خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26؍ اکتوبر 2018ء

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26؍ اکتوبر 2018ء بمطابق26؍اخاء 1397 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت السمیع ،ہیوسٹن(Houston)،امریکہ

٭…بدظنی جو ہے اگر یہ دور ہو جائے تو ہمارے معاشرے کے آدھے فساد اور جھگڑے اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ اکائی پیدا ہو جائے، وحدت پیدا ہو جائے۔ ٭… عبادتوں اور دعاؤں کو قبول کروانا ہے تو اس کے لئے بنیادی چیز یہی ہے کہ انسان برائیوں سے رُکے اور نیکیوں کو اپنائے۔ یہ تقویٰ ہے ۔

٭…صرف اعتقاد کام نہیں آئے گا۔ اصل چیز عمل ہے جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ پس اسلام لانا کافی نہیں ہے، احمدی ہونا کافی نہیں ہے

اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے ۔ ٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ جو ہیں

یہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کے پیچھے بھی چلو گے وہ تمہیں صحیح رستے کی طرف لے جائے گا۔

’’یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دستبردار ہے۔ ‘‘

’’خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے

یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے۔

’’یہ بیعت اس وقت کام آ سکتی ہے جب دین کو مقدم کر لیا جاوے اور اس میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔‘‘

٭…یہ آفات کوئی معمولی آفات نہیں ہیں۔ ان کی پیشگوئیاں سو سال پہلے ہو چکی ہیں۔ اور ان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آئے ۔

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

’’خدا تعالیٰ کی بعض باتوںکو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بنیں

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗأَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ہمارے مہدی‘ کے الفاظ سے خطاب فرمایا، یا یاد فرمایا۔ (سنن الدار قطنی جلد اوّل صفحہ 51 حدیث 1777 کتاب العیدین مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)یہ پیار اور قرب کے اظہار کا اعلیٰ مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ہمارا‘ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مہدی معہود علیہ السلام کو عطا فرمایا۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے لٹریچر میں اسلام کے اعلیٰ ترین مذہب ہونے کے بارے میں بیان فرمایا ہے اور اعتراض کرنے والوں کے اعتراض انہی پر الٹا کر یہ ثابت فرمایا کہ آج حقیقی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا اور گناہوں سے نجات دلانے والا اگر کوئی مذہب ہے، اور مذہب ہے یقیناً، تو وہ صرف اسلام ہے، وہاں اپنوں کی تربیت کے لئے بھی بے شمار تقاریر، تحریروں اور مجالس میں بے شمار ارشادات فرمائے جو ہمارے لئے قدم قدم پر رہنما ہیں اور ہدایت کے سامان ہیں۔

آپ ؑنے اپنے ماننے والوں کو بڑے درد کے ساتھ بیعت کا حق ادا کرنے اور حقیقی مومن بننے کی طرف رہنمائی فرمائی۔یہ وہ ارشادات ہیں جنہیں ہمیں باقاعدہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور یہی ہماری روحانی تربیت کا ذریعہ ہے۔ یہی ذریعہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم دین کا ادراک بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم خدا تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ یہی ذریعہ ہے جس سے ہم قرآن کریم کے اسرار و معارف تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو پہچان سکتے ہیں۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی اعتقادی حالتوں کو درست کر سکتے ہیں۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی عملی حالتوں میں بہتری لا سکتے ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہو گی اگر ہم اس خزانے کے ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں جو طاقت اور قوتِ قدسی ہے اس کا اثر کسی اَور کے الفاظ میں نہیں ہو سکتا۔اور کیوں نہ ہو! یہی تو وہ امام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ پس یہ ہمارا، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ فرض ہے کہ آپ ؑکے الفاظ کو پڑھیں، سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی حالتوں کو اس معیار پر لے کر آئیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے۔

اس وقت میں آپؑ کے چند ارشادات پیش کروں گا جو ہماری زندگیوں کا لائحہ عمل ہیں۔ ایک مقصد ہے جو آپ نے ہمیں ہمارے سامنے رکھا اور بیان فرمایا کہ ایک احمدی کا کیا معیار ہونا چاہئے، اسے کیسا ہونا چاہئے۔ آجکل کی مادی دنیا میں ان باتوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ ہم میں سے بعض کی ترجیحات بھی دنیا کی طرف زیادہ ہو گئی ہیں اور دین کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اعتقادی لحاظ سے ہم اپنے آپ کو احمدی مسلمان کہتے ہیں ، لیکن عملی کمزوریاں ہم میں بہت زیادہ پیدا ہو رہی ہیں۔ ان ارشادات کی روشنی میں ہر کوئی اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ ہم کہاںکھڑے ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہئے۔

تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ نیکی کیا ہے؟ نیکی کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ

سچا تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو اس کے حاصل کرنے کے لئے بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْ اللہَ۔

کہ اے ایمان لانے والو اللہ کاتقویٰ اختیار کرو اور پھر یہ بھی کہا کہ

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل129:)

یعنی اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔

فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو اور مُحْسِنُوَن وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا۔

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی(یونس27:)

یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں ۔ ‘‘

فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یہ وحی بار بار ہوئی۔

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل129:)

اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’…خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو‘‘۔

فرمایا ’’یہ فخر کی بات نہیں کہ انسان اتنی ہی بات پر خوش ہو جاوےکہ( مثلاً )وہ زنا نہیں کرتا یا اس نے خون نہیں کیا( کسی کو قتل نہیں کیا) چوری نہیں کی۔‘‘ فرماتے ہیں’’ یہ کوئی فضیلت ہے کہ برے کاموں سے بچنے کا فخر حاصل کرتا ہے؟‘‘ یہ کوئی بات نہیں ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہم برے کاموں سے بچے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل وہ جانتا ہے‘‘ کرنے والا اگر یہ کام نہیں کرتا ’’…وہ جانتا ہے کہ چوری کرے گا تو… قانون کی رُو سے زندان میں جاوے گا‘‘۔ یعنی قید ہو گا، پکڑا جائے گا، سزا ملے گی۔ فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ایسی چیز کا نام نہیں ہے کہ برے کام سے ہی پرہیز کرے۔( اتنا ہی اسلام نہیں) بلکہ جب تک بدیوں کو چھوڑ کر نیکیاں اختیار نہ کرے وہ اس روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ نیکیاں بطور غذا کے ہیں۔ جیسے کوئی شخص بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جب تک نیکی اختیار نہ کرے تو کچھ نہیں۔‘‘ بدیاں چھوڑو اور نیکیاں کرو تو تب روحانی زندگی ملتی ہے۔

بعض برائیاں کس طرح انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں جو انسان محسوس بھی نہیں کر رہا ہوتا لیکن ایک وقت میں وہ انہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ :

بعض گناہ موٹے موٹے ہوتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، زنا کرنا، خیانت کرنا، جھوٹی گواہی دینا اور اتلاف حقوق( لوگوں کے حق مارنا)، شرک کرنا وغیرہ۔ لیکن بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے‘‘۔ عمر گزر جاتی ہے گناہ کرتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے گناہ سمجھتا ہے۔ پتہ ہی نہیں لگ رہا ہوتا۔ مثلاً آپؑ نے مثال دی کہ گِلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ شکوہ کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنج کا اظہار کرنا ۔ اِدھر اُدھر باتیں کرنا اس نے یہ کہہ دیا اس نے وہ کہہ دیا۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے‘‘۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں، جو شکایتیں ہیں گلہ کرنا، شکوہ کرنا آخر میں چغلی بن جاتا ہے۔ اس لئے قرآن شریف نے اس کو بہت بڑا قرار دیا ہے۔’’ چنانچہ فرمایا ہے

اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا (الحجرات13:)

خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو‘‘ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ’’اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے‘‘، یعنی صرف باتیں ہی نہیں ہوں کیونکہ باتیں پھر دوسرے کو نقصان پہنچانے والی بھی ہوتی ہیں، شکوے اور گلے شروع ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی بدظنیاں شروع ہوتی ہیں، چغلیاں کرنی شروع ہوتی ہیں اور پھر انسان ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کو نقصان بھی پہنچائے۔

آپؑ فرماتے ہیں’’ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں۔ فرمایا ایسا ہی بخل ہے، غضب ہے،یہ سب برے کام ہیں کنجوسی ہے، غصہ میں آنا ہے، یہ سب برے کام ہیں۔’’ پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان ان سے پرہیز کرے اور ہر قسم کے گناہوں سے جو خواہ آنکھوں سے متعلق ہوں یا کانوں سے، ہاتھوں سے یا پاؤں سے، بچتا رہے‘‘۔ خواہ آنکھوں سے متعلق ہوں یا کانوں سے، ہاتھوں سے یا پاؤں سے کوئی بھی قصور نہ ہو۔ کسی بھی عضو سے گناہ ہو رہا ہو ان سے بچتا رہے۔ ’’کیونکہ فرمایا ہے

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(بنی اسرائیل37:)۔

یعنی جس بات کا علم نہیں خواہ نخواہ اس کی پیروی مت کرو۔ کیونکہ کان، آنکھ، دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاوے گا۔‘‘ مرنے کے بعد انسان اللہ کے پاس جائے گا تو ان چیزوں سے سوال ہوں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’بہت سی بدیاں صرف بدظنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک بات کسی کی نسبت سنی اور جھٹ یقین کر لیا‘‘ بغیر تحقیق کے، فرمایا ’’یہ بہت بُری بات ہے۔ جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو۔ یہ اصل بدظنی کو دور کرنے کے لئے ہے کہ جب تک مشاہدہ اور فیصلہ صحیح نہ کرے نہ دل میں جگہ دے اور نہ ایسی بات زبان پر لائے۔‘‘ فرمایا’’ یہ کیسی محکم اور مضبوط بات ہے۔ بہت سے انسان ہیں جو زبان کے ذریعہ پکڑے جائیں گے‘‘۔ پس بدظنی جو ہے اگر یہ دور ہو جائے تو ہمارے معاشرے کے آدھے فساد اور جھگڑے اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ اکائی پیدا ہو جائے، وحدت پیدا ہو جائے۔ آپ فرماتے ہیں ’’یہاں دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے آدمی محض زبان کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں اور انہیں بہت کچھ ندامت اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔ کوئی بات کہی اور پکڑے گئے اور بات سچی نہیں نکلتی پھر شرمندگی ہوتی ہے، سچ ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ بدظنی نہ کرو۔ دوسرے کے متعلق اچھے خیال رکھو۔ یا کوئی بات سنو تو تحقیق کر لیا کرو۔ انسان کمزور ہے بعض خیالات دل میں آ جاتے ہیں لیکن اگر ان پر عمل نہ کرے انسان تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف خیالات کے آنے سے پکڑ نہیں کرتا بلکہ اس پر عمل کرنے کی وجہ سے پکڑ ہوتی ہے۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح پکڑ کرتا ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ :

’’دل میں جو خطرات اور سرسری خیال گزر جاتے ہیں ان کے لئے کوئی مؤاخذہ نہیں۔ مثلاً کسی کے دل میں گزرے کہ فلاں مال مجھے مل جاوے تو اچھا ہے۔ یہ ایک قسم کا لالچ تو ہے لیکن محض اتنے ہی خیال پر جو طبعی طور پر دل میں آئے اور گزر جاوے کوئی مؤاخذہ نہیں۔ لیکن جب ایسے خیال کو دل میں جگہ دیتا ہے اور پھر عزم کرتا ہے کہ کسی نہ کسی حیلے سے وہ مال ضرور لیناچاہئے…‘‘، غلط طریقے سے مال کمانا ہے، یہ خیال آ جائے کہ اگر میرا ٹیکس اتنا بنتا ہے، اس میں اتنی کمی کر دوں تو میرے پاس اتنی بچت ہو جائے گی۔ خیال آنا تو کوئی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نہیں پکڑتا لیکن اگر اس پر عمل کیا، ٹیکس چوری کیا، حکومت کو نقصان پہنچایا یا سچ نہیں بولا، اپنے چندوں میں اپنی آمد کو کم لکھوایا تو پھر اللہ تعالیٰ پکڑتا ہے۔ اور بہت سارے ایسے تجربے ہیں، بہت سارے لوگوں کی مثالیں ہیں جن کی پھر آمدنی بھی اسی طرح آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے اور اسی سطح پر آ جاتی ہے جس پہ وہ اپنی آمدنی ظاہر کر رہا ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی میں بھی اور حکومت کے حق ادا کرنے میں بھی۔ فرمایا ’’تو پھریہ گناہ قابل مؤاخذہ ہے۔ غرض جب دل عزم کر لیتا ہے تو اس کے لئے شرارتیں اور فریب کرتا ہے۔‘‘ دنیاداروں میں، دنیاوی لالچوں میں بھی، کاروباری لوگ ہیں یا دوسرے لوگ ہیں کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے غلط طریقے سے جب دل میں خیال آتا ہے، اس پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں، پروگرام بنانا شروع کرتے ہیں، سکیمیں بنانی شروع کر تے ہیں۔ تو پھر فرمایا کہ ’’یہ گناہ قابل مؤاخذہ لکھا جاتا ہے۔ پس یہ اس قسم کے گناہ ہیں جو بہت ہی کم توجّہی کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں اور یہ انسان کی ہلاکت کا موجب ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے اور کھلے گناہوں سے تو اکثر پرہیز کرتے ہیں‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ بہت سے آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے کبھی خون نہیں کیا ہو گا، کسی کو قتل نہیں کیا ہو گا، نقب زنی نہیں کی، چوری نہیں کی، ڈاکہ نہیں ڈالا یا اور اس قسم کے بڑے گناہ نہیں کئے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ہیں جنہوں نے کسی کا گِلہ نہیں کیا، کوئی شکوہ نہیں کیا، کسی کے پیچھے کوئی بات نہیں کی ، بدظنی نہیں کی، وہ لوگ کتنے ہیں؟ یا کسی اپنے بھائی کی ہتک کر کے اس کو رنج نہیں پہنچایا ،کسی کو جذباتی ٹھیس نہیں پہنچائی، یہ لوگ کتنے ہیں؟ یا جھوٹ بول کر خطا نہیں کی۔ اب جھوٹ کی بھی بڑی قسمیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو یہ کہا ہے، ایک مومن کو کہا ہے کہ ہلکا سا بھی جھوٹ نہیں بولنا، تمہاری ہر بات میں سچائی ہونی چاہئے۔ فرماتے ہیں یا کم از کم دل کے خطرات پر استقلال نہیں کیا، جو بھی دل میں باتیں پیدا ہوتی ہیں ان پر پھر قائم نہیں رہے۔کتنے لوگ ہوں گے ایسے؟ آپؑ فرماتے ہیں کہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو ان باتوں کی رعایت رکھتے ہوں جنہوں نے کسی کو رنج نہ پہنچایا ہو، کسی کا شکوہ نہ کیا ہو، بدظنی نہ کی ہو، جھوٹ نہ بولا ہو، دل میں برے خیالات نہ لائے ہوں۔ فرماتے ہیں ایسے بہت کم لوگ ہوں گے جو ان باتوں کی رعایت رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوں۔ یہ سب کام اگر نہیں کرتے تو اس وجہ سے نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ورنہ کثرت سے ایسے لوگ ملیں گے جو تقریباً جھوٹ بولتے ہیں اور ہر وقت ان کی مجلسوں میں دوسروں کا شکوہ اور شکایت ہوتا رہتا ہے اور وہ طرح طرح سے اپنے کمزور اور ضعیف بھائیوں کو دکھ دیتے ہیں۔ آپ اپنی مجالس کا جائزہ لے لیں۔ ہر کوئی خود دیکھے تو نظر آئے گا کہ بیٹھ کے لوگوں کی برائیاں کی جاتی ہیں، تضحیک کی جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھالا جاتا ہے، اس پر ہنسی ٹھٹھہ کیا جاتا ہے اور پھر اسی وجہ سے پھر رنجشیں پیدا ہوتی ہیں۔ پس یہ ہے نیکیوں کا معیار کہ ان چیزوں سے بچنا ہے جن سے بچنے کی ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے‘‘۔ فرمایا ’’مَیں اس وقت برے کاموں کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا۔ قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر اور نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے‘‘۔ کیا کام کرنے ہیں کیا نہیں کرنے ان کی تفصیل قرآن کریم میں موجود ہے اور ایک مومن کو قرآن شریف پڑھنا چاہئے اور سمجھنا بھی چاہئے۔ فرمایا کہ’’ اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔ خلاصۃً یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو ہرگز منظور نہیں کہ زمین پر فساد کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر وحدت پھیلانا چاہتا ہے لیکن جو شخص اپنے بھائی کو رنج پہنچاتا ہے، ظلم اور خیانت کرتا ہے وہ وحدت کا دشمن ہے‘‘۔ اکائی نہیں پیدا ہو سکتی اس سے، محبت نہیں پیدا ہو سکتی، بھائی چارہ نہیں پیدا ہو سکتا۔ فرمایا کہ’’ وہ وحدت کا دشمن ہے۔ جب تک یہ بد خیال دل سے دور نہ ہوں کبھی ممکن نہیں کہ سچی وحدت پھیلے۔ اس لئے اس مرحلہ کو سب سے اوّل رکھا‘‘۔ ایک جماعت ہونے میں یہی برکت ہے کہ ایک اکائی قائم ہو، وحدت قائم ہو اور یہی مقصد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا اور یہی مقصد تھا مہدی معہود کے آنے کا کہ مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کریں۔ امّت واحدہ بنائیں۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے جب اس قسم کی باتوں کو سنتے ہیں تو ان کے دل متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ اچھا بھی سمجھتے ہیں۔‘‘ یعنی کہ نیکی کی باتیں جو کی جا رہی ہیںسنتے ہیں، اس وقت خطبہ دیا جا رہا ہے، بیٹھے ہیں لوگ سن رہے ہیں، دل متاثر ہو جاتے ہیں بعضوں کے، اکثریت کے ہوتے ہیں۔ لوگ مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں۔لیکن فرمایا ’’…لیکن جب اس مجلس سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے احباب اور دوستوں سے ملتے ہیں تو پھر وہی رنگ ان میں آ جاتا ہے اور اُن سنی ہوئی باتوں کو یکدم بھول جاتے ہیں‘‘۔ جو نیکی کی باتیں سن کے آتے ہیں انہیں بھول جاتے ہیں اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ بار بار ہمیں یہ باتیں دہرانی چاہئیں اور سامنے رکھنی چاہئیں تا کہ بھولنے سے پہلے یاددہانی ہو جائے۔ اور فرمایا کہ ’’…وہی پہلا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ اس سے بچنا چاہئے۔ جن صحبتوں اور مجلسوں میں ایسی باتیں پیدا ہوں ان سے الگ ہو جانا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ان تمام بُری باتوں کے اجزاء کا علم ہو کیونکہ طلب شئے کے لئے علم کا ہونا سب سے اوّل ضروری ہے‘‘۔ یعنی کسی چیز کی آدمی خواہش کر رہا اور اس کی طلب کر رہا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علم بھی ہو کہ وہ چیز ہے کیا؟ اچھی ہے یا بری ہے۔ اچھائی کا بھی علم ہونا چاہئے اور برائی کا بھی علم ہونا چاہئے تا کہ اگر بری ہے تو چھوڑ دے اور اچھی ہے تو اس کو اپنا لے۔

فرمایا کہ ’’جب تک کسی چیز کا علم نہ ہو اسے کیونکر حاصل کر سکتے ہیں۔ قرآن شریف نے بار بار تفصیل دی ہے۔ پس بار بار قرآن شریف کو پڑھو،اور تمہیں چاہئے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا،( بدیوں سے بچنا۔) جب تم ایسی سعی کرو گے،( کوشش کرو گے) تو اللہ تعالیٰ پھر تمہیں توفیق دے گا( بچنے کی) اور وہ کافوری شربت تمہیں دیا جاوے گا جس سے تمہارے گناہ کے جذبات بالکل سرد ہو جائیں گے‘‘۔ کافور کے بارے میں حکماء کہتے ہیں کہ جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یہ استعمال ہوتا ہے۔ لوگ دوائیوں میںبھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں روحانی بیماری کے لئے بھی آپ نے اس کی مثال دی ہے کہ جب برائیوں سے بچو گے تو یہی تمہارے لئے کافوری شربت بن جائے گا جس سے آہستہ سے تمہارے گناہ ٹھنڈے ہوتے جائیں گے، ختم ہوتے جائیں گے۔ ’’اس کے بعد نیکیاں ہی سرزَد ہوں گی۔ جب تک انسان متقی نہیں بنتا یہ جام اسے نہیں دیا جاتا اور نہ اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا ہوتا ہے‘‘۔ عبادتوں اور دعاؤں کو قبول کروانا ہے تو اس کے لئے بنیادی چیز یہی ہے کہ انسان برائیوں سے رُکے اور نیکیوں کو اپنائے۔ یہ تقویٰ ہے۔ دعائیں قبول کرانے کے لئے بھی یہ ضروری شرط ہے’’ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ28:)

یعنی بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں ہی کا قبول ہوتا ہے۔ ان عبادات کی قبولیت کیا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟‘‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ

نماز کی قبولیت سے مراد یہ ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیںاور جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں تو نری ٹکریں ہیں۔ فرمایا کہ اس نماز اور روزہ سے کیا فائدہ جبکہ اسی مسجد میں نماز پڑھی اور وہیں کسی دوسرے کی شکایت اور گِلہ کر دیا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیسے پتہ لگے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز یا عبادت قبول کی ہے کہ نہیں۔ تو اس کی نشانی یہی ہے کہ نمازوں کے بعد، عبادتوں کے بعد دیکھنا چاہئے کہ بڑی اور چھوٹی برائیاں ہم سے دور ہو رہی ہیں، ان سے نفرت پیدا ہو رہی ہے، ہمارے اندر نیکیاں کرنے کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو رہی ہے، سچائی کی طرف ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں۔ اگر نہیں تو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پھر یہ ٹکریں ہیں۔ فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھی وہیں دوسرے کی شکایت اور گلہ شروع کر دیا، بدظنیاں شروع ہو گئیں، باتیں شروع ہو گئیں، امانت میں خیانت کر دی۔ مجلسوں کی بھی امانت ہوتی ہے اور عہدیداروں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی جماعتی مجالس کی باتیں نہ اپنے گھروں میں، نہ کسی غیر ضروری شخص سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر پابندی ہونی چاہئے۔ بہت ساری باتیں اسی لئے پیدا ہوتی ہیں، فتنے اسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ اپنی امانت کی باتیں باہر نکل رہی ہوتی ہیں۔ کسی کے مقام پر لوگ حسد کرنے لگ جاتے ہیں۔ کسی کی عزت پر حملہ کر دیا۔ آپؑ فرماتے ہیں اگر ایسے عیبوں اور برائیوں میں مبتلا ہوئے تو پھر نماز نے اسے کیا فائدہ دیا؟

بعض بہت سے نوجوان ہیں، مجھے ذاتی طور پر پتہ لگتا رہتا ہے لکھتے بھی رہتے ہیں کہ بعض عہدیداروں، اپنے بڑوں کی ایسی باتیں دیکھ کر ہی جماعت سے پہلے آہستہ آہستہ دور ہٹے، مسجد سے دور ہٹے، پھر عبادت سے دور ہٹے، پھر اللہ تعالیٰ سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ تو پھر ایسی نمازیں نہ تو صرف یہ کہ نماز پڑھنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتیں بلکہ ان سے بعض لوگوں کو نقصان بھی پہنچ رہا ہوتا ہے۔ پس اگر اگلی نسل کو سنبھالنا ہے تو سب سے پہلے بڑوں اور عہدیداروں کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لئے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے اور یہی تقویٰ ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ بھی یاد رکھو کہ تقویٰ اس کا نام نہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرے بلکہ باریک در باریک بدیوں سے بچتا رہے۔ مثلاً ٹھٹھے اور ہنسی کی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں دوسروں کا غلط قسم کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، یا ایسی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہتک ہو یا اس کے بھائی کی شان پر حملہ ہو رہا ہو۔ اگرچہ ان کی ہاں میں ہاں بھی نہ ملائی ہو مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی برا ہے۔ ایسی مجلسوں میں بیٹھ کے ایسے لوگوں کی باتیں سننا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے چاہے گفتگو میں شامل نہ ہو رہے ہو کہ ایسی باتیں کیوں سنیں؟ یہ ان لوگوں کا کام ہے جن لوگوں کے دل میں مرض ہے کیونکہ اگر ان کے دل میں بدی کی پوری حس ہوتی تو وہ کیوں ایسا کرتے اور کیوں ایسی مجلس میں جا کر ایسی باتیں سنتے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں یہ بھی یاد رکھو کہ ایسی باتیں سننے والا بھی کرنے والا ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ زبان سے ایسی باتیں کرتے ہیں وہ تو صریح مؤاخذہ کے نیچے ہیں، واضح طور پر سزا کے نیچے آ گئے کیونکہ انہوں نے ارتکاب گناہ کیا ہے۔ لیکن جو چُپکے ہو کے بیٹھے رہے وہ بھی اس گناہ کے خمیازے کا شکار ہوں گے۔ وہ بھی گناہگار بن رہے ہوں گے اور ان کو بھی نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ اس حصے کو بڑی توجہ سے یاد رکھو، آپؑ فرماتے ہیں کہ اس حصہ کو بڑی توجہ سے یاد رکھو اور قرآن شریف کو بار بار پڑھ کر سوچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے بہت یاد رکھنے کی چیز ہے۔

پس غلط باتوں کو سن کر خاموش رہنے والے، وہیں بیٹھے رہ کر صرف باتیں سننے والے کہ مزے کے لئے باتیں سن رہے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ پھر اس بات کی مزید وضاحت بھی فرمائی کہ ایک مومن صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جاتا کہ اس نے کوئی برائی نہیں کی، پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ یہ تو دوسرے مذہبوں اور قوموں کے شرفاء جو ہیں، بلکہ ان لوگوں میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو برائیاں نہیں کرتے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ

بعض لوگ ہندوؤں، عیسائیوں اور دوسری قوموں میں پائے جاتے ہیں جو بعض گناہ نہیں کرتے مثلاً بعض جھوٹ نہیں بولتے، کسی کا مال ناحق نہیں کھاتے، قرضہ دبا نہیں لیتے بلکہ واپس کرتے ہیں۔ معاملات معاشرت میں بھی پکے ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنی ہی بات نہیں جس سے وہ راضی ہو جاوے۔ بدیوں سے بچنا چاہئے اور اس کے بالمقابل نیکی کرنی چاہئے اس کے بغیر مخلصی نہیں۔ جو اس پر مغرور ہے کہ وہ بدی نہیں کرتا وہ نادان ہے۔ اسلام انسان کو اسی حد تک نہیں پہنچاتا اور چھوڑتا بلکہ وہ دونوں شقیں پوری کرانا چاہتا ہے کہ یعنی بدیوں کو تمام و کمال چھوڑ دو اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو۔ جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں نجات نہیں ہو سکتی۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 371 تا 378۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپؑ فرماتے ہیں’’ مَیں پھر جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ تم تقویٰ و طہارت میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا۔

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل129:)

‘‘( یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ کا طریق اختیار کیا اور جو نیکیاں کرنے والے ہیں اور احسان کرنے والے ہیں)۔ فرمایا ’’خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اس نیکی سے جسے خدا چاہتا ہے کثیر حصہ نہ لو گے تو اللہ تعالیٰ سب سے اوّل تم ہی کو ہلاک کرے گا کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اس کے منکر ہوتے ہو‘‘۔ یعنی زمانے کے امام کو مانا ہے، یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم باقی مسلمانوں سے بہتر ہیں اور نیکیوں پر چلنے والے ہیں لیکن عملی طور پر اگر تقویٰ نہیں تو اس سے انکار ہو رہا ہے۔’’ اس بات پر ہرگز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی ہے۔ جب تک پورا تقویٰ اختیار نہ کرو گے ہرگز نہ بچو گے۔ خدا تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں نہ اس کو کسی کی رعایت منظور ہے۔ جو ہمارے مخالف ہیں وہ بھی اسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اسی کی مخلوق ہو‘‘۔ جو مخالفین ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ہم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ ’’صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جب تک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو‘‘۔ اعتقاد تو دوسرے مسلمانوں کا بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتَم النّبیین ہیں، قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے یہ تو اعتقاد ہمارا بھی ہے، اُن کا بھی ہے لیکن اگر قول اور فعل میں تضاد ہے تو صرف اعتقاد کام نہیں آئے گا۔ اصل چیز عمل ہے جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ پس اسلام لانا کافی نہیں ہے، احمدی ہونا کافی نہیں ہے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے اور حقیقی مومن بننا جس کی اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ عملی راستی دکھاؤ( یعنی عملی طور پر سچائی کو ظاہر کرو) تا وہ تمہارے ساتھ ہو۔ رحم، اخلاق، احسان، اعمال حسنہ، ہمدردی اور فروتنی (اور عاجزی) میں اگر کمی رکھو گے تو مجھے معلوم ہے اور بار بار میں بتلا چکاہوں کہ سب سے اوّل ایسی ہی جماعت ہلاک ہو گی‘‘۔ فرمایا کہ’’ موسیٰ علیہ السلام کے وقت جب اس کی امّت نے خدا تعالیٰ کے حکموں کی قدر نہ کی تو باوجودیکہ موسیٰ اُن میں موجود تھا مگر پھر بھی بجلی سے ہلاک کئے گئے‘‘۔(ملفوظات جلد 7 صفحہ 144-145۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) تو پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے تم صرف میری بیعت کر کے بچ جاؤ گے !

پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپؑ صحابہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں …‘‘ کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنا اور تقویٰ پیدا ہونا، آپؑ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ نے جو نمونہ دکھایا وہ کیا تھا۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کوآمادہ ہو گئے۔ پس ’’یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہو جاوے مگر صحابہ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا۔ جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے۔ پس یہ ضروری امر ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کر لو‘‘۔(ملفوظات جلد 8 صفحہ 297۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) آجکل میں خطبات میں صحابہؓ کی سیرت بیان کر رہا ہوں بہت سارے، عجیب عجیب واقعات سامنے آتے ہیں کس قسم کی قربانیاں دینے والے تھے، کس طرح اپنے اندر نیکیاں پیدا کرنے والے تھے، کس طرح تقویٰ میں بڑھنے والے تھے، کیا عبادتوں کے معیار تھے، اسی لئے کہ ہمارے سامنے وہ نمونے آجائیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ جو ہیں یہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کے پیچھے بھی چلو گے وہ تمہیں صحیح رستے کی طرف لے جائے گا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 11 صفحہ 162 حدیث 6018 کتاب المناقب باب مناقب الصحابہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) پس یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دستبردار ہے‘‘۔ اس کی وضاحت بھی آگے کر دی۔ فرماتے ہیں کہ یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں اس خیال سے تباہ ہو جاؤں گا۔ یہ خدا شناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے۔‘‘ کہ دنیا کی طرف میں گیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ فرمایا’’ خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کریم ہے۔ جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیںکو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولاد بابرکت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے۔ دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا، کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور کسی قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آ سکتی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’دولت ہو سکتی ہے‘‘، پیسہ بن جائے، پیسہ آ جائے کسی کے پاس’’ مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ‘‘ یہ پیسہ جو ہے ’’مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گئی‘‘۔ بہت ساری مثالیں ایسی ہمارے سامنے آتی ہیں کہ مرنے کے بعد ان کی دولتیں لُٹ جاتی ہیں۔ فرمایا ’’ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو۔ ‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ …ابھی تک جو تعریف کی جاتی ہے‘‘ جماعت کی یا احمدیوں کی ’’وہ خدا تعالیٰ کی ستاری کرا رہی ہے‘‘، اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کر رہا ہے’’ لیکن جب کوئی ابتلا اور آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے۔ اس وقت وہ مرض جو دل میں ہوتی ہے اپنا پورا اثر کر کے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 297-298۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)اُس اپنے زمانے کی جب آپ بات کر رہے ہیں، اس وقت تو تقویٰ اور نیکی کا معیار آج کی نسبت بہت بلند تھا لیکن آپ کے دل میں اُس وقت بھی ایک درد تھا۔ آج ہم اپنی حالتیں دیکھ کر خود جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہے۔ ہمارا دعویٰ کیا ہے اور ہمارے نیکی کے معیار کیا ہیں۔

پھر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ سچا مومن کون ہے آپ فرماتے ہیں ’’یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مومن اور بیعت میں داخل ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لے جیسا کہ وہ بیعت کرتے وقت کہتا ہے۔ اگر دنیا کی اغراض کو مقدم کرتا ہے تو وہ اس اقرار کو توڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ٹھہرتا ہے۔‘‘… فرمایا’’ یقیناً یاد رکھو کہ جب تک انسان کی عملی حالت درست نہ ہو زبان کچھ چیز نہیں۔ یہ نری لاف گزاف ہے… سچا ایمان وہی ہے جو دل میں داخل ہو اور اس کے اعمال کو اپنے اثر سے رنگین کر دے۔ سچا ایمان ابوبکرؓ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا کیونکہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال تو مال جان تک کو دے دیا اور اس کی پروا بھی نہ کی…۔‘‘

فرمایا’’ مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا نقش دل پر ہو جاتا ہے۔ اور کیسی بابرکت وہ قوم تھی اور آپ کی قوت قدسیہ کا کیسا قوی اثر تھا کہ اس قوم کو اس مقام تک پہنچا دیا۔ غور کر کے دیکھو کہ آپؐ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایک حالت اور وقت ان پر ایسا تھا کہ تمام محرمات ان کے لئے شیرِ مادر کی طرح تھیں‘‘، یعنی ماں کے دودھ کی طرح سب برائیاں کرنے والے تھے۔’’ چوری، شراب خوری، زنا، فسق و فجور سب کچھ تھا۔ غرض کون سا گناہ تھا جو ان میں نہ تھا۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شہادت دی اور کہا

اَللہُ اَللہُ فِیْ اَصْحَابِیْ۔

گویا بشریت کا چولہ اتار کر مظہر اللہ ہو گئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہو گئی تھی جو

یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(النحل51:)

‘‘ یعنی جو کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں اس کے مصداق بن گئے، ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہ کی بن گئی تھی۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہو گئے تھے۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ296-297۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپؑ فرماتے ہیںکہ بیعت کرنے کے بعد ایک احمدی کو کیا ہونا چاہئے اور کس طرح اس کا جماعت کے ساتھ مضبوط تعلق ہونا چاہئے اور اپنے زمانے میں آپؑ کے ساتھ اور پھر آپؑ نے فرمایا کہ میرے بعد جو خلافت کا سلسلہ شروع ہو گا اس کے ساتھ جڑے رہنا کہ وہ دائمی سلسلہ تمہارے ساتھ چلے گا۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہو کر گر جاتی ہے۔ جو شخص زندہ ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا ہر طرح مل جاتی ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہی مبارک ہے لیکن جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ ایک مردار کی طرح ہے جو کبھی سچی نصرت کا منہ نہیں دیکھتا۔ یہ بیعت اس وقت کام آ سکتی ہے جب دین کو مقدم کر لیا جاوے اور اس میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔ بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخمریزی پر ہی قناعت کرے‘‘ بیج بو دے اور کہہ دے کہ ٹھیک ہو گیا سب کچھ’’ اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے۔ نہ زمین کو درست کرے،اور نہ آبپاشی کرے، اور نہ موقعہ بہ موقعہ مناسب کھاد زمین میں ڈالے، نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے؟‘‘ یہ علاقہ بھی زراعت کا ہے۔ بہت سارے لوگ نئے آنے والے بھی جو یہاں اب آئے ہیں رفیوجی سٹیٹس (refugee status)پہ یا اسائلم لے کر وہ دیہاتوں سے بھی آئے ہوئے ہیں، ان کو بھی پتہ ہے کہ اگر بیج بونے کے بعد فصل کی صحیح نگہداشت نہ کی جائے فصل کی تواسے پھل نہیں لگتا۔ پس یہاں آنے والوں کو، نئے آنے والوں کو اس حوالے سے میں یہ بھی کہہ دوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کے حالات بہتر کئے، مذہبی آزادی دی، عبادت کا حق ادا کر سکتے ہیں اور آزادی سے اپنے مذہب کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کے لئے یہ بھی ضروری ہے اور خاص طور پر جو پاکستان سے یہاں آئے ہوئے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے پوری کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں کو استعمال کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو اپنے باغ کی یا فصل کی صحیح نگہداشت نہیں کرے گا ’’ …اس کا کھیت بالضرور تباہ اور خراب ہو گا۔ کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا۔ سو ایک طرح کی تخم ریزی آپ نے بھی آج کی ہے‘‘۔ ان لوگوں کو سمجھا رہے ہیں جو آپؑ کے سامنے موجود تھے اور آج ہم اس کے مخاطب ہیں کہ ہم نے بھی بیج بویا ہے، احمدیت کو قبول کیا ہے۔’’ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لئے دعا کرتا رہے۔ مثلاً نمازوں میں ایک قسم کی تبدیلی ہونی چاہئے‘‘۔(ملفوظات جلد 7 صفحہ 37-38۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) نمازوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔صرف یہ نہیں کہ ہم نے مسجدیں بنا لیں، مسجدیں بنا لیں تو ان کے حق ادا کرنے کی بھی کوشش چاہئے۔

پھر ایک بڑی ضروری نصیحت آپ نے جماعت کو کی ہے جو میںپیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’آجکل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے۔ قسم قسم کا شرک، بدعت اور کئی خرابیاںپیدا ہو گئی ہیں۔ بیعت کے وقت جو اقرار کیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے۔ اب چاہئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی۔ اور اگر قائم ہوگے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں برکت دے گا۔‘‘ دین میں بھی برکت دے گا، دنیا میں بھی برکت دے گا۔’’ اپنے اللہ کے منشا کے مطابق پورا تقویٰ اختیار کرو۔ زمانہ نازک ہے۔ قہرِ الٰہی نمودار ہو رہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنا لے گا وہ اپنی جان اور اپنی آل واولاد پر رحم کرے گا‘‘۔

فرمایا’’ دیکھو انسان روٹی کھاتا ہے۔ جب تک سیری کے موافق پوری مقدار نہ کھالے تو اُس کی بھوک نہیں جاتی۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 75۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

قہر الٰہی کے بارے میں بھی آپ دیکھ لیں آپؑ فرما رہے ہیں قہر الٰہی نازل ہو رہا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں باقاعدہ یہ اعداد و شمار ہیں کہ دنیا میں جتنے زلزلے اور طوفان اور آفات گزشتہ سو سال میں آئے ہیں پہلے نہیں آئے۔ یہاں بھی طوفان آتے رہتے ہیں، بارشیں بھی ہوتی ہیں اور بے شمار ہو رہی ہیں اور ہر دفعہ یہی کہا جاتا ہے کہ پانچ سو سال کی مثال ہے، اتنے سو سال کی مثال ہے یا اتنی دہائیوں کی مثال ہے،یہ کیا ہے؟ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ تو نہیں سمجھتے جو دنیا دار ہیں لیکن ہمیں سمجھنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھل کے ان باتوں کے لئے وارننگ دی ہوئی ہے، اس لئے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور دنیا کو بھی بتانا چاہئے کہ یہ آفات کوئی معمولی آفات نہیں ہیں۔ ان کی پیشگوئیاں سو سال پہلے ہو چکی ہیں اور ان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آئے۔ اب بھی اگر ہوش نہیں کیا گیا تو پھر بچنا محال ہے۔ اسی طرح انسان نے خود اپنے لئے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ جنگیں ہیں، جنگیں سہیڑی جا رہی ہیں، ایک دوسرے پر ظلم کیا جا رہا ہےاور اس کا پھر آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظلم انتہا کو پہنچ جائے گا، ہمیں تو نظر آ رہا ہے کہ انتہا ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ بڑی ڈھیل دیتا ہے۔ جب وہ ظلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہا کو پہنچ گیا تو پھر ان ظلم کرنے والی قوموں کی بھی تباہی ہے۔ اور صرف وہ لوگ ہی بچ سکتے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں فرمایا کہ

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

(درثمین اردو صفحہ 154)

پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے اپنے آپ کو بچانے کے لئے بھی، دنیا کو بچانے کے لئے بھی ہمیں کوشش کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے اپنی پوری طاقتیں اور استعدادیں استعمال کرنی ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ کو ہم کس طرح حاصل کریں۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ’’ انسان روٹی کھاتا ہے جب تک سیری کے موافق پوری مقدار نہ کھا لے…‘‘، پیٹ نہ بھر لے’’ اس کی بھوک نہیں جاتی۔ اگر وہ ایک بھورہ روٹی کا کھا لیوے‘‘، ایک ٹکڑہ چھوٹا سا لے لے، ایک ذرّہ کھا لے’’ تو کیاوہ بھوک سے نجات پائے گا؟ ہرگز نہیں۔ اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اسے ہرگز نہ بچا سکے گا بلکہ باوجود اس قطرہ کے وہ مرے گا‘‘۔ فرمایا کہ’’ حفظ جان کے واسطے وہ قدرِ محتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھا لے اور نہ پیوے نہیں بچ سکتا‘‘۔ ایک خاص مقدار ہےاورجب تک بھوکا اس حد تک نہیں کھائے گا اور پیاسا اس حد تک پانی نہیں پئے گا بچ نہیں سکتا۔ ’’یہی حال انسان کی دینداری کا ہے۔ جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو بچ نہیں سکتا۔ دینداری، تقویٰ، خدا کے احکام کی اطاعت کواس حد تک کرنا چاہئے جیسے روٹی اور پانی کو اس وقت تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بھوک اور پیاس چلی جاتی ہے۔‘‘

فرمایا’’ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی بعض باتوںکو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ اگر ایک حصہ شیطان کا ہے اور ایک اللہ کا تو اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا۔ یہ سلسلہ اس کا اسی لئے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے۔ اگرچہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے۔ جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر پھینک دیتا ہے وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی۔ جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو بیعت کچھ چیز نہیں ہے۔ جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہو گا۔ اسی طرح خدا کا معاملہ ہے۔ وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے۔ کیا ہو سکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو؟ اس کا نام تو نفاق ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اس مرحلے میں زید و بکر کی پرواہ نہ کرے۔ مرتے دم تک اس پر قائم رہو‘‘۔ یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد پر۔

فرمایا’’ بدی کی دو قسمیں ہیں ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا، اس کی عظمت کو نہ جاننا، اس کی عبادت اور اطاعت میں کسل کرنا دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا، ان کے حقوق ادانہ کرنے۔ اب چاہئے کہ دونو قسم کی خرابی نہ کرو، خدا کی اطاعت پر قائم رہو۔ جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو۔ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو۔ قرآن کو بہت غور سے پڑھو۔ اس پر عمل کرو۔ ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو۔ پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو غرضکہ کوئی ایسا حکم الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو۔ بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بے جا کینے، بغض و حسد سے پاک کرو۔ یہ باتیں ہیں جو خدا تم سے چاہتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 75-76۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بنیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد پورا کرنے والے ہوں۔ آپ علیہ السلام کے ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں اور جو شرائط بیعت میں دسویں شرط ہے اطاعت بالمعروف کیآپ ؑکی اطاعت کی اس کا حقیقی مفہوم سمجھتے ہوئے اطاعت کے اس معیار کو پہنچنے والے ہوںتاکہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button