خطاب حضور انور

جماعت احمدیہ برطانیہ کی واقفاتِ نَو کے سالانہ اجتماع 2019ء کے اختتامی اجلاس سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

(فرمودہ مورخہ 6؍ اپریل 2019ء بمقام طاہرہال،مسجدبیت الفتوح مورڈن)

(اس خطاب کا اردو ترجمہ ادارہ الفضل انٹرنیشنل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

واقفاتِ نَو کی ذمہ داریاں

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ آپ کو ایک مرتبہ پھر واقفاتِ نو کے نیشنل اجتماع کے انعقاد کی توفیق مل رہی ہے ۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ نے یہاں منعقد کیے جانے والے پروگراموں اور مقابلوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہو گا۔

آپ بھی برطانیہ میں رہنے والی دوسری لڑکیوں کی طرح اس مغربی معاشرہ میں پلی بڑھی ہیں ۔ البتہ آپ ان سب سے ایک لحاظ سے مختلف ہیں اور وہ ایسے کہ آپ کے والدین نے آپ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کی آنے والی زندگی کو دین کی خاطر وقف کر دیا تھا۔ آپ کے والدین نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کی خدمت اور اس کی تعلیمات کو دور دور تک پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کو اسلامی تعلیمات سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہنا ہے۔

ہر احمدی بلکہ حقیقت میں ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کا حق ادا کرے۔ پس سب سے بنیادی چیز جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں یہ ہے کہ آپ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔ نیز یہ کہ آپ کی نمازیں خلوص دل اور اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت سے پُر ہوں بجائے اس کے کہ محض جلدی جلدی نماز ادا کر کے سمجھ لیں کہ فرض ادا ہو گیا۔

عبادت کا حق حقیقی طور پر ادا کرنے کے لیے اس بات کو ذہن نشین کریں کہ آپ اس خدا کے سامنے جھک رہی ہیں جو سب طاقتوں کا مالک اور خوب سننے والا ہے اور یہ کہ آپ اپنے دل کی خواہشیں اور تمنائیں اس کے حضور پیش کر رہی ہیں ۔یقیناً تحریکِ وقفِ نَو کے ہر رکن بلکہ ہر مسلمان اور خدمتِ دین کے لیے زندگی وقف کرنے والے شخص کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے ۔ چنانچہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ آپ ہمیشہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتی چلی جائیں ۔

دوسرا اصول جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بابرکت شکل میں ہمیں ہمیشہ قابلِ عمل رہنے والی تعلیم عطا فرمائی ہے ۔قرآن کریم کا ہر ایک حکم فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن مجید چونکہ چودہ سو سال پہلے نازل ہواتھا اس لیے یہ دورِ حاضر کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا یا یہ کہ قرآن صرف پرانے زمانے کے لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا تھا۔ قرآن کریم کا ہر لفظ آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جیسا کہ یہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں تھا۔

یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ قرآن عربوں پر نازل ہوا تھا اس لیے یہ صرف عربوں کے لیے ہے۔ جیسے قرآن کریم کی تعلیم عربوں کے لیے ہے ویسے ہی یہ یورپ میں رہنے والوں کے لیے بھی ہے اور امریکہ کے اور ایشیا کے اور افریقہ کے اور دنیا کے تمام علاقوں کے باشندوں کے لیے بھی ہے۔ قرآن کریم دورِ حاضر میں بھی اسی طرح موزوں (relevant) اور قابل عمل ہے جس طرح 1400سال قبل کے زمانہ کے لیے تھا۔ پس تمام واقفات ِ نَو کو اس بات کا خیال بھی اپنے ذہنوں سے نکال دینا چاہیے کہ اسلام پرانی طرز کا مذہب ہے یا کسی بھی طرح فرسودہ ہے۔ اسلام جس طرح گذشتہ زمانہ کا مذہب ہے اسی طرح حال اور مستقبل کا بھی مذہب ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا ۔ ان شاء اللہ۔

پس اسلام کو کیسی ہی تنقید اور اعتراض کا نشانہ کیوں نہ بنایا جائے اس کی وجہ سے آپ کبھی اپنے عقیدہ کے بارہ میں احساس کمتری یا شرمندگی کا شکار نہ ہوں۔ کوئی بھی ایسا اعتراض یا تنقید نہیں جس کا جواب نہ دیا جاسکتا ہو۔اللہ تعالیٰ نے اسلام پر کیے جانے والے ہر اعتراض کا جواب قرآنِ کریم میں ہی مہیا کر رکھا ہے، چاہے وہ غیر مسلموں کی طرف سے ہو ں یا لامذہب لوگوں کی طرف سے۔

ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ اس دَور میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں قرآن کریم کے صحیح معانی اور تفسیر سے روشناس کروایا اور ہمیں ایسے علمی دلائل سے لیس فرمایا جن کے ذریعہ ہم اسلام پر سوال اٹھانے یا اعتراض کرنے والوں کا جواب دے سکیں۔ پس قرآن کریم کے گہرے مضامین سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ جماعت کی طرف سے شائع کی جانے والی دیگر کتب کا بھی مطالعہ کریں۔ یقیناً اس دَور میں اپنے عقیدہ کو درست طریق پر سمجھنا اور اسلام کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے والے لوگوں کا جواب دینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کی کتب پڑھے بغیر ممکن نہیں ۔
آپ میں سے بہت ساری اس وقت نوجوانی کی عمر میں قدم رکھ رہی ہیں جبکہ کئی بالغ ہو چکی ہیں اور بعض اللہ تعالیٰ کے فضل سے صاحبِ اولاد بھی ہیں۔ آپ کو جو کہ شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں یہ پختہ عادت بنا لینی چاہیے کہ آپ روزانہ کچھ وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب یا تحریرات کے مطالعے کے لیے مختص کریں کیونکہ یہ آپ کو اپنے عقیدہ کے دفاع کے لیے مناسب اور ضروری دلائل سے آراستہ کر دیں گی۔

میں کئی مرتبہ اس موضوع پر بات کر چکا ہوں کہ اسلامی تعلیمات کس طرح جامع اور دور رَس اثرات رکھتی ہیں۔ یقیناً قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں سے لے کر وسیع تر معاشرے کے متعلق بھی تمام امور کے بارے میں علم اور ہدایت سے بھرا ہوا ہے ۔

قرآن معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی گھرانے سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ہر معاملہ میں رہنمائی کرتا ہے ۔ اسلام ہمیں انفرادی حقوق مثلًا بچوں کے حقوق کے بارے میں تعلیم دیتا ہے تو حکومت اور معاشرے کے افراد کے مجموعی حقوق کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تعلیمات کی تشریح فرمائی ہے تاکہ آپؑ کی جماعت کے لوگ اپنے عقیدے کو سمجھ سکیں اور ہر قسم کے جھوٹے الزامات اور تنقید کا جواب دے سکیں۔

پس آپ کو چاہیے کہ آپ ہر قسم کی ہچکچاہٹ اور خوف کو دور کر دیں اور اپنے عقیدے پر کامل یقین اور پختگی کے ساتھ قائم ہوں اور اس سے قطع نظر کہ آپ کُل وقتی طور پر جماعت کے لیے کام کر رہی ہیں یا نہیں، ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیں جو اسلام کی پاک تعلیمات کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔

ایک واقفۂ نَو ہونےکے ناطے یہ آپ کا فرض ہےکہ آپ اپنے قول و فعل سے اسلام کی سچی اور پر امن تعلیم کی تبلیغ کریں۔میرا ہمیشہ یہ تجربہ رہا ہے کہ اپنے آپ کو انتہائی ترقی یافتہ اورتعلیم یافتہ خیال کرنے والے دنیا دار طبقے کے سامنے جب بھی اسلام کی سچی اور خوبصورت تعلیم پیش کی گئی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

خاص طور پر دنیا میں بڑھتے ہوئے تفرقہ اور فسادات کے حل کے لیے جب ہم ان کو اسلام کی پُر امن اور صلح پسندی پر مبنی تعلیم پیش کرتے ہیں تو اس کا ان پر ایک غیر معمولی اثر ہوتا ہے۔اسلام کی عظیم الشان تعلیم بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی خوشگوار حیرت کا باعث ہوتی ہے۔

اس لیے مخلص احمدی بچیاں اور خواتین ہونے کے ناطے آپ کو بطور واقفاتِ نَو کبھی بھی اپنے مذہب کے بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔آپ کے ذہن میں یہ خیال تک بھی نہ آئے کہ آپ کا دین پرانا یا فرسودہ ہے اور جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔اس کے بر عکس جتنا زیادہ آپ اپنے دین پر فخر کرنے والی ہوں گی، جتنا آپ اپنی زندگی اسلام کے مطابق ڈھالیں گی اتنا ہی زیادہ دوسرے آپ کی عزت کریں گے اور اس طرح آ پ کا وقار بھی دنیا میں قائم ہو جائے گا۔

یقینا ًکوئی اسلامی تعلیم ایسی نہیں ہے کہ جس پر عمل کی وجہ سے آپ میں احساسِ کمتری یا کسی قسم کی کوئی شرمندگی پیدا ہو۔ایک لمحہ کے لیے بھی اس بات سے ہرگز مت گھبرائیں کہ آپ کے دینی عقائدکی وجہ سے دوسرے لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ آپ کو تمسخر کا نشانہ بنائیں گے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کو کرنے دیں۔

بعض لوگ پردے اور حجاب پر تنقیدکرتے ہیں، بعض ہمارے طریق عبادت یعنی نماز کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ احمدی نوجوان اس وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور شرمندگی اور ہتک محسوس کرنے لگتے ہیں۔

اگر آپ کو اپنے دین پر عمل کرنے کی وجہ سے تمسخر کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس کو اپنی بے عزتی ہر گز خیال نہ کریں بلکہ اس کواپنے لیے ایک اعزاز اور باعث ِفخر خیال کریں۔ کیونکہ آپ مشکل وقت میں اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہی ہیں ۔ایسے حالات میں صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سر اٹھا کر چلنا ہی اس دنیا میں وقار اور عزتِ نفس قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اپنی اقدار کو بھلایا نہیں۔آجکل بہت سے لوگوں نےخصوصاً مغربی معاشرہ میں رہتے ہوئے اپنی حقیقی دینی شناخت کو کھو دیاہے۔ وہ لوگ بھی جو اپنے آپ کو مذہبی کہتے ہیں ایسی زندگی گزار رہےہیں کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ مغربی معاشرے کے بہت سے نوجوان کہنے کو تو مسیحی ہی کہلاتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کی ایک بڑی اکثریت مسیحیت کی تعلیم پر عمل پیرا نہیں ہےاور ان کا چرچ کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

پچھلی نسل کے گزر جانے کے بعد جو کہ مذہب کی طرف مائل تھی دورِ حاضر کی نوجوان نسل میں مذہبی رجحان ناپَید ہو جانے کے نتیجہ میں بہت سے چرچ ویران ہو چکے ہیں اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ سرِ عام نیلام ہو رہے ہیں۔ اس نسل کو اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ مقدس عبادت گاہ کو فروخت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔

اسی طرح آج کل کا معاشرہ نام نہاد آزادی کے نام پر اپنے آپ کو انتہائی جدّت پسند اور ترقی یافتہ خیال کرنے لگ گیاہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے تہذیب کی اعلیٰ حدوں کو چھو لیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے معاشرہ مذہبی تعلیمات سے دور ہوتا گیا ویسے ویسے اخلاقی معیار گرتے چلے گئے۔ جدیدمعاشرہ اخلاقیات اور نیکی میں بڑھنے کی بجائے پستیوں میں گرتا گیا۔ خدا سے دوری کی وجہ سے آج انسان تہذیب کے بنیادی اصولوں سے بھی دور ہٹ چکاہے۔مثلا ًاس جدّت پسند دور میں اس بات کو معمولی سمجھا جاتا ہے کہ بچے والدین سے عزت سے پیش نہ آئیں یا ان کی بات نہ مانیں۔ یہاں تک کہ بچے کا اپنے والدین اور بڑوں کے لیے احترام بھی ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کو بھی ‘آزادی’ اور ‘خود مختاری’کا نام دیا جا تا ہے ۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ معمولی سی سختی بھی کریں تو یہاں کے مقامی سرکاری ادارے دخل اندازی کرتے ہیں اور بعض اوقات پولیس کو بھی بلا لیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندانی اکائی ٹوٹ رہی ہے۔

کیا اس معاشرے کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ یہاں پر بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد سوشل کیئر میں داخل کی جا رہی ہے اور یہ کہ حکومتی انتظامیہ کو ان کی فلاح و بہبود کے لیے دخل اندازی کرنی پڑتی ہے۔ کیا اسی کو ترقی کہتے ہیں؟کیا یہی جدت ہے ؟کیا یہی ہمارے دَور کی سب سے بڑی کامیابی ہے ؟اگرچہ دیر سے ہی سہی لیکن معاشرے کو اس بے لگام آزادی کے نقصانات کا ادراک ہونا شروع ہوچکاہے۔ مثلاًیہ دیکھنے کے بعد کہ خاندان کی اکائی ختم ہو چکی ہے اور بچوں میں اپنے بڑوں کے لیے ادب برائےنام بھی نہیں رہا اب مغربی معاشرے میں بھی کچھ لوگ اس کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ معاشرے کے امن و سکون کا تعلق گھریلو امن و سکون سے ہے اور گھریلو سکون اچھے اخلاق، میاں اور بیوی ،والدین اور اولاد کے باہمی حسن سلوک ، ادب و احترام کے بغیر ناممکن ہے۔اس لیے واقفاتِ نَو ہونے کی حیثیت میں آپ ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا آپ کے لیے ضروری ہے۔

قطع نظر اس کے کہ آپ بچیاں ہیں، نوجوان ہیں یا پختہ عمر کی ہیں آپ تمام واقفاتِ نَو پر لازم ہے کہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں۔ آپ میں سے جو شادی شدہ ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں اور خاوندوں سے محبت کا تعلق رکھیں ،ان کے حقوق ادا کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کا گھرانہ اسلامی روایات کی عملی تصویر ہو۔

جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ قرآنِ کریم جیسی بے نظیر کتاب کی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری ہمیشہ ہماری اولین ترجیح رہنی چاہیے۔لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کریں ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے کرام کی تفاسیر کا مطالعہ کریں اور اس امر میں فخر محسوس کریں کہ آپ ایک زندہ خدا کو ماننے والی اور ایک عظیم الشان نبیؐ کی پیروکار ہیں جس کی بیان فرمودہ تعلیمات رہتی دنیا تک قائم رہیں گی۔ ان شاء اللہ۔

اس بات کو بھی باعثِ فخر سمجھیں کہ ہمارا ایمان ہمارے لیے دنیا و آخرت میں نجات کا باعث ہو گا۔
اگر آپ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں گی تو یقیناً آپ اپنی روز مرّہ زندگی اور اپنے گھروں میں ہی جنت کا نظارہ دیکھ لیں گی۔

میں واقفین نَو بچوں کے والدین کو بھی یہ یاد کروانا چاہتا ہوں کہ انہیں ہمیشہ یہ مدّ نظر رکھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو اسلام کی خاطر وقف کیا ہے اور اگر وہ ان کے لیے نیک نمونہ نہیں بنیں گے تو اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر رہے ہوں گے۔ یہ قصور اُن کا ہوگا کہ ان کا وقف کیا ہوا بچہ ہماری جماعت کی خاطر ایک مفید وجود نہیں بن سکا۔ پس اپنے بچے کو وقف کرنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ عمر بھر کے لیے اپنے نیکی اور تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کا عہد کریں۔

اسی طرح ان واقفاتِ نو کو بھی جن کی شادی ہو چکی ہے اور وہ خود بھی مائیں بن چکی ہیں اس عہد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے جو پہلے ان کے والدین نے کیا اور اب انہوں نے اپنی اولاد کے لیے کرنا پسند کیاکہ انہوں نے اپنے بچوں کی بہترین رنگ میں تربیت کرنی ہے اور ان کے لیے نیکی کا ایسا نمونہ قائم کرنا ہے کہ وہ آپ کے نقش قدم پر چل کر بہترین تربیت پا سکیں۔ اگر آپ اس طرح اپنی زندگی کو گزاریں گی تو جماعت ہمیشہ ترقی کرتی چلی جائے گی۔ ان شاءاللہ

اسلام میں عورت کا مقام اس قدر بلند ہے کہ عورتوں ہی کی اعلیٰ کاوشوں کی بدولت آئندہ آنے والی نسلیں اپنے ایمان پر قائم رہیں گی۔ اگر مائیں اپنی اہم ترین ذمہ داری نبھانے والی ہوں تو ہمارے مذہبی عقائد ہماری آنے والی نسلوں میں راسخ رہیں گے ورنہ ہمارا حال بھی ان دیگر مذاہب کی طرح ہو جائے گا جنہوں نے وقت کے ساتھ اپنی اقدار اور روایات کو کھو دیا۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ عیسائی اپنے گرجا گھر بیچ رہے ہیں اور کچھ یہودی بھی اپنے معبدوں کے ساتھ ایساہی کر رہے ہیں۔ لہذا اگر ہم اپنے ایمان پر نیک نیتی سے قائم نہیں رہیں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے نیک نمونہ پیش نہیں کریں گے تو ہماری مسجدیں بھی دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی طرح ویران اور بے آباد ہو جائیں گی۔ لیکن ان شاءاللہ ایسا وقت ہرگز نہیں آئے گا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام قیامت تک ایک زندہ مذہب کے طور پر قائم رہےگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسلام کے احیا ئے نَو کے لیے بھیجا اور آپؑ کی وفات کے بعد خلافت کا سلسلہ دوبارہ قائم فرمایا۔

لہذا ایسا تو نہیں ہو گا کہ ہماری مساجد بیچی جائیں یا جماعت کی ترقی رک جائے ۔ ہاں! وہ لوگ جو اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتیں گے اور ایمان پر قائم نہیں رہیں گے وہ خود بھی گمراہ ہو جائیں گے اور ان کی نسلیں بھی اس مادہ پرست دنیا میں کھو جائیں گی۔

ایک احمدی عورت، ایک احمدی ماں ،ایک احمدی بیٹی اور ایک واقفۂ زندگی ہونے کی حیثیت سے آپ کو اپنے فرائض یاد رہنے چاہئیں۔ بے شک آپ مستقل طور پر کسی جماعتی ادارے میں خدمات نہ بجا لا رہی ہوں، آپ سب واقفات زندگی ہیں لہذا اپنے دینی علم میں اضافہ کرتی رہیں تا کہ آپ اپنے عقیدے کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھال سکیں اور اسلامی اقدار اپنے بچوں میں راسخ کر سکیں ۔ نیک بنیں اوراعلی اخلاق پر قائم رہیں، ہمیشہ سچ بولیں، اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور ہر روز پہلے سے بہتر مسلمان بننے کی کوشش کریں۔ اسی صورت میں ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہماری اولاداور آئندہ آنے والی نسلیں محفوظ ہاتھوں میں ہوں گی اور بڑے ہو کر جماعت کے لیے باعث فخر ہوں گی۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ مومن مرد وں اور مومن عورتوں کے لیے سب سے ضروری یہ بات ہے کہ وہ ہمیشہ تقویٰ کو مقدم رکھیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی نیکی اور اچھی عادت کو اپنانے والے ہوں۔ اسلام کے لیے جانفشانی اور وفاداری سے خدمت بجا لانے والے ہوں۔اس لیے کوشش کریں کہ آپ سب سے زیادہ سچی، سب سے زیادہ محنتی اور اسلام کی خدمت کرنے والی، سب سے وفادار خدمتگار بنیں ۔ اسلام کے پیغام کو پھیلانا اپنی عمر بھر کی ذمہ داری سمجھیں ۔ خدا تعالیٰ آپ سب لوگوں کو نیکی اور تقویٰ سے زندگی گزارنے اور اپنے خالق سے قرب میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنی گود میں پلنے والی نسلوں کی اس طریق پرپرورش کرنے والی ہوں کہ جن سے جماعت کی روحانی ، اخلاقی اور علمی ترقی کے سامان ہوتے رہیں اور کوئی ایسا احمدی بچہ نہ ہوجو اسلامی تعلیمات سے دور جا کر اپنی زندگی کو ضائع کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ آپ سب حقیقی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والی اور جماعت احمدیہ کے لیے مفید وجود بنیں اور جماعت کے لیے مستقل طور پر ایک باعث فخر وجود ہوں۔آمین

(ترجمہ: ٹیم تراجم ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button