خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2019ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ یکم ؍ فروری 2019ء بمطابق یکم تبلیغ 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آج جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت ابوحُذَیْفَہ بن عُتْبہ۔ ان کی کنیت ابوحُذَیْفَہ تھی۔ ان کا نام ھُشَیْم یا ہَاشِمْ یا قَیْسْ، حِسْل، عِسْل اور مِقْسَم بیان کیا جاتا ہے۔ آپ کی والدہ اُمّ صَفْوَان تھیں۔ ان کا نام فاطمہ بنت صَفْوَان تھا۔ آپ بڑے دراز قد اور خوبصورت چہرے کے مالک تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِارقم میں داخل ہونے سے قبل اسلام میں شامل ہو چکے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 62-61مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 248حدیث 4993 کتاب معرفۃ الصحابہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(امتاع الاسماع جلد 14 صفحہ 335 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ

ابوحُذَیْفَہ بن عُتْبہ تھے جو بنی امیہ میں سے تھے۔ اُن کے باپ کا نام عُتْبہ بن رَبِیعہ تھا جو سرداران قریش میں سے تھا۔ ابوحُذَیْفَہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے جو حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوئی تھی۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 124)

حضرت ابوحُذَیْفَہ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شامل ہوئے تھے اور آپؓ کی بیوی حضرت سَہْلَہ بنت سُہَیل نے بھی آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 62 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

ہجرت حبشہ کے بارے میں پہلے بھی صحابہ کے ذکر میںذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح ہوئی اور کیوں ہوئی؟ یہاں بھی مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ مختلف تاریخی کتب سے اور حدیثوں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو اخذ کیا ہے اس کو مزید مختصر کر کے یا اس میں سے چند باتیں لے کے بیان کروں گا۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ

جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذا رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں حبشہ ایک مضبوط عیسائی حکومت تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا۔ حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے۔ جب یہ ہجرت کر کے گئے ہیں تو اس وقت کے نجاشی بادشاہ کا جو اپنا نام تھا وہ اَصْحَمَہ تھا جو ایک عادل، بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ بہرحال جب مسلمانوںکی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر رَجَب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چارعورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں: حضرت عثمان بن عفانؓ اور ان کی زوجہ رُقَیَّہ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، زُبَیر ابن العَوَام، ابوحُذَیْفَہ بن عُتْبہ۔ جن کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی اس پہلے گروپ میں تھے۔ عثمان بن مَظْعُون، مُصْعَب بن عُمَیر، ابو سلمہ بن عبدالْاَسَد اور ان کی زوجہ اُمِ سَلَمہ ۔

حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ اوّل یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہیں تھے اور دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے۔ جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شُعَیْبَہ پہنچے جو اس زمانے میں عرب کا ایک بندرگاہ تھا تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا۔ چنانچہ یہ اس میں سوار ہو گئے۔ حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔ لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے بیان کیا ہے ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک اُڑتی ہوئی افواہ ان تک پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکہ میں اب بالکل امن ہو گیا ہے۔ اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بغیر سوچے سمجھے واپس آ گئے۔

اس افواہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کچھ روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح پھیلی اور کیوں؟ اس افواہ کی کیا وجہ تھی؟ مختلف تاریخوں سے اخذ کر کے وہ لکھتے ہیں کہ گو حقیقتاً یہ افواہ بالکل جھوٹی اور بے بنیاد تھی جو مہاجرین حبشہ کو واپس لانے اور ان کو تکلیف میں ڈالنے کی غرض سے قریش نے مشہور کر دی ہوگی۔ بلکہ زیادہ غور سے دیکھا جائے تو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کا قصہ ہی بے بنیاد نظر آتا ہے لیکن (انہوں نے لکھا ہے) اگر اس کو صحیح سمجھا جائے تو ممکن ہے کہ اس کی تہہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے اور جیسا کہ بخاری میں بھی یہ واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحنِ کعبہ میں سورت نجم کی آیات تلاوت فرمائیں۔ اس وقت وہاں کفار کے کئی رؤساء جو تھے وہ بھی موجود تھے، بعض مسلمان بھی تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت ختم کی تو سورۂ نجم پڑھنے کے بعد آپؐ نے سجدہ کیا۔ اور آپؐ کے ساتھ ہی تمام مسلمان اور کافر بھی سجدے میں گر گئے۔ کفار کے سجدے کی وجہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پُراثر آواز میں آیات الٰہی کی تلاوت فرمائی اور وہ آیات بھی ایسی تھیں جن میں خصوصیت کے ساتھ خدا کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور جبروت کا نہایت فصیح و بلیغ رنگ میں نقشہ کھینچا گیا تھا اور اس کے احسانات یاد دلائے گئے ہیں اور پھر ایک نہایت پُر رعب اور پُر جلال کلام میں قریش کو ڈرایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کا وہی حال ہو گا جو ان سے پہلی قوموں کا ہوا جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور پھر آخر میں ان آیات میں ہی حکم دیا گیا تھا کہ آؤ اور اللہ کے سامنے سجدے میں گر جاؤ۔ اور ان آیات کی تلاوت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سب مسلمان یکلخت سجدے میں گر گئے تو اس کلام اور اس نظارے کا ایسا ساحرانہ اثر قریش پر ہوا، ان پر بھی بڑا اچھا، بڑا عجیب اثر ہوا کہ وہ بھی بے اختیار ہو کر مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔

حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ایسے موقعوں پر ایسے حالات کے ماتحت جو بیان ہوئے ہیں بسا اوقات انسان کا قلب مرعوب ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو دراصل اس کے اصول اور مذہب کے خلاف ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات ایک سخت اور ناگہانی آفت کے وقت ایک دہریہ بھی اللہ اللہ یا رام رام پکار اٹھتا ہے اور قریش تو دہریہ نہ تھے بلکہ بہرحال خدا کی ہستی کے قائل تھے گو بتوں کو شریک ٹھہراتے تھے۔ آجکل بھی ہم دیکھتے ہیں، کئی دہریوں سے بات ہوتی ہے۔ جب ان سے پوچھو گے کہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ پیش آ جائے تو ایک دم خدا کا نام تمہارے ذہن دماغ میں آتا ہے یا منہ سے آتا ہے تو تسلیم کرتے ہیں کہ آتا ہے۔ بہرحال یہ اس سورت کے پڑھنے کا، سورت کے الفاظ کا اور مسلمانوں کے عمل کا ایک اثر تھا کہ کفار کے رؤساءجو تھے وہ بھی ساتھ ہی سجدے میں گر گئے۔

بہرحال مسلمانوں کی جماعت یکلخت سجدے میں گر گئی تو اس کا ایسا ساحرانہ اثر ہوا کہ ان کے ساتھ قریش بھی بے اختیارہو کر سجدے میں گر گئے۔ لیکن ایسا اثر عموماً وقتی ہوتا ہے اور انسان پھر جلد ہی اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ چنانچہ کفار بھی اسی طرح واپس لَوٹ گئے۔ ان کا وہی حال ہو گیا۔ بہرحال یہ ایک واقعہ ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ بخاری میں بھی درج ہے۔ پس اگر مہاجرین حبشہ کی واپسی کی خبر صحیح ہے، درست ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد قریش نے جو مہاجرین حبشہ کے واپس لانے کے لئے بے تاب ہو رہے تھے کہ یہ لوگ ہجرت کر کے کیوں چلے گئے، ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اپنے اس فعل کو آڑ بنا کر خود ہی یہ افواہ مشہور کر دی ہو گی کہ قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں اور یہ کہ اب مکہ میں مسلمانوں کے لئے بالکل امن ہے۔ اور جب یہ افواہ مہاجرین حبشہ تک پہنچی تو وہ طبعاً اسے سن کر بہت خوش ہوئے اور سنتے ہی خوشی کے جوش میں بغیر سوچے سمجھے واپس آ گئے۔ لیکن جب وہ مکہ کے پاس پہنچے تو حقیقت پتہ چلی اور حقیقتِ امر سے آگاہی ہوئی جس پر بعض تو چھپ چھپ کر اور بعض کسی طاقتور صاحب اثر رئیس قریش کی حفاظت میں ہو کر مکہ میں آ گئے اور بعض واپس چلے گئے۔ پس اگر قریش کے مسلمان ہو جانے کی افواہ میں کوئی حقیقت تھی تو وہ صرف اس قدر تھی جو سورت نجم کی تلاوت پر سجدہ کرنے والے واقعہ میں بیان ہوئی ہے۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔

بہرحال اگر مہاجرین حبشہ واپس آئے بھی تھے تو ان میں سے اکثر پھر واپس چلے گئے اور چونکہ قریش دن بدن اپنی ایذاء رسانی میں ترقی کرتے جاتے تھے اور ان کے مظالم روز بروز بڑھ رہے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پا کر آہستہ آہستہ نکلتے گئے۔ یہ ہجرت کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر ان مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو ایک تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں بھی تھیں۔ اور مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت ہی تھوڑے لوگ مسلمان رہ گئے۔ اس ہجرت کو بعض مؤرخین ہجرت حبشہ ثانیہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 146 تا 149)

ایک پہلی ہجرت تھی اور پھر بعد میں جو دوسرے لوگ گئے۔ اسی طرح بعد میں جب ہجرت مدینہ کی اجازت ہوئی ہے تو ابوحُذَیْفَہ اور حضرت سالمؓ جو آپؓ کے آزاد کردہ غلام تھے دونوں مدینہ ہجرت کر گئے۔ پہلی ہجرت تو انہوں نے حبشہ میں کی تھی۔ اس زمانے میں واپس بھی آ گئے۔ پھر دوسری ہجرت انہوں نے مدینہ کی جہاں آپ دونوں حضرت عَبَّاد بن بِشْر کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحُذَیْفَہ اور حضرت عَبَّاد بن بِشْر کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا۔ آپس میں بھائی چارہ قائم فرمایا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 62مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت ابوحُذَیْفَہ سریہ حضرت عبداللہ بن جَحْشْ میں بھی شامل تھے۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 286 باب سریۃ عبد اللہ بن جحشؓ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)

یہ سریہ جو عبداللہ بن جحش کا تھا اس کی تفصیل اور پس منظر کی کچھ تفصیل جو سیرت خاتم النبیینؐ میں ہے پیش کرتا ہوں۔ مکہ کے ایک رئیس کُرْز بن جَابِر فِہْرِی نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر اچانک حملہ کیا جو شہر سے صرف تین میل پر تھی اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر لے گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ہوئی تو آپ فورًا زید بن حارثہ کو اپنے پیچھے امیر مقرر کر کے اور مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سَفَوَانْ تک جو بدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا۔ اس غزوہ کو غزوۂ بدر الاولیٰ بھی کہتے ہیں۔ پھر لکھا ہے کُرْز بن جابر کا یہ حملہ ایک معمولی بَدوِیانہ غارت گری نہیں تھی یعنی یہ نہیں تھا کہ کسی بدو نے آ کر حملہ کر دیا اور جہالت میں صرف چوری اور ڈاکہ کے لئے حملہ کیا بلکہ یقیناً وہ قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف خاص ارادے سے آیا تھا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کی نیت خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نقصان پہنچانے کی ہو۔ مگر مسلمانوں کو ہوشیار پا کر ان کے اونٹوں پر ہاتھ صاف کرتا ہوا نکل گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ مدینہ پر چھاپے مار مار کر مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا جائے۔

کُرْز بن جابر کے اچانک حملے نے طبعاً مسلمانوں کو بہت زیادہ خوفزدہ کر دیا، متوحش کر دیا اور چونکہ رؤسائے قریش کی یہ دھمکی پہلے سے موجود تھی کہ ہم مدینہ پر حملہ آور ہوں گے اور حملہ کر کے مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیں گے مسلمان سخت فکر مند ہوئے اور انہی خطرات کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات و سکنات کا قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ ان کے کیا منصوبے ہیں اور کیا ان کے ارادے ہیں۔ اور اس کو دیکھنے کے لئے کوئی ایسی تدبیر کی جائے کہ قریب سے ان کی معلومات ملتی رہیں تا کہ بروقت اطلاع ہو جائے اور مدینہ پر ہر قسم کے حملہ کا جو خطرہ ہے اس سے محفوظ رکھا جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتًا اس پارٹی میں ایسے آدمیوںکو رکھا جو قریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور پارٹی پر آپؐ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جَحْش کو امیر مقرر فرمایا۔ اس میں یہ ابوحُذَیْفَہ بن عُتْبہ بھی شامل تھے۔ اور اس خیال سے کہ اس پارٹی کی غرض و غایت عامۃالمسلمین سے بھی مخفی رہے، کسی کو پتہ نہ چلےآپؐ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو بھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جا رہا ہے بلکہ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک سربمہر خط دے دیا، سیل (seal)کر کے ایک خط دے دیا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لئے ہدایات درج ہیں۔ جب تم مدینہ سے، سمت بتا دی، اس طرف دو دن کا سفر طے کر لو تو پھر اس خط کو کھول کر اس کی ہدایت کے مطابق، جو خط میں ہدایات ہیں ان کے مطابق عمل درآمد کرنا۔ چنانچہ عبداللہ اور ان کے ساتھی اپنے آقاؐ کے حکم کے ماتحت روانہ ہو گئے اور جب دو دن کا سفر طے کر چکے تو عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ میں جاؤ اور وہاں جا کر قریش کے حالات کا علم لو اور پھر ہمیں اطلاع کر دو۔ اور چونکہ مکہ سے اس قدر قریب ہو کر خبر رسانی کرنے کا کام بڑا نازک تھا آپؐ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متأمل ہو، اس کو کسی قسم کا کوئی تامل ہو، روک ہو تو اگر وہ واپس چلا آنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت ہے۔ عبداللہ نے آپؐ کی ہدایت اپنے ساتھیوں کو سنا دی اور سب نے یک زبان ہو کر بخوشی اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور کہا کہ ہم حاضر ہیں۔

اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ راستہ میں سعد بن ابی وَقَّاص اور عُتْبہ بن غَزْوَان کا اونٹ گم گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے اور اب یہ پارٹی صرف چھ آدمیوں پر رہ گئی۔ چھ کَس کی رہ گئی تو یہ چھ آدمی اپنے مشن کے لئے آگے چل پڑے۔ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اور اپنے کام میںیعنی خبر لینے کے کام میں مصروف ہو گئی کہ کفار مکہ کے کیا ارادے ہیں؟ مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ تو نہیں؟ یا اب ان کے کیا منصوبے بن رہے ہیں؟ ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال بھی منڈوا دئے تا کہ راہ گیر وغیرہ، جو گزرنے والے ہیں ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں۔ یہی سمجھیں کہ شاید یہ لوگ بھی عمرے کے لئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بال منڈوا دئے ہیں۔

کہتے ہیں لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ بھی آ گیا جو طائف سے مکہ کی طرف جا رہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں۔ ان کو پتہ لگ گیا کہ یہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے ان سے جنگ کرنے کی ٹھان لی، دونوں آمنے سامنے ہو گئے۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لئے بھیجا تھا لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہو چکی تھی اور اب دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ اور پھر طبعاً یہ اندیشہ بھی تھا کہ اب جو قریش کے اس قافلے والوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے تو اس خبررسانی کا راز بھی مخفی نہ رہ سکے گا۔ اور ایک دِقّت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھا کہ شاید یہ دن رجب یعنی شہر حرام کا آخری ہے۔ (حرمت والے مہینے کا آخری دن ہے) جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزر چکا ہے اور شعبان شروع ہے۔ اور بعض روایات میں یہ ہے کہ یہ سریہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جمادی کا ہے یا رجب کا؟ لیکن دوسری طرف نخلے کی وادی بھی عین حرم کے علاقے کی حد پر واقع تھی۔ اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کو یہ قافلہ حرم کے علاقے میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی۔

غرض ان سب باتوں کو سوچ کر ان چھ مسلمانوں نے یہی فیصلہ کیا کہ قافلے پر حملہ کر کے یا تو قافلے والوں کو قید کر لیا جائے یا مار دیا جائے۔ چنانچہ انہوںنے اللہ کا نام لے کر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی جس کا نام عَمْرو بن اَلْحَضْرَمِی تھا مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے۔ لیکن چوتھا آدمی بھاگ نکلا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز جو تھی کہ ان کو پکڑ لیا جائے یا مار دیا جائے وہ کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کا ایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی۔ عبداللہ بن جَحْش اور اس کے ساتھی سامان غنیمت لے کر جلدی جلدی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔

مستشرقین بھی اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دیکھو یہ جان کر بھیجا گیا تھا۔ قافلے پر حملہ کروایا گیا، جو قطعاً غلط ہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلے پر حملہ کیا تھا تو آپؐ سخت ناراض ہوئے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب یہ جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ کو سارے ماجرے کی اطلاع ہوئی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی۔ اور پھر آپؐ نے مال غنیمت لینے سے انکار کر دیا کہ اس میں سے میں کچھ بھی نہیں لوں گا۔ اس پر عبداللہ اور ان کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے اور انہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ ان میں بڑا خوف پیدا ہوا۔ صحابہ نے بھی ان کو سخت ملامت کی۔ مدینہ میں جو صحابہ تھے انہوں نے بھی کہا کہ تم نے وہ کام کیا جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تھا اور تم نے شہرحرام میں لڑائی کی۔ حرمت والے مہینے میں لڑائی کی حالانکہ اس مہم میں تو تم کو بالکل مطلقاً لڑائی کا حکم نہیں تھا۔

دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوںنے شہر حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص مارا گیا تھا یعنی عَمْرو بن اَلْحَضْرَمِی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عُتْبہ بن ربیعہ رئیس مکہ کا حلیف بھی تھا اس لئے بھی اس وقت اس واقعہ نے قریش کی آتشِ غضب کو بہت بھڑکا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کی تیاری شروع کر دی۔ بہرحال اس واقعہ پر مسلمان اور کفار ہر دو میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں۔ یہ باتیں ہونے لگیں کہ دیکھو حرمت کے مہینے میں انہوں نے حملہ کیا ہے۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ بالآخر ذیل کی قرآنی وحی نازل ہو کر مسلمانوں کی تشفی کا موجب بنی کہ

یَسْـَٔلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ۔ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ۔ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌۢ بِہٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا (البقرۃ218:)

یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہرِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ تو ان کو جواب دے کہ بیشک شہر حرام میںلڑنا بہت بُری بات ہے لیکن شہر حرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبرًا روکنا بلکہ شہر حرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقے سے ان کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اے مشرکو! تم لوگ کر رہے ہو، مسلمانوں کو نکال رہے ہو۔ یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شہر حرام میں لڑنے کی نسبت بھی بہت زیادہ بُری ہیں۔ اور زیادہ بُری بات ہے اور یقیناً شہر حرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کو روکنے کے لئے کیا جاوے۔ اور اے مسلمانو! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہو رہے ہیں کہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتٰی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت پائیں۔

چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈے کو اَشْھُرُالحرم میں بھی برابر جاری رکھتے تھے۔ یہ حرمت والے جتنے مہینے تھے ان میں جاری رکھتے تھے بلکہ ان مہینوں میں حرمت والے مہینوں کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اَور بھی زیادہ تیز ہو جاتے تھے اور پھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے وہ عزت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر منتقل کر دیتے تھے جسے وہ نَسِيْء کے نام سے پکارتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ تو انہوں نے فتح مکہ تک یہی سلوک رکھا ہے بلکہ انتہا کر دی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انہوں نے تو غضب ہی کر دیا تھا کہ صلح حدیبیہ کے زمانے میں باوجود پختہ عہد و پیمان کے کفار مکہ اور ان کے ساتھیوں نے حرم کے علاقے میں مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلے کے خلاف تلوار چلائی اور پھر جب مسلمان اس قبیلے کی حمایت میں نکلے تو ان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی۔ پس اس جواب سے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں نازل فرمایا مسلمانوں کی تسلی تو ہونی ہی تھی، قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے۔

اور اس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کو چھڑوانے کے لئے مدینہ پہنچ گئے۔ جو دو قیدی وہ لے کے آئے تھے یہ گئے ہوئے مسلمان تھے، جو پکڑ لئے تھے نا۔ لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاص اور عُتْبہ واپس نہیں آئے تھے۔ جن کی اونٹنی گم ہو گئی تھی وہ واپس نہیں پہنچے تھے۔ ان سے مل بھی نہیں سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے متعلق سخت خدشہ تھا کہ اگر وہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جب کافر قیدیوں کو لینے آئے تو آپؐ نے کہا جب تک یہ دونوں واپس نہیں آ جاتے تمہارے قیدی نہیں چھوڑوں گا اس لئے آپؐ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ جب وہ دونوں پہنچ گئے تو آپؐ نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور اسلامی تعلیم کی صداقت کا اس قدر گہرا اثر ہو چکا تھا کہ اس نے آزاد ہو کر بھی واپس جانے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا اور بالآخر بئرِمعونہ میں شہید ہوا۔ اس کا نام حکم بن کیسان تھا۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 330 تا 334)اگر ظلم اور زبردستی سے مسلمان بنائے جاتے تو اس طرح اسلام قبول نہ ہوتا۔

ابوحُذَیْفَہ کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ غزوۂ بدر کے دن آپؓ اپنے والد سے مقابلے کے لئے آگے بڑھے کیونکہ والد اُن کے مسلمان نہیں تھے۔ کافروں کے ساتھ آئے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کوئی اَور اسے قتل کر دے گا۔ کسی اَور کو ان سے لڑنے دو چنانچہ آپؓ کے والد، چچا، بھائی اور بھتیجے کو قتل کیا گیا۔ اس بدر میں وہ سب قتل ہوئے اور حضرت ابوحُذَیْفَہ نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا اور اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس نصرت پر شکر بجا لائے جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ظاہر کی تھی یعنی فتح عطا فرمائی تھی۔

(تثبیت دلائل النبوۃ از عبد الجبار جلد 2 صفحہ 585 دار العربیہ بیروت)

اس واقعہ کے بارے میں ایک اور روایت یہ بھی ملتی ہےکہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا مقابلہ عباس سے ہو وہ اسے قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوری میں نکلے ہیں۔ قیدی بنا لینا، قتل نہ کرنا۔ جب ان کے پاس یہ بات پہنچی، کسی نے ان سے کہی تو اس پر حضرت ابوحُذَیْفَہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر تو نہیں کہا بلکہ کہیں کسی ساتھی سے کہا کہ کیا ہم اپنے باپوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کریں لیکن عباس کو چھوڑ دیں۔ یہ کیا ہوا؟ خدا کی قسم! اگر میرے سامنے آئے تو میں ضرور ان پر تلوار چلاؤں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جب یہ بات پہنچی تو آپؐ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ یا اباحَفْص! اے ابوحَفْص! رسول خدا کے چچا کے چہرے پر تلوار سے وار کیا جائے گا! حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ابوحَفْص کنیت عطا کی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں تلوار سے ان کی گردن اڑا دوں۔ خدا کی قسم! اس میں نفاق پایا جاتا ہے جس نے یہ بات کی ہے۔ حضرت ابوحُذَیْفَہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منع کر دیا کہ نہیں یہ نہیں ہو گا لیکن حضرت ابوحُذَیْفَہ بیان کیا کرتے تھے کہ میں اس بات کے شر سے جو اس دن میں نے کہی، (اُن کو احساس ہو گیا کہ میں نے بڑی غلط بات کہہ دی ہے،) امن میں نہیں رہ سکتا۔ ایسی بات میں نے کہہ دی ہے جس کی وجہ سے میں امن میں نہیں رہ سکتا۔ مَیں ہمیشہ اس سے خوفزدہ رہوں گا سوائے اس کے کہ شہادت کی موت اس کے شر سے مجھے ٹال دے کہ میں اسلام کی خاطر شہید ہوں تبھی میں سمجھوں گا کہ اس کے شر سے میں محفوظ ہو گیا ہوں جو بات میں نے کہی ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پس آپ کو جنگ یمامہ کے روز شہادت نصیب ہوئی۔(مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 248-247حدیث 4988مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)ایک بات جوش سے منہ سے نکل گئی لیکن پھر خوف بھی پیدا ہوا اور تمام زندگی یہ خوف رہا حتی کہ آپ کی شہادت ہوئی۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے مقتولین کو ایک گڑھے میں، کنوئیں میں پھینکنے کا حکم دیا۔ پس انہیں اس میں پھینک دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے کنوئیں والو! کیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تمہارے ربّ نے تم سے کیا تھا؟ یعنی کہ بتوں نے۔ میں نے تو یقیناً اس وعدے کو سچا پایا ہے جو میرے رب نے مجھ سے کیا تھا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سے مراد لی جائے تو وہ وہی تھی کہ تمہیں سزا ملے گی۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں نے تو اس وعدے کو سچا پایا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا تھا کہ میں ان کو سزا دوں گا اور تیرے پر غالب نہیں آ سکیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپؐ ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو مر چکے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا یقیناً یہ جان چکے ہیں کہ تمہارے ربّ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انہیں کنوئیں میں پھینکا گیا تو حضرت ابوحُذَیْفَہ کے چہرے سے ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے کیونکہ ان کے والد کو بھی کنوئیں میں پھینکا جا رہا تھا۔ آپؐ نے ان سے فرمایا کہ اے ابوحُذَیْفَہ ! خدا کی قسم!! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تمہیں اپنے والد سے ہونے والا سلوک بُرا لگ رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحُذَیْفَہ سے یہ سوال کیا تو حضرت ابوحُذَیْفَہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم!! مجھے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کوئی شبہ نہیں لیکن میرا والد بردبار، سچا اور صائب الرائے شخص تھا۔ وہ اپنے خیال میں جو سمجھتا تھا وہ اس کو صحیح سمجھتا تھا لیکن اس میں بدنیتی نہیں تھی اور میں چاہتا تھا کہ اللہ اس کی موت سے پہلے اسے اسلام کی طرف ہدایت دے دے۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ ایسا ہونا اب ممکن نہیں رہا اور اس کا وہ انجام ہوا جو اس کا انجام ہوا تو اس بات نے مجھے دکھی کر دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرتابوحُذَیْفَہ کے حق میں بھلائی کی دعا فرمائی۔

(مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 249حدیث 4995مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

حضرت ابوحُذَیْفَہ نے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی توفیق پائی اور حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میں جنگ یمامہ میں 53یا 54سال کی عمر میں شہید ہوئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 62مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

اب میںجماعت کے ہمارے ایک دیرینہ خادم سلسلہ و بزرگ پروفیسر سعود احمد خان صاحب دہلوی کا ذکر کروں گا جن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ 21؍جنوری کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے والد حضرت محمد حسن آسان دہلویؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے۔ اسی طرح آپ کے دادا حضرت محمود حسن خان صاحبؓ مدرس پٹیالہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے 313 اصحاب کی فہرست میں 301 نمبر پر آپ کا نام یوں درج فرمایا ہے کہ:’’مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس ملازم پٹیالہ۔‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 328)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف ’’سراج منیر‘‘ میں ’’فہرست آمدنی چندہ برائے طیاری مہمان خانہ وچاہ وغیرہ‘‘ کے عنوان کے تحت ان کا نام یوں درج فرمایا ہے۔ ’’مولوی محمود حسن خان صاحب پٹیالہ‘‘۔(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 86-85)

پروفیسر سعود خان صاحب کے والد حضرت محمد حسن صاحب آسان دہلویؓ جب ان کی عمر ابھی دس بارہ سال کی تھی تو انہیں خطبہ الہامیہ کے موقع پر قادیان جا کر اس عظیم الشان نشان کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی توفیق ملی۔

(ماخوذ از نئی زندگی از مسعود حسن خان دہلوی صفحہ 107 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ لاہور2007ء)

پروفیسر سعود خان صاحب نے اپریل 1945ء میں وقف کیا تھا۔ آپ علیگڑھ سے فارسی میں بی اے آنرز تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے بھائیوں کے وقف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1955ء میں ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ’’میں سمجھتا ہوں ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے بھی ایسا نمونہ دکھایا ہے جو قابل تعریف ہے۔ وہ ایک معمولی مدرس تھے اور غریب آدمی تھے۔ انہوں نے فاقے کر کر کے اپنی اولاد کو پڑھایا اور اسے گریجویٹ کرایا اور پھر سات لڑکوں میں سے چار کو سلسلہ کے سپرد کر دیا۔اب وہ چاروں خدمت دین کر رہے ہیں اور قریباً سارے ہی ایسے اخلاص سے خدمت کر رہے ہیں جو وقف کا حق ہوتا ہے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں ’’اگر یہ بچے وقف نہ ہوتے تو ساتوں مل کر شاید دس بیس سال تک اپنے باپ کا نام روشن رکھتے اور کہتے کہ ہمارے ابا جان بڑے اچھے آدمی تھے مگر جب میرا یہ خطبہ چھپے گا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب میرا یہ خطبہ چھپے گا تو لاکھوں احمدی محمد حسن آسان کا نام لے کر ان کی تعریف کریں گے اور کہیں گے کہ دیکھو یہ کیسا باہمت احمدی تھا کہ اس نے غریب ہوتے ہوئے اپنے سات بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر ان میں سے چار کو سلسلے کے سپرد کر دیا۔‘‘ یعنی وقف کر دیا ’’اور پھر وہ بچے بھی ایسے نیک ثابت ہوئے کہ انہوں نے خوشی سے اپنے باپ کی قربانی کو قبول کیا اور اپنی طرف سے بھی ان کے فیصلے پر صاد کر دیا۔ ‘‘

(ماخوذ از نئی زندگی از مسعود حسن خان دہلوی صفحہ 208شائع کردہ لجنہ اماء اللہ لاہور2007ء)

جون 1946ء سے لے کر اکتوبر 1949ء تک سعود خان صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھاتے رہے تھے۔ اکتوبر 1949ء میں چند ماہ کے لئے جامعہ احمدیہ میں بطور پروفیسر انگریزی تدریس کے فرائض انجام دئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو 1950ء میں غانامغربی افریقہ میں خدمات دینیہ کے لئے بھجوایا۔ (تاریخ احمدیت جلد 14 صفحہ 286)

آپ احمدیہ سیکنڈری سکول غانا کے پہلے وائس پرنسپل تھے۔ اس کے لئے 30؍اپریل 1950 ء کو آپ کراچی سے روانہ ہوئے اور 30؍جون کو کماسی پہنچے۔ یعنی کہ مئی اور جون دو مہینے میں یہ سفر کیا اور پہنچے۔ (آج ہم پانچ گھنٹے چھ گھنٹے میں پہنچ جاتےہیں۔) اور یکم جولائی سے احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی میں تدریس کا آغاز کیا۔

(نئی زندگی از مسعود حسن خان دہلوی صفحہ 277-276شائع کردہ لجنہ اماء اللہ لاہور2007ء)

ان کا جو سفر تھا اس میں اتنی دیر کیوں لگی؟ اس کے بارے میں ان کے بھتیجے عرفان خان لکھ کر کہتے ہیں کہ

آپ اپنی پہلی تقرری پر ربوہ سے غانا روانہ ہوئے اور تین ماہ کے انتہائی تکلیف دہ (یہ تقریباً دو ماہ بنتا ہے) سفر کے بعد کماسی پہنچے۔ اس زمانے میں بحری جہاز بدل بدل کر سفر مکمل کیا جاتا تھا۔ ہوائی جہاز سے نہیں بلکہ بحری جہاز سے جاتے تھے۔ چنانچہ آپ بھی کراچی سے عدن کے لئے روانہ ہوئے۔ ایک سو ساٹھ روپے میں بغیر خوراک والا ٹکٹ حاصل کیا اور عدن سے گھانا تک آپ نے بحری جہاز کے علاوہ بسوں اور ٹرکوں اور ہوائی جہاز کے ذریعہ نائیجیریا تک سفر کیا۔ نائیجیریا کے ہوائی جہاز کی پچپن پاؤنڈ کی ٹکٹ خریدنے کے لئے آپ نے اپنا ٹرنک اور دیگر اشیاء فروخت کر دیں اور اپنا ذاتی سامان ایک چادر میں باندھ لیا۔ پھر نائیجیریا مشن ہاؤس نے آپ کو گھانا تک کا بس کا ٹکٹ دیا۔ 1950ء میں نائیجیریا پہنچنے کے لئے کچھ رستہ ہوائی جہاز کا سفر کیا اور وہ آپ نے اپنا سامان بیچ کر کیا۔ آگے پھر نائیجیریا سے گھانا تک بس پہ روانہ کیا گیا۔ 1950ء میں مغربی اور مشرقی افریقہ اور ہالینڈ کے لئے آٹھ مبلغینِ احمدیت کی روانگی کے متعلق تاریخ ِاحمدیت میں آپ کا نام سرفہرست ہے اور وہاں نمبر ایک پر لکھا ہے سعود احمد خاں صاحب (روانگی از لاہور 25 ماہِ امان 1329ہجری) برائے غانا۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 14 صفحہ 286)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر 1958ء میں پاکستان تشریف لائے اور پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم۔اے کیا۔ ہسٹری میں ایم اے تھے جو انہوں نے بعد میں کیا۔ اس عرصے میں آپ کے والد محترم محمد حسن آسان دہلوی صاحب اگست 1955ء میں وفات پا گئے تھے۔ جب آپ گھانا ہی تھے تو ان کے والد فوت ہو گئے تھے۔ 1961ء میں واپس گھانا آپ کا تقرر ہوا جہاں آپ کو پھر بھرپور طریق سے 1968ء تک خدمات دینیہ سرانجام دینے کی توفیق ملتی رہی ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے حضورؒ کے سفر یورپ کے دوران مسجد مبارک ربوہ میں بعد نماز مغرب ایک’’ مجلس تلقین عمل‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے زیر انتظام روزانہ پندرہ منٹ تربیتی تقریر ہوا کرتی تھی۔ اس پروگرام کا آغاز 7 جولائی سے ہوا۔ اور یہ نہایت دلچسپی سے سنا جاتا تھا اور علمی اجلاس ہوتا تھا۔ اس مجلس میں جن بزرگ علمائے سلسلہ کی تقاریر ہوئیں ان میں آپ بھی شامل تھے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 24 صفحہ 393-392 )

جلسہ سالانہ کے موقع پر تقاریر کی ترجمانی کا نظام قائم ہوا تو آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقاریر کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور ربوہ کے آخری جلسہ تک آپ یہ ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔

پروفیسر سعود خان صاحب دہلوی کے شاگردوں میں مکرم عبدالوہاب آدم صاحب گھانا اور بی کے آڈو صاحب جو یہاں رہے ہیں یہ شامل تھے۔ 1968ء میں پاکستان واپس آنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ نے مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب دہلوی کو تعلیم الاسلام کالج میں 1969ء میں تدریس کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پروفیسر سعود خان صاحب کو جامعہ احمدیہ میں ایک سال کے لئے بطور انگریزی استاد مقرر فرمایا۔ جب آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ میں ہوا تو اس وقت بھی آپ تعلیم الاسلام کالج میں بطور پروفیسر خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ چنانچہ 2؍مارچ 1987ء کو آپ نے جامعہ احمدیہ میں ڈیوٹی کا آغاز کیا اور ایک سال تک اس خدمت کو سرانجام دیتے رہے۔

پروفیسر سعود خان صاحب دہلوی کے متعلق آپ کے بڑے بھائی مسعود خان دہلوی صاحب، جو ایڈیٹر الفضل بھی رہے ہیں، کچھ ہی سال ہوئے فوت ہوئے، یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے بھائی سعود احمد موبائل لائبریری ہیں۔ ان کی بڑی معلومات تھیں۔ علمی آدمی تھے۔ آپ کی بیٹی راشدہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ میرے والد صاحب نہایت حلیم الطبع، غایت درجہ کے منکسر المزاج اور متبحر عالم تھے۔ نہایت عبادت گزار، تہجد گزار بزرگ تھے۔ نہایت اکرامِ ضیف کرنے والے اور متواضع انسان تھے اور حقیقت ہے جو کچھ انہوں نے لکھا وہ ایسے ہی تھے۔

ان کے بھتیجے نفیس احمد عتیق جو مربی سلسلہ ہیں کہتے ہیں کہ انتہائی منکسر المزاج تھے۔ متقی تھے۔ متوکل علی اللہ۔ ایک نیک اور سادہ انسان تھے۔ آپ کی وفا اور خدمت دینیہ کا جذبہ تمام واقفین زندگی کے لئے ایک مثالی رنگ رکھتا تھا۔ یہ مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بار خاکسار کو کہا کہ لباس اور دیگر سہولیات کو بغرض ضرورت استعمال کرنا چاہئے۔ فیشن اور تکلّف اور آسائش پرستی واقفِ زندگی کو زیب نہیں دیتی۔ آپ کی زندگی میں حیاء کا پہلو بھی بہت نمایاں تھا۔

سعود خان صاحب کے شاگرد آئی۔ کے۔ Gyasi صاحب۔ یہ گھانین ہیں لکھتے ہیں کہ سعود صاحب 1950ء تا 55ء تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کماسی کے بالکل ابتدائی اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر یا نائب پرنسپل تھے اور ڈاکٹر ایس۔ بی۔ احمد صاحب اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اور سعود صاحب انگریزی زبان، انگریزی تاریخ اور یورپی تاریخ کے نہایت محنتی اور جید عالم تھے۔ یہ ان کو پڑھایا کرتے تھے۔ پھر یہ گھانین دوست لکھتے ہیں کہ جہاں تک ان کی انگریزی گرائمر بالخصوص جملوں کے تجزیہ کا تعلق ہے تو اس میں آپ جیسا میں نے کوئی نہیں دیکھا اور کہتے ہیں کہ میری زبان کو بہتر بنانے میں ان کا بہت کردار تھا۔

مبشر ایاز صاحب جو جامعہ احمدیہ سینیئر سیکشن ربوہ کے پرنسپل ہیں لکھتے ہیں کہ پروفیسر سعود خان صاحب بہت منکسر المزاج بزرگ اور عالم سلسلہ تھے۔ جس عرصہ میں جامعہ احمدیہ میں پڑھاتے رہے ہم بھی طالب علم تھے۔ اور جامعہ کے آخری سال تک ہمیشہ بروقت کلاس میں تشریف لاتے اور پیریڈ ختم ہونے تک، آخری منٹ تک پڑھاتے رہتے تھے۔ طلباء کی بعض دفعہ کوشش ہوتی تھی کہ ادھر ادھر کی باتوں میں لگا لیں اور پڑھائی نہ ہو لیکن آپ بجائے سختی سے یا ڈانٹ ڈپٹ کے بڑے احسن انداز میں اس بات کو ٹال جاتے تھے اور تدریس جاری رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں کہ مَیں نے ایک بات نوٹ کی کہ آپ کے دل میں واقف زندگی طلباء کا بہت احترام تھا اور کلاس میں اگر کسی کو سختی کے ساتھ کسی بات پر تنبیہ بھی کرنا ہوتی تو اس کی عزت نفس اور وقار کا بھی خیال رکھتے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ابتدائی زمانے میں جب مختلف پروگرام ریکارڈ کرائے گئے تو سعود خان صاحب نے سیرت النبیؐ کے پروگرام ریکارڈ کروائے۔ آپ بڑھاپے کی عمر میں تھے لیکن سارا پروگرام بڑی محنت سے خود تیار کرتے اور ہم میں سوالات تقسیم کر کے دیتے۔ سارے سوال خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیتے۔ کہتے ہیں کبھی کبھی ماحول کچھ گرم سرد بھی ہو جاتا تھا، پروگرام بنتے ہوئے بحث ہو جاتی تھی کہ اس کو اس طرح نہیں کرنا اس طرح کرنا ہے لیکن ایسے حلیم اور عاجز انسان تھے کہ ان کے ماتھے پر کبھی بل نہیں آتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کے کان میں کوئی تلخ بات پڑی نہیں۔ اور کسی دوسرے نے اگر کر دی ہے تو ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بڑے آرام سے جہاں سے پروگرام رکا ہوتا تھا وہیںسے ریکارڈنگ دوبارہ شروع کروا دیتے تھے۔

پروفیسر سعود خان صاحب کی وفات کے بعد ان کے ہمسائے میں رہنے والے پڑوسی فضل الٰہی ملک صاحب نے بڑے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے جو اظہار کیا یہ تھا کہ انہوں نے بتایا کہ ایسے پڑوسی ہر ایک کو نہیں ملتے۔ بہت ہی سادہ مزاج اور عالم آدمی تھے۔

ان کے پسماندگان میں ایک بیٹی اور دو بیٹے یادگار ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے سعد سعود صاحب یوکے میں ایک جماعت کے صدر کے طور پر بھی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ حقیقت میں ان کے بارے میں جو لکھا گیا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ ان کی خوبیاں اس سے بہت زیادہ تھیں۔ خلافت سے انتہائی محبت اور اطاعت کا تعلق تھا اور غیر معمولی معیار تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اور نسل کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وابستہ رکھے اور ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ نماز کے بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button