صحت

ذہنی صحت(Mental Health) (قسط 6۔ آخری)

(ڈاکٹر امۃ السلام سمیع۔ یوکے)

خدا تعالیٰ پر توکل اور اسی پر بھروسہ تو ہر لمحہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے۔ مگر ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد زیادہ تر مذہب کے معاملے میں افراط یا تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف کمزور قوتِ ارادی رکھنے والے لوگ مذہب کوبے جا اور غیر حقیقی ‘خصوصیات’ کا حامل سمجھنے لگتے ہیں اور حقیقت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ جو کام ایک عام انسان کو صحت مند رہنے کے لیے کرنے ضروری ہیں اُن کے لیے ان کا مذہب یا عقیدہ یا پیر فقیر وغیرہ وہ سب کچھ کر دے گا۔ اور اس طرح وہ پریشانی کی دلدل میں اَور زیادہ دھنستے چلے جاتے ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب بعض اپنی لاپروائیوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا ذمہ دار مذہب اور خدا تعالیٰ کو ٹھہرانے لگتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نعوذ باللہ شکوہ پیدا کر لیتے ہیں۔ اس صورت میں بھی سٹریس اور پریشانی میں مزید بڑھنے لگتے ہیں۔

جہاں ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ایک بہترین اسلوبِ زندگی کی طرف رہنمائی فرماتا ہے وہاں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام مذاہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے کسی نہ کسی حد تک زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو کوئی پریشانی کوئی مسئلہ درپیش ہے تو زیادہ تر اس میں مذہب کا قصور نہیں بلکہ اس کے عمل، اس کی سوچ میں افراط و تفریط کا دخل ہوتا ہے۔ بہر کیف مذہبی عقائد ہوں یا دنیاوی معاملات ہر کام کو اعتدال سے کرنا بہتر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ایسی کی ہے کہ جہاں کسی معاملے میں اعتدال کو چھوڑا وہیں مسائل نے اس کو آگھیرا۔

میرے والد صاحب اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحم کے ساتھ ایک حاذق طبیب، ایک ڈاکٹر تھے۔ ان کی زندگی کا بھی یہی نچوڑ تھا کہ اگر ہم اسلام کی بیان فرمودہ تعلیمات اور عبادت کے طریقوں پر جیسا کہ حق ہے عمل کریں تو اوّل تو بیماری سے بچے رہیں گے ورنہ اگر خدانخواستہ بیمار ہو بھی جائیں تو اس کا علاج بہت آسان ہو جائے گا۔ ہر نماز کے ساتھ وضو کرنے، نمازوں کو سنوار کر ادا کرنے، صبح صبح اٹھ کر تہجد پڑھنے، تلاوتِ قرآن کریم کرنے، خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر پڑھنے، صاف ستھرے رہنے میں جہاں روحانی فوائد ہیں وہاں یہ تمام چیزیں انسان کو جسمانی طور پر بھی صحت مند رکھنے میں بہت مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ ریسرچ اور سائنس نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ صحت اور مذہب کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔

بہر کیف انسان اپنا معالج خود نہیں ہو سکتا۔ اس لیے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر آپ کو یہ محسوس ہو کہ آپ ذہنی طور پر تندرست نہیں ہیں تو آپ اپنے معالج سے مشورہ کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ ایک ذہنی مریض کی علامات بے شک بظاہر کسی دوسرے مریض کی علامات سے ملتی جلتی ہی کیوں نہ ہوں، لازمی نہیں کہ ان دونوں کا علاج ایک ہی طرح سے ہو گا۔ مثلاً لازمی نہیں کہ ہر مریض کو بیماری میں دوائی ہی دی جائے گی۔ کیونکہ دوائیاں ہر مریض کا علاج نہیں ہوتیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر مفصل طور آپ سے سوال جواب کرتا ہے یعنی آپ کی ہسٹری لیتا ہے جس میں مریض کے اپنے حالات، خاندانی حالات، ماحول، مشکلات اور ذمہ داریاں سب کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہر علامت کی تفصیل پوچھی جاتی ہے۔ آپ کا جسمانی معائنہ کیا جاتا ہے تاکہ پتہ لگے کہ دوسری جسمانی بیماریاں تو نہیں یا کسی بیماری کی پیچیدگی تو نہیں یا کسی دوائی کا سائیڈ ایفیکٹ تو نہیں کیوں کہ ذہنی بیماری کی علامات بعض دفعہ مخصوص دوائیوں کے استعمال کی وجہ سے بھی ظاہر ہو سکتی ہیں جو آپ کسی دوسری تکلیف کے لیے لیتے ہیں۔ اور یہ بات یقیناً اپ کا معالج ہی بہتر طور پر بتا سکتا ہے۔ وہی بہتر بتا سکتا ہے کہ دوا کی مقدار کو بدلنا ہے یا دوا ہی بدل دینی ہے۔ بعض اوقات مریض گھبراہٹ یا سٹریس میں بار بار کھانا کھاتا ہے ، بار بار پانی پیتا ہے یا بار بار بیت الخلا رفع حاجت کے لیے بھی جاتا ہے اور اس کا منہ بھی خشک رہنے لگتا ہے۔

ذیابیطس میں بھی بعض مریضوں میں ایسی ہی علامات ہو سکتی ہیں ۔ یہ آپ کے معالج کا کام ہے کہ بیماری کی تشخیص کرے۔ بعض دفعہ آپ کسی پریشانی میں لمبے عرصے تک مبتلا رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور آپ کی کوشش سے وہ حل بھی ہو جاتی ہے مگر آپ کی سٹریس کی علامات ٹھیک نہیں ہوتیں۔ یہ لمبا عرصہ پریشانی میں مبتلا رہنے کے منفی اثرات ہوتے ہیں جو پریشانی ٹھیک ہونے کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک چل سکتے ہیں۔ اسی لیے جیسا کہ پچھلی اقساط میں عرض کیا گیا کسی بھی پریشانی کو اپنے اوپر طاری نہ کریں۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے

Disagreement between you and your inner self leads to psychological and mental issues

یعنی آپ کے شعور اور لاشعور کا باہمی اختلاف جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بن جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی ذہنی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے تو شروع میں ہی یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے لائف سٹائل بدلیں، اپنے رہن سہن کے طریق، اپنے ماحول، اپنے سوچنے کے انداز کو بدلنے کی کوشش کریں اور ہو سکے تو سائیکوتھراپسٹ کے ساتھ کچھ سیشن کروائیں۔ یہ آپ کو بغیر دوا کے نارمل زندگی میں واپس لانے میں مدد کرتے ہیں۔ سائیکو تھراپسٹ مریض کو اس کی بیماری سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور سٹریس اور انگزائٹی کی وجوہات کو سمجھنے اور پھر انہیں کنٹرول کرنے کے بارے میں مفید مشورے دیتے ہیں۔ اس کو CBTیا Cognitive Behavioural Theraphyکہتے ہیں۔ اسے آسان لفظوں میں باہمی گفتگو سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے پر مریض کو اپنے Triggerیا انگزائٹی یا سٹریس پیدا کرنے والی باتوں کو کنٹرول کرنے کے طریقے سمجھائے جاتے ہیں۔ اگر علاج شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد معالج محسوس کرے کہ مریض میں تسلی بخش پراگریس نہیں تو تھوڑی مدت کے لیے سٹریس یا انگزائٹی دور کرنے کی دوائیاں دی جاتی ہیں جن کو اینٹی انگزائٹی میڈیسن بھی کہتے ہیں۔ لمبے عرصہ کے لیے ایسی دوائیاں دینا مریض کو دوائی کا عادی بنانے کا باعث ہو سکتا ہے ۔ سٹریس ، انگزائٹی اور ڈپریشن کی دوائیاں مختلف طریقے سے کام کرتی ہیں ۔ بعض دوائیاں مریض کی نیند بڑھاتی ہیں تا کہ ذہن کو آرام ملے اور وہ دوبارہ سکون سے کام کرنے کے قابل ہو۔ بعض دوائیاں سٹریس یا انگزائٹی کے ہارمونز کے بننے اور عمل کرنے پر اثر کرتی ہیں۔ بعض دوائیاں حسّاسیت کا کام کرنے والے خلیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ بعض دوائیں ان کے کام کرنے کے طریقے پر اثر انداز ہوتی ہیں اور بعض دوائیاں مختلف طریقوں کو ملا کر کام کرتیں ہیں۔ ان سب دواؤں کے بد اثرات بھی ہوتے ہیں جو آپ کو ڈاکٹر دوائیں شروع کرنے سے پہلے بتاتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ علامتیں خود بخود کم ہوتی جاتی ہیں۔ اس عرصے کی طوالت ہر مریض کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان دوائوں کو چھوڑنے یاکم مقدار میں لینے کے لیے آ پ کے معالج کا مشورہ بہت ضروری ہے کیونکہ بعض دو ائیا ں چھوڑنے کے سائیڈ افیکٹس یا بُرے اثرات بیماری کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔

ذہنی بیماریوں پر بہت ریسرچ ہو رہی ہے مگر ابھی تک کوئی ایک مکمل طور پر فائدہ پہنچانے والی دوا منظرِ عام پر نہیں آسکی ۔ بعض مریض اپنے معالج کو بتائے بغیر ایلو پیتھی دوائی کی بجائے ہومیوپیتھی، ہربل اور دوسری دوائیاں استعمال کرتے ہیں۔ یہ دوائیاں بھی کچھ حد تک فائدہ مند ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایلوپیتھی دوا اور کسی اور طریقہ علاج کی دوا بنیادی طور پر ایک ہی چیز یا مثال کے طور پر ایک ہی جڑی بوٹی سے تیار کی گئی ہو۔ ایسی صورت میں آپ دوا کی مطلوبہ مقدار سے زیادہ کھا رہے ہوں گے جو بعض صورتوں میں نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً ایک بوٹی ڈپریشن کی دوائیوں کا بنیادی جزو ہے جو لوگ اکثر استعمال کر لیتے ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بے احتیاطی نہ کریں جو آپ کو مزید بیماری کی طرف دھکیل دے ۔

ذہنی بیماریوں کی شدت کے دوران میں بعض دفعہ مریض کو ہسپتال لے جانا پڑتا ہے جہاں ان کو علاج کے لیے داخل کر لیا جاتا ہےکیونکہ بعض دَوروں کی صورت میں مریض اپنے آپ کے لیے اور دوسروں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

ذہنی بیماریاں عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہیں۔ چھوٹے بچے،نو جوان، درمیانی عمر کے لوگ، ادھیڑ عمر لوگ اور بوڑھے سب ہی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس بیماری کا دورانیہ تھوڑا عرصہ بھی ہو سکتا ہے اور ساری عمر بھی۔ ریسرچ نے ثابت کیا کہ ہر پانچ میں سے ایک بچے کو زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ذہنی بیماری رہتی ہے۔ بالکل چھوٹے بچوں کی تربیت کے وقت اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ان کو ضد، ٹینشن اور غصہ کے دَوروں سے بچایا جائے۔ بارہ سال تک کے بچے کی تربیت اس کے آئندہ کے معاشرتی تعلقات اور عمل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے بعد ہارمونز کا اثر اس کے رویوں پر پڑنے لگتا ہے۔ والدین اور بچوں کے سرپرستوں کو ان سب باتوں کا بہت خیال رکھنا چاہیے ۔

تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو بچے اکیلے ہوتے ہیں یعنی ان کا کوئی بہن بھائی نہیں ہوتا اور ان کی سوشل لائف زیادہ نہیں ہوتی ان میں ذہنی بیماری پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اور اگر والدین ان سے دوستانہ رویہ نہ رکھیں تو ذہنی بیماری کی علامات اَور زیادہ نمایاں ہو سکتی ہیں۔ اگر والد دوستانہ رویہ نہ رکھے تو لڑکپن میں لڑکے نشے کی طرف بہت تیزی سے مائل ہو سکتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے لیے نظام جماعت کی طرف سے ذیلی تنظیموں یعنی ناصرات، اطفال، خدام اور ہر عمر کے لیے،ملنے جلنے، کام کرنے، سیکھنے اور سکھانے کے مواقع موجود ہیں ۔ تیرہ سے انیس سال کی عمر کے بچوں کا خاموش رہنا، نیند نہ آنا ، کھانا نہ کھانا ، یا بھوک نہ لگنا ، اپنے کمرے میں بند رہنا، پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا ، ماں باپ کے لیے پریشانی اور فکر کا باعث ہونا چاہیے کہ آپ ان کا جائزہ لیں، پیار کا تعلق اپنے بچے سے بڑھائیں، گھر کا ماحول اگر خدا نخواستہ درست نہیں، والدین یا گھر کے دو افراد کے مزاج میں فرق ہونے کی وجہ سے ہم آہنگی آئیڈیل صورت میں نہیں تو چاہیے کہ اپنے بچوں کی خاطر قربانی کر کے گھر کے ماحول کو ٹھیک کریں اور اگر ضرورت محسوس کریں تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ عورتوں اور مردوں میں ageingکی وجہ سے بھی پریشانی یا انگزائٹی پیدا ہو سکتی ہے۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ (ان چیزوں پر الگ سے مضمون بھی لکھا جا سکتا ہے) اگر کسی وجہ سے بچیوں کی شادی بروقت نہ ہو سکے تو انہیں اس وجہ سے احساسِ ناکامی اور ذہنی پریشانیوں سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مناسب وقت رکھا ہوتا ہے۔ ہمیں دعا کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے لیکن کسی کو ایسی باتوں کا ذمہ دار یا قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ اس سے احساسِ جرم جنم لے گا جو پھر ذہنی بیماریوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔

لڑکوں کو ماں کی محبت اور تربیت کے ساتھ ساتھ باہر کی دنیا کے لیے باپ کے مشورے اور رہنمائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر ملک کے کلچر اور اس کے رہن سہن میں فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ کے بچے کو یہ یقین ہو کہ آپ اس کے ہم درد ہیں تو وہ آپ کی شاید ہی کسی بات کا برا منائے۔ بچوں پر بے جا رعب نہ ڈالیں۔ انہیں اپنا دست و بازو بنائیں۔ اور خدا تعالیٰ کےعطا کردہ ان خوبصورت تحفوں کی تربیت کریں اور بہتر انسان اور بہتر مسلمان بنانے کی کوشش کریں۔

والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچتے بچوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریاں یاد کروائیں اور محبت اور پیار کے ساتھ عفّت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مناسب معلومات دیں اور تلقین کریں۔ اس کا بہترین طریقہ اپنا نمونہ پیش کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس عمر میں پہنچتے بچوں کے خیالات سنیں، ان کے سوالات کے تسلّی بخش جوابات دیں، اگر آپ کو کسی بات کا جواب مستحضر نہیں تو بچوں کے ساتھ مل کر اسے تلاش کریں۔اگر بچے کو اپنے سوالات دبانے کی عادت پڑ جائے تو یہ اس کی ذہنی صحت کے لیے مضر بات ہے۔

ہم جب ساٹھ پینسٹھ سال سے زائد عمر کے ہو جاتے ہیں تو ہمیں اپنی ذہنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں چلنے پھرنے، بازار جانے، مسجد جانے کی عادت پیدا کرنی چاہیے۔ چونکہ زیادہ تر یہ ریٹائرڈ زندگی ہوتی ہے اس لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے کام خود کرنے چاہئیں۔ اس طرح ہم مصروف بھی رہیں گے، خود مختار بھی اور ہمارا بدن بھی صحت مند رہے گا۔

اگر ہماری عمر کے ساتھ ہماری شنوائی پر اثر پڑے اور سننے کے آلہ کی ضرورت ہو تو ہمیں اسے ضرور لگوانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر ہم بھری محفل میں تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔ اور تنہائی ذہنی بیماریوں کی طرف لے جانے میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔

جب ہم زیادہ بوڑھے ہو جاتے ہیں اور کوئی کام کاج بھی نہیں کرتے تو دماغ کو اس طرح جس طرح کہ ہم ساری عمر کرتے آئے ہیں استعمال نہ کرنے کی وجہ ہمیں بھولنے کا عارضہ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ غذا کے لحاظ سے ایک ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ وٹامن بی یاداشت کو بہتر کرنے اور رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔
اسلام کے سکھائے ہوئے اصول قناعت، شکر، مثبت رویہ ہمت، حفظان صحت کے اصولوں پر عمل، روحانی، حتیٰ کہ جسمانی عبادات وغیرہ پر عمل ہمیں صحت مند رہنے میں بہت ممد و معاون ہوتا ہے۔

اچھی ذہنی صحت رکھنے والے لوگوں کو صرف اسی بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ان میں ذہنی بیماریوں کی علامات نہیں پائی جاتیں بلکہ ان کا معاشرتی فرض ہے کہ وہ اپنے سے متعلق لوگوں کی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھیں۔ ان کے معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ اپنے دائرۂ احباب میں باہمی تعاون اور اعتماد کی فضا کو پیدا کریں تا کہ خدانخواستہ اگر کوئی ذہنی لحاظ سے کسی مشکل کا شکار ہونے لگے تو اس کی بروقت مدد کی جاسکے۔

صحت خدا تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا خیال رکھیں۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو صحت سے رکھے ۔ ہر طرح کی روحانی ،دینی اور جسمانی بیماری سے بچائے ۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button