خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍اگست2018ء

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم ایک اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق پا رہے ہیں۔ سب کو جلسہ کے ان تین دنوں میں جلسہ کے روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جلسہ کے پروگراموں کو خاموشی اور توجہ سے سننا چاہئے تبھی جلسہ میں شامل ہونے کا فائدہ ہو گا۔ تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلسہ کے انعقاد کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔

کارکنان کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کا رویّہ جیسا بھی ہو کام کرنے والوں نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ہے۔

یہ بالکل صحیح ہے کہ احمدی چاہے مہمان ہو یا میزبان اسے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن جنہوں نے اپنے آپ کو جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے انہیں زیادہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ کارکنان خاص طور پر اس بات کو لازمی بنائیں کہ جیسا بھی کسی دوسرے کا سلوک ہو ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہنی چاہئے۔

جلسہ کے انتظامی کاموں کے کرنے کے لئے باقاعدہ ایک نظام ہے۔ مختلف شعبہ جات ہیں جو اس کے کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اگر کسی مہمان کو کسی ایک شعبہ میں کمی نظر آتی ہے یا جس طرح اس کا خیال ہے کہ اس کی مہمان نوازی ہونی چاہئے یا اس کا خیال ہے کہ اس کا حق ہے کہ اس کی مہمان نوازی اس طرح ہو اور وہ نہیں ہو رہی تو بجائے کارکنوں سے الجھنے کے صرف شعبہ کے انچارج کو لکھ دیں۔

شاملین جلسہ کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام کا ایک حسن خلق یہ بھی ہے کہ مومن بیکار اور فضول باتوں کو چھوڑ دے اور یہ جلسہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالص للّہی جلسہ قرار دیا ہے اس میںتو ہر قسم کی فضول باتوں اور وقت کے ضائع ہونے سے پرہیز کرنا چاہئے یا وقت کے ضائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے

تربیت کے لحاظ سے اور دین سے جوڑنے کے تعلق میں سب سے اہم بات عبادت ہے اور اس کے لئے ہم پر پنجوقتہ نمازیں فرض کی گئی ہیں۔

حفاظتی نقطۂ نظر سے جلسہ گاہ کے اندر بھی اور باہر بھی اپنے ماحول پر نظر رکھیں۔

جلسہ سالانہ کی مناسبت سے میزبانوں اور مہمانوں کو نہایت اہم نصائح

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03؍ اگست 2018ء بمطابق03؍ظہور 1397 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن(Alton)، یُوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم ایک اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق پا رہے ہیں۔ بعض لوگ پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو سفر اور ویزے کی سہولت ہے اور وہ سالہا سال سے جلسہ میں شامل ہوتے آ رہے ہیں۔ یُوکے کے رہنے والے ایسے بھی ہیں جو پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ تھوڑا عرصہ ہوا ہے انہیں یہاں آئے، یہاں آ کر سیٹل ہوئے یا بعض بچے ہیں جو اپنے ہوش و حواس میں پہلی دفعہ جلسہ کے ماحول سے فائدہ اٹھانے والے ہوں گے۔ پس سب کو جلسہ کے ان تین دنوں میں جلسہ کے روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جلسہ کے پروگراموں کو خاموشی اور توجہ سے سننا چاہئے تبھی جلسہ میں شامل ہونے کا فائدہ ہو گا۔ تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلسہ کے انعقاد کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ جلسہ کے سب انتظامات یا تقریباً نوّے فیصد خاص طور پہ جو جلسہ کے دنوں کے انتظامات ہیں افراد جماعت رضاکارانہ طور پر کر رہے ہوتےہیں۔ اس لئے بعض کاموں میں کمیاں اور کمزوریاں بھی رہ جاتی ہیں۔ لیکن ان کمیوں اور کمزوریوں کو ہم سب شامل ہونے والوں نے ٹھیک کرنا ہے اور دُور کرنا ہے۔ جہاں کارکنان اپنے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے وہاں مہمان بھی، شامل ہونے والے بھی ان کمیوں اور کمزوریوں سے صَرفِ نظر کریں اور جہاں کہیں کارکنوں کی مدد کی ضرورت ہو خود بڑھ کر ان کی مدد کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اِکائی ہم میں تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب ہم ایک دوسرے کے بوجھ اٹھانے والے ہوں اور اگر مدد کی ضرورت ہو تو مدد کرنے کی کوشش کریں۔ پس اس بنیادی بات کو مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو یاد رکھنا چاہئے۔

عموماً مَیںکارکنان اور میزبانوں کی ذمہ داریوں اور فرائض کے بارے میں جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے خطبہ میں ذکر کیا کرتا ہوں اور مہمانوں کو ان کے فرائض کے بارے میں جلسہ والے دن کے خطبہ میں کچھ باتیں کہتا ہوں۔ ہمارے جلسوں کی بلکہ ہمارے جماعتی نظام کی یہی خوبی ہے یا ہم آپس میں پیار و محبت سے تبھی رہ سکتے ہیں جب ہر ایک اپنے حقوق و فرائض کو احسن رنگ میں سرانجام دینے والا ہو اور اس کو سمجھنے والا ہو۔ بہرحال آج میں دونوں کو ہی چند باتیں کہوں گا اور ان کی طرف توجہ دلاؤں گا۔

کارکنان کو میں نے گزشہ خطبہ میں تو کچھ نہیں کہا تھا لیکن گزشتہ اتوار کو جو جلسہ کے انتظامات کا معائنہ ہوتا ہے اس میں توجہ دلا دی تھی کہ ان کے رویّے کیسے ہونے چاہئیں اور کس طرح انہوں نے کام کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبے عرصہ سے یہ کارکنان یایہ کہنا چاہئے کہ ان میں سے اکثر ڈیوٹیاں دیتے آ رہے ہیں۔ اس لئے جہاں تک کام سمجھنے اور کام عمدہ رنگ میں کرنے کا سوال ہے یہاں کے کارکنان اب کافی تربیت یافتہ ہو گئے ہیں اور ہر سال نئے شامل ہونے والے کارکنوں اور بچوں اور نوجوانوں کو بھی پہلے کام کرنے والے اور اسی طرح افسران اپنے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تربیت کرتے ہیں یا تربیت دیتے ہیں۔ لیکن بعض باتوں کی جو زیادہ توجہ طلب ہیں یاددہانی بھی کروانی پڑتی ہے سو اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا میں مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو چند باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔

سب سے پہلی بات کارکنوں کے لئے یہ ہے کہ انہوں نے اُن لوگوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جاری کردہ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری کردہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں۔ اور کسی دنیاوی میلے میں شامل ہونے کے لئے نہیں آئے بلکہ اپنے روحانی، علمی اور اخلاقی معیاروں میں بہتری کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ اور مَیںا مید کرتا ہوں کہ یہی سوچ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کی ہے اور ہونی چاہئے ورنہ ان کا جلسہ میں شامل ہونا بے مقصد ہے۔ بہرحال کارکنان کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کا رویّہ جیسا بھی ہو کام کرنے والوں نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ہے۔ اگر کبھی مہمان یا شامل ہونے والا کوئی فرد بھی غلط رویّہ بھی اپنائے تو کارکن کا کام ہے کہ اپنے جذبات پر کنٹرول رکھے اور اُسی طرح اور اُسی رویّے سے اسے جواب نہ دے۔ جب ہر کارکن نے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی خاطر ہی بعض مہمانوں کے غلط رویّے بھی برداشت کرنے پڑیں تو برداشت کریں تبھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ ہم جس نبی کے ماننے والے ہیں اس کا اُسوہ حسنہ مہمانوں کے لئے کیا تھا؟ کبھی کبھی آنے والے مہمان نہیں کہ سال میں ایک دفعہ جلسہ کے لئے آئے بلکہ وہ لوگ جو شہر میں رہنے والے تھے، روزانہ ملنے والے تھے، ان کو اگر کبھی ان کی غربت کی حالت کی وجہ سے کھانے پر بلایا یا ویسے کھانے پر بلایا اور وہ لمبا عرصہ آ کر بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گئے اور آپ کے آرام اور آپ کے کام میں مخل ہوئے تو انہیں کبھی نہیں کہتے تھے کہ وقت سے پہلے نہ آؤ مَیں مصروف ہوں اور کھانا کھا کر جلدی چلے جاؤ کہ تمہارے بیٹھے رہنے کی وجہ سے میں اپنے بعض کام نہیں کر سکتا۔ یہ لوگوں کی حالت دیکھ کر اور آپ کامہمانوں کو برداشت کرنے کا صبر اور حوصلہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فرمایا کہ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ (الاحزاب54:)۔ کہ وہ تمہارے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے تمہیں منع کرنے سے حیا کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات کہنے میں کوئی روک نہیں۔ پس لمبا عرصہ بلا وجہ نبی کے گھر میں بیٹھ کر اسے تکلیف نہ دو۔ پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین اُسوہ کا ذکر فرما دیا۔ اخلاق کے اعلیٰ ترین ہونے کا ذکر فرما دیا۔ تو دوسری طرف مہمانوں کو بھی خاص طور پر حکم دیا کہ مہمان بن کر اپنے حق سے تجاوز نہ کرو۔ مہمان کی جو حدود و قیود ہیں ان کے اندر رہنے کی ضرورت ہے۔ اور مہمانوں کو بھی اپنے مہمان ہونے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔

پھر غیروں کے ساتھ مہمان نوازی کے معیار کا مقام تھا اور بلند حوصلگی کا ایک ایسا معیار کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، حیران رہ جاتا ہے۔ اس کی مثال ہم دیکھتے ہیں جب ایک غیر مسلم مہمان بن کے آتا ہے۔ آپ اس کی خاطر مدارات بھی کرتے ہیں اور صبح اٹھ کر جاتے ہوئے وہ بستر گندہ کر کے چلا جاتاہے تو آپ خود اسے دھوتے ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم عرض کرتے ہیں کہ ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں۔ ہم حاضر ہیں۔ حضور کیوں تکلیف کر رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ میرا مہمان تھا اس لئے میں ہی اس کا گند دھوؤں گا۔(ماخوذ از مثنوی مولوی معنوی دفتر پنجم صفحہ 20 تا 24 مترجم قاضی سجاد حسین الفیصل ناشران لاہور 2006ء) پس یہ وہ اعلیٰ ترین اُسوہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمارے جلسہ پر اپنے بھی آتے ہیں غیر بھی آتے ہیںا ور سب آنے والے اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔ یا دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں یا اسلام اور احمدیت کے بارے میں معلومات لینے آتے ہیں۔ بشری کمزوریاں تو ہر ایک میں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی جائے، کسی سے زیادتی ہو بھی جائے، تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ لوگ بداخلاق ہیں یا ان کی نیتیں نیک نہیں ہیں۔ یہ بشری کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے بعض دفعہ اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔ اگر ہو بھی جائے تو برداشت کرنا چاہئے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ احمدی چاہے مہمان ہو یا میزبان اسے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن جنہوں نے اپنے آپ کو جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے انہیں زیادہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر کارکنوں کی طرف سے صبر اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ ہو گا تو دوسرا خود ہی شرمندہ ہو جائے گا۔ پس ہر ڈیوٹی دینے والا ہر شعبہ میں جہاں وہ ڈیوٹی دے رہا ہے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے اور اسے ان دنوں میںایک بہت بڑا چیلنج سمجھ کر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے۔قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(البقرۃ84:)۔ کہ لوگوں سے اچھی اور نرم بات کیا کرو۔ نرمی سے بات کرو۔ اچھی طرح بات کرو۔ یہ وہ بنیادی چیز ہے جو جھگڑوں کو ختم کرنے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کے لئے ضروری ہے۔ یہ اصول صرف خاص موقعوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے اور جب انسان کو اس کی عادت پڑ جائے تو رنجشیں اور زیادتیاں کبھی ہو ہی نہیں سکتیں۔ پس میزبانوں اور مہمانوں کو یہاں بھی اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھنا چاہئے اور خاص طور پر ان دنوں میں تو ضرور اس پر عمل کریں کہ اس ماحول کو خاص طور پر سب نے مل کر خوشگوار بنانا ہے تا کہ جس مقصد کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں وہ پورا ہو۔ اور وہ ہے اپنی اخلاقی اور روحانی حالت بہتر کرنا۔ اور یہی اخلاق یہاںآنے والے غیر لوگوں کو بھی اسلام کے اعلیٰ خُلق بتانے کا ذریعہ بنیں گے۔ ایک خاموش تبلیغ ہے۔ مہمان بھی اور کارکنان بھی یہ خاموش تبلیغ کر رہے ہوں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میزان میں حسن خلق سے زیادہ وزن رکھنے والی کوئی چیز نہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ اچھے اخلاق کا مالک نماز روزے کے پابند کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔(سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی حسن الخلق حدیث 4798-4799) یعنی نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔ اور خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نیکیوں کی توفیق ملتی ہے تو پھر اس کی عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی توفیق ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر رہا ہوں اور یہی شکرگزاری عبادت کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ گویا ایک نیکی اعلیٰ معیار کی نیکیاں کرنے کی توفیق عطا کرتی چلی جاتی ہے۔ ایک نیکی پھر کئی نیکیوں کے بچے دیتی چلی جاتی ہے۔
پس کارکنان خاص طور پر اس بات کو لازمی بنائیں کہ جیسا بھی کسی دوسرے کا سلوک ہو ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہنی چاہئے۔ اس ظاہری حالت کا اثر پھر دل پر بھی ہوتا ہے اور دل میں بھی کوئی سختی پیدا نہیں ہو گی اور جب دل میں بلا وجہ کی سختی پیدا نہیں ہو گی تو غلط فیصلے بھی نہیں ہوں گے جو بعض دفعہ جوش اور غصہ میں ہو جاتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خُلق کے اعلیٰ ترین معیار کو بیان کرتے ہوئے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہنستا مسکراہتا چہرہ کسی کا نہیں دیکھا۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب قول ابن جزء ما رأیت احدا اکثر تبسماً حدیث 3641)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ نرمی کرو کیونکہ جو نرمی سے محروم کیا گیا وہ خیر سے بھی محروم کیا گیا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل الرفق حدیث 6598)

اب اس بات کو اگر کارکنان اور شامل ہونے والے سب سمجھ لیں تو اس ماحول کی برکات کی وجہ سے خیرو برکت سے جھولیاں بھرنے والے بن جائیں گے۔ کارکنان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مہمان کی دلی طور پر خدمت کرتے ہیں۔ لیکن اگر پھر بھی کسی کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ فلاں شخص کو زیادہ پوچھا جا رہا ہے اور مجھے کم تو اس خیال کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یعنی اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے تو کارکنان اس خیال کو دور کریں۔ لیکن ساتھ ہی میں شاملین جلسہ سے بھی کہوں گا کہ جلسہ کے اتنے وسیع انتظامات اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا رضا کاروں کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی ہمارے ملازم نہیں ہیں۔ بعض بہت اچھے عہدوں پر فائز ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے ایک جذبے سے سرشار ہو کر خدمت کر رہے ہیں۔ اسی طرح نوجوان ہیں جو سیکنڈری سکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ لڑکیاں بھی ہیں، لڑکے بھی ہیں۔ اسی طرح بچے بھی ہیں۔ یہ سب ایک جذبے سے خدمت کرتے ہیں۔ اس لئے اگر کہیں چھوٹی موٹی کمیاں اور کمزوریاں دیکھیں بھی تو صَرفِ نظر کریں اور ایک مقصد سامنے رکھیں کہ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی باتیں سننے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اور جب یہ مقصد سامنے ہو گا تو کسی قسم کے شکوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جلسہ کے انتظامی کاموں کے کرنے کے لئے باقاعدہ ایک نظام ہے۔ مختلف شعبہ جات ہیں جو اس کے کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اگر کسی مہمان کو کسی ایک شعبہ میں کمی نظر آتی ہے یا جس طرح اس کا خیال ہے کہ اس کی مہمان نوازی ہونی چاہئے یا اس کا خیال ہے کہ اس کا حق ہے کہ اس کی مہمان نوازی اس طرح ہو اور وہ نہیں ہو رہی تو بجائے کارکنوں سے الجھنے کے صرف شعبہ کے انچارج کو لکھ دیں۔ اس سال اگر کمی کو نہ بھی دور کیا جا سکا تو اگلے سال کے لئے خیال رکھا جائے گا اور ہمارے جماعتی نظام کی یہی خوبی ہے اور ہونی چاہئے کہ جن جن کمزوریوں کی نشاندہی ہو انہیں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا کوشش کی جائے۔

مہمان نوازی کا ایک اہم شعبہ کھانا پکانے کاہے۔ جلسے کے دنوں میں لنگر کے مخصوص کھانے ہیں اور وہی پکائے جاتے ہیں فی الحال دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں یا کم از کم ان جگہوں پر جہاں پاکستانی اور ہندوستانی احباب کی اکثریت ہے۔ سوائے کچھ کھانے ایسے ہیں جو غیر ملکیوں کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔ غیر ملکی سے مراد میری غیر پاکستانی یا غیر ہندوستانی ہے۔ اس میں اکثر شامل ہونے والے جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستانی یا ہندوستانی ریجن کے لوگ ہیں اس لئے یہ مخصوص کھانا آلو گوشت اور دال لنگر میں پکتا ہے اور روٹی۔ لیکن پکانے والے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ٹھیک ہے کھانا تو ہم نے اپنی مرضی کا کھلانا ہے ان کو لیکن پکانے والے اس بات کا بہرحال خیال رکھیںکہ کھانا اچھی طرح پکا ہو۔ خاص طور پر گوشت اچھی طرح پکا ہو۔ مجھے پتہ چلا کہ کل گوشت اچھی طرح گلا نہیں ہوا تھا۔ کل تھوڑے مہمان تھے اس لئے کوئی زیادہ شکایت نہیں آئی ہو گی۔ لیکن اگر آج بھی وہی حال ہے تو پھر انتظامیہ کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ اگر گوشت کی کوالٹی اچھی نہیں تھی تو انتظامیہ کو فوری طور پر اس بات کی کارروائی کرنی چاہئے کہ اچھی کوالٹی کا گوشت ملے۔ مجھے امید ہے کہ مہمان تو اس بات پر انشاء اللہ شکایت نہیں کریں گے لیکن اگر شکایت کریں تو پھر وہ ان کی جائز شکایت ہوگی۔ لیکن شکایت غصہ سے بھر کر نہ کریں بلکہ پیار سے انتظامیہ کو توجہ دلا دیں کہ یہ کمی ہے اس کو پورا کریں۔ اس طرح کھانا بھی ضائع ہوتا ہے اور رزق کو بھی ہمیں حفاظت کرنے کا حکم ہے ۔

پھر شاملین جلسہ کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام کا ایک حسن خلق یہ بھی ہے کہ مومن بیکار اور فضول باتوں کو چھوڑ دے(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث 3976) اور یہ جلسہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالص للّہی جلسہ قرار دیا ہے اس میںتو ہر قسم کی فضول باتوں اور وقت کے ضائع ہونے سے پرہیز کرنا چاہئے یا وقت کے ضائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور جلسہ کے پروگراموں کو غور سے سنیں۔ مقررین آپ کی پسند کے ہیں یا نہیں لیکن تقریروں کے عنوان بہرحال ایسے رکھے جاتے ہیں جو ہر ایک کے لئے فائدہ مند ہوں اور ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوتی ہے جو کسی نہ کسی کے دل پر اثر کرتی ہے۔ اس لئے غور سے سنیں تو اثر بھی ہو گا۔ سوائے اشد مجبوری کے جلسہ گاہ سے اٹھ کر نہ جائیں۔ اور جس طرح اس وقت حاضری ہے جلسہ کے دوران بھی ہر پروگرام میں ایسی حاضری ہونی چاہئے تا کہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی جلسہ کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ بھی اپنے آپ کو دین کے ساتھ جوڑیں اور اس کے لئے کوشش کریں۔ آجکل کے دنیا داری کے ماحول میں بچوں اور نوجوانوں کو دین کی اہمیت کا احساس دلانا اور اس کے ساتھ جوڑنا والدین کا بہت بڑا اور اہم کام ہے اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ ہر ماں اور ہر باپ کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

تربیت کے لحاظ سے اور دین سے جوڑنے کے تعلق میں سب سے اہم بات عبادت ہے اور اس کے لئے ہم پر پنجوقتہ نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ جلسہ کے پروگراموں اور مسافروں کی وجہ سے جو بہت سارے لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں، ہم نمازیں آجکل جمع کر رہے ہیں۔ تو ان کی بھی پابندی کرنی ضروری ہے۔ خود بھی پابندی کریں اور بچوںکو بھی نمازوں کے اوقات میں اگر یہاں حدیقۃ المہدی میں ہیں تو ضرور لائیں اور فجر کی نماز اور مغرب اور عشاء کی نماز کے وقت اگر یہاں نہیں ہیں اور اپنے گھروں میںچلے گئے ہیں تو وہاں پھر قریب ترین سینٹر یا مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جائیں اور گھر دُور ہیں مسجد سے یا سینٹر سے تو گھروں میں بھی باجماعت نمازوں کا انتظام اور اہتمام ہونا چاہئے۔ اسی طرح کارکنان بھی جو نمازوں کے اوقات میںفارغ ہیں یہاں آ کر باجماعت نماز ادا کریں اور جو ڈیوٹی پر ہیں وہ ڈیوٹی ختم کر کے سب سے پہلے نماز ادا کریں۔ ڈیوٹی لگانے والی انتظامیہ یا انچارج جو ہیں ان کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ڈیوٹی بھی نمازوں کے اوقات کو سامنے رکھ کر لگائی جائے۔ یہ نہ ہو کہ ڈیوٹی کی وجہ سے نماز کا وقت چلا جائے۔ ایسی شفٹ ہونی چاہئے کہ بہرحال ایک شفٹ اور دوسری شفٹ کو نماز پڑھنے کا موقع مل جائے۔ اگر ہماری نمازوں پر توجہ نہیں تو ہمارے سب کام بیکار ہیں۔

انتظامی لحاظ سے بعض مزید باتیں بھی کہنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ اپنی گاڑیوں پر آتے ہیں وہ انتظامیہ سے تعاون کریں اور جہاں اورجس طرح گاڑی پارک کرنے کے لئے کہا جائے اسی طرح کریں۔ پارکنگ میں بعض دفعہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بعض ضد کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی پارکنگ کرنے کے لئے کارکنوں سے الجھ بھی پڑتے ہیں اس سے انتظام خراب ہوتا ہے اور بعض دفعہ یہ باتیں رِسک (Risk) کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ بعض پریشانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں یا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں جلسہ گاہ کے علاوہ جو مسجد فضل میں نماز پڑھنے آتے ہیں اس بارے میں کارکنوں کو تو میں نے اتوار کو اس طرف توجہ دلا دی تھی کہ وہ ڈیوٹیاں دیں لیکن جو یہاں آنے والے شاملین ہیں اور جو مہمان ہیں جو اس علاقے میں جا کر نماز پڑھیں گے ان کو بھی یہی یاد رکھنا چاہئے کہ جو مسجد فضل میں نماز پڑھنے آتے ہیں وہ بھی اپنی کاریں ایسی جگہ کھڑی کریں جہاں ہمسایوں کے راستے نہ رکیں، ان کے گھروں کے راستے نہ رکیں اور انہیں تکلیف نہ ہو۔ اتوار کو میں نے کارکنوں کو بھی کہا تھا کہ ہمارے ہمسائے یہ شکایت کرتے ہیں کہ تم لوگ اپنی کاریں ہمارے گھروں کے سامنے اس طرح کھڑی کرتے ہو کہ ہمارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ نہ ہم اپنی کار باہر نکال سکتے ہیں نہ گھر کے اندر لا سکتے ہیں۔ بعض نے تو اس حد تک اظہار کیا جن کے تعلقات ہیں سال کے سال یا عیدوں پے تحفہ دینے جاتے ہیں یا جلسہ کے دنوں میں رابطہ کے لئے جاتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ خلافت ہماری رہنمائی کرتی ہے اور تم خلافت کی بڑی باتیں کرتے ہو کہ ہم کہا مانتے ہیں۔ یا تو تمہارا خلیفہ جو ہے وہ ہمسائے کے حق کے بارے میں تمہیں بتاتا نہیں یا تم اس کی بات نہیں مانتے۔ یہ ایسی بات ہے جو ہر ایک کے لئے قابل شرم ہے جو غیر ہمارے بارے میں اظہار کر رہا ہے۔ مجھے تو بہرحال اس بات نے بہت شرمندہ کیا اور بات ان کی جائز ہے، صحیح ہے۔ اگر ہم روکتے ہیں تو یہی دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ پس اس طرف خاص توجہ دیں۔ خاص طور پر اس کا خیال رکھیں۔ بیشک اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال لیں لیکن ہمسائے کا راستہ کبھی بند نہ کریں، اس کو تکلیف میں نہ ڈالیں۔ اسلام جتنا ہمسائے کے حقوق کے قائم کرنے کی تلقین کرتا ہے کوئی اور دین اس طرح کھل کر اس کی تلقین نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اگر ہم میں سے بعض اس پر عمل نہیں کرتے تو قابل شرم ہے اور وہ گناہگار ہیں خاص طور پر ان لوگوں کو میں کہتا ہوں جو لندن سے باہر سے آنے والے ہیں اور یورپ سے آنے والے ہیں، جرمنی وغیرہ سے اپنی کاروں پر آتے ہیں وہ اس بات کا خیال خاص طور پر رکھیں۔ بعض ایسے ہیں جو خیال نہیں رکھتے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ڈیوٹی پر کھڑے بعض نوجوان جب ان کو توجہ دلائیں تو وہ ان سے بھی نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں اور غلط طور پر بات کرتے ہیں۔ ایک تو غلط پارکنگ کا جرم کر رہے ہیں، ہمسائے کے حق کی حق تلفی کا جرم کر رہے ہیں پھر اس رویّے سے بچوں اور نوجوانوں کے دلوں میں بھی بڑوں کا ادب اور احترام ختم کر رہے ہیں۔ پھر وہ بچے بھی اسی طرح بولیں گے۔ پھر بدتمیزی بھی ہو جائے گی تو کیوں ان کو ابتلا اور امتحان میں ڈالتے ہیں۔ پس ایسے رویے دکھانے والوں کو جلسے پر خرچ کر کے اور سفر کر کے آنا بے فائدہ ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ نہ آئیں اور نہ صرف انہیں نقصان پہنچا رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے بلکہ بچوں کی تربیت کو بھی خراب کر رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ پس آئندہ سے اس بات کا خاص خیال رکھیں۔
انتظامی لحاظ سے شعبہ نظافت اور صفائی بھی ہے اس طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ یاددہانی کرواتا ہوں نظافت اور صفائی ایمان کا حصہ بھی ہے اس لئے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ مہمان بھی جب غسل خانے استعمال کرتے ہیں، ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں تو صاف اور خشک کر کے آیا کریں۔ بعض شکایات ملتی ہیں کہ اتنا پانی ہوتا ہے کہ دوسرا آدمی دوبارہ اس میں جا نہیں سکتا۔ کارکنوں کا بھی یہ کام ہے لیکن صرف کارکنوں پر یہ نہ چھوڑیں خود بھی اس بارے میں ان کی مدد کر دیا کریں۔ اسی طرح سڑکوں اورراستوں پر اگر گلاس وغیرہ یا کھلے میدان میںگلاس وغیرہ یا ٹن وغیرہ یا کوئی چیز نظر آئے لفافے وغیرہ گرے ہوئے تو ان کو اٹھا کر ڈسٹ بِن میںڈال دیا کریں۔ آجکل ایک اور بات ضروری ہے کرنے والی کہ آجکل بارش نہ ہونے کی وجہ سے گھاس بہت زیادہ خشک ہو گیا ہے جس کو آگ لگنے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ گواسے کاٹ کر اور دوسرا انتظام کر کے محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن پھر بھی کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اس لئے احتیاط کرنی چاہئے۔ اس لئے ڈیوٹی والے بھی اور مہمان بھی اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کوئی آگ والی چیز اور چنگاری وغیرہ زمین پر نہ پھینکیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے اور حقیقت بیان کر دینی چاہئے تا کہ نقائص دور ہوں۔ اگر کسی کو سگریٹ پینے کی عادت ہے تو اسے ویسے بھی ان دنوں میں حدیقۃ المہدی کی حدود سے باہر جا کر سگریٹ پینا چاہئے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ میں سگریٹ پینے کی اجازت دے رہا ہوں اور برا نہیں سمجھتا۔ بہرحال یہ ایک برائی ہے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس کو دور کریں اور اس سے بچیں۔ اس بارے میں مَیں خطبات بھی دے چکا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے حرام تو نہیں قرار دیا لیکن اسے پسند بھی نہیں فرمایا بلکہ بعض مواقع پر ناپسندیدگی کا اظہار کیااور اس سے پرہیز کرنے کی تلقین فرمائی(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 235) اور جو نوجوان اس میں نشہ آور چیزیں ڈال دیتے ہیں، بعض کو غلط سوسائٹی میںعادت ہوتی ہے وہ تو بہرحال غلط ہے اور منع ہے اور گناہ ہے۔

پھر حفاظتی نقطۂ نظر سے جلسہ گاہ کے اندر بھی اور باہر بھی اپنے ماحول پر نظر رکھیں۔ کوئی شرارتی عنصر کوئی شرارت کر سکتا ہے اس بات پہ نظر رکھنی چاہئے۔ کوئی بھی مشکوک چیز دیکھیں یا کسی کی مشکوک حرکات دیکھیں تو فوراً انتظامیہ کو قریب ترین کھڑے ڈیوٹی والے کو اطلاع دے دیں۔ عورتیں بھی اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کوئی عورت منہ ڈھانپ کر یا نقاب لے کر جلسہ گاہ میں نہ آئے اور گیٹ پر سکیننگ وغیرہ بھی صحیح رنگ میں ہو۔ ان کے چہرے دیکھیں اور جلسہ گاہ کے اندر بھی منہ ننگے ہونے چاہئیں اور سکیننگ کے لئے خاص انتظام کی وجہ سے اگر مہمانوں کو دیر لگتی ہے کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے اس کی تکلیف اگر ہے تو وہ تکلیف برداشت کریں۔ احتیاط اور سکیورٹی بہرحال زیادہ ضروری ہے۔
عورتوں کی طرف سے بعض دفعہ یہ بھی شکایت آتی ہے کہ بچوں کی مارکی میں تو کم شور مچاتے ہیں اور بچوں والی مائیں انہیں تو کوئی نہ کوئی چیز دے کر بہلا دیتی ہیں یا بچے کھیل رہے ہوتے ہیں یا کسی چیز کے کھانے میں مشغول ہوتے ہیں اور خاموشی سے کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن ان کو چپ کرا کر مائیں سمجھتی ہیں کہ اب ہمارا شور کرنا ضروری ہے اس لئے وہ آپس میں باتیں شروع کر دیتی ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی ہے کہ جلسہ کی تقریروں کے دوران باتیں کر رہی ہوتی ہیں اور ایک شور پڑا ہوتا ہے اور جو مائیں ایسی ہیں جو خاموشی سے سننا چاہتی ہیں ان کو بھی سننے نہیں دیتیں تو لجنہ اور وہاں کی ڈیوٹی والیاں اس بات کا خاص خیال رکھیں۔ بچوں کی مارکی میں بھی بچوں کا شور تو برداشت ہو سکتا ہے ماؤں کا شور نہیں۔ اسی طرح عورتوں کی طرف سے یہ بھی شکایت ہے کہ بعض دفعہ بعض عورتیں مین مارکی میں بھی تقریروں کے دوران بلاوجہ بولتی رہتی ہیں اور چپ کرانے والی لڑکیوں سے غلط رنگ میں بات کرتی ہیں اور غلط جواب ان کو دیتی ہیں جو کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ سب کو جلسہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان تمام باتوں اور ہدایات پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے جو ابھی میں نے دی ہیں یا آپ کے پروگراموں میں جو لکھی گئی ہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ ان تمام ہدایات پر حاوی ایک بات ہے جو ہر ایک کے لئے فرض ہے اور انتہائی ضروری ہے اور وہ ہے دعا جو جلسہ کی کامیابی کے لئے خاص طور پر دعا کریں اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہم سب وہ فیض پانے والے ہوں جس کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔

اسی طرح یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ریویو آف ریلیجنز کے تحت ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ٹیورن شراؤڈ پر نمائش ان کی مارکی میں لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح اسی جگہ ساتھ ہی القلم پراجیکٹ بھی ہے۔ اسی طرح شعبہ آرکائیو کے تحت بھی نمائش لگی ہوئی ہے وہ بھی دیکھنے والی چیز ہو گی، معلومات میں اضافے کے لئے ہو گی۔ اسی طرح اس مرتبہ شعبہ تبلیغ یُوکے نے قرآن کریم پر بھی ایک نمائش کا اہتمام کیا ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی لوگوں کے لئے معلوماتی ہو گی اسے بھی دیکھیں۔ اسی طرح آج دو ویب سائٹس True Islam اورRational Religion بھی launch ہوں گی۔ شعبہ تبلیغ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر آن لائن تقریری مقابلہ بھی رکھا ہوا ہے اس میں بھی لوگ شامل ہو رہے ہیںیہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ آج جلسہ سے انہوں نے اسے شروع کیا ہے۔ بہرحال یہ ان دنوں کے روٹین کے جو جلسہ گاہ میں پروگرام ہوتے ہیں ان سے زائد باتیں اور پروگرام ہیں۔ ان نمائشوں اور پروگراموں سے بھی لوگوں کو استفادہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے حصہ لینے والا بنائے۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button