سیرت خلفائے کرام

خلفائے احمدیت کی مثالی اطاعتِ خلافت

(افتخار احمد۔ مربی سلسلہ ربوہ)

اگر ہم کائنات میں موجود اجرام فلکی کے نظام کی طرف نگاہ دوڑائیں تو موتیوں کی لڑی کی مانند اطاعت کرتا ہو ا ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔جس میں نافرمانی کا تصور نہیں اور یہی چیز اس سلسلے کی بقا کی ضمانت ہے۔اللہ تعالیٰ کےانبیائے کرام بھی سورج کی مانند صفت رحمان کے تحت اندھیروں کی دلدل میں بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے ہدایت پر مبنی روشنی مہیا کرتے ہیں۔جو کامل اطاعت کرتے ہیں وہ خود روشن ہوکر دوسروں کے لیے بھی روشنی مہیا کرنے کا باعث بنتےہیں۔اور جو نافرمانی کرتےہیں وہ خس وخاشاک کی مانند گمراہی کی دلدل میں فنا ہو جاتے ہیں ۔ابھی ایسے وجودں کے واقعات کا تذکرہ کیا جائے گا جنہوں نے امام ِ وقت کی کامل اطاعت کی روشنی سے نہ صرف خود فائدہ اٹھایا۔بلکہ بہتوں کے لیے روشنی کا باعث بنے۔

اطاعت کے اصطلاحی معنی کامل فرمانبرداری اختیار کرنے کے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اطاعت کے متعلق فرماتے ہیں۔‘‘اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سَہل امر نہیں ،یہ بھی موت ہوتی ہے۔جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔’’

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 74حاشیہ )

ایک اَور جگہ فرمایا :

‘‘اطاعت ایک ایسی چیز ہے اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں لذت اور روشنی آتی ہے ۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے ۔ اطاعت میں اپنے ھوائے نفس کو ذبح کردیناضروری ہوتا ہے بدُوںاس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔’’

(تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 246)

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ

اطاعت امام کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ایک واقعہ ملتا ہے ۔آپؓ کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ

(تحصیل علم کے بعد)بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفا خانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنالوں۔وہاں میں نے ایک مکان بنایا۔ابھی وہ ناتمام ہی تھا۔اور غالباً سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا۔اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں۔اس واسطے میں قادیان آیا۔ چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا۔ اس لیے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا۔ یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لیکر رخصت ہوں۔آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے۔ میں نے کہا ہاں اب تو میں فارغ ہی ہوں۔ یکہ والے سے میں نے کہہ دیا کہ اب تم چلے جائو۔آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے کل پرسوں اجازت لیں گے۔اگلے روز آپؑ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی۔ آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں۔ میں نے حسب الارشاد بیوی کے بلانے کے لیے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لیے عمارت کا کام بند کردیں۔جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہٰذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوا لیں۔تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرور بلالیں۔لیکن مولوی عبدالکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو نورالدین کے متعلق الہام ہوا ہے۔ اور وہ شعر حریری میں موجود ہے

لَا تَصْبَوُنَّ اِلَی الْوَطَنِ فِیْہِ تُھَانُ وَ تُمْتَحَنُ

خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میری واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔

(مرقات الیقین فی حیات نور الدین مرتبہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی صفحہ نمبر 191تا192)

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا بیان ہے کہ

‘‘ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے۔ ازراہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ آپ نے فرمایا۔ حضرت مرزا صاحب سے اجازت حاصل کرو۔ اس نے حضرت کی خدمت میں درخواست کی۔حضور نے اجازت دی۔ بعد نماز عصر جب حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ‘ امید ہے آپ آج ہی واپس آ جائیں گے’۔ عرض کی، بہت اچھا۔ بٹالہ پہنچے۔ مریضہ کو دیکھا۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت! راستے میں چوروں اور ڈاکوئوں کا بھی خطرہ ہے۔ پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے کئی مقامات پر پیدل پانی میں سے گزرنا پڑے گا۔ مگر آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو۔ سواری کا انتظام بھی ہو یا نہ ہو۔ میں پیدل چل کر بھی قادیان ضرور پہنچوں گا کیونکہ میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے۔ خیر یکہ کا انتظام ہو گیا اور آپ چل پڑے۔ مگربارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہو چکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا۔ کانٹوں سے آپ کے پائوں زخمی ہو گئے مگر قادیان پہنچ گئے۔ اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہو گئے۔ حضرت اقدس نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے۔ قبل اس کے کوئی اَور جواب دیتا آپ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی حضور! میں واپس آ گیا تھا۔ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور! رات شدت کی بارش تھی، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پائوں زخمی ہو چکے ہیں اور میں سخت تکلیف اُٹھا کر واپس پہنچا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا۔’’

(حیات نورمرتبہ شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ189)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ

‘‘جن دنوں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کو اس کے دیکھنے کے لیے گھر میں بلایا۔ اس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا۔ مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت نے فرمایا۔ مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔ مولوی صاحب نے عرض کیا۔ حضور! میں بیٹھا ہوں اور کچھ اُونچے ہو گئے اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا مگر حضرت صاحب نے جب دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اُٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اُوپر بیٹھ گئے’’۔

اس روایت کے نیچے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کا نوٹ بایں الفاظ درج ہے کہ

‘‘مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا’’۔

(سیرت المہدی جلد اول صفحہ نمبر57روایت نمبر78)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی اطاعتِ امام کا واقعہ بیان کرتے ہو ئےکہتے ہیں

ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مخاطب کر کے کہا:

میاں ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے جس کا تدارک اب سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ڈھنگ سے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کر دیں۔ وہ بیعت لے لیا کریں۔ نماز پڑھا دیا کریں۔ خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب و قبول اور اعلان نکاح فرمادیا کریں یا جنازہ پڑھا دیا کریں اور بس۔

خواجہ صاحب کی بات سن کر جو جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دیا اسے ہم حضور ہی کے الفاظ میں درج کرتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں:

‘‘میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفۂ اولؓ نے صاف صاف کہہ دیا (تھا)کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی۔ تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟’’

(حیات نورمرتبہ شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ 365)

محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا ا ٓپؓ کے متعلق خلیفہ اول ؓکی فرمانبرداری کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ

‘‘حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے مکان کی بیٹھک میں بعد نماز فجر حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کو روزانہ قرآن شریف کے دو تین رکوع ترجمہ کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔ جن کو سننے کے لیے کافی لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے۔ عاجز بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ کا طالب علم تھا اور درس سننے کے لیے جایا کرتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لاتے اور لوگوں کے پیچھے بیٹھ جاتے۔ حضرت خلیفۃ المسیحؑ جب آپ کو دیکھتے تو جس گدیلے پر آپ بیٹھے ہوتے۔ اس میں سے آدھا خالی کرکے فرماتے میاں آگے تشریف لایئے۔ اس پر حضرت میاں صاحب آپ کے ارشاد کی تعمیل میں آپ کے پاس بیٹھ جاتے۔ آپ کے دوسری طرف حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیٹھا کرتے تھے۔’’(حیات نور صفحہ 600تا 601)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ

1927ءکے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپؒ نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جو اطاعت کا نمونہ قائم کیا اس کا ذکر الفضل میں یوں ملتا ہے۔

مہمانوں کی غیر معمولی کثرت اور اژدہام اس سال کی ایک خاص خصوصیت تھی۔حاضرین کا ہجوم اس قدر تھا کہ تیار کردہ جلسہ گاہ نا کافی ثابت ہوئی اور خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر کے وقت اس قدر کثرت تھی کہ لوگ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے جلسہ گاہ کے باہر کھڑے رہے۔اس پر حضور نے اظہار افسوس فرماتے ہوئے ذمہ دار کارکنو ں کو توجہ دلائی اور منتظمین نے اس قدر ہمت اور کوشش سے کام لیا27؍دسمبر کی کارروائی ختم ہونے کے بعد راتوں رات جلسہ گاہ کو پہلے سے بہت وسیع کر دیا اور صبح جلسہ گاہ میں جانے والوں کو وہ بہت فراخ نظر آئی اور اس پر حضرت اقدس نے بھی اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ جلسہ گاہ کی تیاری میں ساری رات مدرسہ احمدیہ کے طلباءاور دیگر اصحاب مصروف رہے۔ طلبہ نے شہتیریاں اٹھا کر لانے، اینٹیں اور گارا بہم پہنچانے میں بڑی تن دہی اور محنت سے کام کیا۔ان کام کرنے والوں میں صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بھی تھے۔خدا تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے۔

(الفضل 3جنوری 1928صفحہ2)

اس حوالےسے توسیع جلسہ گاہ کے موقع پر صاحبزادہ مرزا ناصر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد پر جو اطاعت کا مظاہرہ کیا اس کا مزیدحال مولوی محمد صدیق امرتسری یوں بیان کرتے ہیں:

‘‘مجھے اب بھی یاد ہے اور وہ نظارہ میرے سامنے ہے جب کہ گیس لیمپوں کی روشنی میں ہمارے ٹروپ(troop) لیڈر اور قائد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بڑی تیزی اور تن دہی سے اپنے جملہ ساتھی سکاؤٹس کے ساتھ شہتیریاں اٹھااٹھا کر اپنے جگہ پر رکھ رہے تھے اور کبھی گارا اپنے کندھے پر اٹھا کر لاتے اور خالی کرکے دوبارہ لانے کے لیے لے جاتے تھے ۔ اور یوں یہ سلسلہ تمام رات جاری رہا یہاں تک کہ محض اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے صبح کی اذان تک جلسہ گاہ ہر طرف سے سیدناحضرت مصلح موعود ؓکی خواہش کے مطابق وسیع کر کے سب گیلریاں دوبارہ صحیح طور پر بنا دی گئیں۔’’

(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ءصفحہ298)

اپنے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدرحمہ اللہ(خلیفۃ المسیح الثالثؒ)

حضرت مصلح موعود ؓکی طرف سے جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کےلیے مسلم اکثریتی علاقوں کا ریکارڈ تیار کرنے کے لیے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو مقر ر کیاگیا تو آپ نے خلیفہ وقت کی ہدایت پر لبیک کہتےہوئےنہایت محنت سے کام کیاجس کا نقشہ مکرم صوفی بشارت الرحمان نے بیان کیا ہے۔

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ (مراد حضرت مرزا ناصر احمدصاحب)کےکیریکٹر کا نمایاں وصف اطاعت امام میں فنا کا مقام تھا۔ 1947ءکےپُر آشوب زمانہ میں خلیفہ وقت کی طرف سے حفاظت مرکز کا کام آپ کے سپرد ہوا تو آپ نے نہایت بہادری اور جواں مردی سے اپنی جان کو خطرات کے سامنے پیش کرتے ہوئے سر انجام دیا۔ باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمان اکثریت والے ضلعوں اور تحصیلوں کے نقشے پیش کرنے کا کام تھا ۔ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے کالج کے پروفیسروں اور طلبہ کو رات دن اسی کام پر لگا دیا۔ خاکسار کو یاد ہے کہ کالج کے طلبہ کی ٹیمیں لےکر خاکسار قادیان سے سول سیکرٹریٹ میں آیا کرتا تھا اور خواجہ عبدالرحیم صاحب جو کمشنر تھے ان کی مدد سے ہم سیکرٹریٹ کے ریکارڈ سے قصبات اور دیہات کی مسلم اور غیر مسلم یعنی ہندو اور سکھ آبادی کو نوٹ کیا کرتے تھے ۔اور پھر اس کے مطابق تھانہ وائز ، تحصیل وائزاور ضلع وائز مسلم اکثریت رکھنے والے علاقوں کے نقشے تیار کیا کرتے تھے۔

( ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ءصفحہ235)

محترم ثاقب زیروی صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا اطاعت خلافت کا ایک ناقابل فراموش واقعہ بیان کرتے ہیں:

1947ء میں خاکسارصاحبزادہ مرزا ناصر صاحب کےساتھ فرقان فورس کے رضاکاروں سے ملنے کشمیر کے محاذپر گیا۔اور مسلسل کئی دن جاگتے ہوئے گزرے۔ایک دن نماز مغرب سے چند منٹ پہلے اپنے Base Campمیں پہنچ گئے ۔وضو کیا۔حضرت صاحبزادہ صاحب نے نماز پڑھائی ۔جونہی سنن سے فارغ ہوئے ۔کیمپ کے انچارج نے حضرت صاحبزادہ کو ایک طرف لے جاکر حضرت مصلح موعودؓ کا کوئی ضروری پیغام پہنچایا جسے سنتے ہی آپ نے وہیں سے مجھے آواز دی ۔ثاقب!آؤ گاڑی میں بیٹھو،لاہور چلیں ،مجھے چونکہ ارشاد خلافت اور اس کی اہمیت کا کچھ علم نہ تھا میں نے بڑی بے تکلفی سے عرض کیا ‘‘حضرت میاں صاحب!جسم تھکے ہوئے ہیں رات بھر جاگتے رہے ہیں۔اس سے پہلی ساری رات پیدل سفر میں گزری ہے۔کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ چند گھنٹے آرام کر لیں پھر چل پڑیں گے۔ساری رات اپنی ہی تو ہے۔’’آپ نے سنتے ہی فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ جونہی واپس پہنچیں فوراًلاہور کے لیے روانہ ہو پڑیں ۔بتاؤاس فوری حکم کے بعد کسی قسم کے توقف کی کیا گنجائش ہے،ہم چند ہی منٹوں میں لاہور کے لیے روانہ ہو پڑے۔پھر فرمایا ۔ثاقب نظم سنانا شروع کرو تاکہ میں گاڑی چلا سکوں اور اس پر میں نے تعمیلِ ارشاد کی یہاں تک کہ میں سو گیا۔اور آپ بھی گاڑی چلاتے چلاتے سو گئے……… جب ہماری آنکھ کھلی ۔اس وقت ایک بہت بڑا درخت صرف چند گز کے فاصلے پر تھا۔اور ہماری کار سیدھی اس طرف جا رہی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں حادثے سے محفوظ رکھااس پر میں نے پھر لجاجت سے عرض کیا کہ مجھے تو چھوڑیں ،آپ کا وجود از حد قیمتی ہے۔پھر آپ کو گاڑی بھی چلانی ہے اس لیے بہتر ہو کہ ہم کچھ دیر گاڑی میں ہی آرام کر لیں تاکہ باقی سفر بخیریت گزرے۔اس دفعہ میری درخواست قبول کرلی گئی ۔ لیکن فرمایا کہ ہم زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لیے رکیں گے، میں اس قدر تھک گیا تھا اور میری آنکھیں نیند سے اس قدر بھری ہوئی تھیں کہ میں سرگریبان میں جھکاتے ہی سو گیا لیکن نہیں کہہ سکتا کہ اس عرصہ میں آپ سوئے یا نہیں کیونکہ ٹھیک انسٹھویں منٹ پر آپ نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا اور سبحن الذی سخرلنا ھذا پڑھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی………حتیٰ کہ ہم کوئی رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب لاہور کی مال روڈ پر تھے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر 12 مارچ 1983ءصفحہ 66تا 67)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت کا بے حد احترام فرماتے اور خلیفہ وقت کی بے مثال اطاعت کا مظاہرہ فرماتے۔چنانچہ آپؒ نے ایک بار بیان فرمایا:حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک کام میرے سپرد کیااورحکم دیا فوری طور پر مشرقی بنگال (اب بنگلہ دیش )چلے جاؤ۔میں نے پتہ کروایا تو ساری سیٹیں بُک تھیں ۔معلوم ہواکہ بیس آدمی چانس پر مجھ سے پہلے ہیں ۔میں نےکہا کوئی اورجائے نہ جائے،میں ضرور جاؤں گاکیونکہ مجھے حکم آگیا ہے۔ائیرپورٹ پر لمبی قطارتھی۔کچھ دیر بعد لوگوں کو کہا گیاکہ جہاز چل پڑا ہے ۔اس اعلان کے بعد سب چلے گئے لیکن میں وہاں کھڑاتھامجھے یقین تھاکہ میں ضرور جاؤ ں گا۔اچانک ڈیسک سے آواز آئی کہ ایک مسافر کی جگہ ہے،کسی کے پاس ٹکٹ ہے۔میں نے کہا :میرے پاس ہے ۔انہوں نے کہا:دوڑو،جہاز ایک مسافر کا انتظار کر رہا ہے۔

(سیدنا طاہر سوینئر جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ نمبر58)

ڈاکٹرمسعود الحسن نوری حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اطاعت امام کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ

حضرت منصورہ بیگم صاحبہ (حرم خلیفۃالمسیح الثالثؒ)کی آخری بیماری میں مَیں ربوہ حاضر تھا۔اُن دنوں اکثر حضورؒ فرماتے کہ مرزا طاہر احمد کو بلائیں ۔تو ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضورؒنے فرمایا ہو اور فوری طور پر مرزا طاہر احمد صاحب وہاں نہ پہنچے ہوں۔آپؒ فوراًوہاں آتے اور جس حالت میں بھی ہوتے اور جو وقت بھی ہوتا ،آجاتے ۔اورباوجود یکہ کمرے میں تخت پوش اور کرسیاں موجود ہوتیں ،لیکن آپؒ حضورؒکے بالکل پاس آکر زمین پر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ۔نہایت ادب سے بیماری کی علامات حضورؒ سے پوچھ کر پھر دوا تجویز کرتے اور خود جاکر دوائی لاتے۔نہ یہ کہ کسی اور کو بھیجتے ۔نو دس دنو ں میں کوئی تیس چالیس مرتبہ آپؒ آئے اور ہر مرتبہ یہی طریقِ کار آپ کا ہوتا۔

(سیدنا طاہر سوینئر جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ نمبر59)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) حاضر ہیں

اطاعتِ امام میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے کبھی اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔اسی مناسبت سے آپ کی بیٹی محترمہ فائزہ صاحبہ بیان کرتی ہیں ۔1974ءمیں تمام ملک میں احمدیت کے خلاف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تو ان دنوں گوجرانوالہ اور اس کے گرد ونواح میں بہت دردناک واقعات کی خبریں ملیں ۔بعض احمدیوں کو بہت دردناک طریقے سے شہید کردیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فوری طور پر حضورکو بلوایا اور فرمایا کہ تم اسی وقت جاکر موقع پر حالات کا جائزہ لو اور جو ممکن کوشش ان مظلوم احمدیوں کے لیے کی جاسکتی ہے کرو ۔اس میں ذرا بھی دریغ نہ کرو۔حضور نے واپس آکر امی کو بتایا کہ میں اسی وقت گوجرانوالہ جارہا ہوں ۔تو امی قدرتی طور پر بہت گھبرا گئیں اورحضور ؒسے اس کا اظہار بھی کردیا۔ حضورؒنے ناراضگی سے فرمایا تمہیں تو اس وقت خوش ہونا چاہیے کہ خدا مجھے خدمت کا ایک موقع دے رہا ہے۔ اگر تم میری جان کے خوف سے گھبرا رہی ہو تو مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں ۔اگر خدا کی راہ میں میری جان جائے تو اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی ۔

(سیدنا طاہر سوینئر جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ نمبر 164)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت سیدہ امۃالسبوح بیگم صاحبہ(حرم خلیفۃالمسیح الخامس)اطاعت امام کے حوالے سے خلیفۃالمسیح الخامس کے بارے میں فرماتی ہیں ۔خلفاءکے ساتھ اطاعت آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہمیشہ اشارہ سمجھ کر اطاعت کی ۔آپ ہر معاملہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے ہر حکم کی پوری تعمیل کرتے۔انیس بیس کا فرق بھی نہ ہونے دیتے۔جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بیمار ہوئے آپ نے منع فرمایا تھا کہ کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن طبیعت کمزور تھی اور فکر مندیتھی۔انتہائی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر میاںسیفی (مرزا سفیر احمد صاحب )نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو فون کر دیا اور صورتِ حال بتا کر کہا کہ اگر آپ آجائیں تو اچھا ہے۔چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لندن تشریف لے آئےاور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒسے ملاقات کے لیے گئے تو حضور ؒنے دریافت فرمایا ۔‘‘کیسے آئے ہو۔’’آپ نے جواب دیا کہ آپ کی طبیعت کی وجہ سے جماعت فکر مند ہے اس لیے پوچھنے کے لیے آیا ہوں تو حضور ؒنے فرمایا حالات ایسے ہیں کہ فوراً واپس چلے جاؤ۔چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بہت بہتر۔میں فوراًواپسی کی سیٹ Bookکروا لیتا ہوں۔بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے میاں سیفی سے پوچھا کہ اس (حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ ) میں تو اتنی اطاعت ہے کہ یہ میرے کہے بغیر آہی نہیں سکتا۔یہ آیا کیسے؟تب میاں سیفی نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکو بتایا کہ ان کو تو میں نے فون پر آنے کو کہا تھا اس لیے آئے ہیں۔اس پر حضور رحمہ اللہ کو اطمینان ہوا کہ ان کی توقعات کے مطابق ان کے مجاہد بیٹے کی اطاعت اعلیٰ ترین معیار پر ہی تھی۔

(ماہنامہ تشحیذ الاذھان سیدنا مسرور ایدہ اللہ نمبر ستمبر،اکتوبر 2008ءصفحہ20تا21)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی قربت میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسروراحمد (خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

حال میں ہی ایک بچے نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ کی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکے ساتھ دوستی تھی؟ حضورایّدہ اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔میری کیا مجال ،وہ میرے خلیفہ تھے۔میں ان کا دوست نہیں بلکہ میں ان کا ایک ادنیٰ غلام تھا۔

حضورِ انور نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے کامل محبت اور عزت پر بات کرتے ہوئے ایک موقعے پر فرمایا:

‘‘میرا دل فی الحقیقت اس بات پر مضبوطی سے قائم تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو مَیں آپ کی ہر بات سنوں گا اور ہر اُس چیز کی کامل ترین فرمانبرداری کروں گا جو آپ مجھ سے چاہیں گے۔اور یہ کہ میں ہر وقت دوسروں سے زیادہ آپ کی عزت اور اطاعت کروں گا۔ میرے والدین نے میری تربیت اِس انداز میں کی تھی جس کا اثر پوری زندگی میرے اوپر رہا ہے۔’’

(عابد وحید خان صاحب کی ذاتی ڈائری اپریل -جون 2018ء)

خدا کرے کہ صُحبت امام بھی ہمیں ملے
یہ نعمتِ خلافت مدام بھی ہمیں ملے
خدا کرے اطاعت امام ہم بھی کر سکیں
خدا کرے کہ معرفت کا جام بھی ہمیں ملے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button