تاریخ احمدیتمتفرق مضامین

خلافت خامسہ کے مبارک دورکے پندرہ سال

(فضل الرحمان ناصر۔ استاذ جامعہ احمدیہ یوکے)

جماعت احمدیہ مُسلمہ عالمگیر کیخدمت دین وخدمت انسانیت کے مختلف میدانوں میں عظیم الشان اورروزافزوں ترقیات اورالٰہی نصرت وتائید کے روشن نشانات سے معمور خلافت خامسہ کے مبارک دورکے پندرہ سال

(چندجھلکیاں اعدادوشمار کے آئینہ میں )

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :۔

’’جب کوئی رسول یامشائخ وفات پاتے ہیں تودنیاپرایک زلزلہ آجاتاہے اوروہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتاہے مگر خداکسی خلیفہ کے ذریعے اس کومٹاتاہے اورپھرگویااس امرکاازسرنواس خلیفہ کے ذریعے اصلاح واستحکام ہوتاہے۔‘‘

(الحکم 14 اپریل 1908)

19 ؍اپریل2003 ءکو خلافت احمدیہ کے جانثار وں پرایک ایساہی زلزلہ آیاجب ہمارے بہت ہی پیارے دل وجان سے عزیز امام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی اچانک جدائی کی خبرسے ہراحمدی کی آنکھیں اشکبار اوردل غمگین اورمحزون تھا۔ 19 ،20 اور21اپریل تین دن رات اس الٰہی جماعت کاہرفرد سجدہ گاہوں میں دعائیں کرتے ہوئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہاتھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے پیارے اوروفادار رب کی وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ(سورۃ نور56)کی نوید سے اندرہی اندران کی روحیں یقین کے پانیوں سے تسکین پارہی تھیں کہ اب جلد ہی اللہ تعالیٰ اپنی قدیم سنت کے موافق اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنی قدرت کا زبردست ہاتھ دکھائے گا۔ ان میں سے ہرایک اس یقین سے پُرتھاکہ خلیفہ خدا بناتاہے۔ آج مومنین کی جماعت اپنے رب کی اس تقدیر کے جلوہ گر ہونے کا حسین نظارہ ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں سے کرنے کے لئے بے تاب تھی۔اورپھر سب دنیا نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت نے خلافت خامسہ کی شکل میں ایک زبردست کرشمہ ظاہرکرکے اس جماعت کوسنبھال لیا۔مخالفین کی جھوٹی خوشیاں ایک دفعہ پھرپامال ہوئیں اورمومنین خلافت کے الٰہی وعدہ کے ایفا ء سے شاداں اورمسرورہوئے ۔خلافت خامسہ کےابتدا کے ساتھ پہلے ہی روز سے خداتعالیٰ کی تائیدونصر ت خداکے ایک پاک بندے پر آسمان سے اترتی ہوئی ایک عالم نے دیکھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وہ الفاظ یاد آگئے۔

کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ

اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے

یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے زندہ اے گرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے

22 ؍اپریل2003ءکو ہمارے بہت ہی پیارے اوردل وجان سے عزیز آقاحضرت صاحبزادہ مرزامسروراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خلعت خلافت سے سرفراز ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا کے کونے کونےمیں پھیلے ہوئے کروڑہا احمدیوں کے دلوں میں اپنے اس محبوب کے لئے محبت ووفا کے حسین پھول کھلنے لگے جومشرق ومغرب میںدُوردُورکے ملکوںمیں آباد ہررنگ ونسل کےبےشمار احمدیوں کے رؤیائے صالحہ اورکشوف والہاماتِ صادقہ کے عطرسے معطّرتھے۔ محبت ووفااورصدق وصفاکی اس خوشبوسے ساراعالَم احمدیت معطرہوگیا۔ان میں وہ بھی تھے جو اس سے پہلے حضرت مسرورکے نام سے بھی واقف نہ تھے ۔ نہ کبھی ان کی پاکیزہ صورت دیکھی تھی اورنہ ان سے کبھی بات کی، نہ ان کے بارہ میں کچھ سناتھا۔ہاں ان میں سے بعض کوخوابوں اورکشوف میں آپ کی نورانی صورت دکھائی جاتی رہی اور بعض کوانہیں الٰہی بشارتوں میں آپ کانام حضرت مرزا مسرور احمد بھی بتایاجاتارہا۔ بعض کوایک مدت پہلے کچھ ایسے روحانی نظارے دکھائے گئے تھے جس کی تعبیرآج صبح صادق کی طرح پوری ہوتی ہوئی دیکھ کران کے ایمان آسمان کی رفعتوں کوچھورہے تھے۔

قدرت سے اپنی ذات کا دیتاہے حق ثبوت

انتخاب خلافت کی کارروائی کے بعد حضرت سیدنامسرور احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بطور خلیفہ انتخاب کانام سنتے ہی مسجد فضل اور اس کے گرد ونواح میں جمع دس ہزارسے زائداحمدیوں کاجمّ غفیراپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آگے بڑھنے کے لئے بے تاب ہوگیا۔ مسجد فضل کے دروازے کھلنے پر جو احباب اندر داخل ہوئے ان میں کئی ایک کھڑے تھے۔اس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ : احباب بیٹھ جائیں۔ ان الفاظ کاسنناتھاکہ جواحمدی جہاں تھاوہیں ایسے بیٹھ گیاجیسے ہواکے جھونکے سے فصل کے سب خوشے یکدم زمین پربچھ جاتے ہیں۔ خلافت خامسہ کے پہلے روزآسمان سے نازل ہونے والی قبولیت کے یہ وہ نظارے ہیں جواپنے ساتھ اَن گنت آسمانی اورزمینی فتوحات اور تائیدونصرت کی پیش خبریاں لئے ہوئے تھے۔

آج پندرہ سال بعد پیچھے مڑکرجب ہم اس دن کویادکرتے ہیں توایمانوں میں عجیب تازگی پیداہوتی ہے ۔ یہ کوئی انسانی منصوبہ نہیں تھا۔ قدم قدم پر واقعتاً آسمانی تائیدونصرت کادریابہتاہوانظرآتاہے ۔

اللہ تعالیٰ کی نظرانتخاب نے جس مبارک وجودکوخلعت خلافت پہنائی اس کااپناکیاحال تھا۔حضورایدہ اللہ تعالیٰ خود اپنے ایک تازہ انٹرویومیں بیان کرتے ہوئے فرماتےہیںکہ خلافت خامسہ کے انتخاب کے وقت جب میرے نام کا اعلان ہوا تو مَیں یہ دعا کر رہا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی میرے لئے نہ کھڑا ہو۔ بلکہ پہلی دفعہ جب گنتی میں کوئی غلطی لگی تو مَیں نے سر اٹھا کر دیکھا توجو ہاتھ کھڑے تھے مجھے یہی لگ رہا تھا کہ بہت تھو ڑے سے ہاتھ ہیں۔ تو مَیں نے کہا شکر ہے کوئی اَور نامزد ہوجائے گا۔ دوسری دفعہ پھر انہوں نےہاتھ کھڑے کروائے تو مَیں نے دیکھا تو کہا کہ ہیں تو کافی لیکن ابھی بھی کافی ہاتھ باقی ہیں جو کسی اَور کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ لیکن جب انہوں نے فائنل اناؤنسمنٹ کی تو مَیں پوری طرح کانپ اٹھا۔ بلکہ مَیں نے اسی مجلس میں یہ کہا کہ اب تو کوئی جائے مفر نہیں اور Excuse نہیں کر سکتے ، اس سے دوڑ نہیں سکتے۔ قواعد اجازت نہیں دیتے، نہیں تو مَیں شاید اس کو چھوڑ دیتا۔ … میرا تو نام جب صدر خدام الاحمدیہ کے لئے پیش ہوتا رہا، دو دفعہ پیش ہوا، مَیں تو وہاں بھی دعا کرتا رہا ہوں کہ نہ بنوں۔

احمدیت کاوہ قافلہ جو 1889ءسے 2003 ءتک ترقیا ت کی بے شمار منازل طے کرچکاتھا اب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس قافلہ کو نئےقافلہ سالار کی قیادت میں جس شان سے تیزی کے ساتھ ہرسمت میں آگے سے آگے بڑھارہا ہے اس کودیکھ کرحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی یادآجاتی ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا:

’’تم خداکے ہاتھ کاایک بیج ہوجوزمین میں بویاگیا ۔ خدافرماتاہے کہ یہ بیج بڑھے گااورپھولے گا اورہرایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اورایک بڑادرخت ہوجائے گا۔ پس مبارک وہ جوخداکی بات پرایمان لایا‘‘۔

(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309 )

خلافت خامسہ کاشجرہ طیبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامات سے خوب فیض پارہاہے جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے مسیح پاک علیہ السلام کواِنِّی مَعَکَ یَامَسْرُوْرکے الفاظ میںاور اس کے ساتھ کئی اور رؤیااورکشوف اورالہامات میں دی تھی۔یہ شجرہ طیبہ جن لذیذاورشیریں ثمرات سے لدا ہواہے اس کی ایک معمولی سی جھلک چنداعدادوشمار اور بعض منتخب ایمان افروز واقعات کی صورت میں ہدیہ قارئین ہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اعداووشمارکی زبان آسمانی تائید ونصرت اوراس کے ساتھ عشق وفا اورصدق وصفاکی ان روحانی اورنورانی کیفیا ت کو پوری طرح بیان نہیں کرسکتی جو درحقیقت ان ترقیات کی روح رواں ہیں ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے منظوم کلام میں فرمایاتھا

کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کیادنیامیں غنی ہوگا

ہیں سچے دل اس کی دولت اخلاص اس کاسرمایہ ہے

یہی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاہونے والا سرمایہ ہے جس کاذکر ایک عجب شان سے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2008میں خلافت جوبلی کی تقریرمیں ان الفاظ میں فرمایاکہ
’’میری توبہت عرصہ پہلے خداتعالیٰ نے یہ تسلی کروائی ہوئی ہے کہ اس دورمیں وفاداروں کوخداتعالیٰ خود اپنی جناب سے تیارکرتارہے گا‘‘۔

(خطاب برموقع خلافت جوبلی)

تاہم یہ اعدادوشمار ہمارے ایمان و ایقان کی کھیتیوں کو خوب سیراب کرتے رہیں گے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح عام طور پرجماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میںان اعدادوشمارکوبیان فرماتے ہیں۔ ذیل میں جلسہ سالانہ 2003 اور جلسہ سالانہ 2017 کے چند اعدادوشماردرج کئے جاتےہیں ۔ان سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ان پندرہ سالوں میں کس طرح ہرپہلوسے جماعت احمدیت نے ترقی کےہرمیدان میں آگے ہی آگے قدم بڑھایا۔

خلافت خامسہ کےبابرکت دورمیں35 نئے ممالک میں احمدیت کانفوذ

ہرسال اللہ تعالیٰ خود نئے سے نئے علاقوں اورملکوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے تعارف کے معجزانہ سامان کرتاہے ۔اس کے چند ایمان افروز واقعات پیش ہیں۔

گوادے لوپGUADELOUPE (جوکہ کریبین سی(Caribbean Sea)میں واقع ہے ۔جہاں 2007 میں ایک احمدی مبلغ اسلام کے ذریعے احمدیت کانفوذہوا۔اس کاذکرکرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ :
ہمارے مبلغ سلسلہ حافظ احسان سکندر صاحب اورنیشنل سیکرٹری کو یہاں بھجوایا گیا تھا اور یہ بالکل ایسی جگہ گئے تھے جہاں کوئی ان کو جانتا نہ تھا ،یہ کسی کو جانتے نہیں تھے۔ یہ جب وہاں پہنچے ہیں تو ایک مسجد میں چلے گئے اور وہاں جا کر تعارف کرایا کہ میں مشنری ہوں۔ اس پر لوگوں نے ان سے کہا ان کا امام نہیں آیا ہوا۔ آپ نماز پڑھائیں۔ تو بسم اللہ یہیں سے ہوگئی کہ پہلے جاتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو امامت کی توفیق عطا فرمادی۔ پھر نماز کے بعد سوال وجواب شروع ہوئے۔ مجلس لگ گئی۔ اور ایک دوست عیسیٰ احمدصاحب نے بیعت کرلی۔ پھر نمازِ جمعہ بھی اس مسجد میں ادا کی۔ پھر سوال جواب کی مجلس لگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پانچ مزید بیعتیں عطا فرمادیں اور چند روز کے بعد اسی طرح مجالس لگتی رہیں ۱ور سات افراد نے بیعت کی۔ اس طرح یہاں کُل تیرہ افراد پر مشتمل جماعت قائم ہوگئی۔ کرایہ پر مکان لے لیا گیا ہے اور مشن ہاؤس اور سینٹر قائم کر دیا گیا ہے۔ جب پتہ لگا تو اخباروں نے بھی ہمارے وفد کے انٹر ویو لئے، ریڈیو اور ٹی وی نے بھی تعارف کروایا۔

(خطاب جلسہ سالانہ 2007)

2008 ءکاسال جماعت احمدیہ میں صدسالہ جوبلی کے سال کے طورپرمنایاگیا ۔ اس سال کے جلسہ سالانہ پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ گزشتہ سال تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 189 ممالک شامل ہو چکے تھے اور اِس سال میرا خیال تھا کہ شاید کوئی ایک آدھ ملک شامل ہو جائے۔ دُعابھی تھی اور بار بار میں وکیل التبشیرصاحب سے اِس بارے میں اِستفسار بھی کرتا رہا، پوچھتا بھی رہا۔ جن جماعتوں کے سپرد یہ کام تھا اُن کو بھی توجہ دلائی جاتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اِس سال پھر اللہ تعالی نے چار نئے ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگا دیا۔ یہ ممالک ہیں تاجکستان (Tajikistan)۔ پغاؤ (ساؤتھ پیسیفک)۔ آئس لینڈاور لیٹویا (Latvia)۔ اور اِس طرح اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ 193 ممالک میں پھیل چکی ہے۔

2003 ءتک دنیاکے175ممالک میں احمدیت کاپودالگ چکا تھا۔2017میں یہ تعداد خداتعالیٰ کے فضل سے 35ممالک کے اضافہ کے ساتھ 210 ہوچکی ہے۔

ذیل میں خلافت خامسہ کے بابرکت دورمیں سال بہ سال شامل ہونے والے ممالک کاایک گوشوارہ پیش ہے۔
کل ممالک جن میں احمدیت کانفوذ ہوچکاہے

1984 ہجرت سے لے کراب تک کل اضافہ

خلافت خامسہ کےبابرکت دورمیں بیرون پاکستان ہزاروں نئی جماعتوں کاقیام

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہرسال مختلف ممالک میں سینکڑوں نئی بستیوں اور شہروں میں احمدیت کے پودے لگتے چلے جارہے ہیں ۔نئی جماعتوں کے قیام کے چند واقعات پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2007کے جلسہ سالانہ پر فرمایاکہ:

امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ مونواورکونفوکے علاقے مشرکین کا گڑھ ہیں۔ اس ایریا میں ایک شہر ویدا (Vida) ہے جس میں مشرکین کا سالانہ تہوار ہوتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں جماعت نے کئی بار تبلیغ کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی بلکہ ایک مرتبہ تو مار پیٹ تک نوبت پہنچ گئی۔ 2005ء میں جب مَیں نے وہاں دورہ کیا تو کہتے ہیں کہ وہاں اس علاقہ میں دورہ سے پہلے صرف 3جماعتیں تھیں اور دورہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ بہت سارے آئے ،ملے اور ٹیلی ویژن اوراخباروں نے بھی خبریں دیں۔ چنانچہ دوبارہ اس کے بعد جب انہوں نے تبلیغی رابطے شروع کیے تو کہتے ہیں کہ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ لوگوں کے گاؤں کے گاؤں احمدیت کی آغوش میں آنے شروع ہوگئے اور 57نئی جماعتیں قائم ہو گئیں اور ان کی اکثریت مشرکین میں سے احمدی ہو نے والوں کی ہے۔ اب یہ خدائے واحد کا نام لینے لگ گئے ہیں۔ جو مسلمان شامل ہوئے ہیں وہ بھی اپنے اماموں اورمساجد کے سمیت شامل ہوئے ہیں۔

(خطاب جلسہ سالانہ 2007)

جلسہ سالانہ 2012 کی دوسرے دن کی تقریر کے دوران حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
نئی جماعتوں کے قیام کے کچھ واقعات ہیں۔ مبلغ برنی کونی نائیجر لکھتے ہیں کہ ماذوجی (Mazogee) گاؤں نائیجیریا کے بارڈر پر واقع ہے۔ ہم لوگ جب اس گاؤں میں تبلیغ کے لئے پہنچے تو گاؤں کے چیف صاحب نے بتایا کہ امام صاحب کام کے سلسلے میں کانو (نائیجیریا) گئے ہوئے ہیں اس لئے آپ پھر کبھی آئیں۔ اس لئے ہم لوگ تبلیغ کئے بغیر واپس آ گئے۔ ایک دفعہ پھرجب ہم اس گاؤں میں پہنچے تو گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ آج صبح ہی امام صاحب واپس آئے ہیں۔چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں امام صاحب سمیت گاؤں کے لوگ جمع ہو گئے۔ خاکسار نے اجازت لے کر حسبِ معمول احمدیت کا تعارف کروایا اور آخر پر سوال کرنے کے لئے موقع فراہم کیا۔ اس گاؤں کے امام صاحب جو کہ ایک سنجیدہ اور عمر رسیدہ شخصیت ہیں۔ انہیں عربی زبان میں بھی کافی مہارت ہے۔ حدیث اور تفسیر کے مروّجہ علوم حاصل ہیں۔ امام صاحب نے بڑی خوشی کے ساتھ ہمارا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہم سب بیعت کے لئے تیار ہیں۔ اور پھر امام صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مَیں ’کانو‘(Kano) میں تھا۔ رات درود شریف کے ساتھ دعائیں کرتا ہوا سو گیا تو خواب میں مجھے بڑی زور دار آواز آئی کہ امام مہدی علیہ السلام کا دنیا میں ظہور ہو چکا ہے اور اس کے سفید جلد والے لوگ تمہارے علاقے میں پھر رہے ہیں۔ ان تک پہنچواور بیعت کرو۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے جاگتے ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور صبح سامان باندھ کر یہاں پہنچ گیا۔ آگے آپ لوگوں کو موجود پایا۔ اس لئے نہ مجھے شک ہے اور نہ ہی کوئی سوال بلکہ مَیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے آپ کو ہمارے گاؤں تک بھیجا ہے۔ الحمد للہ اب یہ سارا گاؤں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکا ہے اور ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال بہت کم بارش ہوئی جس کی وجہ سے شدید مشکلات تھیں۔ انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھاتو میں نے اُن کو کہا تھا کہ نمازِ استسقاء پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ ہمارے ایک معلّم بیان کرتے ہیں کہ ایک سکول ٹیچر محمد طورے صاحب ان کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ باقاعدگی سے ریڈیو احمدیہ سنتے تھے لیکن جماعت سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ایک دن سنا کہ جماعت کے خلیفہ نے اس علاقے کے لئے بارش کی خصوصی دعا کی ہے۔ پھر اس نے سنا کہ مالی جماعت کا امیر اُن کے علاقے میں آ رہا ہے تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ خود جا کر اُسے ملے۔ چنانچہ فراکو (Farako) گاؤں جہاں پروگرام تھا وہ وہاں پہنچ گیا۔ وہاں بھی اُس نے امیر سے سنا کہ اس علاقے میں بارشوں کے لئے خلیفۃ المسیح نے دعا کی ہے اور پھر خصوصی نماز پڑھائی۔ اس نے اپنے دل میں رکھ لیا کہ اگر اس سال غیر معمولی بارش ہوتی ہے تو صرف دعا کا نتیجہ ہو گی۔ کیونکہ کئی سال سے اچھی بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ جب بارش کا موسم آیا تو اُس نے دیکھا کہ ہر دوسرے تیسرے دن بہت بارش ہو جاتی ہے۔ وہ اس چیز کا گواہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے ایسی بارشیں نہیں ہوئیں۔ آج وہ اس لئے آیا ہے کہ احمدیت میں داخل ہو کیونکہ خدا خلیفہ کے ساتھ ہے۔ الحمد للہ۔ اب اس گاؤں میں کثرت سے لوگ بیعت کر رہے ہیں۔

2015کے جلسہ سالانہ کی ایک تقریر کے دوران حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بینن سے لوکل مشنری عالیوصاحب لکھتے ہیں کہ ہم ایک گاؤں لانتیری میں تبلیغ کے لئے گئے وہاں جب تبلیغ شروع کی تولوگ اسلام کی موجودہ حالت پرباتیں کرنے لگ گئے کہ آج مسلمان یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں یعنی ہرقسم کی خرابیاں گنوانے لگ گئے ۔تب ہم نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی آمدکامقصدبیان کیاکہ اسی حالت کی درستی کے لئے ،لوگوں کواللہ تعالیٰ کے قریب کرنےکے لئے توآپ علیہ السلام آئے ہیں ۔ اس پربعض لوگوں نے کہاکہ اگریہی امام مہدی ہیں توپھر کوئی معجزہ بیان کریں۔ تومشنری کہتے ہیں مَیں معجزات کی باتیں کرنے لگا توایک شخص کھڑاہوا۔اس نے کہا چھوڑو کہ معجزات کیاکیابیان ہوئے ۔ہمارے یہاں اس علاقے میں عرصے سے بارش نہیں ہوئی ۔دعاکرو کہ بارش ہوجائے ۔ہم تب مانیں گے ۔کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاپیغام پہنچانے آئے ہیں اوراگرتم یہی نشان مانگتے ہوتومیں بھی اس اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے تمہیں کہتاہوں کہ بارش ہوجائے گی اورکہتے ہیں کہ ہم نے دعاکی۔ اگلے دن دوسرے شہرمیں جب پہنچے توپیچھے ان کی اطلاع آئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رات ہی بارش ہوگئی۔ (الفضل انٹرنیشنل ۔ 5 فروری 2016)

نئی جماعتوں کے قیام کے حوالے سے جلسہ سالانہ 2015 پربعض ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

امیرصاحب کانگولکھتے ہیں کہ مشرقی صوبے میں دورہ کے دوران پمفلٹ تقسیم کئے ۔مخالفین نے یہ کوشش کی کہ لوگ پیغام نہ سنیں ۔گھرگھرجاکرلوگوں کومنع کیا ۔لیکن الحمدللہ اس کوشش کے باوجود ساؤتھ کے جس شہرمیں وہ گئے تھے وہاں اب تک ساٹھ سے زیادہ لوگ احمدیت قبول کرچکےہیں اوراس کے علاوہ اس علاقے میں مختلف جگہوں پرپانچ جماعتیں قائم ہوچکی ہیں۔ (الفض انٹرنیشنل ۔ 5 فروری 2016)

جلسہ سالانہ 2016ءکے خطاب کے دوران حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

نئی جماعتوں کے قائم ہونے کے واقعات توبہت سارے ہیں ۔ایک واقعہ امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ نیامینا ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں کودونگ (Kudang) میں جماعت کا قیام ہوا تو وہاں کے احمدیوں کو دیگر مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن اس گاؤں میں احمدیوں نے ایک تبلیغی پروگرام رکھا جس میں سارے گاؤں والوں کو دعوت دی۔ چنانچہ جب ہمارے مشنری نے وہاں تقریر کی اور انہیں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بتایا تو اس گاؤں کے چیف نے سارے مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہا کہ میں نے جماعت کے خلاف بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن آج جماعت احمدیہ کے مبلغ کی تبلیغ کا آغاز ہی کلمہ، سورۃ فاتحہ اور درود شریف کے ساتھ ہوا ہے اور جونہی میں نے مبلغ کے منہ سے کلمہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت سنی اسی وقت میرے تمام شکوک دور ہو گئے۔ موصوف نے اسی وقت اعلان کیاکہ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہا ہوں اور باقی لوگوں کو بھی یہی کہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں کے 635افراد نے اس جگہ پر بیعت کی۔ (الفضل انٹرنیشنل ۔ 13 جنوری 2017)

اس طرح کے سینکڑوں ہزاروں نشانات اللہ تعالیٰ کےفضل سے ہرسال دنیامیں ظاہرہورہے ہیں ۔ ذیل میں سال بہ سال نئی جماعتوں کے قیام کی تعداد درج کی جاتی ہے۔

تعداد اضافہ نئی جماعت کاقیام


گزشتہ 15 سال میں کل 9,907 نئی جماعتوں کاقیام ہوا۔
نئے ملکوں اورنئے علاقوں اور نئی قوموں میں احمدیت کانفوذ کسی غیرمعمولی معجزہ سے کم نہیں ۔ ایسے متعدد واقعات خلفائے احمدیت کی پاکیزہ زبان سے سن کر دل اللہ تعالیٰ کے شکرکے جذبات سے لبریزہوجاتاہے۔
… … … … … … … … … …
خلافت خامسہ کےبابرکت دورمیں بیرون پاکستان
نئی مساجدکی تعمیر اورجماعت کوعطاہونے والی بنی بنائی مساجد
جماعت احمدیہ مسلمہ کے قیام کامقصد دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحیدکوقائم کرنااوردنیا کواللہ تعالیٰ کے عبادت گزاربندوں سے بھرناہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کاجس گاؤں یابستی یاملک میں نفوذ ہوتاہے وہاں مساجد کی تعمیر جو امن وسلامتی کاگہوارہ ہوتی ہیں اس کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جماعت احمدیہ کوہرسال سینکڑوں نئی مساجدبنانے کی توفیق مل رہی ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسالک کے لوگوں کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے سے مع نمازیوں کے بنی بنائی مساجد بھی جماعت احمدیہ کوعطاہورہی ہیں۔
گزشتہ 15سالوں میں احمدیہ مساجدمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے5273 کااضافہ ہوا۔
اس کاسال وار گوشوارہ درج ذیل ہے۔


یہ سب مساجد اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت کے نشانات میں سے ہیں ۔بعض ایسے ممالک ہیں مثلاً نیوزی لینڈ ، آئرلینڈ اورجاپان وغیرہ جہاں پہلی دفعہ جماعت کی مساجد تعمیرہوئی ہیں۔ان مساجدکے ساتھ بھی حیرت انگیز طورپربعض دلچسپ اورایمان افروزواقعات وابستہ ہیں جن کامطالعہ ایمان وایقان کی کھیتیوں کوخوب سیراب کرتاہے۔ بطورنمونہ مشتِ از خروارے کے طورپر چندواقعات پیش ہیں۔ ایسے متعددواقعات حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف مواقع پربیان فرماتے ہیں ۔جلسہ سالانہ 2007 پرفرمایاکہ :

اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی مساجد کی طرف بڑی توجہ ہو گئی ہے اور ہر ملک میں مسجدیں بن رہی ہیں۔ اور اگر یہ مسجدیں اسی طرح بنتی رہیں تو یہی جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہو گا۔انڈونیشیا میں بھی باوجود مخالفت کے ان کو 3مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے۔بنگلہ دیش میں 6مساجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کا تو آپ ایم ٹی اے پر بھی دیکھتے ہیں جہاں ایک نظم کے clipمیں وہ دکھاتے ہیں کہ بے تحاشا مولوی ڈنڈے لے کر آرہے ہیں، پتھر بھی مار رہے ہیں اور مسجدوں کے شیشے بھی توڑ دئیے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے وہاں کی جماعت کے ایمانوں میں مضبوطی بخشی ہوئی ہے اور وہ مسجدیں بناتے چلے جارہے ہیں۔ نائیجیریا میں بھی 28نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ اسی طرح ساؤتھ افریقہ کے ہمسایہ ملک سوازی لینڈ اور لیسوتھو میں جماعت کومسجد کی تعمیر کی توفیق ملی اور ایتھوپیا میں بھی۔ سیرا لیون میں 24نئی مساجد کا اضافہ ہوا۔ سینیگال میں تین مساجد کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح گیمبیا میں بھی۔ بہرحال مساجد کی تو اب یہ بے تحاشا لمبی لسٹ ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے مبلغ انچارج صداقت صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل سوئٹزرلینڈ میں میناروں کی تعمیر کی بہت مخالفت ہورہی ہے۔ یورپ میں عمو ماً مسجد کے مینار سے یہ لوگ بڑا ڈرتے ہیں۔ اور دو بڑی سیاسی پارٹیاں تو خاص طور پربڑی مخالفت کر رہی ہیں۔ اور اس موضوع پر ریفرنڈم کروانے کا پروگرام ہے۔ میڈیا کے مختلف نمائندوں نے اپنے طور پر ہمسایوں سے اور اردگرد کے دکانداروں سے اور وہاں بالکل سامنے جو ٹرام چلتی ہے، اس کے سٹاپ پہ جو لوگ کھڑے تھے ان سے ایک سروے کیا۔ اسی طرح اس کے بالکل سامنے سڑک پہ ایک چرچ ہے، ان چرچ کے لوگوں سے پوچھا اور مختلف سوالات کیے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب نے متفقہ طور پر یہی کہا کہ ’’ہمیں اس مسجد سے اور اس کے مینارے سے کسی قسم کاکوئی مسئلہ نہیں اور اس مسجد میں آنے والے لوگ بہت ہی پُر امن ہیں کیوں کہ حقیقی اسلام کے علمبردار ہیں‘‘۔

(خطاب جلسہ سالانہ 2007)

جلسہ سالانہ 2012کے موقع پر حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا

مساجد کے تعلق سے کچھ واقعات ہیں۔گھانا کی ایک خاتون حاجیہ فاطمہ نے شہر میں دو پلاٹ جماعت کو دئیے اور ایک پلاٹ پر تین سال کے عرصے میں مسجد بنانے کا وعدہ کیا۔ اُن سے کہا گیا کہ مسجد کی جلد ضرورت ہے۔ اس کے بچوں نے اُنہیں نئی گاڑی خرید کر دی تھی۔ اب دیکھیں کہ دور دراز علاقوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے کس طرح افرادِ جماعت میں قربانی کی روح پیدا کی ہے۔ کہتے ہیں بچوں نے نئی گاڑی خرید کر دی تھی انہوں نے بچوں سے کہا کہ یا تو یہ گاڑی بیچ کر اس کے پیسے اُسے دئیے جائیں تا کہ وہ مسجد کا کام جلد کروا سکے اور اگر یہ منظور نہیں تو گاڑی گھر کے سامنے کھڑی رہے گی ۔میں اُس پر نہیں بیٹھوں گی جب تک مسجد کی تعمیر کا کام مکمل نہیں ہو جاتا ۔ چنانچہ بچوں نے دوسری صورت کو تسلیم کیا اور مسجد کی تعمیر کروائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ماہ میں یہ مسجد تعمیر ہو گئی جو گھانا کے حساب سے تیس ہزار گھانین سیڈیز تقریباً سولہ ہزار ڈالر سے اوپر خرچ ہوئے۔

بورکینا فاسو کے ہمارے مبلغ حامد مقصود صاحب لکھتے ہیں کہ تگالہ (Tagala) میں امسال مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ جماعت کے افراد نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق وقارِ عمل میں بھر پور حصہ لیا۔ لجنہ کے ذمہ پانی کی فراہمی تھی جو تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے لاتی رہیں۔ خدام اور انصار کے ذمہ پتھر اور بجری مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ مستری کے ساتھ مدد کرنا بھی تھا۔ا س مسجدمیں دو سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ تگالہ گاؤں کے چیف صاحب جو کہ عیسائی تھے انہوں نے پہلے دن سے ہی نہ صرف مسجد کی تعمیر میں بھر پور حصہ لیا بلکہ قانونی مسائل کے حل کرانے میں بھی کافی معاونت کی۔ اُن پر مقامی چرچ کے اطراف سے کافی دباؤ تھا کہ کیوں مسجد کی تعمیر میں اتنے سرگرم ہیں؟ مگر انہوں نے کسی دباؤ کو قبول نہ کیا اور نہ صرف خود بلکہ چودہ دیہات کے چیفس کے ساتھ مسجد کے افتتاح میں شریک ہوئے اور احمدیوں کی محبت اور رواداری سے متاثر ہو کر ببانگ دہل اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور ہمارے ساتھ نماز جمعہ ادا کی۔

(خطاب جلسہ سالانہ 2012)

جلسہ سالانہ 2012 کے موقع پر دوران سال نئی تعمیرہونے والی مساجد کاذکرکرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا

جماعت کو دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی اُن کی مجموعی تعداد 338ہے جن میں سے 119 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 219 مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ امریکہ میں حالیہ دورے کے دوران ڈیٹن(Drayton)، کولمبس(Columbus)، ورجینیا(Virginia)، بالٹی مور(Baltimore)، ہیرس برگ(Harrisburg) وغیرہ میں مساجد کے افتتاح کی توفیق ملی۔
کولمبس میں تو پہلے مسجد بن چکی تھی لیکن انہوں نے اس دفعہ افتتاح کروایا۔ اُس کاایک دفعہ پہلے (افتتاح) ہوچکا ہے لیکن اُن کی خواہش تھی کہ پلیٹ لگائی جائے۔ بہرحال تین نئی مساجد وہاں بنیں۔ورجینیا کی مسجد بڑی خوبصورت اچھی بن گئی ہے۔ بالٹی مور میں ایک چار منزلہ عمارت بھی لی گئی ہے۔ ہیرس برگ میں مسجد ہادی کا افتتاح ہوا ہے۔ وسیع چرچ تھا جو خریدا گیا ہے۔یوکے میں اللہ کے فضل سے چھ نئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے،۔ مسجد طاہر (کیٹفرڈCatford)، بیت التوحید (فیلتھمFeltham)، بیت الامن (ہیزHayes)، بیت العطاء (وولور ہیمپٹنWolverhampton)، مسجدبیت الغفور (ہیلس اووَنHalesowen) دارالامان (مانچسٹرManchester)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے میں مساجد کی تعداد 16ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اور جگہوں پر مسجدیں بن رہی ہیں۔(خطاب جلسہ سالانہ 2012)


جلسہ سالانہ 2014 میں حضورانورایدہ اللہ بنصر ہ العزیز نے مساجد کی تعمیرکے حوالہ سے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا

مالی کے معلم ہیں ادریس صاحب وہ کہتے ہیں ان کے مشن ہاؤس میں ایک بزرگ عبداللہ جاراصاحب آئے۔انہوں نے مالی کے ایک گاؤں بابلے بُوغو میں احمدیہ مسجد کودیکھا اورحیران ہوئے ۔انہوں نے بتایاکہ یہ بالکل وہی مسجد ہے جوخداتعالیٰ نے انہیں خواب میں دکھائی ہے۔ پھرانہوں نے اپناخواب بتایاجس میں وہ کہتے ہیں کہ تمام دنیا خوبصورت مساجد سے بھری ہوئی ہے ۔خواب میں انہیں بتایاگیاکہ یہ تمام مساجد احمدیوں کی ہیں اوراحمدی سچے مسلمان ہیں۔پھرخواب میں انہیں ایک پرزورآوازآئی کہ وہ وقت دورنہیں جب یہ تمام دنیاپرغالب آجائیں گے یہ خواب بتاکرانہوں نے بیعت کرلی۔

مساجد کے تعلق سے واقعات میں آئیوری کوسٹ سے ہمارے ایک معلم کریم صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ دو ہفتہ قبل خواب میں دیکھا کہ گاؤں میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو کر ایک طرف جا رہے ہیں جبکہ ایک شخص ان کے آگے چل رہا ہے جس کے ہاتھ میں ایک عصا ہے۔ جو لوگ خواب میں اس کے پیچھے چل رہے تھے انہی میں سے بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم جس آدمی کے پیچھے چل رہے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو مَیں بھی خواب میں بھاگ کر ان لوگوں میں شامل ہو گیا۔ جب قریب سے دیکھا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جو ہماری ہدایت کے لئے ہمارے آگے چل رہے تھے۔ چنانچہ ہم ان کے پیچھے چلتے رہے۔ تھوڑی دور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا عصا زمین میں گاڑتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ یہاں اپنی مسجد بنائیں گے۔ چنانچہ ابھی چند دن پہلے جب گاؤں کے چیف نے ہمیں مسجد کے لئے زمین دکھائی تو وہ عین وہی جگہ تھی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں مجھے اپنا عصا گاڑ کر دکھایا تھا۔

برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ تینکو دُوگو (TenkoDogo)ریجن کی ایک ابتدائی جماعت کوکو نوغیں (Koko Nogain) میں کویت سے مولویوں کا ایک گروپ آیا اور ان کو ایک شاندار مسجد بنانے کی پیشکش کی۔ لیکن گاؤں والوں نے جب ان کو بتایا کہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے تو مولوی جماعت کے خلاف بولنے لگ گئے اور کہا کہ اگر آپ جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں تو ہم آپ کو بہت اچھی مسجد بنا کر دیں گے۔ اس پر گاؤں کے احمدی امام نے انہیں جواب دیا کہ اگر آپ مسجد بنانا چاہتے ہیں تو بنائیں لیکن یہ خیال مت کرنا کہ ہم جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں گے کیونکہ ہماری زندگیوں کا نچوڑ احمدیت ہے اور اس مٹی کی مسجد میں ہی ہم خوش ہیں۔ جو کچی مسجد بنی ہوئی ہے اسی میں ہم خوش ہیں اور اسی مٹی کی مسجد میں ہی ہم احمدی ہونے کی حالت میں مرنا پسند کریں گے اور جب تک میں زندہ ہوں اس جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ جواب ساری جماعت کے ایمان کی تقویت کا باعث بنا۔ یہ صورتحال دیکھ کر مولوی وہاں سے اٹھے اور برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب وہاں مٹی کی مسجد نہیں بلکہ ان کو مسجد کی منظوری دی گئی تھی اورپکی مسجد تکمیل کے مراحل میں ہے، تقریباً مکمل ہونے والی ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل 3جنوری 2014)

ایک اورواقعہ بیان کرتے ہوئے حضور ایّد ہ اللہ فرماتے ہیں

بینن سے ہمارے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ پاراکو شہرسے 85کلومیٹر دوراورمین روڈ سے سات کلومیٹر دورجنگل میں واقع براندو گاؤں میں 2009ءسے ہماری جماعت قائم ہے اوراس گاؤں کے لوگ فولانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سارادن جنگلوں میں گائیاں چرانے میں گزارتے ہیں ۔دوران سال جب یہاں مسجدکی تعمیر شروع کی تو مقامی جماعت کے مردوزن نے دن رات وقارعمل کیااورسخت محنت کے ساتھ کام کرکے جماعت کی ایک کثیررقم بچائی اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دوردراز علاقے میں اس سال (یعنی 2016ءمیں) جنوری میں دوسبز میناروں والی خوبصورت مسجد تکمیل کوپہنچی جس میں ڈیڑھ سوکے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 13 جنوری 2017)

(جاری ہے۔ باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button