خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ مئی 2019ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17؍ مئی2019ء بمطابق 17؍ہجرت1398 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد۔ (ٹلفورڈ، سرے)، یوکے

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ جمعہ سے قبل مسجد مبارک اسلام آباد کا باقاعدہ افتتاح فرماتے ہوئے افتتاح کی پلیٹ کا پردہ ہٹایا اور مسجد میں تشریف لاکر فرمایا:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہ۔ ابھی باہر میں نے مسجد کے افتتاح کی جو پلیٹ لگی ہوئی تھی اس کا پردہ ہٹا دیا۔ وہ تو افتتاح ہو گیا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ربوہ کی مسجد مبارک کا افتتاح فرمایا تو اُس وقت فرمایا تھا کہ افتتاح سے پہلے دو نفل کا انتظام ہونا چاہیے لیکن اُس وقت وہاں انتظام نہیں ہو سکتا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم سجدۂ شکر کریں گے۔

(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 32 صفحہ 48-49 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 23 مارچ 1951ء)

عموماً روایت یہ ہے کہ مَیں جب افتتاح کی پلیٹ کا پردہ ہٹاتا ہوں تو ہم دعا کرتے ہیں۔ آج اُسی طریق پر عمل کرتے ہوئے بجائے دعا کے ابھی مَیں سجدۂ شکر کروں گا ۔ آپ میرے ساتھ اس میں شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹا سا مرکز ہمیں عطا فرمایا، یہ مسجد عطا فرمائی اور اس کے بعد پھر باقاعدہ خطبہ شروع ہو گا۔ سجدہ شکر کر لیں۔ (اس کے بعد حضورِ انور کی اقتدا ءمیں تمام حاضرین نے سجدۂ شکرادا کیا)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
قُلْ أَمَرَ رَبِّيْ بِالْقِسْطِ وَأَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ فَرِيْقًا هَدٰى وَفَرِيْقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلٰلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوْا الشَّيٰطِيْنَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۔ يٰبَنِيْ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۔ (الاعراف: 30تا 32)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ تُو کہہ دے میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر مسجد کے پاس اپنی توجہ درست کر لیا کرو اور اللہ کی عبادت کو خالص اسی کا حق قرار دیتے ہوئے اسی کو پکارو ۔جس طرح اس نے تم کو شروع کیا تھا، پھر ایک دن تم اسی حالت کی طرف لوٹو گے۔ ایک فریق کو اس نے ہدایت دی لیکن ایک اَور فریق ہے جس پر گمراہی واجب ہو گئی ہے (یعنی وہ گمراہی کا مستحق ٹھہرا ہے )انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پا گئے ہیں۔ اے آدم کے بیٹو!ہر مسجد کے قریب زینت کے سامان اختیار کر لیا کرو اور کھا ؤاور پیئو اور اسراف نہ کرو کیونکہ وہ (اللہ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

الحمد للہ، اللہ تعالیٰ آج ہمیں اسلام آباد میں، اسلام آباد کی اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ جیسا کہ چند جمعے پہلے میں نے مرکز اسلام آباد منتقل ہونے کے بارے میں کہا تھا کہ مسجد فضل کے ساتھ اب دفاتر وغیرہ کے انتظامات میں کافی تنگی محسوس کی جانے لگی تھی اور اب دفاتر کے لیے بھی زیادہ بہتر اور کھلی گنجائش کی ضرورت تھی جو اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام آباد کے تعمیراتی منصوبے کی تکمیل کے بعد کافی حد تک میسر آ گئی ہے۔ اسی طرح جماعت کے خدمت کرنے والوں اور دفاتر میں کام کرنے والے کچھ لوگوں کو حسبِ گنجائش رہائش بھی مہیا ہو گئی ہے۔ اسی طرح خلیفۂ وقت کی رہائش بھی تعمیر ہو گئی ہے۔ خلیفۂ وقت کی رہائش کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد بھی ہو تاکہ خلیفۂ وقت کی اقتدا میں لوگ نمازوں کی جو ادائیگی ہے وہ آرام سے کر سکیں اور دوسرے درس و تدریس کے جو کام ہیں وہ بھی خلیفۂ وقت سہولت سے کر سکے۔ گو آج رسمی طور پر ہم اس جمعے کے ساتھ مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں لیکن عملاً میرے یہاں منتقل ہوتے ہی نمازوں اور دوسرے پروگراموں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ باہر سے خدام اطفال اور لجنہ کے وفود آتے رہے اور کافی بڑی تعداد میں اس میں شامل ہونے والے لوگ آتے رہے۔ اس لیے اس مسجد میں ان کے ساتھ مجالس بھی ہوتی رہیں اور جن کے ساتھ دوسرے چھوٹے ہالوں میں پروگرام ہوئے تو نماز کے لیے انہیں مسجد میں آسانی سے سہولت حاصل ہو گئی، وہ یہاں آ سکے۔ یہ مسجد ،مسجد فضل سے تقریباً چار گنا زیادہ گنجائش رکھتی ہے لیکن جو لوگوں کے وفود آ تے رہے اس میں یہی اندازہ ہوا کہ یہ مسجد بھی چھوٹی پڑتی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی قبلہ رخ ایک ملٹی پرپز (multi-purpose)ہال بنایا گیا ہے۔ اس میں گنجائش ہے۔ اس میں زائد لوگ نماز پڑھتے رہے۔ بہرحال یہ باتیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت یو۔کے میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں بھی مسجدیں بن رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ دس پندرہ سال میں مساجد کی تعمیر میں جماعتوں کو خاص توجہ پیدا ہوئی ہے اور اس توجہ کی وجہ سے مساجد تعمیر ہو رہی ہیں۔ لیکن اس مسجد کی جس کا نام مَیں نے ‘‘مسجد مبارک’’ رکھا ہے اس لحاظ سے اہمیت ہے کہ خلیفۂ وقت کی رہائش بھی یہاں ہے۔ خدمت کرنے والوں میں سے قریباً انتیس تیس لوگوں کی رہائش بھی اچھے مناسب گھروں کی صورت میںیہاں ہے، اور تمام ضروری دفاتر جن سے میرا روزانہ عموماً زیادہ واسطہ رہتا ہے وہ بھی یہاں ہیں۔ یعنی یہ جگہ اور یہ مسجد اس لحاظ سے مرکزی مسجد ہے اور یہ اہمیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد اس لحاظ سے مسجد مبارک کی مثیل بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور ہر لحاظ سے مبارک بھی ہو۔

جب اس کا نام رکھنے کی تجویز ہو رہی تھی تو اس سے پہلے اَور نام ذہن میں آتے رہے۔ بعض ناموں کے مشورے بھی ہوتے رہے لیکن پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا یہ الہام ایک دم میرے سامنے آ گیا جس کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔ الہام یہ تھا
‘‘مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ’’

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے الفاظ میں ہی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ‘‘یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امرِمبارک اس میں کیا جائے گا۔’’(تذکرہ صفحہ 83 ایڈیشن چہارم)

اللہ تعالیٰ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو دعائیں مسجد مبارک قادیان میں کیں اور جو آپؑ کی خواہشات اور تڑپ دنیا میں اسلام کے پھیلنے اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے تھی وہ اس مسجد کو بھی پہنچتی رہیں اور انگلستان اور یورپ اور دنیا کے تمام ممالک میں یہاں سے توحید کے پھیلانے اور اسلام کا پیغام پہنچانے والی یہ مسجد اور یہ مرکز ہمیشہ بنے رہیں۔ یہاں مرکز کا آنا ہر لحاظ سے مبارک ہو اور خلافتِ احمدیہ کی طرف سے جاری ہونے والے تمام منصوبے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکت کو جذب کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جن برکتوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی مسجد سے تعلق تھا وہ اسے بھی ملتی رہیں۔ مجھے کل تک یہ نہیں پتا تھا اور کل ہی میرے سامنے یہ بات آئی کہ جب ربوہ کی آبادی شروع ہوئی ہے تو اُس وقت بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد مبارک کی تعمیر کے وقت یہی فرمایا تھا کہ یہ مسجد مسجد مبارک قادیان کے قائم مقام اور اس کا ظل اور مثیل ہو گی۔

(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 30صفحہ 316خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 30ستمبر 1949ء)

یعنی ربوہ میں جو مسجد مبارک تھی وہ اس کا مثیل ہو گی۔ بہرحال وہاں ایک لمبا عرصہ خلافت رہی اور ابھی بھی مرکزی دفاتر وہاں ہیں لیکن گذشتہ 35 سال سے وہاں سے ہجرت کی وجہ سے یہاں بھی اب نئے دفاتر کی، نئی چیزوں کی، عمارتوں کی اور مساجد کی ضرورت تھی۔ ملکی قانون کی وجہ سے خلافتِ احمدیہ کو ربوہ سے ہجرت کرنی پڑی اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یہاں پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے دروازے بھی کھولے۔ اللہ تعالیٰ ان وسعتوں کو بھی مزید بڑھاتا چلا جائے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں اور دشمن نے اپنے زعم میں جن فضلوں اور برکتوں کو ہم سے چھیننا چاہا تھا اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر اور کئی گنا بڑھ کر اس مسجد اور اس مرکز سے وہ ترقیات کے نظارے دکھائے۔

اپنے زعم میں جماعت کی زندگی اور قسمت کے مالک بنے ہوؤں کی عقل کا بھی یہ حال ہے اور جہالت کی یہ حالت ہے کہ کسی نے مجھے دکھایا کہ سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کے کوئی سیاستدان یہ تبصرہ کر رہے تھے اور وہ اپنا کمنٹ دے رہا تھا کہ ہم نے جماعتِ احمدیہ پر پابندیاں لگائی تھیں اور ان کو پاکستان میں پنپنے نہیں دیا تھا اور یہ نئی حکومت آئی ہے تو اِنہوں نے احمدیوں اور قادیانیوں کو اسلام آباد میں مرکز بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ان کی عقل کا حال ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھی ان کے ایک سیاستدان نے ہمارے متعلق اسی طرح کا جاہلانہ بیان دیا تھا اور پھر بعد میں کہہ دیا او ہوغلطی ہو گئی۔ میں ٹھیک طرح سمجھا نہیں تھا۔ بہرحال یہ تو ان دنیا داروں کی سوچیں ہیں۔ ان کو کیا پتا کہ جماعتِ احمدیہ کی ترقی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہے نہ دنیا کی کوئی حکومت اس کی ترقی کو روک سکتی ہے اور نہ کسی حکومت کی مدد کی جماعتِ احمدیہ اپنی ترقی کے لیے محتاج ہے۔ ہم جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے رہیں گے، جب تک اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنتے ہوئے ان ترقیات کا حصہ بنے رہیں گے۔ پس ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہنا چاہیے۔

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس نئی بستی میں رہنے کی توفیق دی ہے اور جو لوگ یہاں مرکز بننے کی وجہ سے اس نئی آبادی کے قرب و جوار میں آ کر آباد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں یا ہو رہے ہیں انہیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی حالتوں کو ایسا بنائیں کہ اس علاقے میں احمدیت اور اسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کو نظر آئے۔ بےشک اسلام آباد میں ایک لمبا عرصہ ہمارے واقفینِ زندگی اور کارکنان رہتے رہے ہیں اور اس لحاظ سے یہاں کے رہنے والے لوگ احمدیوں سے متعارف بھی ہیں۔ بے شک جلسوں کی وجہ سے بھی اس علاقے میں احمدیت کا تعارف ہے۔2004ء تک بڑا لمبا عرصہ یہاں جلسے ہوتے رہے اور پھر اب آلٹن میں ہو رہے ہیں۔ وہ جگہ بھی قریب ہی ہے لیکن اب ایک نئی صورت یہاں کی آبادی کو ملی ہے اور اچانک جو یہاں آکر احمدیوں نے گھر لینے شروع کر دیے ہیں تو اس لحاظ سے یہاں کے مقامی لوگ بھی ہمیں ایک اَور نظر سے دیکھیں گے۔ یہاں کی آبادی کو اس کا احساس ہو گیا ہے اور وہ اس کا ذکر بھی کرنے لگ گئے ہیں کہ تمہارے جو خلیفہ ہیں یا جماعت کے تمہارے سربراہ ہیں ان کے یہاں آنے کی وجہ سے اچانک یہ تم لوگوں کا اس طرف رخ ہوا ہے۔ پس اس وجہ سے اپنے نمونے پہلے سے بڑھ کر دکھانے ہوں گے۔ ان پر اپنا اچھا اثر ڈالنا ہو گا۔ اگر ہمارے شور کی وجہ سے، ٹریفک کی بے قاعدگی کی وجہ سے یا کسی بھی اَور وجہ سےہمارے ہمسائے ڈسٹرب (disturb) ہوتے ہیں تو ہم یہاں کے رہنے والوں کو ایک غلط پیغام دے رہے ہوں گے۔ اگر اپنے عمل سے ہم اسلام کا صحیح پیغام نہیں دے رہے تو اللہ تعالیٰ کے انعام پر ہماری شکر گزاری صرف منہ کی باتیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہماری باتیں اور ہمارے کام، ہماری تعلیم اور ہمارے عمل ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہوں نہ یہ کہ ہم کہیں کچھ اور کریں کچھ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں مسجدوں کے حوالے سے بھی ارشاد فرمائے ہیں۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی ہمیں بہت اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ان باتوں کی طرف اگر ہم توجہ رکھیں تو جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق ادا کرنے والے ہوں گے وہاں اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بھی ہوںگے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو، مسلمانوں کو واضح طور پر فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے ایمان کو ،اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرو۔ اگر یہ نہیں کرو گے تو تمہاری ترقی نہیں بلکہ تم گمراہی کے گڑھے میں پڑو گے۔ مسجدوں کا جو مقصد ہے اسے پورا کرنا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ کے انعام ملیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی عبادتوں کو خالص کرنا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث ہوگے۔ دنیاوی خیالات اور ترجیحات سے اپنے ذہنوں کو پاک کرنا ہوگا تب ہی اللہ تعالیٰ کے فضل بھی تم پر نازل ہوں گے۔ دن میں جب پانچ مرتبہ یہ کوشش ہو گی تو تب ہی پھر ہم اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنے والے ہوں گے۔

پس اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کہ اپنی روح کی صفائی کے بھی انتظام رکھو اور یہ صفائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے دین کو خالص کرتے ہوئے ہو سکتی ہے۔ اور جو لوگ اپنی ہدایت کے سامان کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کو خالص نہیں کرتے وہ لوگ گمراہی کے گڑھے میں جا پڑتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کی بجائے شیطان کو اپنا دوست بنا لیا ہے اور پھر وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کا ان کا ر کرنے والوں کا یہی حال ہے۔ آج کل علمائے سوء جو ہم دیکھتے ہیں، جو ہمارے مخالفین ہیں ان کا یہی حال ہے۔ اپنے ساتھ عامة الناس کو بھی یہ علماء گمراہ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو یہی زعم ہے کہ ہمارے سے زیادہ یعنی ان لوگوں سے زیادہ اسلام پر عمل کرنے والا کوئی نہیں۔ اپنے مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی طریقہ اور کوشش یا مکر یہ نہیں چھوڑتے اور حکومتیں بھی پھر ان سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ آج کل پاکستان میں کراچی میں مخالفت کا زور ہے۔ اس بات پر مصر ہیں۔ اور حکومت بھی ان کی یہی کہتی ہے کہ ہم اپنی مسجدوں کے منارے گرائیں۔ لاکھ ان کو کہا کہ مسجدوں کے جو منارے بنے ہوئے ہیں یہ پرانی مسجدیں ہیں۔ یہ پچاس ساٹھ سال سے بنی ہوئی مسجدیں ہیں لیکن ان کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ مولوی کا خوف بےتحاشا ہے۔ افرادِ جماعت پر ظلم و تعدی میں یہ لوگ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خلاف دشنام طرازی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان پر گمراہی لازم ہو چکی ہے۔ جو نام نہاد علماء اس کے پیچھے ہیں یقینا ًان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس آخری زمانے میں مسجدیں بظاہر آباد نظر آئیں گی اور جو آج کل ہمیں وہاں غیروں کی دیکھنے میں نظر بھی آتی ہیں لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی اور انہی میں سے فتنے اٹھیں گے اور وہیں لوٹ جائیں گے اور یہ لوگ اسلام کو بدنام کرنے والی مخلوق ہو گی جو بدترین مخلوق ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی جلد 3 صفحہ 317-318 حدیث 1763 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون بیروت 2003ء)

پس ایسے میں ہماری اَور بھی زیادہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اپنی عبادتوں کو بھی خالص کریں اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے بھی آشنا کریں۔ ہمارے لیے تو ہماری کوشش سے زیادہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ راستے کھولتا ہے اور یہ مرکز بھی انہی میں سے ایک ہے۔ پس ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔ ہماری ذاتی کوشش ہوتی یا جماعتی کوشش ہوتی تو یہ کبھی تعمیر نہ ہو سکتا۔ یہ صرف محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے یہ مرکز عطا فرمایا۔ ان رمضان کے دنوں میں جب روح کی بہتری کے لیے اللہ تعالیٰ نے سامان بہم پہنچائے ہیں،اپنے دین کو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنے کے لیے ہماری کس طرح رہنمائی فرمائی ہے اس بارے میں آپ نے ایک موقعے پر فرمایا

‘‘قرآن شریف میں لکھا ہے اُدْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (الاعراف:30)۔ اخلاص سے خداتعالیٰ کو یا د کرنا چاہیے اور اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہیے۔ چاہیے کہ اخلاص ہو، احسان ہو اور اس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک رب اور حقیقی کار ساز ہے۔’’فرمایا کہ

‘‘عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اسی کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔’’ فرمایا کہ ‘‘ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا تعالیٰ سے بہت مانگے اور بہت توبہ و استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو جاوے اور اسی کی محبت میں محو ہو جاوے۔’’

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 451)

پس اللہ تعالیٰ کے لیے جب دین خالص ہو گا، عبادت خالص ہو گی تو تزکیہ نفس بھی ہو گا۔ اپنے نفس کو پاک کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کا بھی حق ادا ہو گا اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش ہو گی۔ کسی نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دکھائی کہ افطار کے وقت بڑے اہتمام سے مسلمان ایک جگہ افطار کے لیے جمع ہوئے اور کسی بات پر غالباً کھانے پر ہی پہلے گالم گلوچ شروع ہوئی اور اس سے بڑھ کر پھر ہاتھا پائی اور لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک دوسرے کو مُکّے مار رہے ہیں، لڑائی کر رہے ہیں، نوچ گھسوٹ کر رہے ہیں، کھانا اِدھر اُدھر بکھرا پڑا ہے۔ کوئی اِدھر لڑھک رہا ہے کوئی اُدھر لڑھک رہا ہے۔ نہ بڑی عمر والے کی عزت ہے نہ چھوٹے کا لحاظ ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور یہ اس دوران ہو رہا ہے جو روزے کی حالت ہے اور باقاعدہ جس طرح ان کا رواج ہے کہ لمبی قمیضیں پہن کے نمازوں کے لیے بھی آتے ہیں وہ جبے پہن کے آئے ہوئے ہیں اور لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس حالت میں یہ کہا ہے کہ تم نے روزے کی حالت میں کوئی غلط بات نہیں کرنی۔ لڑائی کرنے والے کو بھی جواب نہیں دینا اور یہ کہہ دینا کہ میں روزے دار ہوں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ روزے کی مَیں جزا ہوں تو کیا اس قسم کے روزے داروں کی اللہ تعالیٰ جزا بنے گا؟ کیا یہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہیں؟ کیا یہ تزکیہ نفس ہے جو روزوں سے ان کا ہو رہا ہے؟ ان باتوں سے اور بھی واضح ہو جاتا ہے کہ آنے والے امام کو ماننے کی کیا اہمیت تھی اور کتنا ضروری تھا کہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے امام ِوقت آتا۔ اور جب وہ آیا تو اس کو نہیں مان رہے لیکن یہ باتیں ہمیں اَور اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ہم اپنے جائزے لیں۔ اپنی اصلاح کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمارے اندر بھی اگر کوئی رنجشیں اور بے چینیاں ہیں تو ان کو دور کریں اور روزوں کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوتے ہوئے اس کی عبادت کرنے والے ہوں اور پھر اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔

اسی طرح ایک اور موقعے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے ۔تمام اخلاق ذمیمہ بھر گئے ہیں۔’’ یعنی جو غلط قسم کی باتیں ہیں، فضول باتیں ہیں، بداخلاقیاں ہیں، برائیاں ہیں وہ تو بہت بھر گئے ہیں اور وہ اخلاص …… آپؑ فرماتے ہیں ‘‘اور وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّينَ ۔ میں ہوا ہے آسمان پر اٹھ گیا ہے۔’’ یعنی اس کا کوئی وجود ہی نظر نہیں آتا۔ ‘‘خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکّل کالعدم ہو گئے ہیں۔’’ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے۔’’

(ملفوظات جلد6صفحہ352-353)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ ‘‘اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریاکاری، عجب، خود بینی، تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفاتِ رذیلہ تو ترقی کر گئے ہیں۔’’ یہ سب برائیاں جو ہیں ان میں تو بڑی ترقی ہو رہی ہے ‘‘اور مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّينَ وغیرہ صفاتِ حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ‘‘توکل، تفویض وغیرہ سب باتیں کالعدم ہیں۔’’ یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل بھی نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ کے سپرد اپنے معاملات ایک مومن جو کرتا ہے اس کی بھی کوئی صورت کسی مومن سے نظر نہیں، شکل نظر نہیں آتی ۔جو بظاہر so called مومن ہیں، نام نہاد مومن ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ بالکل ہی اخلاق ختم ہو چکے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو۔’’

(البدر جلد3 نمبر10 مورخہ8 مارچ 1904ء صفحہ3)

پہلے فرمایا کہ خدا کا ارادہ ہے کہ ان قوتوں کو زندہ کرے۔ اس میں فرمایا خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو اور یہ تخم ریزی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعے سے ہوئی ہے اور خدا کا ان اخلاق کو زندہ کرنے کا اور عبادتوں کو خالص کرنے کا، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعے سے جاری فرمایا اور آگے اس تخم ریزی سے پیدا ہوئے ہوئے پودوں اور درختوں کی شاخیں ہم نے بننا ہے۔ اور ہم یہ اس وقت کر سکتے ہیں جب اپنی عبادتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کریں۔ دوسروں کی کمزوریاں دیکھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا باقی ترجیحات پر حاوی ہو جائے۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا کہ ‘‘اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے۔’’

(ملفوظات جلد8 صفحہ354)

پس صرف ظاہری عمل ہو اور اس میں اخلاص نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کی تڑپ نہ ہو تو وہ عمل بے کار ہے۔ نمازیں بے کار ہیں۔ پس یہ بھی ہمیں ایک تنبیہ ہے کہ اپنی عبادتوں کو جب تک خالص نہیں کریں گے ان عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا :

واضح ہو کہ قرآن شریف کی رو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں۔’’ جیسا کہ میں نے کہا افطار کا یہ واقعہ بتایا تھا جو دیا جا رہا تھا کہ افطاری کے لیے لوگ اکٹھے ہوئے تھے ان کی مثال دی تھی ان کی ظاہری حالت ہی ان کی روحانی حالت کی تصویر کھینچتی ہے۔ پس یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے اندر روحانیت اب ختم ہو چکی ہے اور یہ باتیں پھر ہمیں توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں۔ آپؑ فرماتے ہیں ‘‘اور اگر ان طبعی حالتوں سے شریعت کی ہدایت کے موافق کام لیا جائے تو جیسا کہ نمک کی کان میں پڑ کر ہر ایک چیز نمک ہی ہو جاتی ہے ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں۔’’ (فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، کھانے پینے کی باتیں ہیں، بنیادی اخلاق ہیں، کھانوں میں balance سے کھانا ہے، یہ چیزیں اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے کی جائیں، شریعت کی ہدایت کے مطابق کی جائیں تو ان سے تمہارے اخلاق بھی اچھے ہوں گے اور فرمایا کہ پھر یہ تمام حالتیں اخلاقی ہو جاتی ہیں اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں۔) ‘‘اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پاکیزگی کے اغراض اور خشوع و خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے۔’’ (ظاہری پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ آداب بھی ضروری ہیں۔ اپنے آپ کو صحیح رکھنا بھی ضروری ہے ۔تب ہی انسان متوازن ہو سکتا ہے۔) آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اعضاء کا روح پر بہت قوی اثر ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طبعی افعال گو بظاہر جسمانی ہیں مگر ہماری روحانی حالتوں پر ضرور ان کا اثر ہے۔ مثلاً جب ہماری آنکھیں رونا شروع کر دیں اور گو تکلّف سے ہی روئیں مگر فی الفور ان آنسوؤں کا ایک شعلہ اٹھ کر دل پر جا پڑتا ہے۔’’ (فوراً دل بھی افسردہ ہو جاتا ہے۔) ‘‘تب دل بھی آنکھوں کی پیروی کر کے غمگین ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی جب ہم تکلف سے ہنسنا شروع کریں تو دل میں بھی ایک انبساط پیدا ہوجاتا ہے’’، (ایک خوشی محسوس ہوتی ہے۔) فرمایا کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جسمانی سجدہ بھی روح میں خشوع اور خضوع کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ جسمانی سجدہ کرو تو اس سجدے کی حالت میں بھی ایک عاجزی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابل پر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ہم گردن کو اونچی اور چھاتی کو ابھارکر چلیں تو یہ وضع رفتار ہم میں ایک قسم کا تکبر اور خود بینی پیدا کرتی ہے تو فرماتے ہیں کہ ان نمونوں سے پورے انکشاف کے ساتھ کھل جاتا ہے کہ بے شک جسمانی اوضاع کا روحانی حالتوں پر اثر ہے۔

(ماخوذ از اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ319-320)

انسان کی روحانی حالت بہتر کرنے کے لیے پھر آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ ظاہری خوراک بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے متوازن غذا کھانی چاہیے۔ نہ ہی صرف گوشت خور ہو جاؤ نہ ہی صرف یہ فیصلہ کر لو کہ ہم نے سبزیوں کے علاوہ کچھ نہیں کھانا۔ اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں انسان کے لیے پیدا کی ہیں انہیں کھانے کی اجازت ہے جو حلال ہیں، طیب ہیں اس میں توازن اور اسراف نہ ہو تو یہ انسان کی روحانی اور اخلاقی حالت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

متوازن غذا سے انسان کے اخلاق بھی متوازن رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ رہتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ اسلام کی ہی خوبصورتی ہے کہ ہر معاملے میں رہنمائی کرتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کا ان لوگوں پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظانِ صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۔ یعنی بے شک کھاؤ اور پیو مگر کھانے میں بھی بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو۔(ماخوذ از ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ332)

کیونکہ اس سے بھی توازن خراب ہوتا ہے اور اس کا اثر پھر روحانی حالتوں پر بھی پڑتا ہے۔ پس ایک حقیقی عابد جو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو کر عبادت کرتا ہے وہ نہ صرف اپنی روحانی حالت بہتر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھتا ہے بلکہ اپنی جسمانی حالت بھی ٹھیک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ دنیا کی چیزیں، آرام و آسائش اور کھانا پینا اس کا مقصود نہیں ہوتا بلکہ جتنی زندگی ہے وہ اس میں دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس زندگی کو گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی اس کا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی ایک مؤمن توجہ رکھتا ہے۔ اسلام ہی ہے جو جہاں انسان کو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا اس مرکز کے بننے پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا حق ادا کرنے کے لیے ہمیں جہاں اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے وہاں اخلاقی معیاروں کو بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ان نئے حالات میں جب غیر لوگوں کی، ہمسایوں کی، علاقے میں رہنے والوں کی ہم پر ایک نئے زاویے سے نظر ہو گی ہمیں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کے زاویے اپنے قول اور فعل سے، اپنے عمل سے دکھانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ اگر ہم اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزاریں گے تو یہی تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن جائے گی اور یہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بناتے ہوئے اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنائے گی۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ بعض لوگ اپنے ہمسایوں اور باہر ملنے والے لوگوں کے ساتھ تو بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن اپنے گھر میں بیوی کے ساتھ یا بچوں کے ساتھ ان کے رویّے اچھے نہیں ہوتے۔ یہ ان کے ذاتی فعل نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے تو ذاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی زیادتیوں کی پکڑ ان سے ہی کرے گا لیکن یہ باتیں جماعتی اکائی اور سکون پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔ گھروں کی جو بے سکونی ہے بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور بچے مستقبل میں جماعت کا بہترین حصہ بننے کی بجائے جماعت سے دور اور دین سے دور جانے والے بن جاتے ہیں اور اسلام کو پھیلانے کے لیے اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی سنبھالا جائے اور اگر ایسے عمل ہوں گے تو اپنی نسلیں بگڑ جائیں گی۔ پس اس کے لیے بھی ہمیں کوشش کرنی ہو گی ۔ اس لحاظ سے یہ جماعتی چیز ہے کیونکہ وہ بچے دیکھتے ہیں کہ میرا باپ بظاہر تو بڑا دِین دار ہے اور جماعت میں بڑا اچھا سمجھا جاتا ہے لیکن گھر میں اس کا رویہ بالکل مختلف ہے اور یہ ردّ عمل پھر اگلی نسل کو برباد کر دیتا ہے۔ پھر گھر کے جھگڑوں سے بیوی کے گھر والوں اور خاوند کے گھر والوں میں رنجشیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں تو معاشرے کا امن بھی برباد ہوتا ہے۔ پس ایسے گھر جو ہیں جہاں اس قسم کی باتیں پیدا ہو رہی ہیں وہ اپنے گھروں کے امن و سکون کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں بلکہ یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے یہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے ساتھ جوڑ کر جو فضل اور احسان کیا ہے اس کے شکرانے کے طور پر ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرتے ہوئے، اس کے احکام پر چلتے ہوئے ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح جن عورتوں میں ذرا ذرا سی بات پر غصے کا پہلو غالب آ جاتا ہے انہیں بھی اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اپنی حالتوںمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس رمضان کو اس لحاظ سے بھی ممتاز بنا لیں کہ اپنے گھروں کو بھی اس مہینے کی برکتوں سے ہم نے سنوارنا ہے۔ رمضان میں مسجدوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے تو تقویٰ جو مسجدوں کی اصل زینت ہے اس میں ہم نے بڑھنا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ریاکاری اور تکبر اور رعونت وغیرہ سے بچنا ہے۔جتنے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر ہو رہے ہیں اتنا زیادہ ہمیں ان باتوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ ان نمازیوں میں سے نہ بنیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہو کر ان کی نمازوں کو ان کی ہلاکت کا موجب بنایا ہے بلکہ ان لوگوں میں ہمارا شمار ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں،اس کے انعاموں کے وارث ہیں۔

یہ مرکز جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس کی اصل غرض تو دین کی ضروریات کے لیے استعمال کرنا ہے لیکن دنیاداری کے لحاظ سے بھی یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے جو اس انعام سے اس نے ہمیں نوازا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہم اپنی کوشش سے اس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ گویا اس مرکز کے ذریعے سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی دونوں انعامات سے نواز اہے۔ پس ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرنی چاہیے۔ ایک دنیا دار جب اس سارے منصوبے کو دیکھتا ہے تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور جب اسے پتا چلتا ہے کہ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن ہوا ہے ورنہ ہم ایک چھوٹی سی جماعت ہیں جن کے دنیاوی وسائل بالکل محدود ہیں اور افرادِ جماعت کی قربانیوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہے تو وہ مزید حیران ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ آج بھی وہ زندہ خدا ہے جو جن کی مدد کرنا چاہتا ہے وہ کرتا ہے،جن کو نوازنا چاہتا ہے ان کو نوازتا ہے۔ پس بظاہر ایک دنیا دار جو ہے اس کے اوپر اس ذریعہ سے بھی ہماری تعلیم کا اثر ہوتا ہے اور وہ اس لحاظ سے زیرِ تبلیغ ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے وجود کو دکھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے قول و فعل ایسے ہوں جو دوسروں کو متاثر کریں۔ پس جس زاویہ سے بھی ہم لیں ہمارے سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جاتے ہیں ا ور جھکنے چاہئیں کہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے ایک بستی آباد کرنے کی توفیق دی گو یہ ایک محلے کے برابر کی آبادی ہے بلکہ اس سے بھی چھوٹی ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس کی اہمیت مرکز ہونے کے لحاظ سے اہم ہے۔ دنیا کے اس خطے میں اللہ تعالیٰ نے مرکز کی توفیق دی جو توحید سے خالی ہے بلکہ شرک سے بھرا ہوا ہے کہ یہاں سے ایک نئے عزم کے ساتھ توحید کو پھیلانے کا کام کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے مشن کو پورا کرو اور پھر وہ دن بھی آئے جب بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے والے ہوں اور آج جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، بَک دیتے ہیں اس کے بجائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آنے میں فخر محسوس کرنے والے ہوں اور آپؐ پر درود بھیجنے والے ہوں۔ پس یہ ہماری ذمہ داری ہے، اور صرف اسلام آباد میں رہنے والوں کی نہیں، ارد گرد آ کر یہاں آباد ہونے والوں کی نہیں ہے بلکہ اس ملک میں رہنے والے ہر احمدی اور دنیا کے رہنے والے ہر احمدی کی ہے کہ وہ یہ کوشش کرے، یہ راستے تلاش کرے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے جھنڈے کو کس طرح لہرانا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے دنیا کو کس طرح لانا ہے۔ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنا ہے۔ کس طرح خلیفۂ وقت کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس کا ہاتھ بٹانا ہے۔ دعاؤں سے ،عمل سے کس طرح خلیفہ وقت کی مدد کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے مہینے میں اس مسجد کے افتتاح کی توفیق دے رہا ہے۔ پہلے خلفاء کا تو مجھے علم نہیں لیکن میرے وقت میں یہ پہلا موقع ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے۔ پس اس برکتوں والے مہینے اور دعاؤں کی قبولیت والے مہینے سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے احمدیت کی ترقی اور دنیا کے اس خطے میں مرکز کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ اس مرکز میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی جائے۔ اس کے ارد گرد احمدی آبادی بھی پھیلتی چلی جائے۔ہم لوگوں کے اسلام کی آغوش میں آنے کا نظارہ دیکھیں۔ تمام مخالفین کے منصوبوں کو پارہ پارہ ہوتے ہم دیکھیں۔ ربوہ جانے کے راستے بھی کھلیں اور قادیان جو مسیح کی تخت گاہ ہے وہاں واپسی کے راستے بھی کھلیں اور مکہ اور مدینہ جانے کے لیے راستے بھی ہمارے لیے کھلیں کہ وہ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بستیاں ہیں اور اسلام کے دائمی مرکز ہیں اور اسلام کا اصل پیغام ان لوگوں کو بھی پہنچے، اور وہ قبول کرنے والے بھی ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی تصدیق کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ جہالت کی وجہ سے تعصب رکھنے والوں کی آنکھیں بھی کھولے اور جو صرف شرارت کے لیے اور اپنے مقصد کے لیے عامة المسلمین کے دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور آپؑ کی جماعت کے خلاف تعصب سے بھر رہے ہیں ان کی پکڑ کے بھی اللہ تعالیٰ سامان کرے اور مسلمان مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ہاتھ پر جمع ہو کر امتِ واحدہ بن کر اسلام کی حقیقی تعلیم کا عملی نمونہ بننے والے ہوں اور جلد سے جلد غیر مسلم دنیا بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے۔

اس مسجد اور اس تمام تعمیراتی منصوبے کے بارے میں بھی کچھ تھوڑا سا بتا دوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جو مسجد ہے اس کا نمازیوں کی گنجائش کا جو ایریا ہے یہ تقریباً 314 مربع میٹر ہے یعنی 500 کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہال ہے جس میں 1200 کے قریب ایک جگہ اور 110 کے قریب ایک جگہ لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ پھر ہال کے آگے اس کی انٹرنس پہ ایک کھلا،چھتا ہوا ایریا بھی ہے وہاں بھی تقریباً 300 آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں تو اس لحاظ سے یہاں جو گنجائش ہو گئی وہ تقریباً 1200 اور 300= 1500 ۔ کُل دو ہزار سے اوپر کی گنجائش ہوگئی۔ اسی طرح جو میں نے بتایا کہ گھر بن گئے ہیں، دفاتر بن گئے ہیں، آفس کے بلاکس تو تین ہیں لیکن اس میں تقریبا ًپانچ دفاتر بن گئے ہیں۔ امید ہے کہ ایم۔ٹی۔اے کے سٹوڈیو وغیرہ کے لیے بھی وہاں جگہ میسر آ جائے گی وہ بھی بن جائیں گے۔ پھر ساری سہولیات غسل خانوں وغیرہ کی بھی میسر ہیں۔ پھر یہ ہے کہ سولر انرجی کے پینل بھی ہر جگہ لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ زمانے کی جو تمام سہولیات ہیں وہ میسر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ منصوبہ ایسا ہے کہ باوجود بہت بڑا ہونے کے اس کے لیے کوئی علیحدہ سے مالی تحریک نہیں کی گئی اور جہاں تک میرا علم ہے یہ پہلا منصوبہ ہے جو بغیر کسی علیحدہ تحریک کے اپنی تکمیل کو پہنچا ہے اور مسجد کا جو یہ ڈیزائن ہے بعضوں کو اچھا لگتا ہے بعضوں کو نہیں لیکن بہرحال ماہرین کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں ڈیزائن ایسا ہے کہ بجلی کی بھی بچت ہے اور انرجی کی بھی بچت ہے اور اس کے علاوہ جو تعمیر ہے وہ بھی ماہرین کے نزدیک عام تعمیر کی نسبت سستی ہے اور مسجد کے اندر جو کیلی گرافی کی گئی ہے یہ اتنی زیادہ کیلی گرافی پہلے ہماری مساجد میں نہیں تھی لیکن کیونکہ اس مسجد کا ڈیزائن ایسا تھا اس لیے میں نے ان کو کہا کہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اور نام جو ہیں وہاں لکھے جائیں کوئی حرج نہیں ہے اس کے لیے رضوان بیگ صاحب جو جلسے کے دنوں میں قرآن پراجیکٹ بھی کرتے ہیں انہوں نے بڑی مدد کی۔ انہوں نے لکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کوبھی جزا دے اور ساتھ ان کے ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر عامر سفیر نے بھی بڑی مدد کی ہے۔ پھر دو ہمارے مربی تھے ایک کینیڈا سے اس سال پاس ہوئے۔ اب آئے ہوئے تھے باسل بٹ وہ اور موسیٰ ستار اور مصور دین انہوں نے ایک ایک لفظ کو، حرف کو (لفظ کو نہیں حرف کو) لے کے جوڑ کے اور سپیشل گلو سے پھر لگایا ہے۔ بڑی محنت کا کام تھا جو ان سب نے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ اسی طرح آڈیو اور وڈیو جو ہے اس کے لیے یو۔کے کی جوٹیم ہے اور ہماری ایم۔ٹی۔اے کی ٹیم انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔ تعمیر کا جو منصوبہ تھا اس میں ایک مرکزی کمیٹی بنائی گئی تھی جو وقتاً فوقتاً جائزہ لیتی رہی اور مستقل نگرانی کرنے والے بھی دو شامل کیے تھے۔ ان میں ایک تو وقفِ عارضی کے ادریس صاحب تھے اور ایک مستقل وقفِ نو انجنیئر ہیں۔ ہمارے واقفِ زندگی فاتح انہوں نے مستقل نگرانی بھی رکھی ہے۔ بعض کمیاں خامیاںہوتی ہیں لیکن بہرحال عمومی طور پر نگرانی کی گئی اور ابھی تک کام کروا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیٹی کے ممبر جو یہاں آ کے والنٹیئر کرتے رہے اور اپنا وقت دیتے رہے اور ممبر بھی تھے وہ چوہدری ظہیر صاحب ہیں انہوں نے بڑا اچھا کام کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔ ذاتی دلچسپی لے کے اپنے تجربے سے انہوں نے بہت سارے کام ٹھیک کروائے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ اس منصوبے کے لیے کوئی تحریک نہیں کی گئی اور یہ بہت بڑا منصوبہ تھا۔ اس کے ساتھ دوسرے ممالک میں بھی خاص طورپر قادیان میں بھی اور مالی میں بھی اور تنزانیہ وغیرہ میں بھی بڑے منصوبے چل رہے تھے۔ بعض دفعہ مجھے فکر ہوتی تھی کہ کہیں کوئی منصوبہ کچھ دیر کے لیے روکنا نہ پڑے لیکن اللہ تعالیٰ پھر اپنا فضل فرما دیتا تھا اور تمام منصوبے مکمل ہوتے چلے گئے۔ تنزانیہ میں بھی ایک ملٹی سٹوری بلڈنگ بنائی گئی ہے جس میں بہت سارے آفس اور دوسری چیزیں ہیں۔ نئی مسجد بنی ہے۔ ایک پورا کمپلکس بنایا گیا ہے۔ مالی میں بھی بہت بڑی مسجد بنائی ہے۔ دوسری عمارات بنی ہیں۔ ایک بڑا اچھا اور مکمل کمپلکس ہے۔ جو بھی وہاں دیکھتا ہے بڑی تعریف کرتا ہے۔ مالی میں تو لوگ اب یہ باتیں کرتے ہیں کہ اتنی بڑی مسجد اور دوسری عمارتیں جو بنائی گئی ہیں تو یہ لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی امیر جماعت ہے۔ دنیاوی لحاظ سے تو ہم امیر نہیں ہیں لیکن ہماری اصل امارت جو ہے وہ تواللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں امیر بنایا ہے۔ پس جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مانگتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے فضل نازل فرماتا چلا جائے گا۔اس کے حق ادا کرتے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فضل نازل فرماتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

گذشتہ دنوں امریکہ سے ایک ڈاکٹر صاحب وقف عارضی پہ مالی گئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں ایئر پورٹ سے جا رہا تھا تو میں نے دور سے ایک بڑی خوبصورت مسجد دیکھی اور ایک بہت بڑی بلڈنگ دیکھی تو میں نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا یہ کس کی مسجد ہے؟ کسی نے بہت خوبصورت بنائی ہوئی ہے۔ تو انہوں نے کہا یہ احمدیوں کی مسجد ہے اور یہیں تو آپ جا رہے ہیں۔ تو ہر دیکھنے والا اس کی تعریف کرتا ہے۔ بہت بڑا منصوبہ تھا جو اللہ کے فضل سے مکمل ہوا اور وہاں یہ پلاننگ وغیرہ یہاں سے احمدیہ آرکیٹکٹ انجینئرز ایسوسی ایشن نے کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے انہوں نے یہ کام کیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فضل فرماتا رہے اور آئندہ بھی جو منصوبے چل رہے ہیں وہ بھی تکمیل کو پہنچیں اور اللہ تعالیٰ مزید منصوبے مکمل کرنے کی توفیق بھی دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر جماعت کو جو مالی قربانی کی توفیق دی ہے اسی قربانی سے یہ تمام منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں اور پہنچ رہے ہیں اور آئندہ بھی پہنچیں گے ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ تمام افرادِ جماعت کی مالی استطاعت کو بھی بڑھاتا چلا جائے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ اس لحاظ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبے کسی خاص تحریک کے بغیر ہیں اور کیونکہ جماعت کے عمومی بجٹ میں سے بھی ہیں اس لیے تمام دنیا کی جماعتیں اس میں شامل ہیں اور کوئی تخصیص نہیں کہ کس نے زیادہ دیا کس نے کم دیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرماتا چلا جائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button