خطاب حضور انور

اختتامی خطاب سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍جون 2006

دنیا میں جب بھی اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث فرمائے ہمیشہ ان کی قوم نے ان کی مخالفت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ آخری نبی اور تمام دنیا اور ہر قوم کے لئے اور تاقیامت اور ہر زمانے کے لئے نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمائے تھے اس لئے آپؐ کی مخالفت صرف آپؐ کے زمانے تک محدود نہیں تھی۔ صرف مکہ تک محدود نہیں تھی۔ بلکہ آپ کے زمانے میں بھی مکہ سے نکل کر پورے عرب میں یہ مخالفت پھیل گئی تھی بلکہ اس سے بھی آگے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی مخالفت اور دشمنی بھی انتہا کی ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ آپ کو دشمن کے ہر قسم کے وار سے محفوظ رکھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پہلے انبیاء نے بھی پیشگوئیاں فرمائی تھیں کہ وہ نبی کسی کے ہاتھوں قتل نہ ہو گا۔

ہر موقع پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھتے ہوئے دشمن کو ناکام و نامراد کیا۔

آپؐ ہی وہ آخری شرعی نبی ہیں جو تمام زمانوںاور قوموں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ کسی اور مذہب کی اس طرح مخالفت نہیں ہوئی۔ کسی اور مذہب کے بانی کی اس طرح مخالفت نہیں ہوئی جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوئی اور ہو رہی ہے۔ پس اس مخالفت سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جتنی زیادہ یہ مخالفت ہو گی اتنا زیادہ اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلے گا۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آپ کا وہ عاشق صادق بھیجا ہے جو اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے جَرِیُ اللہ کہا ہے۔

آج بھی اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کے لئے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے آسمان سے نشان ظاہر فرما رہا ہے

اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

بعض انصاف پسند غیر مسلم محققین و مصنفین کے ایسے بیانات کا تذکرہ جن میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو حقیقی طور پر اپنے اوپر لاگو کرنے والا بنائے اور اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے جس کو لے کر آپ اٹھے تھے اور وہ اُسوہ ہم میں سے ہر ایک اپنے میں قائم کرنے کی کوشش کرے جس کو دیکھتے ہوئے غیروں کو بھی اور یہ جو نیک فطرت لوگ تھے ان کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آپ کا ہر فعل اور قول صدق اور سچائی کی ایک مثال تھا۔ اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق، اس پیارے مسیح کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں اور اپنی تمام تر طاقتیں صرف کر دیں تا کہ جلد سے جلد دنیا کو حقیقی اسلام اور احمدیت کے جھنڈے تلے لے آئیں اور ہر جگہ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے لگے۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۔ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ۔ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا۔ قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ۔(آل عمران82:)

قرآن کریم جو آخری شرعی کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی جو تمام نبیوں کے جامع اور خاتم ہیں ان پر اتارا ہے، ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں جب بھی اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث فرمائے ہمیشہ ان کی قوم نے ان کی مخالفت کی۔ چنانچہ فرماتا ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا (الانعام113:)۔یعنی اور اس طرح ہم نے ہر نبی کے لئے دشمن بنائے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ آخری نبی اور تمام دنیا اور ہر قوم کے لئے اور تاقیامت اور ہر زمانے کے لئے نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمائے تھے اس لئے آپؐ کی مخالفت صرف آپؐ کے زمانے تک محدود نہیں تھی۔ صرف مکہ تک محدود نہیں تھی۔ بلکہ آپ کے زمانے میں بھی مکہ سے نکل کر پورے عرب میں یہ مخالفت پھیل گئی تھی بلکہ اس سے بھی آگے۔ کیونکہ آپ نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوںکو بھی دعوت اسلام دی تھی اس لئے بعض متکبر اور غرور بادشاہوں نے آپ کی مخالفت کی اور آپ کو نعوذ باللہ ختم کرنے کے لئے بڑا زور لگایا اور دشمنی کی انتہا کی۔ چنانچہ کسریٰ نے یمن کے گورنر کے ذریعہ سے آپ کے اس دعوت اسلام بھیجنے پر آپ کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کے کان میں کسی نے ڈال دیا کہ عرب میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو اپنے آپ کو ہر چیز سے بالا سمجھتا ہے۔(الطبقات الکبریٰ جزء اول صفحہ 125 باب ذکر بعثہ رسول اللہؐ الرسل بکتبہ … الخ مطبوعہ دار الفکر بیروت دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) تو بہرحال وہ تو اس میں کامیاب نہیں ہوا، نہ ہو سکتا تھا۔ یہ نبی تو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا نبی تھا اور ہے کیونکہ آج بھی اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ تو بہرحال یہ اس کی کوشش تھی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان جنّ و اِنس کی شکل میں نبی کی مخالفت کرتے ہیں اور کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی مخالفت اور دشمنی بھی انتہا کی ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ آپ کو دشمن کے ہر قسم کے وار سے محفوظ رکھا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ68:)۔ یعنی اور اللہ تجھے لوگوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا۔

پس دیکھیں کہ مکہ کی ابتدائی زندگی سے لے کر فتح مکہ تک کیسے کیسے خطرناک حالات آئےبلکہ آپ کی زندگی کے آخری سانس تک مخالفت رہی۔ کھل کر یا چھپ کر آپ کے خلاف مخالفتوں کی اور دشمنیوں کی انتہا کی گئی۔ جنگ اُحد میں، جنگ حُنین میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمن کے نرغے میں آنے کے باوجود کیسے حالات سے محفوظ رکھا۔ جو دشمن آپ کو ختم کرنے کے درپَے تھےیا خود ختم ہو گئے یا آپ کی غلامی میں آنے کو فخر سمجھنے لگے۔ایسی کایا پلٹی کہ جو آپ کے قتل کرنے کے لئے پھرتے تھے آپ کی حفاظت میں جان قربان کرنے کی آرزو رکھنے لگے۔ ایک طرف مخالفتیں بھی انتہا کو چلتی رہیں دوسری طرف جانثاروں کی جماعت بھی اپنی قربانیوں کی انتہا تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہی۔

اللہ تعالیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وعدے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے۔ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ68:)۔ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دئیے۔ وطن سے نکالا۔ دانت شہید کیا۔ انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے۔ سو درحقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیںکیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کرنا یا دانت شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا۔ سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے محفوظ رکھا‘‘۔

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301 حاشیہ)

پھر فرماتے ہیں’’ لکھا ہے کہ اول مرتبہ میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کے لئے ہمراہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ68:)۔ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں‘‘۔

(الحکم مورخہ 24 اگست 1899ء جلد 3 نمبر 30 صفحہ 2)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پہلے انبیاء نے بھی پیشگوئیاں فرمائی تھیں کہ وہ نبی کسی کے ہاتھوں قتل نہ ہو گا۔(ملفوظات جلد 8 صفحہ 11۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) دیکھیں آپ کی مخالفت بھی سب سے بڑھ کر ہوئی لیکن ہر موقع پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھتے ہوئے دشمن کو ناکام و نامراد کیا۔ جب آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا تو کس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کی آنکھوں پر پٹّی باندھ کر آپ کو محفوظ رکھا۔ غار میں جب آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے تو کس طرح دشمن کی عقل پر پردہ ڈال کر محفوظ رکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے… اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہو گا‘‘۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 11۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام قوموں اور ہر زمانے کے لئے نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجے تھے اس لئے یہ مخالفت آپ کی زندگی کے بعد ختم نہیں ہو گئی بلکہ دشمنان اسلام اور غیر مذاہب والوں میں سے نام نہاد تاریخ دان اور مذاہب کے ماہرین یا جو بلا وجہ استہزاء کرنے والے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ہر چیز سے بالا سمجھتے ہوئے آپ کے خلاف گھٹیا اور ذلیل حملوںکو نہیں چھوڑا اور آج تک ایسے لوگ پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں جو مختلف مذاہب میں سے ہیں لیکن آپ کی ذات کو گھٹیا نشانہ بناتے ہیں۔
آج دیکھ لیں عمومی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے جسے گندے الزامات کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں، آپؐ ہی وہ آخری شرعی نبی ہیں جو تمام زمانوںاور قوموں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ کسی اور مذہب کی اس طرح مخالفت نہیں ہوئی۔ کسی اور مذہب کے بانی کی اس طرح مخالفت نہیں ہوئی جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوئی اور ہو رہی ہے۔ پس اس مخالفت سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جتنی زیادہ یہ مخالفت ہو گی اتنا زیادہ اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلے گا۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آپ کا وہ عاشق صادق بھیجا ہے جو اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے جَرِیُ اللہ کہا ہے۔ جس نے آپ کی لائی ہوئی تعلیم سے بھی دشمن کے اوچھے حملوں کے وہ دندان شکن جواب دئیے ہیں کہ مخالفین کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی بلکہ آپ کے اس کلام کے ذریعہ سے آپ کے ماننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے وہ علم اور نور فراست عطا فرمایا ہے کہ دشمن کو بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ چنانچہ کل بھی مَیں نے ذکر کیا تھا کہ عرب ملکوں میں ایک عیسائی پادری کی طرف سے عیسائیت کے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جو حملے تھے ان کے جواب میں جب ہمارے احمدی عرب بھائیوں نے ایم ٹی اے پر عربی پروگرام شروع کیا تو اب مخالفین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان سے بات ہی نہیں کرنی۔ پس اللہ تعالیٰ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے حفاظت کی یہ ذمہ داری اُس وقت، اس زمانہ تک محدود نہیں تھی جو آپ کی زندگی کا زمانہ تھا۔ بلکہ آپ کی شریعت، آپ کا دین ہمیشہ رہنے والا دین ہے اور اس لحاظ سے آپ تاقیامت زندہ رہنے والی ہستی ہیں اور ہر زمانے میں اور ہر وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ اور یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی، قرآن کریم کی سچائی اور آپ کے آخری شرعی نبی ہونے اور اسلام کے آخری مذہب ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔

آج بھی اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کے لئے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے آسمان سے نشان ظاہر فرما رہا ہے اور وہ خدا جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور زندگی بخش ہے آج صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر حقیقت میں عمل کرنے والوں اور ایمان رکھنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور یہ لوگ مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے دلائل اور براہین سے دشمنوں کے منہ بند کر دئیے ہیں جس کی مثال مَیں نے دی تھی۔ بے شمار اَور مثالیں ہیں۔ ہر روز ہر موقع پر ہمیں نظر آتی ہیں۔ یہ صرف عرب دنیا میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک میں اُس زندہ خدا کے، اُس آخری نبی کے غلام صادق کے ماننے والے نشان دکھا کر ،دلائل دے کر، مخالفین کے، دشمنان اسلام کے منہ بند کر رہے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ اصل حقیقت یہ ہے کہ سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا مربی اعظم ہے۔ یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ سے فساداعظم دنیا کا اصلاح پذیر ہوا۔ جس نے توحید گم گشتہ اور ناپدید شدہ کو پھر زمین پر قائم کیا۔ جس نے تمام مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کر کے ہر یک گمراہ کے شبہات مٹائے۔ جس نے ہر یک ملحد کے وسواس دُور کئے۔ اور سچا سامان نجات کا کہ جس کے لئے کسی بے گناہ کو پھانسی دینا ضرور نہیں اور خدا کو اپنی قدیمی اور ازلی جگہ سے کِھسکا کر کسی عورت کے پیٹ میں ڈالنا کچھ حاجت نہیں۔ اصول حقہ کی تعلیم سے از سر نو عطا فرمایا۔ پس اس دلیل سے کہ اس کا فائدہ اور افاضہ سب سے زیادہ ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے۔ اب تواریخ بتلاتی ہے۔ کتاب آسمانی شاہد ہے اور جن کی آنکھیں ہیں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نبی جو بموجب اس قاعدہ کے سب نبیوں سے افضل ٹھہرتا ہے وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 97 حاشیہ)

پھر اسلام کی سچائی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ پہلوان جس نے اس زمانے میں دشمن اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو ایک محاذ کھڑا کیا گیا تھا اس کے ایسے منہ توڑ جواب دئیے ہیں جس سے اسلام کی سچائی ثابت ہو سکے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’ یاد رہے کہ کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے۔

اوّل یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رُو سے ایسا جامع اور اکمل اور اَتم اور نقص سے دور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کر سکے۔ اور کوئی نقص اور کمی اس میں دکھلائی نہ دے۔ اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو۔ یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اس کے برابر نہ ہو۔ جیسا کہ یہ دعویٰ قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدۃ4:)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کیا اور مَیں نے پسند کیا کہ اسلام تمہارا مذہب ہو۔ یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارے میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ ۔ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی۔ پس یہ دعویٰ کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اُسی کا حق تھا۔ اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعویٰ سے دستبردار ہیں۔ کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ مَیں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کلام کونہ سنے گا مَیں اس سے مطالبہ کروں گا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانے کی ضرورتوں کی رُو سے توریت کا سننا کافی ہوتا تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اور نبی آتا اور مواخذہ الٰہیہ سے مخلصی پانا اس کلام کے سننے پرموقوف ہوتاجو اس پر نازل ہوتا۔

ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعویٰ نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اورکھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اَور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا۔

اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کرکے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ نے بھی اپنی تعلیم کا نامکمل ہونا قبول کرکے یہ عذر پیش کردیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیںہے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کردے گا‘‘۔ (اور یہ پیشگوئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بارے میں) پھر فرمایا کہ’’ مگر قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کاحوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کردیا اور فرمایا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدۃ4:)۔…پس اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا‘‘۔

فرماتے ہیں: ’’پھر دوسری قسم فتح کی جو اسلام میں پائی جاتی ہے جس میں کوئی مذہب اس کا شریک نہیں اورجو اس کی سچائی پر کامل طور پر مہر لگاتی ہے اس کی زندہ برکات اور معجزات ہیں جن سے دوسرے مذاہب بکلّی محروم ہیں۔ یہ ایسے کامل نشان ہیں کہ ان کے ذریعہ سے نہ صرف اسلام دوسرے مذاہب پر فتح پاتا ہے بلکہ اپنی کامل روشنی دکھلاکر دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ یاد رہے کہ پہلی دلیل اسلام کی سچائی کی جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یعنی کامل تعلیم وہ درحقیقت اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ مذہب اسلام مِنجانب اللہ ہے ایک کھلی کھلی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک متعصّب منکر جس کی نظرباریک بین نہیں ہے کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایک کامل تعلیم بھی ہو اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو۔ پس اگرچہ یہ دلیل ایک دانا طالب حق کو بہت سے شکوک سے مخلصی دے کر یقین کے نزدیک کردیتی ہے۔ لیکن تاہم جب تک دوسری دلیل مذکورہ بالا (یعنی زندہ برکات اور معجزات کی) اس کے ساتھ منضم اور پیوستہ نہ ہو کمال یقین کے مینار تک نہیں پہنچا سکتی اور ان دونوں دلیلوں کے اجتماع سے سچے مذہب کی روشنی کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ اور اگرچہ سچا مذہب ہزارہا آثار اور انوار اپنے اندر رکھتا ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں بغیر حاجت کسی اور دلیل کے طالب حق کے دل کو یقین کے پانی سے سیراب کردیتی ہیں اور مکذّبوں پر پورے طور پر اتمام حجت کر تی ہیں‘‘۔

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 3 تا 6)

پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ توریت اور انجیل ایک آنے والے کی گواہی دے رہی ہیں۔ اس پیغام کو نہ سمجھ کر ان کے ماننے والوں نے اس عظیم نبی کی مخالفت کی جو حقیقت میں ان کی تصدیق کرنے کے لئے آیا تھا۔ قرآن کریم نے بھی اس پیغام کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن اگر کوئی سمجھنا چاہے اور جس کے سننے کے کان ہوں۔ لیکن اگر یہ اپنی کتب کے پیغام کو نہ سنیں اور بھائیوں میں سے نبی کے آنے کی تشریح کریں جو بغیر جوڑ کے ہو تو اس کا تو کوئی علاج نہیں۔ بنی اسرائیل کے بھائی تو اسماعیل کی نسل میں سے ہونے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم آخری نبی ہیں جو اس قوم میں ہوئے۔ تاریخ اس کو ثابت کرتی ہے۔ توریت اور انجیل کو ماننے والوں کو اس مؤاخذہ سے بچنے کے لئے اس پیغام پر غور کرنا چاہئے جس کی طرف ان کی اپنی کتابوں نے توجہ دلائی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ بات قرآن کریم نے بھی بتائی ہے اور کھول کر فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ (آل عمران82:)۔ اور جب اللہ نے نبیوں کا میثاق لیا کہ جبکہ میں تمہیں کتاب اور حکمت دے چکا ہوں۔ پھر اگر کوئی ایسا رسول تمہارے پاس آئے جو اس بات کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لے آؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اب نبی تو اس وقت موجود نہیں ہونے تھے اس لئے ان کی اُمّتوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے۔

پھر فرمایا ان سے اقرار لیا گیا۔ تم اس بات کا اقرار کرتے ہو، اس بات پہ مجھ سے عہد باندھتے ہو؟ انہوں نےکہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے کہا فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ (آل عمران82:)۔ کہ پس تم گواہی دو اور مَیں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ تو قرآن کریم کے مطابق اللہ تعالیٰ نبیوں سے، تمام نبیوں سے یہ عہد لیتا ہے۔ اس میں بھی عمومی طور پر ذکر ہے۔ اسی طرح موسیٰ اور عیسیٰ سے بھی عہد لیا گیا کہ ہمارے بعد ایک نبی آئے گا اسی طرح پہلے انبیاء سے بھی عہد لیا گیا تو سب نے جس نبی کے آنے کی نشانی بتائی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ جو نبی آئے گا وہ تصدیق کرنے والا ہو گا۔ مُصَدِّق ہو گا۔ اس سے صرف اتنی مراد نہیں ہے کہ تصدیق کر دی کہ پہلے صحیفے درست ہیں یا اعلان کر دیا کہ جو کچھ پہلے صحیفوں میںآیا ہے درست ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہو تو کوئی بھی نام نہاد یہ اعلان کر سکتا ہے کہ مَیں بھی نبی ہوں۔ میں اس بات کی تصدیق کر رہا ہوں کہ پہلے صحیفے درست ہیں۔ اوّل تو ہم یہ کہتے ہیں ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ پرانے صحیفوں کی تمام باتیں اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔ صرف وہ باتیں درست ہیں جن کی قرآن نے بھی تصدیق کی اور ان کو درست قرار دیتا ہے اور تاریخی حقائق اور عقل بھی ان کو درست تسلیم کرتی ہے۔ کئی غیر مسلم بھی اس بارے میں لکھ چکے ہیں۔ ایک مغربی لکھنے والے نے تو مکمل طور پر اس بات سے انکار کیا ہے کہ بائبل آسمانی صحیفہ ہے۔

(God Speaks to us, too by Susan M. Shaw page 84 the university press of kentucky USA 2008)

بہرحال یہ تو ان کے مسائل ہیں۔ لیکن مُصَدِّق کا مطلب ہے کہ جو اِن الہامی کتابوں میں پیش کیا گیا ہے، پیشگوئیاں کی گئی ہیں، ان کی گواہی دینے والا تصدیق کرنے والا جو بعد میں آئے گا وہ ان پیشگوئیوں کا مصداق بھی ٹھہرے گا۔ اگر انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے تو نظر آ رہا ہے کہ واقعی یہ پیشگوئیاں اس ذات میں پوری ہو رہی ہیں۔ حقیقت میں یہ پیشگوئیاں اس ذات میں پوری ہو رہی ہیں۔ کسی جعلی نبی کے لئے ممکن نہیں کہ ان پیشگوئیوں کو پورا کر کے دکھائے۔ پس دعویٰ کرنے والے کی سچائی بھی اور پیشگوئی کی سچائی بھی اس سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور دعوے کے ساتھ پوری ہو رہی ہیں۔ مثلاً بائبل میں یہ لکھا ہے (Deuteronomy) استثناء باب 33آیت 2 میں کہ ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اس پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اس کے دائیں ہاتھ پر اس کے لئے آتشی شریعت تھی‘‘۔

(استثناء باب 33 آیت 2 شائع کردہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن 1887ء)

اب یہ دس ہزار کا لفظ جو ہے بعض بائبلوں میںکم از کم اردو ترجمہ میں تبدیل کر کےلاکھوں میں لکھ دیا گیا ہے۔(استثناء باب 33 آیت 2 شائع کردہ پاکستان سوسائٹی انار کلی لاہور 2011) کیونکہ یہ پیشگوئی ایک شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مکہ کے موقع پر پوری ہوتی نظر آتی ہے جب دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آپ مکّہ میں داخل ہوئے۔

سیناء سے آنا تو حضرت موسیٰ کے بارے میں ہے۔ شعیر سے مراد حضرت عیسیٰ کی جگہ ہے۔ اور فاران کا علاقہ عرب کا علاقہ ہے۔ بلکہ پیدائش باب 21 اور آیت 14سے 21 میں اس کی وضاحت بھی ہے اور فاران کا علاقہ وہ قرار دیا گیا ہے جس میں حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کو ابراہیم چھوڑ کر گئے تھے۔(پیدائش باب 21 آیت 14تا 21 شائع کردہ پاکستان سوسائٹی انار کلی لاہور 2011) پس صاف ظاہر ہے کہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے آنے والے نبی تھے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی نہیں تھے۔ اس کے علاوہ بھی بائبل میں کئی جگہ یہ پیشگوئیاں ہیں جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پوری ہوتی ہمیں نظر آتی ہیں۔

پس یہ دو چیزیں ہیں، جو میں نے ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس میں اور ایک یہ پیش کی لیکن اس کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت ساری ہیں۔یہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ وہ نبی جو آنے والا تھا وہ تصدیق کرنے والا تھا وہ پیشگوئیاں خود اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ یہی وہ نبی ہے جو سچا ہے اور آخری ہے اور جس کی شریعت دائمی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ پس یہ پیغام بھی دنیا میں ہم نے ہر جگہ پہنچانا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اب مَیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ اس زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بھی ہو رہی ہے اور بعض نام نہاد پڑھے لکھے سمجھتے ہیں کہ یہ مخالفت کرنے میں ہی ہماری عقل کا اظہار ہے اور مذہب سے انصاف ہے لیکن ان ملکوں میں بھی اور ان قوموں میں بھی ایسے بھی ہیں جو انصاف کی نظر سے بھی دیکھنے والے ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بہت کچھ لکھا ہے۔ ان میں سے چند ایک کی مثالیں مختصراً مَیں دیتا ہوں۔

ایک مسٹر جے فیوک(Johann Fück) ہیں۔یہ بڑے پڑھے لکھے انسان ہیں۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات پر ایک مضمون لکھا ہے۔ وہ’’ عربی رسول کی اصل شخصیت‘‘ کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا اَن مٹ تاثر ان کے بے مثال ذاتی کردار کی وجہ سے ہے۔ اس رسول کے نمونے نے ان کے متبعین کے لئے، ان تمام صدیوںکے دوران ان کے پیروکاروںکے لئے ہدایت کا طریق کار مہیا کئے رکھا ہے‘‘۔

(Zeitschrift Der Deutschen Morgenlndischen Gesellschaft by Paul Kahle, Article "Die Originalitt des arabischen Propheten” by Fuck, Johann. Band 90 (Neue Folge Band 15), Leipzig 1936. no. 3-4: pg. 525.)

پھر ایک مصنف ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات لکھی۔آر وی سی باڈلی(R.V.C Bodley) لندن کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کو ان کے اصل رنگ میں پیش کروں۔ یعنی ایک عرب جیسا کہ میں صحرا کے عربوں کو جانتا ہوں،ایک سادہ مزاج آدمی لیکن عظیم شخصیت کا مالک جن کا دل اپنے لوگوں کی بہبود کے لئے خیالات سے پُر رہتا ہے۔ ایک ایسا انسان جس کو القاء تو ہوتا تھالیکن اپنے اعمال میں منطق کو کام میں لاتے تھے۔ جو مردوں اور عورتوں کی طبعی کمزوریوں کو برداشت اور درگزر کرتے تھے کیونکہ وہ ان کو سمجھتے تھے۔

(The Messenger the life of Mohammed by R.V.C. Bodley Page 8 Doubleday & Company, INC. Garden city, New York 1946.)

بہرحال ان کی اپنی ایک تشریح کچھ نہ کچھ تو ساتھ ہوتی ہے۔

پھر ایڈورڈ گبن(Edward Gibbon) نے لکھا ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی شخصیت کے جمال کی وجہ سے ممتاز تھے۔ یہ ایک ایسا ظاہری وصف ہے جو شاذ کے طور پر ہی ناپسند کیا جاتا ہے سوائے ان کے جو اس عطیہ سے محروم ہوئے۔ ان کی گفتگو شروع ہونے سے قبل تمام قسم کے سامعین ہر طرف سے محبت اور تعریف کے ساتھ انہیں سننے کے لئے مستعد ہو جاتے۔ لوگ ان کی پُرتمکنت موجودگی پر، آپ کے شاہانہ طور اطوار پر، آپ کی محبت بھری مسکراہٹ پر، آپ کی لہراتی ہوئی ریش مبارک پر، آپ کی شکل و صورت پر جو آپ کی روح کے سنسنی خیز جذبات کی عکاسی کرتی اور وہ اشارے جو آپ کی زبان کے پُرشوکت لفظ کو ظاہر کریں، تمام باتوں پر لوگ داد دیتے اور تعریفوں کے پُل باندھتے۔زندگی کے عام فرائض کی ادائیگی کے اوقات میں آپ بڑی استقامت کے ساتھ اپنی ملکی شائستگی کی رسوم نبھاتے۔ مکہ کے غریب ترین شہریوں کے لئے آپ کی مؤدبانہ توجہ پُروقار ہوتی تھی۔ آپ کی یادداشت وسیع اور گہری تھی۔ آپ کی فراست عام فہم اور طبیعت میں ملنساری تھی۔ آپ کا تصور بلند تھا۔ آپ کا فیصلہ صاف ستھرا تھا۔ تیزی سے کیا جاتا اور فیصلہ کُن ہوتا۔ آپ سوچ اور عمل کی شجاعت رکھتے تھے جو اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ آپ ایک اعلیٰ ترین ذہین انسان تھے۔

پھر کہتے ہیں کہ محمدؐ کا مذہبی عقیدہ ہر قسم کے شک و شبہ اور ابہام سے پاک اور قرآن خدا کی وحدت کی شاندار شہادت ہے۔ خدا کے نبی نے بتوں، انسانوں، ستاروںاور سیاروں کی پرستش کو اس معقول اصول کی بناء پر ردّ کر دیا کہ جو طلوع ہوتا ہے اسے غروب ضرور ہونا چاہئے۔ جو پیدا ہوا ہے اسے مرنا ضروری ہے۔ اور جو چیز خراب ہو سکتی ہے اس نے ضرور گل سڑ کر فنا ہونا ہے۔ اس کائنات کے خالق کے بارے میں اس کا منطقی ثبوت اس بات کا مظہر تھا اور وہ انتہائی احترام کے ساتھ ایک ازلی ابدی ہستی پر یقین رکھتا تھا جس کی کوئی شکل نہیں، جو لامحدود ہے۔ لازوال اور بے مثال ہے۔ ہمارے پوشیدہ ترین خیالات میں موجود ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں اس کے وجود اور فطرت کا حصہ ہیں اور اپنے اندر سے ہی وہ یہ تمام اخلاقیات اور ذہنی کمال اور سنجیدہ صداقتیں رکھتا ہے۔ یہ تمام اعتقادات اس کے مریدوں میں مضبوطی کے ساتھ پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن کے مفسروں نے میٹافیزیکل (metaphysical) درستگی کے ساتھ بیان کیا۔ پھر کہتا ہے کہ محمد کے اقوال سچائی کے سبق اور ان کے اعمال پارسائی کے سبق تھے‘‘۔(The Decline and Fall of the Roman Empire by Edward Gibbon vol 3 page 486, 489, 492 London 1872) تو جو حقیقت پسند ہیں ان کو بھی ان لوگوں کو دیکھنا چاہئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مخالفت میں قدم اٹھاتے ہیں یا زبان درازی کرتے ہیں۔

پھر ایک الفونسے ڈی لیمارٹین(Alphonse de Lamartine) ہیں انہوںنےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک فلسفی، فصیح واعظ اور خطیب، ایک رسول، قانون دان، بہادر سپاہی، فاتح جدید خیالات کا موجد، منطقی قواعد و اصول کو قائم کرنے والا، بن تصویروں یا بتوں کے مذہب لانے والا، کرہ ارض پر بیس سلطنتوں کا بانی اور ایک روحانی سلطنت کا قائم کرنے والا یہ ہے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)۔وہ تمام معیار جن سے کسی انسان کو ناپا جا سکتا ہے ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کیا دنیا میں کوئی اور ایسا انسان ہے جو ان سے بڑا ہو؟

(Histoire La turquie A. De Lamartine Tome Premier page 280 Paris 1855)

پھر ایک مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ(Karen Armstrong) ہیں(یہ موجودہ زمانے کی ہیں اور آجکل کتابیں لکھتی ہیں) یہ لکھتی ہیں کہ اسلام کو ایک غیرمقدس علوم کی شاخ میں ڈال دینااور یہ تصور کر لیناکہ اس کا اثر اَغلب طور پر منفی رہا ہے، غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ یہ اس قوت برداشت اور اس ہمدردی مخلوق کے جذبات کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے جو عام طور پر مغربی سوسائٹی کی معاشرت کا حصہ خیال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بہت سے عیسائیت اور یہودیت کے خیالات اور اعتقادات میں ان حقیقی باتوںمیں حصہ دار ہے جن میں ردّ و بدل نہیںکی گئی۔ پھر کہتی ہیں کہ اگر ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دنیا کی اَور تاریخی ہستیوں پر پرکھتے تو یقیناً ہم انہیں دنیا کی کئی بڑی شخصیتوںکے برابر پاتے۔ (خیر یہ تو اس کی غلط بات ہے۔ بہت بالا پاتے، جس طرح کہ پہلے انہوں نے لکھا ہے) ایک کامل ادبی شاہکار کی تخلیق اور ایک بڑے مذہب کی بنیاد اور دنیا کے نظام نو کی بنیاد کوئی معمولی کارنامے نہیں ہیں۔ کہتی ہیں کہ مَیںنے یہ کتاب اس لئے لکھی ہے کہ جب رشدی نےکتاب لکھی تھی تو مجھے یہ بات از حد قابل رحم لگی رشدی کا محمد کے متعلق بیان ایک ایسا بیان تھا جسے مغربی دنیا کے لوگ پڑھنا چاہتے تھے۔ اس لئے مجھے یہ بہت اہم لگا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اصلی و سچی کہانی بھی لوگوں تک بہم پہنچائی جائے کیونکہ وہ دنیا کی ایک ایسی قابل ذکر ہستی تھی جو دنیا میں زندہ رہی یا اس دنیا میں پیدا ہوئی۔

پھر کہتی ہیں کہ یہ خیال ہی کر لینا کہ محمدؐ کسی ایسی چیز کی بنیاد رکھیں گے جس میں وہ خوشی محسوس کریں کہ ان کے نام پر اس طرح خون بہایا جائے ( گیارہ ستمبر والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے) ان کے خلاف ایک غیر واضح الزام ہے کیونکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی تمام زندگی اس قسم کے بلا تفریق عام خون بہانے کے انسداد کے لئے گزاری ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ محمدؐ جہاد کے عام معنوں کا پرچار کرنے والوںکی بجائے وہ تو امن کا شہزادہ تھا۔

(Muhammad a biography of the Prophet by Karen Armstrong page 11, 12, 14, 52. book readers international Quatta 2004)

پھر مائیکل ایچ ہارٹ(Michael H. Hart) ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں میرا سب سے پہلے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو انتخاب کرنا بعض قارئین کو ضرور حیران کر دے گا اور کچھ لوگ سوال کریں گے لیکن تاریخ انسانی میں صرف وہی ایک شخص تھا جو دینی اور دنیاوی ہر دو امور کی سطح پر سب سے زیادہ کامیاب تھا۔

(The 100 A ranking of the most influential persons in history by Michael H. Hart page 33 New York 2008)

یہ اسٹرانومی اور فزکس کے پروفیسر ہیں۔ امریکہ میں بھی انہوں نے کام کیا ہے۔

پھر سیزر اِی فرح(Caesar E. Farah) ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ محمدؐ واقعی طور پر تاریخ کی بڑی ہستیوں میں سے ایک ہیں۔ دس سال کے مختصر عرصہ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا اپنے مشن میں کامیاب ہو جانا آپ کے مذہب اور آپ کے حسن اخلاق پر آپ کو خراج عقیدت ادا کرنے کا مستحق بنا دیتا ہے۔ آپ کی زندگی اور آپ کا کام آپ کی ذہانت کی زندہ گواہ ہے۔ آپ نے اتنی بنیادی اور ضروری تبدیلیاں ایسی قوموں اور لوگوں میں پیدا کر دیں جو اپنی کبھی نہ مٹنے والی خودستائی اور تکبر اور سرکشی کا ازل سے شکار تھے۔

(Islam by Caesar E. Farah Ph.D page 61 Edition 7th USA 2003)

پھر کیرس ویڈی(Charis Waddy) اپنی کتاب میںلکھتے ہیں کہ اسلام کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ اس بات پر قائم رہے کہ وہ بھی تمام دوسرے انسانوں کی طرح ایک بشر ہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا پیامبر بنایا اور اپنا کلام قرآن مجید ان پر الہام فرمایا ہے۔ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی پُرتاثیر کامیابی کا راز اپنے مولیٰ کی اطاعت اور اپنی ذات کو مکمل طور پر اس کے احکامات و ہدایات کے مطابق ڈھال لینے میں ہے۔ انہوں نے یہ تمام کارنامہ اپنی ذاتی طاقت سے نہیں کیا بلکہ وہ عظیم الٰہی طاقت کے آلہ کار بنے۔ ان کو کوئی ذاتی خواہش ترقی کی طرف نہیں لے کر گئی۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لئے بار بار آپ کو اپنی ایگو(ego) میں کشمکش کا سامنا رہتا اور تسخیر نفس کے لئے کوشاں رہتے۔ اگرچہ وہ اس دنیا میں ہماری طرح ہی کاموں میں مصروف رہتے تھے لیکن مکمل خدا کے لئے تھے اس طریق سے محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک سچے انسان کا مقدس فریضہ انجام دیا جو انسانیت کا اصل مقصد ہے اور اسی لئے آپ کو انسان کامل کہا جاتا ہے۔

(The Muslim Mind by Charis Waddy page 36 Longman London & New York 1976)

ایک لکھنے والے مائیکل ایچ ہارٹ(Michael H. Hart) ہیں۔ کہتے ہیں دنیا میں عیسائیوں کی آبادی مسلمانوں سے تقریباً دو گنی ہے اس لئے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا درجہ عیسیٰ سے اونچا بتایا جانا عجیب لگے گا۔ اس فیصلہ کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا درجہ حضرت عیسیٰ( علیہ السلام) سے اونچا ہے۔ کہتے ہیں اس فیصلہ کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسلام کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے بہ نسبت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جو انہوں نے عیسائیت کی ترقی کے لئے ادا کیا۔ اگرچہ عیسائیت کے اخلاقی اور عملی اصولوں کے ذمہ دار عیسیٰ ( علیہ السلام) ہی تھے۔ اگرچہ یہ رسول یہودیت سے مختلف بھی تھے لیکن عیسائی دین کو اصلی نشوونما دینے والا سینٹ پال تھا۔ عیسائیت کے اصولوں میں تبدیلی لانے والا اور عہد نامہ جدید کے بڑے حصہ کا مصنف بھی وہی سینٹ پال تھا لیکن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) دین اسلام اور اس کے اخلاقی اور عملی اصولوں کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے نئے مذہب اور اس کے اخلاقی اور عملی اصولوں کے پھیلانے اور قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اسلامی مقدس کتاب یعنی قرآن کے مصنف بھی ہیںجو ان کے خیال کے مطابق خدا کی طرف سے الہام کی گئی۔ اس کے زیادہ تر ارشادات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی جمع کر لئے گئے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ اگرچہ قرآن مسلمانوں کے نزدیک اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ بائبل عیسائیوں کے نزدیک لیکن قرآن کے وسیلے سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اثر بہت زیادہ رہا ہے۔ یہ اغلب ہے کہ اسلام پر محمد کا اثر عیسیٰ اور سینٹ پال کی نسبت زیادہ ہے۔

(The 100 A ranking of the most influential persons in history by Michael H. Hart page 38-39 New York 2008)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قُویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ عِلمًا و عَملًا و صِدقًا وَ ثَباتًادکھلایا اور انسان کامل کہلایا… وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداءِ دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہ…‘‘

(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو حقیقی طور پر اپنے اوپر لاگو کرنے والا بنائے اور اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے جس کو لے کر آپ اٹھے تھے اور وہ اُسوہ ہم میں سے ہر ایک اپنے میں قائم کرنے کی کوشش کرے جس کو دیکھتے ہوئے غیروں کو بھی اور یہ جو نیک فطرت لوگ تھے ان کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آپ کا ہر فعل اور قول صدق اور سچائی کی ایک مثال تھا۔ اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق، اس پیارے مسیح کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں اور اپنی تمام تر طاقتیں صرف کر دیں تا کہ جلد سے جلد دنیا کو حقیقی اسلام اور احمدیت کے جھنڈے تلے لے آئیں اور ہر جگہ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے لگے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ یہی ایک چیز ہے جس سے دنیا کی بقا ہے ورنہ دنیا جس تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہی ہے اب اس کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہ جتنے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض کرنے والے ہیں اگر امن چاہتے ہیں، دنیا کی بقا چاہتے ہیں، دنیا کو ہلاکت سے بچانا چاہتے ہیںتو ان کو بہرحال اس تعلیم پر عمل کرنا پڑے گا اور اس جھنڈے تلے آنا پڑے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے اور آپ کی تعلیم ہے۔

اب دعا کے بعد جلسہ اختتام کو پہنچے گا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آجکل عالم اسلام بڑی مشکلات میں ہے تو یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہر شر سے بچائے اور ان کی لیڈر شپ کو بھی عقل دے کہ وہ صحیح فیصلے کرنے والے ہوں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مسلمان اُمّت کے مفادات کو قربان نہ کرنے والے ہوں۔

اسی طرح اب بہت سارےواپس جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی خیریت سے لے کر جائے اور سفر میں آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ اب دعا کر لیں۔

دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ایک منٹ ذرا ٹھہر جائیں۔ حاضری بھی آپ کو بتادوں اس کے بعد نعرے لگا لیں۔ اس سال کی جو ٹوٹل حاضری ہے وہ ہے انتیس ہزار آٹھ سو اٹھانوے (29898) اور اکاسی (81) ممالک کے لوگ شامل ہوئے ہیں۔ اور گزشتہ سال یہ پچیس ہزار دو سو(25200) تھی۔ اس سال چار ہزار زائد ہے۔ اور بھی اللہ کے فضل سے پاکستان سے تین ہزار سے اوپر مہمان آئے ہیں۔ الحمد للہ۔ اور سب سے زیادہ جرمنی کے چار ہزار سے اوپر ہیں۔ ہاں جی اب لگا لیں نعرے۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button