متفرق مضامین

فریضۂ حج ۔ قرآن کریم (احکام خداوندی) کی روشنی میں

حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حج کی عظیم الشان عبادت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور کسی ایسے پہلو کو نہیں چھوڑا جو اس عبادت کی روح اور جان ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس امر کا جائزہ پیش کرنا مقصود ہے کہ قرآن کریم نے حج کے متعلق بہت ہی پر مغز اور جامع الفاظ میں سیر حاصل روشنی ڈالی ہے ۔

قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی ابتدا کب ہوئی اور خانہ کعبہ کے ارد گرد رہنے والوں پر کیاذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس بارے میں بھی ہدایت موجود ہے کہ حج کر نے والے کو کن امور سے بچنا چاہیے ۔قر آن کریم نے حج کی غرض و غایت اور روح کی طرف بھی توجہ دلائی۔اس کے علاوہ حج کے طریقہ کار کے بارے میں راہنمائی فرمائی ہے۔اس قسم کے جملہ پہلو قرآن کریم نے بہت ہی حسین اور پیارے انداز میں بیان فرمائے ہیں ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرآنی آیات سے مستنبط نکات کو عنوان بنا کر اس مضمون میں صرف قرآنی الفاظ اور ترجمہ کے ذریعہ مضمون کو واضح کیا گیا ہے۔ان کی تفاسیر بیان نہیں کی گئیں۔ آیات ِقرآنی کا ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ لیا گیا ہے ۔

یہاں اس مضمون کی ترتیب کے بارے میں کچھ لکھنا بےجا نہ ہوگا۔سب سے پہلے قرآن کریم میں موجود حج کے حکم کا ذکر ہے،اس کے بعد یہ بات بیان کی گئی ہے کہ حج کا آغاز کب ہوا ہے،اس سوال کا جواب بھی شامل مضمون ہے کہ حج کی ادائیگی کا وقت کیاہے؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کے اوقات کا تعین قمری مہینوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔قرآن کریم نے حج کی فرضیت کی شرائط بھی بیان فرمائی ہیں اور عمرہ سے متعلق حکم بھی دیا ہے۔پھر قرآن مجید ہی سے حج کی اقسام سے متعلق مضمون اخذ کیا گیا ہے،نیز ان اقسام سے متعلق احکام کیا ہیں،ان کا ذکر بھی کر دیاگیا ہے۔اگر کسی کو حج سے روک دیا جائے تو اس کے لیے بھی قرآن کریم نے احکام بیان فرمائے ہیں،ان کا ذکر بھی کر دیا گیا ہے۔اس کے بعد تین امور سے بچنے کا حکم حجاج کو دیا گیا ہے،یہ حج کی تمہید ہے۔

درج بالا تمہیدکے بعد حج سے متعلق تفصیلی احکام کا بیان ہے،حج کی بنیادی شرط کا بیان ہے ،جس کے بغیر حج فرض نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد مناسک حج کی ادائیگی کا پہلا حکم احرام سے متعلق ہے،اس حکم میں احرام کی پابندیوں کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم ہے،جو دراصل حج کا بنیادی رکن ہے جیساکہ خدا تعالیٰ فرماتاہے:

وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ(سورۃ الحج:30)

یعنی اور چاہیے کہ وہ اس قدیم گھر کا طواف کریں۔گویا خداتعالیٰ نے حج کا مضمون البیت یعنی کعبہ سے وابستہ کر دیا ہے۔

طواف کے بعدمقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنانے کا حکم ہے،اس کے بعدصفااورمروہ کا طواف(سعی)کیا جاتا ہے، آبِ زمزم پینے پلانے کا ذکر بھی قرآن کریم میں کیاگیا ہے۔عرفات جانا بھی مناسک حج میں شامل کیا گیا ہے اور عرفات سے واپس آکر مشعر حرام میں ذکر الٰہی کر تے ہوئے ٹھہرنے کا حکم بھی دیاگیا ہے۔رمی،قربانی اور حلق راس کا ذکر بھی ملتا ہے۔منا سک حج کی ادائیگی کے سلسلے میں آخر پر ایام تشریق میں خصوصیت سے ذکر الٰہی کی تلقین کی گئی ہے یہ استنباط قرآن کریم کی اس آیت سے کیا گیا ہے کہ

وَاذْ کُرُوْا اللّٰہَ فِیْ اَیَّامٍ مَعْدُوْدٰتٍ (سورۃ البقرۃ:204)

یعنی اوراللہ کو (بہت )یاد کرو ان گنتی کے چند دنوں میں ۔ خانہ کعبہ کا طواف کر نے کا حکم ہے۔مناسک حج کی ادائیگی کے بعد دوبارہ ذکر الٰہی کی تلقین ملتی ہے۔

قربانی بھی حج کا ایک بنیادی حصہ ہے ۔مناسک حج کی ادائیگی کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قربانی کے جانوروں سے متعلق بھی ارشادات فرمائے ہیں ، انہیں شعائراللہ میں شامل کیا گیا ہے،اس کے علاوہ اور بھی قربانی سے متعلق بہت سے امور بیان کیے گئے ہیں۔مذکورہ بالا احکا م کے علاوہ بہت سے مضامین قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں جن سے حج اور اس سےمتعلق دیگر امور پرجامع الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔گویا قرآن کریم میں حج کا مکمل مضمون بیان کردیا گیا ہے۔ان عظیم پہلوؤں کو اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔

کعبہ کی تعمیر اور حج کا اصل مقصد

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِ یْزُ الْحَکِیْمُ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 130 )

اے ہمارے رب !توان میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر،جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی)حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کردے۔یقیناً تُو ہی کامل غلبہ والا (اور)حکمت والاہے۔

حج کی ادائیگی کا حکم

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔

(سورۃ آل عمران آیت 98)

اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ (اس کے)گھر کا حج کریں(یعنی)جو بھی اس (گھر)تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔

قرآن کریم کے طرز بیان کے مطابق حج کا باقاعدہ آغازحضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا

وَاَذّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔

(سورۃ الحج آیت28)

اور لوگوں میں حج کا اعلان کردے وہ تیرے پاس پا پیادہ آئیں گے اور ہر ایسی سواری پر بھی جو لمبے سفر کی تکان سے دبلی ہوگئی ہو۔وہ (سواریاں اور چیزیں)ہر گہرے اور دور کے رستے سے آئیں گی۔

حج مقررہ مہینوں میں ادا ہوتا ہے

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُومَاتٌ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 198)

حج چند معلوم مہینوں میں ہوتاہے۔

حج کے وقت کا تعین قمری مہینوں سے وابستہ کیا گیا ہے

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْأَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔

(سورۃ البقرۃآیت 190)

وہ تجھ سے پہلی تین رات کے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔تُو کہہ دے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج(کی تعیین)کا بھی۔

حج فرض ہونے کی بنیادی شرط۔ استطاعت

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔

(سورۃ آل عمران آیت 98)

اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ (اس کے)گھر کا حج کریں(یعنی)جو بھی اس (گھر)تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔

حج کی شرائط ۔ زاد راہ جمع کرنے کی تاکید

وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور زادِ راہ جمع کرتے رہو۔ پس یقیناً سب سے اچھا زادِ راہ تقویٰ ہی ہے۔

عمرہ کی ادائیگی

وَاَتِمُّوا الْحجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔

حج کی اقسام (حج افراد)

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔

(سورۃ آل عمران آیت 98)

اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ (اس کے)گھر کا حج کریں(یعنی)جو بھی اس (گھر)تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔

حج کی اقسام (حج قران)

وَاَتِمُّوا الْحجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔

حج کی اقسام(حج تمتع)

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلیٰ الْحَجِّ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

جو بھی عمرہ کو حج سے ملاکر فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرے۔

ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو اکٹھا کرکے اداکرنے والے پرقربانی فرض ہے (تمتع۔قران)

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلیٰ الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

جو بھی عمرہ کو حج سے ملاکر فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرے تو (چاہیے کہ)جو بھی اسے قربانی میں سے میسر آئے(کردے)۔

حج تمتع یا قران میں قربانی نہ کر سکنے کا فدیہ

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلٰی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۔ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ۔ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

جو بھی عمرہ کو حج سے ملاکر فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرے تو (چاہیے کہ)جو بھی اسے قربانی میں سے میسر آئے(کردے)اور جو (توفیق)نہ پائے تو اسے حج کے دوران تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے اور سات جب تم واپس چلے جاؤ۔یہ دس (دن)مکمل ہوئے۔ یہ(اوامر)اُس کے لیے ہیں جس کے اہلِ خانہ مسجد حرام کے پاس رہائش پذیر نہ ہوں۔

احصار/ حج یا عمرہ سے روکے جانے والے کے لیے قربانی

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ کو پوراکرو۔پس اگر تم روک دیے جاؤ تو جو بھی قربانی میسر آئے (کردو)۔

حج کے ایام میں تین قسم کے امور سے بچنے کا حکم

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَ ضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِی الْحَجِّ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

حج چند معلوم مہینوں میں ہوتاہے ۔پس جس نے ان (مہینوں)میں حج کا عزم کرلیا تو حج کے دوران کسی قسم کی شہوانی بات اور بدکرداری اور جھگڑا(جائز)نہیں ہوگا۔

احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ۔

(سورۃ المائدۃ آیت2)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! عہدوں کو پورا کرو۔تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال قرار دیے گئے ،سوائے اس کے جو تم پر پڑھا جاتا ہے۔مگر شکار کو حلا ل قرار دینے والے نہ ہوجانا جبکہ تم احرام کی حالت میں ہو۔یقیناً اللہ وہی فیصلہ کرتاہے جو وہ چاہتاہے۔

احرام کھولنے کے بعدشکار کی اجازت

وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَا صْطَادُوْا۔

(سورۃ المائدۃ آیت 3)

اور جب تم احرام کھول دو تو(بے شک )شکار کرو۔

اگراحرام کی حالت میں شکارکرلیاجائے تو اس کا کفارہ

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُو الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَہُ مُتَعَمِّدًا فَجَزَآ ءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ۔

(سورۃ المائدۃ آیت 96)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شکار مارانہ کرو جب تم احرام کی حالت میں ہو۔اور تم میں سے جو اُسے جان بوجھ کر مارے تو اس کی سزا کے طور پر کعبہ تک پہنچنے والی ایسی قربانی پیش کرے جو اس جانور کے برابر ہو جسے اس نے مارا ہے ،جس کا فیصلہ تم میں سے دو صاحب عدل کریں۔یاپھر اس کا کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلاناہے یاپھر اس کے برابر روزے (رکھے)تاکہ وہ اپنے فعل کا بدنتیجہ چکھے۔اللہ نے درگزر کیا ہے اس سے جو گزر چکا۔پس جو اعادہ کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ کامل غلبہ والا(اور)انتقام لینے والاہے۔

احرام کی حالت میں سمندری شکارجائز ہے

اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ۔

(سورۃ المائدۃ آیت 96)

تمہارے لیے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کردیاگیاہے۔یہ تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لیے ہے۔

خشکی کا شکار کب تک حرام ہے

وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا۔

(سورۃ المائدۃ آیت 96)

اور تم پر خشکی کا شکار اس وقت تک حرام کردیا گیاہے جب تک تم احرام باندھے ہوئے ہو۔

حج کا بنیادی رکن ۔ خانہ کعبہ کا طواف

ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔

(سورۃ الحج آیت 30)

پھر چاہیے کہ وہ اپنی (بدیوں کی)میل کو دور کریں اور اپنی منتوں کو پوراکریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔

مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنانے کا حکم

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی۔

(سورۃ البقرۃآیت126)

اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو۔

صفا اور مروہ کا طواف (سعی)

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِ نَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ۔

(سورۃ البقرۃ آیت159)

یقیناً صفااورمروہ شعائراللہ میں سے ہیں۔پس جو کوئی بھی اس بیت کا حج کرے یاعمرہ اداکرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا بھی طواف کرے ۔اور جو نفلی طورپر نیکی کرنا چاہے تو یقیناً اللہ شکر کاحق اداکرنے والا (اور)دائمی علم رکھنے والا ہے۔

آب زمزم کا ذکر

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔

(سورۃ التوبۃ آیت 19)

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کرناایساہی سمجھ رکھا ہے جیسے کوئی اللہ پر ایمان لے آئے اور آخرت کے دن پر بھی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔وہ اللہ کے نزدیک ہرگز برابر شمار نہیں ہوسکتے ۔اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

عرفات میں پہنچ کر وہاں سے واپسی کا حکم

فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۔

(سورۃ البقرۃ آیت199)

پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔

جو لوگ عرفات نہیں جاتے تھے انہیں بھی عرفات جانے کا حکم

ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوااللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 200)

پھر تم (بھی)وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں۔اور اللہ سے بخشش مانگو۔یقیناً اللہ بہت بخشنے والا(اور)بار بار رحم کرنے والاہے۔

مشعر حرام میں ذکر الٰہی کرتے ہوئے ٹھہرنا چاہیے

فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۔

(سورۃ البقرۃآیت199)

پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔

رمی(ان ایام میں رمی کی جاتی ہے)

وَاذْکُرُوااللّٰہَ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ ۔ وَمَنْ تَاَ خَّرَ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ۔ وَاتَّقُوااللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔

(سورۃ البقرۃ آیت204)

اور اللہ کو (بہت )یادکرواِن گنتی کے چند دنوں میں۔پس جو بھی دو دنوں میں جلد فارغ ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے تو اس پر (بھی )کوئی گناہ نہیں(یعنی)اس کے لیے جو تقویٰ اختیار کرے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤگے۔

قربانی کے جانور شعائراللہ میں شامل ہیں

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ۔

(سورۃ الحج آیت37)

اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لیے شعائراللہ میں شامل کردیاہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔

شعائر اللہ کی بے حرمتی سے بچو

یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآ ئِرِ اللّٰہِ وَلَاالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْھَدْیَ وَلَا الْقَلاَئِدَ وَلَا آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَاناً۔

(سورۃ المائدۃ آیت3)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو!شعائراللہ کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ ہی حرمت والے مہینہ کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ہی قربانی کی علامت کے طور پر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کی اور نہ ہی ان لوگوں کی جو اپنے رب کی طرف سے فضل اور رضوان کی تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصد کرچکے ہوں۔

اللہ کی مقررکردہ عزت والی جگہوں کی تعظیم میں ہمارا اپنا فائدہ ہے

ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہُ عِنْدَ رَبِّہٖ۔

(سورۃ الحج آیت31)

یہ(ہم نے حکم دیا)۔اور جو بھی اُن چیزوں کی تعظیم کرے گا جنہیں اللہ نے حرمت بخشی ہے تو یہ اس کے لیے اس کے رب کے نزدیک بہترہے۔

قربانی کو کعبہ تک پہنچانے کا حکم

وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہُ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ یہاں تک کہ قربانی اپنی (ذبح ہونے کی)مقررہ جگہ پر پہنچ جائے۔

لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَا اِلیَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔

(سورۃ الحج آیت34)

تمہارے لیے ان (قربانی کے مویشیوں)میں ایک مقررہ مدت تک فوائد وابستہ ہیں پھر انہیں قدیم گھر تک پہنچانا ہے۔

ھُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْھَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہُ۔

(سورۃ الفتح آیت 26)

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا تھا اور تمہیں مسجدِ حرام سے روک دیا تھا اور قربانی کو بھی جبکہ وہ روک دی گئی تھی کہ اپنی قربان گاہ تک پہنچے۔

جب تک قربانی اپنے مقام پرنہ پہنچے سرنہ منڈوائے

(اگر دشمن قربانی کو بھی آگے جانے نہ دے تو جس جگہ روکا جائے وہی قربانی کے لیے مَحِلَّہ ہوگا)

وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہُ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ یہاں تک کہ قربانی اپنی (ذبح ہونے کی)مقررہ جگہ پر پہنچ جائے۔

قربانی دینے سے پہلے سرمنڈوانے کی صورت میں فدیہ

وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہُ۔ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖ اَذًی مِّنْ رَّأسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ۔

(سورۃ البقرۃ آیت 197)

اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ یہاں تک کہ قربانی اپنی (ذبح ہونے کی)مقررہ جگہ پر پہنچ جائے۔پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہویااس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو کچھ روزوں کی صورت میں یا صدقہ دے کر یا قربانی پیش کرکے فدیہ دینا ہوگا۔

قربانی سے پہلے جانوروں سے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں

لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَا اِلیَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔

(سورۃ الحج آیت34)

تمہارے لیے ان (قربانی کے مویشیوں)میں ایک مقررہ مدت تک فوائد وابستہ ہیں پھر انہیں قدیم گھر تک پہنچانا ہے۔

اونٹ کی قربانی کا ذکر

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ۔ فَاذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ۔ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْ بُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُواالْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔

(سورۃ الحج آیت 37)

اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لیے شعائراللہ میں شامل کردیاہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔پس ان پر قطار میں کھڑا کرکے اللہ کا نام پڑھو۔پس جب (ذبح کرنے کے بعد) ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے کھاؤاورقناعت کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اور سوال کرنے والوں کو بھی ۔اسی طرح ہم نے انہیں تمہاری خدمت پر لگارکھاہے تاکہ تم شکر کرو۔

قربانی کے گوشت کا استعمال

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ۔فَاذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ۔ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْ بُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُواالْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔

(سورۃ الحج آیت 37)

اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لیے شعائراللہ میں شامل کردیاہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔ پس ان پر قطار میں کھڑا کرکے اللہ کا نام پڑھو۔پس جب (ذبح کرنے کے بعد)ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے کھاؤاورقناعت کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اور سوال کرنے والوں کو بھی ۔اسی طرح ہم نے انہیں تمہاری خدمت پر لگارکھاہے تاکہ تم شکر کرو۔

لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُواالْبَائِسَ الْفَقِیْرَ۔

(سورۃ الحج آیت 29)

تاکہ وہ وہاں پر اپنے فوائد کا مشاہدہ کرسکیں اور چند معروف دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر (بلند)کریں اور اس (احسان) پر کہ اس نے مویشی چوپایوں کے ذریعہ انہیں رزق عطاکیا ہے۔پس ان میں سے (خود بھی)کھاؤ اور محتاج ناداروں کو بھی کھلاؤ۔

قربانی کے بعد سر کے بال
منڈوائے بھی جا سکتے ہیں اور کتروائے بھی جا سکتے ہیں
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْ خُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَکُمْ وَمُقَصِّریْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا۔
(سورۃ الفتح آیت 28)
یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو(اس کی)رؤیا حق کے ساتھ پوری کردکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجد حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے،اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے ،ایسی حالت میں کہ تم خوف نہیں کرو گے۔پس وہ اس کاعلم رکھتاتھا جو تم نہیں جانتے تھے۔پس اس نے اس کے علاوہ قریب ہی ایک اَور فتح مقدّر کردی ہے۔
قربانی کی اصل روح تقوٰی کا حصول ہے
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآ ؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ۔
(سورۃ الحج آیت 38)
ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔اسی طرح اُس نے تمہارے لیے انہیں مسخر کردیاہے تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بناپرکہ جو اُس نے تمہیں ہدایت عطاکی۔ اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔
قربانی کا طریق مقرر کرنے کی وجہ۔
نعمتیں عطاہونے پر شکر بجالانا
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ۔ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہُ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ۔
(سورۃ الحج آیت34)
اور ہم نے ہر اُمّت کے لیے قربانی کا طریق مقرر کیاہے تاکہ وہ اللہ کانام اُس پر پڑھیں جو اس نے انہیں مویشی چوپائے عطاکیے ہیں ۔پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ۔پس اس کے لیے فرمانبردار ہوجاؤ۔اور عاجزی کرنے والوں کو بشارت دے دے۔
بیت حرام کے قیام،حُرمت والے مہینوں اور
قربانیوں کی حکمت
جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَالْھَدْیَ
وَالْقَلآَ ئِدَ۔ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔
(سورۃ المائدۃ آیت 98)
اللہ نے بیتِ حرام کعبہ کو لوگوں کے (دینی اوراقتصادی)قیام کا ذریعہ بنایاہے اور حرمت والے مہینہ کو اور قربانی کے جانوروں کو اور قربانی کی علامت کے طورپر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کو ۔یہ(تنبیہ)اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ اُسے خوب جانتاہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ۔اوریہ کہ اللہ ہرچیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔
ایام تشریق میں خصوصیت سے ذکر الٰہی کی تلقین
وَاذْکُرُوااللّٰہَ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ ۔وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ۔وَاتَّقُوااللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔
(سورۃ البقرۃ آیت204)
اور اللہ کو (بہت )یادکرواِن گنتی کے چند دنوں میں۔پس جو بھی دودنوں میں جلدفارغ ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے تو اس پر (بھی )کوئی گناہ نہیں(یعنی)اس کے لیے جو تقویٰ اختیار کرے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لوکہ تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤگے۔
خانہ کعبہ کا طواف کرنا (طواف افاضہ یا زیارت)
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔
(سورۃ الحج آیت 30)
پھر چاہیے کہ وہ اپنی (بدیوں کی)میل کو دور کریں اور اپنی منتوں کو پوراکریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔
مناسک کی ادائیگی کے بعد ذکر الٰہی کی تلقین
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوااللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَکُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا۔
(سورۃ البقرۃ آیت 201)
پس جب تم اپنے (حج کے)ارکان اداکرچکوتواللہ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباء کا ذکرکرتے ہو،بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ذکر۔
بیت اللہ کو بار بار اکٹھا ہونے کی جگہ بنایا گیا ہے
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔
(سورۃ البقرۃ آیت 126)
اور جب ہم نے (اپنے)گھر کو لوگوں کے باربار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا۔
بیت اللہ کو امن کی جگہ بنایا گیا ہے
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔
(سورۃ البقرۃ آیت 126)
اور جب ہم نے (اپنے)گھر کو لوگوں کے باربار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا۔
وَقَالُوْا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
(سورۃ القصص آیت 58)
اور انہوں نے کہاکہ اگر ہم تیرے ہمراہ ہدایت کی پیروی کریں گے تو ہم اپنے وطن سے نکال پھینکے جائیں گے ۔کیا ہم نے انہیں پُر امن حرم میں سکونت نہیں بخشی جس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں(یہ)ہماری طرف سے بطور رزق (ہیں)۔لیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ اَفَبِا الْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَکْفُرُوْنَ۔
(سورۃ العنکبوت آیت 68)
کیا انہوں نے نہیں دیکھاکہ ہم نے ایک امن والا حرم بنایاہے۔جبکہ اُن کے اردگرد سے لوگ اُچک لیے جاتے ہیں۔تو پھر کیا وہ جھوٹ پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کردیں گے؟
کعبہ سب انسانوں کے لیے ہے
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔
(سورۃ آل عمران آیت 97)
یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لیے بنایا گیاوہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اورباعثِ ہدایت بنایاگیاتمام جہانوں کے لیے۔
کسی کو مسجد حرام سے نہ روکا جائے
وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۔
(سورۃ المائدۃ آیت3)
اورتمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔
بغرض عبادت مسجدحرام میں ہرکسی(مشرک، یہود، عیسائی،مسلمان)کوجانے کی اجازت ہے۔صرف مشرکانہ رسوم کی ادائیگی پر پابندی ہے
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُواالْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا ۔ وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ اِنْ شَاءَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔
(سورۃ التوبۃ آیت28)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو !مشرکین تو ناپاک ہیں۔ پس وہ اپنے اِس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکیں۔اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہوتو اللہ تمہیں اپنے فضل کے ساتھ مالدار کردے گا اگر وہ چاہے۔یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور)بہت حکمت والا ہے۔
مسجد حرام سب انسانوں کے لیے یکساں ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآ نِ الْعَاکِفُ فِیْہَ وَالْبَادِ۔ وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظْلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔
(سورۃ الحج آیت 26)
یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کی راہ سے اور اُس مسجدِ حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب انسانوں کے فائدے کے لیے بنایا ہے اس طرح کہ اس میں(خداکی خاطر)بیٹھ رہنے والے اور بادیہ نشین(سب)برابر ہیں، اور جو بھی ظلم کی راہ سے اس میں کجی پیداکرنے کی کوشش کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
اللہ کے گھر کو پاک رکھنے کا حکم
وَعَہِدْنَا اِلٰیٓ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ۔
(سورۃ البقرۃ آیت 126)
اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لیے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِ بْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآ ئِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ۔
(سورۃ الحج آیت 27)
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ بنائی (یہ کہتے ہوئے کہ)میراکسی کو شریک نہ ٹھہرا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور)سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھ۔
حج کی ایک غرض اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کامشاہدہ،عطا شدہ نعمتوں میں محروموں کو بھی شامل کرنا اور اللہ کا شکراداکرنا بھی ہے
لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُواالْبَائِسَ الْفَقِیْرَ۔
(سورۃ الحج آیت 29)
تاکہ وہ وہاں پر اپنے فوائد کا مشاہدہ کرسکیں اور چند معروف دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر (بلند) کریں اور اس (احسان) پر کہ اس نے مویشی چوپایوں کے ذریعہ انہیں رزق عطاکیا ہے۔پس ان میں سے (خود بھی)کھاؤ اور محتاج ناداروں کو بھی کھلاؤ۔
حج بیت اللہ کی ایک غرض شعائر اللہ کی عظمت دلوں میں قائم کرناہے
یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّوْا شَعَآ ئِرِ اللّٰہِ وَلَا الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْھَدْیَ وَلَا الْقَلاَئِدَ وَلَا آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَاناً۔
(سورۃ المائدۃ آیت3)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو!شعائراللہ کی بے حرمتی نہ کرو اورنہ ہی حرمت والے مہینہ کی اورنہ قربانی کے جانوروں کی اورنہ ہی قربانی کی علامت کے طور پر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کی اور نہ ہی ان لوگوں کی جو اپنے رب کی طرف سے فضل اور رضوان کی تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصد کرچکے ہوں۔
ظاہری اعمال کی کچھ حیثیت نہیں
تمام عبادات کی اصل روح تقویٰ ہے
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآ ؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ۔
(سورۃ الحج آیت 38)
ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔اسی طرح اُس نے تمہارے لیے انہیں مسخر کردیاہے تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بناپرکہ جو اُس نے تمہیں ہدایت عطاکی۔اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔
(سورۃ التوبۃ آیت 19)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کرناایساہی سمجھ رکھا ہے جیسے کوئی اللہ پر ایمان لے آئے اور آخرت کے دن پر بھی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔وہ اللہ کے نزدیک ہرگز برابر شمار نہیں ہوسکتے ۔اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ۔ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۔ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا وَاتَّقُوااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔
(سورۃ البقرۃ آیت 190)
وہ تجھ سے پہلی تین رات کے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔تُو کہہ دے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج(کی تعیین)کابھی۔اورنیکی یہ نہیں کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہواکرو بلکہ نیکی اسی کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔اور اللہ سے ڈروتاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
وَاذْکُرُوااللّٰہَ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ ۔وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ۔وَاتَّقُوااللہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔
(سورۃ البقرۃ آیت204)
اور اللہ کو (بہت )یادکرواِن گنتی کے چند دنوں میں۔پس جوبھی دو دنوں میں جلد فارغ ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے تو اس پر (بھی )کوئی گناہ نہیں(یعنی)اس کے لیے جوتقویٰ اختیار کرے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤگے۔
کعبہ،بیت حرام،حرمت والے مہینہ اورقربانی کے جانوروں کے فوائد
جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَ الْھَدْیَ وَالْقَلآَئِدَ۔
(سورۃ المائدۃ آیت 98)
اللہ نے بیت حرام کعبہ کو لوگوں کے (دینی اور اقتصادی)قیام کاذریعہ بنایاہے اورحرمت والے مہینہ کواورقربانی کے جانوروں کواورقربانی کی علامت کے طورپرپٹے پہنائے ہوئے جانوروں کو۔
سفر حج کے دوران تجارت جائزہے
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ۔
(سورۃ البقرۃ آیت199)
تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب سے فضل چاہو۔
حرم کی ظاہری برکات
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۔
(البقرۃآیت 127)
اور جب ابراہیم نے کہاکہ اے میرے ربّ! اس کو ایک پُر امن اور امن دینے والا شہر بنادے اور اس کے بسنے والوں کو جو اُن میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطاکر۔
وَقَالُوْا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
(سورۃ القصص آیت 58)
اور انہوں نے کہاکہ اگر ہم تیرے ہمراہ ہدایت کی پیروی کریں گے تو ہم اپنے وطن سے نکال پھینکے جائیں گے ۔کیا ہم نے انہیں پُر امن حرم میں سکونت نہیں بخشی جس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں(یہ)ہماری طرف سے بطور رزق (ہیں)۔لیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔
تاریخ کعبہ
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔
(سورۃ آل عمران آیت 97)
یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لیے بنایا گیاوہ ہے جوبکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایاگیاتمام جہانوں کے لیے۔
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔
(سورۃ الحج آیت 30)
پھر چاہیے کہ وہ اپنی (بدیوں کی)میل کو دور کریں اور اپنی منتوں کو پوراکریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔
جدید تعمیر کعبہ کی تاریخ از حضرت ابراہیمؑ
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِ بْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآ ئِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ۔
(سورۃ الحج آیت 27)
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ بنائی (یہ کہتے ہوئے کہ)میراکسی کو شریک نہ ٹھہرااورمیرے گھرکوطواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور)سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک وصاف رکھ۔
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
(سورۃ البقرۃ آیت 128)
اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو اُستوار کررہاتھا اور اسماعیل بھی(یہ دعا کرتے ہوئے)کہ اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کرلے۔یقیناً تو ہی بہت سننے والا(اور)دائمی علم رکھنے والا ہے۔
مکہ (اہل مکہ) کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی دعا
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہُ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّہُ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔
(سورۃ البقرۃآیت 127)
اور جب ابراہیم نے کہاکہ اے میرے ربّ! اس کو ایک پُر امن اور امن دینے والا شہر بنادے اور اس کے بسنے والوں کو جو اُن میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطاکر۔اس نے کہا کہ جو کفر کرے گااسے بھی میں کچھ عارضی فائدہ پہنچاؤں گا۔پھر میں اُسے آگ کے عذاب کی طرف جانے پر مجبور کردوں گا اور(وہ)بہت ہی بُرا ٹھکاناہے۔
خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی جانے والی دعائیں
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
(سورۃ البقرۃ آیت 128)
اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو اُستوار کررہاتھا اور اسماعیل بھی(یہ دعا کرتے ہوئے)کہ اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کرلے۔یقیناً تو ہی بہت سننے والا(اور)دائمی علم رکھنے والا ہے۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔(سورۃ البقرۃ آیت129)
اور اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنادے اور ہماری ذریّت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبرداراُمّت(پیداکردے)۔اور ہمیں اپنی عبادتوں اورقربانیوں کےطریق سکھا اور ہم پرتوبہ قبول کرتے ہوئے جُھک جا۔ یقیناً تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا (اور)بار بار رحم کرنے والاہے۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِ یْزُ الْحَکِیْمُ۔ (سورۃ البقرۃ آیت 130 )
اے ہمارے رب ! توان میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر،جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی)حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کردے۔یقیناً تُو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والاہے۔
نَسِیء (مہینوں کو آگے پیچھے کرنا)کفر میں اضافہ
اِنَّمَا النَّسِیْٓ ءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہُ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَہُ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ۔ زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِھِمْ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔
(سورۃ التوبۃ آیت37)
یقیناً نَسِئ کفر میں ایک اضافہ ہے۔اِس سے اُن لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا گمراہ کردیاجاتا ہے۔کسی سال تو وہ اُسے جائز قرار دیتے ہیں اور کسی سال اُسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اس کی گنتی پوری رکھیں جسے اللہ نے حُرمت والا قرار دیا ہے،تاکہ وہ اُسے جائز بنادیں جسے اللہ نے حرام کیاہے۔ان کے لیے ان کے اعمال کی بُرائی خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے اور اللہ کافرقوم کوہدایت نہیں دیتا۔
حج اکبر سے مراد
( حضرت ابوبکرؓ کی امارت میں ہونے والا حج)
وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ ۔ فَاِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ ۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔
(سورۃ التوبۃ آیت3)
اور حجِ اکبر کے دن سب لوگوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ عام کیا جاتاہے کہ اللہ مشرکین سے کلیۃً بیزار ہے اور اس کا رسول بھی۔پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لیے بہترہے اور اگر تم پھر جاؤ تو جان لو کہ تم ہرگز اللہ کو عاجز نہیں کرسکوگے۔پس وہ لوگ جو کافر ہوئے انہیں ایک درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دے۔
٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button