الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

مکرم محمد وقیع الزمان خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 جولائی 2012ء میںمکرم کیپٹن (ریٹائرڈ) ماجد احمد خان صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم محمد وقیع الزمان خان صاحب کا مختصر ذکرخیر شاملِ اشاعت ہے۔

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے ابّا کی قبر کے سرہانے پر لگے کتبے پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کا ارشاد تحریر ہے کہ: ’’جب مَیں انگلستان آیا ہوں تو میرے ساتھ جو دو شخص جماعت کی طرف سے نمائندہ تھے ان میں ایک برگیڈیئر وقیع الزمان صاحب تھے۔ اتنا مَیں جانتا ہوں کہ بڑے فدائی انسان تھے ، بہت ہی بزرگ والد، خوش نصیب ہیں وہ بچے اور خوش نصیب ہے وہ بیوی جن کو وقیع الزمان نصیب ہوئے‘‘۔
ابّا کی پیدائش 1922ء کی تھی۔ ہمارے دادا خان رفیع الزمان خان قائم گنج (اُتّرپردیش) کے رہنے والے تھے۔ اپنے قصبہ میں واحد احمدی شدید مخالفت کے باعث چھ سالہ وقیع الزمان کو لے کر کراچی آکر آباد ہوگئے اور یہیں 1965ء میں وفات پائی۔

ابّا نے زیادہ تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ دورانِ تعلیم حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تحریک پر فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے۔ تعلیم چونکہ ایک عام سپاہی کی نسبت کہیں زیادہ تھی اس لئے جلد ہی اپنے افسروں کی نظروں میں آگئے۔ ایک انگریز افسر نے جوہر کو پہچان لیا۔ اسی کے کہنے پر انڈین آرمی میں بطور افسر کمیشن کے لئے درخواست دی۔ سلیکشن اور ٹریننگ کے بعد 1943ء میں کمیشن حاصل کیا۔ ابّا غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک فوجی افسر تھے۔ نڈر سپاہی، دلوں پر حکومت کرنے والا کمانڈر اور بہترین مقرر، ابّاکی وفات پر بیشمار لوگوں نے تعزیت کے خطوط لکھے۔ اس وقت کے گورنر سرحد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف بنگش نے خاکسار کو لکھا:

I can say with confidence that not only he was the best commanding officer I served with, he was also one of the best person I was ever associated with. A man with big heart and sharp mind. I have learnt so much from him; in fact what I am today is due to him.

فوج کی سروس کی آخری اسائنمنٹ بطور لاگ ایریا کمانڈر لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس 1974ء کو آرگنائز کرنا تھا جو نہایت احسن طریقے سے انجام پائی۔ خداداد صلاحیتوں کے مالک فوجی افسر ہونے کے باوجود 1971ء میں میجر جنرل کے عہدہ پر ترقی سے روک لیا گیا۔ ناعاقبت اندیش لوگوں نے یہ کہہ کر محروم کردیا کہ احمدی ہے۔ یہ غالباً اپریل 1971ء کا واقعہ ہے۔ پاک بھارت سرحد پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ ترقی نہ ملنے پر فوج کی اچھی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا استعفیٰ تحریر کیا لیکن پھر مجھے کہنے لگے کہ ملک اور قوم پر کڑا وقت ہے ایسے میں فوج کو چھوڑنا مناسب نہیں اس کا میرے پر قرض ہے اس لئے مَیں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اپنے سے جونیئر کمانڈر کے ماتحت کے طور پر بھی سروس جاری رکھوں گا۔ یہ ایک بہادر احمدی افسر کا جواب تھا اُن کو جنہوں نے اسے ترقی کے قابل نہیں سمجھا۔
1984ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے موقع پر پلاننگ کے تمام امور میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مجھے کہتے تھے کہ یہ میری 30 سالہ سپاہیانہ زندگی کا نچوڑ ہے۔ میرا ایمان ہے کہ خدا نے مجھے صرف اسی مقصد کے لئے فوج میں بھیجا تھا۔

اپنے بچوں کی تربیت پر خاص نظر رکھتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور دعا مانگنے کے طریق کے بارہ میں ایک بیٹی کو خط میں لکھا: ’’تمام رشتے بالواسطہ اور عارضی ہوتے ہیں۔ صرف ایک خدا اور بندے کا رشتہ ہے جو حقیقی ہے۔ وہ تمہارا مالک اور تم اس کی ذاتی ملکیت ہو۔ اس کا تم پر لامحدود حق ہے۔ سب سے اوّل مانگنے کی چیز اس کی رضا ہے۔ جہاں تک دنیاوی نعمتوں کا تعلق ہے اس سے عرض کرو کہ وہ سب کچھ دے جو اس کو تمہارے لئے پسند ہو۔‘‘

تربیت کے حوالہ سے اکثر بڑے ہی لطیف انداز میں سبق پڑھا دیا کرتے تھے۔ اپنے دامادوں اور بہو سے بہت پیار کرتے۔ بیٹی سے کہتے کہ اپنے خاوند کا کھانے پر انتظار کیا کرو اور میری بیوی کو کہتے کہ کھانا کھالو اور ماجد کے لئے رکھ دو۔ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو بچپن میں کہا کرتے تھے کہ امتحان میں کبھی نقل نہ کرنا۔ جب اَور بچے نقل کر رہے ہوں تو تم صرف اللہ سے مدد مانگنا، اللہ جب دیکھے گا کہ یہ بچی میرے سے مدد مانگ رہی ہے اور باقی نقل کر رہے ہیں تو وہ ضرور کامیاب کرے گا۔ اس بیٹی نے بعد میں B.Sc. اور M.Sc. میں ٹاپ کیا اور یونیورسٹی سے میڈل حاصل کیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر ہمیشہ آواز بھرّا جاتی اور آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات میں اپنے محبوب کا ذکر لے آیا کرتے تھے۔ کدّو کی سبزی بالکل پسند نہیں تھی لیکن جب بھی کھانے کی میز پر کدّو آتا تو یہ کہہ کر پلیٹ میں ڈالتے کہ یہ میرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یوں تو ہر لمحہ ڈوبا ہوا لگتا ہے لیکن رمضان کے مہینہ میں تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ اہل ذوق تھے اور رمضان کے مہینہ میں کئی دفعہ نعت کہتے۔

خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق کی وجہ سے ہماری امّی کو اپنے گھر کا تبرّک کہا کرتے۔ ایک دفعہ لنڈے کے کپڑے استعمال ہونے پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ مَیں تو استعمال کرسکتا ہوں لیکن تمہاری امّی حضرت مسیح موعودؑ کی پوتی ہے اُنہیں استعمال نہیں کرنے دوں گا۔

خلافت سے بے پناہ عقیدت تھی۔ ہر مشکل میں سب سے پہلے خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے لکھتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کا امتحان دے کر ٹرین سے واپس آرہا تھا۔ ایک پیپر اچھا نہیں ہوا تھا۔ خیال تھا کہ فیل نہ ہوجاؤں۔ پریشانی کے عالم میں ٹرین میں ہی بیٹھے بیٹھے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو خط لکھا۔ لفافے میں بند کیا اور چلتی ٹرین سے کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ کہتے تھے کہ نہ صرف مَیں امتحان میں پاس ہوگیا بلکہ اس پیپر میں ٹاپ بھی کیا۔ کہا کرتے تھے ہرمشکل وقت میں خلیفۂ وقت کو خط لکھ دیا کرو۔ پہنچے یا نہ پہنچے ، اللہ نے اس تعلق میں برکت رکھی ہوئی ہے۔ وہ اسی برکت کی وجہ سے مشکل دُور کردیتا ہے۔
1985ء کے جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اہل پاکستان کے لئے خصوصاً ایک دردانگیز نظم عنایت فرمائی جو کہ جلسہ کے موقع پر پڑھی گئی:

دیار مغرب سے جانے والو، دیار مشرق کے باسیوں کو

اک غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا

اس نظم کی بازگشت میں ابّا نے حضورؒ کی خدمت میں نظم بھجوائی جسے حضورؒ نے بے حد پسند فرمایا اور ابّا کو لکھا: میری نظم کے جواب میں جو تمام نظمیں لکھی گئیں ان میں آپ کی نظم کو ایک خاص مقام ہے:

جو حال پوچھیں وہ زخمِ دل کا ، یہی بتانا کہ مندمل ہے

دوائے دل بن کے خود جو آتے ہو دل میں صبح و شام کہنا

ہمارے خوابوں کا سارا مضموں تمہارا آنا تمہارا جانا

کہ جیسے ساون کے بادلوں میں رواں ہو ماہِ تمام کہنا

کسی سے کچھ مانگتے ہوئے سخت گھبراتے تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کاروبار کیا اور نقصان اٹھایا۔ جب بہت مشکل وقت آن پڑتا تو مجھے علیحدگی میں بلاکر کہتے کہ کچھ قرض چاہئے۔ پیسے آئے تو لَوٹادوں گا۔ میرے اصرار کے باوجود قرض کے علاوہ کبھی ایک پیسہ لینا بھی قبول نہیں کیا۔ ایک د فعہ جب مَیں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے: میرے لئے یہ راستہ بھی بند نہ کرو۔ اگر قرض دو گے تو لوں گا ویسے نہیں۔
اسی تربیت کا اثر ہم بھائی بہنوں پر کچھ یوں ہوا کہ ہم نے ابّا سے کبھی کسی قسم کی کوئی فرمائش نہیں کی۔ ہم سے کہا کرتے تھے کہ بچے اپنے ماں باپ سے فرمائش کرتے ہیں، تم بھی کیا کرو۔ میرا بڑا دل کرتا ہے کہ تم مجھ سے فرمائش کرو اور مَیں پوری کروں۔

دوسری طرف دینے والا ہاتھ بہت کھلا تھا۔ کاروبار میں نقصان کے باعث مشکل میں تھے۔کچھ لینا بھی قبول نہ تھا۔ اس کے باوجود گاہے بگاہے بچوں کو ہی دیتے رہتے تھے۔ مجھے ایک Cologneبہت پسند تھا۔ قیمتی ہونے کی وجہ سے مَیں اسے کم ہی استعمال کرتا۔ ایک موقع پر ابّا میرے لئے وہ Cologne تحفہ لے آئے جس کی قیمت ان کی ماہانہ پنشن کے نصف کے برابر تھی جس پر ان کا گزر ہوتا تھا۔ میرے لئے وہ وقت بہت بھاری تھا ۔نہ ہاتھ بڑھانے کے قابل نہ انکار کے۔

ان محبتوں کا ذکر تو بہت لمبا ہے۔ قلم ساتھ نہیں دیتا۔ خیال آگے نکل جاتا ہے۔ آنکھیں دھندلاجاتی ہیں۔ بند ٹوٹ جاتے ہیں۔

…*…*…*…

مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی شہادت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اپریل 2012ء میں شائع ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب صدر محلہ نصرت آباد ربوہ پولیس اہلکاروں کے تشدّد کے باعث 30مارچ 2012ء کو بعمر 43سال راہ مولیٰ میں شہید ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق کچھ عرصہ قبل ربوہ کے محلہ نصرت آباد کے اشٹام فروش احمدیوسف کے قتل کے الزام میں پولیس نے ماسٹر صاحب کو حراست میں لیا تھااور ان سے اس قتل کا زبردستی اعتراف کرانے کی کوشش میں تھانہ ربوہ کے سفّاک پولیس اہلکاروں نے انہیں انسانیت سوزوحشیانہ تشدد کا بے دریغ نشانہ بنایا۔ حالت غیر ہونے پر ماسٹر عبدالقدوس صاحب کے لواحقین کو ڈرا دھمکا کر سادہ کاغذ پر دستخط لئے گئے اور اس کے بعد ان کو رہا کر دیاگیا۔ شدید تشدد کا نشانہ بننے کے باعث ان کے جسم سے خون کا اخراج خطرناک حد تک ہو رہا تھا۔مقامی ہسپتال میں ان کی جان بچانے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں لیکن وہ ان جان لیوا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔

مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ نیک، خادم سلسلہ ، خاموش طبع ، ملنسار ، غریبوں کے دکھ درد میں ان کے کام آنے والے اور ہمہ وقت خدمت دین میں مصروف رہتے تھے۔ چھوٹی عمر سے ہی جماعتی کاموں میں آگے آگے رہتے۔ منتظم اطفال ، زعیم خدام الاحمدیہ ، شعبہ حفاظت مرکز اور مجلس صحت کے شعبہ کشتی رانی میں خدمات نیز بطور صدر محلہ آپ کی خدمات یادر کھی جائیں گی۔ آپ نے لواحقین میں بزرگ والدین ، اہلیہ اور چار بچے عزیزم عبدالسلام (عمر 14سال)، عزیزم عبدالباسط (عمر 13سال) ، عزیزہ عطیۃ القدوس (عمر 10سال) اور عزیزم عطاء الوہاب (عمر 5سال) یادگار چھوڑے ہیں۔

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے برادرم محترم عبدالقدوس صاحب کی دردناک شہادت کا تفصیل سے ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍اپریل 2012ء میں کیا اور اس پیارے بھائی کو نہایت پیار سے خداتعالیٰ کے سپرد فرماتے ہوئے اُس کے سفّاک قاتلوں کا معاملہ بھی خداتعالیٰ کی تقدیر کے حوالے کردیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید نہایت اچھے اور خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ خدمتِ خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ دریائے چناب میں جب کبھی کوئی ڈوب جاتا تو احمدی یا غیر احمدی کا فرق کئے بغیر اُس کی لاش تلاش کرنے میں اپنے ساتھیوں کی نگرانی کرتے ہوئے دن رات محنت کرنے لگ جاتے، اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ نعش کو تلاش نہ کرلیں۔ بچپن سے وفات تک مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ شہید مرحوم اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک نمونہ تھے اور جماعتی عہدیداران کی عزت و احترام کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔ طالبعلمی کے دَور سے ہی ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لینے کا اُنہیں بہت شوق تھا۔ کبڈی، ہاکی، فُٹبال، کرکٹ وغیرہ کے اور کشتی رانی کے اچھے پلیئر تھے۔

حضور انور نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی انہوں نے ڈیوٹیاں دی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ کبھی سامنے آ کر ڈیوٹی دینے کا شوق نہیں تھا۔ کوئی نام و نمود نہیں تھی۔ باوجود انچارج ہونے کے پیچھے رہتے تھے اور اپنے ماتحتوں کو آگے رکھتے تھے۔

…*…*…*…

الفضل کے ذریعہ پاک تبدیلیاں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جون 2012ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں اخبار الفضل کے ذریعہ ہونے والی چند پاکیزہ تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

٭… مکرم چوہدری نور احمد صاحب ناصر لکھتے ہیں: میرے داداچوہدری نور محمدصاحب سفید پوش اور علا قہ کے بڑے ہی بااثر شخص تھے۔ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحبؓ آف سجووال (جو ملٹری ڈرائیور تھے) کو علم ہوا کہ اگر وہ چوہدری نور محمد صاحب کو احمدی کر لیںتو سارے علاقہ میں احمدیت پھیلنے میں آسانی ہوجائے گی۔چنانچہ تبلیغ کے جنون نے اُنہیں چوہدری نور محمد صاحب سفید پوش کے پیچھے لگا دیا۔ اُدھر چوہدری نور محمد صاحب سخت مخالف تھے اور کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ ہمیشہ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحبؓ سے بدسلوکی سے پیش آتے ۔ تاہم وہ ان ساری بدسلوکیوں کو درگزر کرتے ہوئے مسلسل آتے اور جماعتی اخبار چودھری نور محمد صاحب کے تکیے کے نیچے رکھ کر چلے جاتے اور چودھری صاحب اس کو بغیر پڑھے اور دیکھے دادی جان کو دے دیتے کہ اسے چولہے میں جلا دینا۔ یہ سلسلہ لمبا عرصہ جاری رہا کہ ایک دن اچانک اُن کی نظر اخبار پر لکھے ایک حرف ’’محمدؐ ‘‘ پر پڑی۔ جب تھوڑا سااخبار کھولا تو لکھا تھا ۔ ؎

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سار

نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے

اس شعر نے تو گویا ان کی کایا ہی پلٹ دی۔ دھول چھٹنے لگی، سارا اخبار پڑھا اور پھر اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ تم نے وہ اخبار جلادیئے ہیں جو عبدالقادر لاتا تھا۔ وہ کہنے لگیں نہیں میں نے سارے سنبھال کے رکھے ہو ئے ہیں ۔کہا سارے لے آ۔ جب وہ لائیں تو سارے اخبار ایک ایک کرکے پڑھنے لگے۔ جوں جوں پڑھتے جاتے توں توں دل کی میل صاف ہوتی گئی۔ اخبار ختم ہو گئے تو دل بھی مسیح پاک کی پاکیزہ تحریرات سے دھل گیا اور امام الزماں کا غلام ہو گیا۔ چنانچہ فوراً بیعت کرلی۔

٭…محترمہ وزیر بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ 1939ء میں میرے خاوند قاضی شریف الدین صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ ایک دفعہ تو گویا ہمارے گھر پر بم گر گیا مگر پھر میں ان کے پاس چلی گئی لیکن احمدیت کی بہت ہی مخالف تھی اور ہر وقت قاضی صاحب سے ناراض رہتی۔ مگر وہ مجھے کچھ نہیں کہتے تھے۔ انہوں نے یہ کہا کہ مَیں تو خدا کے فضل سے احمدی ہو گیا ہوں اور اب مَیں نہیں ہٹ سکتا۔ تمہیں نہیں کہتا کہ تم احمدی ہو جاؤ۔ تمہاری اپنی مرضی ہے۔ مجھے ہر وقت احمدیت کے متعلق اچھی باتیں بتاتے رہتے تھے مگر مَیں اکثر اُن سے ناراض رہتی۔ جب صبح قرآن پاک پڑھتے تو مجھے اس کے معنے بتاتے۔ مسئلہ بھی بتاتے کہ دیکھو قرآن میں یہ لکھا ہے۔ جب سے احمدی ہوئے تھے پانچ وقت نمازیں گھر میں ہی پڑھتے۔ تہجد بھی پڑھتے تھے۔ بہت ہی دعائیں کرتے، میرے لئے بہت ہی دعائیں کرتے رہتے تھے۔ اس وقت میرے دو بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بہت کمزور تھی پھر ان کی طرف سے بہت غم کرتی تھی۔ رشتے دار اور ملنے والے بھی مخالفت کرتے تھے۔ ایک دفعہ میری کچھ سہیلیاں میرے گھر آئیں تو میں نے ان کی چائے وغیرہ سے خاطر کی۔ انہوں نے کوئی چیز نہیں کھائی اور کہنے لگیں کہ ہم نے مرزائن کے گھر کا کچھ نہیں کھانا۔ جس پر میں بہت روئی اور قاضی صاحب کو کہا کہ دیکھا لوگ کتنا بُرا سمجھتے ہیں!۔ وہ ہنس کرکہنے لگے کہ کوئی بات نہیں ایک دن آئے گا کہ وہ خود ہی کھا لیں گے۔

گھر میں اخبار الفضل بھی آنا شروع ہو گیا۔ محترم قاضی صاحب الفضل کو اونچا پڑھتے اور میں سنتی رہتی۔ آخر ایک دن اُن کا نیک نمونہ اور دعائیں رنگ لائیں اور میری خوش دامن صاحبہ نے خود ہی ان کو کہہ دیا کہ میری بیعت کا خط بھی لکھ دیں۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔

٭… مکرم طارق احمد طاہر صاحب مربی سلسلہ بہاولنگر لکھتے ہیں: روزنامہ الفضل میں چھپنے والا ایک مضمون بعنوان ’’عصر حاضر کی طبّ کی روشنی میں روزہ کی افادیت‘‘ اپنی جماعت میں درس کے طور پر سنایا تو ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ پندرہ سال سے روزے نہیں رکھ رہے تھے لیکن یہ مضمون سُن کر باقاعدہ روزے رکھنے شروع کردیئے ہیں۔

٭…مکرم ناظر صاحب دعوت الی اللہ قادیان ایک ہندو کی نظر میں الفضل کی قدر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
چند روز ہوئے بعض غریب جماعتوں کے لئے الفضل مفت جاری کرانے کی تحریک کی گئی تھی۔ اس پر جہاں اپنوں نے چند اخبار مفت جاری کروائے وہاں ہندو اصحاب میں سے جناب لالہ سنت رام صاحب رئیس بشناہ تحصیل رنبیر سنگھ ریاست جموں نے بھی لکھا کہ وہ اخبار الفضل کوروزانہ پڑھتے ہیں اور اس تحریک پر مبلغ تین روپے بھیج رہے ہیں تاکہ ان کی طرف سے جماعت ریاسی کے نام اخبار الفضل مفت جاری کر دیا جائے۔

٭… ایک غیرازجماعت دوست نے اپنے خط میں الفضل میں شائع ہونے والے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

’’الفضل اخبار نے میرے دل میں ایک خاص تبدیلی پیدا کردی ہے خاص کر خلیفہ صاحب کے خطبات بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان سادے مگر مسحور کر دینے والے خطبات کے بغور مطالعہ کے بعد زنگ آلودہ دلوں کی تسخیر یقینی اور لازمی امر ہے۔ اگر آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ضرور اس نیک دل اور روشن دماغ کی کرنیں گم گشتہ راہ لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث ہوںگی۔…‘‘۔

بعدازاں اس دوست نے احمدیت قبول کرلی۔

٭… الٰہ آباد کے ایک غیراحمدی عالم اور دانشور سرشفاعت احمد خان صاحب الفضل کے خریدار تھے۔ ایک بار جب اُن کی خدمت میں آئندہ سال کے لئے قیمت کی وصولی کا وی پی بھیجا گیا تو خلاف توقع واپس آگیا۔ اس پر بذریعہ خط انہیں وی پی واپس آنے کی اطلاع دی گئی۔ اس کے جواب میں انہوں نے سالانہ قیمت پندرہ روپے کا چیک بھیجتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’مکرمی بندہ السلام علیکم والانامہ جناب صادر ہوا۔ مجھے نہایت افسوس ہے کہ الفضل کا وی پی واپس کردیا گیا میں بمبئی تھا ابھی آج آیا ہوں اور نوکروں کی بیوقوفی اور غلطی ہے۔ معافی کا خواستگار ہوں۔

بعض الفضل کے مضامین نہایت دلچسپ ہوتے ہیں اور تقریباً تمام پرچہ روز میں پڑھتا ہوں۔‘‘

٭… حضرت مصلح موعودؓ نے 1935ء میں ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’مجھے کل ہی ایک نوجوان کا خط ملا ہے۔ وہ لکھتا ہے میں احراری ہوں میری ابھی اتنی چھوٹی عمر ہے کہ میں اپنے خیالات کا پوری طرح اظہار نہیں کرسکتا۔ اتفاقاً ایک دن ’’الفضل‘‘ کا مجھے ایک پرچہ ملا جس میں آپ کا خطبہ درج تھا۔ مَیں نے اسے پڑھا تو مجھے اتنا شوق پیدا ہو گیا کہ میں نے ایک لائبریری سے لے کر ’الفضل‘ باقاعدہ پڑھنا شروع کیا۔ پھر وہ لکھتا ہے خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں اگر کوئی احراری آپ کے تین خطبے پڑھ لے تو وہ احراری نہیں رہ سکتا۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ خطبہ ذرا لمبا پڑھا کریں۔ کیونکہ جب آپ کا خطبہ ختم ہو جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل خالی ہو گیا اور ابھی پیاس نہیں بجھی۔
تو سچائی کہاں کہاں اپنا گھر بنالیتی ہے۔ وہ چھوٹے بچوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور بڑوں پر بھی‘‘۔
٭… 1940ء میں غیرمبایعین کے مہمان خانہ کے ایک سابق منتظم نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھا:

’’آداب کے بعد عرض ہے کہ بندہ جناب سید حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹ کے خاندان اور حضرت مسیح موعود کے صحابہ سے ہے اور حضرت اقدسؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اس کے بعد چند ایک وجوہ سے لاہور کی جماعت کے ہاں سلسلہ آمدورفت رہا۔ مگر حضور کی عزت اور احترام بدستور میرے دل میں رہا۔

یہ میرا ایمان ہے کہ کسی جماعت کی تنظیم یا ترقی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کسی خلیفہ یا امیر کے ماتحت نہ ہو اور اس کے حکم کے ماتحت نہ چلے۔ مگر لاہور کی رہائش میں مجھے جو تجربہ ہوا وہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے امیر کے ماتحت چلتے ہیں۔ کئی ایک ان میں خود سر ہیں اور حضرت امیر مولوی محمد علی صاحب چشم پوشی فرماتے ہیں۔ دوسرے اخلاقی حالت بھی مصری عبدالرحمن صاحب کے لاہور آنے پر درست نہ رہی اور پبلک گفتگو بھی شرافت کی حد سے گر گئی ہے۔

چونکہ حضور کی عزت اور احترام میرے دل میں بہت تھا۔ اس لئے میں برداشت نہ کرسکتا تھا اور اکثر بحث مباحثہ تک نوبت پہنچتی تھی۔ جس سے مجھے قادیانی جاسوس کہنے لگے۔ چونکہ ان ایام میں میری رہائش لاہور احمدیہ بلڈنگ میں تھی اور میں سپرنٹنڈنٹ مہمان خانہ بھی تھا۔ اس لئے حالات زیادہ وضاحت سے معلوم ہوتے رہے جس سے میں ان لوگوں سے دلبرداشتہ ہو گیا اور حضور کی قدم بوسی کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ انہی دنوں جناب میر عبدالسلام صاحب لندن سے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے جو کہ میرے ماموںزاد بھائی ہیں اور ہم زلف بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے سیالکوٹ کی رہائش کا مشورہ دیا۔ چنانچہ دو سال سے میں سیالکوٹ میں ہوں۔ یہاں اخبار الفضل روزانہ پڑھتا رہا اور جناب ہمشیرہ صاحبہ سیدہ فضیلت بیگم سے تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہا جس سے میرے تمام شکوک رفع ہو گئے۔

اب میں حضور سے سابقہ غفلت اور کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہوں اور حضور کی بیعت میں داخل ہوتا ہوں اور فارم بیعت پُرکرکے ارسال خدمت کرتا ہوں۔ حضور میری بیعت قبول فرمائیں اور میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت دے۔‘‘

…*…*…*…

اگلے الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

گزشتہ الفضل ڈائجسٹ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button