خطبہ جمعہ

’’جمعے کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔‘‘ خطبہ جمعہ 16؍ اگست 2019ء

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 16؍ اگست 2019ء بمطابق 16؍ ظہور 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن، سرے۔یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج میں بدری صحابہ کا ذکر کروں گا جوگذشتہ کافی عرصے سے چل رہا ہے ۔

جو پہلا ذکر ہے وہ حضرت قتادہ بن نعمان انصاریؓ کا ہے۔ حضرت قتادہؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ظفر سے تھا۔ ان کے والد کا نام نعمان بن زید اور والدہ کا نام اُنَیسہ بنت قیس تھا۔ حضرت قتادہؓ کی کنیت ابو عمر کے علاوہ ابو عمرو اور ابو عبداللہ بھی بیان کی جاتی ہے۔ حضرت قتادہؓ حضرت ابو سعید خدریؓ کے اخیافی بھائی تھے یعنی والدہ کی طرف سے بھائی تھے۔ حضرت قتادہؓ کو ستر انصاری صحابہ کے ہمراہ بیعتِ عقبہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ البتہ دوسری روایت جو علامہ ابن اسحاق کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ عقبہ میں شامل ہونے والے انصاری صحابہ میں یہ نہیں تھے یا انہوں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا۔
حضرت قتادہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ تیر اندازوں میں سے تھے اور غزوۂ بدر، احد، غزوۂ خندق اور بعد کے دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شمولیت کی توفیق ملی۔ غزوۂ احد کے روز حضرت قتادہؓ کی آنکھ پر تیر لگا جس سے ان کی آنکھ کا ڈیلا بہ کر باہر آ گیا ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! یہ تیر لگا ہے تو میرا ڈیلا باہر آ گیا ہے اور بات یہ ہے کہ میں اپنی بیوی سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ اگر اس نے میری آنکھ کو اس طرح دیکھا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈیلے کو اپنے ہاتھ سے واپس رکھ دیا اور صحیح جگہ پر قائم ہو گیا اور بینائی لوٹ آئی۔ اور بڑھاپے میں بھی دونوں آنکھوں میں سے یہ والی آنکھ زیادہ قوی اور زیادہ صحیح تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنکھ میں اپنا لعاب لگایا تھا اس کے نتیجے میں وہ دونوں میں سے حسین تر ہو گئی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء الثالث صفحہ239 ومن بنی ظفر…… قتادۃ بن النعمان داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد4صفحہ370-371،قتادہ بن نعمان،دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)

حضرت قتادہؓ بیان کرتے ہیں، یہ خود انہوں نےاس واقعہ کی اپنی تفصیل بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کمان بطور ہدیہ دی گئی تو وہ غزوۂ احد کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمائی۔ میں اس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تیر چلاتا رہا یہاں تک کہ اس کا وَتر یعنی کمان کی جو ڈور ہوتی ہے وہ ٹوٹ گئی۔ میں اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کے سامنے رہا۔ عموماً حضرت طلحہؓ کا ذکر ہوتا ہے۔ ان کا بھی ذکر ہے۔ کہتے ہیں مَیں سامنے کھڑا رہا۔ جب بھی کوئی تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آتا تو میں اپنا سر اس کے آگے کر دیتا تا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے لیےڈھال بن سکوں۔ اس وقت میرے پاس کوئی تیر نہیں تھا جسے میں چلا سکتا۔ اسی دوران ایک تیر میری آنکھ پر لگا جس سے میری آنکھ کا ڈیلا نکل کر میری گال پر آ گیا اور جتھہ منتشر ہوگیا۔ اس عرصے میں جب یہ جتھہ جو حملہ آور تھا منتشر بھی ہو گیاتو اس کے بعد کہتے ہیںکہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ڈیلے کو پکڑا اور اسے اپنے ہاتھ پر رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قریب ہی تھا تو وہیں لے گیا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے میرے ہاتھ میں دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا اے اللہ ! قتادہ نے اپنے چہرے کے ذریعے تیرے نبی کے چہرے کو بچایا ہے۔ پس تُو اس کی اس آنکھ کو دونوں آنکھوں میں سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ نظر والی بنا دے۔ چنانچہ وہ آنکھ دونوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دونوں میں سے نظر کے اعتبار سے زیادہ تیز تھی۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 19 صفحہ 8 عمر بن قتادۃ بن النعمان، عن ابیہ دار احیاء التراث العر بی2002ء)

انہوں نے خود جو بیان کیا ہے وہاں بیوی کی محبت کا کوئی نہیں لکھا کہ اس لیے وہ مجھ سے نفرت کرے گی۔ تاریخ دانوں نے وہ واقعہ لکھا ہے جو پہلے میں نے بیان کیا تھا۔ واقعہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے یا ویسے ہی۔ بہرحال یہ جو روایت ہے اس میں بیوی کا یہ حوالہ کوئی بھی نہیں آتا لیکن بہرحال جنگ کے دوران آنکھ باہر آگئی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس اس جگہ پر رکھ دیا اور ان کی نظر وہیں دوبارہ بحال بھی ہو گئی اور بڑی اچھی ہو گئی اور اسی وجہ سے بعد میںحضرت قتادہ ‘ذوالعین’ یعنی آنکھ والے کے لقب سے بھی مشہور ہو گئے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد2صفحہ345 ذوالعین، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)

حضرت قتادہؓ غزوۂ خندق اور دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ بنو ظَفَر کا جھنڈا حضرت قتادہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت قتادہؓ نے 65 سال کی عمر میں 23؍ ہجری میں وفات پائی۔ حضرت عمرؓ نے مدینے میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قبرمیں ان کے اخیافی بھائی حضرت ابوسعید خدریؓ اور محمد بن مسلمہؓ اور حارث بن خُزْمَہؓ اترے اور ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ بھی قبر میں اترنے والوں میں شامل تھے۔ حضرت قتادہؓ کے ایک پوتے کا نام عاصم بن عمر تھا جو علم الانساب کا ماہر تھا یعنی قبیلوں کے خاندانوں اور نسلوں کا جو علم ہوتا ہے اور اس سے علامہ ابن اسحاق نے بکثرت روایات بیان کی ہیں۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء الثالث صفحہ 239 ومن بنی ظفر…… قتادۃ بن النعمان دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد 4 صفحہ 372، قتادہ بن نعمان، دار الکتب العلمیہ بیروت2008ء) (سیرالصحابہ از سعید انصاری جلد 3 صفحہ 474، دار الاشاعت کراچی 2004ء)

ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کمان تھی جس کا نام کُتُوم تھا اور وہ نَبَع ایک درخت ہے جس سے تیر بنائے جاتے ہیں، اس سے بنی ہوئی تھی اور یہ وہ کمان تھی جو غزوۂ احد کے روز حضرت قتادہؓ کے ہاتھ سے کثرتِ استعمال کی وجہ سے ٹوٹی تھی۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 4 صفحہ 148 باب ذکر سلاحہ ومرکوبہ……دار احیاء التراث العر بی2001ء)
(لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 293 مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور 2005ء)

حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک خاندان ایسا تھا جنہیں بَنُو اُبَیْرَقْ کہا جاتا تھا۔ ان میں تین بھائی تھے بِشْر، بَشِیراور مبشر۔ بَشِیر منافق تھا۔ شعر کہتا تھا اور اشعار کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ہجو کرتا تھا۔ بظاہر یہ مسلمان تھا لیکن بعض عمل اس کے ایسے نہیں تھے۔ پھر ان کو بعض عرب کی طرف سے منسوب کر کے کہتا تھا کہ فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے یہ شعر سنا جو وہ شعر کہتا تھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ شعر اسی بدباطن شخص نے کہا ہوا ہے اور انہوں نے یعنی صحابہ نے کہا کہ یہ اشعار ابن اُبَیْرَقْ کے کہے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ زمانۂ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے۔ کوئی ان میں تبدیلی نہیں پیدا ہوئی۔ کام نہیں کرتے تھے یا محنت نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے بہرحال بہت زیادہ غریب تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ مدینے میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جَو ہی ہوتا تھا۔ جب کوئی شخص مال دار ہو جاتا اور کوئی غلّوں کا تاجر شام سے سفید آٹا لے کر آتا، پسا ہوا باریک آٹا تو وہ مال دار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا۔ لیکن اس کے بال بچے جو تھے وہ کھجور اور جَو ہی کھاتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں ایک بار ایسا ہوا کہ جب ایک غلے کا تاجر شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی، سفید آٹے کی ایک بوری خریدی اور اسے اپنے گودام میں رکھ دیا۔ اس گودام میں ہتھیار اور زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی، اسلحہ بھی رکھا ہوا تھا۔ کہتے ہیں ان پر ظلم یہ ہوا کہ اس گودام میں نقب لگائی گئی اور دیوار توڑ کے اندر چور آ گئے اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا۔ صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا کہ میرے بھتیجے! آج کی رات تو میرے پر بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ ہمارے گودام میں نقب لگائی گئی ہے۔ ہمارا راشن اور ہمارے ہتھیار سب کچھ چرا لیے گئے ہیں۔ ہم نے محلے میں پتا لگانے کی کوشش کی ہے اور لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے تو ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنو اُبَیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلا رکھی تھی اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر وہ جشن منا رہے ہوں گے یعنی چوری کا مال پکا کر کھا رہے ہوں گے۔ جب ہم محلے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے تو بنو ابیرق نے کہا کہ اللہ کی قسم ! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، کسی اَور کا نام لگا دیا۔ کہتے ہیں کہ لبید ہم میں سے ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے۔ جب لبید نے یہ سنا کہ بنو ابیرق اس پہ چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی اور کہا کہ مَیں چور ہوں؟ اللہ کی قسم ! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتا لگا کر دو گے۔ بڑے غصّے میں کہا کہ اب یہ فیصلہ ہوگا۔ لوگوں نے کہا کہ جناب آپ اپنی تلوار دور رکھیں۔ آپ چور نہیں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بڑے نیک آدمی ہیں۔ ہم نے محلے میں مزید پوچھ گچھ کی تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ وہی بنو ابیرق چور ہیں۔ میرے چچا نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپؐ سے اس حادثے کا ذکر کرتے تو ہو سکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا۔ حضرت قتادہ بن نعمانؓ کہتے ہیں کہ میں یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم و زیادتی کی ہے۔ انہوں نے میرے چچا رفاعہ بن زیدؓ کے گھر کا رخ کیا ہے اور ان کے گودام میں نقب لگا کر ان کے ہتھیار اور ان کا راشن چرا لیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔ جہاں تک راشن یا غلے کا تعلق ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بارے میں مشورے کے بعد کوئی فیصلہ دوں گا۔ جب یہ بات بنو ابیرق نے سنی تو اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے۔ اس شخص کو اَسِیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے اور ان سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہمیں لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور اچھے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ قتادہؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپؐ سے بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایک ایسے گھر والوں پر چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں اور تمہارے پاس کوئی گواہ اور ثبوت بھی نہیں ہے۔ قتادہؓ کہتے ہیں میں آپؐ کے پاس سے واپس آ گیا۔ نیک فطرت تھے، بڑے نیک تھے، کہتے ہیں میں واپس آ گیا اور میرا جی چاہا کہ میں اپنے کچھ مال سے محروم ہو گیا ہوتا تو مجھے گوارا ہوتا لیکن اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے بات نہ کی ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر مجھے خیال آیا کہ میں نے یوں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی۔ اگر میرا مال چلا بھی جاتا تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن میں یہ بات نہ کرتا۔ کہتے ہیں پھر میرے چچا نے میرے پاس آ کر کہا کہ بھتیجے تم نے اس معاملے میں اب تک کیا کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو جواب دیا تھا میں نے انہیں وہ بتا دیا ۔ وہی جواب انہیں دے دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہمارا مددگار ہے۔ ہماری اس بات چیت کو ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ

اِنَّا اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرَاكَ اللّٰهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَآئِنِيْنَ خَصِيْمًا۔ (النساء:106)

یعنی ہم نے یقینا ًتیری طرف کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے تا کہ تُو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے سمجھایا ہے اور خیانت کرنے و الوں کے حق میں بحث کرنے والا نہ بن۔ خائنین سے مراد یہاں لکھا ہے کہ بنو ابیرق ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ وَاسْتَغْفِرِ اللّٰهَ کہ اللہ سے مغفرت چاہو۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔(النساء:107) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑا رحیم ہے، مہربان ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ

وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُوْنَ اَنفُسَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِيْمًا۔ يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَايَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ھُوَ مَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًا۔ هٰٓاَنْتُمْ هٰٓؤُلٓاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَمْ مَّنْ يَّكُوْنُ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا۔ وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔ (النساء:108-111)

اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں یقیناً اللہ سخت خیانت کرنے والے گناہ گار کو پسند نہیں کرتا۔ وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں جبکہ اللہ سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ راتیں ایسی باتیں کرتے ہوئے گزارتے ہیں جو وہ پسند نہیں کرتا اور اللہ اسے گھیرے ہوئے ہے جو وہ کرتے ہیں۔ دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ تم دنیا کی زندگی میں تو ان کے حق میں بحثیں کرتے ہو ۔ پس قیامت کے دن ان کے حق میں اللہ سے کون بحث کرے گا یا کون ہے جو ان کا حمایتی ہو گا اور جو بھی کوئی برا فعل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پائے گا۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَمَنْ يَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا يَكْسِبُهٗ عَلٰى نَفْسِهٖ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا۔ وَمَنْ يَّكْسِبْ خَطِيْٓئَةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهٖ بَرِيْٓئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا (النساء:112-113)

یعنی جو کوئی گناہ کماتا ہے تو یقینا ًوہ اسے اپنے ہی خلاف کماتا ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے اور جو کسی خطا کا مرتکب ہو یا گناہ کرے پھر کسی معصوم پر اس کی تہمت لگا دے تو اس نے بہت بڑا بہتان اور کھلا کھلا گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس سے اشارہ بنو ابیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے اور پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهٗ لَهَمَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ اَنْ يُّضِلُّوْكَ وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّوْنَكَ مِنْ شَيْءٍ وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا۔ لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَجْوٰهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا۔ (النساء:114-115)

اور اگر تجھ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتے تو ان میں سے ایک گروہ نے تو ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ ضرور تجھے گمراہ کر دیں گے لیکن وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کر سکتے اور وہ تجھے ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتارے ہیں اور تجھے وہ کچھ سکھایا ہے جو تو نہیں جانتا تھا اور تجھ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔ ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی کی بات نہیں سوائے اس کے کہ کوئی صدقہ یا معروف کی یا لوگوں کے درمیان اصلاح کی تلقین کرے۔ اور جو بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش میں ایسا کرتا ہے تو ضرور ہم اسے ایک بڑا اجر عطا کرتے ہیں۔
بہرحال ان آیات کے اَور بھی بڑے مطالب ہیں لیکن اگر اس کے بارے میں بھی لیا جائے توکچھ عرصے بعد ان کو یہی خیال ہوا کہ ہمارے اس معاملے میں یہ ساری آیات نازل ہوئی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حقیقت کھول دی اور پھر اس کا اثر یہ بھی ہوا کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو بنو ابیرق، جن پہ چوری کا شبہ تھا انہوں نے سمجھا کہ یہ ہمارے بارے میں ہی ہے تو انہوں نے اپنی وہ چوری تسلیم کر لی اور ہتھیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہتھیار رفاعہ کوجو مالک تھے ان کو لوٹا دیے۔ حضرت قتادہؓ کہتے ہیں کہ میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے ۔یہ سمجھتا تھا کہ ایمان تو یہ لے آئے ہیں، مسلمان ہو گئے ہیں لیکن ایمان مضبوط نہیں ہے۔ لیکن جب یہ ہتھیار ان لوگوں کی طرف سے واپس ہوئے جنہوں نے یہ چرائے تھے اور جب میں ہتھیار لے کے اپنے چچا کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں تو اس وقت مجھے پتا لگ گیا اور میں نے یقین کر لیا کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا اور مجھے یوں ہی ان پہ شک تھاکہ ان کا ایمان مضبوط نہیں۔

جب قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں تو بَشیرجو ان میں سے ایک بھائی تھا جس کے بارے میں انہوں نے پہلے کہا کہ اس پر ان کو منافقت کا شک تھا وہ جاکے مشرکوں میں شامل ہو گیا اور سُلَافَہ بنتِ سَعد کے پاس جا ٹھہرا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِيْدًا (النساء:117،116)

کہ جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر روشن ہو چکی ہو اور مومنوں کے طریق کے سوا کوئی اور طریق اختیار کرے تو ہم اسے اسی جانب پھیر دیں گے جس جانب وہ مڑ گیا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ یقینا ًاللہ معاف نہیں کرتا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور جو اس کے سوا ہے معاف کر دیتا ہے جس کے لیے چاہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو وہ یقینا ً دور کی گمراہی میں بہک گیا۔

جب یہ اس مشرک سُلَافَہ کے پاس جا کر ٹھہرا اور اسلام سے ہٹ گیا تو حضرت حسان بن ثابتؓ نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی۔ یہ سن کر وہ یعنی سُلَافَہ بنت سعد جو تھی اس کا سامان اپنے سر پر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی اور پھر اس نے کہا کہ تم نے ہمیں حسّان کے شعر کا تحفہ دیا ہے یعنی اس نے یہ ہجو لکھی ہے اور تمہاری وجہ سے لکھی گئی ہے ہم بھی اس میں شامل ہو گئے۔ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں۔ (سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ النساء حدیث نمبر 3036)اس لیے میں تمہارا سامان نہیں رکھوں گی۔ تو یہ منافق کا یا پھر مشرک کا انجام ہوا۔

پھر حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ حضرت قتادہ بن نعمانؓ نے ایک مرتبہ سورۂ اخلاص ہی پر ساری رات گزار دی۔ ساری رات سورت اخلاص پڑھتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قَسم !جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! سورۂ اخلاص نصف یا تہائی قرآن کے برابر ہے۔

(مسند احمد بن حنبل المجلد الرابع صفحہ 42 مسند ابوسعید خدری حدیث 11131، مکتبہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

جو آگے یہ کہتے ہیں وہ یہی بات کی تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت جو ہے وہی تو حقیقی قرآن ہے اور قرآن کریم میں اسی کی تعلیم ملتی ہے۔

ابوسَلْمَہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جمعے کے دن ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو اس حال میں میسر آ جائے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ سے خیر کا سوال کر رہا ہو تو اللہ اسے وہ چیز ضرور عطا فرما دیتا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہؓ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس ساعت کا مختصر حال بیان فرمایا کہ بہت چھوٹی سی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ کی وفات ہوئی تو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ بخدا اگر میں حضرت ابوسعید خدریؓ کے پاس گیا تو ان سے اس گھڑی کے متعلق ضرور پوچھوں گا۔ ہو سکتا ہے انہیں اس کا علم ہو۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا وہ چھڑیاں سیدھی کر رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابوسعیدؓ! یہ کیسی چھڑیاں ہیں جو آپؓ سیدھی کر رہے ہیں؟ جو سوٹیاں تھیں وہ میں آپؓ کو سیدھی کرتے دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے جواب دیاکہ یہ وہ چھڑیاں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے برکت رکھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پسند فرماتے تھے اور انہیں ہاتھ میں پکڑ کر چلا کرتے تھے۔ ہم انہیں سیدھا کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ رخ تھوک لگا ہوا دیکھا ۔کسی نے تھوک پھینکا تو اس وقت آپؐ کے ہاتھ میں ان میں سے ہی ایک چھڑی تھی۔ آپؐ نے اس چھڑی سے اسے صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نمازمیں ہو تو سامنے مت تھوکے کیونکہ سامنے اس کا رب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو رہے ہو تو سامنے کی طرف نہ تھوکا کرو اور اس وقت میرا خیال ہےابھی پوری طرح احکامات بھی نہیں تھے۔ اس لیے اس روایت میں یہ ہے کہ بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوکو اور یہ روایت بخاری میں بھی ہے۔ اس وقت کچی جگہ ہوتی تھی اور بعد میں مٹی ڈال کر یا مٹی سے صاف کر دیتے ہوں گے اس لیے نیچے تھوکنے کا کہا لیکن اصل جو ایک اَور روایت ہے اور بعد میں جب صحیح تربیت بھی ہو گئی اور احکامات بھی آ گئے تو اس میں یہی ہے کہ تمہارا جو چادر کا پَلُّو ہے اس میں صاف کیا کرو۔ ناک ہے یا تھوک ہے اُسے صاف کرنے کی اگر کوئی حاجت پڑ جائے تو کیونکہ اب تو رومال ہیں، ٹشو ہیں اور مسجدوں میں ویسے بھی قالین ہوتے ہیں اس لیے اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیچے تھوکنا جائز ہے بلکہ اُن حالات میں ایک وقتی اجازت تھی اور اس کے بعد پھر آپؐ نے باقاعدہ وضاحت سے بیان فرمایا کہ اگر ایسا ناک صاف کرنے کی یا تھوکنے کی کوئی حاجت پڑ جائے تو چادر کے ایک کونے سے لو اور اسے لپیٹ دو اور باہر جا کے صاف کر دو۔

تو راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر اسی رات خوب زور دار بارش ہوئی اور جب نماز عشاء کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے تو ایک دم بجلی چمکی تو آپؐ کی نظر حضرت قتادہ بن نعمانؓ پر پڑی۔ آپؐ نے فرمایا اے قتادہ! رات کے اس وقت تم یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معلوم تھا کہ آج نماز کے لیے بہت تھوڑے لوگ آئیں گے۔ بارش بہت ہو رہی ہے، بجلی چمک رہی ہے تو میں نے سوچا کہ میں نماز میں شریک ہو جاؤں اور میں پہلے آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز پڑھ چکو تو رُک جانا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس سے گزرنے لگوں۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قتادہؓ کو ایک چھڑی دی اور فرمایا یہ لے لو۔ یہ تمہارے دس قدم آگے اور دس قدم پیچھے روشنی دے گی پھر جب تم اپنے گھر میں داخل ہو اور وہاں کسی کونے میں کسی انسان کا سایہ نظر آئے تو اس کے بولنے سے پہلے اسے اس چھڑی سے مار دینا کہ وہ شیطان ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو یہ ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ان چھڑیوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ چھڑیاں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہوئی ہیں اور ہم خاص طور پہ بنا کے دیا کرتے تھے اور آپؐ استعمال کیا کرتے تھے۔ پھر واپس بھی کر دیتے تھے یا تحفے کے طور پر دے دیتے تھے اور ان چھڑیوں میں یہ بہت ساری برکات ہیں اس لیے میں ان کو جوڑ رہا ہوں۔

پھر یہ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے ابوسعیدؓ! حضرت ابوہریرہؓ نے ہمیں ایک ایسی گھڑی کے متعلق حدیث سنائی ہے جو کہ جمعے کے دن آتی ہے۔ وہ سوال تو وہ پوچھنے گیا تھا لیکن پھر وہاں ان کو یہ دیکھتے ہوئے کہ سوٹیوں کو اکٹھے کر رہے ہیں، arrangeکر رہے ہیں تو اس کا ضمناً ذکر آ گیا اور اس کی تفصیل بیان ہو گئی۔ اب دوبارہ وہ اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ یہ ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ جمعے کے دن ایسی گھڑی آتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے، کیا آپ کو اس ساعت کا علم ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ساعت کے متعلق دریافت کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پہلے تو وہ گھڑی بتائی گئی تھی لیکن پھر شبِ قدر کی طرح بھلا دی گئی۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ پھر میں وہاں سے نکل کر حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس چلا گیا۔

(مسند احمد بن حنبل المجلد الرابع صفحہ 165 مسند ابوسعید خدری حدیث 11647 مکتبہ عالم الکتب بیروت 1998ء) (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب حکّ المخاط بالحصی من المسجد حدیث 408-409)

مسند احمد بن حنبل کی جو یہ روایت بیان ہوئی ہے اس میں جمعے کے روز جس گھڑی کا ذکر ہے اس گھڑی کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ان روایات سے تین مختلف اوقات کا یا باتوں کا پتا لگتا ہے۔ پہلا تو یہ کہ یہ گھڑی جمعے کے دوران آتی ہے۔ دوسرا جو مختلف روایتیں بیان ہوئی ہیں ان سے یہ کہ دن کے آخری حصے میں آتی ہے ۔ اور تیسری یہ کہ نماز ِعصر کے بعد آتی ہے۔ چنانچہ یہ روایات یہاں بیان کر دیتا ہوں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعے کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا اس میں ایک گھڑی ہے جو مسلمان بندہ اس گھڑی کو ایسی حالت میں پائے گا کہ وہ اس میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہو گا تو وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے گا وہ ضرور اس کو دے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ گھڑی بہت تھوڑی سی ہے۔ وہ بہت تھوڑا وقت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعہ حدیث 935)

پھر ایک صحیح مسلم کی روایت ہے ابوبُرْدَہ بن ابوموسیٰ اَشْعَرِی سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مجھ سے کہا کیا تم نے اپنے والد سے جمعے کی گھڑی کی کیفیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے سنا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے کے درمیان ہوتی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الجمعہ باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعہ حدیث853)

پھر ایک اَور روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے بیان کیا کہ میں نے ایک مرتبہ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے عرض کیا کہ ہم اللہ کی کتاب میں جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی کا ذکر پاتے ہیں کہ مومن بندہ جو نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ سے کچھ مانگ رہا ہو وہ اس گھڑی کو نہیں پاتا مگر اللہ اس کی وہ حاجت پوری کر دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ‘‘یا گھڑی کا کچھ حصہ یا ایک تھوڑا سا وقت ہے’’۔ میں نے عرض کیا کہ جی یا ‘‘گھڑی کا کچھ حصہ’’۔ پھرمیں نے عرض کیا کہ وہ کون سی گھڑی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دن کی آخری گھڑیوں میں سے ہے۔ یعنی دن ڈھلنے کے قریب ہے۔ میں نے کہا وہ نماز کی گھڑی نہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں۔ مومن بندہ جب نماز پڑھ لے اور بیٹھ جائے اور صرف نماز ہی اسے روکے ہوئے ہو تو وہ نماز میں ہی ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰة والسنۃ فیھا باب ما جاء فی الساعۃ التی ترجی فی الجمعہ، حدیث1139)

نماز کے بعد پھر بھی اگر ذکر الٰہی کر رہا ہے تو وہ نمازکی حالت ہی ہے اور دعا کی کیفیت ہی اس میں پیدا ہوتی ہے۔

پھر ایک اور روایت حضرت ابوہریرہؓ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعے کے دن ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو اس حال میں میسر آ جائے کہ وہ اللہ سے خیر کا سوال کر رہا ہو تو اللہ اسے وہ چیز ضرور عطا فرما دیتا ہے اور وہ عصر کے بعد کی گھڑی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد13 صفحہ117مسند ابوہریرہ ،حدیث 7688، مکتبہ مؤسسۃ الرسالہ 2008ء)

یہاں جمعے کا دن ہے لیکن عصر کے بعد کی روایت مسند احمد بن حنبل کی آتی ہے۔ پھر ایک روایت میں ذکر ہے کہ حضرت ابو سلمہ نے اس گھڑی کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخِرُ ساعاتِ النھار یعنی یہ گھڑی دن کی آخری گھڑیوں میں سے ہے۔

(مسند احمد بن حنبل المجلد السابع صفحہ847-848 مسند عبد اللہ بن سلام حدیث 24189، مکتبہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ تفسیر میں بیان فرمایا ہےکہ جمعہ اور رمضان کو آپس میں ایک مشابہت حاصل ہے اور وہ یہ کہ جمعہ بھی قبولیتِ دعا کا دن ہے اور رمضان بھی قبولیتِ دعا کا مہینہ ہے۔ جمعے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز کے لیے مسجد میں آ جائے اور خاموش بیٹھ کر ذکرِ الٰہی میں لگا رہے، امام کا انتظار کرے اور بعد میں اطمینان کے ساتھ خطبہ سنے اور نماز باجماعت میں شامل ہو تو اس کے لیے خاص طور پر خدا تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں اور پھر ایک گھڑی جمعے کے دن ایسی بھی آتی ہے کہ جس میں انسان جو دعا بھی کرے قبول ہو جاتی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعے کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا :اس میں ایک گھڑی ہے جو مسلمان بندہ اس گھڑی کو ایسی حالت میں پائے گا کہ وہ اس میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہو گا تو وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے گا وہ اس کو ضرور دے گا اور آپؐ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ گھڑی تھوڑی سی ہے۔ یہ بخاری کی حدیث ہے جس کا پہلے ذکر تھا ۔یہ بھی ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔

آپؓ لکھتے ہیں کہ قانونِ الٰہی کے ماتحت اس حدیث کی ایک تعبیر تو ضرور کرنی پڑے گی کہ وہی دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت اللہ اور قانونِ الٰہی کے مطابق ہوں۔ غلط قسم کی دعائیں تو بہرحال قبول نہیں ہوں گی۔ دعائیں وہی قبول ہوں گی جو اللہ کی سنت کے مطابق ہیں۔ جو جائز دعائیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہیں لیکن جہاں یہ بہت بڑی نعمت ہے وہاں یہ آسان امر بھی نہیں ہے۔

جمعے کا وقت قریباً دوسری اذان یا اس سے کچھ دیر پہلے سے شروع ہو کر نماز کے بعد سلام پھیرنے تک ہوتا ہے۔ اگر یہ دونوں وقت ملا لیے جائیں اور خطبہ جمعہ چھوٹا بھی ہو تو یہ وقت بھی آدھ گھنٹہ ہو جاتا ہے اور اگر خطبہ لمبا ہو جائے تو یہ وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس ایک گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جب انسان کوئی دعا کرے تو وہ قبول ہو جاتی ہے لیکن اس نوّے منٹ کے عرصے میں انسان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ آیا پہلا منٹ قبولیتِ دعا کا ہے، دوسرا منٹ قبولیتِ دعا کا ہے یا تیسرا منٹ قبولیتِ دعا کا ہے۔ یہاں تک کہ نوّے منٹ کے آخر تک انسان کسی منٹ کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قبولیتِ دعا کا وقت ہے۔ گویا وہ گھڑی جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے نوّے منٹ میں تلاش کرنی پڑے گی اور وہی شخص قبولیتِ دعا کاموقع تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکے گا جو برابر نوّے منٹ تک دعا کرتا رہے اور نوّے منٹ تک برابر دعا میں لگے رہنا اور توجہ کوقائم رکھنا یہ ہر ایک کا کام نہیں، بڑا مشکل کام ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ تو پانچ منٹ بھی اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے۔ کہتے ہیں کہ میں اس وقت مثلاً نماز کے لیے آیا ہوں۔ انسان اِدھر اُدھر نظر مارتا ہی ہے۔ میں نے خطبہ سے پہلے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور یک دم ان کی آنکھ ادھر ادھر جا پڑتی تھی۔ سنتوں پر ڈیڑھ دو منٹ لگتے ہیں مگر اس تھوڑے سے وقت میں بھی وہ کبھی دائیں د یکھتے تھے ،کبھی بائیں دیکھتے تھے، کبھی زمین کی طرف دیکھتے تھے، کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔ جب ڈیڑھ دو منٹ تک توجہ کو قائم رکھنا مشکل ہے تو نوّے منٹ تک دعا کرتے رہنا، ذکرِ الٰہی میں لگے رہنا اور توجہ کو ایک ہی طرف قائم رکھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔

(ماخوذ ا ز خطبات محمود جلد33صفحہ161-162،خطبہ فرمودہ 30مئی1952ء)(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب الساعة التی فی یوم الجمعہ حدیث 935)

پس یہ گھڑی کا ذکر بھی ہے تو اس میں مسلسل توجہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ بڑی محنت طلب چیز ہے اور اس کے لیے بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ آسان چیز نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے دعا کی تو اس منٹ میں قبول ہو گئی۔ انسان کو نہیں پتا کون سا منٹ ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ اس عرصے میں انسان بغیر توجہ ہٹائے مسلسل دعا میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ضروری ہے اور جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے۔ میں نے ذکر کیا کہ یہ آسان کام نہیں ہے۔ جمعے کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔

دوسرے جن صحابی کا ذکر میں اس وقت کروں گا ان کا نام عبداللہ بن مظعونؓ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مظعونؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو جُمَحْ سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام سُخَیْلَہ بنتِ عَنْبَسْ تھا۔ یہ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قُدَامَہ بن مظعونؓ اور حضرت سَائِب بن مظعونؓ کے بھائی تھے اور یہ سب رشتے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ماموں تھے۔ کیونکہ حضرت عمرؓ نے ان کی ہمشیرہ زینب بنت مظعون سے شادی کی تھی۔

یزید بن رُوْمَان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اور حضرت قُدامہ بن مظعونؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں جانے اور اس میں دعوتِ اسلام دینے سے قبل ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ463، من بنی جمح وحلفائھم، دارالکتب العلمیة 2001ء)

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء3 صفحہ214، عبد اللہ بن مظعون من بنی جُمَحَ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد3 صفحہ201، عمر بن الخطاب، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2012ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ، جلد 3 صفحہ391 ، عبد اللہ بن مظعون، دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)(اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 399 سائب بن مظعون، دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اور ان کے تینوں بھائی حضرت قُدامہ بن مظعونؓ اور حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت سَائِب بن مظعونؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے اور حبشہ میں قیام کے دوران جب انہیں خبر ملی کہ قریش ایمان لے آئے ہیں تب یہ لوگ واپس آ گئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ241، 267،من ھاجر الی الحبشۃ من بنی جمح ، من عاد من بنی جمح، دارالکتب العلمیۃ 2001ء)(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ 399 سائب بن مظعون، دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

مَیں بعض صحابہ کے ذکر میں پہلے بھی حبشہ کی ہجرت کا یہ ذکر کر چکا ہوں کہ مسلمانوں کی تکلیفیں جب انتہا کو پہنچ گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اُس زمانے میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر رجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور جب انہوں نے ہجرت کی تو یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ جب وہ مکے سے نکلے ہیں اور جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے جب یہ شَعَیْبَہْ مقام پر پہنچے جو اس زمانے میں عرب کی ایک بندرگاہ تھی تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا۔ چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے بیان کیا ہے اور ان کے ضمن میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ خبر سن کے واپس آ گئے تھے ۔مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک افواہ اڑتی ہوئی ان کو پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکے میں بالکل امن ہو گیا ہے۔ اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بلا سوچے سمجھے واپس آ گئے۔ جب یہ لوگ مکے کے پاس پہنچے تو پتا لگا کہ یہ خبر تو غلط تھی اور مہاجرین کو حبشہ سے واپس لانے کی کافروں کی ایک کوشش تھی۔ اب ان سب کو بڑی مشکل کا سامنا تھا ۔ بہرحال کوئی اَور رستہ نہیں تھا۔ بعض تو رستہ میں سے واپس چلے گئے اور بعض نے مکے میں آکے کسی صاحبِ اثر کی پناہ لے لی لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ قریش کے جو مظالم تھے وہ بڑھتے چلے گئے اور مسلمانوں کے لیے مکے میں کوئی امن کی جگہ نہیں تھی تو اس پر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہجرت کرو اور پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پا کر آہستہ آہستہ نکلتے گئے۔ اور ہجرت کا یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر حبشہ میں مہاجرین کی جو تعداد تھی وہ ایک سو تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں تھیں باقی مرد تھے۔ تو اس طرح یہ دوسری ہجرت ہوئی۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مظعونؓ کے متعلق یہی ہے کہ وہ پہلی ہجرت میں واپس آئے تھے لیکن دوبارہ واپس گئے یہ نہیں پتہ۔یا پھر یہاں سے انہوں نے مدینہ ہجرت کی۔

(ماخوذ از سیرت حضرت خاتم النبیین ؐ صفحہ146 تا 149)

بہرحال حضرت عبداللہ بن مظعونؓ جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سہل بن عُبَیداللہ انصاری کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء3 صفحہ214، عبد اللہ بن مظعون من بنی جُمَحَ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن مظعونؓ کی حضرت قُطْبَہبن عامر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات قائم فرمائی تھی۔

(عیون الاثر جلد 1 صفحہ 232، ذکر المواخات، دار القلم بیروت 1993ء)

حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اپنے تینوں بھائیوں حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قدامہ بن مظعونؓ اور حضرت سائب بن مظعونؓ کے ہمراہ غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مظعونؓ غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد اور خندق اور دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مظعونؓ نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں 30؍ ہجری میں بعمر ساٹھ سال وفات پائی تھی۔

(اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 399 سائب بن مظعون، دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء3 صفحہ212، 214، عبد اللہ بن مظعون من بنی جُمَحَ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button