تاریخ احمدیت

خلافت خامسہ کے مبارک دَورکے پندرہ سال (قسط نمبر 2)

(فضل الرحمان ناصر۔ استاذ جامعہ احمدیہ یوکے)

جماعت احمدیہ مُسلمہ عالمگیر کی خدمت دین وخدمت انسانیت کے مختلف میدانوں میں عظیم الشان اورروزافزوں ترقیات اورالٰہی نصرت وتائید کے روشن نشانات سے معمور خلافت خامسہ کے مبارک دَورکے پندرہ سال

(چندجھلکیاں اعدادوشمار کے آئینہ میں )

تحریک جدید کے مالی جہاد میں مالی قربانیوں اورشاملین میں اضافہ

2003 ءمیں جماعت احمدیہ کاتحریک جدید کا کَل چندہ 28لاکھ 12 ہزارپاؤنڈ ز تھا۔2004 ءمیں قریباًچارلاکھ کے اضافہ کے ساتھ 31لاکھ 60 ہزار ہو گیا۔ 2005 ءمیں مزید تین لاکھ سے زائدکے اضافہ کے ساتھ 34لاکھ 46ہزارپاؤنڈزہوگیا۔اورپھرہرسال کئی لاکھ کے اضافوں کے ساتھ 2016 ءمیں یہ بجٹ کروڑوں میںداخل ہوااور2017ءمیں ساری جماعت کوایک کروڑپچیس لاکھ اسّی ہزار پاؤنڈز تحریک جدید کی مدمیں پیش کرنے کی توفیق ملی۔ گویا خلافت خامسہ کے بابرکت دورمیں قریباًایک کروڑ پاؤنڈز کااضافہ ہوا۔

تحریک جدید کے مالی جہادمیں حصہ لینے والے جس اخلاص اور محبت سے یہ قربانیاں خدمت اسلام اورتمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لئے پیش کرتے ہیں ان کی چند مثالیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العز یزکے الفاظ میں درج ذیل ہیں ۔ ایک موقعہ پرفرمایا:

سوئٹزرلینڈ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک دوست جوکہ نیوشٹل جماعت کے صدرہیں ،نیشنل سیکرٹری تحریک جدید بھی ہیں ،انہوں نے بتایاکہ جب وہ سوئٹزرلینڈآئے اورسیاسی پناہ کی درخواست کی توجلدہی متعلقہ ادارے نے ردّ کردی ۔ اسی دوران تحریک جدید کے نئے سال کااعلان ہوگیا۔ ان کے پاس اکاؤنٹ میں کُل ایک ہزارفرانک کی رقم تھی جوانہوں نے وکیل وغیرہ کے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن تحریک جدید کے نئے سال کااعلان سن کروہ ساری رقم خداتعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے چندہ میں اداکردی اوراللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ اصل نعم الوکیل تووہ ہے ، وہی ہمارے ٹوٹے کام بنادے گا۔ چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان پرفضل کیااورنہ صرف غیبی طورپران کی مدد کی بلکہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست منظورہوئی اوراُ ن کو ملک کی شہریت بھی حاصل ہوگئی اوراُ ن کوکوئی وکیل وغیرہ بھی نہ کرناپڑا۔

(خطبات مسرور جلد دہم صفحہ 669۔خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 9 نومبر 2012)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایاہے کہ ہرقوم اس چشمہ سے پانی پیے گی۔ ہرقوم سے نئے احمدی ہونے والے لوگ بھی مالی قربانی کی لذتوں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کرغزستان کے ایک نواحمدی کی قربانی کاواقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

کرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک کرغز دوست جومارٹ صاحب نے 2006 ءمیں بیعت کی تھی ۔ بہت ہی نیک فطرت نوجوان ہیں ۔ بیعت کے فوراً بعد ہمارے مبلغ نے چندے کے بارے میں سمجھانے کے لئے ازراہ مزاح کہاکہ دوسرے لوگ تواپنی جماعت میں داخل کرنے لئے پیسے دیتے ہیں ،جبکہ ہماری جماعت میں داخل ہوتوہم اس سے پیسے لیتے ہیں ۔ جس پر انہوں نے کہ ماہانہ تین سو کرغیزچندہ عام اداکیاکروں گا ۔کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے چارسوکردیئے ۔پھرکچھ عرصہ گزرنے کے بعد آٹھ سوکردیئے ۔ پھرکچھ مدت کے بعد خود ہی بغیرکسی کے کہنے کے ایک ہزار سُم ماہانہ اداکرناشروع کردیا ۔ جب تحریک جدید کاوعدہ لکھنے لگے تواُن کوبیعت کئے ہوئے چنددن ہی ہوئے تھے ،انہوں نے ایک ہزارسُم لکھوائے ۔یہ رقم اُ ن کی مالی حالت کے لحاظ سے زیادہ تھی۔ اُ ن کوسمجھایاگیا کہ ابھی چھوٹی رقم لکھوادیں پھرآہستہ آہستہ اس میں اضافہ کرتے رہنا۔خیر اس طرح بہت بحث تمحیص کے بعد پھرانہوں نے اس کوکم کیا۔

(خطبات مسرور جلد دہم صفحہ 700 خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 9 نومبر 2012)

مخلص احمدی راہ مولا میں مالی قربانی کے لئے بھی منفرد اور اچھوتے انداز اپناتے ہیں اور پھر ان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی عجیب عجیب رنگ میں اپنے بندوں سے پیار کاسلوک فرماتاہے۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آئرلینڈ کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

آئرلینڈکے صدرصاحب لکھتے ہیں کہ ایک جوڑے نے فیصلہ کیاکہ جب ان کی اولاد ہوگی تووہ اپنی اولاد کووقف کریں گے ۔ انہوں نے اپنی اولاد کے لئے نام بھی سوچ لئے لیکن اُن کی اہلیہ اُس وقت تک امید سے نہ تھیں۔ چندروز بعد انہو ں نے تحریک جدید اوروقف جدید کے لئے دونوں بچوں کے نام چندہ کی رسیدیں کٹوادیں جس میں ایک لڑکی اورایک لڑکاتھا۔ خداتعالیٰ نے ان کی قربانی کاصلہ اس طرح دیاکہ چندہفتوں کے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ امیدسے ہیں اوراُ ن کے ہاں جڑواں بچے پیداہوں گے۔چنانچہ خداتعالیٰ نے اُنہیں صحت مند جڑواں بچوں سے نوازا اورمیاں بیوی کاپختہ ایمان ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جڑواں بچوں سے اس لئے نوازا کہ انہوں نے بچوں کاچندہ اداکیاتھا۔

(خطبات مسرور جلد دہم صفحہ 700 خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 9 نومبر 2012ء)

ایک موقع پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔

سیرالیون سے ہمارے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت پیمبارہ ہے ۔ جہاں ایک نابیناعورت رہتی ہیں ۔ جنہوں نے تحریک جدید کے چندے کاوعدہ دوہزار لیون لکھوایا۔چندہ کے حصول کے لئے جب ان کے پاس گئے توکہنے لگیں کہ مجھے چندے کی ادائیگی کی پہلے فکرہورہی تھی مگر نابینا ہونے کی وجہ سے میراذریعہ آمدنی اتنانہیں کہ میں کوئی چندہ اداکرسکتی ۔ دوہزارلیون چندہ دینا میرے لئے بہت مشکل ہے ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ بہرحال میں نے وعدہ کیاہے میں اداکروں گی ۔ چندہ دینے کے لئے انہو ں نے ارادہ کیاکہ اپنی ایک غیراحمدی بہن سے ادھاررقم لے لیں۔ لیکن بہن نے انکارکردیا کہ تم نابیناہوتمہارے پاس ذرائع بھی ایسے نہیں ہیں پتہ نہیں مجھے واپس کرسکوگی یانہیں ۔ اس پروہ نابیناعورت بڑی فکرمندہوئیں اورجوسیکرٹری تحریک جدید یامال چندہ لینے گئے تھے انہیں کہنے لگیں کہ کچھ دیر ٹھہرکے واپس آئیں ۔ چنانچہ وہ دعامیں مصروف ہوگئیں ۔اسی دوران ایک اجنبی شخص گاؤں میں آیااوران کے پاس سے گزرا۔ گھرکے باہر بیٹھی ہوئی تھیں۔ توانہوں نے اس آدمی کوآواز دی ۔ اس سے کہنے لگیں کہ میرے پاس اس وقت ایک سرپرلینے والاکپڑاہے وہ دوہزار لیون میں تم خرید لو ۔ یہ کہتے ہیں کہ حالانکہ وہ کپڑا دس سے پندرہ ہزار لیون کاتھا۔ اس آدمی نے حیران ہوکرپوچھا کہ اتناسستاکیوں بیچ رہی ہو۔ اس پراس خاتون نے بتایاکہ میں نے چندہ تحریک جدید اداکرناہے اورمیرے پاس اس وقت رقم نہیں ہے ۔ اس اجنبی نے وہ کپڑا خریدلیا اوردوہزار لیون نابینا عورت کودے دیئے ۔ شریف آدمی تھا اور بعد میں وہ کپڑابھی واپس کردیا اورکہا یہ میری طرف سے آپ رکھ لیں۔
تویہ افریقہ کے دوردراز علاقے میں رہنے والی ایک اَن پڑھ نابیناخاتون کایہ اخلاص ہے ۔ یقینا ً یہ اخلاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیداکردہ ہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 9نومبر 2015)

مالی قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی والدین نہ صرف خود حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کوبھی بڑے شوق سے شامل کرتے ہیں ۔ بلکہ جووالدین اللہ تعالیٰ سے بچوں کے لئے دعاکررہے ہیں ہوتے ہیں وہ ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کی طرف سے چندے دینے شروع کردیتے ہیں ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جونئے بچے ہیں ان کوبھی ماں باپ شامل کرنے کی کوشش کریں۔اس مالی قربانی میں شامل کریں ۔ اورخاص طورپر واقفین نوبچے توضرور ،بلکہ ہرپیداہونے والا بچہ اس میں شامل ہوناچاہئے ۔بلکہ بعض احمدیوں کاایمان تواس سے بھی تازہ ہوتاہے کہ کسی کے اولاد نہیں ہوتی تھی توانہوں نے تحریک جدید میں اپنے بچوں کے نام پر بھی چندہ دیناشروع کردیا ۔100روپے بچے کے حساب سے 400روپے دینے شروع کردیئے (پاکستان کی بات ہے ) اوراللہ تعالیٰ نے ایسافضل فرمایا کہ کچھ عرصے کے بعد ان کے ہاں اولاد کی امیدپیداہوئی اوراب چاربچے ہوگئے ۔جتنے بچوں کاچندہ دیتے تھے اتنے بچے اللہ تعالیٰ نے دے دیئے ۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ فوری طورپر نظارے دکھادیتاہے ۔جیساکہ میں نے کہا ہے چاہے بچوں کی طرف سے معمولی رقم ہی دیں لیکن اخلاص سے دی ہوئی یہ معمولی رقم بھی خداتعالیٰ کی طرف سے بڑااجر پانے والی ہوتی ہے۔ اورجماعت میں اللہ تعالیٰ بہت سوں کویہ نظارے دکھاتاہے ۔ اورپھر اسی چندے کی وجہ سے ،ان برکتوں کی وجہ سے پھرآپ کے گھربرکتوں سے بھرتے چلے جائیں گے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 19نومبر 2004ء)

2014ءمیں تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کے موقع پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض یورپین ملکوں میں تحریک جدید کی مالی قربانی میں حصہ لینے والوں کاذکرکرتے ہوئے فرمایا۔
سوئٹزرلینڈ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ بیٹم ریڈزیپی (Betim Redzepi) صاحب ہمارے ایک مقدونین نژاد سوئس ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے اکتوبر میں بیعت کی تھی ۔ تحریک جدید کے سال ختم ہونے میں صرف پانچ دن باقی تھے۔ جماعت میں داخل ہوتے ہی انہوں نے ایک ہزار سوئس فرانک کی غیر معمولی رقم بغیر وعدے کے تحریک جدید میں ادا کر دی اور اگلے سال کا وعدہ بھی ایک ہزار لکھوا دیا۔ پھر دوران سال جب انہیں مالی قربانی کی اہمیت کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنا وعدہ دوگنا کر دیا اور تحریک جدید کے ساتھ ساتھ وقف جدید میں بھی دوہزار فرانک کا وعدہ لکھوا دیا۔ موصوف جس کمپنی میں کام کرتے ہیں اس نے انہیں ایک ایسے کورس کی آفر کر دی جو بہت مہنگا ہوتا ہے۔ یہ کمپنی بالعموم صرف ان ملازمین کو ہی کورس کرواتی ہے جن کے پاس تجربہ ہو اور جن کی عمر 35 سال سے زائد ہو۔ اور بہت سے لوگ یہ کورس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن انہیں یہ موقع نہیں ملتا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری عمر تئیس سال ہے اور میں نے اس کورس کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا لیکن کمپنی نے خود مجھے یہ کورس کروانے کی آفر کر دی۔ یقینا ًیہ مالی قربانی کی برکت کا پھل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا۔

حضورانورنے فرمایاکہ :

پس یہ جو یورپ میں بھی نئے آنے والے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی ہستی کا یقین دلاتا ہے۔
اسی طرح ایک مقدونین سوئس احمدی بیکم (Bekim) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں مَیں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں اس کا مالک بہت بخیل اور تنگدل انسان ہے۔ کسی کو پیسے دینا اس کے لئے بہت مشکل ہے۔ ورکرز (Workers) کو بہت تھوڑی تنخواہ دیتا ہے اور ورکر اکثر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور یا تو وہ مطالبات نظر انداز کر دیتا ہے یا ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ اس مالک نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ مَیں تمہاری تنخواہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ اس پر میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ تو اس معاملے میں بڑا سخت رویّہ رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے از خود میری تنخواہ بڑھانے کا کیوں سوچا ہے۔ اس پر مالک کہنے لگا مجھے نہیں علم لیکن یہ بات میرے دل میں بڑے زور سے آئی ہے اورکافی عرصے سے مَیں نے تمہاری تنخواہ نہیں بڑھائی۔ اس لئے مجھے تمہاری تنخواہ میں اضافہ کر دینا چاہئے۔ یہ کہتے ہیں کہ بغیر کسی ظاہری وجہ کے میری تنخواہ میں اضافہ ہو گیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف اور صرف مالی قربانی کا نتیجہ ہے۔

یہاں نصیردین صاحب لندن کے ریجنل امیر ہیں۔ یہ ایک دوست کا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی دوست نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ چندہ تحریک جدید کے سلسلے میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خیال میرے دل میں ڈالا گیا کہ دفتر جاتے ہوئے ٹرین پر جانے کی بجائے بس پر سفر کیا کروں۔ اس طرح مجھے مفت سفر کی سہولت ملے گی اور کافی بچت بھی ہو جائے گی۔ بس میں سفر کرنے میں اگرچہ نصف گھنٹہ زیادہ لگتا ہے لیکن میں نے فوری طور پر اس کے مطابق عمل شروع کر دیا۔ اس طرح روزانہ دو پاؤنڈ کی بچت ہونے لگی اور سال بھر میں وہ ایسا کرتے رہے اور کُل چار سو پاؤنڈ کی بچت ہوئی جو تحریک جدید میں چندہ ادا کر دیاتو اس طرح بھی لوگ سوچتے ہیں۔

یہیں لندن میں ہی ایک صاحب کے گھر ڈکیتی ہوئی۔ سارا گھر کا مال لوٹ لیا گیا۔لیکن ایک ہزار پاؤنڈ جو انہوں نے چندہ تحریک جدیدکے لئے رکھا ہوا تھا وہ محفوظ رہا۔ وہ انہوں نے آ کر ادا کر دیا کہ یہ کیونکہ چندے کی رقم تھی جو چوری ہونے سے بچ گئی اس لئے مَیں پیش کر رہا ہوں۔

اسی طرح آسٹریلیا کے مشنری انچارج صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھاوہاں میں نے خدام اطفال کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی ۔ اطفال کو وہاں واؤچرز کی صورت میں انعامات بھی دئیے گئے۔ تو ارسلان اور عاطف اور کامران یہ تین اطفال قابل ذکر ہیں۔ ان کو 89ڈالر کے واؤچر انعام ملے۔ کہتے ہیں کہ تحریک کے بعد ان اطفال نے اپنے جیب خرچ میں سے گیارہ ڈالر کی مزید رقم ملا کے سو ڈالر بنا کر فوری طور پر تحریک جدید میں ادا کر دئیے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07؍نومبر 2014)

اس طرح کی مالی قربانی میں حصہ لینے والوں اور ان پراللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دنیابھرکے مختلف ملکوں میں ہرسال نظرآتے ہیں ۔ اس کی چندمثالیں بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دفعہ کینیڈا میں خطبہ جمعہ میں فرمایا:

اسی طرح پاکستان سے نائب وکیل المال لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کے ایک خادم کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ پندرہ ہزار روپیہ ان کا وعدہ تھا جو میں نے انہیں کہا کہ پندرہ ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کردیں تو انہوں نے ایک لاکھ روپیہ کر دیا۔ انہوں نے جوتے ایکسپورٹ کرنے کا کاروبار شروع کیا اور کہتے ہیں شروع میں پانچ ہزار چندہ دیتے تھے۔ پھر دس ہزار دیا۔ پھر آگے بڑھایا۔ پندرہ ہزار سے بڑھایا، لاکھ کیا۔ اب وہ کہتے ہیں چندوں کی برکت سے جس فیکٹری کو انہوں نے کرائے پر لیا ہوا تھا وہ فیکٹری انہوں نے خرید لی اور کاروبار بھی اچھا ہو گیا۔

اسی طرح انڈونیشیا سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے ایک شخص نے کہا کہ اگر میرے پاس موٹر سائیکل ہو تو مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے لئے آسانی ہو جائے گی تو ہمارے مبلغ نے انہیں کہا کہ دعا کریں اور چندوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔اس کے بعد انہوں نے اپنا اور فیملی کا تحریک جدید کا چندہ دینا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں تھوڑے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور موٹر سائیکل خریدنے کی توفیق مل گئی۔ اب اس گھر میں ایک کی بجائے تین موٹر سائیکل ہیں۔ وصیت انہوں نے کر لی ہے اور آمدنی ان کی بڑھ گئی ہے۔

یہاں کینیڈا میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جن کے متعلق امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہزار ڈالر چندہ تھا جو بڑھا کے پانچ ہزار کا وعدہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ادا بھی کر دیا۔ اس لئے شروع میں ہی ادا کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹا جائے اور مسجد کے لئے بھی انہوں نے بیس ہزار ڈالر کی ادائیگی کی۔ اسی طرح بعض یہاں بھی ایمان افروز واقعات ہیں۔کینیڈا کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ میرا وعدہ ایک ہزار ڈالر کا تھا۔ پیسے نہیں تھے۔ شام کو خاوند کا فون آیا کہ فلاں شخص نے پیسے دئیے ہیں، چیک دیا ہے۔ تو مَیں نے کہا کہ ایک ہزار ڈالر کا چیک ہو گا۔ اس نے کہا تمہیں کس طرح پتہ ہے؟ مَیں نے کہا اس لئے کہ مجھے فکر تھی کہ میں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کرنا تھا اور ایک ہزار ڈالرز ادا کرنا تھا اور مجھے خیال ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے تو اتنی ہی رقم ہو گی۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11؍نومبر 2016)

تحریک جدید کی مالی قربانی اور تعداد شاملین میں ہرسال اضافہ کی تفصیل وقف جدید کی مالی قربانی اور
شاملین کی تعداد میں اضافہ

وقف جدیدکے مالی جہاد میں 2003ءمیں ایک سوگیارہ ممالک کے تین لاکھ اسّی ہزار افراد نے 15 لاکھ پاؤنڈز کی قربانی کی تھی۔ 2017ءکے مالی سال میں اس بابرکت سکیم میںحصہ لینےوالوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کرکے سولہ لاکھ افراد ہوگئی اور ادائیگی پندرہ لاکھ سے بڑھ کر88 لاکھ 66 ہزار پاؤنڈزہوگئی۔

وقف جدید کے اس مالی جہاد میں حصہ لینے والوں میں ان کی پیش کردہ قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلسل اضافہ ہورہاہےاوراس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں کے اموال اورنفوس میں بھی غیرمعمولی برکتیں عطافرمارہاہے۔

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العز یزنے وقف جدید کی مالی قربانیاں کرنے والوں کے ایمان اوراخلاص کے بعض واقعات بیان کرتے ہوئے2012ء میں ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

ازدیاد ایمان کے لئے آجکل کی قربانیوں کے بھی چندواقعات میں پیش کرتاہوں۔

یہ پہلاواقعہ میں نے انڈیاکے ناظم مال صاحب کی وقف جدید کی رپورٹ سے لیاہے ۔کہتے ہیں خاکسار اورانسپکٹر وقف جدید بجٹ بنانے کے سلسلے میں جماعت کیرولائی ،کیرالہ میں دورے پر گئے۔جب وہاں پہنچے تو ایک مخلص دوست سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہامیں نے ابھی ابھی فرنیچر کانیاکاروبارشروع کیاہے ۔میرانئے سال کاوعدہ وقف جدید چارلاکھ روپے لکھ لیں۔ اس کے علاوہ اس بزنس سے جوبھی مجھے منافع ہوگا،علاوہ اورچندوں کے اس کابھی دس فیصد میں چندہ وقفِ جدید مزیداداکروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نےفضل فرمایا،ان کابزنس چل پڑا۔ انہوں نے اپنی بیوی کوہدایت کی تھی کہ روز کی کمائی سے چندہ جات کا،جتنے بھی چندے ہیں اُن کاالگ حساب نکال کررکھ لیں۔ اورسال بھر کاجب حساب کیاگیاتو ساڑھے پانچ لاکھ روپیہ وقف جدید کانکلا جوانہوں نے ادا کردیا اور آئندہ سال کے لئے کہاکہ آئندہ سال میں دس فیصدکی بجائے منافع کا جو پچیس فیصد ہے وہ چندوں میں اداکروں گا۔

پھرایک اورواقعہ بیان کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:

پھرانڈیاسے ہی وقفِ جدید کے انسپکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مارچ2011ء میں خاکسار جماعت احمدیہ بتھاری تشخیص بجٹ وقفِ جدید کے لئے پہنچا جہاں ایک خاتون کوجب تحریک کی اوراحمدی اورمسلمان مستورات کی جانی اورمالی قربانیوں کے بارے واقعات سنائے تو انہوں نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر وعدہ لکھوادیا ۔اوروہ معمولی ٹیچر تھی ،کوئی ایسی خاص آمدنی نہیں تھی کہ گزارہ بہت اچھا ہوتاہو۔ پانچ ہزارروپیہ اُن کی تنخواہ تھی جوانہوں نے لکھوائی۔کہتے ہیں میں پھر دوسری جگہ پہنچاجہاں اُس خاتون کے والدرہتے تھے ۔ وہ صدرجماعت بھی تھے تواُن کوبتایاگیاکہ آپ کی بیٹی نے بڑی قربانی کی ہے۔ اس پروہ خوشی سے روپڑے اوراپنی بیٹی کوبلایا اوراس کوکہاکہ تمہاری بہن نے یہ قربانی دی ہے ۔ تم اُ س سے بڑی ہوتم کیاکہتی ہو۔ تواُس نے فوراً اُس وعدے پرایک ہزار روپیہ بڑھاکراپناوعدہ لکھوادیاکہ میں بڑی ہوں اس لئے زیادہ دوں گی۔

(خطبات مسرور جلد دہم صفحہ6 خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ6 جنوری2012ء)

پھر ایک اورموقعہ پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا

پھر مشرقی افریقہ کے ایک ملک تنزانیہ میں رہنے والی ایک بیوہ خاتون کی مثال ہے جس کے بارے میں تنزانیہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ اَرِنگا ٹاؤن کے معلم صاحب ایک بیوہ خاتون امینہ کے پاس چندہ وقف جدید کی ادائیگی کے لئے گئے تو انہوں نے بڑے افسردہ دل سے کہا کہ اس وقت پاس کچھ نہیں مگر جونہی کہیں سے انتظام ہوا تو مَیں لے کر خود حاضر ہو جاؤں گی۔ معلم صاحب ابھی گھر بھی نہیں پہنچے تھے کہ وہ خاتون دس ہزار شلنگ لے کر حاضر ہوئی اور بتایا کہ یہ رقم کہیں سے آئی تھی تو سوچا کہ آپ کو دے آؤں۔ پہلے چندہ ادا کر دوں۔ اپنے خرچ بعد میں پورے کروں گی۔ کہنے لگیں میرا وعدہ پچیس ہزار کا ہے باقی پندرہ ہزار بھی جونہی مجھے ملے میں لے کے آ جاؤں گی۔ چنانچہ دس منٹ کے بعد وہ دوبارہ رقم لے کر آ گئیں اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھیں کہ مَیں دس ہزار جو اس کی راہ میں دے کر گئی تھی ابھی گھر بھی نہیں پہنچی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پینتیس ہزار بھجوا دئیے اور جس میں سے پندرہ ہزار بقایا چندہ ادا کرنے کے بعد بھی میرے پاس بیس ہزار بچ جاتے ہیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور چندے کی برکت ہے اور اس طرح ان کا ایمان بڑھا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06جنوری 2017)

خلیفہ وقت سے تعلق اور خطبہ کا اثر لوگوں پر کس طرح پڑتا ہے اور پھر قربانی کی طرف کس طرح توجہ پیدا ہوتی ہے اس کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا

مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کے بعض نوجوانوں کی ہے۔ دیکھیں ابھی احمدی ہوئے ان کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن معیار کیا ہیں؟ امین بلوچ صاحب وہاں مربی ہیں۔ لکھتے ہیں کہ 30؍دسمبر 2016ء کو جب گزشتہ سال کا آخری خطبہ تھا۔ اور نئے سال کے آغاز کے حوالے سے جو خطبہ مَیں نے دیا تھا اسے سن کر وہاں کے بنفورا ریجن میں بعض نوجوان جو ابھی نئے احمدی ہوئے ہیں اور بعض پرانے بھی خطبہ کے فوراً بعد گھر گئے اور جو کچھ نئے سال کی تقریبات کے لئے جمع کیا ہوا تھا وہ لا کر وقف جدید میں دے دیا اور کہا کہ چونکہ خلیفہ وقت نے ہمیں نئے سال منانے کا طریق بتا دیا ہے اس لئے ہم یہ رقم چندہ میں دیتے ہیں اور رات کو تہجد ادا کر کے نیا سال منائیں گے۔ اس طرح اس دن انہوں نے تقریباً چھہتّر ہزار فرانک سیفا چندہ دیا۔
پھر مغربی افریقہ کے ہی ایک ملک آئیوری کوسٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی نئی جماعت کے لوگوں کی قربانی کی مثال بیان کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔

’’بواکے‘‘ ریجن کے معلم مامادو (Mamadou) صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ریجن کے ایک گاؤں نیاووگو (Niavogo) کے لوگ اسی سال جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ ایک سال ہوا ہے ابھی۔ کہتے ہیں میں نے ان نومبایعین کو وقف جدید میں شمولیت اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی تحریک کی۔ ان نومبایعین کو بتایا کہ خلیفۂ وقت نے یہ کہا ہے کہ تمام احمدی وقف جدید اور تحریک جدید میں شامل ہوں۔ کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ شاید کچھ لوگ تھوڑا سا چندہ ادا کر دیں کیونکہ وہاں غربت بہت زیادہ ہے۔ لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس نکلی۔ اس گاؤں کے تقریباً ہر فرد نے اپنا چندہ وقف جدید ادا کیا بلکہ ایک دوست نے نہ صرف چندہ وقف جدید ادا کیا بلکہ چھ سو کلو میٹر سفر کر کے جلسہ سالانہ میں شرکت بھی کی اور آبی جان آئے۔


وقف جدید کی مالی قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح نوازتا ہے اور ان کے ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی بے شمارمثالوںمیں سے چند مثالیں بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
پھر قربانی کی ایک مثال اور اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھیں۔ تنزانیہ سے یوسف عثمان صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی بھائی پاؤں سے معذور ہیں۔ اس معذوری کی وجہ سے کوئی کام وغیرہ نہیں کر سکتے۔ تنزانیہ کے ہر علاقے میں ابھی تک بجلی کی سہولت مہیا نہیں ہے۔ اس لئے بعض لوگ چھوٹے چھوٹے سولر پینل لے کر اپنے گھر پر ایک آدھ بلب جلانے کا انتظام کرتے ہیں۔ ہمارے یہ احمدی بھائی بھی چھوٹا سا سولر پینل لے کر لوگوں کے موبائل چارج کر کے گزارہ کرتے ہیں اور جو بھی تھوڑی بہت آمدن ہو اس کے مطابق باقاعدگی سے چندہ ادا کرتے ہیں۔ ایک دن ہمارے معلم نے انہیں چندہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تو کہنے لگے کہ مجھے گزشتہ دو دن میں دوہزار شلنگ آمدن ہوئی ہے۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں یہی ادا کر دیتا ہوں۔ معلم صاحب نے انہیں کہا کہ اگر آپ یہ سب رقم چندے کے طور پر ادا کر دیں گے تو گھر میں بچوں کو کیا کھلائیں گے؟ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ رزاق ہے وہ خود ہی انتظام کر دے گا۔ چنانچہ معلم صاحب کہتے ہیں کہ ابھی میں نے یہ رسید کاٹی ہی تھی کہ بہت سارے لوگ ان کے پاس موبائل چارج کروانے کے لئے آئے اور انہیں اس سے زیادہ آمدن ہوئی جتنا انہوں نے چندہ ادا کیا تھا۔ اس پر احمدی بھائی نے معلم صاحب سے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے چندہ ادا کرنے میں کتنی برکت عطا کی ہے کہ اِس وقت اُس سے بڑھ کر رقم لوٹا دی ہے۔

تنزانیہ کے ریجن شیانگا کی ایک جماعت کے ایک دوست کے بیٹے کو شدید ملیریا لاحق ہو گیا اور ان کی جیب میں علاج کے لئے صرف پندرہ سو شلنگ تھے۔ سیکرٹری مال ان کے گھر گئے اور چندے کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے فوراً جیب سے وہی رقم نکال کے سیکرٹری مال کو دے دی۔ یہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو مجھے خیال آیا کہ بیٹے کی دوائی کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ لیکن پھر میں نے کہا کہ اللہ کی راہ میں دیا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی انتظام کر دے گا۔ چنانچہ کچھ ہی دیر بعد دوسرے شہر سے ان کے بڑے بیٹے نے فون کیا کہ میں اسّی ہزار شلنگ بھیج رہا ہوں اور یہ پیسے اسی دن ان کو مل گئے۔ بچے کا علاج بھی ہو گیا۔ دوسرے کام بھی ہو گئے اور ان کی ضروریات پوری ہو گئیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے کئی گنا بڑھ کے مجھے عطا کر دیا اور اب یہ واقعہ وہ دوسروں کو بھی اور وہاں کے مقامی لوگوں کو جو احمدی ہیں سناتے ہیں اور چندے کی اہمیت ان پہ واضح کرتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06جنوری 2017)

اخلاص و وفاکے بے شمارواقعات ہیں جوہرسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف ملکوں اورقوموں میں نظرآتے ہیں ۔2018ءمیں وقف جدید کے نئے سال کے اعلان کرتےوقت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔

برکینافاسو کے امیرصاحب لکھتے ہیں کہ ود گوریجن میں ہماری ایک جماعت کاری (Kari)ہے وہاں اس کے قریب حکومت زمین میں فائبر آپٹک(Fibre Optic) تاربچھارہی ہے توکاری جماعت کے بعض خدام نے ٹھیکیدار سے بات کی کہ وہ ان کوایک کلومیٹر کی کھدائی کاکام دے دے ۔ چنانچہ کام ملنے پرجماعت کے خدام نے مل کرکھدائی کاکام کیا اوراس کے عوض ملنے والی ایک ملین فرانک سیفا کی رقم جوتقریباً بارہ سوپچاس پاؤنڈبنتے ہیں وقف جدید کے چندہ میں اداکردی ۔ پس یہ جذبہ ہے کہ، جیساکہ میں نے کہا،آج جماعت احمدیہ کے علاوہ اورکہیں نظر نہیں آتا۔

(خطبہ جمعہ 5جنوری 2018)

وقف جدید کی مالی قربانی اور تعداد شاملین میں ہرسال اضافہ کی تفصیل

وقف جدید کی مالی قربانی اور تعداد شاملین میں ہرسال اضافہ کی تفصیل نظام وصیت میں شامل ہونے والوں میں غیرمعمولی اضافہ

حیرت انگیز مالی قربانیوں کی عکاسی کرنے والا ایک وہ غیر معمولی اضافہ ہے جو نظام وصیت میں ہوا ۔ خلافت خامسہ میں نظام وصیت میں شامل ہونے والوں میں جس تیزی سے اضافہ ہواوہ ان خارق عادت نشانوں میں سے جو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔کیونکہ اس نظام میں شامل ہوناکسی وقتی جذبہ کی بات نہیں ہوتی بلکہ اپنی ساری عمرکی آمدن اور جمع کی ہوئی پونجیوں کا ہرسال اور ہرماہ اوربعض صورتوں میں ہرروز مسلسل حساب کرکرکے ان کاایک معین حصہ خداکے حضورپیش کرتے چلے جاناہے۔ سن 2004ءتک نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد 38000 تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ مستقبل قریب میں جوعظیم فتوحات کے نظارے دکھارہاتھااس کے پیش نظر مالی ضروریات کو پورا کرنے اوراحباب جماعت کی زندگیوں میں اعلیٰ مالی قربانیوں کے اعلیٰ معیارقائم کرتے ہوئے پاکیزہ تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے آپ نے فرمایاکہ:

’’1905 ءسے لے کرآج تک صرف اڑتیس ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے ۔ اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کوقائم ہوئے سوسال ہو جائیںگے۔میری خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرناچاہتاہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کوپاک کرنے کے لئے، اپنی نسلوں کی زندگیوں کوپاک کرنے کے لئے، شامل ہوں۔ آگے آئیں اوراس ایک سال میں کم ازکم پندرہ ہزار نئی وصایاہوجائیں تاکہ کم ازکم پچاس ہزار وصایا توایسی ہوں کہ جوہم کہہ سکیں کہ سوسال میں ہوئیں۔ توایسے مومن نکلیں کہ کہاجاسکے کہ انہوں نے خداکے مسیح کی آواز پرلبّیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔‘‘

( روزنامہ الفضل8 دسمبر 2005ء)

ایک موقع پر آپ نے فرمایا:

’’نظام وصیت کواب اتنافعال ہوجاناچاہئے کہ سو سال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اوراپنے اندرروحانی تبدیلیاں پیداکرنے والے بھی پیداہوتے رہیں اورقربانیاں پیداکرنے والے بھی پیداہوتے رہیں۔ یعنی حقوق اللہ اورحقوق العباد ادا کرنے والے پیداہوتے رہیں ۔ جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے توانشا ء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اورجماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 28ستمبر 2004ء)

اپنے پیارے امام کی آوازپرلبیک کہتے ہوئے ایک سال کے اندراندرمزید16000سے زائد احمدیوں نے نظام وصیت میں شامل ہونے کی درخواستیں پیش کردیں۔

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یُوکے 2005ءکے دوسرے دن 30 جولائی کے خطاب میں اس تحریک پرلبیک کہنے والے مخلصین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔

’’نظام وصیت کی جومیں نے تحریک کی تھی شامل ہونے کی گزشتہ سال کہ پندرہ ہزارشامل ہوجائیں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک 16148نے درخواستیں جمع کروادی ہیں۔ان پہ پراسس ہورہاہے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ قبول ہوجائیں گی ۔ اس میں سب سے زیادہ پاکستان سے شامل ہوئے ہیں۔ 10200سے اوپر ۔ انڈونیشیا میں 1100قریباً، 1200 جرمنی میں، کینیڈا میں 1000 انڈیا میں اورمیراخیال ہے کہ اس سے زیادہ ہوچکے ہیں ۔ امریکہ سے بھی کافی تعدادآئی تھی ‘‘۔

(روزنامہ الفضل 8 دسمبر 2005ء)

دسمبر 2005ءتک مزید ڈیڑھ ہزار مخلصین جماعت نے نظام وصیت میں شمولیت کی درخواستیں جمع کروائیں۔ ان کاذکرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 26 دسمبر 2005ءکے جلسہ سالانہ قادیان سے افتتاحی خطاب میں ان الفاظ میں فرمایا۔

’’مَیںنے اس خواہش کااظہاربھی کیاتھاکہ سوسال پورے ہونے پرکم ازکم پچاس ہزارموصیان ہوجائیں ۔ اس کامطلب یہ تھاکہ اس وقت جوتعداد تھی اس میں تقریباً پندرہ ہزار اورشامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یُوکے کے جلسہ تک درخواست دہندگان کی تعداد پوری ہوگئی تھی۔سوسال توآج دسمبرمیں پورے ہورہے ہیں لیکن جومجلس کارپرداز پاکستان کودرخواستیں پہنچی ہیں وہ تقریبا ً ساڑھے سترہ ہزار ہیں۔‘‘

نظام وصیت میں شمولیت کانیاٹارگٹ

2005ءمیں ہی حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مالی قربانی کاایک نیاعظیم الشان ٹارگٹ احباب جماعت کے سامنے پیش کرتے ہوئے جماعت کے کمانے والے50 فیصد افراد کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی تحریک فرمائی ۔ آپ نےفرمایا۔

’’میری خواہش ہے کہ 2008ءمیں جوخلافت کوقائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سوسال ہوجائیں گے تو دنیا کے ہرملک میں ،ہرجماعت میں جوکمانے والے افرادہیں، جوچندہ دہندہیں ان میں سے کم ازکم پچاس فیصدتوایسے ہوں جوحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہوچکے ہوںاورروحانیت کو بڑھانے کے اور قربانیوں کے یہ اعلیٰ معیارقائم کرنے والے بن چکے ہوں اوریہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضورایک حقیرنذرانہ ہوگاجوجماعت خلافت کے سوسال پورے ہونے پر شکرانے کے طورپر اللہ تعالیٰ کے حضورپیش کررہی ہوگی‘‘ ۔

( روزنامہ الفضل8 دسمبر 2005)

اپنے پیارے امام کی اس تحریک پربھی فوری طور پر احباب جماعت نے جس اخلاص سے قدم بڑھانے شروع کئے اس کاذکرکرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 26 دسمبر 2005 ءکوجلسہ سالانہ قادیان کے افتتاحی خطاب میں فرمایاکہ اب اگلاٹارگٹ تھاکہ اس وقت جوکمانے والے ہیں یا2008 ءتک جوکمانے والے ہوں اس کاپچاس فیصد نظام وصیت میں شامل کرناہے انشاءاللہ ۔

فرمایا:

’’بعض چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے یہ ٹارگٹ حاصل بھی کرلیاہے اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نظام کوافرادجماعت سمجھنے لگ گئے ہیں ۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 3فروری 2006ء)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام وصیت میں شمولیت کے لئے تمام جماعت میں ایک رو حانی انقلاب کی رَوچل رہی ہے ۔باقاعدہ کمانے والے نوجوان اورمعمّراحباب وخواتین کے علاوہ ہزارہاطالب علم اور گھریلو خواتین بھی اپنے جیب خرچ پروصیتیں کرنے کے لئے بڑے اخلاص سے درخواستیں پیش کررہے ہیں ۔ اوردرخواست پیش کرنے کے ساتھ ہی مالی قربانی کے ساتھ ساتھ رسالہ الوصیت میں تحریرکردہ روحانی تبدیلی کی شرائط کوبھی پوراکرنے کی فکرمیں کوشاں ہیں۔ اس کی تفصیلی داستانیں پاکستان،جرمنی ،انڈونیشیا ،کینیڈا،انگلستان اور دیگرتمام دنیاکے ملکوں کی تاریخ احمدیت میں رقم ہورہی ہیں۔

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کی ان قربانیوں کاذکرکرتے ہوئے 2009 ءکے جلسہ سالانہ کے ایک خطاب میں فرمایاکہ

نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کی تعداد 2004ءمیں 38ہزار 183تھی اورایک لاکھ کی جومیں نے خواہش ظاہرکی تھی اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ایک لاکھ 5ہزار 377ہوچکی ہے ۔ اس وقت بفضل خدا98 ممالک میں نظام وصیت قائم ہوچکاہے اوران میں سرفہرست توپاکستان ہے دوسرے نمبر پر جرمنی اور پھر انڈونیشیا ہے ،چوتھے نمبر پرکینیڈا ہے اورپانچویں نمبر پر برطانیہ ہے ۔

(الفضل 3 اگست 2009)

اور اب2018ءمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیان کی تعداد ایک لاکھ انتالیس ہزارپچاس ہوچکی ہے۔ گویاگزشتہ پندرہ سال میں ایک لاکھ ایک ہزارسے زائدافراد نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ عمربھرکی جائیدادیں یوں خداکے حضورپیش کرنے کی مثالیں قرون اولیٰ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں کی یادتازہ کرنے والی ہیں۔الحمد للہ۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ وَ بَارِکْ۔

(جاری ہے۔باقی آئندہ)

٭…٭…٭

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button