الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

’’عشق الٰہی وسے منہ پرولیاں ایہہ نشانی ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرے پر تقدّس اور انوار آسمانی کے نشانات نمایاںتھے۔ چنانچہ ’’تذکرہ‘‘ میں مذکور ایک پنجابی الہام’’عشق الٰہی وسے منہ پرولیاں ایہہ نشانی ‘‘ کے زیرعنوان ایک تفصیلی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اکتوبر 2012ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرۂ مبارک کی زیارت کرنے والا بے اختیار پکار اٹھتا تھا کہ یہ شکل کسی جھوٹے کی نہیں۔ آپ کے مقدس چہرہ پر انوارِ روحانی کی بارش کا وہ سماں تھا کہ ہر دیکھنے والا اس کے سحر میں گم ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دُور و نزدیک سے اور دیاروامصار سے پروانے اس شمع پر فدا ہونے کے لئے بے اختیار لپکے پڑتے تھے اور غیر کوشش کرتے تھے کہ کوئی شخص قادیان پہنچ کر اس مبارک چہرہ کو دیکھ نہ پائے۔

٭… حضرت شکر الٰہی صاحب احمدیؓ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار ابھی بارہ تیرہ سال کا بچہ تھا تو گورداسپور میں پرائمری میں پڑھتا تھا۔ دین سے بالکل بے بہرہ تھا۔ اس وقت ایک مقدمہ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ اپنے صحابہ کے ساتھ وہاں رونق افروز ہوا کرتے تھے تو خاکسار مدرسہ چھوڑ کر آپؑ کی رہائشگاہ کے پاس کھڑا رہتا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا رہتا تھا۔ اس بات پہ مجھے حیرت تھی کہ ایسے ایک عاشق صادق تھے کہ ان کے دائیں ہاتھ میں بڑا پنکھا پکڑا ہوا ہوتا تھا اور بڑے زور سے ہلاتے رہتے تھے (دیر تک کھڑا اُن کو دیکھتا رہتا اور حیران ہوتا کہ ہاتھ تھکتے نہیں ہیں) ۔ سارا دن یہی سلسلہ جاری رہتا۔

٭… حضرت مدد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا تو میری اس وقت یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے مَیں قادیان جاؤں تا حضورؑ کے چہرہ مبارک کا دیدا رحاصل کرسکوں اور آپؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں کیونکہ میری بیعت 1895ء یا 1896ء کی بذریعہ ڈاک ہوئی تھی اور میرا قادیان میں آنے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضورؑ کو دیکھنے کا شاید موقعہ ملے یا نہ ملے۔ لیکن جونہی یہاں آکر مَیں نے حضورؑ کے چہرہؑ مبارک کا دیدارکیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی مَیں آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہر گز نہ جاؤں۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہوگیا یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا میرے دل میں بس یہی ایک خیا ل پیدا ہوگیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار روپیہ بھی ہوگئی تو کیا ہوگا لیکن تجھ کو یہ نورانی اور مبارک چہرہ ہرگز نظر نہ آئے گا ۔ میں نے اس خیال پر قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کرلیا۔

٭… حضرت میاں وزیر محمد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قادیان آیا تو بیمار تھا۔ یہاں آکر تندرست ہوگیا۔ پہلے میری یہ حالت تھی کہ چند لقمے کھاتا تھا اور وہ بھی ہضم نہ ہوتے تھے مگر یہاں آکر دو روٹی ایک رات میں کھالیتا تھا۔ پھر واپس امرتسر گیا تو وہی حالت ہوگئی۔

پہلی دفعہ جو حضرت صاحب کی زیارت ہوئی تو مسجد مبارک کے ساتھ کے چھوٹے کمرہ میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت اقدسؑ اندر سے تشریف لائے جونہی حضورؑ کا چہرہ دیکھا تو عقل حیران ہوگئی اور بے خود ہوگیا۔ جمعہ کے دن مَیں کچھ ایسی حالت میں تھا کہ حضرت صاحب کے نزدیک کھڑے ہو کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ اس وقت حضرت صاحب کی ایک توجہ ہوئی اس کے بعد میں سخت رویا۔ کہتے ہیں کہ صوفیاء کے مذہب میں یہ غسل کہلاتا ہے۔

٭… حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ جب مسجد مبارک میں نماز سے فارغ ہو کر تشریف رکھتے تو ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہتی کیونکہ ہم یہ جانتے تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نکات بیان فرما کر محبت الٰہی کے جام ہم پئیں گے اور ہمارے دلوں کے زنگ دور ہوں گے۔ سب چھوٹے بڑے ہمہ تن گوش ہوکر اپنے محبوب کے پیارے اور پاک منہ کی طرف شوق بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ آپ اپنے رُخ مبارک سے جو بیان فرمائیں گے اسے اچھی طرح سن لیں ۔
٭… حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ مَیں جب مسجدمبارک میں جاکر نماز ادا کرتا ہوں تو نماز میں وہ حلاوت اور خشیت اللہ دل میں پیدا ہوتی ہے کہ دل محبت الٰہی سے سرشار ہوجاتا ہے۔ حضرت اقدس کے پاک اور منور چہرہ کو دیکھ کر نہ کوئی غم ہی رہتا ہے اور نہ کسی کا گلہ شکوہ ہی رہتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب ہم جنت میں ہیں اور آپ کو دیکھ کر ہماری آنکھیں اُکتاتی نہ تھیں ایسا پاک اور منور رُخ مبارک تھا کہ ہم نوجوان پانچوں نمازیں ایسے شوق سے پڑھتے تھے کہ ایک نماز کو پڑھ کر دوسری نماز کی تیاری میں لگ جاتے تھے یہی کشمکش رہتی تھی کہ حضرت اقد س کے پاس ہی جگہ نصیب ہو۔ اللہ اللہ ! وہ کیسا مبارک اور پاک وجود تھا جس کی صحبت نے ہمیں مخلوق سے مستغنی کردیا اور ایسا صبر دے دیا کہ غیروں کی محبت سے ہمیں نجات دلادی اور ہمیں مولیٰ ہی کا آستانہ دکھادیا ۔

٭… حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حکیم احمد دین صاحبؓ جب حضورؑ کی ملاقات کے لئے لا ہور جانے لگے تو اُن کے کہنے پر مَیں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے ساتھ چل پڑا مگر بیعت کا ہر گز کوئی ارادہ نہیں تھا۔ جب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے۔ مخلوق بے شمار تھی۔ حضور کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ہجوم بہت زیادہ ہے حضور کی زیارت کرنا چاہتا ہے۔ حضورؑ نے کھڑکی سے سر نکالاتو مَیں نے اندازہ لگایا کہ یہ چہرہ ہر گز جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا، چنانچہ میں نے بیعت کرلی۔

٭… حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں پھیری کر کے بزّازی کا کاروبار کرتا تھا۔ ایک دن محمد چراغ صاحب مصنف ’’سیفِ حق‘‘ اور امام الدین صاحب ہمارے گاؤں میں آئے۔ یہ موسم گرما تھا۔ مَیں نماز تہجد کے لئے اُٹھا تو اُن کو اپنے گھر کی چھت پر نماز میں مصروف دیکھا۔ جب مَیں نے نماز تہجد ختم کرلی تو پھر بھی ان دونوں کو مصرو ف عبادت پایا تو خیال آیا کہ ان فرشتہ سیرت لوگوں سے ملاقات کرنی چاہئے۔ چنانچہ اُن سے ملاقات کی تو ان کی پاکیزہ دلی اُن کے چہرہ سے ہی نظر آتی تھی اور دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم احمدی ہیں۔ نیز انہوں نے احمدیت اور حضورؑ کے دعویٰ کے بارہ میں بتایا۔ حضورؑ کا دعویٰ میرے لئے باعث تعجب تھاکیونکہ مَیں حیاتِ مسیح کا قائل تھا۔ میں نے کچھ آیات پیش کیں جو انہوں نے فورا ً حل کردیں اور میں اُسی وقت وفات مسیح کا قائل ہوگیا۔ ان کا انداز گفتگو اس قدر حلیمانہ اور پُرخلوص تھا کہ ایک ایک بات میرے دل میں اترتی چلی گئی۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ کل جمعہ قادیان میں پڑھیں گے۔ مَیں نے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ چنانچہ ہم تینوں قادیان پہنچے اور مسجد مبارک میں گئے۔ مؤذن نے اس قدر خوش الحانی سے اذان دی کہ گویا ایک وجد کا عالم طاری ہوگیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پُرسوز خطبہ دیا جس کا اثر نماز میں بھی قائم رہا۔ حضورؑ مسجد میں تشریف لائے تو حضورؑ کا انوار سے منور چہرہ دیکھ کر حضورؑ کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی۔ چنانچہ عصر کے بعد مَیں نے بیعت کی۔

٭… حضرت اقدسؑ کی نوجوانی کے زمانہ کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ ڈلہوزی جاتے ہوئے رستہ میں بارش آگئی۔ آپؑ یکّہ پر سوار تھے۔ ایک پہاڑئیے کا مکان سامنے نظر آیا۔ آپ نے اپنے ساتھی کو بھیجا تاکہ اُس کی اجازت سے تھوڑی دیر اُس کے مکان میں بارش سے پناہ لی جاسکے۔ لیکن دیکھا کہ پہاڑئیے اور آپ کے ساتھی کے درمیان کچھ تکرار ہو رہی ہے۔ اس پر آپ خود تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ پہاڑ یا مکان کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جیسے ہی آپؑ اس کے سامنے آئے تواُس نے ایک نظر ڈالتے ہی کہہ دیا کہ آپ اندر آجائیں۔ پھر کہنے لگا کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اُس کی وجہ سے مَیں کسی شخص کو اپنے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن آپؑ کو دیکھ کر میری تسلّی ہو گئی۔ اس سے قبل اُس نے حضرت اقدسؑ کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا اور اُس زمانہ میں آپ جوان عمر تھے لیکن چہرہ پر ایسے تقدّس اور طہارت کے نشان نمایاں تھے کہ ایک جاہل پہاڑئیے کی آنکھوں سے بھی پوشیدہ نہ رہ سکے۔

٭… ایک دفعہ مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب کے ساتھ حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ سے علاج کرانے قادیان آیا۔ چونکہ یہ شخص حضرت اقدس کا سخت دشمن تھا اور محض علاج کی خاطر مجبوراً قادیان آیا تھا اس لئے اُس نے یہ شرط کرلی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ کے باہر کوئی مکان لے دینا۔ خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہرا۔ علاج ہوتا رہا۔ کچھ دنوں کے بعد اُسے افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا تو محمد یوسف صاحب نے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہو تو ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ۔ اُس نے انکار کیا۔ میاں صاحب نے اصرار کیا۔ اُس نے اس شرط پر مانا کہ ایسے وقت میں مجھے وہاں لے چلو کہ وہاں نہ مرزا صاحب ہوں اور نہ کوئی اور احمدی موجود ہو۔ میاں صاحب نے مان لیا اور ایسا ہی وقت دیکھ کر اُسے مسجد مبارک میں لائے۔ مگر خدا کی قدرت کہ اِدھر اُس نے مسجد میں قدم رکھااور اُدھر حضرت اقدسؑ کے مکان کی کھڑکی کھلی اور آپ کسی کام کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ اس شخص کی نظر آپؑ کی طرف اٹھ گئی اور اُس نے بیتاب ہو کر اُسی وقت بیعت کرلی۔

٭… حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ نے پہلی بار 1905ء میں قادیان آکر بیعت کی۔ آپؑ بیان کرتے ہیں کہ نارِ عشق کا شعلہ پھر بھڑکا جس نے دو سال بعد 1907ء میں بر موقعہ جلسہ سالانہ مجھے اپنے محبوب کے پاس پہنچادیا جہاں میرے جیسے سینکڑوں دیوانے موجود تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر اس نور کے پتلے پر فدا نظر آتا تھا ۔ جہاں مجھے اپنی بے مائیگی صاف صا ف نظر آنے لگی اور اپنا عشق ہیچ معلوم ہونے لگا مگر وہ دادار جس کی نظر دلوں پر ہے ہر دل کی کیفیت کو خوب جانتا ہے۔ میرے دل نے خواہش کی کہ سیدنا مسیح پاکؑ کو دُور سے تو دیکھ لیا ہے مگر نزدیک بیٹھ کر دیکھنے کا موقعہ مل جائے تو کیا خوش قسمتی ہے۔ ابھی اس خیال ہی میں مسجد اقصیٰ کے آخری حصہ میں نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وہ چاند سے مکھڑے والا خوشبو سے معطر دلبر آتا ہے اور عین … سامنے بیٹھ جاتا ہے اور میں شکر مولیٰ میں لگ جاتا اور حیرت میں پڑ جاتا ہوں ۔

٭… حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ سکنہ کریام پور کو احمدیت کا تعارف حضرت مسیح موعود کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ سے ہوا جو اُن کا ایک کاشتکار لے کر آیا تھا ۔ بعدازاں دو دیگر کتب نے راہ کی تمام روکیں دُور کردیں اور استخارہ کرنے کے بعد 1903ء میں قادیان آئے تو مسجد اقصیٰ میں عصر کی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ کو درس قرآن دیتے ہوئے سنا۔ معارف قرآنی اور تفسیر نے آپ پر خاص اثر کیا تو آپ نے ایک شخص سے پوچھا یہی مسیح موعود ہیں ؟ اُس نے کہا یہ تو مولوی نور الدین صاحبؓ ہیں۔ اس پر آپ بہت خوش ہوئے کہ جس دربار کے مولوی ایسے باکمال ہیں وہ خود کیسے ہوں گے ۔ انہوں نے دریافت کیا مسیح موعود کہاں ملیں گے؟ انہوں نے کہا حضور نماز مغرب کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائیں گے۔ نماز مغرب مسجد مبارک میں مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوکر حضرت صاحب بیٹھ گئے تو مَیں نے حضورؑ سے مصافحہ کیا۔ حضورؑ کی شکل متبرک تھی۔

٭… حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کو 1905ء میں دستی بیعت کی سعادت ملی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت مسیح موعودؑ کے عم زاد مرزا کمال الدین کے مرید تھے۔ لیکن ایک روز انہوں نے میری موجودگی میں میری والدہ سے کہا کہ لوگ قادیان والے مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود) کو بُرا بھلا کہتے ہیں، مَیں تو دیکھ کر آیا ہوں، بڑا نورانی چہرہ ہے مَیں تو ان کی اقتدا میں جمعہ پڑھ آیا ہوں۔

٭… مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی، ایم، سی اے کے سیکرٹری تھے۔1916ء میں سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیق کے لئے قادیان آئے اور انہوں نے یہ خواہش کی کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحابی سے ملایا جائے۔ اُس وقت منشی اروڑے خاں صاحبؓ قادیان میں تھے ۔ مسٹر والٹر کو اُن کے ساتھ مسجد مبارک میں ملایا گیا۔ مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر مرزاصاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا؟ منشی صاحب نے جواب دیا کہ مَیں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں اور علمی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ اُنہیں دیکھ کر کوئی شخص نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے ۔ باقی مَیں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں۔ یہ کہہ کر منشی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں اس قدر بے چین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے اُن کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹروالٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں اور چہرہ کا رنگ سفید پڑ گیا۔ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’احمدیہ موومنٹ ‘‘ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ جس شخص نے اپنی محبت میں اس قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں اُسے ہم کم ازکم دھوکہ باز نہیں کہہ سکتے۔

٭… حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ سے ایک دفعہ بعض غیر از جماعت دوستوں نے کہا تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو، فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں تم بھی چلو اور ان کی باتوں کا جواب دو۔ منشی صاحب مرحوم زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ جب دوستوں نے زیادہ اصرار کیا تو آپؓ چلے گئے۔ جلسہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دئیے۔ تب منشی صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے؟ منشی صاحبؓ نے فرمایا :یہ مولوی ہیں اور میں اَن پڑھ آدمی ہوں، ان کی دلیلوں کا جواب تو کو ئی مولوی ہی دے گا۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں نے حضرت صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔

٭… حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ کے پاس جب حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے دعویٰ مسیحیت کا اشتہار پہنچا تو آپ بہت ہی خوش ہوئے۔ لوگوں نے اتنی خوشی کی وجہ پوچھی تو آپ نے وہ اشتہار اُن کو پڑھ کر سنایا۔ لوگوں نے کہا کہ کئی مہینے سے تو آپ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ ہیں اور پھر آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور امام مہدی پہلے موجود ہوں گے۔ آپؓ نے کہا وہ پہلا بیان غلط تھا اور یہ صحیح ہے جو اس اشتہار میں ہے۔ پہلے بے تحقیقی محض کہانی کے طور پر محض سنا سنایا جاتا تھا اور یہ حق ہے۔ میرے پاس اس وقت اور کوئی دلیل نہیں صرف یہی دلیل کافی ہے کہ ایک مدّت سے میں آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔ یہ منہ ہی جھوٹوں کا نہیں ہے۔ جس کی صداقت کے نشان کئی سال سے دیکھے گئے، اس کا خلافِ واقعہ کوئی بیان نہیں سنا تو اب کیسے یکایک اس کا بیان کذب پر محتمل ہوسکے۔
٭… مولوی بشارت احمد صاحب سابق امیر حیدرآباد کو جب احمدیت سے متعلق علم ہوا تو تحقیق کے دوران انہیں علم ہوا کہ مولوی میر مردان علی صاحب صدر محاسب بھی احمدی ہیں۔ آپ اُن کے پاس گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی لاجواب تصنیف ’’نورالدین‘‘ مطالعہ کے لئے طلب کی۔ وہ آپ کو ایک کمرہ میں لے گئے اور دکھایا کہ مکان بدلنے کی وجہ سے ابھی سامان بندھا ہوا ہے۔ اسی کمرہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ وہ سادہ تصویر تھی۔ ایک لکڑی کی معمولی کرسی پر ہاتھ رکھے ہوئے بحالت استغناء کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ تصویر دیکھتے ہی میرے قلب پر ایک خاص اثر ہوا کہ یہ شخص بناوٹی نہیں ہے۔ اور خاص کر چہرے اور آپ کی آسودگی کی کیفیت اور آنکھوں کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک استغراق اور محویت کے عالم میں کھڑے ہیں۔

٭… حضرت بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب شرماؓ پہلے ہندو تھے پھر آپ کی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی طرف رہنمائی فرمائی۔ حضرت منشی عبدالوہاب صاحبؓ کی تحریک پر آپ چند دن کی چھٹی لے کر قادیان آئے۔ ان دنوں دو جگہ جمعہ ہوتا تھا مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جمعہ پڑھاتے تھے اور مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب۔ فرماتے ہیں ہم نے جمعہ مسجد مبارک میں پڑھا میں کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا کہ یہاں سے حضرت اقدس تشریف لائیں گے۔ مسجد چھوٹی سی تھی۔ ایک صف میں بمشکل چھ یا سات آدمی سماسکتے تھے۔جب کھڑکی کے راستہ سے حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے مصافحہ کیا اور کپڑوں کو چھوا تو مجھے خوشبو آئی غالبا ً حضور نے عطر لگایا ہوا تھا۔ حضورؑ کی زیارت سے میرے قلب پر خاص اثر پڑا۔ آپ کو دیکھ کر میں بے تاب ہوگیا۔ جب گھر سے چلا تھا تو میری نیت بیعت کرنے کی نہ تھی صرف حضور کی زیارت مقصود تھی۔ قادیان میں آکر منشی صاحب کا مشورہ یہی تھا کہ میں ابھی بیعت نہ کروں۔ لیکن حضورؑ کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور مغرب کی نماز کے بعد جب بیعت ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دیدی۔

٭… حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے 13سال کی عمر میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کا نام تب سنا جب ایک شخص نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جنہیں الہام ہوتے ہیں۔ بعدازاں حضرت مولانا نورالدین صاحب کا شاگرد ہونے کی وجہ سے آپ کے دل میں حضرت اقدس سے متعلق حسن ظن پیدا ہوگیا۔ 1890ء میں آپ نے حضورؑ کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ پڑھی تو آپ قادیان تشریف لائے۔ مسجد مبارک میں آپ کی حضورؑ سے ملاقات ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں: ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت قبول کر لینے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہوسکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو‘‘۔

٭… حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ ہمہ شفقت اور کامل کرم فرما تھے لیکن آپ کا چہرہ مبارک ایسا پُر رعب اور پُرشوکت تھا، تجلیات الٰہیہ کی ایک شان اس سے ہویدا تھی کہ کوئی شخص ٹکٹکی لگا کر آپ کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا، دلبری اور رعنائی کے وہ لوازم جو ایک خوبصورت اور وجیہ چہرہ پر نمایاں ہونے چاہئیں وہ کامل صفائی کے ساتھ درخشاں تھے۔

٭… حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ آپ مردانہ حسن کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ یہ حسنِ انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا۔ آپؑ کا جمال خدا کی قدرت کا نمونہ تھا جو دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ آپؑ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا۔ یعنی اس میں ایک نورانیت اور سرخی جھلک مارتی تھی اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی۔ کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیتِ قلب کے آثار کیونکر ہوسکتے ہیں۔

٭… حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلویؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں 1891ء میں موضع سیکھواں نزد قادیان میں بطور پٹواری تبدیل ہوکر آگیا۔ اس وقت میں احمدی نہیں تھا لیکن حضرت صاحب کا ذکر سنا ہوا تھا۔ مخالفت تو نہیں تھی لیکن زیادہ تر یہ خیال روک ہوتا تھا کہ علماء سب آپؑ کے مخالف ہیں۔ سیکھواں جاکر میری واقفیت میاں جمال الدین اور اُن کے بھائیوں سے ہوئی جنہوں نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ دی۔ میں نے دعا کرنے کے بعد کتاب پڑھنی شروع کی تو میرے دل میں حضرت صاحب کی صداقت میخ کی طرح گڑ گئی اور سب شکوک رفع ہوگئے۔ چند روز بعد میں میاں خیرالدین کے ساتھ قادیان گیا تو پہلی دفعہ حضرت صاحب کی زیارت کی اور مَیں نے میاں خیر دین صاحب کو کہا کہ یہ شکل جھوٹوں والی نہیں ہے ۔ چنانچہ میں نے بیعت کرلی۔

٭… محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی کتاب ’’مجدّد اعظم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے شمائل کو قلم سے بیان کرنا تو ممکن ہے ، فوٹو بھی موجود ہے لیکن وہ آثار تقدّس اور انوار آسمانی جو آپ کے چہرے پر ہر وقت نظر آتے تھے ان کو نہ قلم بیان کر سکتی ہے ، نہ فوٹو دکھا سکتا ہے۔ جس وقت آپ ایک چھوٹے سے دروازہ کے ذریعہ گھر میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ایک نور کا جمگھٹا سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلے خاکسار نے حضرت اقدسؑ کو سیالکوٹ میں 1891ء میں دیکھا تھا۔ آپ حکیم حسام الدین مرحوم کے مکان سے نکلے ، گلی میں سے گزر کر سامنے کے مکان میں چلے گئے لیکن مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک نور کا پُتلاآنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ جو مقدّس سے مقدّس شکل میرا ذہن تجویز کر سکتا تھا، وہ ا س سے بھی بڑھ کر تھا۔ بے اختیار میرے دل نے کہا کہ یہ شکل جھوٹے کی نہیں بلکہ کسی بڑے مقدّس انسان کی ہے۔ ایک دفعہ سردیوں کے موسم میں بارش ہو رہی تھی۔ مسجد مبارک میں نماز مغرب کے وقت اندھیرا سا تھا۔ حضرت اقدسؑ اندر سے تشریف لائے تو روشن کی ہوئی موم بتی آپؑ کے ہاتھ میں تھی جس کا عکس آپ کے چہرۂ مبارک پر پڑ رہا تھا۔ اللہ اللہ! جو نور اس وقت آپ کے چہرے پر مجھے نظر آیا وہ نظارہ آج تک نہیں بھولتا۔ چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا جس کے سامنے وہ شمع بے نور نظر آتی تھی۔ اس کے کئی سال بعد 1906ء میں ایک روز حضرت اقدسؑ کی طبیعت ناساز تھی، سر میں سخت درد تھا مگر اسی تکلیف میں آپ ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ گو سر درد کی وجہ سے چہر ہ پر تکلیف کے آثار تھے لیکن پیشانی پر ایک نور کا شعلہ چمکتا نظر آتا تھا جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتیں اور دل کو سرور آتا تھا۔ آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ غیرمعمولی چمک کس چیز کی تھی۔ یہ تو خاص اوقات کا ذکر میں نے کیا جن کا اثر غیر معمولی طور پر دل پر رہ گیا ورنہ آپ کے چہرہ پر تقدّس کے آثار ایسے نمایاں تھے اور انوار روحانی کی بارش کا وہ سماں نظر آتا تھا کہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص اسے دیکھے اور متأثر نہ ہو۔ اُس زمانہ میں ہم لوگ فقط وفات مسیحؑ منوانے کی کوشش کرتے تھے۔ جہاں کسی نے وفات مسیحؑ کو مان لیا پھر نزول مسیحؑ پر بحث کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ کو دیکھ لے۔ لوگ کہتے تھے کہ مرزا کے پاس نہ جائو وہ لوگوں پر جادو کر دیتا ہے۔ انہیں مسمرائز کردیتا ہے۔ حالانکہ یہ غلط تھا۔ مسمرائز تو آنکھوں سے اثر ڈالتا ہے اور آپؑ کی آنکھیں ہمیشہ نیچی رہا کرتی تھیں۔ آنکھیں اٹھا کر دیکھنے کی آپؑ کو عادت ہی نہ تھی۔ بات یہ ہے کہ چہرے پر تقدّس اور انوار آسمانی کے نشانات ایسے نمایاں تھے کہ ناممکن تھا کہ لوگ دیکھیں اور متأثر نہ ہوں۔

وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں

اُسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا

حضرت سردار امام بخش خان قیصرانیؓ

روزنامہ ’الفضل ربوہ ‘‘ 22اکتوبر 2012ء میں بلوچ قبیلہ کے سردار حضرت سردار امام بخش خان صاحب قیصرانیؓ کی سیرۃ و سوانح پر مشتمل مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
پندرھویں صدی کے ایک بلوچ حکمران سردار میر چاکر خان رند بلوچ (1468-1565ء) کے بھانجے سردار قیصر خان سے بلوچ قبیلہ کی شاخ ’قیصرانی‘ کی بنیاد پڑی۔ اس قبیلہ کا مسکن خاص طور پر ڈیرہ غازیخان ہے لیکن سکونت کے لحاظ سے یہ قبیلہ بلوچستان اور پختونخواہ کے بعض علاقوں تک وسعت رکھتا ہے۔ Sir Lepel Henry Griffin نے اپنی کتاب "The Punjab Chiefs” یعنی ’’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘‘ میں بھی اس قبیلہ کا ذکر کیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی آواز پر لبّیک کہنے والوں میں حضرت سردار امام بخش صاحب قیصرانیؓ آف کوٹ قیصرانی ضلع ڈیرہ غازیخان بھی شامل ہیں جنہیں ان کے والد صاحب کے کہنے پر گورنمنٹ نے ریاست سے نکال دیا تھا اور اس بے بسی کی حالت میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرکے اپنی مشکلات کے دُور ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی تو جواباً حضرت اقدسؑ نے تحریر فرمایا:

’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ آپ کا خط پہونچا۔ ہر ایک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر آپ سچے اعتقاد اور ایمان پر قائم ہوں گے۔ امید کہ اللہ تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے گا۔ گو جلدی یا کسی قدر دیر سے، استقامت اور حسن ظن کی طرف رہیں۔ آپ کو معہ آپ کی اہلیہ کے بیعت میں داخل کر لیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ اپنے حالات سے بار با راطلاع دیں اور دو ہفتہ یا تین ہفتہ کے بعد اطلاع دے دیا کریں۔ یہ ضروری ہے اور اگر ایک دفعہ قادیان میں آجائیں تو بہت بہتر ہے۔ …

والسلام ۔

غلام احمد از قادیان۔ 20؍ اکتوبر1906ء‘‘۔

حضور اقدسؑ کی دعا ’’اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہرحال بہتر کرے گا گو جلدی یا کسی قدر دیر سے‘‘ کی قبولیت کے سامان معجزانہ طور پر اس طرح ہوئے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عہد مبارک میں آپ کے والد نے گورنمنٹ کو آپ کے آنے کی اجازت کے لئے لکھا اور آپ کو اجازت مل گئی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ولی عہد دیوانہ ہو گیا اور آپ کے والد صاحب کی وفات ہو گئی، جس کے بعد آپ کو رئیس مقرر کیا گیا۔

حضرت سردار صاحبؓ کی اہلیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ نے اپنے گھرانہ کے قبول احمدیت کے حوالہ سے 1934ء میں ایک مضمون شائع کروایا جس میں لکھا کہ ہم حنفی مذہب کے پیرو تھے، میرا خاوند شیعہ مذہب کی طرف راغب ہوگیا جس کا مجھے بہت رنج تھا۔ ہم آپس میں بہت بحث و مباحثہ کرتے، جب کوئی فیصلہ نہ ہوتا تو بڑی عاجزی سے خدا تعالیٰ کے حضور یہی دعا کرتے کہ حضرت امام مہدی کو ہماری زندگی میں ظاہر فرما تاکہ وہ ان تمام جھگڑوں کا فیصلہ کریں۔ یقیناً یہ عاجزانہ دعا منظور ہوگئی کہ ہم اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت میں داخل ہوئے۔ خدا تعالیٰ نے میرے خاوند سردار صاحب کو پہلی رہنمائی یہ فرمائی کہ خواب میں کسی وجیہہ شکل بزرگ نے کہا کہ دیکھو امام بخش! ابو بکرؓ و عمرؓ کے ذمہ کوئی سہو و خطا نہیں۔ اس خواب نے اُن پر ایسا اثر کیا کہ شیعہ عقائد سے فوراً دستبردار ہوگئے۔

ایک دن صبح سردار صاحب ہاتھ میں اخبار ’بدر‘ لئے گھر آئے اور مجھے کہا کہ تمہیں آج نئی بات سنائیں۔ اخبار میں حضور کے الہام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر اور کچھ لوگوں کے اعتراضوں کے جواب تھے۔ ہم نے بڑی حیرانی سے ان باتوں کو پڑھا۔ مَیں نے دریافت کیا کہ یہ اخبار کہاں سے ملی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ڈاک منشی نے دی ہے۔ ایک دفعہ اُسی منشی مذکور نے پھر اسی اخبار کا پرچہ دیا لیکن پُرانے خیالات جو عقیدہ کے رنگ میں دماغ میں آگئے تھے وہ صرف دو پرچوں سے کیسے نکلیں! لیکن دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس معاملہ کی اچھی طرح وضاحت ہو۔ مَیں سردار صاحب سے کہتی کہ کسی سے دریافت کریں تو وہ فرماتے کہ مجھے خود خیال ہے مگر کوئی واقف کار ملے تو پوچھوں!۔

تھوڑا عرصہ گزرا کہ گورداسپور کا ایک میرآب (دریا کے پانی کا محافظ) ملازمت کے باعث یہاں آگیا۔ سردار صاحب نے اُس سے دریافت فرمایا تو اُس نے ہماری تمام اُمیدوں پر پانی پھیر دیا اور کہا کہ یہ محض دکانداری اور دھوکہ بازی ہے۔ پھر کافی عرصہ کے بعد سردار صاحب اپنے کام کی خاطر لاہور گئے اور مہینہ سے زیادہ وہاں رہے، وہاں اُنہوں نے مخالفت مسیح موعودؑ کا وہ شور دیکھا کہ الامان! شاہی مسجد میں تقریر ہو رہی تھی، ٹریکٹ و اشتہارات مفت تقسیم کئے جا رہے تھے، سردار صاحب کو بھی دیئے گئے جو آپ ہمراہ لے آئے۔

اسی عرصہ میں قریبی بستی بزدارؔ میں احمدیت پہنچ چکی تھی لیکن ہمیں کچھ علم نہ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں کا باشندہ مولوی ابوالحسن خان دہلی پڑھتا تھا وہاں سے وہ احمدیت لایا اور بستی بزدار میں تین شخص احمدی ہو گئے، دو شخص خواندہ تھے تیسرا ناخواندہ تھا، اسی ناخواندہ کے ذریعہ خداتعالیٰ نے ہمیں احمدیت جیسی نعمت عطا کی۔ اللہ تعالیٰ اُسے غریق رحمت کرے۔ پھل خان اس کا نام تھا، جراحی کا کام کرتا تھا اور کوٹ قیصرانی میں بھی آکر لوگوں کا علاج کرتا رہتا تھا۔ ایک دن سردار صاحب اپنی مردانہ بیٹھک میں چند آدمیوں سمیت بیٹھے تھے کہ پھل خان آگیا، کسی شخص نے بتایا کہ پھل خان نے مذہب تبدیل کر لیا ہے۔ اس پر سردار صاحب نے اُس سے پوچھا تو اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر خیر کیا۔ سردار صاحب نے جو کچھ لاہور میں سُن رکھا تھا، اُس کی بِنا پر پھل خان کو غلطی خوردہ سمجھ کر اُس کو سمجھانے لگے۔ اس پر اُس نے کہا کہ دیکھو سردار صاحب! آپ نے مخالفوں کی تقریریں سنیں، لٹریچر پڑھا، اگر تحقیقِ حق ہے تو ہماری کتابیں بھی پڑھیں، مَیں آپ کو لا کر دوں گا۔ سردار صاحب نے وعدہ کیا کہ ضرور پڑھوں گا۔ وہ مرحوم و مغفور انسان تلاش کر کر کے ہمیں کتابیں لاکر دیتا، ایک ختم ہوتی تو اَور تلاش کر کے لاتا۔ جاڑے کا موسم تھا اکثر ہم رات کو پڑھتے تھے، سچ آخر سچ ہی ہے، مخالفین کی باتیں بھی تو ہم نے سُنی اور پڑھی تھیں، اُن کے مقابلہ میں یہ کتب نُور اور نافہ تھیں جو ہمارے دماغوں کو روشن اور معطّر کرنے لگیں، ہمارے مخالف اگر تحقیقِ حق کے خیال سے پڑھیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ اُن پر حق ظاہر نہ ہو۔

جب ہم پر حق کھلنے لگا اور دن بدن ایمان ترقی کرتا ہوا یقین کی حد کو پہنچا تو پھر مَیں اس خوشی کی کیا مثال دوں؟ جیسے افلاس کی حالت میں کسی کو مدفون خزانہ مل جائے یا جاں بلب پیاسے کو سرد خوش ذائقہ شربت مل جاوے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے جس کے انتظار میں ہمارے باپ دادا گزر گئے، سینکڑوں اولیاء اللہ ترستے رہ گئے، وہ ہمیں یہیں پنجاب میں مل گیا۔ جب ہم کو یقین ہوگیا کہ یہ وہی مسیح اور مہدی ہیں تو پھر 20؍ اکتوبر1906ء کو ہم دونوں میاں بیوی نے بذریعہ خط بیعت کر لی۔ سردار صاحب نے خود تو دو تین مہینے بعد قادیان جاکر دستی بیعت کی مگر عاجزہ نے 1907ء میں بال بچوں سمیت بہمراہی سردار صاحب قادیان جاکر زیارت کا شرف حاصل کیا۔

جب ہم حضرت اقدسؑ کے دروازے پر پہنچے تو دربان نے ایک عورت کو بلایا جو گھر کے اندر لے گئی۔ صحن میں تخت پوش پر ایک عابد شکل، مجسم نور اسّی سالہ بزرگ بیٹھا وضو فرما رہا ہے، آگے قلم و دوات اور کاغذات رکھے ہوئے ہیں، دل نے گواہی دی کہ ضرور یہی بزرگ مسیح موعودؑ ہوں گے مگر مَیں نے احتیاطاً اپنی راہبر عورت سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہی حضرت صاحب ہیں۔ چونکہ حضرت اماں جانؓ سامنے کے کمرہ میں تشریف فرما تھیں، اس لئے وہ راہبر خاتون ہمیں وہاں لے جا رہی تھی لیکن میں پہلے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں چلی گئی، السلام علیکم عرض کر کے نیچے پختہ فرش پر بیٹھ گئی۔ حضور نے سلام کا جواب دے کر دریافت فرمایا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ ہم نے اپنا وطن بتایا، سردار صاحب کا نام لیا۔ آپؓ بشاش چہرے سے حال دریافت فرماتے اور مسکراتے رہے۔ عصر کا وقت تھا حضور نماز کی تیاری کر رہے تھے، آپؑ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے تشریف لے گئے اور ہمیں فرمایا کہ آپ وہاں جا بیٹھیں یعنی جہاں حضرت اماں جان صاحبہ تشریف فرما تھیں۔ ہم ان کی خدمت میں پہنچے۔ السلام علیکم عرض کیا، آپ نے کمال مہربانی اور کشادہ پیشانی سے جواب دیا۔ احوال دریافت فرمایا۔ پیاس کا پوچھا۔ فوراً شربت بنوایا، ہم چار آدمی تھے۔ سیر ہوکر پیا۔ کیا ہی مہمان نوازی ہے۔ ہمارا وہ آقا جو روحانی باپ تھا جس کا کلام ہم جیسے مُردہ لوگوں کے لیے زندگی بخش تھا، واقعی اس کے شایانِ شان یہی ہماری روحانی والدہ حضرت اماں جانؓ تھیں۔ بذات خود چل کر ایک کمرہ دیا، سامان رکھوایا، پُرتکلّف کھانا بھجوایا۔ مَیں نے کھانا کھانے کے بعد شام کو جاکر بیعت کے واسطے عرض کیا تو فرمایا کہ آپ آج ہی آئے ہو، رہو گے تو بیعت بھی ہوجائے گی۔ دو روز کے بعد پھر مَیں نے بیعت کے متعلق عرض کیا تو فرمایا کہ کیا آپ نے میری کوئی کتاب بھی دیکھی ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ ہاں حضور! مَیں نے بہت سی کتب دیکھی ہیں۔ حضورؑ نے نام دریافت فرمائے تو مَیں نے جتنے نام یاد آئے سنا دئیے تو آپؑ نے بہت خوش ہوکر میری بیعت لی اور فرمایا کہ اس وقت جو کتاب تحریر کر رہا ہوں اس کا نام ’’چشمۂ معرفت‘‘ رکھوں گا، جب چھپے گی تو آپ کو بھجوادوں گا۔
حضرت سردار بیگم صاحبہؓ کے سفرنامہ میں درج بہت سی دلچسپ روایات میں سے چند ایک پیش ہیں:
٭… ایک دن حضرت اماں جانؓ حضرت اقدسؑ کے ہمراہ بغرض تفریح سیر کو باہر تشریف لے گئیں، عاجزہ راقمہ اور دیگر بہت سی مستورات برقعہ پوش بھی ساتھ چل دیں۔ میرا بیٹا سردار امیر محمد خان قریباً چار سال کا ہوگا، یہ حضورؑ کے آگے پیچھے دوڑتا اور کھیلتا جاتا تھا۔ ہمارے ملک میں لڑکوں کو بھی زیور پہناتے تھے چنانچہ یہ بھی زیوروں سے خوب آراستہ تھا، جب حضورؑ واپس دولت خانہ تشریف لائے تو مجھے فرمایا کہ خدا نے آپ کو لڑکا دیا تو کیا آپ کا دل چاہتا ہے کہ یہ زیور پہن کر لڑکی نظر آئے؟ میں یہ ارشاد سن کر فوراً زیور اتارنے لگی تو حضرت اماں جانؓ نے فرمایا: یہ سعادت مَیں حاصل کرتی ہوں۔ پھر بذات خود سب زیور اُتار دیئے۔ تب حضرت اقدسؑ نے بچہ کے پاس آکر تبسم سے فرمایا کہ تم احمدی اب ہوئے ہو۔
اتنا ضرور عرض کروں گی کہ غضِّ بصر کی وجہ سے اب تک حضورؑ کو پتہ نہ لگا تھا ورنہ جب میں حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو بچہ ہمیشہ ہی میرے ساتھ ہوتا، آج حضورؑ کے آگے پیچھے دوڑتا ہوا نظر آیا تب زیورات کا پتہ لگا۔

٭… ایک دن رتھ کی سیر کو تشریف لے گئے۔ حضرت اقدسؑ و حضرت اماں جانؓ اور چھوٹی صاحبزادی امۃالحفیظ بیگمؓ دروازہ سے ہی سوار ہوئے، باقی مستورات پیچھے جارہی تھیں کہ تھوڑی دُور جاکر حضورؑ اُتر پڑے اور میرے واسطے فرمایا کہ وہ سوار ہوں۔ مَیں یہ سمجھ کر کہ حضورؑ کی بڑی صاحبزادی اور بڑی بہو پیدل ہوں اور میں سوار!۔ یہ عذر کر دیاکہ مَیں بخوشی پیدل چلتی ہوں۔ حضورؑ نے میری بات سن کر فرمایا کہ نہیں آپ سوار ہوجاویں۔ دوبارہ عرض کیا کہ ابھی تھکی نہیں۔ تب حضور نے فرمایا کہ حکم کا مان لینا سعادت ہے۔ تب میں فوراً سوار ہو گئی۔ حضورؑ واپس تشریف لے گئے، تھوڑی دُور جاکر حضرت اماں جانؓ اُتر گئیں اور حضورؑ کی صاحبزادی اور بہو صاحبہ سوار ہوئیں۔

٭… ایک دن حضورؑ کا وضو ایک خادمہ کرا رہی تھی، جو پانی نیچے گر رہا تھا مَیں نے ایک چُلّو اس سے لے کر سردار امیر محمد خان کی آنکھوں پر لگایا کیونکہ پسرم کی آنکھیں ہمیشہ خراب رہا کرتی تھیں، بہت سے علاج کیے حتیٰ کہ جونکیں لگوائیں مگر پوری شفایاب کبھی نہ ہوتی تھیں۔ خدا کے فضل سے اُسی دن سے خدا نے شفا بخشی، پھر کبھی خراب نہ ہوئیں۔ پھر مَیں نے جاکر لوٹا لینا چاہا کہ مَیں وضو کراؤں، وہ انکار کرنے لگی۔ حضورؑ نے فرمایا: دے دو، ہر ایک کے واسطے سعادت ہے۔ تب اُس نے دے دیا۔

٭… ہم کو دار الامان آئے ہفتہ ہوا تب سردار صاحب نے مجھے فرمایا کہ حضرت اقدس مہمانوں کو جلد رخصت نہیں دیا کرتے، آج ضرور رخصت کے واسطے عرض کر دینا، آخر حضور فرمائیں گے کہ کچھ دن اور ٹھہرو تو دو چار دن اور رہ پڑیں گے۔ چنانچہ رخصت لینے مَیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی، حضور اپنی تالیفات کے کام میں مصروف تھے، مَیں نے جاکر سلام عرض کرنے کے بعد رخصت کا نام لیا اور نیز دعا کے واسطے بھی عرض کی۔ تب فرمایا کہ ایسی جلدی کیوں؟ کیا گھر کے واسطے اداس ہو گئے ہو؟ یا کھانا، مکان کے متعلق کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ اگر تکلیف ہو تو میں رفع کرسکتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ تکلیف کہاں کی، گھر سے بھی زیادہ آرام ہے۔ لیکن پیچھے کچھ مجبوریاں تھیں جو میں نے حضور کی خدمت میں بیان کیں تب حضور نے فرمایا کہ رہو، میں ابھی تک آپ کا معاملہ سمجھا ہی اچھی طرح سے نہیں، میں دعا کروں گا اگر خدا سے کچھ ظاہر ہوا تو بتا بھی دوں گا اور مہربانی کے لہجہ میں فرمایا کہ دیکھو قسمت سے ملاقات ہوتی ہے۔ نہ مجھے اپنی زندگی پر بھروسہ ہے نہ دوسروں پر۔ آپ دُور سے آئے اور اتنا حرج اور خرچ کرکے آئے ہو تو مناسب ہے کچھ دن اَور رہو۔

٭… ایک دن حضور کو درد گردہ ہوگیا۔ کئی اور علاج بھی کئے ہوں گے مگر چولہے میں آگ جلا کر مٹی کے ٹکڑے گرم کرکے لائے جاتے اور حضورؑ خود یا حضرت اماں جانؓ درد کی جگہ ٹکور کرتے جاتے۔ پلنگ پر کبھی آپ لیٹتے کبھی بیٹھتے، غرض تکلیف سے سخت بے آرام تھے۔ اتنے میں عصر کی اذان ہوئی تو خدا کے اس برگزیدہ نے درد پر گرم خشت باندھ کر نماز ادا کرکے دکھا دیا کہ بیماری بھی انسان کے ساتھ لازمی ہے اور نماز بھی فرض۔

حضرت سردار امام بخش صاحبؓ نہایت مخلص اور نیک انسان تھے، قادیان حاضر ہوتے تو حضورؑ کی پرانے خدام سے محبت کو نہایت رشک سے دیکھتے، ایک دفعہ فرمانے لگے پُرانے صوفیا کے طرز پر ہر ایک بزرگ کا کوئی معشوق ظاہری بھی ہوتا ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو حضرت مسیح موعودؑ کے معشوق مفتی صاحب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اکثر جب حضرت صاحب آتے ہیں تو سب سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ ’’مفتی صاحب کہاں ہیں؟‘‘

1909ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایک دورے کے سلسلے میں جب لیّہ سے گزرے تو حضرت سردار صاحبؓ اخوّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند دیگر احباب کے ہمراہ ملاقات کے لئے سٹیشن پر تشریف لے گئے۔

حضرت سردار امام بخش قیصرانی صاحبؓ اپنے علاقہ میں معزز اور وجیہہ سردار ہونے کے باوجود خلافت کے ساتھ گہری وابستگی اور خلیفۂ وقت کے کامل مطیع اور حد درجہ فرمانبردار تھے۔خلافت کے ساتھ نہایت وفا اور اخلاص کا تعلق تھا۔ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت سردار شیر بہادر خان قیصرانی صاحبؓ (ولادت 1876ء- وفات 28 دسمبر 1956ء) کے بیٹے مشہور شاعر مکرم رشید قیصرانی صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت سردار امام بخش قیصرانی صاحبؓ کی خلافت کے ساتھ محبت اور عقیدت کا ذکر یوں فرمایا کہ یہ بہت بہادر اور بہت مخلص تھے۔ انگریزوں نے جو مختلف خاندانوں کو مقام دیئے ہوئے تھے ان میں قیصرانی سرداروں کا مقام قادیان میںہمارے خاندان سے آگے تھا۔ اور جب وائسرائے کا دربار لگتا تھا توان کو آگے کرسی ملتی تھی اور جو خاندان ہمارا تھا،آباء و اجداد کا اس کو نسبتاً پیچھے کرسی ملتی تھی۔ غالباً پرنس آف ویلز آئے تھے یا کوئی اور شہزادے آئے تھے۔ بڑے اہتمام سے ایک دربار بلایا گیا، پنجاب چیفس کی کرسیاں حکومت کے لحاظ سے ترتیب سے لگائی گئی تھیں۔ جو سب سے معززوہ آگے جو اس کے بعد وہ اس کے پیچھے ۔ اس طرح کرسیوں کی قطاریں ان خاندانوں کے انگریزوں کی نظر میں مقام کو بھی ظاہر کرتی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ بھی مدعوتھے اور ایسا اہم موقعہ تھا کہ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپؓ ضرور جائیں۔ آپؓ بھی چلے گئے تو قیصرانی سردار کی کرسی آگے تھی اور کچھ پیچھے ہٹ کر حضرت مصلح موعودؓ کی کرسی تھی۔ اب انگریزوں نے مذہب کے لحاظ سے تو کوئی عزت نہیں دینی تھی، ان کو پرواہ بھی کوئی نہیں تھی لیکن خاندانی مقام کے لحاظ سے انہوں نے ٹھیک کیا۔ حضرت امام بخش قیصرانیؓ کی نظر پڑگئی کہ حضرت مصلح موعودؓ پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فوراً اپنی کرسی موڑی اور شہزادے کی طرف پیٹھ کرکے حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منہ کرلیا۔ سرداروں کا یہ ایک دستور ہے کہ اکٹھے رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی معزز آدمی حرکت کرے تو دوسرے بھی ویسے ہی کرتے ہیں۔ تو جتنے بھی ڈیرہ غازیخان کے معزز سردار تھے ان سب نے اپنی کرسیاں پھیرلیں۔ وائسرائے گھبراگیا۔ اس نے سمجھا کہ کوئی بغاوت ہونے والی ہے۔ اتنی عجیب حرکت۔ اس نے فوراً آدمی دوڑایاکہ کیا ہوا ہے۔ کوئی ناراضگی ہوئی ہے تو ہمیں بتائیں۔ انہوں نے کہا ناراضگی تو کوئی نہیں مگر یہ میرا روحانی پِیر ہے، میرے نزدیک یہ زیادہ معززہے، مَیں اس کی طرف پیٹھ نہیں کرسکتا۔ تواُنہوں نے کہاکوئی مسئلہ نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی کرسی وہاں سے اُٹھوائی، اگلی صف میں ساتھ رکھی تو پھر وہ سارے سیدھے ہوگئے۔ یہ ہے قیصرانی قبیلے کی داستان جو ہمیشہ یادرہے گی۔ان کی بہادری ان کا اخلاص۔

حضرت سردار امام بخش قیصرانیؓ نے 1924ء میں وفات پائی۔ آپ کی اہلیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ بھی اپنے خاوند کی طرح مخلص احمدی تھیں،بڑے اخلاص اور توجہ سے جماعتی کام سر انجام دیتیں۔ آپ اپنے بیٹے مکرم سردار امیر محمد خان صاحب قیصرانی کی وجہ سے والدہ امیر محمد خان کے ساتھ جانی جاتی تھیں۔ 1932ء میں چوہدری فیض احمد صاحب انسپکٹر نظارت مال نے ڈیرہ غازی خان کا دورہ کرنےکے بعد اپنی رپورٹ میں وہاں کی لجنہ اماء اللہ کے کام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تعریفی کلمات لکھ کر رپورٹ دفتر مال کو بھجوائی۔ اس لجنہ کی صدر آپؓ ہی تھیں جو اپنی خدا داد قابلیت اور اخلاص و ایثار سے لجنہ کے کام کو اپنی زیر نگرانی انجام دیتی تھیں۔ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس دیتی تھیں۔ باقاعدہ رجسٹر، رسید بکیں اور رجسٹر روئیداد وغیرہ موجود تھا۔ آپؓ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسی طرح قادیان میں ایک دفعہ نظارت ضیافت نے جلسہ سالانہ کے لیے دیگوں کی تحریک کی جس پر لبّیک کہتے ہوئے حضرت سردار بیگم صاحبہؓ نے بھی ایک دیگ پیش کی۔ آپ موصیہ بھی تھیں۔

حضرت سردار بیگم صاحبہؓ نے 14 فروری 1959ء کو وفات پائی۔ یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

اگلے الفضل ڈائجسٹکے لیے…

گزشتہ الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button