خطاب حضور انور

خطاب بر موقع واقفاتِ نو کے نیشنل اجتماع سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 25؍فروری 2017ء

جہاں آپ اپنی تعلیم میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں وہاں آپ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ آپ کبھی بھی اپنی اسلامی اقدار کو پسِ پُشت نہ ڈالیں اور نہ ہی کبھی وہ ذمہ داریاں جو آپ پر آپ کے دین نے ڈالی ہیں انہیں ترک کریں۔

اگر کسی لڑکی کے لئے ایک اچھے اور نیک احمدی کا رشتہ آتا ہے تو اس لڑکی کو یہ رشتہ صرف اس بنیاد پر ردّ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ شخص اتنا تعلیم یافتہ نہیں ہے جتنا وہ چاہتی ہے۔ کسی رشتہ کا فیصلہ کرتے ہوئے ترجیح ہمیشہ تقویٰ اور اس بات کو دینی چاہئے کہ آپ اپنی بقیہ زندگی ایک ایسے گھر میں گزار سکتی ہیں جہاں احمدیت کی حقیقی اقدار پر ہمیشہ عمل کیا جاتا ہے۔

ایسی واقفاتِ نو جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اوروہ اپنی ان صلاحیتوں کو پیشہ وارانہ رنگ میں استعمال کرنا چاہتی ہیں وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔

جب تک آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ کا مذہب کیا سکھاتا ہے اور آپ سے کیا توقعات رکھتا ہے اس وقت تک آپ اس کی تعلیمات کےمطابق اپنی زندگیاں نہیں گزار سکتیں۔ سب سے ضروری تو یہ ہے کہ آپ سب قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تفسیر بھی پڑھیں۔

اس زمانے میں اسلام کے خلاف جو کئی الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کا محور عورت کے حقوق ہیں، لہٰذا آپ کو ان کا جواب دیتے ہوئے خصوصاً ان پر توجہ دینی چاہئے۔اس مقصد کے لئے واقفات نَو کی ایک مرکزی ٹیم تشکیل دی جانی چاہیے اور اسی طرح مختلف علاقوں اور شہروں کی مقامی ٹیمیں بھی ہونی چاہئیں۔

مَیں ایک مرتبہ پھر آپ کو قرآن کریم کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے اور انگریزی زبان میں جو بھی دیگر جماعتی لٹریچر مہیا ہے اسے پڑھنے کی تاکید کرتا ہوں۔ مزید برآں آپ کومیرے خطبات سننے چاہئیں اور جو بھی میں آپ سے کہتا ہوں اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کو تو خلیفۂ وقت کے خطبات جمعہ کو اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک بنابنایا ضابطہ اخلاق سمجھنا چاہئے۔

آپ کو نماز میں باقاعدہ ہونا چاہئے اور ہمیشہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو اپنی تعلیم کو حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کے قابل بنائے۔

مخالفین اسلام کی طرف سے عورتوں کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے بعض اعتراضات کا تذکرہ اور ان کا بصیرت افروز جواب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ سب واقفاتِ نَو کے نیشنل اجتماع میں شرکت کررہی ہیں جو ہماری جماعت کی ان بچیوں کے لئے منعقد کیا گیا ہے جن کے والدین نے ان کی پیدائش سے پہلے دین کی خاطر ان کی زندگیاں وقف کرنے کا عہد کیا تھااور جنہوں نے پندرہ سال کی عمر کوپہنچ کر اس عہد کی تجدید کی ہے۔ پس جبکہ آپ سب نے اپنی خوشی سے اپنی زندگیاں جماعت کی خدمت کےلئے وقف کرنے کا انتخاب کیا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے اخلاقی معیاروں اور دینی علم کا جائزہ لیتی رہیں۔ آپ سب کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ آیا جہاں اور جب بھی جماعت خدمت کے لئے طلب کر ے گی ہم خدمت کے لئے تیار ہیں؟ ماشاء اللہ آپ سب کو یہاں پلنے بڑھنے کی وجہ سے کئی تعلیمی مواقع ملے ہیں جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ سب اچھی تعلیم یافتہ ہیں۔ حتیٰ کہ آپ میں سے وہ بھی جو اپنی ہم عمروں کی نسبت کم تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی آج سے پچاس ساٹھ سال پہلےکی لڑکیوں سے بہت زیادہ پڑھی لکھی ہیں۔ اور اگر ہم مزید پیچھے جائیں توانیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے عرصہ کی لڑکیوں اور خواتین کے پاس شاذ ہی ایسے تعلیمی مواقع تھے۔ اسی طرح سیکولراور دینی علم کے لحاظ سے بھی بہت کم مسلمان لڑکیوں کو یہ مواقع مل سکتے تھے کہ وہ سیکولر تعلیم حاصل کرسکیں یا اپنے مذہب کا مزید علم حاصل کریں اور اپنا دینی علم بڑھاسکیں۔ اس تناظر میں کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے عورتوں اورلڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا ہے یہ امر حیران کُن اور بہت افسوسناک ہے۔ اب تک مسلمانوں میں حضرت رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کو پہلے سے بڑھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور یوں مسلمان عورتیں مردوں کی نسبت نہایت کم تعلیم یافتہ رہ گئیں۔ اس افسوسناک رجحان کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نام نہاد مذہبی علماءمیں سے بہت سے علماء دینی تعلیم کو، مردوں میں بالعموم اور عورتوں میں بالخصوص، پھیلانا اور اس کی ترویج نہیں چاہتے تھے۔ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ عورتوں کو محض گھر کی چاردیواری میں قید رکھنا چاہتے تھے اور بنیادی تعلیم کے حصول کی اجازت بھی نہ دیتے تھے۔ ایسے رویّے اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے نہایت نقصان دہ تھے کیونکہ جب مسلمان عورتوں کو خود اپنے دین کاکوئی علم نہ تھا تو ان کےلئے اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کر نا بھی ناممکن تھا۔ تاہم یہ نہایت خودغرضانہ رویہ آئندہ کئی زمانوں پر محیط رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تجدید اور نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبعوث ہوکر نہ صرف یہ کہ مردوں کی تربیت اور حصول تعلیم کی طرف زور دیا بلکہ احمدی عورتوں اور لڑکیوں کو بھی سیکولر اور دینی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ درحقیقت ایک وقت ایسا بھی تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود عورتوں کی دینیات کی کلاسیں لیا کرتے تھے۔ آپ کی بابرکت رہنمائی اور بعد ازاں خلافت احمدیہ کے ذریعہ احمدی عورتوں میں تعلیم کے حصول اور دینی علم سیکھنے کی اہمیت و قدر کا شعور پیدا ہوا ۔ یقیناً جماعت نے ہمیشہ عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کو مسلسل اُجاگر کیا ہے اور اس کی حمایت کی ہے، اور اس مقصد کے حصول کےلئے کئی پروگرام اور سکیمیں بنائی گئی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال تو وہ سکول اور کالج ہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قادیان اور پھر ربوہ میں قائم کئے۔ ان مراکز تعلیم کے ذریعہ وہ بچیاں جو پڑھائی کے لئے بڑے شہروں کا سفر نہیں کرسکتی تھیں ان کےلئے باقاعدہ تعلیم کا انتظام کیا گیا جہاں وہ اعلیٰ معیار کی سیکولر اور دینی تعلیم حاصل کرپائیں۔ ان سکولوں اور کالجز کا ایک بہت بڑا اضافی فائدہ تو یہ تھا کہ ہماری بچیاں ایک محفوظ اوربااخلاق ماحول میں تعلیم حاصل کرسکتی تھیں بجائے اس کے کہ وہ دوسرے قصبوں یا شہروں کا سفر کرتیں جہاں ایسا ماحول موجود نہیں تھا۔ ہماری بچیوں کا ایک محفوظ اور بااخلاق طریق پر تعلیم کا حصول آج کے دور میں بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، بالخصوص یہاں مغربی ممالک میں جہاں عموماً یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ محض اپنی نام نہادآزادی کی وجہ سے ترقی حاصل کررہے ہیں۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط ہےاور ان معاشروں میں بہت سے خطرات موجود ہیں۔ پس ہماری تمام بچیوں اور خصوصاً واقفاتِ نَو کو نہایت احتیاط کے ساتھ چلناچاہئے۔

جہاں آپ اپنی تعلیم میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں وہاں آپ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ آپ کبھی بھی اپنی اسلامی اقدار کو پسِ پُشت نہ ڈالیں اور نہ ہی کبھی وہ ذمہ داریاں جو آپ پر آپ کے دین نے ڈالی ہیں انہیں ترک کریں۔ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ ہماری جماعت نے لڑکیوں کی تعلیم کو ہمیشہ فروغ دیا ہے اور اس کا اضافی فائدہ یہ ہوا ہےکہ دنیا کے بعض حصوں میں، بالخصوص ترقی پذیرممالک میں اور بالعموم مغربی دنیا میں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ احمدی بچیاں اپنی تعلیم کو لڑکوں کی نسبت زیادہ سنجیدگی سے لیتی ہیں اور ان سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کررہی ہیں۔ جبکہ مجھے اس امر پر خوشی ہے کہ ہماری بچیاں اس میدان میں نمایاں ہیں، مگر اس کے ساتھ ایک مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہے کہ جب رشتہ کا فیصلہ کرنے کا وقت آتا ہے تو ہماری کچھ احمدی لڑکیاں صرف تعلیمی طور پراپنےہم پلّہ لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔ یقیناً ہمارے لڑکوں اور نوجوانوں کو اپنی تعلیم کی طرف توجہ دینی چاہئےاور تندہی کے ساتھ کام کرنا چاہئے لیکن اگر کسی لڑکی کے لئے ایک اچھے اور نیک احمدی کا رشتہ آتا ہے تو اس لڑکی کو یہ رشتہ صرف اس بنیاد پر ردّ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ شخص اتنا تعلیم یافتہ نہیں ہے جتنا وہ چاہتی ہے۔

کسی رشتہ کا فیصلہ کرتے ہوئے ترجیح ہمیشہ تقویٰ اور اس بات کو دینی چاہئے کہ آپ اپنی بقیہ زندگی ایک ایسے گھر میں گزار سکتی ہیں جہاں احمدیت کی حقیقی اقدار پر ہمیشہ عمل کیا جاتا ہے۔ بہرحال تعلیم کی اہمیت کے تعلق سے ہمیشہ یاد رکھیں کہ تعلیم تبھی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جب وہ آپ کے دین اور ایمان کو مضبوط اور قائم کرنے کے لئے استعمال کی جائے۔اپنے علم کو اپنے دین کی راہ میں استعمال کرنے کا سب سے بنیادی طریق یہی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کئے جائیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں سب سے اہم تو ایک ماں کا اپنے بچوں کو، خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، نیک رنگ میں پالنا اور انہیں تعلیم دینے کا فریضہ ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر مزید آگے بڑھیں اور اپنی قوم کے لئے ایک عظیم سرمایہ ثابت ہوں۔ تاہم اسلام یہ کہیں نہیں کہتا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی محدود رہیں جیسا کہ بعض اوقات الزام لگایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض لڑکیاں اور عورتیں اپنی تعلیم میں آگے جاتی ہیں اور غیرمعمولی نتائج حاصل کرتی ہیں تو اسلام یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنی یہ صلاحیتیں یا ٹیلنٹ ضائع کردیں اور صرف گھر بیٹھی رہیں۔ اسلام انہیں ان کی ممکنہ صلاحیتوں کوحاصل کرنے سے روکتا نہیں ہےبلکہ وہ ایسے پیشے اختیار کرسکتی ہیں جن سے وہ انسانیت کو فائدہ دے سکیں اورخدمت کرسکیں۔پس وہ خواتین جن میں ڈاکٹر یاٹیچر یا کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے کی صلاحیت ہے جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہے تو وہ اسے اختیار کرسکتی ہیں۔البتہ اس کے ساتھ انہیں اپنے بچوں اور خاندان کے تعلق سے فرائض کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ایسی خواتین کو مؤثر رنگ میں اپنے وقت کو منظم کرنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے کسی بھی طرح سے نظرانداز نہ ہوں۔ ایک احمدی ماں کی پہلی ترجیح اپنے بچوں کی نیک تربیت ہونی چاہئے۔

ایسی واقفاتِ نو جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اوروہ اپنی ان صلاحیتوں کو پیشہ وارانہ رنگ میں استعمال کرنا چاہتی ہیں وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔ اسی طرح ایسی لڑکیاں جو اچھی پڑھی لکھی ہیں اور باہر نوکری وغیرہ کے لئے نہیں جاتیں انہیں کسی قسم کا احساس کمتری یا شرمندگی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ضائع کررہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اپنے گھر کا خیال رکھنا، اپنے بچوں کا خیال رکھنا اور ان کی پرورش کرنا غیرمعمولی اہمیت اور قدر وقیمت کا کام ہے۔
بالعموم اسلامی تعلیمات نے کاموں میں مرد و عورت کے مابین تقسیم کررکھی ہے اور یہ ہمارے مذہب کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہماری باہمی ذمہ داریوں کو اس قدر واضح کردیا ہے۔ تاہم اسلام نے ہرممکنہ حالات کے مطابق تعلیم دی ہے۔ پس ان پیشوں کے علاوہ بھی بعض ایسے مخصوص حالات پیش آسکتے ہیں کہ جہاں عورتوں کو کام کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ کے زمانے میں عورتوں نے جنگوں میں زخمی ہونے والوں کی مدد کےلئے نرسوں کا کام کیا۔ بعض مسلمان عورتوں نے اگلی صفوں میں لڑائی میں حصہ لیا اور نہایت جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔

بہرحال جیسا کہ مَیں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ آپ وہ ہیں جن کے والدین نے آپ کی زندگیاں خدمتِ اسلام کےلئے پیش کرنے کا عہد کیا اور اب آپ میں سے کئی ایک نے جو بلوغت کی عمر تک پہنچ چکی ہیں یا عنقریب پہنچنے والی ہیں اپنے وقف کی تجدید کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنے وقف کے عہد کی تجدید کیوں کی؟ آپ نے اپنی زندگیاں جماعت کے لئے وقف کیوں کیں؟ آپ کو اس پر غور کرنا چاہئے کیونکہ آپ اسی وقت اپنے عہدکو پورا کرسکتی ہیں جب آپ کویہ سمجھ ہو کہ اس سے کیا مراد ہے اور کیا تقاضے ہیں۔ بطور ایک واقفہ نَو آپ نےیہ وعدہ کیا ہےکہ آپ ہمیشہ اپنے دین کو تمام دنیاوی اور مادی چیزوں پر مقدم رکھیں گی۔ پس اپنے سکولوں کالجوں میں اپنی سیکولر تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ نہایت ضروری ہےکہ آپ دینی علم حاصل کرنے کی بھی بھرپور کرشش کریں کیونکہ جب تک آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ کا مذہب کیا سکھاتا ہے اور آپ سے کیا توقعات رکھتا ہے اس وقت تک آپ اس کی تعلیمات کےمطابق اپنی زندگیاں نہیں گزار سکتیں۔ سب سے ضروری تو یہ ہے کہ آپ سب قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تفسیر بھی پڑھیں۔ قرآن کریم سے آشناہوکر ہی آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو واضح رنگ میں سمجھنے کے قابل ہوسکیں گی۔ قرآن کریم کا علم آپ کی روحانی ترقی کا باعث بھی ہوگا اور آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرنے کے قابل بھی بنائے گا۔

میرے سامنے کئی ایسی واقفات نَو بیٹھی ہیں جوکہ اب خود مائیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مختلف پیشوں سے وابستہ کام بھی کررہی ہیں۔ لہٰذا میں اب دوبارہ انہیں یاددہانی کرواتا ہوں کہ انہیں اپنے وقت کو اس طرح سے تقسیم کرنا چاہئے کہ ان کے بچوں کی پرورش اور تربیت متأثر نہ ہو۔ یہاں کئی نوجوان لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادیاں ہونے والی ہیں اور عنقریب انشاء اللہ ان کی اپنی فیملی لائف کا آغاز ہوگا، انہیں زندگی کے اس اگلے باب میں اس بات کے ادراک کے ساتھ داخل ہونا چاہئے کہ ان کی پہلی ترجیح بچوں کی تربیت ہے۔ اگر آپ اپنی یہ بنیادی ذمہ داری پوری کریں گی تو اس سے نہ صرف آپ کو اور آپ کے خاندان کو فائدہ ہوگا بلکہ آپ کی یہ کوششیں آپ کی قوم کےلئے فخر اور فائدہ کا باعث ہوں گی کیونکہ آپ نئی نسل میں مثبت اقدار و روایات منتقل کریں گی۔ آپ اس بات کو بھی یقینی بنائیں گی کہ آپ کے بچے بڑے ہوکر عملی نمونہ ہوں اور آئندہ بعد میں آنے والوں کے تعلق سے بھی اپنے فرائض کو سمجھنے والے ہوں۔ اس طرح آپ آئندہ نسلوں میں دائمی انسانیت، اخلاق اور امن کے ایک دور (cycle) کی بنیاد رکھیں گی۔ اسلامی تعلیمات کےمطابق اپنے بچوں کی تربیت کرکے آپ نہ صرف ان کی بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کی بھی حفاظت کے سامان کرنے والی ہوں گی۔

یاد رکھیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور نشو ونما کی کنجی اس قوم کی ماؤں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسلام میں عورت کے مقام کے تعلق سے ہمیں حضرت رسول کریم ﷺ کی اس دَور کی تعلیمات کو ہی دیکھنا چاہئے جب اسلام پر حملے کئے جارہے تھے اور مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگیں لڑی جارہی تھیں۔ اس وقت جہاد کے موقع پر کئی مسلمان مرد شہید ہوئے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ شہادت سے منسلک برکات بہت وسیع ہیں، نتیجتاً بعض مسلمان عورتوں نے حضرت رسول کریم ﷺ سے عرض کی کہ ہمیں لڑائی کی اجازت کیوں نہیں ہے اور ہم اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے تلوار کے جہاد اور شہادت کی برکات سے کیوں محروم ہیں۔ اس پر حضرت رسول کریم ﷺ نے ان عورتوں کو فرمایا کہ اگر وہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کریں، اپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں نیک مسلمان بنائیں تو ان کا اجر بھی جہاد کرنے والوں کے برابر ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں تلوار کے جہاد کی شرائط موجود نہیں ہیں کیونکہ کوئی قوم یا گروہ اسلام کے خلاف کوئی مسلح فوج لے کر حملہ آور نہیں ہے اور مخالفین کی طرف سے استعمال کئے جانے والے حربے کافی مختلف ہیں۔ ظاہری اسلحہ کی بجائے یہ لوگ اسلام مخالف لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ، میڈیا اور انٹرنیٹ اور اپنے مشنری (تبلیغی) کاموں کے ذریعہ اسلام پر حملہ آور ہیں۔ اس لئے ہم اس دور میں ہیں جہاں تعلیم ہی اس پراپیگنڈاکو چیلنج کرنے کی کنجی ہے اور علمی جہاد کے ذریعہ، انہی ذرائع کے ذریعہ جوکہ اسلام پر حملہ کےلئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ نہ صرف مرد اور لڑکے اس قلمی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں بلکہ ہماری عورتوں اور بچیوں کو بھی ضرور اس میں حصہ لینا چاہئے۔

ہماری خواتین میں سے واقفات نَو کو اس کوشش میں سب سے آگے ہونا چاہئے تاکہ جب آپ اچھی تعلیم حاصل کرلیں تواسلام پرجوجھوٹےالزامات لگائے جار ہے ہیں ان سے اسلام کے دفاع کا کوئی موقع ضائع نہ جانے دیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ کیوں دین کا علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ آپ مختلف اعتراضات کاجواب دے سکیں اور جو بھی غلط تصورات ہیں ان کو دور کرسکیں۔ آپ بغیر کسی شرمندگی یا احساس کمتری کے دلیری کے ساتھ ایسے جھوٹے دعووں کا جواب دیں کیونکہ سچ تو آپ کے ساتھ ہے۔ اس زمانے میں اسلام کے خلاف جو کئی الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کا محور عورت کے حقوق ہیں، لہٰذا آپ کو ان کا جواب دیتے ہوئے خصوصاً ان پر توجہ دینی چاہئے۔ مثال کے طور پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام عورت پر ظلم کرتا ہے اور انہیں ہر وقت گھر کی چاردیواری میں قید رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حجاب عورت کو دبا کر رکھنےکا باعث ہے۔ ایک اور عام اعتراض یہ بھی ہےکہ اسلام نے عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیاہے۔ مگر اسلام تو وہ مذہب ہے جو شروع سے ہی تمام عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جس نے عورت کو آزاد کیا اور اس کا صحیح مرتبہ اور عزت قائم کی۔ یہ تو محض گزشتہ صدی کی بات ہے کہ جب وہ لوگ اور اقوام جو اسلام کی مذمّت کرتے ہیں، انہیں عورتوںکو بنیادی حقوق دینے پر مجبور ہونا پڑا لیکن پھر بھی وہ اخلاقی برتری کا دعویٰ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ’آزادی ‘ کے نام پر انہوں نے ایسے ماحول کو فروغ دیا ہے کہ جس میں عورت کو محض ایک چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی عزت و وقار اور اصل مرتبہ کو مسلسل دبایا جاتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہاکہ اسلام کی عظیم تعلیمات کا میڈیا اور دیگر ذرائع سے دفاع کرنا آپ کا فرض ہے۔

اس مقصد کے لئے واقفات نَو کی ایک مرکزی ٹیم تشکیل دی جانی چاہیے اور اسی طرح مختلف علاقوں اور شہروں کی مقامی ٹیمیں بھی ہونی چاہئیں۔یہ آپ یعنی واقفات نَو بچیاں اور عورتیں ہی ہوں گی جنہوں نے دنیا کو حقیقی عزت و وقار کے معنے سکھانے اور یہ بتانے کی مشعل اٹھائی ہوگی کہ کس طرح اسلام میں عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس کے لئے جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے اور جتنا ممکن ہوسکے دیگر جماعتی لٹریچر کا بھی مطالعہ کریں۔ اس مطالعہ سے آپ جو علم حاصل کریں گی وہ آپ کی علمی طاقت کاباعث ہوگا اور ہمارے مذہب کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات پر قابوپانے کی صلاحیت دے گا۔ حصول تعلیم کی اہمیت کے بارہ میں ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک کہ ہماری سو فیصد احمدی خواتین مکمل تعلیم یافتہ نہیں ہوجاتیں، جماعت کی نوجوان نسل کی تربیت کرنا ناممکن ہوگا۔ یہ حقیقت اور حکمت سے بھرا ہوا نکتہ ہے۔ اگر دس فیصد، بیس فیصد یا پچاس ساٹھ فیصد تک بھی ہماری عورتیں اچھی تعلیم یافتہ ہوں اور بہترین طریق پر اپنے بچوں کی پرورش کریں تو بھی یہ کافی نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بچے دوسرے احمدی بچوں سے جن کی مائیں زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں یا زیادہ دینی عمل نہیں رکھتیں، ملیں گے اور اِن کا پھر اُن بچوں پر منفی اثر ہوگا۔ اس لئے ایک حقیقی تقویٰ شعار اور دینی قوم کی ترقی کےلئے ہر ایک احمدی ماں اور باپ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اگر ایک فرد یا خاندان کمزور ہے تو اس کا آسانی سے دوسرے پر اثر ہوگا۔ اس کے برعکس اگر تمام احمدی خاندان اپنے بچوں کے لئے ایک مثبت مثال قائم کریں گے تو ہم مغرب میں رہتے ہوئے بھی ایک روحانی اور اسلامی ماحول بنانے کو یقینی بناسکتے ہیں۔ اپنے سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ آپ کو دنیاوی تعلیم باآسانی میسر ہے، لیکن جیسا کہ مَیں بار بار کہہ چکا ہوں کہ اس کے ساتھ دینی تعلیم بھی ضرور حاصل کریں۔ ورنہ اگر آپ اپنی دینی تعلیمات اور روایات کو ترک کردیں گی تو یہ دنیاوی علم آپ کے کسی حقیقی فائدہ کا باعث نہ ہوگا۔ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ کو قرآن کریم کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے اور انگریزی زبان میں جو بھی دیگر جماعتی لٹریچر مہیا ہے اسے پڑھنے کی تاکید کرتا ہوں۔
مزید برآں آپ کومیرے خطبات سننے چاہئیں اور جو بھی میں آپ سے کہتا ہوں اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کو تو خلیفۂ وقت کے خطبات جمعہ کو اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک بنابنایا ضابطہ اخلاق سمجھنا چاہئے۔ جیساکہ میں نے کہامغرب میں اسلام کے خلاف کئے گئے اعتراضات ، خصوصاً وہ اعتراضات جن کا تعلق عورتوں کے حقوق سے ہے، کا جواب دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو نہ صرف اپنے الفاظ سے بلکہ اپنے کردار سے ان کا جواب دینا چاہیے۔ مثلاً آپ کو ہر وقت پردہ کا ایک اچھا معیار قائم رکھنا چاہئے۔ چندماہ قبل کینیڈا میں دیئے گئے ایک خطبہ میں مَیں نے ایسی 35،40 خصوصیات بیان کی تھیں جوکہ ایک واقف نو کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں نے وہ خوبیاں نمایاں کی تھیں جو کہ ایک واقف نو کا طرہ امتیاز ہونی چاہئیں، لہٰذا آپ سب کو بھی انہیں مدّنظر رکھنا چاہئے اور اس بات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ آپ کس قدر ان پر عمل کررہی ہیں۔

آپ کو نماز میں باقاعدہ ہونا چاہئے اور ہمیشہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو اپنی تعلیم کو حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کے قابل بنائے۔ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک احمدی لڑکی کا واقعہ بیان فرمایا جس نے اپنی بی اے کی ڈگری مکمل کی تھی اور اس کو اس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد تعلیم یافتہ طبقہ میں تبلیغ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پھیلانے کی کوشش کرنے کا کہا گیا۔ تو اس نے جواب میں یہ کہا کہ میں نے اتنی قابلیت اور تعلیم اس لئے حاصل نہیں کی تھی کہ میں تفرقہ پیدا کروں اور یہ کہاکہ تبلیغ کرنا تو تنازعہ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ کسی پڑھے لکھے انسان کا جواب نہیں تھا بلکہ ایک ایسے شخص کا جواب تھا جو جاہل اور اَن پڑھ ہے۔ پس آپ میں سے کسی کو ایسے دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو مواقع عطا فرمائے ہیں انہیں سمجھیں اور پہچانیں اور جو بھی آپ نے علم حاصل کیا ہے اسے اسلام کے دفاع اور تبلیغ کےلئے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔

اس وقت میں ایک اور اعتراض کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں جو مخالفین کی طرف سے اسلام پر لگایاجاتا ہے بلکہ افسوس کہ بعض مسلمان مرد و خواتین بھی اس اعتراض کے حامی ہیں۔ اعتراض اس حدیث پر کیا جاتا ہے جس میں حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایک رؤیا میں جہنم کا نظارہ دیکھا ہے جس میں کثرت سے ایسی عورتیں تھیں جنہیں اپنے دین کا کوئی علم نہ تھا، جو دانائی یا علم نہیں رکھتی تھیں اور جو ناشکرگزار تھیں۔ اس حدیث کو بنیاد بناتے ہوئے بعض غیرمسلم نقّاد اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے مقام کو کم کیا ہے اور انہیں بدنام کیاہے جبکہ اس کا سچائی سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی تفصیلی طور پر وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ اس زمانے کی بعض عورتوں میں پائی جانے والی چند مخصوص کمزوریوں کی نشاندہی فرمارہے تھےکہ وہ اَن پڑھ تھیں، اپنے دین سے ناواقف تھیں اور اللہ کی اپنے اوپر کی گئی نعمتوں کی ناشکرگزار تھیں۔ پس حضرت رسول کریم ﷺ کے یہ الفاظ ایسی عورتوں کی اصلاح کے لئے بطور تنبیہ کے تھے۔ پھر بھی اسی زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مسلمان عورتیں اخلاق، نیکی اور علم کی انتہائی بلندیوں تک پہنچیں۔ مثال کے طور پر بعض خواتین، خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، نے مسلمان مردوں کو اسلام کا علم دیا۔ اسی طرح بعض نے میدان جنگ میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لیا اور عظیم قربانیاں دیں۔ اسی طرح جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ عورتیں جو اپنے بچوں کی تربیت کریں گی اور اپنے گھر کاخیال رکھیں گی انہیں جہاد میں شمولیت جتنا ثواب ملے گا۔ پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایسی متقی اور نیک خواتین جہنمی ہوں؟ یہ ناممکن ہے۔ اور جو بھی ایسا کہتا ہے اس نے حضرت رسول کریم ﷺ کی تعلیمات کے برعکس بیان کیاہے۔

جیسا کہ میں نے کہا یہ حدیث اس زمانے کی عورتوں کو متنبہ کرنے کے لئے تھی۔ نیز چونکہ حضرت رسول کریم ﷺ مسلمان عورتوں کے روحانی معیار بلند کرنا چاہتے تھے پس یہ حدیث انہیں ابھارنے اور جنت کے دورازے کھولنے کا طریق بتانے کا ذریعہ بھی تھی۔ حضرت رسول کریم ﷺ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ کمزوریاں یا گناہ عورتوں کی فطرت کاحصہ ہیں، بلکہ آپ نے تو یہ نصیحت فرمائی کہ یہ وہ بری عادات ہیں جو بعض میں پیدا ہوگئی ہیں۔ فطرت تو موروثی اور مستقل ہوتی ہے جبکہ بری عادات کو بدلا جا سکتا ہے اور ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ جس طرح حضرت رسول کریم ﷺ نے متعدد مرتبہ مسلمان مردوں کو ان کی کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی اور انہیں اصلاح کے طریق سکھائے، اسی طرح آپ نے عورتوں کی بھی راہنمائی فرمائی۔ یہ نہایت دکھ کا باعث ہے کہ نام نہاد اسلامی علماء اس حدیث کا اکثر ہی غلط استنباط اور غلط استعمال کرتے ہیں اور نفرت آمیز طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ عورتیں غلط کار ہیں۔ عقل، علم یا فیصلہ کرنے کی طاقت سے عاری ہیں اور خواہ کچھ ہوجائے نعوذ باللہ یہ جہنمی ہیں۔ اس سے جھوٹی بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بہت سے نام نہاد علماء عورتوں کی ترقی نہیں چاہتے تھے اور اس لئے انہوں نے عمداً اس حدیث کی بالکل ہی غلط طریق پر تشریح کی تاکہ اپنے خودغرض مقاصد حاصل کرسکیں۔ حضرت رسول کریم ﷺ کے یہ الفاظ محض اصلاح کے مقصد سے تھے تاکہ عورتیں اپنی صلاحیتوں کو پاسکیں اور اپنے مقام کو بلند کریں۔

ہم احمدی مسلمان بہت خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دوسرے علماء کی جہالت سے آشنا کیا اور ان کے فریب اور بیوقوفانہ تشریحوں سے محفوظ کردیا۔ اس لئے اگر کوئی عورت نام نہاد علماء کی جھوٹی تشریحات سن کر یہ یقین کرلے کہ اس میں علم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، وہ فطرتی طور پر ناشکرگزار ہے یا دین کے علم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ جو بھی ہوجائے جہنم اس کا مقدر ہے تو یہ ایک بہت بڑی خطرناک غلطی ہوگی۔ جب ایک انسان ہمت ہار بیٹھتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب اصلاح یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے تو کمزوریاں اور گناہ مزید بڑھ جاتے ہیں۔ یہ المناک بات ہے کہ بعض مسلمان عورتیں کچھ غیراحمدی مولویوں کے زیر اثر آگئی ہیں اور یہ تسلیم کرنے کی طرف مائل ہیں کہ وہ مردوں سے کمتر ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ کسی عورت کو کبھی بھی یہ غلط تصورات پیدا نہیں کرنے چاہئیں کہ کسی نہ کسی بنا پر جہنم ہی ان کا مقدر ہے، وہ مردوں سے کمتر ہیں یا علم و حکمت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ کسی بھی طرح ایک عورت کا مقام مرد سے کم نہیں ہے۔ بلکہ یہ حضرت رسول کریم ﷺ ہی تھے جنہوں نے تمام زمان و مکان میں جملہ عورتوں کے حقوق قائم فرمائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو حضرت رسول کریم ﷺ یہ فرمائیں کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اوریہ کہ تم عائشہؓ سے آدھا دین سیکھ سکتے ہو، اور دوسری طرف نعوذ باللہ یہ فرمائیں کہ عورتیں جہنمی ہیں؟ جیسا کہ میں نےکہا، یہ ناممکن ہے اور ایسے دعوےبعض علماء کی طرف سے صرف اپنے مفاد کے حصول کے لئے کی گئی جاہلانہ اور غلط تشریحات کا نتیجہ ہیں۔

یہ حدیث دراصل تمام عورتوں کے لئے حضرت رسول کریم ﷺ کی طرف سے بہت بڑا احسان ہے کیونکہ آپ نے انہیں خبردار کیا اور نجات کی راہ دکھائی اور خدا تعالیٰ کے راستہ کی طرف راہنمائی کرنے والی ایک روحانی شمع لہرائی۔ پس کسی بھی مسلمان عورت کو اپنے مقام کے بارہ میں کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اسے اس حدیث کی کسی غلط تشریح کو قبول کرنا چاہئے۔ اس کی درست تشریح یہ ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیاوی اور دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور اپنے علم کو اسلام کے دفاع اور اپنی آئندہ نسلوں کی نیک تربیت کےلئے استعمال کرنا چاہئے۔ یہاں موجود چھوٹی بچیوں کو بھی تعلیم کی اہمیت سمجھنی چاہئےاوروہ دینی تعلیم حاصل کرنے کی طرف خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے سکولوں اور کالجوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کریں۔

اپنی اس نوعمری میں بھی آپ یہ یاد رکھیں کہ آپ انشاء اللہ اپنی اس تعلیم کے ذریعہ اسلام کی خدمت کرسکیں گی۔ اپنے دین کے بارہ میں، خواہ اسلامی تعلیمات ہوں یا دین پر عمل کرنا، کبھی کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ مثال کے طور پر آپ کو ہمیشہ باحیا لباس پہننا چاہئے اور اعتماد کے ساتھ دوسروں کو یہ بتائیں کہ آپ کو یہ کپڑے پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا بلکہ آپ نے خود اپنے مذہب کی حکمت جو اس میں پنہاں ہے اس کو سمجھتے ہوئے باحیا لباس پہننا اختیار کیا ہے۔اسی طرح واقفات نَو بچیوں کو نماز میں باقاعدہ ہونا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ دس سال کی عمر سے روزانہ پانچ نمازیں فرض ہوجاتی ہیں لہٰذا پوری توجہ اور اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے مقصد کو سامنے رکھ کر اپنی نمازیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو جو میں نے آج کہا ہے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔وقف نو کی سکیم میں شامل ہونے کاجو عہد ہے اللہ تعالیٰ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں آپ سب کی مدد فرمائے۔ آمین۔

اب دعا کرلیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button