الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

وقت کی اہمیت۔دینی و دنیاوی نقطۂ نگاہ سے

روزنامہ ’الفضل ربوہ ‘‘ 30جولائی 2012ء میں مکرم ندیم احمد فرخ صاحب کا وقت کی اہمیت کے حوالہ سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

وقت ضائع کرنا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے کیونکہ جو وقت گزر جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس انسانی خواہش کا ذکر فرماتا ہے کہ:(کیا ممکن ہے کہ) ہمیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم جو کچھ (بُرے ) عمل کرتے تھے ان کی جگہ دوسرے (نیک) عمل کرنے لگ جائیں۔ (الاعراف 54:)
چنانچہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی

وقت کی قدر و قیمت سمجھنے اور پھر وقت کے ضیاع سے بچنے کا درس ہمیں اس بات سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ تُو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی ناپائیدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی۔ اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اُٹھانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں… تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لئے تیار رہے۔‘‘

مزید فرماتے ہیں:’’یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب تر کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو!‘‘

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اپنے معمولاتِ دن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے، یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔ کوئی مشغول اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے، مجھے سخت ناگوار ہے۔ جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا، پینا اور سونا حرام کر لیتاہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے۔ ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔‘‘

یہی حال حضورعلیہ السلام کے خلفاء کا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں:

’’وہ کیا بد قسمت انسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ احمدی نوجوانوں کو اپنی عمر سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اپنی اس عمر کو اک نعمتِ عُظمیٰ سمجھو
بعد میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایّام نہ ہو

ایک موقع پر فرمایا:

’’وقت نہایت قیمتی چیز ہے جو وقت کو استعمال کرے گا وہی جیتے گا اور جو ضائع کرے گا وہ ہارجائے گا۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

’’بیہودہ وقت ضائع کرنا روحانیت کو مارنے والی چیز ہے … ایسا نکمّا آدمی دنیا میں ایک تو بتائو جو خدا کا محبوب بن گیا ہو۔ بلکہ ایک ایسا انسان تو محب بھی نہیں بن سکتا کیونکہ خداتعالیٰ سے محبت بھی اسے نصیب ہو سکتی ہے جو وقت کی قدر جانتا ہو۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے منظوم کلام میں فرمایا:

کام مشکل ہے بہت منزلِ مقصود ہے دُور
اے میرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو
ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بد نام نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ارشاد ہے:

’’زندگی وقت کے ایک بامقصد مَصرف کا نام ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

’’میرا جائزہ اور تجربہ یہ ہے کہ جب مصروف آدمی کے سپرد کام کئے جائیں تو وہ ہو جاتے ہیں۔ فارغ وقت والے آدمی کے سپرد کام کئے جائیں تو وہ نہیں ہوتے۔ کیونکہ فارغ وقت والا وہی ہوتا ہے جس کو اپنے وقت کی قیمت معلوم نہیں ہوتی اور وقت ضائع کرنا اس کی عادت بن چکا ہوتا ہے۔اس لئے اگر فارغ وقت آدمی کو پکڑنا ہے تو رفتہ رفتہ اسے مصروف رہنا سکھانا ہوگا اور اس کے لئے بعض دفعہ اس کے مطلب کی چیز اس کے سپرد کی جائے تو رفتہ رفتہ اس کام کی عادت پڑجاتی ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد ہے:

’’اب سونے کا ٹائم ختم ہوچکا ہے اب تیز دوڑنے کا وقت ہے۔‘‘

مقولہ ہے کہ کچھ لوگ وقت کو ’استعمال‘ کرتے ہیں۔ کچھ ’خرچ‘ کرتے اور کئی لوگ اسے صرف ’گزارتے‘ ہیں۔ پس ’ہارڈ ورک‘ کی بجائے ’سمارٹ ورک‘ کا راستہ منتخب کریں یعنی مسلسل کئی گھنٹے کام کرنے کی بجائے تھوڑے وقت میں زیادہ کام۔ اسی طرح روز کا کام روز کیجئے۔ آج کا جو کام آپ آج نہیں کرتے اُسے ’کل‘ کرنے کے لئے دوگنا اور ’پرسوں‘ کرتے ہوئے تین گنا زیادہ وقت، صلاحیت اور قوت درکار ہوگی۔
کام کو ’آج‘ سے کرنے کی عادت ڈالیں۔ یعنی اگر فیصلہ کرلیں کہ یہ کام میرے لئے ضروری ہے تو اس کے آغاز کے لئے موزوں وقت کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہیں بلکہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا قدم اسی وقت اٹھالیں۔

چونکہ وقت ایک انتہائی قیمتی سرمایہ ہے اس لئے کچھ لٹیروں کی ہر وقت آپ کے قیمتی سرمائے پر نظر رہتی ہے۔ ان سے اپنے سرمائے کو محفوظ رکھیں۔ مثلاً ٹی وی دیکھنا، کمپیوٹر اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے ریلیکس ہوجانا۔ ترجیحات کے انتخاب میں ہم بہرحال آزاد ہیں۔

یاد رکھیں ہمیشہ وہی اقوام اور وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے وقت کے پابند ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ انہی کامیاب لوگوںمیں سے ایک چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ہیں۔ چنانچہ محترم سید یاور علی صاحب اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب کہا کرتے تھے کہ ’’وقت کی پابندی ان کا ایسا اصول تھا کہ بلا مبالغہ چوہدری صاحب کو دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں درست کر لیا کرتے تھے۔ اُن کی زندگی میں وقت کی پابندی کا عنصر بڑا حیران کن تھا۔ ان کا زندگی گزارنے کا طریق بڑا نپاتلا اور طے تھا۔ دو باتیں ان کی زندگی میں بہت اہم تھیں، وقت اور دولت کی صحیح تقسیم۔ وہ اپنا وقت اس طرح تقسیم کرتے تھے کہ ان کا وقت ان کے اپنے لئے بہت کم ہوتا تھا۔ یوں کہئے کہ ان کے پاس دوسروں کے لئے وقت، ہر وقت نکل آتا تھا۔ جتنے بھی عظیم آدمی ہیں ان کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کی منصوبہ بندی بڑی احتیاط سے کرتے تھے اور وہ ایک دن میں عام آدمی کی نسبت بہت سے کام زیادہ کرسکتے تھے۔‘‘
ایک دفعہ حضرت چودھری صاحبؓ کو جسٹس انوار الحق صاحب سے لندن میں ملنا تھا۔ پونے آٹھ بجے کا وقت مقرر تھا۔ آپؓ کو مکرم چوہدری انور کاہلوں صاحب نے لے کر جانا تھا۔ آپؓ نے سات بجے ہی یاد دہانی کروانا شروع کردی اور جب ذرا تاخیر کا اندیشہ ہونے لگا تو آپؓ نے چوہدری صاحب موصوف کو مخاطب ہو کر کہا:

قت کی پابندی کے متعلق میری عمر بھر کی روایات تم مجھے لیٹ کروا کر توڑ دو گے۔ جناب جسٹس انوارالحق صاحب یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو منظم کیا ہوا تھا۔‘‘

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ) نے بیان کیا کہ ’’چوہدری صاحب دفتر میں سب سے پہلے پہنچتے تھے۔ اگر میٹنگ نوبجے رکھی ہوتی تو نو بجے سے ایک منٹ قبل ہی وہ مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے۔‘‘

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’سعادتمند وہ ہے کہ جس نے وقت پایا اور پھر اُسے غفلت میں ضائع نہ کیا۔‘‘ (اعجاز المسیح)

…*…*…*…

جنرل عبدالعلی ملک (ہلال جرأت)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2012ء میں پاکستانی فوج کے احمدی سپوت جنرل عبدالعلی ملک صاحب کا مختصر تذکرہ شامل اشاعت ہے۔

ستمبر1965ء کی جنگ کا دوسرابڑا محاذ سیالکوٹ کا تھا جہاں چونڈہ کے محاذ پر ہندوستانی ٹینکوں کی زوردار یلغار کو ایک معمولی سی تعداد کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کے بریگیڈیئر عبدالعلی ملک نے روک دیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی دوسری بڑی جنگ تھی۔ اگرچہ ڈویژنل کمانڈر کاخیال تھا کہ حملہ بہت بڑا ہے اور فوج کی قلیل تعداد اس کا مقابلہ نہ کرسکے گی۔ لیکن جرأت مند بریگیڈیئر علی ملک نے اپنے عزم کا یوں اظہار کیا :

اگر میں نے ایسا کیاتو سیالکوٹ کے انتہائی اہم ترین ضلع پر دشمن کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں دشمن کی اس یلغار سے چونڈہ میں نمٹنے کی کوشش کروں۔

چنانچہ اجازت ملنے کے بعد، پاکستانی فوج کی قلیل تعداد کے باوجود، بریگیڈیئر عبدالعلی ملک نے ایسی حکمت عملی اور جرأت کا مظاہرہ کیا کہ ہندوستان کی ’فخر ہند ٹینک رجمنٹ‘ تین دن تک کوشش کرنے کے بعد اپنے ٹینک میدان میں چھوڑ کر پسپا ہوگئی۔ بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کو ان کی جرأت اور جذبۂ حریّت کے اعتراف میں افواج پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین اعزاز’’ہلال جرأت‘‘دیا گیا۔

دسمبر1971ء کی جنگ میں جنرل عبدالعلی ملک کو شکرگڑھ کے محاذ پروطن کی حفاظت کے لئے ڈویژنل کمانڈنگ آفیسر کی حیثیت سے لڑنے کا موقع ملا۔

…*…*…*…

جنرل اختر حسین ملک کو ہٹانے کا واقعہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2012ء میں ایک مضمون (مرتبہ: پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب) شامل اشاعت ہے جس میں ’فاتح چھمب‘ جنرل اخترحسین ملک کو کمان سے ہٹانے کے واقعہ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

٭ پاکستان کے سینئر صحافی جناب شریف فاروق اپنی کتاب ’’پاکستان میدان جنگ میں‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ یکم ستمبر 1965ء کو شیر دل جرنیل اختر حسین ملک کی سرکردگی میں پاک فوج کے جوانوں نے مقبوضہ کشمیرکے علاقہ چھمب میں حیرت انگیز کارروائی شروع کی۔ چھمب پر قبضہ کرکے کسی مقابلہ کے بغیر دریائے توی عبور کر لیا۔ اس کے بعد فوج برق رفتاری سے بھارت کے مضبوط گڑھ جوڑیاں کی طرف بڑھنے لگی۔ چھمب سیکٹر میں پاکستان کے حملہ کو فوجی زبان میں Grand Slam کا نام دیا گیا۔ چھمب گزشتہ 17سال سے بھارت کا بہت بڑا گڑھ تھا۔ یہاں انہوںنے اتنی بھاری تعداد میں خوراک، اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ کر رکھا تھا کہ اگر وہ یہاں سالوں تک لڑنا چاہتے تو کافی ہوتا لیکن پاکستان کی جواں ہمت فوجوں کے ایک ہی ہلّہ نے ان کے قدم اکھاڑ دئیے۔

٭ کالم نویس اور فوجی تجزیہ نگار کرنل (ر) اکرام اللہ نے اپنے کالم ’’قندیل‘‘ میں تحریر کیا کہ بھارت نے ریاست کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے 1964ء کے وسط میں آزاد کشمیر کے چاروں سیکٹرز میں وسیع گوریلا آپریشن کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر دراندازی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس پر جنرل اختر ملک نے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے مشورہ سے جوابی کارروائی (Counter Infiltration) کا منصوبہ بنایا جسے آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا اور صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اس منصوبہ کی منظوری بھی دیدی۔ اسی منصوبہ کے آخری حصہ کا نام آپریشن Grand Slam رکھا گیا جس کا مقصد چھمب جوڑیاں کے علاقہ میں کارروائی کرکے اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔
٭ بریگیڈئر (ر) شوکت قادر لکھتے ہیں کہ: میجر جنرل اخترملک ایک دلیر اور جری کمانڈر تھے جو دبائو میں بھی گھبراتے نہیں تھے اور پُر سکون رہتے تھے اور نہ صرف افسروں میں بلکہ اپنے جوانوں میں بھی اعتماد کی جوت جگا دیتے تھے جس سے حوصلے کہیںبلند ہو جاتے۔ آپریشن (Grand Slam) یکم ستمبر کو صبح سویرے پانچ بجے شروع ہونا تھا۔ یہ منصوبہ بندی کے مطابق شروع ہوا۔ چھمب مقررہ وقت کے اندر سرنگوں ہو گیا اور صبح سات بجے کے قریب ہماری افواج نے دریائے توی کو عبور کرنا شروع کردیا۔ آگے کی جنگی کارروائی تیزی سے جاری رہی اور بعد دوپہر ایک بجے تک افواج نے اپنی نفری اور پوزیشن مستحکم کر لی اور اب وہ اپنے مربوط خطوں میں داخل ہونے کے لئے تیار کھڑی تھیں اور روشنی ختم ہونے سے کافی وقت پہلے اکھنور پر حملے کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال اکھنور تک پہنچنا ہماری قسمت میں نہ تھا (کیونکہ کمانڈر اختر ملک اور ان کے لشکر کو جاری کارروائی کے درمیان میںروک دیا گیا۔)

٭ صحافی راحیلہ عبشائی اپنے مضمون (مطبوعہ روزنامہ ’جناح‘ 2؍ اکتوبر 2010ء) میں رقمطراز ہیں کہ: جب پاکستان نے 1965ء میں چھمب جوڑیاں پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تب ہندوستانی افواج کے مورال گر چکے تھے اور وہ بدحواسی میں پسپا ہو رہی تھیں۔ اُس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ اکھنور پر قبضہ کرلیا جاتا اور یہ تقریباً ہو چکا تھا کیونکہ جنرل اختر حسین نے اپنی اعلیٰ جنگی مہارت اور فوج کی بے مثال قربانی سے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ مگر صدر ایوب نے جنرل اختر حسین ملک کو وہاں سے ہٹا دیا۔ یہ ایک بہت بڑی سیاسی و جنگی غلطی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب، اختر ملک کو ذاتی طور پر پسند نہ کرتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھ کر انہیں ہیرو بنا دیا جائے۔ ان کو یہ پوزیشن جنرل یحییٰ خان کو دینی تھی۔ اس چکر میں ہندوستانی افواج کو وقت مل گیا اور وہ سنبھل گئے۔ پاکستانی افواج و کشمیری مجاہدین پر اس اچانک تبدیلی کا اثر پڑا۔ علاوہ ازیں جنرل یحییٰ خان عیاش طبع تھے اور وہ میدان جنگ میں36 گھنٹے بعد پہنچے جبکہ حالتِ جنگ میں ایک ایک منٹ قیمتی ترین ہوتا ہے۔

٭ جنگ ستمبر 1965ء کے حوالہ سے ادارہ نوائے وقت کی ایک مجلس مذاکرہ میں میجر جنرل محمد شفیق نے چھمب جوڑیاں آپریشن کا تجزیہ یوں کیا کہ: پاکستانی افواج کا ہدف اکھنور پر قبضہ کرنا تھا جس کے لئے فوجی دستہ کی کمان جنرل اختر حسین ملک کر رہے تھے۔ یہ حملہ اتنا اچانک کیا گیا کہ ہندوستانی افواج اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ نکلیں اور اکھنور پر قبضہ کے امکانات روشن ہوگئے۔ اگر اکھنور پر پاکستانی افواج کا قبضہ ہو جاتا تو ہندوستان (اپنی جنگی حکمت کے لحاظ سے) جنگ ہار چکا تھا۔ نہ وہ سیالکوٹ پر اپنی یلغار کو عملی جامہ پہنا سکتا اور نہ کشمیر میں اپنے آپ کو اس قابل بنا سکتا کہ اپنا قبضہ جاری رکھ سکے۔ یہ ایک ایسا موقع تھاجس کو اپنی نااہلی سے گنوادیا گیا۔ ہوا یہ کہ جب جنرل اختر ملک کامیابی سے پیش قدمی کر رہے تھے اُس وقت ان کو کمان سے ہٹا دیا گیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیںہوا۔ کمان سے سبکدوش کرنا تو ہوتا رہتا ہے جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیںلیکن ایک ملٹری آپریشن جو کامیابی سے ترقی کر رہا ہو اس کے دوران کمانڈر کو ہٹانا درست نہیں ہوتا۔ جو تحقیق میںنے کی ہے، میری ناقص رائے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ ایک شدید تر غلطی تھی جس کی تفتیش ہونی چاہئے تھی اور جو لوگ اس غلطی میں ملوث تھے ان کو سزا ملنی چاہئے تھی۔ جب اس آپریشن کے دوران کمان بدلی تو اس کی پہلے تیاری نہیںکی گئی تھی۔ اس وجہ سے نئے کمانڈر جنرل یحییٰ خان کے آپریشن میں تین دن کی تاخیر ہو گئی۔ تین دن کی تاخیر ہندوستانی فوج کے لئے ایک آسمانی تحفہ ثابت ہوا۔ وہ Panic سے سنبھل گئے اور دوبارہ دفاع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ جنرل یحییٰ خان اکھنور نہ پہنچ سکے۔

٭ کتاب "History of Indo Pak War ’’1965 کے مصنف جنرل محمود نے اپنی کتاب میں جنرل اختر حسین ملک کا ایک تاریخی نوعیت کا خط اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے کہ: یہ خط جنرل اختر ملک نے اپنے چھوٹے بھائی جنرل عبدالعلی ملک کو تحریر کیا تھا جو اُن کی وفات کے بعد اُن کے کاغذات میں سے جنرل اختر حسین ملک کے بڑے صاحبزادے میجر (ر) سعید اختر ملک کو ملا تھا‘‘۔

انقرہ کے پاکستانی سفارتخانہ سے 22نومبر 1967ء کو لکھے جانے والے اس خط کا خلاصہ درج ذیل ہے:
میرے پیارے بھائی!

آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:

a۔’’چھمب کے سرنگوں ہونے کے بعد آپریشن کے پہلے روز ہی عملی طور پر کمانڈ تبدیل ہو گئی تھی جب عظمت حیات نے میرے ساتھ وائر لیس کا رابطہ منقطع کر دیا تھا۔ میںنے بذات خود ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اس کا ہیڈکوارٹر تلاش کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہا۔ سہ پہر کو میںنے اپنے M.P آفیسرز گلزار اور واحد کو بھیجا کہ وہ کوششیں کرکے اُس کا کھوج لگائیں۔ لیکن وہ بھی ناکام لَوٹے۔ اگلے روز مَیںنے اسے جا لیا۔ اور اُس نے سہمے اور گھبرائے ہوئے انداز میں مجھے مطلع کیا کہ وہ یحییٰ کا بریگیڈیر ہے اور گزشتہ روز جنرل یحییٰ نے اُس کو ہدایت دی تھی کہ وہ مجھ سے مزید کوئی احکامات نہ لے۔ حالانکہ ابھی کمانڈ میں باضابطہ تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے یہ بہت بڑی غدّاری تھی۔

b۔ مَیں نے باقاعدہ بحث کی اور پھر یحییٰ سے درخواست کی کہ اگر وہ کامیابی کی تحسین و تکریم چاہتا ہے تووہ مجموعی طور پر کمانڈ سنبھال لے لیکن مجھے اپنے نائب کے طور پر اکھنورجانے دے لیکن اُس نے انکار کر دیا۔ اُس نے اس سے بڑھ کر یہ کیا کہ پورا پلان ہی تبدیل کر دیا۔ وہ اپنا سر قصبہ Troti سے ٹکراتا رہا اور ہندوستانیوں کو اکھنور واپس لَوٹ آنے کا موقع فراہم کر دیا۔ ہم جنگ کے پہلے روز ہی سبقت کھو بیٹھے اور اس کو دوبارہ کبھی حاصل نہ کر پائے۔ بالآخر چونڈہ میںمرنے مارنے پر ڈَٹ جانے کی کارروائی نے ہندوستانیوں کو صفیں چیر کر اندر گھس آنے سے باز رکھا۔

c۔ ایوب، موسیٰ یا یحییٰ نے کبھی بھی مجھے کمانڈ سے ہٹائے جانے کی وجہ نہیں بتائی۔ زیادہ سے زیادہ وہ سب شرمندہ نظر آتے تھے۔

d۔ جبرالٹر آپریشن شروع کرنے سے پہلے پاکستان کے طرفدار کشمیریوں کو آگاہ نہ کرنا کمانڈ کا فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ میرا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد مسئلہ کشمیر کو سرد خانہ سے نکالنا اور اسے دنیا کے نوٹس میں لانا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آپریشن کا پہلا مرحلہ بے حد ضروری تھا یعنی سیز فائر لائن کے اس طرف ہزاروں کی غیر منکشف دراندازی کو عملاً کامیاب بنانا۔ میں کسی بھی حالت میں پاکستان کے طرفدار کشمیریوں کو آگاہ کرنے پر تیار نہ تھا۔ کیونکہ ایک بھی ڈبل ایجنٹ کے باعث یہ سارا آپریشن کارروائی سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر جاتا ۔

e۔ حاجی پیر میرے لئے زیادہ فکرمندی کا باعث نہیں بنا۔ جلد بعد Grand Slam آپریشن کی وجہ سے ہندوستانیوں کا حاجی پیر میں جمع ہو جانا ہمارے لئے مدد گار ثابت ہوتا کیونکہ ان کو وہاں سے اپنے دستے باہر نکالنا پڑتے اور اس طرح وہ ہماری کارروائی کے حاصل کردہ فوائد بڑھا کر ہمارے حوالے کرتے۔ درحقیقت یہ اکھنور کے سقوط کے بعد ہی ہونا تھا کہ ہم آپریشن جبرالٹر کی پوری پوری قیمت وصول کر پاتے مگر ایسا نہ ہو سکا!۔

f۔ ذوالفقار علی بھٹو اس بات پر زور دیتے رہے کہ ان کے ذرائع نے انہیں یقین دہا نی کرائی ہے کہ اگر ہم بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی نہ کریں تو بھارت حملہ نہیں کرے گا۔ مجھے بہرحال یقین تھا کہ آپریشن جبرالٹر سے جنگ چھڑ جائے گی اور میںنے یہ بات GHQ کو بتا دی تھی۔ مجھے اس نتیجہ پر پہنچنے کے لئے کسی آپریشن انٹیلی جنس کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو محض کامن سینس کی بات تھی۔ اگر میں آپ کا گلا پکڑوں تو یہ امید کرنا میری حماقت ہو گی کہ اس کے بدلہ میں آپ مجھے پیار کرنے لگیں گے۔ چونکہ مجھے یقین تھا کہ جنگ ضرورہو گی اس لئے گرینڈسلام کے لئے میرا پہلا انتخاب جموں کا ہدف تھا۔ وہاں سے ہم اپنی کامیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صورت حال کے مطابق سامباؔ کی طرف پیش قدمی کرتے یا خاص کشمیر کی جانب۔ بہرصورت چاہے یہ جموں ہوتا یا اکھنور، اگر ہم اپنا ہدف حاصل کر لیتے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہندوستانیوں کو سیالکوٹ پر حملہ کرنے کی ہمت ہوتی۔

g۔ میںنے ایک کتاب لکھنے پر سنجیدگی سے غور کیا تھا لیکن اب اس خیال کو ترک کر دیا ہے۔ کیونکہ وہ کتاب حقیقت کو آشکار کرتی اور اس کے متعلق ہردلعزیز ردّعمل میری خودی کو خوش کرتا۔ لیکن آخرکار یہ حبّ الوطنی کے منافی عمل ہوتا۔ یہ فوج کے حوصلہ کو تباہ کر دیتا اور لوگوں میں اس کی عظمت کو کم کر دیتا۔ یہ کتاب پاکستان میں ممنوع قرار پاتی اور بھارتیوں کے لئے نصابی کتاب بن جاتی۔ مجھے اس بات پر کوئی شک نہیں کہ بھارتی، جنگ کی سبکی کی وجہ سے، ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے اور اوّلین موقع پر اس کا بدلہ لیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں ہمیں ضرب لگائیں گے اور ہمیں اس صورتحال کے بچائو کے لئے اپنے تمام ذرائع استعمال کرنے ہوں گے… اور ہاں ایوب اس مہم میں پوری طرح شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انہی کے فکر کا نتیجہ تھا اور انہوں نے ہی مجھے حکم دیا تھا کہ جب جبرالٹر وغیرہ مہمات کی منصوبہ بندی ہو رہی ہو تو مَیں موسیٰ کو نظر انداز کر دوں۔ مَیں کمانڈر انچیف موسیٰ خان کی نسبت ایوب خان اور شیر بہادر کے ساتھ زیادہ رابطے میں تھا۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اچھا فوجی ذہن رکھنے کے باوجود ایوب خان کا دل کمزوری کی طرف مائل تھا۔ اور المیہ یہ ہے کہ نازک صورتحال پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کا دل ڈوبنے لگا تھا…۔

…*…*…*…

دنیا کا دوسرا بڑا دریا دریائے ایمیزون (جنوبی امریکہ)

روزنامہ ’الفضل ربوہ ‘‘ 20ستمبر 2012ء میں دنیا کے دوسرے بڑے دریا، دریائے ایمیزون، کا تعارف شائع ہوا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا دریا نیل ہے۔

دریائے ایمیزون (Amazon) پَیرو کے انڈس سے نکل کر جنوبی امریکہ میں قریباً 6337کلومیٹر تک بہنے اور پچیس لاکھ مربع میل کے رقبے کو سیراب کرنے کے بعد بحرالکاہل میں جاگرتا ہے۔ مختلف مقامات پر ایک ہزار سے زیادہ دریا اس میں گرتے ہیں چنانچہ سمندر کے قریب اس کا دہانہ دوسو میل چوڑا ہے اور اس کا پانی گرنے سے پیدا ہونے والی رَو سمندر میں ڈیڑھ سو میل دُور تک اثرانداز ہوتی ہے۔ اس دریا میں جتنا پانی جمع ہوتا ہے وہ دنیا کی سطح پر بہنے والے کُل پانی کا پانچواں حصہ ہے۔

دریائے ایمیزون کے جنگلات کا رقبہ ، ستّرلاکھ مربع کلومیٹر، یعنی یورپ کے رقبے سے زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ کرۂ ارض پر موجود آکسیجن میں سے آدھی ایمیزون کے جنگلات خارج کرتے ہیں۔ ان جنگلوں میں حشرات الارض، جانوروں اور پودوں کی لاتعداد اقسام موجود ہیں ۔ یہاں سے اب تک کیڑے مکوڑوں کی 800 سے زیادہ اقسام جمع کی جاچکی ہیں۔ دریا میں سینکڑوں اقسام کی مچھلیاں نیز بحری گائے، کچھوے اور اژدہے بھی پائے جاتے ہیں۔

…*…*…*…

اگلے الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

گزشتہ الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button