خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 22 جون 2018ء

حضرت یاسر، حضرت سُمیّہ اور حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہم کی دین اسلام کے لئے قربانیوں کے دلگداز واقعات اور ان کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ

یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے حق کے لئے لڑائی کی اور حق کے لئے جان دی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22؍ جون 2018ء بمطابق22؍احسان 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ابتدائی اور جانثار صحابی حضرت عمارؓ بن یاسرؓ تھے۔ ان کے والد حضرت یاسرؓ قحطانی نسل کے تھے۔ یمن ان کا اصل وطن تھا۔ اپنے دو بھائیوں حارث اور مالک کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آئے تھے۔ حارث اور مالک یمن واپس چلے گئے مگر حضرت یاسرؓ مکہ میں ہی رہائش پذیر ہو گئے اور ابوحذیفہ مخزومی سے حلیفانہ تعلق قائم کیا۔ ابوحذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سُمَیّہ سے ان کی شادی کروا دی جن سے حضرت عمّار پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ کی وفات تک حضرت عمّار اور حضرت یاسرؓ ان کے ساتھ رہے۔ جب اسلام آیا تو حضرت یاسر، حضرت سمیّہ اور حضرت عمّار اور ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن یاسرؓ ایمان لے آئے۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ کہتے ہیں کہ مَیں حضرت صہیب بن سنان سے دارِاَرقم کے دروازے پر ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارِاَرقم میں تھے۔ میں نے صہیب سے پوچھا تم کس ارادے سے آئے ہو؟ تو صہیب نے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ان کا کلام سنوں۔ صہیب نے کہا میرا بھی یہی ارادہ ہے۔ حضرت عمّار کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا۔ ہم نے اسلام قبول کر لیا۔ ہم شام تک وہاں رہے۔ پھر ہم چھپتے ہوئے دارارقم سے باہر آئے۔ حضرت عمّار اور حضرت صہیب نے جس وقت اسلام قبول کیا تھا اس وقت تیس سے زائد افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 186-187عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا تھا جب آپ کے ساتھ صرف پانچ غلام اور دو عورتیں اور حضرت ابوبکر صدیق تھے۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب اسلام ابی بکر الصدیقؓ حدیث 3857)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان صحابہ کے بارے میں ایک جگہ ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مکہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو خدمت کی توفیق دی اور غرباء میں سے بھی کئی لوگوں نے اسلام کی شاندار خدمات سرانجام دیں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت علیؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت حمزہؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عثمانؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ اس کے بالمقابل (حضرت) زیدؓ اور (حضرت) بلالؓ اور سمرۃؓ اور خبابؓ، صہیبؓ (اور) عامرؓ (اور) عمّارؓ ابوفکَیْہَہ (یہ) چھوٹے سمجھے جانے والوں میں سے تھے۔ گویا بڑے لوگوں میں سے بھی قرآن کریم کے خادم چنے گئے اور چھوٹے لوگوں میں سے بھی (قرآن کریم کے خادم چنے گئے۔ )

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 176)

آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’حضرت سُمیّہ ایک لونڈی تھیں۔ ابوجہل ان کو سخت دکھ دیا کرتے تھے تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ ہوئی (ان کے ایمان کو کوئی ہلا نہ سکا) تو ایک دن ناراض ہو کر ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور انہیں شہید کر دیا۔ حضرت عمارؓ جو سُمیّہ کے بیٹے تھے انہیں بھی تپتی ریت پر لٹایا جاتا اور انہیں سخت دکھ دیا جاتا۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 443)

عروہؓ بن زبیر یہ روایت کرتے ہیں تاریخ میں لکھا ہے کہ ’’حضرت عمارؓ بن یاسرؓ مکہ میں ان کمزور لوگوں میں سے تھے جنہیں اس لئے تکلیف دی جاتی تھی کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں۔ محمد بن عمر کہتے ہیں کہ مُسْتَضْعَفِیْن (یعنی کمزور لوگ جو تھے، قرآن کریم میں جن کمزوروں اور بے بس لوگوں کا ذکر آیا ہے)، یہ وہ لوگ تھے جن کے مکہ میں قبائل نہ تھے اور نہ ان کا کوئی محافظ تھا نہ انہیں کوئی قوت تھی۔ قریش ان لوگوں پر دوپہر کی تیز گرمی میں تشدّد کرتے تھے تا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں۔‘‘

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 187عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

اسی طرح عمر بن الحکم کہتے ہیںکہ ’’حضرت عمارؓ بن یاسرؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت ابوفکیہؓ پر اتنا ظلم کیا جاتا تھا کہ ان کی زبان سے وہ باتیں جاری ہو جاتی تھیں جن کو وہ حق نہیں سمجھتے تھے‘‘ (لیکن دشمن ظلم کر کے ان کے منہ سے وہ باتیں نکلوا لیتے تھے)۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

اسی طرح روایت میں ہے محمد بن کعب قُرَظِی بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو ایک پاجامہ پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے حضرت عمارؓ کی پشت پر ورم اور زخموں کے نشان دیکھے۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ تو حضرت عمّار نے بتایا کہ یہ اس ایذا کے نشان ہیں جو قریش مکہ دوپہر کی سخت دھوپ میں مجھے دیتے تھے۔‘‘

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ’’مشرکین نے حضرت عمارؓ کو آگ سے جلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمارؓ کے پاس سے گزرے تو ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا ۔ یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی عَمَّار کَمَا کُنْتِ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْم۔ اے آگ تُو ابراہیم کی طرح عمارؓ پر بھی ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو جا۔ ‘‘

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

پھر روایت میں آتا ہے حضرت عثمانؓ بن عفان بیان کرتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی وادی میں جا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ ہم ابو عمار، عمارؓ اور ان کی والدہ کے پاس آئے۔ ان کو تکالیف دی جا رہی تھیں۔ حضرت یاسرؓ نے کہا کیا ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا؟ آپ نے حضرت یاسرؓ سے فرمایا صبر کرو۔ اور پھر آپ نے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما اور یقیناً تُو نے ایسا کر دیا ہے‘‘۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ ان کی مغفرت ہو گئی جس شدت کے تنگ حالات سے یہ گزر رہے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آل عمار کے پاس سے گزرے ان کو تکلیف دی جا رہی تھی آپ نے فرمایا اے آل عمّار! خوش ہو جاؤ یقیناً تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء( ۔ ایک روایت میں ہے آل یاسر کے پاس سے گزرے۔

(استیعاب جلد 4 صفحہ 1589 یاسر بن عامرؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت )

حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ’’سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے و الے سات افراد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمّارؓ اور ان کی والدہ حضرت سُمَیّہؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت مقدادؓ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے ان کے چچا ابوطالب کے ذریعہ سے کروائی اور حضرت ابوبکر کی ان کی قوم کے ذریعہ سے۔‘‘ (یہ جو روایتوں میں تعداد کے لحاظ سے آتا ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ پہلے آیا ہے کہ تیس آدمی اس وقت تک اسلام قبول کر چکے تھے جب حضرت عمارؓ نے بیعت کی لیکن بہرحال ان کی روایت یہ ہے کہ یہ لوگ تھے یا یہ ایسے لوگ تھے جو سامنے زیادہ تھے اور جن کو تکلیفیں زیادہ دی جاتی تھیں۔) بہرحال یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر کی ان کی قوم کے ذریعہ سے حفاظت ہوئی اور جو باقی بچے انہیں مشرکین نے پکڑ لیا۔ وہ انہیں لوہے کی زرہیں پہناتے اور دھوپ میں تپنے کے لئے چھوڑ دیتے۔ ان میں سوائے بلال کے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اُن کی خواہش کے مطابق نہ چلا ہو۔ بلال نے تو اپنی ذات کو اللہ کے لئے فنا کر دیا تھا۔ انہیں ان کی قوم کی وجہ سے ذلیل کیا جاتا تھا۔ قریش انہیں بچوں کے حوالے کر دیتے اور وہ انہیں مکہ کی گلیوں میں لئے پھرتے اور وہ اَحد اَحد کہتے جاتے تھے۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 76 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث 3832 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت عمارؓ کو مشرکین پانی میں غوطے دے کر تکلیف دیا کرتے تھے۔ یعنی سر پانی میں ڈالتے تھے، مارتے تھے۔ باقی تکلیفیں تو تھیں ہی۔ وہی ٹارچر جو آجکل بھی دنیا میں اپنے مخالفین کو دیا جاتا ہے یا بعض حکومتیں بھی اپنے ملزمان کو دیتی ہیں۔ لیکن بہرحال اس سے بڑا ٹارچر ان کو دیا جاتا تھا۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمّارؓ کو ملے۔ اس وقت حضرت عمّارؓ رو رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمّارؓ کی آنکھوں سے آنسو پونچھنے لگے اور کہنے لگے تمہیں کفار نے پکڑلیا تھا۔ پھر پانی میں غوطے دیتے تھے اور تم نے فلاں فلاں بات کہی تھی۔ اگر وہ دوبارہ تمہیں کریں تو تم ان سے وہی بات کہنا۔‘‘

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188-189عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

اس کی تفصیل سیرۃ خاتم النبیین میں اَور روایتوںکے حوالے سے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ’’عمارؓ اور ان کے والد یاسرؓ اور ان کی والدہ سُمیّہ کو بنی مخزوم جن کی غلامی میں سُمیّہ کسی وقت رہ چکی تھیں اتنی تکالیف دیتے تھے کہ ان کا حال پڑھ کر بدن میں لرزہ پڑنے لگتا ہے۔ ایک دفعہ جب ان فدایانِ اسلام کی جماعت کسی جسمانی عذاب میں مبتلا تھی اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرف آ نکلے۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور دردمند لہجے میں فرمایا۔ صَبْرًا اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃ۔ اے آل یاسر (صبر کر۔) صبر کا دامن نہ چھوڑنا کہ خدا نے تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلہ میں تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے۔ آخر یاسرؓ تو اسی عذاب کی حالت میں جاں بحق ہو گئے اور بوڑھی سُمیّہ کی ران میں ظالم ابوجہل نے اس بے دردی سے نیزہ مارا کہ وہ ان کے جسم کو کاٹتا ہوا ان کی شرمگاہ تک جا نکلا اور اس بے گناہ خاتون نے اسی جگہ تڑپتے ہوئے جان دے دی۔ اب صرف باقی عمّار رہ گئے تھے۔ ان کو بھی ان لوگوں نے انتہائی عذاب اور دکھ میں مبتلا کیا اور ان سے کہا کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کفر نہ کرو گے اسی طرح عذاب دیتے رہیں گے۔ چنانچہ آخر عمّار نے سخت تنگ آ کر کوئی نازیبا الفاظ منہ سے کہہ دئیے جس پر کفّار نے انہیں چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے بعد عمّار فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زار زار رونے لگے۔ آپ نے پوچھا کیوں عمّار کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں ہلاک ہو گیا۔ مجھے ظالموں نے اتنا دکھ دیا کہ میں نے آپ کے متعلق کچھ ایسے الفاظ منہ سے کہہ دئیے جو غلط تھے۔ آپ نے فرمایا تم اپنے دل کا کیسا حال پاتے ہو؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا دل تو اسی طرح مومن ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اسی طرح سرشار ہے۔ آپؐ نے فرمایا تو پھر خیر ہے خدا تمہاری اس لغزش کو معاف کرے۔‘‘

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 141)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’چشمۂ معرفت‘‘ میں ایک ہندو پرکاش دیوجی کی کتاب سے، جو انہوں نے ’’سوانح عمری حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نام سے لکھی تھی، چند عبارتیں تحریر فرمائی ہیں۔ ایک تو آپ نے جماعت کو اس وقت نصیحت کی تھی کہ یہ کتاب خریدو اور پڑھو ایک غیر مسلم کی لکھی ہوئی ہے۔

(ماخوذ از چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 255)

پھر آپ نے فرمایا کہ ’’وہ عبارتیں برہمو صاحب کی کتاب کی خلاصہ کے طور پر یہاں لکھی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں۔ یہ تحریر فرمایا کہ :

’’حضرت کے اوپر یعنی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) جو ظلم ہوتا تھا اسے جس طرح بن پڑتا تھا وہ برداشت کرتے تھے مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر ان کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا۔‘‘ (اپنے ظلم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برداشت کر لیتے تھے لیکن اپنے ساتھیوں کا ظلم آپ کو بڑا تکلیف دیتا تھا) ’’اور بیتاب ہو جاتا تھا۔ ان غریب مومنوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ لوگ ان غریبوں کو پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور برہنہ کر کے جلتی تپتی ریت میں لٹا دیتے اور ان کی چھاتیوں پر پتھر کی سلیں رکھ دیتے۔ وہ گرمی کی آگ سے تڑپتے۔ مارے بوجھ کے زبان باہر نکل پڑتی۔ بہتیروں کی جانیں اس عذاب سے نکل گئیں۔ انہی مظلوموں میںسے ایک شخص عمارؓ تھا جسے اس حوصلہ اور صبر کی وجہ سے جو اس نے ظلموںکی برداشت میں ظاہر کیا‘‘۔ پھر آپ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت عمارؓ کہنا چاہئے۔ ان کی مشکیں باندھ کر اسی پتھریلی تپتی زمین پر لٹاتے تھے اور ان کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ محمد کو گالیاں دو اور یہی حال ان کے بڈھے باپ کا کیا گیا۔ ان کی مظلوم بی بی سے جس کا نام سُمیّہ تھا یہ ظلم نہ دیکھا گیا اور وہ عاجزانہ فریاد زبان پر لائی۔ اس پر وہ بے گناہ ایماندار عورت جس کی آنکھوں کے روبرو اس کے شوہر اور جوان بچے پر ظلم کیا جاتا تھا برہنہ کی گئی اور اسے سخت بے حیائی سے ایسی تکلیف دی گئی جس کا بیان کرنا بھی داخل شرم ہے۔ آخر اس عذاب شدید میں تڑپ تڑپ کر اس ایماندار بی بی کی جان نکل گئی۔ ‘‘

(سوانح عمری حضرت محمد ﷺ بحوالہ چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 258)

تو یہ خلاصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ہندو کی کتاب میں سے بیان کیا جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں اور آپ کے صحابہ کے بارے میں لکھی تھی۔

سفیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمّار وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے گھر میں عبادت کے لئے مسجد بنائی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 189عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

حضرت عمّارؓ بن یاسرؓ مدینہ ہجرت کر کے آئے تو حضرت مبشر بن عبدِالمنذر کے ہاں قیام کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ کی مؤاخات قائم فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمارؓ کی سکونت کے لئے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 189-190عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں ابوسلمہ اور اُمّ سلمہ نے ہجرت کی اور حضرت عمارؓ بن یاسرؓ چونکہ ان کے حلیف تھے اس لئے وہ بھی ان کے ہمراہ چلے گئے۔ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ حضرت اُمّ سلمہ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 471 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5720 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء(،(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 591 مسند ام سلمہؓ زوج النبیؐ حدیث 27064 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ان سے اور اپنے بیٹے علی بن عبداللہ سے کہا کہ حضرت ابوسعید خدریؓ کے پاس جاؤ اور ان کی بات سنو۔ ہم ان کے پاس آئے اور وہ اور ان کا بھائی اپنے ایک باغ میں تھے جسے وہ پانی دے رہے تھے۔ جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو وہ آئے اور گوٹھ مار کر بیٹھ گئے۔ (چوکڑی مار کے بیٹھ گئے) اور انہوں نے کہا ہم مسجد نبوی بنتے وقت اینٹیں ایک ایک کر کے لاتے تھے اور عمارؓ بن یاسرؓ دو دو اینٹیں اٹھا کر لاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر سے یعنی عمّار کے سر سے غبار پونچھا اور فرمایا کہ افسوس! باغی گروہ انہیں مار ڈالے گا۔ عمارؓ ان کو اللہ کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ اس کو آگ کی طرف بلا رہے ہوں گے۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب مسح الغبار عن الرأس فی سبیل اللہ حدیث 2812)

حضرت عمارؓ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ میں فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

عبداللہ بن ابی ھُذَیل سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد بنائی تو ساری قوم اینٹ پتھر ڈھو رہی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمارؓ بھی ڈھو رہے تھے۔ حضرت عمارؓ یہ رجز پڑھ رہے تھے کہنَحْنُ الْمُسْلِمُوْنَ نَبْتَنِی الْمَسَاجِدَا۔ کہ ہم مسلمان ہیں جو مسجدیں بناتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے تھے۔ اَلْمَسَاجِدَا۔ یعنی ساتھ آپ بھی دہرایا کرتے تھے۔ حضرت عمارؓ اس سے قبل بیمار بھی تھے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ آج عمارؓ ضرور مر جائیں گے کیونکہ کام بہت زیادہ کر رہے ہیں اور بیماری سے اٹھے ہیں۔ کمزوری بھی بہت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر حضرت عمارؓ کے ہاتھ سے اینٹیں گرادیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 190 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) اور آپ نے ان سے کہا تم آرام کرو۔ تو انتہائی کمزوری کی حالت میںبھی خدمت سے یہ لوگ محروم نہیں رہنا چاہتے تھے۔

حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 191 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

حضرت عمّار بن یاسرؓ غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ آپ بیعت رضوان میں بھی شریک تھے۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 124 عمار بن یاسر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء(

بیعت رضوان وہ بیعت ہے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو بطور سفیر کے بات کرنے کے لئے مکہ میں بھیجا تو اس وقت انہوں نے، کفار نے، ان کو روک لیا اور مسلمانوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک کیکر کے نیچے اکٹھا کیا، جمع کیا اور آپ نے فرمایا کہ آج میں تم سب سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں کہ کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا لیکن یہاں سے نہیں ہٹے گا۔ یہ جگہ نہیں چھوڑے گا۔ اس اعلان پر کہا جاتا ہے کہ صحابہ بیعت یا عہد کے لئے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ جب بیعت ہو رہی تھی تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگر وہ ہوتے تو پیچھے نہ رہتے۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 761-762)

بہرحال بعد میںیہ خبر غلط نکلی۔ حضرت عثمان آ گئے۔ لیکن مسلمانوں نے اس وقت یہ بیعت کی تھی، عہد کیا تھا کہ ہم اپنی جان پر کھیل جائیں گے لیکن اس کا بدلہ ضرور لیں گے کہ ایک سفیر کو، حضرت عثمانؓ کو، جو سفیر کے طور پر گئے تھے ان کو انہوں نے شہید کیا ہے یا قتل کیا ہے۔

ایک روایت میں ہے حضرت حکم بن عُتَیْبَہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو چاشت کے وقت وہاں پہنچے تھے۔ حضرت عمارؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی ایسی جگہ بنانی چاہئے جہاں آپ چھاؤں میں بیٹھ سکیں۔ آرام کر سکیں اور نماز پڑھیں۔ چنانچہ حضرت عمارؓ نے چند پتھر جمع کئے اور مسجد قبا کی بنیاد ڈالی۔ یہ سب سے پہلی مسجد ہے جو بنائی گئی اور حضرت عمارؓ نے اس کو بنایا۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 126 عمار بن یاسر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء(

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے جنگ یمامہ میں حضرت عمارؓ کو دیکھا کہ وہ ایک بلند چٹان پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو پکار رہے تھے۔ بڑے بہادر تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ! کیا تم جنت سے بھاگ رہے ہو۔ میں عمار بن یاسر ہوں۔ آؤ میرے پاس آؤ۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ان کا ایک کان کٹ چکا تھا اور ہل رہا تھا لیکن آپ لڑائی میں مصروف تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 192 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

طارق بن شہاب کہتے ہیں اسی کٹے ہوئے کان کے حوالے سے بنو تمیم کے ایک شخص نے عمارؓ کو اَجْدَعْ یعنی کان کٹا ہوا ہونے کا طعنہ دیا۔ حضرت عمارؓ نے اسے کہا کہ تو نے میرے بہترین کان کو برا بھلا کہا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 192 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

یعنی وہ کان جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئے قربان ہوا تم اس کو برا کہہ رہے ہو اس کا طعنہ مجھے دے رہے ہو یہ تو میرا بہترین کان ہے۔

حضرت خالدؓ بن ولید بیان کرتے ہیں کہ میرے اور حضرت عمارؓ کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی اور میں نے ان کو کوئی سخت بات کہہ دی۔ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ میری شکایت کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری ہی شکایت کر رہے تھے۔ وہاں بھی میں سختی سے پیش آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور کوئی بات نہیں فرما رہے تھے۔ حضرت عمّار رونے لگے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خالد کی حالت نہیںدیکھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا جو عمارؓ سے دشمنی رکھے گا اللہ اس سے دشمنی رکھے گا اور جو شخص عمارؓ سے بغض رکھتا ہے اللہ اس سے بغض رکھے گا۔ حضرت خالدؓ بن ولید بیان کرتے ہیں کہ اُس وقت مجھے دنیا میں اس بات سے زیادہ کوئی بات محبوب نہ تھی کہ کسی طرح حضرت عمارؓ مجھ سے راضی ہو جائیں۔ حضرت خالد کہتے ہیں کہ میں حضرت عمارؓ سے ملا اور ان سے معافی مانگی۔ پس وہ راضی ہو گئے۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 125 عمار بن یاسر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

اس کی تفصیل ایک جگہ اس طرح بیان ہوئی ہے۔ اَشْتر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خالدؓ بن ولید کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک سریہ پر بھیجا۔ (ایک جنگ میں ایک فوج بھیجی تھی۔) میرے ہمراہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ بھی تھے۔ اس مہم کے دوران ہم ایسے لوگوںکے پاس پہنچے جن میں ایک گھرانے نے اسلام کا ذکر کیا۔ حضرت عمارؓ نے کہا یہ لوگ توحیدکے ماننے والے ہیں۔ لیکن میں نے ان کی بات کی جانب کوئی توجہ نہ دی اور ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا۔ حضرت عمارؓ مجھے ڈراتے رہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات میں یہ بات عرض کروں گا۔ پھر حضرت عمارؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات بتائی۔ پھر جب حضرت عمارؓ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مدد نہیں کر رہے یعنی خاموش تھے تو اس حالت میں واپس لوٹ گئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت خالد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا کر فرمایا کہ اے خالد! عمارؓ کو برا بھلا مت کہو کیونکہ جو عمارؓ کو برا بھلا کہتا ہے اللہ اس کو برا بھلا کہنے کا بدلہ دیتا ہے اور جو عمارؓ سے بغض رکھتا ہے اللہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جو عمارؓ کو بیوقوف کہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بیوقوف کہتا ہے۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد 2 صفحہ 477 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5737 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء)

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے آنے کی اجازت مانگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور فرمایا پاک اور پاکیزہ شخص خوش آمدید۔(سنن ابن ماجہ کتاب فی فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ فضل عمار بن یاسر حدیث 146)۔ یہ اعزاز تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بخشا۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمارؓ کو جب بھی دو باتوںمیں سے کسی ایک کو کرنے کا اختیار دیا جاتا تو اسی بات کو اختیار کرتا ہے جس میں رشد اور ہدایت زیادہ ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب فی فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ فضل عمار بن یاسر حدیث 148)

حضرت عمرو بن شُرَحْبِیْل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمارؓ بن یاسرؓ کے رگ و پا میں ایمان سرایت کئے ہوئے ہے۔

(سنن النسائی کتاب الایمان باب تفاضل اھل الایمان حدیث 5010)

یعنی مکمل طور پر ایمان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کا شمار ان لوگوں میںہوتا تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دی ہوئی ہے۔

ابراہیم نے علقمہ سے روایت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں شام میں آیا۔ لوگوں نے کہا حضرت ابودرداءؓ کہتے تھے کہ کیا تم میں سے وہ شخص تھا جس کو اللہ نے شیطان سے بچائے رکھا جس طرح اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان سے فرمایا ہے یعنی حضرت عمارؓ کے بارے میں۔

(صحیح البخاری کتاب بدئ الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ حدیث 3287)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ پرچڑھائی کرنے کی تیاری فرمائی تو اس مہم کو پوشیدہ رکھا اور باوجود اس کے کہ صحابہ اس مہم کی تیاری کر رہے تھے لیکن یہ عام نہیں تھا کہ مکہ پر چڑھائی کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر ایک بدری صحابی حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے اپنی سادگی اور نادانی میں مکہ سے آئی ہوئی ایک عورت کے ہاتھ ایک خفیہ خط مکہ روانہ کر دیا جس میں مکہ پر حملہ کرنے کی ساری تیاریوں کا ذکر کر دیا۔ وہ عورت خط لے کر چلی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دے دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو دو تین افراد کے ساتھ جن میں حضرت عمارؓ بن یاسرؓ بھی شامل تھے اس عورت کا پیچھا کرنے اور وہ خط لینے کے لئے روانہ فرمایا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ ’’سارہ نام ایک عورت جو کہ مکہ میں رہتی تھی اور خاندان بنی ہاشم کے زیر سایہ پرورش پایا کرتی تھی ان ایام میں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے واسطے کوچ کی تیار کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو مسلمان ہو کر مکہ سے بھاگ آئی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں میں مسلمان ہو کر نہیں آئی بلکہ بات یہ ہے کہ میں اس وقت محتاج ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہمیشہ میری پرورش کیا کرتا ہے اس واسطے میں آپ کے پاس آئی ہوں تا کہ مجھے کچھ مالی امداد مل جائے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا اور انہوں نے اسے کچھ کپڑا اور روپیہ وغیرہ دیا جس کے بعد وہ واپس اپنے وطن کو روانہ ہو گئی۔ جب روانہ ہونے لگی تو حاطبؓ نے جو کہ اصحاب بدر میں سے تھا اس کو دس درہم دئیے اور کہا کہ میں تجھے ایک خط دیتا ہوں۔ یہ خط اہل مکہ کو دے دینا۔ اس بات کو اس نے قبول کیا اور وہ خط بھی لے گئی۔ اس خط میں حاطبؓ نے اہل مکہ کو خبر کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا ہے تم ہوشیار ہو جاؤ۔ وہ عورت ہنوزمدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الٰہی خبر مل گئی کہ وہ ایک خط لے کر گئی ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بمع عمارؓ اور ایک جماعت کے روانہ کر دیا کہ اس کو پکڑ کر اس سے خط لے لیں اور اگر نہ دے تو اسے ماریں۔ چنانچہ اس جماعت نے اس کو راہ میں جاپکڑا۔ اس نے انکار کیا اور قسم کھائی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں جس پر حضرت علیؓ نے تلوار کھینچ لی اور کہا کہ ہم کو جھوٹ نہیں کہا گیا۔ بذریعہ وحی الٰہی یہ خبر ملی ہے۔ خط ضرور تیرے پاس ہے۔ تلوار کے ڈر سے اس نے خط اپنے سر کے بالوں میں سے نکال دیا۔ جب خط آ گیا اور معلوم ہوا کہ وہ حاطبؓ کی طرف سے ہے تو حاطبؓ بلایا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ تُو نے کیا کیا؟ اس نے کہا مجھے خدا کی قسم ہے جب سے میں ایمان لایا ہوں کبھی کافر نہیں ہوا۔ بات صرف اتنی ہے کہ مکہ میں میرے قبائل کا کوئی حامی اور خبر گیر نہیں۔ میں نے اس خط سے صرف یہ فائدہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ کفار میرے قبائل کو دکھ نہ دیں۔ حضرت عمرؓ نے چاہا کہ حاطبؓ کو قتل کر دیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اصحاب بدر پر خوشنودی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کرو جو بھی ہو مَیں نے تمہیں بخش دیا۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 528-529)

تو یہ غلطی ان کی نادانستگی میں تھی۔ نیت مسلمانوں کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔

حضرت عمرؓ نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو ایک دفعہ کوفے کا والی بنایا اور اہل کوفہ کے نام حسب ذیل فرمان جاری فرمایا کہ اَمَّابَعْد مَیں عمارؓ بن یاسرؓ کو امیر اور ابن مسعودؓ کو معلم اور وزیر مقرر کر کے بھیجتا ہوں۔ بیت المال کا انتظام بھی ابن مسعودؓ کے سپرد کیا ہے۔ یہ دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان معزز اصحاب میں سے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک تھے۔ اس لئے ان دونوں کی فرمانبرداری اور اطاعت اور پیروی کرو۔ میں نے ابن اُمّ عبد (حضرت عبداللہؓ بن مسعود) کے بارے میں تمہیں اپنے اوپر ترجیح دی ہے۔ میں نے عثمان بن حُنَیف کو السواد (عراق کا علاقہ جس کو بیان کیا گیا ہے کہ اس کی سرسبزی اور شادابی کی وجہ سے سواد کہا جاتا ہے) پر مامور کر کے بھیجا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 193 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء)

پھر اہلِ کوفہ کی شکایت کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو معزول کر دیا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے بعد میں ان سے پوچھا کہ کیا ہمارا تمہیں معزول کرنا ناگوار تونہیں گزرا تھا؟ حضرت عمارؓ نے کہا کہ آپ نے کہا ہے، پوچھ لیا ہے تو مجھے تو اُس وقت بھی ناگوار معلوم ہوا تھا۔ اچھا نہیں لگا تھا جب آپ نے مجھے عامل بنایا تھا لیکن بنا دیا تھا۔ اطاعت تھی اس لئے میں بن گیا۔ اور اس وقت بھی ناگوار گزرا ہے جب مجھے معزول کیا گیا۔‘‘

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ٌ)

ناگوار بیشک گزرا لیکن بولے نہیں اور ہٹنے پر بھی کامل اطاعت کی یہاں تک کہ جب حضرت عمرؓ نے خود پوچھا ہے تو پھر جو دل میں تھا جو سچائی تھی وہ بیان کر دیا۔

حضرت عثمان کے خلاف فتنہ پھیلانے والے منافقین اور باغیوں نے جب مدینہ میں شورش برپا کی تو بدقسمتی سے اپنی سادگی کی وجہ سے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ بھی ان کے جھانسے میں آ گئے، دھوکہ میں آ گئے گو کہ عملی طور پر انہوں نے کسی بھی قسم کا ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’صرف تین شخص مدینہ کے باشندے ان لوگوں کے ساتھ تھے۔ ایک تو محمدؓ بن ابی بکرؓ جو حضرت ابوبکرؓ کے لڑکے تھے اور مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ بوجہ اس کے کہ لوگ ان کے باپ کے سبب ان کا ادب کرتے تھے ان کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ میں بھی کوئی حیثیت رکھتا ہوں ورنہ نہ ان کو دنیا میں کوئی سبقت حاصل تھی، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی، نہ بعد میں ہی خاص طور پر دینی تعلیم حاصل کی۔ حجۃ الوداع کے ایام میں پیدا ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ابھی دودھ پیتے بچے تھے۔ چوتھے سال ہی میں تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے اور اس بے نظیر انسان کی تربیت سے بھی فائدہ اٹھانے کا ان کو موقع نہیں ملا۔ دوسرا شخص محمد بن ابی حذیفہ تھا۔ یہ بھی صحابہ میں سے نہ تھا۔ اس کے والد یمامہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے اور حضرت عثمانؓ نے اس کی تربیت اپنے ذمہ لے لی تھی اور بچپن سے آپ نے اسے پالا تھا۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو اس نے آپ سے کوئی عہدہ طلب کیا۔ آپ نے انکار کیا۔ اس پر اس نے اجازت چاہی کہ میں کہیںبا ہر جا کر کوئی کام کروں۔ آپ نے اجازت دے دی اور یہ مصر چلا گیا۔ وہاں جا کر عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں سے مل کر حضرت عثمانؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کیا۔ جب اہل مصر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو یہ ان کے ساتھ ہی آیا تھا مگر کچھ دور تک آ کر واپس چلا گیا اور اس فتنہ کے وقت مدینہ میں نہیں تھا۔ تیسرے شخص عمارؓ بن یاسرؓ تھے۔ یہ صحابہ میں سے تھے اور ان کے دھوکہ کھانے کی وجہ یہ تھی‘‘، (حضرت مصلح موعود نے اس کی وضاحت فرمائی ہے) کہ یہ سیاست سے باخبر نہیں تھے۔ (سیاست بالکل نہیں آتی تھی۔) جب حضرت عثمانؓ نے ان کو مصر بھیجا کہ وہاں کے والی کے انتظام کے متعلق رپورٹ کریں تو عبداللہ بن سبا نے ان کا استقبال کر کے ان کے خیالات کو مصر کے گورنر کے خلاف کر دیا اور چونکہ وہ گورنر ایسے لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ایام کفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا اس لئے آپ بہت جلد ان لوگوں کے قبضے میں آ گئے‘‘ (یعنی یہ گورنر کیونکہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر چکا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت تھی اس کی وجہ سے ان لوگوں نے، مخالفین نے، حضرت عثمانؓ کے اور گورنر کے خلاف جو باتیں کیں تو آپ ان لوگوں کی باتوں میں آ گئے اور سمجھا کہ یہ پہلے ہی مخالفت کر چکا ہے تو اب بھی شاید اس کے دل نے صحیح طرح اسلام قبول نہیں کیا اور یہ ایسی حرکتیں کرتا ہو گا۔ بہرحال) ’’والی کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ حضرت عثمانؓ پر بھی انہوں نے ان کو بدظن کر دیا مگر انہوں نے عملاً فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا کیونکہ باوجود اس کے کہ مدینہ پر حملہ کے وقت یہ مدینہ میں موجود تھے سوائے اس کے کہ اپنے گھر میں خاموش بیٹھے رہے ہوں اور ان مفسدوں کا مقابلہ کرنے میں انہوں نے کوئی حصہ نہ لیا ہو عملی طور پر انہوں نے فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا۔‘‘ یہ ہے ان کی کمزوری کہ مدینہ میں ہونے کے باوجود مفسدوں کے خلاف کوئی حصہ نہیںلیا۔ ان کو روکا نہیں۔ لیکن عملاً انہوں نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا) ’’اور ان مفسدوں کی بداعمالیوں سے ان کا دامن (اس لحاظ سے) بالکل پاک ہے۔‘‘

(اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4صفحہ 314-315)

حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت عمارؓ بن یاسرؓ حضرت علیؓ کے ہمراہ رہے اور ان کے ساتھ جنگ جَمل اور جنگ صِفین میں شریک ہوئے۔ ابوعبدالرحمٰن اَلسُّلَمی کہتے ہیں کہ ’’جنگ صِفین میں ہم حضرت علیؓ کے ساتھ تھے۔ مَیں نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو دیکھا کہ وہ جس طرف بھی جاتے یا جس طرف بھی رُخ کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ان کے پیچھے جاتے گویا وہ ان کے لئے ایک جھنڈے کے طور پر تھے۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 126 عمار بن یاسر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء(

عبداللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ صِفین میں میں نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو دیکھا۔ (یہ وہ جنگ ہے جو حضرت علیؓ اور امیر معاویہ، جو شام کا گورنر تھا، ان کے درمیان ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا) آپ بوڑھے ہوچکے تھے۔ عبداللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں۔ طویل القامت تھے۔ آپ کا رنگ گندم گوں تھا۔ حضرت عمارؓ کے ہاتھ میں نیزہ تھا آپ کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ حضرت عمارؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نے اس نیزے کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین جنگیں لڑی ہیں۔ یہ چوتھی جنگ ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر یہ لوگ ہمیں مار مار کر ھَجَر کی کھجور کی شاخوں تک پسپا کر دیں تب بھی میں یہی سمجھوں گا کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ غلطی پر ہیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(
(المستدرک علی الصحیحین جلد 2 صفحہ 480 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5745 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء(

ابوالبختری کہتے ہیں کہ جنگ صِفین کے موقع پر حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے کہا کہ میرے پینے کے لئے دودھ لاؤ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ تم دنیا میں جو آخری مشروب پیوگے وہ دودھ ہوگا۔ چنانچہ دودھ لایا گیا۔ حضرت عمارؓ نے دودھ پیا اور پھر آگے بڑھ کر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

ایک روایت میںیہ بھی ہے کہ جب حضرت عمارؓ کے پاس دودھ لایا گیا تو حضرت عمارؓ ہنسے اور کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سب سے آخری مشروب جو تم پیوگے وہ دودھ ہو گا۔ (خوشی تھی کہ آج میں اس حالت میں شہید ہو رہا ہوں)۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے جنگ صِفین کے موقع پر فرمایا۔ جنت تلواروں کی چمک کے نیچے ہے اور پیاسا چشمہ پر پہنچ جائے گا۔ آج مَیں اپنے پیاروں سے ملوں گا۔ آج مَیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گروہ سے ملوں گا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

عبدالرحمن بن أبزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے صِفین کی طرف جاتے ہوئے دریائے فرات کے کنارے یہ کہا کہ اے اللہ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں اپنے آپ کو اس پہاڑ سے نیچے پھینک دوں تو میں ایسا کر گزرتا اور اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ تیری خوشنودی اس میں ہے کہ میں یہاں بہت بڑی آگ جلا کر اس میں اپنے آپ کو گرا دوں تو میں ایسا ہی کرتا۔ اے اللہ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تیری خوشنودی اس میں ہے کہ مَیں اپنے آپ کو پانی میں گرا دوں اور اس میں اپنے آپ کو غرق کر دوں تو مَیں یہی کرتا۔ میں صرف تیری رضا کی خاطر یہ جنگ کر رہا ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ تو مجھے ناکام نہ کرنا اور میں صرف تیری رضا ہی چاہتا ہوں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو ابوغَادِیہ مُزَنِی نے شہید کیا تھا اس نے انہیںا یک نیزہ مارا جس سے وہ گر پڑے۔ پھر ایک اور شخص نے حضرت عمارؓ پر حملہ کر کے ان کا سر کاٹ لیا اور پھر یہ دونوں جھگڑتے ہوئے معاویہ کے پاس آئے۔ ہرشخص کہتا تھاکہ میں نے انہیں قتل کیا ہے۔ حضرت عمرو بن عاص نے کہا (یہ اس وقت معاویہ کے ساتھ تھے، صحابی تھے لیکن اس وقت یہ بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے بہرحال معاویہ کے پاس تھے لیکن نیکی تھی جو اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔) حضرت عمرؓو بن العاص نے کہا کہ اللہ کی قسم دونوں صرف آگ کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں۔ (یعنی انہوں نے حضرت عمارؓ کو جو شہید کیا ہے اور ہر ایک جو کہتا ہے دعویٰ کر رہا ہے کہ میں نے شہید کیا ہے تو تم دونوں صرف آگ کے بارے میں جھگڑ رہے ہو۔) حضرت معاویہؓ نے حضرت عمروؓ بن عاص کی یہ بات سن لی۔ جب دونوں شخص واپس چلے گئے تو معاویہؓ نے حضرت عمروؓ بن عاص سے کہا کہ جیسا تم نے کہا ہے میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ لوگوں نے ہمارے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں اور تم ان دونوں سے یہ بات کر رہے ہو کہ تم آگ کے بارے میں جھگڑ رہے ہو۔ حضرت عمروؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! بات تو ایسی ہی ہے اللہ کی قسم! تم بھی اسے جانتے ہواور مجھے تو یہ پسند ہے کہ میں اس سے بیس سال پہلے ہی مر گیا ہوتا‘‘ اور یہ موقع نہ آتا کہ جب ہم اس طرح لڑیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 196 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

حضرت عمارؓ کی وفات حضرت علی کے عہد خلافت میں یعنی جنگ صِفین میں صفر 37ہجری میں 94 سال کی عمر میں ہوئی۔ بعضوںکے نزدیک 93 سال یا 91 سال عمر ہے۔ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کی تدفین صِفین میں ہی ہوئی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 200عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 127 عمار بن یاسر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء(

یحي بن عَابِسْ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو شہید کیا گیا اس وقت انہوں نے کہا کہ مجھے میرے کپڑوںمیں دفن کرنا کیونکہ میں دادخواہ ہوں گا۔ حضرت علیؓ نے حضرت عمارؓکو ان کے کپڑوں میں ہی دفن کیا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 198عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 127 عمار بن یاسر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء(

ابواسحاق کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ اور ہاشمؓ بن عتبہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عمارؓ کو آپ نے اپنے قریب رکھا اور ہاشم کو ان کے آگے اور دونوں پر ایک ہی مرتبہ پانچ یا چھ یا سات تکبیریں کہیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 198عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء(

تو یہ تھے وہ صحابہ جنہوں نے حق کے لئے لڑائی کی اور حق کے لئے جان دی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کا تھوڑا سا کچھ اور بھی ذکر ہے۔ کچھ واقعات ہیں، روایات ہیں وہ انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button