متفرق مضامین

قربِ الٰہی کے ذرائع

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

تقریر جلسہ سالانہ یوکے 2019ء

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں (البقرۃ:187)

میری آج کی تقریر کا عنوان ہے‘‘قربِ الٰہی کے ذرائع’’۔چار الفاظ پر مشتمل یہ موضوع علم و معرفت کا ایک بحرِبیکراں ہے۔ ایک مومن کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور وحدانیت پر کامل یقین ایک مرکزی نقطہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی محبت ایک مومن کی روحانی غذا ہے جس کے بغیر حقیقی زندگی کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ہستی وراءُالورا اور ناپیدا کنار ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کی راہیں بھی اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے:

ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف

جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترےدیدار کا

قربِ الٰہی کےمختلف ذرائع اور راہیں

اللہ تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے اور اس کی صفات بھی اتنی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ۔ اسی طرح قرب الٰہی پانے کی راہیں اور اس کے ذرائع بھی اس قدر متنوع اور وسیع ہیں کہ ان کا احاطہ مختصر وقت میں ناممکن ہے۔ قرآن مجید ، احادیث نبویہؐ ، حضرت مسیح پاک علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کے ارشادات میں ان امور کا بہت کثرت سے ذکر ملتا ہے ۔ معرفت کےاس وسیع سمندر میں سے چند قطرات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔

قربِ الٰہی – مسیح پاک علیہ السلام کے ارشادات

امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قربِ الٰہی کے بنیادی اور دقیق موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیاہے۔ برکت کے طور پر چند پُر معارِف ارشادات پیش کرتا ہوں ۔ توجہ سے سماعت فرمائیں ۔ آپ فرماتے ہیں ۔

٭‘‘خدا تعالیٰ دھوکا کھانے والا نہیں ۔ وہ انہیں کو اپنا خاص مقرّب بناتا ہے جو مچھلیوں کی طرح اس کی محبت کے دریا میں ہمیشہ فطرتاً تیرنے والے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی کی اطاعت میں فنا ہو جاتے ہیں ’’

(ست بچن ،روحانی خزائن جلد10صفحہ 210)

٭‘‘تمام راحت انسان کی خداتعالیٰ کے قرب اور محبت میںہے’’

(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20صفحہ 158)

٭‘‘بڑی بات جو دعا سے حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے ’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 45؍ایڈیشن 2003مطبوعہ ربوہ)

٭‘‘نصرت اور تائید خداتعالیٰ کے مقرّب کا بہت بڑا نشان ہے’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 106؍ایڈیشن 2003مطبوعہ ربوہ)

٭‘‘انسان کی عزت اسی میں ہے اور یہی سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو ’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 106؍ایڈیشن 2003مطبوعہ ربوہ)

قرب ِ الٰہی کیا ہے ؟ یہ حقیقی اور لازوال زندگی کا نام ہے ۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے:

زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں

مقبول بن کے اس کے عزیز وحبیب ہیں

قرب الٰہی کی بنیادی شرط-محبّت رسول

قرب الٰہی کے لحاظ سے ہمارے اس دورِ آخرین میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو عالی مرتبہ اور مقام عطا فرمایا وہ لا ریب فقید المثال اور بے نظیر ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ مقامِ قرب الٰہی آپ کو حضرت خاتَمُ النبییّن محمد مصطفٰے ﷺ کی پیروی اور آپ ﷺسے محبت کرنے کی وجہ سے نصیب ہوا ۔ آپ ابتدائی زمانہ کے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہاھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُولَ اللّٰہِیعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتاہے ۔ ’’

پھرآپ ؑتحریر فرماتے ہیں کہ

‘‘اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط ِاعظم اس عہدہ کی محبتِ رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔’’

( براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598)

جو اعلیٰ مقام اور مرتبہ قربِ الٰہی کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا آپ کی ساری زندگی اس پر شاہدِ نا طق ہے ۔ قربِ الٰہی کی اس کیفیت کا بیان کرتے ہوئے آپ اللہ تعالیٰ سے فرماتے ہیں :

‘‘دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتاہے ۔ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں ، جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں اس وقت تُو مجھے جگاتا ہے اور محبت اور پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میں تیرے ساتھ ہوں اور پھر اے میرے مولیٰ ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میں تجھ کو چھوڑ دوں ۔ ہرگز نہیں ۔ ہر گز نہیں ۔

( بدر11؍جنوری1912ءصفحہ 6)

کیا ہی اعلیٰ مقامِ قرب ہے جو آپ کو محبتِ رسولﷺ کے نتیجہ میں عطا ہوا !

؎ اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

اطاعتِ رسول ؐ

قربِ الٰہی کی معراج رسول پاک ﷺ کی زندگی میں نظر آتی ہے ۔ غزوۂ بدر میں آپ نے دشمنوں کی طرف مٹھی بھر کنکر پھینکے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کرتےہوئےفرمایاوَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال:18)پھر بیعتِ رضوان کے موقع پر جب آپؐ نے اپنا ہاتھ صحابہ کے ہاتھوں پر رکھا تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو بھی اپنا فعل قرار دیتے ہوئے فرمایا یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ (الفتح :11)

خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب پانے کا قطعی اور یقینی ذریعہ یہ ہے کہ اُس مقدس وجود کی اتباع کی جائے جس نے اعلیٰ ترین مقامِ قرب پایا اور جس نے سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کی ۔ خدا تعالیٰ نے اُس وجود ِباجود کو ساری دنیا کے لیے اسوۂ حسنہ اور قابلِ تقلید نمونہ قرار دیا اورپھر اسےکس پیار اور محبت سے فرمایا کہ اے میرے حبیب ! توساری دنیا کے عاشقان ِ زار ،جو قربِ الٰہی کے خواہاں ہیں ،ان کے لیے اعلان کردے کہ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران 32)کہ اگر تم واقعی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہو تو اس دعویٰ کو اس طرح ثابت کرو کہ تم میری پیروی کرو اور ان راہوں پر چلو جن پرچل کر میں نے یہ دولت پائی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم سے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میرا پیارا خدا تم سے بھی محبت کرنے لگ جائے گااور میری اطاعت کی راہوں پر چلنے کی برکت سے تم بھی قرب ِالٰہی کی برکتوں سے مالا مال ہوجاؤ گے!

حبیب ِخدا ﷺ کی زبان ِ مبارک سے یہ نوید سن کر آپؐ کے جاں نثار صحابہ نے جس طرح والہانہ لبیک کہا اور ایک ایک بات میں بلکہ ایک ایک اشارہ پر جس طرح رسولِ مقبول ﷺ کی اطاعت کا نمونہ دکھایا وہ تاریخ عالَم میں فقید المثال ہے۔ ذرا اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔

٭رسول ِ مقبول ﷺ نے ایک موقع پر قربانی کے لیے بلایا ۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک تو اپنی متاع ِحیات کا آدھا حصہ لے کر آگیا اور دوسرے نے اپنا ساراگھر خالی کردیا۔ ارشاد سنتے ہی سب کچھ لاکر آقا کے قدموں پر نثار کر دیا۔

٭حرمت ِشراب سے پہلے شراب نوشی کا دور جاری تھا ۔ کانوں میں آواز آئی کہ رسولِؐ خدا نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔ کسی نے کہا کہ پتہ توکر لیں کہ کیا واقعی ایسا ہے ۔ دوسرا اٹھا اور لاٹھی سے شراب کے مٹکوں کو چکنا چور کر دیا اور شراب گلیوں میں بہنے لگی۔

٭مسجد میں کچھ لوگ کھڑے تھے۔رسولِ خدا ﷺنے انہیں فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ۔ ایک صحابی نے یہ ارشاد سنا تو مسجد سے باہر ہی فوراً بیٹھ گئے اور رینگتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ کسی نے کہا کہ آپ تو مخاطب نہیں تھے۔ کہا کہ جب کانوں نے ایک حکم سن لیا ہے توپھر میرا کام صرف اطاعت کرنا ہے!
اطاعت کے پیکر، ان صحابہ کرام نے اطاعتِ رسول ؐ کے اِسی دروازہ سے گزر کر روحانیت کے بلند درجات پائے اور قرب ِالٰہی کی ایسی دولت ان کو نصیب ہوئی کہ خدائے ذوالجلال نے جیتے جی ان کو یہ خوشخبری سنا دی کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُم(البیّنہ:9)کہ خدا ان سے راضی اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے ۔
یاد رہے کہ اطاعت ِرسول کا یہ عظیم الشان دروازہ آج بھی کھلا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدۂ برحق آج بھی قربِ الٰہی کے ہر متلاشی کے لیے موجود ہے ۔اس دور میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بھی اسی دروازہ سے گزر کر قربِ الٰہی کی دولت پائی اور مسیح موعود اور امام مہدی کا عظیم رتبہ آپ کو عطا کیا گیا۔ آپؑ نے کیا خوب فرمایا :

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا

وہ جس نے حق دکھایا،وہ مہ لقا یہی ہے

اطاعت ِرسولِؐ خدا سے آپ نے قربِ الٰہی کا شیریں ثمر کھایا اور پھر آپ کی بتائی ہوئی راہوں اور نمونے پر چل کر جماعت احمدیہ کے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقربان الہی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔

آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے

لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے

قرب ِ الٰہی کا ایک اور ذریعہ۔

صفاتِ باری تعالیٰ پر غوروفکر

قرب ِالٰہی کاایک ذریعہ صفات الٰہیہ پرمسلسل غور کرنا ہے۔ صرف صفات الٰہیہ کےالفاظ کی ادائیگی مراد نہیں بلکہ اُن صفات پر گہری نظر سے غوروفکر کرنا مراد ہے۔ واقعاتی دنیا میں اتر کر ان صفات باری تعالیٰ پر غور کرنے اور عملی زندگی میں ان کے مشاہدہ سے دلوں میں ایک یقین ِکامل پیدا ہوتا ہے جو ایسے سالک کو قربِ الٰہی کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے۔

قرب الٰہی کا یقینی ذریعہ۔ ذکرِ الٰہی

قربِ الٰہی اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے سب سے مقدم عرفانِ الٰہی کا حصول ہے ۔ کسی چیز کا عرفان دو طرح سے حاصل ہوتا ہے۔ اس چیز کے حسن اور احسان کے صحیح ادراک سے اور یہ وہ نعمت ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے صفاتِ باری تعالیٰ کا ورد کرنا اور اپنے لمحات ذکرِ الٰہی سے معمور رکھنا لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےفَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ (البقرۃ:153)کہ اے قربِ الٰہی کے طالبو! تم میرا ذکر کرتے رہا کرو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میں بھی تمہیں یاد کرنے لگ جاؤں گااور اپنے قرب کی نعمت سے تمہارے دامن بھر دوں گا۔ذکرِ الٰہی قرب ِالٰہی کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہےالَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ(آل عمران:192)کہ حقیقی مومن اور خدا کاقرب پانے والے وہ لوگ ہیں جو ہر حالت میں خواہ وہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں یا لیٹے ہوں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔

ایک دوسری جگہ اللہ نے ذکر کی تاکید کرتےہوئے فرمایا ہے یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡالَاتُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (المنافقون:10)کہ اے مومنو! یاد رکھو کبھی بھی تمہارے اموال یا اولادیں تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کریں کیونکہ ذکرِ الٰہی سے غفلت سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور ایسا شخص قربِ الٰہی کی نعمت سے محروم ہوجاتاہے۔

ذکر الٰہی کی اہمیت اور ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ نے کیا خوب فرمایا ہے:

عادتِ ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں

دل میں ہو عشق ِصنم لب پہ مگر نام نہ ہو

ذکرِ الٰہی اور درود کا شیریں پھل

جماعت احمدیہ میں قرب الٰہی اور تصوف کے میدان میں حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓکو ایک خاص مقام حاصل تھا ۔ آپ نے یہ مقام کس طرح حاصل کرنے کی سعادت پائی ؟ اس کے ایک ذریعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک بار اپنی مجلسِ عرفان میں ہدایت فرمائی کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ہر نماز کے فرضوں کے بعد بارہ دفعہ سبحان اللّٰہ وبحمدہ، سبحان اللّٰہ العظیم اور بارہ دفعہ درود شریف پڑھا کریں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نےبھی یہ نصیحت سن کر اسی دن سے اس پر باقاعدہ عمل شروع کر دیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس عمل سے مجھے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے تصفیہ ٔقلب اور تجلی ٔروح کے ذریعہ ایک عجیب قسم کی انارت محسوس ہونے لگی اور جس طرح آفتاب و مہتاب کی روشنی کو آنکھ محسوس کرتی ہے اس طرح میرا قلب دعا کے وقت اکثر کبھی بجلی کے قُمقمے کی طرح اور کبھی گیس لیمپ کی طرح منور ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا وجود سرسے پاؤں تک باطنی طور پر نورانی ہو گیا ہے !

(حیات قدسی حصہ پنجم ، صفحہ 129)

یہ ایک ایسا روحانی تجربہ ہے جس کے متعدد چشم دید گواہ آج بھی اس مقدس اجتماع میں موجود ہوں گے!

قربِ الٰہی کے لیے دعا

یاد رکھنا چاہیے کہ قربِ الٰہی پانے کے لیے مسلسل مجاہدہ اور محنت کی ضرورت ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا کو پانا خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ قرب کی راہیں لامحدود ہیں ۔ جب تک خدا تعالیٰ خود انسان کا ہاتھ نہ پکڑ لے ، منزل کا حصول ممکن نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذریعہ دعا بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو

اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلاؤ سب کمندوں کو

قربِ الٰہی کا ذریعہ۔ قرآن مجید

قربِ الٰہی پانے کے لیے آزمودہ نسخوں میں سے ایک قطعی ذریعہ قرآن مجید ہے ۔ یہ مقدس کتاب جو اوّل تا آخر اللہ تعالیٰ کے مقدّس کلام پر مشتمل ہے ایسی پاک تاثیرات اپنے اندر رکھتی ہے کہ سالک کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں لے جاتی ہے اور جو کوئی بھی اس کتاب ِ ہدایت سے فیض حاصل کرتا ہے وہ قربِ الٰہی کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کے فیض کا دریا جاری و ساری ہے اور آج بھی قربِ الٰہی کا ایک اوّلین اور مجرّب ذریعہ ہے۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے… ایک عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہوجاتا ہے … اور ایک لذیذ محبت ِالٰہی جو لذّتِ وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے۔’’

(سرمۂ چشم آریہ ۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 31حاشیہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں…سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھواور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو…تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے’’

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26-27)

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو ایک بار الہام ہوا :اَلْخَیْرُ کُّلُّہُ فِي الْقُرْآنکہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن مجید میں ہیں ۔ ہر روز صبح کے وقت اس مقدس کتاب کی تلاوت کرنا ذہنِ انسانی کو جِلابخشتا ہے ۔ قرآن مجید مومن کا ایسا دستورالعمل ہے جس کے بغیر قربِ الٰہی کا تصور بھی ناممکن ہے۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنے والی ہے کہ
‘‘قرآن مجید کو مہجور کی طرح نہ چھوڑدو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے’’

(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13)

قربِ الٰہی کے حصول کی دعا

اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کا ایک بہت اہم اور بنیادی ذریعہ محبت الٰہی کے حصول کی دعا کرنا ہے جو ساری کامیابیوں کی جڑ ہے ۔ باقی ذرائع کی کامیابی کا انحصار بھی اسی دعا پر ہے ۔ پس مومن کا فرض ہے کہ دعا کا وہ انداز اختیار کرے جو ہمارے پیارے آقا ، حبیبِ خدا ﷺ کا انداز تھا۔حدیثوں سے ثابت ہے کہ ہمارے آقا محمد عربی ﷺ اس طرح پر دعاکیاکرتے تھے کہ اَللّٰہُمَّ ار زُ قِني حُبَّکَ یعنی اے میرے خدا ! مجھے اپنی محبت عطا فرما وَ حُبَّ مَن اَحَبَّکَاور اے خدا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں میرے دل میں اُن کی محبت بھی ڈال دے وَ حُبَّ مَا یُقَرِّ بُنِی اِ لَیکَ اور ان کاموں کی اور ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی اور ان قربانیوں اور نیکیوں کی بھی میرے دل میں محبت ڈال دے جن سے تیری محبت پیدا ہوتی ہے وَ اجعل حبّک احبّ الیّ من الماء البارد اور اے میرے ربّ! اپنی محبت میرے دل میں اُس سے بھی زیادہ پیدا کردے جتنی شدید گرمی کے موسم میں انسان کو ٹھندے پانی کی محبت ہوتی ہے۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ یہ وہ دعا ہے جو رسول کریم ﷺ مانگا کرتے تھے اور جس کا دوام انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے ۔ اور اسی دعا کے التزام سے قرب الٰہی کی دولت نصیب ہوتی ہے!

(بحوالہ تعلق باللہ جلد23صفحہ 219-218)

قربِ الٰہی کا بنیادی ذریعہ۔ پنجگانہ نماز، نماز تہجد اور نوافل

خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا زینہ اور ایک قطعی ذریعہ اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق عبادات بجا لانا ہے جن میں سرفہرست پانچ وقت کی نمازیں بلاناغہ ادا کرنا ہے۔ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا ہے قرۃ عینی فی الصلوٰۃ کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ پھرآپ ؐنے فرمایا ہے الصلوٰۃ عمادالدین کہ نماز تو درحقیقت دینِ اسلام کا ستون ہے اور یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے پہلے قیام نماز کے بارہ میں حساب کتاب ہوگا۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بھی اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

‘‘ جوشخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے…’’

(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 19)

نماز اور قربِ الٰہی کے تعلق میں آپؑ نے فرمایا:

‘‘صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ قرب کی کنُجی ہے’’

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 348-347)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک اِقام ُالصلوٰۃ نہ کرے’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 346)

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی خلافتِ راشدہ کے پہلے دن سے اقامۃ الصلوٰۃ کی تلقین اتنی بار فرمائی ہے کہ اس کاشمارممکن نہیں۔ ایک ارشاد پیش کرتا ہوں جو بہت توجہ سے سننےاور یاد رکھنے کے لائق ہے۔ آپ نے فرمایا:

‘‘ہر وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننا چاہتا ہے، اس کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو پاک رکھنا چاہتا ہے ، شیطان کے حملوں سے بچنا چاہتا ہے توا س کے لیے ایک ہی ذریعہ ہے کہ عبادت کی طرف توجہ دے اور اس کے لیے سب سے ضروری چیز نماز باجماعت کی ادائیگی ہے۔’’

(خطبات مسرورجلد اول صفحہ 24)

قربِ الٰہی پانے کے لیے پنجگانہ نماز کے التزام کے ساتھ ساتھ اگلے قدم کے طور پر نماز ِ تہجّد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے ۔ قربِ الہی کے روحانی سفر میں نماز تہجد کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنو! تم رات کے ایک حصہ میں نماز تہجد بھی ادا کیا کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقامِ محمود پر فائز کردے ۔(سورۃ بنی اسرائیل آیت80)
عبادات کے اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے طوعی نوافل کا مقام آتا ہے ۔ نوافل کی اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ قربِ الٰہی کے طالب کے لیے نوافل ادا کرنے سے یہ منزل آسان ہوجاتی ہے ۔ حدیث نبویؐ کے الفاظ اس طرح پر ہیں کہ

‘‘قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گاوہ نماز ہے… اگر اس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو! میرے بندے کے کچھ نوافل بھی تو ہیں ۔ اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی اُن نوافل کے ذریعہ پوری کردی جائے گی’’

(ترمذی کتاب الصلوٰۃ)

قربِ الٰہی کاایک قطعی اور یقینی ذریعہ حدیث قدسی میں بیان ہواہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (گویا یہ حدیث قدسی ہے)میرا بندہ جتنا میرا قُرب اس چیز سے ، جو مجھے پسند ہے اور مَیں نے اس پر فرض کر دی ہے ، حاصل کرسکتا ہے اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میرے قریب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے ، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ یعنی میں ہی اس کا کارساز ہو جاتا ہوں اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ۔

(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع)

قربِ الٰہی کا ایک اور ذریعہ۔ شرائط بیعت

قربِ الٰہی پانے کے ذرائع کا ذکر جاری ہے ۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو دس شرائط بیعت مقرر فرمائی ہیں وہ درحقیقت قربِ الٰہی کے دس زینے ہیں۔

حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت خامسہ کے آغاز میں ہی ان دس شرائط بیعت کے حوالہ سے خطباتِ جمعہ کا ایک سلسلہ شروع فرمایاجو کتابی صورت میں شائع شدہ ہیں۔ یہ خطبات ایک احمدی مومن کے لیے جو قربِ الٰہی کا طلبگار ہوایک مستقل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایمان افروز کتاب قربِ الٰہی کے طریق بتانے والی ، غافل انسان کو بیدار کرنے والی ، ایک احمدی کو سچا اور باعمل مسلمان بنانے والی اور قربِ الٰہی کی منزلوں کو آسان کرنے والی ہے۔ دس شرائط بیعت کی یاددہانی کے لیے ایک لاجواب کتاب ہے جسے ہمیشہ زیر مطالعہ رکھنا چاہیے۔

قربِ الٰہی کے مختلف ذرائع

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر فرمودہ کتب کا مطالعہ بھی قربِ الٰہی کے حصول کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے یہ نکتۂ معرفت بیان فرمایا ہے کہ جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کتابوں کے پڑھنے والوں پر بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اس طرح وہ قربِ الٰہی کا شیریں پھل پاتے ہیں۔

قرب ِالٰہی کا ایک اور ذریعہ اُن مقدس مقامات کی زیارت کرنا ہے جو خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں کا مسکن رہے ہیں۔ اس لحاظ سے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ، قادیان دارالامان، ربوہ دارالہجرت اور ہر وہ مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ کا مسکن ہے۔ میری مراد انگلستان کے اسلام آباد سے ہے جو آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ کا نیا عالمگیر مرکز ہے۔

حسب ِاستطاعت اِن مقدس مقامات کی زیارت کرنے سے اور وہاں جاکرعاجزانہ دعائیں کرنے اور کثرت سے درود شریف کا ورد کرنے سے انسانی قلوب میں ایسی روشنی اور ایمانی کیفیت حاصل ہوتی ہے جو قربِ الٰہی کی نعمت سے سرفراز کردیتی ہے۔

قربِ الٰہی کی ایک راہ ۔ مخلوق خدا سے حسنِ سلوک

حضرات!حدیثِ نبویؐ میں آتا ہے کہ الخلق عِیَالُ اللّٰہکہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہے ۔ اللہ کو وہ شخص بہت پسند ہے جو خدا کی مخلوق سے حسنِ سلوک کرتا ہے۔ انسانوں کے علاوہ چرند پرند اور حیوانات بھی اس میں شامل ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے ایک پیاسے کتے کو دیکھا جو کنویں کے گرد چکر لگا رہاتھا ۔ وہ عورت کنویں کے اندر اتری ، اپنے جوتے میں پانی بھر کر لائی اور پیاسے کتے کو پلایا۔ اس نیکی پر خدا تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

جہاں تک انسانوں سے ہمدردی کا تعلق ہے ۔ ہر ایک انسان سے بغیر کسی تفریق کے حسن سلوک کرنا نیکی کی ایسی راہ ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کی محبت اور قربت عطا کرتی ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روزبعض بندوں سے کہے گا کہ جب میں بھوکا تھا توتم نے مجھے کھانا کھلایا؟جب میں پیاسا تھا تو تم نے مجھے پانی پلایا اور جب میں بیمار تھا تو تم نے میری عیادت کی ؟ بندے کہیں گے کہ خدایا!تُو کب بھوکا ہوا کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے، تُوکب پیاساتھا کہ ہم تجھے پانی پلاتے ۔ تُو کب ننگا تھا کہ ہم تجھے کپڑے پہناتے ، تُو کب بیمار ہوا کہ ہم تیری عیادت کرتے ۔ تب اللہ تعا لیٰ فرمائے گا کہ دیکھو دنیا میں میرے کچھ بندے ایسے تھے جو بھوکے اور پیاسے اور ننگے اور بیمار تھے اور تم نے ان کی خدمت کی ۔ پس گو تم نے میرے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیامگر یہ ایسا ہی تھا کہ گویا تم نے مجھ سے یہ سلوک کیا۔ پس خدا کی ساری مخلوق سے ہمدردی اور حسنِ سلوک کرنا ایسی نیکی ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت اور قربت عطا کرتی ہے!

(بحوالہ تعلق باللہ صفحہ 183، 184، انوارالعلوم صفحہ 23)

قربِ الٰہی کی خاطر مسلسل مجاہدہ

قربِ الٰہی کا سفر کوئی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ اوّل تا آخر مسلسل مجاہدہ کا سفر ہے۔ توکل علی اللہ ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا صحیح استعمال ، تبلیغ اسلام کا جہاد کرنا ، راہِ خدا میں زندگی وقف کرنا، صحبتِ صالحین اختیار کرنا ، انفاق فی سبیل اللہ، ہر نعمت پر اللہ کاشکر ادا کرنا ، وقت کی قربانی ، عاجزی اور خاکساری اختیار کرنااور جملہ اسلامی تعلیمات کی پوری پوری پیروی کرنا، عاجزانہ راہیں اختیار کرنا یہ سب باتیں اس مسلسل جہاد کا حصہ ہیں۔ ان پر استقلال سے قائم رہتے ہوئے اور ان سب راہوں پر چل کر قربِ الٰہی کا حصول ایک مومن کا زندگی بھرکا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔

تقویٰ شعاری کی ایک مثال

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض سے جن لوگوں نے قرب الٰہی کا شیریں پھل کھایا ان میں سے ایک حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ تھے ۔ آپ کی زندگی ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جس سے پتہ لگتا ہے کہ قرب پانے والے کس طرح تقویٰ شعاری اورعِفّت سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔

حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں ایک بار ایک مخلص احمدی کے اصرار پر رات ان کے ہاں گزارنے کا موقع ملا ۔ اتفاق سے اس دوست کو ایک بہت ضروری کام کے لیے گھر سے باہر جانا پڑا ۔ جاتے ہوئے اس نے اپنے گھر میں میری مہمان نوازی کےمتعلق مناسب تلقین کر دی ۔ جب وہ گھر سے باہر چلا گیا تو اس کی بیوی نے جو بہت خوبصورت اور نوجوان تھی دروازہ کے پیچھے سے مجھے آواز دی کہ میں آپ کا جسم دبانے کے لیے اندر آنا چاہتی ہوں ۔کیا اجازت ہے ؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو غیر محرم مرد کو ہاتھ لگانا سخت گناہ ہے اس لیے آپ اپنے کمرہ میں رہیں اور میرے قریب آنے کی جرأت نہ کریں ۔ اس پر اس عورت نے پھر اپنی غلطی پر اصرار کیا ۔ میں نے پھر وہی جواب دیا۔
آخر جب میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ عورت اپنے بد ارادہ سے باز نہیں آئے گی تو میں نے وضو کیا ۔ پاس ہی مصلّی پڑا تھا۔ اس پر نماز پڑھنی شروع کر دی اور نماز کے رکوع و سجود کواتنا لمبا کیا کہ اس حالت میں صبح ہو گئی ۔ اس کے بعد میں نے صبح کی نماز ادا کی اور پھر مجھے اتنی نیند آئی کہ میں جائے نماز پر ہی سو گیا اور سوتے میں خواب میں دیکھا کہ میرا منہ چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہے اور ایک فرشتہ مجھے یہ کہتا ہے کہ یہ تمام فضل تیرے اِس مجاہدہ اور خشیۃ ُاللہ کی وجہ سے ہوا ہے اور اِس وجہ سے کہ آج رات تو نے تقویٰ شعاری سے گذاری ہے !

(بحوالہ حیاتِ قدسی حصہ دوم صفحہ 38)

یہ واقعہ ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے ۔ اس میں ایسا درسِ نصیحت ہے جو قربِ الٰہی کی نعمت عطا کرتا ہے !

پاک دامنی کاایک اور واقعہ

مشکل سے مشکل حالات میں بھی تقویٰ شعاری اور عفت وپاک دامنی اختیار کرنا مقربان الٰہی کا شعار ہے ۔ اس کا ایک اورسبق آموز نمونہ کچھ اس طرح ہے کہ لندن کے ایک قدیم مخلص احمدی مکرم عبدالعزیز دین صاحب پرانے فرنیچر سٹور کے مالک تھے ۔ آپ لمبے قد کاٹھ کے خوبرو نوجوان تھے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون ان کے سٹور پر آئیں ۔ کچھ فرنیچر خریدا اور اسے ان کے گھر پہنچانے کے لیے اپنا پتہ دے گئیں۔ فرنیچر کی قیمت گھر پر ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ مکرم عزیز دین صاحب کی روایت ہے کہ اگلے روز جب میں فرنیچر لے کر دیے گئے پتہ پر گیا تو ایک خوش شکل نوجوان لڑکی گھر سے باہر آئی اور کہا کہ میری والدہ اس وقت گھر پر نہیں البتہ فرنیچر کی طے شدہ رقم وہ مجھے دے گئی ہیں ۔ آپ فرنیچر تہ خانہ میں رکھوا دیں۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ فرنیچر تہ خانہ میں رکھ دینے کے بعد قیمت کی وصولی کے انتظار میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا کہ چند منٹ کے بعد وہی نوجوان لڑکی بغیر کسی لباس کے ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ یہ صورت حال میرے لیے سخت پریشانی کا باعث تھی ۔ میں نے استغفار کیا اور فوری طور پر گھر سے بھاگ جانے کا عزم کر لیا اور سخت گھبراہٹ کے عالم میں ، فرنیچر کی قیمت کی پرواہ کیے بغیر اتنی تیزی سے بھاگا کہ سر دروازہ سے جا ٹکرایا اور ایک کاری زخم آیا جس سے خون جاری ہوگیا۔ گھر سے باہر جا کر میں نے دم لیا اور سیدھا اپنی دکان پر واپس آگیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے اس عظیم ابتلا سے بچا لیا ۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے ماتھے پر اِس زخم کا نشان کئی سالوں تک قائم رہا اور لمبے عرصہ تک حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کی یاد دلاتا رہا!

یہ واقعہ آج بھی بالخصوص مغربی دنیا میں رہنے والے نوجوانوں کے لیے روشنی اور ہدایت کا ایک عظیم مینار ہے!

قربِ الٰہی پانے والے بزرگان کے چند واقعات

حضرات !حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے صحابہ میں قربِ الٰہی کی دولت پانے والوں کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے جن سے خدا تعالیٰ بولتا اور قدم قدم پر ان کی مدد اور راہنمائی فرماتا تھا۔ ان مقدّس مقرّبان الٰہی کی چند اورمثالیں ازدیاد ایمان کے لیے اور دلوں میں قربِ الٰہی کی تمنا بیدار کرنے کے لیے پیش کرتا ہوں۔

مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کے کچھ صحابہ جمع تھے۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید بھی وہاں موجود تھے ۔کسی ضرورت کے پیش نظروہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ذرا باہر گئے۔ اتنے میں حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ تشریف لائے اور خالی جگہ دیکھ کرحضرت صاحبزادہ صاحب کی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ جب حضرت صاحبزادہ صاحب واپس آئے تو کچھ غصہ کے انداز میں کہا کہ مولوی صاحب آپ کو معلوم نہیں کہ دوسرے کی جگہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے!حضرت مولوی صاحب اس جگہ سے اٹھنے ہی والے تھے کہ فوراً صاحبزادہ صاحب نے کہا :نہیں نہیں آپ بیٹھے رہیں۔ ابھی ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ

‘‘اللہ کے پیارے بندوں سے نہیں جھگڑتے’’

(بحوالہ الحکم 28؍ اکتوبر 1909ء)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان کرتے ہیں:

‘‘بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت ﷺ کی زیارت بھی کروا سکتے ہیں ۔ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لیے مناسبت شرط ہے اور پھر میری طرف منہ کرکے فرمایا : ‘‘یاجس پر خدا کا فضل ہوجائے’’۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اسی رات میں نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا!’’

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 140)

ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓدارلضعفاء یا نور ہسپتال کے چندہ کے لیے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ؓنے فرمایا : میرے پاس اس وقت کچھ نہیں ۔ مگر حضرت میر صاحب نے کئی بار اصرار کیا۔اس پر حضورؓ نےکپڑا اٹھایا اور وہاں سے ایک پاؤنڈ اٹھا کر دے دیا اور فرمایا:
‘‘ اس پر صرف نورالدین نے ہاتھ لگایا ہے۔’’

(تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 556)

گویا یہ اُسی وقت خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ کسی انسان نے نہیں دیا تھا۔

حضرت مولوی فضل دین صاحب نے بیان فرمایاکہ

‘‘ایک دن حضرت مولانا غلام رسول صاحب ؓ راجیکی مجھے ہمراہ لے کے ایک پھل فروش سے پھل خریدنے لگے۔ میرا دل چاہا کہ انگور بھی خریدیں۔ انہوں نے کئی قسم کے پھل خریدے لیکن انگور نہ خریدے اور چل پڑے۔ تھوڑی دور جاکر یک دم پلٹے اور پھر پھل فروش کی دکان پر جاکر انگور خریدے اور گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستہ میں آپ نے مجھ سے فرمایا کہ‘‘اگر انگور ہی لینے تھے تو خود ہی کہہ دیا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سے کیوں کہلوایا؟’’

(بحوالہ روزنامہ الفضل جنوری 1995ء)

قربِ الٰہی کے لیے حَبْلُ اللہ کو پکڑو

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ عالمگیر کو ایک ایسی روحانی نعمت عطا فرمائی ہے جو کسی اور جماعت کو نصیب نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافتِ راشدہ احمدیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور میں اس عالمگیر خلافت کا روحانی تاج سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک سر پر رکھا ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ

ایک عالَم جل رہا ہے دھوپ میں بے سائباں

شکر ہے مولیٰ! ہمیں یہ سایۂ رحمت ملا

خلافت احمدیہ ایک روحانی سائبان ہے ۔ خلیفہ وقت کا بابرکت وجود ایک عالمگیر روحانی مقناطیس ہے جس کی روحانی کشش اور فیض کا دائرہ دنیا کے 213 ملکوں کے کروڑوں احمدیوں تک پھیل چکا ہے اور دن بدن پھیلتا چلا جارہا ہےوَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَ لَا تَفَرَّ قُوا (آل عمران :104) کے مطابق ساری دنیا کے احمدی خلافتِ احمدیہ کے بابرکت سایہ میں عالمگیر وَحدت کا بے مثل نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

اے سننے والو سنو!کہ آج امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسروراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مقام حاصل ہے کہ آپ کا وجود ساری دنیا میں ایسامقدس ترین وجود ہے جس کو قبولیت دعا کا اعجازی نشان دیا گیا ہے اور آپ پر خدائی تائیدات اور فتوحات کی بارش دن رات برستی ہے۔ ان عالمگیر فتوحات کے دائرے لمحہ بہ لمحہ وسیع تر ہوتے جاتے ہیں اور قبولیتِ دعا کے عینی شاہدین بھی ہزاروں کی تعداد میں آج اس مقدس جلسہ میں موجود ہیں !

میں ببانگِ دُہل کہتا ہوں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس زمانہ میں حَبْلُ اللہ کے حقیقی مصداق ہیں اور اس دور میں اللہ تعالیٰ کے اِس محبوب ترین اور مقدس ترین وجود سے روحانی تعلق پیدا کرنا قربِ الٰہی پانے کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ ہے ۔ آج خلیفۂ وقت کے دامن سے وابستہ ہونا حَبْلُ اللہ تھامنے کے مترادف ہے ۔ خلافتِ احمدیہ وہ حَبْلُ اللہ ہے جو بندہ کو اللہ تعالیٰ سے ملاتی ہے ۔ پس خوش نصیب ہیں ہم کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ وسیلہ عطا فرمایا ہے جو قربِ الٰہی پانے کا ایک جیتا جاگتا ذریعہ ہے!

اختتامیہ

قربِ الٰہی کے ناپیداکنار سمندر کے چند قطرات اور قربِ الٰہی کی چند مثالیں پیش کرنے کے بعد میں اپنی گزارشات کا اختتام حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ سے کرتا ہوں جن میں آپ نے اپنے درختِ وجود کی سرسبز شاخوں کو ، ہاں! ہم سب کو مخاطَب کرتے ہوئے قربِ الٰہی کے حوالہ سے ایک زندگی بخش پیغام دیا ہے جو خاص توجہ سے سننےوالا اور ہمیشہ یاد رکھنے والا ہے۔ آپؑ نے فرمایا:

‘‘کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادرہے ۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ہماری لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی ۔ یہ دولت لینے کے لائق ہےاگرچہ جانے دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو ! اس چشمہ کی طرف دوڑو ۔کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا ۔یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا ۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں ۔ کس دف سے مَیں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں۔ اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لیے لوگوں کے کان کھلیں۔’’

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 22-21)

پھر آپ فرماتے ہیں:

‘‘ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کیے جاؤ۔
تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے ۔ اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کی توجہ نہیں ۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں’’

(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309-308)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق اور سعادت عطافرمائے۔ آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button