سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

(گزشتہ سے پیوستہ )

آپؑ کی صحابۂ رسول ﷺ سے محبت کا بیان

ایک اور جگہ آپؑ نے فرمایا:

’’عکرمہ کا حال تم نے سنا ہو گا۔ احد کی مصیبت کا بانی مبانی یہی تھا اور اس کا باپ ابو جہل تھا، لیکن آخر صحابہ کرام ؓکے نمونوں نے شرمندہ کر دیا۔میرا مذہب یہ ہے کہ خوارق نے ایسا اثر نہیں کیا جیسا صحابہ کرامؓ کے پاک نمونوں اور تبدیلیوں نے لوگوں کو حیران کیا۔لوگ حیران ہو گئے کہ ہمارا چچا زاد کہاں سے کہاں پہنچا۔ آخر انہوں نے اپنے آپ کو دھوکہ سمجھا۔

عکرمہ نے ایک وقت ذاتِ آنحضرت ﷺ پر حملہ کیا اور دوسرے وقت لشکر کفار کو درہم برہم کیا۔غرض آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں صحابہؓ نے جو پاک نمونے دکھائے ہیں ۔ہم آج فخر کے ساتھ ان کو دلائل اور آیات کے رنگ میں بیان کر سکتے ہیں چنانچہ عکرمہ ہی کانمونہ دیکھو کہ کفر کے دنوں میں کفر، عُجب وغیرہ خصائلِ بد اپنے اندر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ بس چلے تو اسلام کو دنیا سے نابود کر دےمگر جب خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس کی دستگیری کی اور وہ مشرف باسلام ہوا ،تو ایسے اخلاق پیدا ہوئے کہ وہ عُجب اور پندار نام تک کو باقی نہ رہا اور فروتنی اور انکسار پیدا ہوا کہ وہ انکسار حجة الاسلام ہو گیا اور صداقت اسلا م کے لیے ایک دلیل ٹھہرا۔ایک موقعہ پر کفار سے مقابلہ ہوا۔عکرمہ لشکر اسلام کا سپہ سالار تھا۔کفا ر نے بہت سخت مقابلہ کیایہاں تک کہ لشکر اسلام کی حالت قریب شکست کھانے کے ہو گئی۔عکرمہ نے جب دیکھاتو گھوڑے سے اترا۔لوگوں نے کہا آپ کیوں اترتے ہیں ۔شاید ادھر ادھر ہونے کا وقت ہو تو گھوڑا مدد دے۔تو اس نے کہا۔اس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آگیا ہےجب میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کامقابلہ کرتا تھا۔میں چاہتا ہوں کہ جان دے کر گناہوں کا کفارہ کروں ۔اب دیکھئے کہ کہاں سے کہاں تک حالت پہنچی کہ بار بار محامد سے یاد کیا گیا۔یہ یاد رکھو کہ خداتعالیٰ کی رضا ان لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے۔جو اس کی رضا اپنے اندر جمع کر لیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے جا بجا ان کورضی اللہ عنہم کہا ہے۔میری نصیحت یہ ہے کہ ہر شخص ان اخلاق کی پابندی کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ149،148)

آپؑ فرماتے ہیں :

’’مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بھی کہا تھا۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنَیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32)

اسی طرح پر اگر تم میری پیروی کروگے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہوجاؤگےاوراس طرح پرسینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے لائق ہوجاؤگے۔تزکیہٴ نفس کے لیے چلّہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں ۔ارّہ اور نفی واثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کئے تھے، بلکہ اُن کے پاس ایک اور ہی چیز تھی۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں محو تھےجو نور آپؐ میں تھا۔وُہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہوکرصحابہؓ کے قلب پر گرتا اور ماسِوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا۔تاریکی کے بجائے اُن سینوں میں نور بھرا جاتا تھا۔اس وقت بھی خوب یادرکھووہی حالت ہے ۔جب تک کہ وہ نور جو خدا کی نالی میں سے آتا ہے تمہارے قلب پر نہیں گرتا تزکیہ نفس نہیں ہوسکتا۔انسان کا سینہ مہبط الانوار ہے اور اسی وجہ سے وہ بیت اللہ کہلاتا ہے۔بڑا کام یہی ہے کہ اس میں جو بت ہیں ۔وہ توڑے جائیں اور اللہ ہی اللہ رہ جائے۔حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اللّٰہ اللّٰہ فِیْ اَصْحَابِیْ۔میرے صحابہؓ کے دلوں میں اللہ ہی اللہ ہے۔دل میں اللہ ہی اللہ ہونے سے یہ مُراد نہیں کہ انسان وحدتِ وجود کے مسئلہ پر عمل کرے اور ہرکتے اور گدھے کو معاذ اللہ خداقراردے بیٹھے۔نہیں نہیں ۔اس سے اصل غرض یہ ہے کہ انسان کا جو کام ہو اس میں مقصود فی الذات اللہ تعالیٰ ہی کی رضاہو۔ اور نہ کچھ اَور۔اور یہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔جب تک خداتعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو۔

برکریماں کا رہادُشوارنیست‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ188،187)

ایک جگہ آپؑ صحابہ کے استقلال اور اخلاص کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’کون اس جماعت کثیر کا دوسری جگہ وجود دکھلا سکتا ہے جو تعداد میں دس ہزار سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی اور کمال اعتقاد اور انکسار ااور جانفشانی اور پوری محویّت سے سچائی کے حاصل کرنے اور راستی کے سیکھنے کے لیے آستانہ نبوی پر دن رات پڑی رہتی تھی۔‘‘

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 20)

آپؑ صحابہؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم محض راست گوئی کی وجہ سے شہید ہوتے رہے اور الٰہی گواہی کو انہوں نے ہرگز مخفی نہ رکھا گو ان کے خون سے زمین سرخ ہوگئی مگر انجیل سے ثابت ہے کہ خود آپ کے یسوع صاحب ہی اس شہادت کو مخفی رکھتے ہیں جس کا ظاہرکرنا ان پر واجب تھا اور وہ ایمان بھی دکھلا نہ سکے جو مکہ میں مصائب کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے دکھلایا تھا۔‘‘

(نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد 9صفحہ404,403)

ایک اور جگہ آپؑ نے فرمایا:

’’وہ رسول جس کو خدا نے برگزیدہ کیا اور عنایات ازلیہ کے ساتھ اُس کی طرف توجّہ کی اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لیے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے۔اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اُن کو چارپایوں کی مانند پایا کہ وہ توحید اور پرہیز گاری میں سے کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور نیکی بدی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے۔پس رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو انسانیت کے آداب سکھلائے۔‘‘

(نجم الہدٰی، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 31،32)

ایک جگہ آپؑ اپنے پیارے خدا سے یوں دعا گو ہیں :۔

’’اَللّٰہُمَّ فَصَلِّ عَلَیْہِ وَسَلِّمْ وَ اٰلِہِ الْمُطَھَّرِیْنَ الطَّیِّبِیْن۔ وَ اَصْحَابِہِ الَّذِیْنَ ھُمْ اسود مَوَاطِن النَّھَارِ وَ رُھْبَان اللَّیَالِیْ وَ نُجُوْم الدِّیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُم اَجْمَعِیْن۔‘‘

(نجم الہدٰی، روحانی خزائن جلد14 صفحہ17)

ترجمہ:’’پس اے خدا ! اس نبی پر سلام اور درود بھیج اور اُس کے آل پر جو مطہّر اور طیّب ہیں اور اُس کے اصحاب پر جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں اور دین کے ستارے ہیں ۔خدا کی خوشنودی اُن سب کے شامل حال رہے۔‘‘

حضرت اقدس اپنے ایک قصیدہ میں فرماتے ہیں :

یَبْکُوْنَ مِنْ ذِکْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةً
وَ تَاَلُّمًا مِّن لَّوْعَةِ الْھِجْرَانٖ
قَدْ اٰثَرُوْکَ وَ فَارَقُوْا اَحْبَابَھُمْ
وَ تَبَاعَدُوْا مِنْ حَلْقَةِ الْاِخْوَانٖ
قَدْ وَدَّعُوْا اَھْوَاءَھُمْ وَ نُفُوسَھُم
وَ تَبَرَّؤُوْا مِن کُلِّ نَشْبٍ فَانٖ
ظَھَرَت عَلَیھِم بَیِّنَاتُ رَسُوْلِھِم
فَتَمَزَّقَ الْاَھْوَاءُ کَالْاَوْثَانٖ
فِیْ وَقْتِ تَرْوِیْقِ اللَّیَالِی نُوِّرُوْا
وَاللہُ نَجَّاھُم مِّنَ الطُّوْفَانٖ
قَدْ ھَاضَہُمْ ظُلْمُ الْاُنَاسِ وَ ضَیْمُہُمْ
فَتَثَبَّتُوْا بِعِنَایَةِ الْمَنَّانٖ
کَسَحُوْا بُیُوْتَ نُفُوْسِھِمْ وَ تَبَادَرُوْا
لِتَمَتُّعِ الْإیْقَانِ وَ الْإیمَانٖ
قَامُوْا بِاِقْدَامِ الرَّسُوْلِ بِغَزْوِھِمْ
کَالْعَاشِقِ الْمَشْغُوْفِ فِی الْمَیْدَانٖ
فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِھِم فِی حُبِّھِمْ
تَحْتَ السُّیُوْفِ اُرِیْقَ کَالْقُرْبَانٖ

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 590، 591)

ترجمہ: ’’وہ تیرے حسن کی یاد میں بوجہ عشق کے (بھی) روتے ہیں اور جدائی کی جلن کے دکھ اٹھانے سے بھی۔

بے شک انہوں نے تجھے مقدم کر لیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ دیا اور اپنے بھائیوں کےدائرہ سے دور ہو گئے۔

انہوں نے اپنی خواہشوں اور نفسوں کو یکسر چھوڑ دیا اور ہر فانی مال و منال سے بیزار ہو گئے۔

ان پر اپنےر سول کے روشن دلائل ظاہر ہوئے تو ان کی نفسانی خواہشیں بُتوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں۔

وہ راتوں کی تاریکی کے وقت منور ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں طوفان سے نجات دے دی۔

بے شک لوگوں کے ظلم و ستم نے انہیں چُور چُور کر دیا پھر بھی خدائے محسن کی عنایت سے وہ ثابت قدم رہے۔

انہوں نے اپنے نفس کے گھروں کو خوب صاف کیا اور یقین و ایمان کی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگے بڑھے۔

وہ رسول کی پیش قدمی پر اپنی جنگ میں ایک عاشقِ شیدا کی طرح میدان میں ڈٹ گئے۔

سو ان جواں مردوں کا خون اپنی محبت میں ثابت قدمی کی وجہ سے تلواروں کے نیچے قربانیوں کی طرح بہایا گیا۔‘‘

(ترجمہ از القصائد الاحمدیہ صفحہ 1تا 3)

اپنے ایک قصیدہ میں آپؑ فرماتے ہیں :

لہ صُحْبةٌ کانوا مجانینَ حُبِّہ
و جعلوا ثری قدمیہ للعین إثْمَدا
و أرَوا نشاطًا عند کل مصیبة
کعَوْجاءَ مِرقالٍ تُواری تَخدُّدا
و إذا مُرَبِّینا أہابَ بغنمہ
فراعُوا إلی صوت المُہیب تودُّدا
و کان وصال الحق فی نیّاتہم
و خطراتہم فلأجلہ مَدُّوا الیذا
و رأوا حیاة نفوسہم فی موتہم
فجا ؤا بمیدان القتال تجلُّدا
و جاشت الیھم من کروب نفوسھم
و انذرھم قوم شقی تھددا
فظلوا ینادون المنایا بصدقہم
و ما کان منہم مَن ابٰی أو تردَّدا
و فاضت لتطہیر الأناس دماؤہم
من الصدق حتی آثر الخَلقُ مَرصَد ا
و أحیَوا لیالیہم مخافةَ ربہم
و أذابہم یومٌ یُشیِّب ثَوہَدا
تَناہَوا عن الأہواء خوفا وخشیة
و باتوا لمولاہم قِیامًا وسُجّدا
تلقَّوا علومًا من کتاب مقدس
حکیم فصافاہم کریم ذو الندٰی
کنوقٍ کرائمَ ذاتِ خُصْلٍ تجلَّدوا
و تربَّعوا کلاءَ الأسِرَّة أغیَدا

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 92، 93)

ترجمہ: ’’آپؐ کے کچھ صحابی تھے جو آپؐ کی محبت میں دیوانے تھے۔انہوں نے آپؐ کے دونوں قدموں کی خاک کو آنکھ کا سرمہ بنا لیا۔

اور ہر مصیبت کےو قت انہوں نے خوشی ظاہر کی۔دبلی تیز رو اونٹنی کی طرح جو (تیز روی سے)دبلا پن چھپا دیتی ہے۔

اور جب ہمارے مربی نے اپنے گلّے کو آواز دی تو وہ پکارنے والے کی آواز کی طرف لوٹ آئے۔

اور ان کی نیتوں میں خدا کا وصال تھا اور ان کے خیالات میں بھی۔اسی لیے انہوں نے ہاتھ بڑھائے۔

اور انہوں نے اپنی جانوں کی زندگی اپنی موت میں پائی سو وہ میدانِ جنگ میں دلیری سے آ گئے۔

اور دکھوں سے ان کی جانیں ابلنے لگیں اور بدبخت قوم نے انہیں دھمکی دے کر ڈرایا۔

وہ اپنے صدق کی وجہ سے موتوں کو پکارنے لگے اور ان میں سے کوئی نہیں جس نے انکار یا تردد کیا ہو۔

اور لوگوں کو پاک کرنے کے لیے ان کے خون بَہ پڑے صدق کی وجہ سے۔یہاں تک کہ خلقت نے صحیح راہ کو اختیار کر لیا۔

انہوں نے اپنے رب سےڈرتے ہوئے اپنی راتوں کو زندہ کیا اور ان کو پگھلا ڈالا اس دن نے جو جوان کو بوڑھا کر دیتا ہے۔

وہ خوف اور خشیت الٰہی سے حرص و ہوا سے رک گئے اور اپنے مولیٰ کی خاطر انہوں نے قیام اور سجدے میں راتیں گزاریں ۔

انہوں نے کئی علم کتاب مقدس، حکمت والی (قرآن) سے سیکھ لیے۔خدائے کریم نے جو بخشش کرنے والا ہے ان کو دوست بنا لیا۔

انہوں نے مثل اچھی اونٹنیوں کے جو گپھے دار دُم والی ہوں۔ہمت دکھائی۔انہوں نے وادیوں کی سرسبز گھاس پر موسم بہار گزارا۔‘‘

(ترجمہ از القصائد الاحمدیہ صفحہ 70-71)

حضرت اقدسؑ صحابہؓ کے متعلق اپنے ایک قصیدہ میں یوں فرماتے ہیں :

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً
فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانٖ

اے محمدؐ!تو نے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا
تو تُو نے انہیں خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا

حَتَّی انْثَنٰی بَرٌّ کَمِثْلِ حَدِیْقَۃٍ
عَذْبِ الْمَوَارِدِ مُثْمِرِ الْأَغْصَانٖ

یہاں تک کہ خشک ملک اس باغ کی مانند ہوگیا
جس کے چشمے شیریں ہوں اور جس کی ڈالیاں پھلدار ہوں

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ591 و قصائد الاحمدیہ صفحہ3)

ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں :

اِنَّ الصَّحَابَۃَ کُلَّھُمْ کَذُکَاءِ
قَدْ نَوَّرُوْا وَجْہَ الْوَرٰی بِضِیَاءِ

یقیناً صحابہ سب کے سب سورج کی مانند ہیں
انہوں نے مخلوقات کا چہرہ اپنی روشنی سے منوّر کردیا

تَرَکُوْا اَقَارِبَھُمْ وَ حُبَّ عِیَالِھِمْ
جَاءُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَالْفُقَرَاءِ

انہوں نے اپنے اقارب کو اور عیال کی محبت کو بھی چھوڑ دیا(اور) رسول اللہ ؐکے حضور میں فقرا کی طرح حاضر ہوگئے

ذُبِحُوْا وَمَا خَافُوا الْوَرٰی مِنْ صِدْقِھِمْ
بَلْ اٰثَرُوا الرَّحْمَانَ عِنْدَ بَلَاءِ

وہ ذبح کئے گئے اور اپنے صدق کی وجہ سے مخلوق سے نہ ڈرے
بلکہ مصیبت کے وقت انہوں نے خدائے رحمٰن کو اختیار کیا

تَحْتَ السُّیُوْفِ تَشَھَّدُوْا لِخُلُوْصِھِمْ
شَھِدُوْا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِی الْاَمْلَاءِ

اپنے خلوص کی وجہ سے وہ تلواروں کے نیچے شہیدہوگئے
اور مجالس میں انہوں نے صدقِ قلب سے گواہی دی

اَلصَّالِحُوْنَ الْخَاشِعُوْنَ لِرَبِّھِمْ
اَلْبَائِتُوْنَ بِذِکْرِہِ وَ بُکَاءِ

وہ صالح تھے، اپنے رب کے حضور عاجزی کرنے والے تھے
وہ اس کے ذکر میں رورو کرراتیں گذارنے والے تھے

یَا رَبِّ فَارْحَمْنَا بِصَحْبِ نَبِیِّنَا
وَ اغْفِرْ وَ اَنْتَ اللّٰہُ ذُو اٰلَاءِ

اے میرے رب! ہم پر بھی نبیؐ کے صحابہ کے طفیل رحم فرما
اور ہماری مغفرت فرما اور تو ہی نعمتوں والا اللہ ہے

مَنْ سَبَّ اَصْحَابَ النَّبِیِّ فَقَدْ رَدَی
حَقٌّ فَمَا فِی الْحَقِّ مِنْ اِخْفَاءِ

جس نے نبی کریمؐ کے اصحاب کو گالی دی تو بےشک وہ ہلاک ہوگیا
یہ ایک سچائی ہے سو اس سچائی میں کوئی اخفاء نہیں

(سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ397 و قصائد الاحمدیہ صفحہ197-199)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button