‘مَیں نے جنّ اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لیے ہو جانا ہے’’۔ فرماتے ہیں‘‘ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے۔ کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کیے’’ (یعنی باقیوں کی نسبت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، بہترین قویٰ عنایت کیے)‘‘اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے ’’۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414)

پس جب انسان اس مدّعا کو سامنے رکھتا ہے تو وہ حقیقی مومن بنتا ہے اور دنیا کی حسنات کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔ پس انسان کی ذہنی صلاحیتیں، انسان کی جسمانی قوتیں، انسان کے بہتر مالی حالات موجودہ زمانے کی ایجادات سے یا اَور ان سب باتوں سے انسان کو کبھی غافل نہ کریں۔ نہ صحت، نہ مال، نہ ذہنی صلاحیتیں، نہ جو ہمارے ارد گرد دنیاوی چمک دمک ہے اس بات سے ہمیں غافل کریں کہ ہم اپنے مقصد پیدائش کو بھول جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ احمدیوں کی اکثریت ان ملکوں میں دین کی وجہ سے آئی ہے، مذہبی پابندیوں کی وجہ سے آئی ہے جو اُن کو اپنے ملک میں تھیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ احمدی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک لمبے اندھیرے زمانے کے بعد پھر اسلام کا روشن سورج مسیح موعود کے زمانے میں طلوع ہونا تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں کو بھی اندھیروں سے روشنی کی طرف حقیقی تعلیم اور بدعات سے پاک تعلیم بتا کر لانا تھا اور غیر مسلموں کو بھی اسلام کی حقیقی خوبصورت تعلیم بتانی تھی۔

ان ملکوں میںآ کر اب ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس اہم فریضہ کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر جگہ جہاں احمدی ہیں اپنے ماحول کو بتائیں کہ حقیقی اسلام کیا ہے۔ ہر احمدی کا عمل، اس کے اخلاق، اس کی عبادت کے معیار ایسے ہوں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والے ہوں۔ یہ جہاں احمدیوں کو دوسروں سے ممتاز کریں گے وہاں یہاں کے مقامی لوگوں میں تبلیغ کے راستے کھولنے میں بھی مددگار ہوں گے۔ پس اس بات کو ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہر احمدی کا ایک بہت بڑا مقصد ہے کہ پہلے اس نے خود اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنا ہے اور پھر دوسروں کو اس مقصد پیدائش کو سمجھنے کی طرف توجہ دلانی ہے۔ دنیا کو اس حقیقت سے آشنا کروانا ہے کہ دنیا کی نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے ہیں۔ اس لیے اس میں اعتدال اختیار کرو ورنہ اعتدال سے نکلنے کی وجہ سے تم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہو۔ آج سے چار پانچ سال پہلے دنیا کا اس طرح تباہی کی طرف بڑھنے کا تصور نہیں تھا یا دنیا اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی لیکن آج حالات بالکل مختلف ہیں اور جس تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا کی ترقی انہیں بچا لے گی اور اگر نقصان ہوا بھی تو ایسا کہ ہم پورا کر لیں گے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے جو ایسا سوچتے ہیں۔ جب جنگوں کی تباہی آئے گی یا آتی ہے تو پھر بے شک معاشی لحاظ سے زیادہ مستحکم حکومتیں بھی ہوں تو وہ ملک ان جنگوں کے بعد پھر اپنے آپ کو سنبھالنے کی پہلی کوشش کرتے ہیں اور اب بھی کریں گے۔ یورپ کے بعض ممالک جو کم مستحکم ہیں یہ تو پھر اَور بھی زیادہ برے حالات میں جا سکتے ہیں۔ پس جہاں جہاں بھی احمدی ہیں وہ عملی کوشش اور سب سے بڑھ کر دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لیے ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں۔ اس کے حضور جھک کر ہی اسے راضی کیا جا سکتا ہے۔ ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا ہی اسے دنیا و آخرت کی حسنات کا مالک نہیں بنا سکتا، نہ ہی آگ کے عذاب سے بچا سکتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا زیادہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالا جائے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 06؍اپریل 2018ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button