خدا کی ایک قہری تجلّی ایک اَور عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اگر ہم ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا چھوڑ دیں گے تو ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا جو اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معیار سے بے بہرہ ہیں۔ قطع نظر اِس بات کے کہ ہماری بات سنی جاتی ہے یا کوئی اثر پیدا کرتی ہے یا نہیں، ہمیں قیام امن کی خاطر دوسروں کو نصائح کرتے رہنا ہو گا۔…لہٰذا میں آپ سب لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر کوششیں صَرف کر کے قیام امن کے لیے کوشش کریں تاکہ ہم اُمید کی کرن کو زندہ رکھ سکیں کیونکہ ایک وقت آئے گا جب دنیا کے تمام خطوں میں حقیقی امن اور انصاف قائم ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ)
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب انسانی کوششیں بے کار ہو جاتی ہیں اس وقت خدا تعالیٰ اپنی تقدیر جاری کر کے بنی نوع انسان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ قبل اس کے کہ خدا کی تقدیر حرکت میں آئے اور انسان حکمِ خدا کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو۔ بہتر ہو گا کہ دنیا کے لوگ خود اِن اہم باتوں کی طرف توجہ کر لیں کیونکہ جب خدا تعالیٰ پکڑنے پر آتا ہے تو اس کا قہر بنی نوع انسان کو انتہائی خوفناک اور بھیانک انداز میں پکڑتا ہے۔
آج کے دَور میں خدا کی ایک قہری تجلی ایک اَور عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کے بد اثرات اور تباہی صرف ایک روایتی جنگ یا صرف موجودہ نسل تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ در حقیقت اس کے ہولناک نتائج آئندہ کئی نسلوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ایسی جنگ کا المناک نتیجہ تو ان نو مولود بچوں کو بھگتنا پڑے گا جو اب یا آئندہ پیدا ہوں گے۔ جو ہتھیار آج موجود ہیں وہ اِس قدر تباہ کن ہیں کہ ان کے نتیجہ میں نسلاً بعد نسلٍ بچوں کے جینیاتی یا جسمانی طور پر معذور پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
جاپان وہ واحد ملک ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی حملہ والے ہولناک تجربہ سے گزرا ہے۔ آج بھی اگر آپ جاپان جائیں اور وہاں کے لوگوں سے ملیں تو آپ دیکھیں گے کہ جنگ کے بارہ میں ان کی آنکھوں اور ان کی باتوں سے شدید خوف اور نفرت جھلکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت استعمال کیے گئے ایٹمی ہتھیار جنہوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی آج بہت چھوٹے ملکوں کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں سے بھی بہت کم طاقت کے حامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جاپان میں سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی بعض نو زائیدہ بچوں میں ایٹم بم کے بد اثرات اب بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو گولی مار دی جائے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ طبی امداد مہیا ہونے پر اس کی جان بچائی جا سکے لیکن اگر ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو جو لوگ براہ راست اس کی زد میں آئیں گے اُن کی جلد پانی کی طرح بہ جائے گی۔ پینے کا پانی، غذا اور سبزہ وغیرہ ایٹمی تابکاری سے ناقابل استعمال ہو جائیں گے۔ اس تابکاری کے اثرات سے جو بیماریاں پیدا ہوں گی ہم ان کا صرف تصور کر سکتے ہیں۔ ان مقامات پر جہاں براہ راست حملہ نہیں ہو گا اور جہاں تابکاری کے اثرات کم ہوں گے وہاں بھی بیماریوں کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے اور ان کی آئندہ نسلیں بھی بہت بڑے خطرات میں گِھر جائیں گی۔
لہٰذا جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے کہ اس قسم کی جنگ کے ہولناک اور تباہ کن اثرات صرف اس جنگ تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ نسلاً بعد نسلٍ چلیں گے۔ ایسی جنگوں کے ان نتائج کے باوجود آج بھی ایسے خود غرض اور بے وقوف لوگ موجود ہیں جو اپنی اس ایجاد پر فخر کرتے ہوئے انہیں دنیا کے لیے ایک تحفہ قرار دیتے ہیں۔
(خطاب فرمودہ 24؍مارچ 2012ء بمقام طاہر ہال بیت الفتوح بر موقع نویں سالانہ امن کانفرنس)
٭…٭…٭