خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30؍ نومبر 2018ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30؍ نومبر 2018ء بمطابق 30؍نبوت 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آج جن صحابہ کا ذکر کروں گا ان میں سے پہلے حضرت ثابت بن خالد انصاری ہیں۔ یہ قبیلہ بنو مالک بن نجار میں سے تھے۔ غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور جنگ یمامہ میں بھی شامل ہوئے اور اسی جنگ میں یہ شہید ہوئے۔ بعض کے نزدیک بئر معونہ کے واقعہ میں موقع پر شہید ہوئے۔

(استیعاب جلد 1 صفحہ 198 مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)

پھر حضرت عبداللہ بن عرفطہ ہیں۔ آپ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کے ہمراہ ہجرت حبشہ میں شامل ہوئے تھے اور ایک روایت جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی کی طرف بھیجا تھا اور ہم لوگ اسّی کے قریب تھے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 201 حدیث 4400 مسند عبد اللہ بن مسعودؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت عبداللہ بن عرفطہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔
(استیعاب جلد 3 صفحہ949 عبد اللہ بن عرفطہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)

پھر حضرت عتبہ بن عبداللہ ہیں۔ ان کی والدہ کا نام بُسرہ بنت زید تھا۔ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے تھے۔

(استیعاب جلد 3 صفحہ1026 عتبہ بن عبد اللہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 430 عتبہ بن عبد اللہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

پھر حضرت قیس بن ابی صعصعہ ہیں۔یہ انصاری تھے۔ حضرت قیسؓ کے والد کا نام عمرو بن زید تھا لیکن وہ اپنی کنیت ابو صعصعہ سے مشہور تھے۔ حضرت قیسؓ کی والدہ کا نام شَیبہ بنت عاصم تھا اور حضرت قیس سترانصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہونے کا بھی ان کو شرف حاصل ہوا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 392 قیس بن ابی صعصعۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

غزوۂ بدر کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر بیوت السُّقیا کے پاس قیام کیا اور کم عمر بچے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے وہاں سے واپس کئے گئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ چاہ سُقیا سے پانی لائیں۔ آپؐ نے اس کا پانی پیا پھر آپؐ نے سُقیا کے گھروں کے پاس نماز ادا کی۔ سُقیا سے روانگی کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قیس بن ابی صعصعہ کو مسلمانوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر ان کو پانی پر نگران بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بئر ابی عِنَبَہ جو مسجد نبوی سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر تھی اس کے پاس قیام کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گنتی کرو کتنے ہیں تو حضرت قیسؓ نے گنتی کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ان کی تعداد 313 ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ طالوت کے ساتھیوں کی بھی اتنی ہی تعداد تھی۔ سُقیا کے متعلق یہ نوٹ لکھا ہے کہ مسجد نبوی سے اس کا فاصلہ دو کلو میٹر کے قریب تھا اور اس کا پرانا نام حُسَیکہ تھا۔ حضرت خلادؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حُسَیکہ کا نام بدل کر سُقیا رکھ دیا تھا۔ وہ کہتے ہیںکہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں سُقیا کو خرید لوں لیکن مجھ سے پہلے ہی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اسے دو اونٹوں کے عوض خرید لیا اور بعض کے مطابق سات اوقیہ یعنی دو سو اسّی درہم کے عوض خریدا گیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کا سودا بہت ہی نفع مند ہے۔

(السیرۃ النبویۃ علی ضوء القرآن والسنۃ از محمد بن محمد بن سویلم جلد 2 صفحہ 124 ۔ از مکتبۃ الشاملۃ) ،(سبل الہدی والرشاد جلد4 صفحہ 23، 25 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)،(یوم الفرقان اسرار غزوۂ بدر از الدکتور مصطفی حسن البدوی صفحہ 124 مطبوعہ دار المنہاج بیروت 2015ء)،(امتاع الاسماع جلد 8 صفحہ 341 دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)، (کتاب المغازی للواقدی جلد اول صفحہ 37-38 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)

اسی طرح غزوۂ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساقہ کی کمان آپ کے سپرد فرمائی تھی۔ ساقہ لشکر کا وہ دستہ ہوتا ہے جو پیچھے حفاظت کی غرض سے چلتا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کتنی دیر میں قرآن کریم کا دَور کیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پندرہ راتوں میں۔ حضرت قیسؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے زیادہ کی توفیق پاتا ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک کر لیا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے بھی زیادہ کی توفیق پاتا ہوں۔ پھر انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کی یہانتک کہ جب آپ بوڑھے ہو گئے اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے لگے تو آپ نے پندرہ راتوں میں دور مکمل کرنا شروع کر دیا۔ تب یہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت کو قبول کر لیا ہوتا۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 408 قیس بن ابی صعصعۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (تاج العروس زیر مادہ سوق)

حضرت قیسؓ کے دو بچے اَلْفاکِہْ اور ام حارث تھے۔ ان دونوں کی والدہ امامہ بنت معاذ تھیں۔ حضرت قیسؓ کی نسل آگے نہ چل سکی۔ حضرت قیسؓ کے تین بھائی تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا لیکن وہ بدر میں شامل نہ تھے۔ ان میں سے حضرت حارثؓ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور حضرت ابوکلابؓ اور حضرت جابرؓ بن ابی صعصعہ نے غزوۂ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 392 قیس بن ابی صعصعہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

پھر حضرت عبیدہ بن حارث ایک صحابی تھے۔ حضرت عبیدہ بن الحارث جو بنو مطلب میں سے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 123-124)

ان کا تعلق قبیلہ بنو مطلب سے تھا۔ ان کی کنیت ابوحارث جبکہ بعض کے نزدیک ابومعاویہ تھی۔ والدہ کا نام سُخَیلہ بنت خُزاعی تھا۔ حضرت عبیدہؓ عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے۔ یہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں شامل تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِارقم میں داخل ہونے سے پہلے آپؓ ایمان لے آئے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابو سلمہ بن عبداللہ اسدی، حضرت عبداللہ بن ارقم مخزومی اور حضرت عثمان بن مظعون ایک ہی وقت میں ایمان لائے تھے۔ حضرت عبیدہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک خاص قدرو منزلت رکھتے تھے۔ حضرت عبیدۃ بن حارث نے ابتدا میں اسلام قبول کیا اور آپ بنوعبدمناف کے سرداروں میں سے تھے۔

(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 547 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)،(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 353 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت عبیدہ بن حارث نے اپنے دو بھائیوں حضرت طفیل بن حارث اور حضرت حُصَین بن حارث کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت مِسطح بن اُثاثہ بھی تھے۔ سفر سے پہلے طَے پایا کہ یہ لوگ وادیٔ ناجح میں اکٹھے ہوں گے لیکن حضرت مِسطح بن اُثاثہ پیچھے رہ گئے کیونکہ ان کو سانپ نے ڈس لیا تھا۔ اگلے دن ان کو حضرت مسطح کے ڈسے جانے کی اطلاع ملی لہٰذا یہ لوگ واپس گئے اور انہیں ساتھ لے کر مدینہ آگئے۔ مدینہ میں یہ لوگ حضرت عبدالرحمٰن بن سلمہکے ہاں ٹھہرے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 37 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت عمیر بن الحُمام کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت عبیدہ بن الحارث اور حضرت عمیر بن الحُمام دونوں غزوۂ بدر میںشہید ہوئے۔
(استیعاب جلد 3 صفحہ 1214 عمیر بن الحمامؓ مطبوعہ دار الجیل 1992ء)
ان کے دو بھائی حضرت طفیل بن حارث اور حضرت حُصَین بن حارث بھی غزوۂ بدر میں آپؓ کے ساتھ شریک تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 38-39 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آ کر کفار کے شر سے بچنے کے لئے اور مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کچھ تدابیر اختیار فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اور جنگی دوربینی کی ایک بین دلیل ہے۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح تحریر کیا ہے کہ:

’’تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن الحارث کی سرداری میں روانہ فرمایا تھا اور جس کا عکرمہ بن ابوجہل کے ایک گروہ سے سامنا ہو گیا تھا اس میں مکہ کے دو کمزور مسلمان جو قریش کے ساتھ ملے ملائے آ گئے تھے، قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملے تھے چنانچہ روایت آتی ہے کہ… ’’اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکر قریش کے سامنے آئی تو دو شخص مقداد بن عمرو اور عتبہ بن غزوان جو بنو زہرہ اور بنو نوفل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آ ملے اور یہ دونوں شخص مسلمان تھے اور صرف کفار کی آڑ لے کر مسلمانوں میں آ ملنے کے لئے نکلے تھے۔‘‘ پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آ ملنے کا موقعہ ملتا رہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 324)

ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث کو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث کے لئے ایک سفید رنگ کا پرچم باندھا جسے حضرت مسطح بن اثاثہ نے اٹھایا۔ اس سریہ کا مقصد یہ تھا یعنی کہ جو بھیجا گیا تھا لشکر یا سواروں کا ایک گروپ، کہ قریش کے ایک تجارتی قافلے کو راہ میں روک لیا جائے۔ قریش کے قافلے کا امیر ابوسفیان تھا۔ بعض کے مطابق عکرمہ بن ابو جہل اور بعض کے مطابق مِکْرَز بن حَفْص تھا۔ اس قافلے میں دو سو آدمی تھے یعنی کافروں کے قافلے میں جو تجارتی مال لے کر جا رہے تھے۔ صحابہؓ کی اس جماعت نے رابغ وادی پر اس قافلے کو جا لیا۔ اس مقام کو وَدَّان بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان تیر اندازی کے علاوہ کوئی مقابلہ نہ ہوا اور لڑائی کے لئے باقاعدہ صف بندی نہ ہوئی۔ وہ صحابی جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے پہلا تیر چلایا وہ حضرت سعد بن ابی وقاص تھے اور یہ وہ پہلا تیر تھا جو اسلام کی طرف سے چلایا گیا۔ اس موقع پر حضرت مقداد بن اسود اور حضرت عیینہ بن غزوان( ابن ھشام اور تاریخ طبری میں عُتبہ بن غزوان بھی ہے) لکھا ہے مشرکوں کی جماعت سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملے کیونکہ ان دونوں نے اسلام قبول کیا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں کی طرف جانا چاہتے تھے۔ حضرت عبیدہ بن حارث کی سرکردگی میں یہ اسلام کا دوسرا سریہ تھا۔ تیر اندازی کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹ گئے کیونکہ مشرکین پر مسلمانوں کا اس قدر رعب پڑا کہ انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر ہے اور ان کو مدد پہنچ رہی ہے لہٰذا وہ لوگ خوفزدہ ہو کر پسپا ہو گئے اور مسلمانوں نے بھی ان کا پیچھا نہیںکیا۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 215-216 سریہ عبیدۃ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)،
(سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 592 سریۃ عبیدۃ بن الحارثؓ مطبوعہ مصطفی البابی مصر 1955ء)،
(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 12 سنۃ 1ھ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)

گئے تو تھے لیکن یہ نہیں کہ کوئی پیچھے گئے ہوں اور باقاعدہ جنگ کی ہو۔ دونوں طرف سے حملہ ہوا۔ اُنہوں نے بھی حملہ کیا اِنہوں نے بھی تیر چلائے اُنہوں نے بھی تیر چلائے اور آخر جب وہ کفار پیچھے ہٹ گئے تو مسلمان واپس آ گئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت کی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ:

’’غزوۂ ودان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپؐ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عبیدہ بن حارث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔‘‘ غرض بیان کر دی ہے کہ قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔ ’’چنانچہ جب عبیدہ بن الحارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثنیۃ المرّہ کے پاس پہنچے تو ناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دو سو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیر اندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کا گروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی۔‘‘ کچھ اَور ہو سکتا ہے، لوگ آ رہے ہوں، کوئی لشکر ہو۔ ’’ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مقداد بن عمرو اور عتبہ بن غزوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آ ملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقعہ پا کر مسلمانوں میں آ ملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کو بددل کر دیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کا یہ لشکر جو یقیناً کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا۔‘‘ تجارت کی آڑ میں یہ لوگ باقاعدہ لشکر بنا کر نکلے تھے، مسلح تھے۔ ’’اور جس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم (یعنی ایک بڑا لشکر) کے الفاظ استعمال کئے ہیں کسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا، لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی۔‘‘ نیک نیت سے بہرحال وہ نہیں آئے تھے، حملہ کرنے آئے تھے اور اس لئے مسلمانوں نے بھی تیر اندازی کی۔ اور یقیناً اس سے یہ لگتا ہے کہ پہلی تیراندازی بھی کافروں کی طرف سے ہوئی تھی۔ ’’اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کو اس مہم کا یہ عملی فائدہ ہو گیا کہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں۔ ‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 328-329)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ولید بن عتبہ سے مبارزت کی۔ احادیث میں آتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی اس واقعہ کے متعلق اتری ہے۔ چنانچہ حضرت علی سے روایت ہے کہ آیت ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ۔(الحج20:) ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے بدر والے دن مبارزت کی یعنی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت علی بن طالب اور حضرت عبیدہ بن حارث اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد 2صفحہ 419کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الحج حدیث 3456 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ دو جھگڑالو ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پوری آیت اس طرح پہ ہے کہ

ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ۔ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ۔ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِیْمُ (الحج:20)

یہ دو جھگڑالو ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پس وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے۔ ان کے سروں کے اوپر سے سخت گرم پانی انڈیلا جائے گا۔

بہرحال اس مبارزت کی مزید تفصیل سنن ابو داؤد میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلے کے لئے آتا ہے؟ تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا۔ عتبہ نے پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے بتا دیا کہ ہم انصار ہیں۔ عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حمزہؓ!اٹھو۔ اے علی! کھڑے ہو۔ اے عبیدہ بن حارث! آگے بڑھو۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی حضرت حمزہؓ عتبہ کی طرف بڑھے اور میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہ ؓبن حارث اور ولید کے درمیان جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا۔ پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کے لے آئے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی المبارزۃ حدیث 2665)

مبارزت کے دوران عتبہ نے حضرت عبیدہؓ بن حارث کی پنڈلی پر کاری ضرب لگائی تھی جس سے ان کی پنڈلی کٹ گئی تھی۔ پھر آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھوایا اور جنگ بدر ختم ہونے کے بعد مقام صفرا، جو بدر کے نزدیک ایک مقام ہے وہاں آپ کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کو دفن کر دیا گیا ۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 207-208کتاب معرفۃ الصحابہ من مناقب عبیدہ بن الحارث ؓ حدیث 4862 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(لغات الحدیث کتاب ’’ص‘‘ صفحہ 67 مطبوعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)

ایک روایت کے مطابق جب عبیدہؓ کی پنڈلی کٹ چکی تھی اور اس سے گودا بہہ رہا تھا۔ تب صحابہ حضرت عبیدہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میں شہید نہیںہوں؟ جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔ اُس وقت فوری طور پر شہید نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں، تم شہید ہو۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت عبیدہؓ بن حارث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زانوں پر ان کا سر رکھا پھر حضرت عبیدہؓ نے کہا کاش کہ ابو طالب آج زندہ ہوتے تو جان لیتے کہ جو وہ اکثر کہا کرتے تھے اس کا ان سے زیادہ مَیں حق دار ہوں۔ اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ

وَنُسْلِمُہُ حَتّٰی نُصْرَعَ حَوْلَہُ
وَنَذْھَلَ عَنْ اَبْنَائِ نَا وَالْحَلَائِلٖ

کہ یہ جھوٹ ہے کہ ہم محمدؐ کو تمہارے سپرد کر دیں گے۔ ایسا تبھی ممکن ہے کہ جبکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد سے پچھاڑ دئیے جائیں اور ہم اپنے بیوی بچوں سے بھی غافل ہو جائیں۔ یہ جذبات تھے ان لوگوں کے۔ شہادت کے وقت حضرت عبیدہ بن حارث کی عمر 63 سال تھی۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 208کتاب معرفۃ الصحابہ من مناقب عبیدہ بن الحارث ؓ حدیث 4863مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 547 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

ان چند صحابہ کا ذکر کرنے کے بعد اب میں ایک ہمارے انڈونیشیا کے ایک دیرینہ خادم، واقفِ زندگی، مبلغ سلسلہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گزشتہ دنوں جن کی وفات ہوئی۔ ان کا نام سیوطی احمد عزیز صاحب تھا۔ 19؍نومبر کو ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سیوطی صاحب دل کے شدید عارضے میں مبتلا تھے اور علاج کی غرض سے انہیں ربوہ بھجوایا گیا تھا جہاں طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ ربوہ میں ان کی ایک بڑی میجر (major)سرجری ہوئی اور کچھ دن بعد 19؍نومبر کو وہ صحت یاب نہیں ہو سکے اور وفات پا گئے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ، چار بیٹے بیٹیاں اور دس پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔ ان میں سے چھ بچے وقف نَو میں شامل ہیں۔

سیوطی عزیز احمد صاحب کی پیدائش 17؍اگست 1944ء کو بونے (Bone)جنوبی سولا ویسی (South Sulawesi)میں ہوئی۔ انہوں نے جامعہ ربوہ میں ستمبر 1966 ءسے لے کر اکتوبر 1971ء تک تعلیم حاصل کی۔ اپریل 1972ء کوبطور مرکزی مبلغ انڈونیشیا میں ان کی تقرری ہوئی۔ پھر 1985ء میں میدان عمل میں ہی ان کی کارکردگی اور کام دیکھ کر ان کو شاہد کی ڈگری بھی ملی۔ سن 2000ء میں انہیں حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ 1972ء سے 1979ء سات سال تک جنوبی سماٹرا(South Sumatra)، لامپونگ(Lampung)، جامبی(Jambi) اور بینکولو(Bengkulu) میں بطور مبلغ خدمت سرانجام دی۔ 1979ء سے 1981ء تک معلمین کلاس میں بطور استاد خدمت کی توفیق پائی۔ 1981ء میں جماعت پوروو کیرتو (Purwokerto) میں بطور مبلغ تقرر ہوا۔ پھر 82ء میں معلمین و مبلغین کلاس میں بطور نائب ڈائریکٹر مامور ہوئے۔ 82ء سے 92ء تک جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے پرنسپل رہے۔ اس دوران انہیں 1985ء میں شاھد کی ڈگری دی گئی۔ 1992ء سے 2016ء بیس سال تک ’رئیس التبلیغ‘ رہے۔ 2016ء سے لے کر وفات تک بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ انڈونیشیا میں خدمت کی توفیق پائی۔

1973ء میں ان کی شادی مبلغ سلسلہ عبدالواحد صاحب سماٹری کی بیٹی عفیفہ صاحبہ سے ہوئی جو کہ مولانا عبدالباسط صاحب امیر جماعت انڈونیشیا کی بڑی بہن تھیں۔ ان سے سیوطی صاحب کے چار بچے مردیہ خالد، حارث عبدالباری، سعادت احمد اور الیتہ عطیۃ العلیم ہیں۔ عفیفہ صاحبہ کی 2009ء میں وفات ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سیوطی صاحب نے ارینہ داماینتی صاحبہ سے شادی کی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کے بارے میں ایک دفعہ ایم ٹی اے کو انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ میری اور میرے خاندان کی بیعت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میرے دادا نے یہ وصیت کی تھی کہ آخری زمانے میں امام مہدی آئے گا۔ اور جب وہ آئے تو تم سب اس کو قبول کر لینا۔ اس وصیت کو پورا کرنے کے لئے ہمارے خاندان نے دو دفعہ ہجرت کی۔ 1959ء میں ہمارے خاندان نے لامپونگ کی طرف ہجرت کی اور 1963ء میں ایک مبلغ مولانا زینی دھلان صاحب تبلیغ کے لئے لامپونگ آئے اور ہماری ملاقات ان سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ امام مہدی آ گیا ہے۔ کہتے ہیں پھر مَیں نے ان سے پوچھا کہ امام مہدی کے آنے کا کیا ثبوت ہے؟ انہوں نے ایک کتاب ’المسیح آخر الزمان کی صداقت ‘ہمیں دی اور ہمیں اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے لئے کہا۔ جب مَیں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا تو کہتے ہیں مجھے یقین ہو گیا کہ امام مہدی جو آنے والا تھا وہ آگیا اور وہ امام مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں۔ غرض کہتے ہیں کہ 13؍فروری 1963ء کو 19 سال کی عمر میں مَیں نے اور میرے خاندان کے چالیس افراد نے مولانا زینی دھلان کے ذریعہ سے بیعت کی۔

پھر یہ مزید کہتے ہیں کہ 1963ء میں ربوہ سے وکیل التبشیر صاحب بانڈونگ(Bandung) آئے۔ اس وقت مَیں بھی وہاں تھا۔ جماعت کے پروگراموں کو دیکھ کر اور مبلغین سے مل کر مجھ پر جماعت کی سچائی مزید واضح طور پر ظاہر ہو گئی۔ پھر جامعہ میں داخلے کے بارے میںبتاتے ہیں کہ 1963ء میں مولانا ابوبکر ایوب صاحب جو اُس وقت جنوبی سماٹرا کے مبلغ تھے نومبائعین کی تربیت کے لئے ہمارے پاس لامپونگ آئے۔ اس دورہ کے بعد انہوں نے رئیس التبلیغ مولانا سید شاہ محمد جیلانی کو رپورٹ لکھی کہ لامپونگ میں بوگِس(Bugis) قوم کے چند افراد نے بیعت کی ہے اور اب تک اس قوم سے کوئی مبلغ نہیں ہے جبکہ جاوا(javanese) اور سندا (Sundanese)قوم سے مبلغین ہیں۔ اور انہوں نے لکھا کہ مَیں نے وہاں پر تین ایسے نوجوان دیکھے ہیں جو ربوہ میں پڑھنے کے لئے بھیجے جا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تین نوجوانوں میں سے ایک مَیں تھا۔ تو کہتے ہیں ہم تینوں کو جامعہ ربوہ بھجوانے کی سفارش کی گئی۔ ہمیں پاسپورٹ بنوانے کے لئے کہا گیا لیکن انڈونیشیا کے اس وقت سیاسی حالات اچھے نہیں تھے، پاسپورٹ نہیں بن سکا۔ پھر 1966ء میں رئیس التبلیغ مولانا امام الدین صاحب کے ساتھ پاکستانی ایمبیسی میں ویزا َاپلائی کیا اور پندرہ منٹ کے اندر ویزا مل گیا۔ پھر کراچی پہنچے۔ کہتے ہیں ایک رات مَیں کراچی ٹھہرا۔ وہاں سے بذریعہ ٹرین ربوہ پہنچا اور پھر وہاں سے کہتے ہیں مَیں سٹیشن سے اترا پیدل جامعہ پہنچ گیا۔

کہتے ہیںجامعہ کے بہت سے طلباء نے میرا استقبال کیا۔ نیا ماحول تھا اور شروع شروع میں بڑی مشکل ہوئی لیکن پھر عادت پڑ گئی۔ تین دن بعد کہتے ہیں مجھے جامعہ میں داخلہ مل گیا۔ اساتذہ میں سے ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت ماسٹر عطا محمد صاحبؓ تھے۔ کہتے ہیں ربوہ میں قیام کے دوران میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی صحابہؓ سے ملاقات کی سعادت پائی اور ہمیشہ کسی صحابی سے ملنے کا موقع ڈھونڈھتا تھا اور ان سے باتیں کرتے ہوئے ان کے پَیر دبایا کرتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ایک خوشگوار ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خلیفہ منتخب ہوئے تو ہم نے آپ سے پہلی بار ملاقات کی اور حضور سے گلے ملے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہماری گال پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ انڈونیشیا سے آئے ہیں۔ تم سب دُور سے یہاں آئے ہو( جتنے foreign بچے تھے) اور تم میرے بچے ہو۔ کہتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا روحانی نور ہمیشہ ہمارے شامل حال رہا جس کی وجہ سے ہماری جتنی بھی مشکلات تھیں وہ سب آسان ہو گئیں۔ اور خلیفۃ المسیح الثالث نے جو کہا تھا کہ اگر کوئی مشکل پیش آئے تو میرے پاس آنا، کہتے ہیں جب مَیں انڈونیشیا واپس جانے لگا تو واپسی سے پہلے حضور سے ملاقات کرنے گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پوچھا کہ آپ کو کیا چاہئے۔ میں نے کہا مجھے کچھ کتابیں چاہئیں۔ میں ایک دفتر میں گیا تھا لیکن مجھے ملی نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنی قلم سے ایک نوٹ لکھا کہ سیوطی کو کتابیں دے دیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں مجھے روحانی خزائن کا مکمل سیٹ دیا گیا جو اب تک میرے پاس ہے اور جانے سے پہلے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے کافی دیر مجھے گلے لگایا اور میرے کان میں فرمایا کہ اپنے آقا کے ساتھ بے وفائی مت کرنا۔ یہ ہے میری نصیحت۔

ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ 1993ء میں امیر صاحب انڈونیشیا شریف احمد لُوبِس صاحب نے عالمی بیعت کے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے مجھے فلپائن بھیجا اور یہ کہا کہ یہ حضورؒ کا، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا حکم ہے تو کہتے ہیں کہ مَیں تو بہت کمزور ہوں، زبان بھی نہیں جانتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔ کہتے ہیں آپ کا یہی حکم ہے تومَیں تیار ہوں۔ چنانچہ میں جماعتی سنٹر سے چلا گیا اور وہاں پہنچنے کے لئے منیلا(Manila) اور زمبوانگا(Zamboanga)سٹی سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔کہتے ہیں مَیں نے کھانا کھایا مجھے سخت ہیضہ کی تکلیف ہو گئی، پیٹ خراب ہو گیا۔ بڑی کمزوری ہو گئی۔ ایسی حالت میں مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر میں یہاں مر جاؤں تو یہاں تو کوئی مسلمان نہیں ہے جو میری نماز جنازہ پڑھائے گا۔ کہتے ہیں رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک نرس یونیفارم پہنے ہوئے میرے پاس آئی ہے اور میرے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے پھونکا۔ اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور وہ ٹھنڈک میرے پیروں کی انگلیوں سے نکلی ہے۔ کہتے ہیں صبح جب مَیں اٹھا تو بالکل ٹھیک تھا۔ چنانچہ میں تاوی تاوی (Tawi-Tawi)کی طرف روانہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مہینے کے اندر وہاں 130؍افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔

عبدالباسط صاحب امیر جماعت انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ سیوطی عزیز صاحب کو بہنوئی اور مبلغ کے طور پر بہت قریب سے دیکھا اور اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا۔ بڑی سادہ شخصیت کے مالک تھے۔ عاجزی اور انکساری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ہر حال میں صبر وتحمل کی مثال تھے۔ دعا گو، تہجد گزار، اللہ تعالیٰ پر انتہائی توکل کرنے والے۔ ان کو نظام خلافت اور خلفائے سلسلہ سے بڑا اخلاص اور والہانہ پیار اور محبت تھی۔ جماعتی کاموں کو اپنے ذاتی کاموں پر ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ ایک کامیاب خادمِ سلسلہ تھے۔ جو بھی ذمہ داری، کام اور عہدہ موصوف کے سپرد کیا گیا بڑے اخلاص اور وفا کے ساتھ نبھاتے۔ خواہ وہ مبلغ کے طور پر ہو یا جامعہ کے استاد کے طور پر یا پرنسپل کے طور پر یا رئیس التبلیغ کے طور پر ایک واقف زندگی کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ تھے اور مثال تھے۔

معصوم صاحب جو انڈونیشیا جامعہ کے نائب پرنسپل ہیں کہتے ہیں کہ سیوطی صاحب جامعہ میں درجہ خامسہ، رابعہ اور ثالثہ کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے تھے۔ درجہ مبشر میں کلام پڑھاتے تھے اور پڑھانے کے لئے انہوں نے کتاب عرفان الٰہی کا انڈونیشین زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ جب بیماری کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہو گئی اور چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تو پھر آپ سے طلباء ان کے آفس میں آ کے پڑھا کرتے تھے۔ اور ربوہ جانے سے پہلے بھی 8؍نومبر کو انہوں نے آخری کلاس لی۔ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ جامعہ کو اب شاہد تک بڑھا دیا گیا ہے اور خلیفۃ المسیح نے اسے منظور کیا ہے اس لئے تم لوگوں نے خلیفۃ المسیح کی خواہشات کو پورا کرنا ہے اور بڑی محنت کرنی ہے۔

ان کی ایک بیٹی مردیہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ والد صاحب نے اپنی زندگی مکمل طور پر وقف کی تھی۔ اپنی زندگی جماعت کے کاموں میں صرف کی یہاں تک کہ ہم سیر کے لئے بھی بہت ہی کم کہیں گئے۔لیکن ہم سمجھتے تھے کہ وقفِ زندگی کی یہی زندگی ہے، یہی انہوں نے اپنے بچوں کو بتایا کہ وقف زندگی کا کُل وقت جماعت کے لئے ہے۔ پھر یہ کہتی ہیں کہ تربیت کرنے میں والد صاحب کا یہ اصول تھا کہ زیادہ نصیحت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے عمل سے عملی نمونہ دکھاتے تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ جب میری والدہ بیمار ہوئیں تو صبر کے ساتھ ان کی خدمت کیا کرتے تھے اور گھر کا کام بھی خود کرتے تھے۔ رمضان کے دنوں میں سحری اور افطاری کی تیاری بھی خود کرتے تھے اور کبھی کسی سے نہیں کہتے تھے کہ میرے لئے فلاں کام کر دو۔ اپنے کام ہاتھ سے کرنے کی عادت تھی۔

ان کے بیٹے سعادت احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری تربیت بہت صبر سے کرتے تھے لیکن نماز کے معاملے میں آپ بہت تاکید کرتے تھے۔ بچپن میں جب نماز کا وقت ہوتا تو ہمیں مسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے کی تلقین کرتے۔ اگر میں مسجد میں نہیں ہوتا تو مجھے ڈھونڈتے اور پھر خود مسجد لے کے جاتے تھے۔ کہتے ہیں ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کبھی نماز نہ چھوڑنا۔ نماز کے ساتھ سنت بھی پڑھنا اور ہمیشہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہنا۔

ان کی بیٹی عطیۃ العلیم کہتی ہیں کہ والد صاحب ہمیشہ سچ بولتے تھے اور اپنے بچوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔ تہجد کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ ہمیشہ مسجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھتے تھے۔ بیماری کے علاوہ میں نے کبھی انہیں گھر میں فرض نماز اد اکرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ان کی دوسری اہلیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ربوہ جانے سے پہلے مجھے اور بچوں کو کہا کہ میرا اہل، میرے گھر والے اور میرے وارث خلافت ہے اور میری زندگی اور موت جماعت کے لئے ہے۔ اس سال جرمنی کے جلسہ سالانہ پر بھی آئے، بڑی خواہش سے آئے۔ بچوں نے کہا بھی بیمار ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے خلیفۂ وقت سے ملنا ہے۔ اور آئے اور ملاقات بھی کی اور یہ ان کی آخری ملاقات تھی۔ وہاں جرمنی میں مجھ سے ملے تھے۔ یہ کہتی ہیں کہ بہترین خاوند تھے۔ مَیں نے اطاعت کی اہمیت آپ سے ہی سیکھی ہے۔ جماعت کے کاموں میں اپنی صحت اور طبیعت کی کبھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

سیوطی عزیز صاحب کے داماد زکی صاحب کہتے ہیں کہ 2005ء میں جب یہ خبر آئی کہ لوگ ہمارے مرکز پر حملہ کرنے والے ہیں تو ہم خدام کو حکم دیا گیا کہ مرکز کی حفاظت کے لئے آئیں۔ کہتے ہیں مَیں بھی وہاں تھا۔ سیوطی صاحب اس وقت رئیس التبلیغ تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ آپ کبھی نہیں ڈرتے تھے اور بہادری کے ساتھ آدھی آدھی رات کو خدام کے پاس جا جا کر ملتے تھے اور خدام کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ کہتے ہیں میں نے ان میں خلافت سے بے انتہا محبت دیکھی ۔کہتے تھے کہ میں وقفِ زندگی ہوں اور جو بھی کرتا ہوں خلیفہ وقت کی منظوری سے اور ان کے کہنے پہ کرتا ہوں۔ 2017ء میں آپ کو سٹروک ہوا اور کچھ عرصہ واضح بات نہیں کر پاتے تھے لیکن اس کے باوجود کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا اور ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح جامعہ میں جا کر بچوں کو پڑھاؤں۔

احمد صاحب سیکرٹری تربیت لکھتے ہیں کہ کسی سے اچھا مشورہ ملتا تو بڑی عزت کے ساتھ بے تکلفانہ شکریہ ادا کرتے تھے اور جب بھی کسی کام میں مشکل پیش آتی تو بڑے اخلاص سے مشورہ مانگتے تھے۔ احمد نور صاحب مبلغ کہتے ہیں کہ ہمیشہ بڑی سادگی سے رہتے تھے لیکن بہت باوقار تھے۔ باوجود بڑی عمر کے جماعت کے کام میں ہمیشہ چست تھے گویا کہ آپ جوان ہی تھے۔ کہتے ہیں ان کی ایک نصیحت جو ہمیشہ خاکسار کو یاد رہتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کبھی منہ مت پھیرو ۔اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ وہ اپنے بندے کی دعا کو کبھی ردّ نہیں کرتا۔ کہتے ہیں جب شاہد کلاس کے لئے انٹرویو ہوا تو آپ نے روتے ہوئے اور کانپتے ہوئے خاکسار کو یہ نصحت کی کہ اس وقف کو کبھی مت چھوڑنا۔ جو شخص اس وقف کو چھوڑتا ہے وہ بہت ہی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔

ایک بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ سیوطی صاحب کنداری (Kendari) تشریف لائے تو انہوں نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک مربی کو نظام جماعت کی پابندی کروانے میں بیرونی یا اندرونی مسائل کا سامنا ہو تو بے خوف آگے بڑھو اور یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت آپ کے شامل حال ہو گی۔ لیکن اگر ذاتی خامیوں کی وجہ سے احباب جماعت کے اعتراض کا باعث بنیں تو اس کے لئے محاسبہ کرنا اور بہتری پیدا کرنا ضروری ہے۔ جماعتی کاموں میں فکر کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور نیک نیتی سے کام کرو لیکن ذاتی برائیاں اگر ہیں تو ضرور اپنا محاسبہ کرو۔ خالد احمد خان صاحب مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جامعہ میں تعلیم کے دوران سیوطی صاحب روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ہمارے لئے ایک روشن مثال تھے۔ آپ نماز باجماعت کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ وقت پر بلکہ بعض اوقات اس سے پہلے ہی نماز باجماعت کے لئے مسجد میں بیٹھے ہوتے تھے اور آخری ایام تک باوجود علالت کے نماز میں ہمیشہ آگے رہے۔

پھر مبلغ سلسلہ ہاشم صاحب لکھتے ہیں کہ جامعہ میں سیوطی عزیز صاحب سے علم الکلام پڑھنے کی سعادت ملی۔ ان کی عادت تھی کہ پڑھانے کے دوران طلباء سے سوال و جواب کرتے تھے اور طلباء کی جانب سے جوابات کو بہت سراہتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ جماعت احمدیہ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل کیا ہے۔ کہتے ہیں ہم نے ایک ایک کر کے قرآن کریم کی آیات اور احادیث کے حوالے دے کر اس سوال کا جواب دیا۔ انہوں نے ہمارے جوابات سن کر کہا کہ صداقت کی سب سے بڑی دلیل جو ہے وہ میں ہی ہوں یعنی ہر احمدی کو اپنے آپ کو صداقت کی دلیل سمجھنا چاہئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس جماعت کی سچائی کا ثبوت ہو۔یہ ان کا تربیت کا انداز تھا کہ اگر آپ مکمل طور پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر عمل کریں گے تو آپ اس سلسلہ کی سچائی کی سب سے بڑی دلیل بنیں گے۔ یہ ان کا تربیت کا انداز تھا۔ خطبات بڑے غور سے سنتے تھے۔ پھر میرے خطبات جو سنتے تھے ان خطبات پر وہ طلباء سے پوائنٹس ڈسکس کرتے تھے، یقینی بناتے تھے کہ انہوں نے نوٹس لئے ہیں اور ہمیشہ یہ دیکھتے تھے کہ خلیفہ وقت کے پیغام کو سمجھا بھی ہے کہ نہیں اور ہمیشہ خلافت کی اطاعت کے بارے میں تلقین کرتے رہے۔

شمسوری محمود صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ سیوطی صاحب ایک کامیاب واقف زندگی تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے خاکسار کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ زندگی وقف کرنے کے بعد غافل نہیں رہنا۔ وقف سے الگ ہونا اپنے آپ کو جماعت سے نکالنے کے مترادف ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ پھر انہوں نے اس فقرے کو دہرایا جب آپ یہ کہہ رہے تھے تو ان کی آنکھیں سرخ تھیں، آنکھوں میں آنسو تھے۔

یوسف اسماعیل صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ جب مجھے ریجنل مبلغ بنایا گیا تو میں آپ سے ملاقات کے لئے گیا، سیوطی صاحب رئیس التبلیغ تھے تو یوسف صاحب نے انہیں پوچھا کہ مجھے کیوں ریجنل مبلغ مقرر کیا گیا ہے کیونکہ میرے اندر تو بہت سی کمزوریاں ہیں اور کم تجربہ کار ہوں۔ ریجنل مبلغ کے لائق نہیں ہوں۔ بڑے بڑے تجربہ کار ہیں ان کو بنائیں۔ اس سوال کے جواب میں آپ نے بڑی سادگی سے اور سیدھا جواب دیا کہ یہ آپ کو کس نے کہا ہے کہ آپ لائق ہیں اس لئے آپ کو ریجنل مبلغ بنایا جا رہا ہے۔ آپ کو تو یہ ذمہ داری اس لئے دی گئی ہے تا کہ آپ سیکھ سکیں، کام سیکھیں، ذمہ داری کا احساس پیدا ہو۔ پھر کہنے لگے کہ ہم تو کمزور بندے ہیں کچھ نہیں کر سکتے لیکن اگر ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق ہو تو ہر معاملے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ بس یہ ہمیشہ ذہن میں رکھو چاہے تم ریجنل مبلغ ہو یا عام مبلغ ہو اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق رکھنا ہے تبھی تمہیں کامیابیاں ملیں گی اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔

ایم ٹی اے کے جنرل مینیجر ہیں اخاء نور صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بہت مشکل درپیش تھی ۔ مَیں نے آپ کو دعا کا پیغام بھیجا۔ اس وقت تو کوئی جواب نہیں دیا پھر کسی سے آپ نے میرا فون نمبر مانگا۔کہتے ہیں اگلے روز میری ملاقات ان سے ہو گئی تو آپ نے پہلا یہ سوال کیا کہ مجھے تو تم نے دعا کے لئے لکھا ہے، کیا اپنی مشکل کے لئے تم نے خلیفہ وقت کو بھی دعا کے لئے لکھا ہے؟ جب میں نے بتایا کہ دعا کے لئے لکھا ہے تو پھر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ یہی طریق ہونا چاہئے اور کہتے ہیں کہ اس وقت بھی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ کے لہجے سے خلافت سے گہری محبت جھلک رہی تھی۔

اسی طرح مختلف مواقع پر جب بھی خلافت سے تعلق کا ذکر ہوتا آپ انتہائی جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ربوہ میں وفات ہوئی تھی ان کا جسد خاکی پاکستان سے 23؍نومبر کو انڈونیشیا پہنچا اور 24؍نومبر کو ان کی تدفین مرکز پارونگ (Parung) میں مقبرہ موصیان میں عمل میں آئی۔ احباب جماعت کی بڑی تعدادجنازے میں شامل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے سب لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی اولاد اور آئندہ نسلوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا)نمازوں کے بعد میں ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button